مجلس تحقیقات شرعیہ وقت کے اہم تقاضے کی تکمیل تھی،اس لئے علمی حلقوں میں اس کا استقبال کیا گیا، مجلس کے قیام کی خبر ملک کے اخبارات ورسائل میں نمایاں طور پرشائع ہوئی، مجلس کے پہلے ناظم مولانا تقی امینی صاحب
:نے مجلس کے قیام کامژدہ اس طرح سنایا
خوشی کی بات ہے کہ اس ناگزیر ضرورت اوراہم تقاضا کو پورا کرنے کے لئے ایسے نازک دورمیں ندوۃ العلماء نے انقلابی قدم اٹھایا ہے،اورمجلس تحقیقات شرعیہ کے نام سے ایک مجلس کا قیام عمل میں آگیا ہے،جونئے مسائل میں افراط وتفریط سے ہٹ کرمعتدل اندازمیں قوم کی رہنمائی کرے گی،مجلس نے کام کرنا شروع کردیا ہے،اورعنقریب انشورنس (بیمہ) کے مسئلہ پرتحقیق مکمل ہوکرمجلس کا فیصلہ قوم کے سامنے آجائے گا اوراس طرح ایک دودو مسئلہ پرتحقیق کے لئے فیصلہ کا اعلان ہوتا رہے گا، مزید خوشی یہ ہے کہ مجلس میں ہرطبقہ کی نمائندگی کے لئے حتی الامکان کوشش کی گئی ہے،اوربڑی حد تک اس میں کامیابی ہوئی ہے۔(تعمیرحیات،نومبر۱۹۶۳ء)
متعدد ناموراصحاب قلم نے مجلس کے قیام پراپنی مسرت کااظہار کیا،مولانا شاہ معین الدین ندوی  ناظم درالمصنفین ومدیرماہنامہ معارف نے معارف کے شذرات میں اپنے تاثر کا اظہاراس طرح کیا
اس میں شبہ نہیں کہ مجلس نے جس کام کی ذمہ داری لی ہے وہ بڑاکٹھن ہے،اور اس کی راہ میں بڑے سخت مراحل اوربڑی پیچیدہ اوردشوارگذارگھاٹیاں ہیں، ان مسائل کا ایسا حل نکالنا آسان نہیں ہے جن سے موجودہ مشکلات بھی حل ہوجائیں اورکسی کو اس سے اختلاف بھی نہ ہو،مگراس سے کم سے کم یہ فائدہ تو ضرور حاصل ہوگاکہ ضروری اورکثیرالوقوع معاملات ومسائل کے تمام پہلو،ان کے بارے میں مختلف مذاہب کے ائمہ کے مسلک اورموجودہ علماء کی رائیں سامنے آئیں گی جن سے موجودہ تنگ دائرے میں وسعت پیدا ہوگی، اور اندھیرے میں ایک راہ نظرآجائے گی،یہ وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے،اس لئے امید ہے کہ ہندوستان کے اصحاب فقہ وفتاوی علماء اپنے قیمتی مشوروں سے مجلس مذکورکی پوری مدد کریں گے۔(ماہنامہ معارف،ج۶،شمارہ ۹۲)
:مولانا عبدالماجد دریابادی  نے صدق جدید میں مجلس کے قیام پراپنا تاثر ان الفاظ میں تحریرفرمایا
شدید ضرورت اس کی تھی کہ ایک طرف تجدد اورمرعوبیت فرنگ سے اوردوسری طرف تشدد اورتقشف سے بچ کرتوازن واعتدال کی راہ پرچل کران کاحل تلاش کیا جائے،اورباہمی صلاح ومشورہ سے انہیں منضبط ومدون کردیاجائے،خوش قسمی سے مولانا محمد تقی امینی ،صدرمدرسہ امینیہ اجمیر کی خدمت مجلس کوحاصل ہوگئی ہے،جواس نازک دورمیں اس دشوار اور صبر طلب کام کے ہرطرح اہل ہیں، اورفاضلوں کی ایک پوری جماعت ان سے اشتراک عمل کے لئے موجود رہے گی،دوران مشاورت وگفتگومیں یہ بار بار واضح کردیا گیا کہ اس ادارہ کا دائرہ عمل تمام ترعلمی ہی ہوگا، سیاسی وقانونی پہلوئوں سے کام کرنے کے لئے دوسرے ادارے موجود ہیں۔(صدق جدید۱۳ستمبر۱۹۶۳ء)
:نامورعالم مولان امنظورنعمانی نے اپنے رسالہ الفرقان میں مجلس کے قیام پرمستقل اداریہ لکھا،آپ نے مجلس کی ضرورت کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا
…لیکن ابھی حال میں اللہ تعالی نے یہ رکاوٹ دورفرمادی اورہمیں اس کام کے لئے ایک اہل رفیق کی خدمات حاصل ہوگئیں،اس لئے گذشتہ مہینے ربیع الاول میں بنام خدا اس کے شروع کرنے کافیصلہ کرلیا گیا اورابتدائی مشاورت کے لئے یکم ستمبرکی تاریخ مقررکرکے رفیق محترم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ناظم ندوۃ العلماء کی طرف سے مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ان علماء کو دعوت دے دی گئی جن کا مشورہ اس ابتدائی مرحلہ میں ضروری اورناگزیر سمجھا گیا،یکم ستمبرکووہ مجلس منعقدہوئی مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ۱۴؍علماء کرام اس میں شریک ہوئے اوراس کام کے لئے مجلس تحقیقات شرعیہ کے نام سے ایک مجلس کی تاسیس وتشکیل عمل میں آئی،طریق کار وغیرہ کے بارے میں تمام فیصلے الحمدللہ اتفاق رائے سے ہوئے۔(ماہنامہ الفرقان لکھنؤ ، ستمبر۱۹۶۳ء)
:روزنامہ سیاست کانپورکے ایڈیٹر نے ۱۰ستمبر۱۹۶۳ء کی اشاعت میں اس موضوع پراداریہ تحریرکیا،انہوں نے لکھا
اس ادارہ کا مقصدان مسائل جدیدہ پرغورکرناہے جونئے حالات اورایجادات کے نتیجہ میں پیدا ہوگئے ہیں ،اورجن کے لئے فقہ اسلامی میں کوئی واضح وصریح حکم موجودنہیں ہے،اس قسم کے مسائل ایک دونہیں کثرت سے سامنے آچکے ہیں،اورنت نئی سائنسی ایجادات کے نتیجہ میں سامنے آتے جارہے ہیں،ان کے بارے میں افراط وتفریط ،تجدداورجموددونوں کے راستے غلط ہیں،ان مسائل کوسرے سے نظراندازکرنایانئی چیزوں کے استعمال کے ترک کاعلی الاطلاق مشورہ دیناجس طرح غلط اورناقابل عمل ہے اسی طرح تجدد ومذہب بیگانگی کے تحت ہرنئی چیزکو اس کی اصلی حالت میں جائزقراردے لینا اوراس سلسلہ میں شرعی احکام کویکسرنظراندازکردینا بھی ملت اسلامیہ کے لئے انتہائی ضرررساں ہے،خوش قسمتی سے ہندوستان میں ایسے صاحب فکراوربالغ نظر علماء اب بھی موجودہیں اورایسی قابل ذکرتعداد میں موجود ہیں کہ اس کی مثال شاید ہی کوئی دوسرے مسلم آبادی والے ممالک (خواہ وہ آزاد ہوں یا محکوم) پیش کرسکیں، یہی حضرات اس سلسلہ میں توازن واعتدال پرمبنی قدم اٹھا کر صرف ہندوستان کے نہیں بلکہ انشاء اللہ ساری دنیائے اسلام کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دیں گے۔
اس مجلس نے جوکام اپنے ذمہ لیاہے وہ اہم ہونے کے ساتھ بہت بڑا بھی ہے، ایسے مسائل ایک دو نہیں بے شمارہیں، بہرحال وہ اس میں سے اہم ترین مسائل کوایک ایک دودوکرکے اپنے ہاتھ میں لے گی،اوران کے بارے میں سوالنامے اوراستفتاء تیارکرکے ہندوستان اوربیرون ہندکے صاحب فتوی علماء کے پاس ان کی رائے حاصل کرنے کی غرض سے بھیجے گی،اورجوجوابات موصول ہوں گے سب کمیٹی ان کی شرعی تنقیحات کے بعداپنی سفارشیں مجلس کی بنیادی کمیٹی کے سامنے رکھے گی،اورجس سفارش سے کمیٹی کے تین چوتھائی ارکان متفق ہوں گے وہ قابل قبول ہوگی۔
یہ غلط فہمی نہ ہوکہ یہ مجلس ،محض پرسنل لاء میں مجوزہ ترمیمات پرغورکے لئے بنی ہے اورکسی اعتبارسے سیاسی نوعیت رکھتی ہے،اس کاکام بہت وسیع ہے، اور اسے وہ خالص علمی اورتحقیقاتی اندازمیں انجام دیناچاہتی ہے،خداکرے اسے اس کام میں کامیابی نصیب ہواوراس کے عملی نتیجے جلدملت اسلامیہ کے سامنے نکلنے لگیں۔ (روزنامہ سیاست،کانپور،یکم ستمبر۱۹۶۳ء)