لیگل لٹریسی کورس کااختتامی پروگرام اور طلبہ کے تاثرات
رپورٹ:منورسلطان ندوی
لیگل لٹریسی کورس کا دوسرا سال مکمل ہوا،الحمد للہ علی ذلک،دوسال قبل ایک ایسے کورس کا خواب دیکھاگیاجس میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اختصاص کے طلبہ کو ملکی قوانین کی بنیادی باتوں سے واقف کرانے کا نظم بنایاجائے،یہ تجویزجب ذمہ داران ندوہ کے سامنے رکھی گئی توانہوں نے نہ صرف اس کی اجازت مرحمت فرمائی،بلکہ اس سمت سوچنے پر حوصلہ افزائی بھی کی،چنانچہ نصاب سازی کے مراحل کو طے کرنے کے بعد کورس کاآغازہوا۔
مدارس کے طلبہ کو قانون سے واقف کرانے کی ضرورت سب لوگ محسوس کررہے تھے،مگر یہ کتنابڑاچیلنج ہے اس کا اندازہ اس وقت ہواجب یہ کورس باضابطہ شروع ہوا،مدارس کااپناخاص ماحول ہوتاہے،نصاب میں مختلف فنون کی کتابیں ہوتی ہیں مگر ان کی زبان اورطریقہ درس بڑی حد تک یکساں اور مانوس ہوتاہے،اس کے برخلاف قانون کی زبان اوراس کی اصطلاحات بالکل الگ بلکہ بڑی حد تک نامانوس ہوتے ہیں ،ان سب پر مستزادیہ کہ قانون کی تعلیم دینے والے اساتذہ مدارس کے ماحول سے عموماناواقف ہوتے ہیں،اس صورت حال میں کورس کا جاری رکھناآسان نہ تھا،مگر اللہ کافضل شامل حال رہا،منتظمین نے اپنی پوری کوشش کی،اور پڑھانےو الے اساتذہ نے بھی اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی،نتیجہ یہ ہواکہ وقت گزرنے کے ساتھ طلبہ کی مشکلیں آسان ہوتی گئیں، رفتہ رفتہ طلبہ میں اس موضوع سے دلچسپی بڑھتی گئی،اورجلدہی یہ دلچسپی شوق میں تبدیل ہوگئی ۔
پہلا سال تجربہ کاسال تھا،مگریہ تجربہ بہت کامیاب رہا، طلبہ نےاختتامی پروگرام میں جب قانون سے متعلق مختلف موضوعات پر مقالات پیش کئے تو سننے والے حیران رہے کہ یہ طلبہ کس طرح قانون کی بارکیوں پراورقانون کی زبان میں گفتگوکررہے ہیں،اور سلیقے سے اپنی بات پیش کررہے ہیں،اس پروگرام میں شامل ہونے والے قانون کے کئی اساتذہ نےاس بات کااعتراف کیا کہ تین سال قانون پڑھنے کے بعد بھی لاء کالجزکے طلبہ قانون پراس طرح گفتگونہیں کرسکتے ہیں جس طرح ان طلبہ نے کی ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے تعلیمی سال کے اختتام کے ساتھ یہ کورس بھی مکمل ہوا،اس کے بعد دوسرا سال شروع ہوا تو گذشتہ کے تجربات کی روشنی میں کچھ نئی تبدیلیاں کی گئیں،اور اس طرح یہ قافلہ دوبارہ چل پڑا،دیکھتے دیکھتے یہ سال بھی مکمل ہوگیا۔
کورس مکمل ہونے کی مناسبت سے ۲۸جنوری ۲۰۲۵ کوعلامہ حیدرحسن ٹونکی ہال میں ایک اختتامی پروگرام کاانعقاد عمل میں آیا،جس میں انٹگرل یونیورسیٹی کے پروچانسلر جناب سیدندیم اخترصاحب،پروفیسرنسیم احمد جعفری ڈین فیکلٹی آف لاانٹگرل یونیورسیٹی خاص طور پرشریک ہوئے۔
اس موقع پر کورس کے منتخب طلبہ نے تاثرات کااظہارکیا،طلبہ کے تاثرات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ طلبہ نے اس کورس سے کتنافائدہ اٹھایا،طلبہ کی گفتگوسے صاف محسوس ہواکہ اس قانون کی واقفیت سے ان کی سوچ وفکرکے زاویہ میں تبدیلی آئی،ان کو اپنی ذات پراعتماد بڑھا،تولیجئےپیش ہے طلبہ کے مقالات کے چنداقتباسات،آپ بھی پڑھئے:
اختصاص فی التفیسر کے طالب علم معاویہ شیخ نے قانونی شعوراورخوداعتمادی کو اس کورس کاسب سے اہم فائدہ قرار دیا، انہوں نے کہا:
اس لیگل لٹریسی پروگرام کی بدولت ہمارے اندر قانونی شعور بیدار ہواہے،اب ہمیں یہ خود اعتمادی حاصل ہوچکی ہے،کہ ہم قانون کی زبان کو سمجھیں،اس کااطلاق جانیں اور وقت پر صحیح فیصلے لے سکیں،اس کورس کے دوران ہمیں پریمبل آف دی کانسٹی ٹیوشن،فنڈا منٹل رائٹس ،فنڈامنٹل ڈیوٹیز،فیملی لا،سول لا،کریمنل لا،مسلم میرج ایکٹ ،ایف آئی آر،این، سی، آر، وغیرہ جیسے اہم موضوعات سے آگہی حاصل ہوئی،یہ علم ہمیں یہ احساس دلاتاہے کہ اگر ہم آئین وقانون سے غفلت برتیں گے تونہ صرف ہماراذاتی نقصان ہوگابلکہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب ،امن اور بھائی چارہ بھی خطرے میں پڑ جائیں گے۔
محمد عامراختصاص فی الفقہ نے اپناتاثران الفاظ میں بیان کیا:
فوجداری قانون کے مطالعہ نے ہمیں قانونی نظام کے عملی پہلوسے روشناس کرایا،جرائم کی تعریف،ان کی سزائیں،اور ایف آئی آر درج کرانے کے طریقے جیسے عملی موضوعات پرہونے والی گفتگونے ہمیں احساس دلایاکہ قانون صرف کتابی علم نہیں بلکہ عملی زندگی میں ایک رہنمااصول ہے،ہمیں یہ سمجھنے کا موقع ملاکہ عدالتی نظام کس طرح انصاف فراہم کرتاہے اور ایک ذمہ دار شہری کو کس طرح اپنے حقوق کا دفاع کرناچاہئے،ان سب کے علاوہ موجودہ قانونی چیلنجزپرہونے والی گفتگونے ہمارے ذہنوں میں ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دئے،سائبر کرائم،حق اطلاعات،اور یکساں سول کوڈ جیسے جدیدموضوعات پرتفصیل سے بات چیت سن کرایسا لگا جیسے اہم ایک علمی سفر پر نکلے ہیں جہاں ہرموڑ پر نئی حقیقتیں ہمارا انتظار کررہی ہیں،خاص طور پر زواج ہم جنس جیسے حساس موضوع پرہونے والی گفتگونے ہمیں نہ صرف اس مسئلے کی گہرائیوں کوسمجھنے کاموقع دیابلکہ یہ بھی سکھایاکہ اسلامی نقطہ نظر سے ان مسائل کا جواب کیسے دیاجاسکتاہے۔
اس کورس کے عملی فوائد بے شمار تھے،ہم نے صرف کتابی علم حاصل نہیں کیابلکہ ایک باشعورشہربننے کے لئے وہ بنیادی ہنر بھی سیکھا جس کی بدولت ہم اپنے حقوق اور فرائض کوبہتر طور پر ادا کرسکتے ہیں،ان معلومات نے ہمارے اندر ایک نیااعتماد پیدا کیا،جوہماری زندگی کے لئے ہرپہلو سے مفید ہے۔
اختصاص فی الادب العربی کے طالب علم دانش خان نے اپنے جذبات کا اظہارکچھ اس طرح کیا:
لقد كان هذا البرنامج نافذة علمية مشرقة، تناولت موضوعات مهمة حول أساسيات القانون وتطبيقاته العملية، مما فتح أمامنا آفاقًا جديدة لفهم دور القانون في تنظيم شؤون حياتنا في الهند وتحقيق العدالة الاجتماعية. كانت هذه الجلسات بمثابة فرصة ذهبية للالتقاء بخبراء قانونيين متميزين أثروا البرنامج بمعلوماتهم القيمة وتجاربهم العميقة……إن هذا البرنامج لم يكن مجرد حادث عابر،بل كان بداية لمرحلة جديدة تهدف إلى بناء مجتمع أكثر وعيًا بحقوقه وواجباته، وأكثر قدرة على الإسهام في تحقيق العدل والمساواة. إننا بحاجة ماسة إلى مثل هذه المبادرات التي تسهم في تعزيز دور القانون كركيزة أساسية لبناء مجتمعات قوية ومتماسكة.
اختصاص فی التفیسر کے طالب علم بابر بشیر اپنے ثاثرات کو ان الفاظ میں پیش کیا:
كيف لنا أن نغفل عن أهمية هذا البرنامج؟ فكل جلسة كانت تُعزز من وعينا بأهمية القانون في حياتنا، وتبين لنا كيف أن الشريعة والقانون يمكنهما أن يمتزجا بتناغم تام، وبينهما رباطاً لا يُفصم من عدالة ورحمة، تُضاءبه معالم الحياة، فتُرشد الإنسان إلى مسار من التقوى والإنصاف.من خلال هذا البرنامج ، أدركنا أن الفهم القانوني ليس محصورًا في نصوص جافة، بل هو علم حقيقي يلامس حياتنا اليومية، ويزودنا بالوعي والاستبصار. لقد تعرفنا على حقوقنا وواجباتنا وتعلمنا تطبيق القوانين المدنية في ضوء الأحكام الشرعية، وتعلّمنا كيف نكون حماةً لها في ظل شريعتنا الإسلامية.
اختصاص فی الفقہ کے طالب علم محمد صدف نے مادرعلمی کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
Darul Uloom Nadwatul Ulama was established to identify useful and useless knowledge, and since then, doing an excellent job. The Legal Literacy Program in particular, it has been well-designed course and has been very helpful for us. We learned not only laws and regulations but also how to use them in practical situations.
As I have said before, practical education is very important. This course was all about practical knowledge, giving us skills that are useful and meaningful. Now, it is our duty to keep this knowledge in our minds, use it effectively, and follow the guidance we have received.
اختصاص فی الفقہ کے طالب علم سعدمبین نے اس کورس کے نتائج کاذکر کرتے ہوئے کہا:
This course has not only enriched my academic knowledge but also given me practical tools to understand and engage with the legal system. It has prepared us to face social challenges and promote justice and fairness.
اس پروگرام میں کورس کے مربی جناب پروفیسر نسیم احمد جعفری صاحب ڈین فیکلٹی آف لاانٹگرل یونیورسیٹی اپنے طلبہ کی کامیابی سے جہاں بے انتہاخوش تھے وہیں انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ کی ذہانت اور نئی چیزوں کو اخذکرنے کی صلاحیت کا کھل کراظہاربھی کیا،انہوں نے ندوہ سے اپنے جذباتی لگائو کاذکر کرتے ہوئے کہا:
ندوہ آکرمجھے روحانی سکون ملتاہے،اور مدارس کے طلبہ میں بڑی صلاحیت ہوتی ہے،انہوں نے کم وقت میں بہت زیادہ سیکھااور فائدہ اٹھایا۔
خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسیٹی کے شعبہ قانون کے ڈین پروفیسر مسعود عالم فلاحی نے طلبہ کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے اس اقدام کے لئے ندوہ کاشکریہ اداکیا،انہوں نے کہاکہ مدارس کے فارغین کے لئے بڑے مواقع ہیں، انہوں نے ندوۃ العلماء کے طلبہ کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ندوہ کی سندکی بنیاد پرخواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسیٹی میں وہ شعبہ قانون میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
مولاناکمال اخترندوی مشیرناظرعام ندوۃ العلماء نے اپنے تاثرکااظہارکرتے ہوئے کہاکہ مجلس تحقیقات شرعیہ کے پروگراموں سے ذاتی طور پر مجھے بہت فائدہ ہوتاہے،اس طرح کے پروگراموں کے ذریعہ ہی علماء اور عصری تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موجودہ خلیج کوپاٹاجاسکتاہے،اور یہ ندوۃ العلماء کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے
پروگرام کے مہمان خصوصی سیدندیم اخترپروچانسلرانٹگرل یونیورسیٹی نے اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ندوۃ العلماء کی جانب سے لیگل لٹریسی کی شروعات ایک اچھی پہل ہے،اور اس حوالے سے ندوہ کے ذمہ داران شکریہ کے مستحق ہیں،انہوں نے طلبہ کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ علم کی کوئی حدنہیں ہے، آپ ایک فن میں مہارت پیداضرور کریں،مگرہرفن کی بنیادوں باتوں سے بھی واقف ہوں،تبھی آپ عوام کی اچھی رہنمائی کرسکیں گے،ابھی آپ کے علمی سفر کا آغازہے،سیکھنے کی جستجوجاری رکھیں،اور اپنی معلومات کوبڑھاتے رہیں،آپ ملک وملت کی بہترخدمت کرسکیں گے۔
مجلس تحقیقات شرعیہ کے سکریٹری اور اس کی تمام سرگرمیاں کے روح رواں مولاناعتیق احمد بستوی نےاپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ موجودہ وقت میں مدارس کے فارغین کوجن میدانوں میں آگے آناچاہئے ان میں ایک اہم میدان قانون کاہے،اسلامی قانون کے ساتھ ملکی قانون پراچھی واقفیت رکھنے والے علماء ملک وملت کی بہترین خدمت کرسکتے ہیں،ایسے علماء ہی اسلام اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی بھی کرسکتے ہیں۔
مولانانے مزیدکہاکہ علماء ملکی قوانین سے واقف ہوں گے تبھی پرسنل لاء کی صحیح ترجمانی کرسکیں گے،مولانانے طلبہ کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالی نے مدارس کے فارغین میں بڑی صلاحیت رکھی ہے،آپ عزم کریں توبڑے بڑے کام کرسکتے ہیں،ماضی قریب کی دوشخصیات ڈاکٹرکلب صادق صاحب اور پروفیسرسید وسیم اخترصاحب کاحوالہ دیتے ہوئے مولانانے کہا لکھنوایک ایک فردنے بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں،آپ بھی اخلاص کے ساتھ میدان عمل میں اتریں،اخلاص کے ساتھ محنت کریں،اللہ آپ سے بڑاکام لے گا۔
پروگرام اپنے وقت پرختم ہوگیا،مجلس برخواست ہوگئی،مگر طلبہ کے الفاظ دیرتک کانوں میںگونجتے رہے۔