اجتہاد اور کار اجتہاد
مولاناعتیق احمد بستوی
(استاذحدیث وفقہ دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
اجتہاد لغت اور اصطلاح میں
اجتہاد کا مادہ ’’جہد‘‘ ہے ’’جہد‘‘ کا معنی ہے قوت و طاقت، اجتہاد کا لغوی مفہوم کسی پر مشقت کام میں پوری طاقت صرف کرنا، ابن منظور افریقی (۷۱۱ھ) نے جہد اور اجتہاد کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’الجُھدُالجَھدالطاقۃ تقول:اجھد جھدک وقیل الجھدالمشقۃوالجھدالطاقۃ۔۔۔۔والاجتھاد والتجاھد : بذل الوسع والمجھود‘‘ (۱)۔
(جہد اور جہد کا معنی طاقت ہے آپ کہتے ہیں اجھد جھدک(اپنی پوری طاقت لگادو) ایک قول یہ ہے کہ جُہد کے معنی مشقت اور جَہد کے معنی طاقت ہے اجتہاد اور تجاہد پوری طاقت صرف کرنے کا نام ہے)۔
صاحب القاموس المحیط نے بھی اجتہاد اور تجاہد کا مفہوم، بذل الوسع (طاقت صرف کرنا) بیان کیا ہے (۲)۔
اصول فقہ کے مصنفین نے اجتہاد کے لغوی مفہوم کو کچھ زیادہ ہی وضاحت اور انضباط کے ساتھ بیان کیا ہے، امام غزالی( ۵۰۵ھ) نے المستصفی میں لکھا ہے:
’’ھو عبارۃ عن بذل المجھود واستفراغ الوسع فی فعل من الأفعال ولا یستعمل إلا فیما فیہ کلفۃ وجھد فیقال: اجتھد فی حمل حجر الرحا ولا یقال اجتھد فی حمل خردلۃ‘‘(۳)۔
اجتہاد کسی کام میں پوری کوشش صرف کرنے اور پوری توانائی لگانے کا نام ہے، اجتہاد کا استعمال اسی کام کے لئے ہوتا ہے جس میں مشقت اور کلفت ہو، کہا جاتا ہے: ’’اجتھد فی حمل حجر الرحا‘‘ ( چکی کا پتھر اٹھانے کی پوری کوشش کی) یہ نہیں کہا جاتا: ’’اجتھد فی حمل خردلۃ‘‘ (رائی کا دانہ اٹھانے کی پوری کوشش کی)۔
امیر بادشاہ اجتہاد کے لغوی مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’(ہو) أی الاجتھاد (لغۃ بذل الطاقۃ) أی استفراغ القوۃ بحیث یحس بالعجز عن المزید (فی تحصیل ذی کلفۃ) أی مشقۃ، یقال: أجتھد فی حمل الصخرۃ ولا یقال أجتھد فی حمل النواۃ‘‘ (۴)۔
لغوی معنی کے اعتبار سے اجتہاد کسی پر مشقت کام میں اس طرح پوری طاقت لگا دینے کا نام ہے کہ انسان اپنے آپ کو مزید طاقت سے عاجز تصور کرے، کہا جاتا ہے: پتھر اٹھانے میں اجتہاد کیا یعنی پوری طاقت لگائی، یہ نہیں کہا جاتا ہے: گٹھلی اٹھانے میں اجتہاد کیا۔
اجتہاد کا اصطلاحی مفہوم
اجتہاد کا لغوی مفہوم واضح ہونے کے بعد آئیے دیکھیں کہ ماہرین اصول فقہ نے اجتہاد کی کیا تعریف کی ہے، اصول فقہ کے اکثر مصنفین نے اجتہاد کی اصطلاحی حقیقت واضح کی ہے، یہاں علماء اصول کی تحریر کردہ چند تعریفات درج کی جاتی ہیں:
حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ نے ان الفاظ میں اجتہاد کی اصطلاحی حقیقت واضح کی ہے:
’’بذل المجتھد وسعہ فی طلب العلم بأحکام الشریعۃ والاجتھاد التام أن یبذل الوسع فی الطلب بحیث یحس من نفسہ العجز عن مزید الطلب (۵)۔
اجتہاد، احکام شریعت کا علم حاصل کرنے میں مجتہد کا توانائی صرف کرنا ہے اور اجتہاد تام یہ ہے کہ طلب و جستجو میں اس قدر طاقت لگائے جس سے زیادہ طلب و جستجو سے اپنے آپ کو عاجز سمجھتا ہو۔
قاضی بیضاویؒ نے اجتہاد کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’استفراغ الوسع فی درک الأحکام الشرعیۃ‘‘ (۶)۔
اجتہاد احکام شریعت جاننے کے لئے پوری طاقت لگا دینے کا نام ہے۔ مشہور فقیہ واصولی علامہ ابن ہمام (۸۶۱ء) نے اجتہاد کی تعریف اس طرح کی ہے:
’’بذل الطاقۃ من الفقیہ فی تحصیل حکم شرعی ظنی‘‘( ۷)
علامہ محب اللہ بن عبدالشکور بہاری نے بھی انھیں الفاظ میں اجتہاد کی تعریف کی ہے (۸)۔
امام سیف الدین آمدی (۶۳۱ء) نے حقیقت اجتہاد پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:
’’الاجتھاد استفراغ الوسع فی طلب الظن بشیٔ من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید فیہ‘‘(۹)۔
(اجتہاد کی حقیقت ہے کسی حکم شرعی کا ظن طلب کرنے میں اس طرح پوری طاقت لگا دینا کہ مزید طلب وجستجو سے اپنے کو درماندہ محسوس کرے)۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ( ۱۱۷۶ھ)نے نسبتازیادہ وضاحت سے اجتہاد کی تعریف کی ہے، موصوف اپنے مشہور رسالہ عقد الجید فی الاحکام الاجتھاد والتقلید میں لکھتے ہیں:
’’حقیقۃ الاجتھاد علی ما یفہم من کلام العلماء استفراغ الجھد فی إدراک الأحکام الشرعیۃ الفرعیۃ عن أدلتھا التفصیلیۃ الراجعۃ کلیاتھا إلی أربعۃ أقسام الکتاب والسنۃ والإجماع والقیاس‘‘ (۱۰)
(علماء کے کلام سے اجتہاد کی حقیقت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اجتہاد فروعی شرعی احکام کو شریعت کے تفصیلی دلائل جو بنیادی طور پر چار ہیں: کتاب، سنت، اجماع، قیاس سے جاننے کی پوری کوشش کرنا ہے)۔
اصطلاحی تعریف کے نتائج
فقہاء واہل اصول نے اجتہاد کی جو تعریفات کی ہیں ان سے چند نکات بہت واضح طور پر سامنے آتے ہیں:
۱- اجتہاد شریعت کے احکام و مسائل میں ہر کس و ناکس کی رائے زنی کا نام نہیں ہے بلکہ اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے شخص( فقیہ) کی طرف سے مآخذ شریعت ( کتاب و سنت، اجماع ، قیاس) کی روشنی میں شریعت کے عملی احکام جاننے کے لئے انتہائی کوشش صرف کرنے کا نام اجتہاد ہے، لہذا:
الف- جو شخص اجتہاد کی بنیادی صلاحیتوں سے محروم ہو مثلاََ عربی زبان سے نابلدہو یا محض معمولی شد بد رکھتا ہو، یا کتاب و سنت کے علم سے کورا ہو یا استنباط و قیاس کے اصول و قواعد سے نا آشنا ہو، علم اصول فقہ پر اس کی گہری نظر نہ ہو ایسا شخص احکام شرعیہ جاننے کے لئے خواہ کتنی کوشش کرے اسے اجتہاد نہیں کہا جائے گا، کیونکہ وہ دلائل شرعیہ کو سمجھنے اور ان سے احکام کا استنباط کرنے پر قادر نہیں ہے، ایسے شخص کے لئے سلامتی اور نجات کا راستہ یہی ہے کہ علوم اسلامیہ میں درک رکھنے والے علماء اور اصحاب افتاء کی تحقیق اور فتوی پر اعتماد اور عمل کرے۔
دور حاضر کا ایک بڑا فتنہ یہ ہے کہ بہت سے دانشورقسم کے لوگ اجتہاد اور فہم دین کی ہرادنی صلاحیت سے محروم ہونے کے باوجود اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ دین کے نازک سے نازک مسئلوں میں رائے زنی کریں اور ان کی رائے بے چون و چرا قبول کی جائے، دنیاوی علوم کی ہر شاخ میں تخصص ضروری سمجھا جاتا ہے، دنیا کے ہر علم کے بارے میں بلکہ علم کی ہر شاخ کے بارے میں وہ شخص رائے دے سکتا ہے جس نے اس شاخ علم کا خصوصی مطالعہ کیا ہو، ایک انجینئر خواہ انجینئرنگ میں کتنا باکمال ہو میڈیکل سائنس کے مسائل میں دخل اندازی نہیں کر سکتا،بڑے سے بڑے ڈاکٹر (طبیب) کی رائے سائنس یا انجینئر نگ کے مسائل کے بارے میں لائق توجہ نہیں سمجھی جاتی، لیکن دین اور علوم دین کو اتنا لاوارث اور غیر اہم سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر ایراغیرا اسے تختۂ مشق بناتا ہے اور علوم دین میں کورا ہونے کے باوجوددین کے نازک ترفنی مسائل میں بے محابا رائے زنی کرتا ہے۔
ب- صلاحیت اجتہاد رکھنے والا شخص ( فقیہ) حکم شرعی جاننے کے لئے جو نا تمام کوشش کرتا ہے وہ بھی اجتہاد نہیں ہے،پوری تحقیق و جستجو، مطالعہ و غور و فکر کے بغیر عجلت میں سرسری طور پر قائم کی گئی رائے یا تواجتہاد نہیں ہے یا اگر ہے تو اجتہاد ناقص ہے جو شریعت میں معتبر اور قبول نہیں ہے۔ اجتہاد کامل کا معیار یہ ہے کہ اجتہاد کرنے والا شخص تحقیق و تلاش، طلب و جستجو، غور و فکر کرکے تھک جائے اور یہ محسوس کرنے لگے کہ اب مزید طلب و جستجو اس کے بس سے باہر ہے۔
ج- حکم شرعی عملی کے علاوہ کسی دوسری چیز کے لئے علمی و فکری توانائیاں صرف کرنے کا نام اجتہاد نہیں ہے مثلاً علوم عربیت کا کوئی شیدائی کسی نحوی، صرفی، ادبی، یا بلاغی مسئلہ کی تحقیق میں پورا زور صرف کرے، کوئی معقولی عقلی مقدمات کی تربیت یا فلسفیانہ گتھیوں کو سلجھانے کے انتھک کوشش کرے، کوئی منطقی مسائل منطق کی تحقیق و تشریح میں ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا دے، یہ تمام علمی اور فکری کوششیں اجتہاد نہیں ہیں۔
د- اکثر اہل اصول کی رائے یہ ہے کہ اعتقادی و کلامی مسائل کی تحقیق و جستجو میں پورا زور صرف کرنے کا نام بھی اجتہاد نہیں ہے کیوں کہ اجتہاد کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اجتہاد کرنے والا حق تک پہونچ گیا تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اس سے خطا ہو گئی تو بھی ایک اجر ملے گا۔ اس کے بر خلاف اعتقادی اور کلامی مسائل میں خطا ہونے سے جمہور کے نزدیک اجر نہیں بلکہ گناہ ہوتا ہے۔
ھ- سابقہ تعریفات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اجتہاد کا محل شریعت کے ظنی احکام ہیں کیوں کہ شریعت کے قطعی احکام وہ ہیں جن کا ثبوت شریعت کے قطعی الثبوت، قطعی الدلالۃ دلائل سے ہوتا ہے، اور اس طرح کے قطعی احکام اتنے مخفی نہیں ہوتے کہ ان کے دریافت کے لئے تحقیق و تلاش کے آبلہ پائی کی ضرورت پڑے، شریعت کے قطعی احکام و دلائل عام طور سے اہل علم کو معلوم ہوتے ہیں یا ادنیٰ توجہ سے معلوم ہو سکتے ہیں، انہیں معلوم کرنے کے لئے زیادہ علمی فکری توانائی صرف نہیں کرنی پڑتی۔
اجتہادکی شرطیں
اجتہاد ایک اہم اور نازک ترین ذمہ داری ہے، اس لئے اس سے عہدہ بر آہونے کے لئے زہدو تقوی،خوف و خشیت، اخلاص وللہیت کے ساتھ بہت سے علوم پر کامل دستگاہ اور مجتہدانہ نظر بھی ضروری ہے، علماء اصول نے شرائط اجتہاد پرتفصیلی کلام کیا ہے، ہم آئندہ صفحات میں ان کی بحثوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
۱- قرآن کریم کا علم:
اجتہاد کے اصل سر چشمے قرآن کریم اور احادیث رسول ہیں، اس لئے اجتہاد کی اولین شرط ہے کہ قرآن کریم کے معانی و مطالب پر گہری نظر ہو، خصوصاً آیات احکام پر، متعدد اہل اصول کی تصریح کے مطابق قرآن کی پانچ سو(۵۰۰)آیات میں صراحتا عملی احکام شرعیہ بیان کئے گئے ہیں (۱۱)۔ ان آیات کی شرح و تفسیر پر اجتہاد کرنے والے کی گہری مبصرانہ نظر ہونی چاہئے لیکن یہ واقعہ ہے کہ احکام شرعیہ کا استنباط انہیں آیات تک محدود نہیں ہے ہمارے عبقری اور نکتہ رس فقہاء نے بہت سی ان آیات سے احکام کا استنباط کیا ہے جو براہ راست احکام سے تعلق نہیں رکھتیں، بلکہ ان کا تعلق قصص، مواعظ، امثال، ذکر آخرت وغیرہ سے ہے۔ نجم الدین طوفی (۷۱۶ھ) لکھتے ہیں:
’’أما الکتاب فالواجب علیہ أن یعرف منہ ما یتعلق بالأحکام وھو خمس مأۃ آیۃ کما قال الغزالی وغیرہ والصحیح أن ھذا التقدیر غیر معتبر وإن مقدار أدلۃ الأحکام فی ذلک غیر منحصر، فإن أحکام الشرع کما تستنبط من الأوامر والنواھی کذلک تستنبط من الأقاصیص والمواعظ ونحوھما فقل ان یوجد فی القرآن الکریم آیۃ إلا ویستنبط منھا شئی من الأحکام وإذا أردت تحقیق ھذا فانظر إلی کتاب ’’أدلۃ الأحکام‘‘ للشیخ عز الدین بن عبد السلام وکان ھؤلاء الذین حصروھا فی خمس مائۃ آیۃ إنما نظروا إلی ما قصد منہ بیان الأحکام دون ما استفیدت منہ ولم یقصد بہ بیانھا‘‘ (طوفی، نجم الدین ابوالربیع سلیمان بن عبدالقوی،(۱۲)۔
(مجتہد کے لئے قرآن کریم کے اتنے حصہ کا جاننا ضروری ہے جو احکام سے متعلق ہے، غزالی وغیرہ کے مطابق یہ کل پانچ سو آیات ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ پانچ سو آیات کی تحدید معتبر نہیں ہے، ادلہ احکام کی مقدار پانچ سو آیات میں محدود نہیں ہے کیونکہ شریعت کے احکام جس طرح امراورنہی والی آیات سے مستنبط ہوتے ہیں، اسی طرح قصص، مواعظ وغیرہ پر مشتمل آیات سے بھی مستنبط ہوتے ہیں،قرآن کریم میں شاید ہی کوئی ایسی آیت ہو جس سے کچھ احکام مستنبط نہ ہوتے ہوں، اگر آپ اس کی تحقیق کرنی چاہیں تو شیخ عزالدین بن عبدالسلام کی کتاب ’’ادلۃ الاحکام‘‘ کا مطالعہ کریں، جن لوگوں نے آیات احکام کی تعداد صرف پانچ سو بیان کی ہے، ان کی مراد وہ آیات ہیں جن کا مقصد ہی بیان احکام ہے، وہ آیات نہیں جن کا مقصد بیان احکام نہیں لیکن ان سے احکام کا استنباط کیا جاتا ہے)۔
مجتہد کے لئے نہ تو قرآن کے تمام معانی کے احاطہ کی شرط ہے اور نہ اس کی گنجائش ہے کہ وہ پانچ سو آیات احکام کے علاوہ پورے قرآن سے لا تعلق اور بے خبر ہو، پورے قرآن پر اس کی نظر ہونی چاہئے اور قرآن کی جو آیات براہ راست احکام سے متعلق ہیں ان کے معانی ومطالب کا گہرا مطالعہ ہونا چاہئے۔
بعض اہل اصول نے مجتہد کے لئے حافظ قرآن ہونے یا آیات احکام کا حافظ ہونے کے شرط لگائی، لیکن جمہور اہل اصول نے اس کی تردید کی ہے(۱۳)،اس دور میں مختلف انداز سے قرآن کی انڈکس سازی کی وجہ سے قرآن سے استفادہ بہت آسان ہو گیا ہے، ان انڈکسوں کی مدد سے غیر حافظ بھی انتہائی سہولت اور سرعت سے مطلوبہ آیات تلاش کر لیتا ہے۔ لہذا اجتہاد کے لئے حفظ قرآن سہولت کا ذریعہ ضرور ہے لیکن اسے شرط اجتہاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔
بلند نظر مفسرین و فقہاء نے آیات احکام پر مخصوص کتابیں لکھی ہیں جن سے ان کی ذہانت، دقت نظر،قوت استنباط کا انداز ہوتا ہے، اس سلسلہ میں امام ابو بکر جصاص رازیؒ (۳۷۰ھ) قاضی ابن العربی مالکیؒ(۵۴۲ھ) علامہ عماد الدین محمدالکیا ہر اسی(۵۰۴ھ)کی احکام القرآن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان حضرات کی احکام القرآن متداول اور دستیاب ہیں۔
امام الحرمین عبدالملک جوینی (۴۷۸ھ)مفتی مجتہد کے لئے لازمی شرائط پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ویشترط أن یکون عالما بالقرآن فإنہ أصل الأحکام ومنبع تفاصیل الإسلام ولا ینبغی أن یقنع فیہ بما یفھمہ من لغتہ فإن معظم التفاسیر یعتمد النقل ولیس لہ أن یعتمد فی نقلہ علی الکتب والتصانیف فینبغی أن یحصل لنفسہ علما بحقیقتہ ومعرفۃ الناسخ والمسوخ لابد منہ‘‘ (۱۴)۔
(مفتی کے لئے شرط ہے کہ وہ قرآن کا عالم ہو، کیونکہ قرآن احکا م شریعت کی اصل اور اسلام کی تعلیم کا سر چشمہ ہے، قرآن کے الفاظ سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اس پر اکتفا کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ تفسیر کے بیشتر حصہ کی بنیاد منقولات پر ہے، کتابوں اور تصانیف پر نقل کے باب میں پورا اعتماد کر لینا درست نہیں ہے، بلکہ مناسب یہ ہے کہ اسے منقولات کی حقیقت کا علم ہوجائے، ناسخ اور منسوخ کی شناخت ضروری ہے)۔
۲- حدیث کا علم :
اجتہاد کا دوسرا بنیادی سر چشمہ رسول اللہﷺ کی سنت ہے اس لئے ذخیرۂ حدیث پر بھی اجتہاد کرنے والے کی نظر وسیع و عمیق ہونی چاہئے، خاص طور سے احادیث احکام پر، شیخ عبدالعزیز بخاری اصول البزدوی کی شرح کشف الأسرار میں لکھتے ہیں کہ: احادیث احکام اگرچہ ہزاروں سے زیادہ ہیں لیکن ان کی تعداد محصور ہے، تمام احادیث احکام کایاد ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اتنا کافی ہے کہ احادیث کے جن مجموعوں میں احادیث احکام شامل ہیں اوروہ مجموعے معتبر اور صحیح ہیں ان کا کوئی صحیح نسخہ اس کے پاس ہو، مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، مجموعۂ احادیث میں کون باب کس جگہ ہے اور کس طرح کی حدیث کہاں مل سکتی ہے اس پر اس کی نظر ہوتا کہ وقت ضرورت استفادہ کر سکے، اگر وہ حدیثیں اسے یاد ہوں تو زیادہ بہتر ہے (۱۵)۔
اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے مصنفین اسلام کو ان حضرات نے بڑی محنت اور جگرکاوی سے احادیث احکام کے مستقل مجموعے مرتب کئے ہیں اس کی وجہ سے احادیث احکام کی تلاش و جستجو، تشریح و تفصیل کا کام آسان ہو گیا ہے۔
حدیث کا علم بعض پہلوؤں سے زیادہ مشکل اور دشوار ہے، کیونکہ قرآن تو پوراکا پوراقطعی الثبوت ہے، قرآن کے کسی آیت کے بارے میں ثبوت اور درجہ بندی کی بحث نہیں کرنی ہے، اس کے برخلاف حدیث میں پہلے ہی قدم پر ثبوت اور درجہ بندی کی بحث آجاتی ہے، یہ معلوم کرنا پڑتا ہے کہ حدیث متواتر ہے، مشہور یا خبر واحد ہے۔ احادیث کا بیشتر حصہ خبر واحد ہے، خبر واحد کی تحقیق میں راویان حدیث کے حالات ان کے مرتبہ و مقام سے واقفیت ناگزیر ہے غرض یہ کہ اسماء الرجال اور علوم الحدیث پر عبور حاصل کئے بغیر اس مرحلہ سے انسان سلامتی سے نہیں گزر سکتا، علوم حدیث کے سمندر میں غواصی کرکے ہر حدیث کی صحت اور درجہ بندی کے بارے میں خود اپنی رائے قائم کرنا انتہائی دشوار ہے، اس کے لئے فرصت و فراغت، اور علمی ریاضت درکار ہے، اس لئے بیشتر مجتہدین کو بھی یہاں راہ تقلید اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلہ میں امام غزالیؒ نے بڑی واضح اور فکر انگیز گفتگو کی ہے۔
’’الثانی وھو یخص السنۃ معرفۃ الروایۃ وتمیز الصحیح منھا عن الفاسد، والمقبول عن المردود فإن ما لا ینقلہ العدل عن العدل فلا حجۃ فیہ، والتخفیف فیہ أن کل حدیث یفتی بہ مما قبلتہ الأمۃ فلا حاجۃ بہ إلی النظر فی إسنادہ وإن خالفہ بعض العلماء فینبغی أن یعرف رواتھم وعدالتھم فإن کانوا مشھورین عندہ کما یرویہ الشافعی عن مالک عن نافع عن ابن عمر مثلاً اعتمد علیہ فھؤلاء قد تواتر عند الناس عدالتھم وأحوالھم، والعدالۃ إنما تعرف بالخبرۃ والمشاھدۃ أو بتواتر الخبر وما نزل عنہ فھو تقلید وذلک بان یقلد البخاری ومسلما فی أخبار الصحیحین وإنھما ما رووھا إلا عمن عرفوا عدالتہ فھذا مجرد تقلید، وإنما یزول التقلید بأن یعرف أحوال الرواۃ بتسامع أحوالھم وسیرھم ثم ینظر فی سیرھم إنھا تقتضی العدالۃ أم لا وذلک طویل وھو فی زماننا مع کثرۃ الوسائط عسیر والتخفیف فیہ أن یکتفی بتعدیل الإمام العدل بعد أن عرفنا أن مذھبہ فی التعدیل مذھب صحیح، فإن المذاھب مختلفۃ فیما یعدل بہ ویجرح فإن من مات قبلنا بزمان امتنعت الخبرۃ والمشاھدۃ فی حقہ ولو شرط أن تواتر سیرتہ فذلک لا یصادف إلا فی الأئمۃ المشہورین فیقلد فی معرفۃ سیرتہ عدلا فیما یخبر فنقلدہ فی تعدیلہ بعد أن عرفنا صحۃ مذھبہ فی التعدیل فإن جوزنا للمفتی الاعتماد علی الکتب الصحیحۃ التی ارتضی الأئمۃ رواتھا تقصر الطریق علی المفتی وإلا طال الأمر وعسر الخطب فی ھذا الزمان مع کثرۃ الوسائط ولا یزال الأمر یزداد شدۃ بتعاقب الأعصار‘‘ (۱۶)۔
ترجمہ:دوسرا ( تکمیلی علم ) جو سنت کے ساتھ خاص ہے، روایت کی معرفت، صحیح اور فاسداور مقبول و مردود روایات میں تمیز کرنا ہے کیوں کہ جو روایت عادل روایوں سے منقول نہ ہووہ حجت نہیں ہے اس میں تخفیف یہ ہے کہ ہر وہ حدیث جس پر فتوی دیا جاتا رہا، امت نے اسے قبول کیا اس حدیث کی سند دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں جس حدیث کی بعض علماء نے مخالفت کی اس کے روایوں کے حالات اور ان کا عادل غیر عادل ہونا جانا پرکھا جائے گا، اگر اس حدیث کے تمام راوی مشہور ہوں ، مثلاً امام شافعی امام مالک سے، امام مالک نافع سے، نافع حضرت ابن عمرؓ سے روایت کر رہے ہوں تو اس حدیث پر اعتماد کیا جائے گا، کیوں کہ ان حضرات کے حالات اور ان کا عادل ہونا تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور کسی راوی کی عدالت جاننے کی دو ہی طریقے ہیں (۱) تجربہ اور مشاہدہ، (۲) تواتر خبر، اس سے نیچے کا درجہ تقلید ہے۔ مثلاً کوئی شخص صحیحین کی روایات کے بارے میں امام بخاری، امام مسلم کی تقلید کرے یہ سمجھے کہ ان دونوں حضرات نے انہیں روایوں سے روایت کی ہے جن کی عدالت کا انہیں علم تھا، یہ نری تقلید ہے،یہ تقلید اس طرح زائل ہو سکتی ہے کہ انسان لوگوں سے روایوں کے احوال اور سیرتیں سن کر غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ ان احوال و کوائف کی بنا پر وہ عادل ہیں یا نہیں، یہ بہت لمبا کام ہے سند کی کڑیاں زیادہ ہو جانے کی وجہ سے ہمارے دور میں یہ مشکل کام ہے۔ اس میں تخفیف یہ ہے کہ جرح و تعدیل کے بارے میں کسی عادل امام حدیث کے مذہب کی صحت جان لینے کے بعد اس امام کی تعدیل پر اکتفا کیا جائے کیوں کہ جرح وتعدیل کے بارے میں ائمہ حدیث کے مختلف مذاہب ہیں، جو لوگ کافی زمانہ پہلے وفات پا چکے ہیں ان کے حق میں تجربہ اور مشاہدہ محال ہے اور اگر ان کی عدالت کے بارے میں تواتر کی شرط لگائی جائے تو یہ شرط شہرت یافتہ ائمہ کے بارے میں ہی پوری ہو سکتی ہے،لہٰذا اس کے سوا چارۂ کار نہیں کہ راویوں کی سیرت جاننے کے سلسلہ میں کسی عادل شخص کی تقلید کی جائے جرح و تعدیل کے بارے میں اس کے مذہب کی صحت سے واقف ہونے کے بعد تعدیل کے بارے میں ہم اس کی تقلید کریں۔ اگر ہم مفتی کے لئے احادیث صحیحہ کی ان کتابوں پر اعتماد کر لینا جائز قرار دیں جن کے راویوں کو ائمہ حدیث نے پسند کیا ہے تو مفتی کے لئے راستہ اور مختصر ہو جائے گا ورنہ اس دور میں سند کی کڑیاں بڑھنے کے ساتھ کام بہت مشکل، طویل اور دشوار ہو جائے گا، اور جوں جوں زمانہ گزرے گا اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
۳- ناسخ و منسوخ کی معرفت:
آیات احکام ہوں یا احادیث احکام ان میں سے بعض منسوخ ہیں یعنی ان کا حکم شارع کی طرف سے موقوف و معطل کر دیا گیا ہے۔ ناسخ و منسوخ آیات و احادیث کی شناخت کے لئے بہت سی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں، قدیم و جدید مصنفین نے علم ناسخ و منسوخ پر خوب خوب بحث و تحقیق کی ہے۔ مجتہد کے لئے ناسخ و منسوخ آیات و احادیث کا احاطہ کرنا اور یاد رکھنا تو ضروری نہیں ہے لیکن جب وہ کسی آیت یا حدیث سے استنباط و استدلال کرے تو اس کے بارے میں یہ معلوم کر لینا ضروری ہے کہیں یہ آیت و حدیث منسوخ تو نہیں ہے اس کے لئے ان کتابوں کی طرف مراجعت کافی ہے جو ناسخ و منسوخ آیات و احادیث کی شناخت کے لئے لکھی گئی ہیں (۱۷)۔
۴- اجماعی مسائل کی شناخت:
اجتہاد کرنے والے کے لئے اجماعی اور غیر اجماعی مسائل کی شناخت بہت ضروری ہے تاکہ وہ کوئی ایسا قول اختیار نہ کرے جو اجماع کے خلاف ہو، اس شرط کی وضاحت کرتے ہوئے امام غزالی ؒ لکھتے ہیں:
’’ مناسب ہے کہ اجماعی مسائل اس کے علم میں متمیز ہوں تاکہ اجماع کے خلاف فتوی نہ دے جس طرح اس کے لئے نصوص کے معرفت ضروری ہے تاکہ نصوص کے خلاف فتوی نہ دے، اس شرط میں تخفیف یہ ہے کہ اسے تمام اجماعی و غیر اجماعی مسائل کا یاد ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اتنا کافی ہے کہ جس مسئلہ پر فتوی دینا چاہے اس کے بارے میں یقین حاصل کر لے کہ اس کا فتوی اجماع کے خلاف نہیں ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اسے یہ علم ہو جائے کہ یہ واقعہ دور حاضر کی پیداوار ہے، نیا پیش آمدہ مسئلہ ہے، زمانۂ ماضی کے فقہاء نے اس کے بارے میں اظہار رائے نہیں کیا ہے‘‘(۱۸)
۵- عربی زبان و ادب پر عبور:
قرآن وحدیث اجتہاد کے بنیادی چشمے ہیں، یہ دونوں عربی زبان میں ہیں، قرآن فصاحت و بلاغت،ادب وبیان کے اعتبار سے بھی بے نظیر لافانی معجزہ ہے، نزول قرآن کے معاصر کفار عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا لیکن قرآن کریم کی طرف سے بار بار چیلنج کئے جانے کے باوجود وہ لوگ قرآن کی ایک آیت کا مثل نہیں پیش کر سکے۔ قرآن کی ہر آیت میں معانی واسرار کے سمندر پنہاں ہیں۔ ارشادات نبوی بھی کسی معجزہ سے کم نہیں ۔ کلام رسول ﷺ عربی زبان و ادب کے بلند ترین معیار پر پورا اترتا ہے۔ زبان رسالت سے نکلے ہوئے جو امع الکلم حقائق و معارف سے معمور ہیں اس لئے قرآن و سنت سے استنباط احکام کاکام وہی شخص کر سکتا ہے جسے عربی زبان اور اس کے اسالیب پر عبور ہو۔
کتاب و سنت سے احکام و مسائل کا استنباط بڑا نازک اور پر خطر کام ہے، اس کے لئے عربی زبان کی معمولی شد بد کافی نہیں بلکہ عربی زبان پر گہری نظر اور اس کا اچھا ذوق ضروری ہے، جو لوگ عربی زبان سے مکمل نا واقفیت کے باوجود محض قرآن و حدیث کے ترجموں کی مدد سے اجتہاد و استنباط کا حوصلہ رکھتے ہیں اور ہر شرعی مسئلہ میں رائے زنی ضروری سمجھتے ہیں، ایسے لوگ بڑی جسارت سے کام لیتے ہیں اور اپنے کو بڑے خطرہ میں ڈالتے ہیں۔ کسی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ خواہ کتنی ہنر مندی اور مہارت سے کیا جائے وہ اصل سے بے نیاز نہیں کر سکتا، ہر زبان کا اپنا الگ اسلوب اور طرز ادا ہوتا ہے، فصل ووصل، ذکر وحذف کے الگ قواعد ہوتے ہیں، فصیح و بلیغ کلام کے سلوٹوں اور اشارات میں جو معانی پنہاں ہوتے ہیں ان کی ادائیگی ترجمہ میں نہیں ہو پاتی۔ اس لئے قرآن و حدیث کے تراجم کی مدد سے اجتہاد و استنباط کا شوق کرنا دین وایمان کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے۔
امام غزالیؒ کے بقول اجتہاد کے لئے یہ ضروری تو نہیں ہے کہ لغت اور نحو میں انسان خلیل اور مبرد کے مقام پر فائز ہو لیکن لغت اور علوم عربیت کا اتنا علم بہر حال ضروری ہے کہ انسان عربی زبان کی اسالیب اور اہل عرب کے طریقۂ خطاب سے بخوبی واقف ہو،تاکہ وہ آیات واحادیث میں صریح و ظاہر، مجمل، حقیقت، مجاز، عام، خاص، محکم، متشابہ، مطلق و مقید کی شناخت کرسکے (۱۹)۔
علامہ ابو اسحاق شاطبیؒ( ۵۹۰ھ) نے شرائط اجتہاد پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اجتہاد کے لئے جو علوم ناگزیر ہیں اجتہاد کرنے کے لئے ان میں سے کسی علم میں مقام اجتہاد پر فائز ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ عربی زبان میں اسے مقام اجتہاد حاصل ہو۔
’’والأقرب فی العلوم إلی أن یکون ھکذا علم اللغۃ العربیۃ ولا أعنی بذلک النحو وحدہ ولا التصریف وحدہ ولا اللغۃ ولا علم المعانی ولا غیر ذلک من أنواع العلوم المتعلقۃ باللسان بل المراد جملۃ علم اللسان ألفاظ أومعانی کیف تصورت۔۔۔۔
إن الشریعۃ عربیۃ وإذا کانت عربیۃ فلا یفھمھا حق الفھم إلا من فھم اللغۃ العربیۃ حق الفھم ولأنھما سیان فی النمط ما عدا وجوہ الإعجاز فإذا فرضنا مبتدئا فی فھم العربیۃ فھو مبتدیٔ فی فھم الشریعۃ أو متوسطا فھو متوسط فی فھم الشریعۃ والمتوسط لم یبلغ درجۃ النھایۃ فإن انتھی إلی درجۃ الغایۃ فی العربیۃ کان کذلک فی الشریعۃ فکان فھمہ فیھا حجۃ کما کان فھم الصحابۃ وغیرھم من الفصحاء الذین فھموا القرآن حجۃ، فمن لم یبلغ شأوھم فقد نقص من فھم الشریعۃ بمقدار التقصیر عنھم وکل من قصر فھمہ لم یعد حجۃ ولا کان قولہ فیھا مقبولاً، فلا بد من أن یبلغ فی العربیۃ مبلغ الأئمۃ فیھا کالخلیل وسیبویہ والأخفش والجرمی والمازنی ومن سواھم‘‘(۲۰)
(تمام علوم میں عربیت اس بات کی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس میں مقام اجتہاد پر فائز ہونا مجتہد کے لئے ضروری قرار دیا جائے، علم لغت عربیہ سے میری مراد نہ تنہا نحو ہے نہ صرف، نہ لغت نہ معانی، نہ عربی زبان سے متعلق کوئی دوسرا علم بلکہ عربی زبان سے تعلق رکھنے والے تمام علوم مراد ہیں خواہ ان کاتعلق الفاظ سے ہو یا معانی سے ……
اسلامی شریعت عربی زبان میں ہے لہذا شریعت کو پورے طور پر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو عربی زبان کو پورے طور پر سمجھ سکتا ہے، کیونکہ وجوہ اعجاز کے علاوہ اسالیب وغیرہ میں کتاب و سنت اور عربی زبان دونوں یکساں ہیں، اگر ہم کوئی ایسا شخص فرض کریں جو فہم عربیت میں مبتدی ہے تو وہ فہم شریعت میں بھی مبتدی ہوگا جو شخص فہم عربیت میں متوسط ہو وہ فہم شریعت میں بھی متوسط ہوگا، اور جو شخص فہم عربیت میں منتہی ہو وہ فہم شریعت میں منتہی ہوگا اور شریعت کے باب میں اس کا فہم حجت ہوگا، جس طرح صحابہ کرام ؓ اور قرآن کو سمجھنے والے دوسرے فصحاء کا فہم حجت ہے، جو شخص فہم عربیت میں ان کے مقام تک پہنچ سکا اس کے فہم شریعت میں اتنا ہی نقص ہے جتنا نقص اس کے فہم عربیت میں ہے، اس کا فہم حجت نہیں ہے اور شریعت کے باب میں اس کا قول مقبول نہیں ہے، لہذا ضروری ہے کہ مجتہد عربیت میں ائمہ عربیت مثلاً خلیل، سیبویہ، اخفش، جرمی، مازنی وغیر ہم کے مقام پر فائز ہو)۔
کچھ آگے چل کر شاطبیؒ نے عربی زبان وا دب میں مقام اجتہاد پر فائز ہونے کی تشریح کی ہے اور اپنے نقطہ نظر اور دوسرے اہل اصول کے نقطئہ نظر میں تطبیق دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عربیت میں مقام اجتہاد پر فائز ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان عربوں کی طرح عربی زبان سمجھنے لگے، یہ مراد نہیں ہے کہ پوری عربی زبان پر اسے عبور ہو جائے اور عربی کے دقائق کا استعمال کرنے لگے، اس کے بعد خلاصۂ کلام کے طور پر لکھتے ہیں:
’’فالحاصل أنہ لا غنی بالمجتھد فی الشریعۃ عن بلوغ درجۃ الاجتھاد فی کلام العرب، بحیث یصیر فھم خطابھا لہ وصفا غیر متکلف ولا متوقف فیہ الغالب إلا بمقدار توقف الفطن لکلام اللبیب‘‘(۲۱)۔
(حاصل یہ ہے کہ مجتہد فی الشریعت کے لئے کلام عرب میں مقام اجتہاد پر فائز ہونا ضروری ہے اس طور سے کہ کلام عرب کا سمجھنا اس کا بے تکلف وصف بن جائے بلکہ کلام عرب سمجھنے میں عموماً اسے توقف نہ کرنا پڑتا ہو، ہاں ذہین شخص کا کلام سمجھنے میں جتنا توقف کرنا پڑتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں)۔
نجم الدین طوفی( ۷۱۶ھ) نے شرح مختصر الروضۃ میں قرآن و حدیث سے بہت سی ایسی مثالیں دی ہیں جن کا معنی و مفہوم متعین کرنے میں نحو اور عربی ادب کی بنیاد پر فرق ہوتا ہے اور مختلف اجتہادی احکام کا بھی ذکر کیا ہے، اس کے بعد لکھا ہے:
’’وعلم تتعلق بہ الأحکام الشرعیۃ ھذا التعلیق جدیر أن یکون معتبرا فی الاجتھاد ویلحق بالعربیۃ التصریف لما یتوقف علیہ من معرفۃ أبنیۃ الکلم والفرق بینھا کما سبق فی باب المجمل من لفظ مختار ومختال فاعلاً ومفعولاً‘‘ (۲۲)
(جس علم سے احکام شریعت کا اتنا گہرا تعلق ہو اسے اجتہاد میں معتبر ہونا ہی چاہئے، علم عربیت کے ساتھ علم صرف بھی ملحق ہے کیوں کہ کلمات کے اوزان اوران کے باہمی فرق کا جاننا علم صرف پر موقوف ہے جیسا کہ باب المجمل میں لفظ مختار اور لفظ مختال کے بارے میں بہ صورت اسم فاعل واسم مفعول گزر چکا)۔
۶- مقاصد شریعت کا علم:
اسلامی شریعت سے شارع کے متعین کلی مقاصد ہیں، شریعت کے احکام بندوں کے دنیوی یا آخروی مصالح کے لئے ہیں، ان مقاصد ومصالح کا علم احکام شریعت کا استقراء کرنے سے ہوتا ہے، انسان روح شریعت سے اسی وقت آشنا ہو سکتا ہے جب کہ تشریع اسلامی کے مقاصد و مصالح پر اس کی گہری نظر ہو۔ اجتہاد کے لئے شریعت کے مقاصد و مصالح کا علم نا گزیر ہے۔ مقاصد شریعت پر مرکّز اصولی گفتگو شیخ الاسلام عزالدین بن عبد السلام( ۶۶۰ھ) نے ’’قواعد الاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں کی ہے اور امام ابو اسحاق شاطبی (م ۷۹۰ھ)نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’الموافقات ‘‘میں مقاصد شریعت کے بحث کو کمال تک پہنچایا ہے۔
عام اہل اصول کے یہاں اجتہاد کی اس شرط کا پوری وضاحت سے ذکر نہیں ملتا لیکن امام شاطبیؒ نے مجتہد کے لئے مقاصد شریعت کے علم کو سب سے پہلے لازم قرار دیا ہے،کیوں کہ ان علوم کے بغیر مقاصد شریعت کی واقفیت نا مکمل رہتی ہے اور مقاصد شریعت کے فہم کے بغیر استنباط احکام کا عمل پورے طور پر نہیں ہو سکتا ہے۔
امام شاطبی رقم طراز ہیں:
’’إنما تحصل درجۃ الاجتھاد لمن اتصف بوصفین أحدھما فھم مقاصد الشریعۃ علی کمالھا والثانی التمکن من الاستنباط بناء علی فھمہ فیھا (أما الأول) فقد مر فی کتاب المقاصد أن الشریعۃ مبنیۃ علی اعتبار المصالح وأن المصالح إنما اعتبرت من حیث وضعھا الشارع کذلک لا من حیث إدراک المکلف فإذا بلغ الإنسان مبلغا فھم عن الشارع فیہ قصدہ فی کل مسألۃ من مسائل الشریعۃ وفی کل باب من أبوابھا فقد حصل لہ وصف ھو السبب فی تنزلہ منزلۃ الخلیفۃ للنبیﷺ فی التعلیم والفتیا والحکم بما أراہ اللہ (وأما الثانی) فھو کالخادم للأول، فإن التمکن من ذلک إنما ھو بواسطۃ معارف یحتاج إلیھا فی فھم الشریعۃ أولا ومن ھنا کان خادماً للأول وفی استنباط الأحکام ثانیاً لکن لا تظھر ثمرۃ الفھم إلا فی الاستنباط فلذلک جعل شرطاً ثانیا، وإنما کان الأول ھو السبب فی بلوغ ھذہ المرتبۃ لأنہ المقصود والثانی وسیلۃ‘‘ (۲۳)۔
(مقام اجتہاد اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جس میں دو اوصاف پائے جائیں:۱۔ مقاصد شریعت کو پورے طور پر سمجھتا ہو،۲۔ مقاصد شریعت سمجھنے کی بنا پر استنباط احکام کی قدرت رکھتا ہو، جہاں تک پہلے وصف کا تعلق ہے اس سلسلہ میں کتاب المقاصد میں گزر چکا ہے کہ شریعت مصالح کے اعتبار پر مبنی ہے اور مصالح وہی معتبر ہیں جنہیں شارع نے وضع کیا ہے مکلف کے علم وادراک کے لحاظ سے مصالح معتبر نہیں۔۔۔۔جب انسان ایسے مقام کو پہنچ گیا کہ شریعت کے ہر مسئلہ اور ہر باب کے بارے میں شارع کا مقصد سمجھ گیا تو اسے ایک ایسا وصف حاصل ہو گیا جس کی وجہ سے وہ تعلیم، فتوی، قضاء کے بارے میں نبی ﷺ کی نیابت و خلافت سے سر فراز ہو گیا، دوسرا وصف پہلے وصف کے لئے خادم کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ استنباط احکام پر قدرت چند ایسے علوم کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جن کی ضرورت اولاً فہم شریعت کے لئے پڑتی ہے اور ثانیاً استنباط احکام کے لئے پڑتی ہے لیکن فہم شریعت کا ثمرہ استنباط احکام ہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اس لئے اسے شرط دوم قرار دیا گیا۔ پہلا وصف اس مقام تک پہنچنے کے لئے سبب بنا اس لئے مقصود ہوا اور دوسرے کو وسیلہ کہا گیا)۔
مختلف فقہاء مجتہدین کے یہاں استحسان واستصلاح عرف وغیرہ کے جو ثانوی اصول استنباط کار فرما نظر آتے ہیں ان کے تحت آنے والے مسائل و احکام کا نظر غائر سے مطالعہ کرنے سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ثانوی اصول استنباط کا مقصد شریعت کے مقاصد و مصالح کو بروئے کار لانا ہے۔
تمام اہل اصول کے مقاصد شریعت سے واقفیت کی شرط ذکرنہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان حضرات کے نزدیک اجتہاد میں یہ شرط معتبر نہیں ہے بلکہ ان حضرات نے اجتہاد کی جو شرطیں ذکر کی ہیں ان کے پائے جانے کی شکل میں انسان مقاصد شریعت سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے، جس شخص کی آیات احکام اور احادیث احکام پر عمیق نظر ہو، عربی زبان کے ادب واسالیب کا ماہر اور رمزشناس ہو، قواعد استنباط اور اصول اجتہاد پر کامل عبور ہو، ایسا شخص مقاصد شریعت سے بخوبی آگاہ کیوں نہ ہوگا۔
۷- علم اصول فقہ کی معرفت:
مآخذ شریعت سے احکام شرعیہ کے استنباط کے اصول و قواعد کا نام علم اصول فقہ ہے انسان کو جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ مصادر شرع سے احکام کا استنباط کس طرح کیا جائے،ا س کے کیا اصول و مناہج ہیں وہ اجتہاد کا نازک فریضہ کس طرح انجام دے سکتا ہے اس اجتہاد کے لئے علم اصول فقہ میں مہارت ازحد ضروری ہے۔
امام غزالیؒ (۵۰۵ھ)کے نزدیک اجتہاد کے لئے جو آٹھ علوم نا گزیر ہیں ان کا قدرے تفصیلی ذکر کرنے کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
’’فھذہ ھی العلوم الثمانیۃ التی یستفاد بھا منصب الاجتھاد ومعظم ذلک یشتمل علیہ ثلاثۃ فنون علم الحدیث وعلم اللغۃ وعلم أصول الفقہ‘‘ (۲۴)۔
(یہ آٹھ علوم وہ ہیں جن کے ذریعہ منصب اجتہاد حاصل ہوتا ہے، ان آٹھ علوم کا بڑا حصہ تین علوم میں سمٹ آتا ہے، علم حدیث، علم لغت، علم اصول فقہ)۔
علم اصول فقہ میں فقہاء اسلام کے اصول استنباط مرتب نہیں کئے گئے ہیں، مجتہدین اسلام کے اصول اجتہاد، اور مناہج استنباط اگرچہ بنیادی طور پر یکساں ہیں لیکن کچھ چیزوں میں ان کا باہمی اختلاف بھی ہے اس لئے اصول فقہ کے متعدد اسکول وجود میں آئے۔ مجتہد کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے الگ اصول استنباط وضع کرے بلکہ وہ کسی سابق مجتہد کے اصول اجتہاد و استنباط کو پوری طرح سمجھ کر ان کی روشنی میں اجتہاد کا عمل کر سکتا ہے۔ علامہ شوکانی کے نزدیک مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی سابق مجتہد کے اصول استنباط کی پیروی کرنے کے بجائے خود بحث و تحقیق کرکے اپنے اصول اجتہاد و استنباط متعین کرے (۲۵)۔
علامہ شوکانی کہ یہ رائے مجتہد مطلق کے لئے تو درست ہے لیکن مطلق اجتہاد کے لئے یہ شرط لگانا کار اجتہاد کے موقوف کرنے کے مرادف ہے۔
امام رازیؒ نے لکھا ہے مجتہد کے لئے سب سے اہم علم اصول فقہ ہے (۲۶)۔
۸- علم فقہ کی معرفت:
فقہ اسلامی کا عظیم الشان ذخیرہ ہمارے فقہاء کی اجتہادی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ اور مجموعہ ہے،کیا مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علمی ذخیرہ پر بھی عبور رکھتا ہو اور اس دریا کا بھی شناور ہے،عام طور سے اہل اصول نے اس کا جواب نفی میں دیا ہے۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ فقہی مسائل و فروع اجتہاد کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں لہذا ان کی معرفت کو اجتہاد کے لئے شرط کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اہل اصول فقہ کو اس حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ ہمارے زمانے میں مقام اجتہاد علم فقہ کی مزاولت اور ممارست سے حاصل ہوتا ہے، فقہی کتابوں کے مطالعہ سے اجتہاد کی مشق اور ٹریننگ ہوتی ہے ۔
امام غزالیؒ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مجتہد کو علم کلام اور فقہی تفریعات کی حاجت نہیں، فقہی تفریعات کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے جب کہ مجتہدین ہی مقام اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد ان تفریعات کو وجود بخشتے ہیں، ہاں ہمارے زمانے میں مقام اجتہاد فقہ کی ممارست سے حاصل ہوتا ہے، اس زمانہ میں اجتہاد کی مشق کا یہی طریقہ ہے، صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں یہ طریقہ نہیں تھا، آج بھی صحابہ کرام کے طریق پر چلا جا سکتا ہے‘‘ ( ۲۷)۔
علامہ تاج الدین سبکی الابھاج فی شرح المنہاج میں لکھتے ہیں:
’’ مجتہدین کو فقہی تفریعات کی بھی ضرورت نہیں ہے، مجتہد ان تفریعات کا محتاج کیسے ہو سکتا جب کہ یہ تفریعات مجتہد کے نتائج فکر اور فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔۔ فقہ کا شرط ہونا استاد ابواسحق سے منقول ہے، شاید ان کی مراد فقہ کی ممارست ہو، امام غزالی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔ ابن صلاح کہتے ہیں صحیح یہ ہے کہ اس مفتی کی صفات میں جس سے فرض کفایہ ادا ہوتا ہے فقہ کی شرط لگائی جائے اگرچہ مجتہد مستقل کی صفات میں یہ شرط نہ ہو، کیوں کہ مفتی کی حالت اس بات کی متقاضی ہے کہ ا سے ایسے حال میں ہونے کی شرط لگائی جائے کہ وہ آسانی سے زیادہ مشقت کے بغیر واقعات کے احکام جان سکے اور یہ بات کسی کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ فقہ کے ابواب و مسائل کو یاد کئے ہوئے ہو۔ تمام ابواب و مسائل کا حفظ ہونا شرط نہیں ہے بلکہ اتنا یاد ہونا ضروری ہے جس کی مدد سے بآسانی باقی کاادراک کر سکے‘‘ (۲۸)۔
امام الحرمین عبدالملک جوینی نے مجتہد کے لئے علم فقہ کی معرفت شرط لگانے کے ساتھ فقیہ النفس ہونے کی بھی شرط لگائی ہے اور اسے ایک فطری وصف قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
’’ثم یشترط وراء ذلک کلہ فقہ النفس فھو رأس مال المجتھد ولا یتأتی کسبہ فإن جبل علی ذلک فھو المراد وإلا فلا یتأتی تحصیلہ بحفظ الکتب (۲۹)۔
(پھر ان سب کے علاوہ فقیہ النفس ہونا شرط ہے کیوں کہ یہی مجتہدکی اصل پونجی ہے، اسے کما کر حاصل نہیں کیا جا سکتا، اگر اس میں فطری طور پرفقاہت نفس ہے تب تو مقصد حاصل ہے ورنہ کتابیں یاد کر کے یہ صفت حاصل نہیں کی جا سکتی)۔
۹- قیاس کا علم:
کار اجتہاد کے لئے قیاس کی حقیقت، اس کے ارکان و شرائط کا علم بنیادی اہمیت رکھتا ہے، قیاس ہی کے ذریعہ منصوص مسائل کے ساتھ غیر منصوص مسائل کا الحاق کیا جاتا ہے، نئے مسائل جن کے بارے میں شارع کی طرف سے نصوص وارد نہیں ہیں انہیں احکام شرعیہ کے دائرے میں لانے کا عمل قیاس کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ اجتہاد قیاس ہی کے اندر دائر نہیں ہے لیکن قیاس اجتہاد کا سب سے بڑا حصہ ضرور ہے لیکن قیاسِ شرعی قیاس آرائی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے متعین اصول و ضوابط ہیں ، ان کی پابندی کرتے ہوئے قیاس کو روبہ عمل لایا جائے گا۔ اصول و ضوابط سے آزاد ہو کر قیاس کا استعمال اجتہاد نہیں بلکہ انتشار و الحاد ہے، اس لئے مجتہد کے واسطے ناگزیر ہے کہ وہ قیاس شرعی کی حقیقت، اس کے اصول و ضوابط، دائرہ اور طریقۂ کار کا گہرا علم رکھتا ہو۔
علامہ تاج الدین سبکی( ۷۷۱ھ) شرائط اجتہاد پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ورابعھا القیاس فلتعرفہ وتعرف شرائطہ فإنہ مناط الاجتھاد وأصل الرأی و منہ یتشعب الفقہ وأسالیب الشریعۃ‘‘ (۳۰)۔
(چوتھی چیز قیاس ہے، قیاس اور شرائط قیاس کو جان لو کیونکہ قیاس ہی مدارا جتہاد ہے اور رائے کی اصل واساس ہے اسی سے فقہ اور اسالیب شریعت پھوٹتے ہیں)۔
بعض حضرات کی رائے ہے کہ علم اصول فقہ کی شرط لگانے کے بعد مستقلاً معرفت قیاس کی شرط لگانا مناسب نہیں ہے کیونکہ قیاس علم اصول فقہ کا ایک اہم مبحث ہے، اصول فقہ کے اکثر مصنفین نے قیاس پر سیر حاصل تحقیقی بحثیں کی ہیں، لہذا اصول فقہ پر عبور حاصل ہونے کے بعد انسان قیاس کے طریقہ اور اس کے اصول و شرائط سے بہ خوبی آگاہ ہو جائے گا۔
۱۰- ایمان و عدالت:
اجتہاد کے لئے ایمان اساسی شرط ہے۔ ایمان سے مراد محض نسلی اور رسمی ایمان نہیں بلکہ حقیقی ایمان ہے،مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات، توحید، رسالت، آخرت اور دوسرے اسلامی عقائد پر اسے غیر متزلزل یقین ہو، مذہب اسلام اوراسلامی شریعت کی ابدیت پر اس کا گہرا اعتقاد ہو، وہ ضعف ایمانی اور ذہنی الحاد کا شکار نہ ہو، نہ ہی غیر اسلامی نظریات اور فلسفوں سے مرعوب و متاثر ہو، اجتہاد ایک ذہنی اور فکری عمل ہے،یہ عمل صحیح طور پر اسی وقت انجام پا سکتا ہے جب انسان کا دل و دماغ اسلامی سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔ جو لوگ نسلی طور پر مسلمان ہونے کے باوجود اسلامی شریعت کو ماضی کی ایک فرسودہ شریعت اور نظام قانون مانتے ہیں،جن کا خیال یہ ہے کہ اسلامی قوانین چودہ سو سال پہلے کی غیر متمدن ممالک کی ضرورتوں کا ساتھ تو دے سکتے ہیں لیکن دور حاضر میں کاروان انسانیت کی رہنمائی نہیں کر سکتے ان کا اجتہاد ، اجتہاد نہیں بلکہ اسلامی شریعت میں حذف واضافہ، ترمیم و تنسیخ ہے۔
مشہور اصولی مصنف سیف الدین آمدی( ۶۳۱ھ) اجتہاد کے لئے ایمان کو شرط اولین قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الشرط الأول أن یعلم وجود الرب تعالی وما یجب لہ من الصفات ویستحقہ من الکمالات وإنہ واجب الوجود لذاتہ حی،عالم، قادر، مرید، متکلم حتی یتصور منہ التکلیف وأن یکون مصدقا بالرسول وماجاء بہ من الشرع المنقول بما ظھر علی یدہ من المعجزات والآیات الباھرات لیکون فیما یسند إلیہ من الأقوال والأحکام محققا، ولا یشترط أن یکون عارفا بدقائق علم الکلام متبحرا فیہ کالمشاہیر من المتکلمین بل أن یکون عارفاً بما یتوقف علیہ الإیمان‘‘ ( ۳۱)۔
اہل اصول نے مجتہد کے لئے جو صفات ذکر کی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ مجتہد عادل، خداترس، باکردارہو، حق و صداقت کا جویا ہو، اپنی دنیا بنانے کے لئے بھی اپنا دین نہ بیچے، چہ جائے کہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لئے۔ جو شخص فاسق، ناخداترس، نفس پرست اور دنیادار ہو اس پر دین کے بارے میں کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے، جب شریعت نے روایت اور شہادت کے باب میں عدالت کی شرط لگائی ہے تو اجتہاد جیسے نازک اہم ترین دینی کام میں عدالت کی شرط کیوں نہ ہوگی، بعض اہل اصول نے اجتہاد کے لئے عدالت کی شرط لگائی ہے۔
مسائل اجتہاد
شریعت کے تمام احکام و مسائل اجتہاد کا محل نہیں ہیں، اہل اصول نے مسائل اجتہاد کی تحدید و تعیین کر دی ہے، مسائل اجتہاد کی تحدید اس لئے ضروری ہے تاکہ انسان غیر اجتہادی مسائل میں شوق اجتہاد کرکے گنہ گار نہ بنے۔
امام رازی(۶۰۶ھ) مسائل اجتہاد کی حد بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’المجتھد فیہ ھو کل حکم شرعی لیس فیہ دلیل قاطع، واحترزنا بالشرعی عن العقلیات ومسائل الکلام وبقولنا لیس فیہ دلیل قاطع عن وجوب الصلوۃ الخمس والزکوۃ وما اتفقت علیہ الأمۃ من جلیات الشرع‘‘(۳۲)۔
(مجتہد فیہ ہر وہ حکم شرعی ہے جس کے بارے میں قطعی دلیل موجود نہ ہو، ہم نے شرعی کی قید لگا کر عقلیات اور کلامی مسائل سے احتراز کیا ہے اور دلیل قطعی نہ ہونے کی قید لگا کر پنجوقتہ نمازوں اور زکوۃ کی فرضیت اور شریعت کی جلی مسائل جن پر امت کا اجماع ہے ان سے احتراز کیا ہے)۔
امام غزالیؒ مسائل اجتہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ مجتہد فیہ ہر وہ حکم شرعی ہے جس کے بارے میں دلیل قطعی موجودنہ ہو۔ شرعی کی قید لگا کر ہم نے عقلیات اور مسائل کلام سے احتراز کیا کیوں کہ ان میں حق ایک ہوتا ہے۔مصیب(حق تک پہنچنے والا) ایک ہوتا ہے، خطا کرنے والا گنہ گار ہوتا ہے۔ اور مجتہد فیہ سے ہماری مراد وہ مسائل ہوتے ہیں جن میں خطا کرنے والا گنہ گار نہیں ہوتا، پنج وقتہ نمازوں اور زکوۃ کی فرضیت، شریعت کے وہ روشن مسائل جن پر امت کا اتفاق ہے ان کے بارے میں قطعی دلائل موجود ہیں، ان سے اختلاف کرنے والا گنہ گار ہوتا ہے لہذا یہ مسائل اجتہاد کا محل نہیں ہیں‘‘(۳۳)۔
مسائل اجتہاد کی تحدید و تعیین کے بارے میں تقریباً تمام اہل اصول متفق الرائے ہیں (۳۴) سب نے انہیں خیالات کا ذکر کیا ہے جن کا ذکر امام رازی اور امام غزالی کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔
اجتہادی اور غیر اجتہادی مسائل کے درمیان خط فاصل کھینچنے کے لئے دلیل قطعی اور دلیل ظنی کی تعیین ضروری ہے۔
دلیل قطعی وہ ہے جس کا ثبوت صاحب شریعت سے قطعی ہو اور اپنے معنی پر اس کی دلالت بھی قطعی ہو، دلیل قطعی اسی کو کہا جائے گا جس کا ثبوت اور دلالت دونوں قطعی ہوں۔ قرآن کریم پورا کا پورا قطعی الثبوت ہے۔ اس کا کلام الہی ہونا ہر شبہ سے بالاترہے، اسی طرح متواتر احادیث بھی قطعی الثبوت ہیں۔لہذا جو آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ دلالت کے اعتبار سے بھی قطعی ہوں، اپنے معنی پر حد درجہ صراحت ووضاحت سے دلالت کرنے کی بنا پر ان میں کوئی ابہام واجمال نہ ہو وہ دلیل قطعی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسی طرح اجماع صریح دلیل قطعی ہے،دلائل قطعیہ سے ثابت احکام اجتہاد سے بلند ہوتے ہیں۔ اس طرح کے احکام امت میں معروف و مسلم ہوتے ہیں، ان کے دلائل انتہائی درخشاں اور واضح ہوتے ہیں اس لئے انہیں دریافت کرنے کے لئے قوت اجتہاد در کار نہیں ہوتی۔
دلیل ظنی وہ دلیل ہے جس کا ثبوت اور دلالت دونوں ظنی ہوں یا ثبوت قطعی ہو دلالت ظنی ہو یا ثبوت ظنی ہو دلالت قطعی ہو، اس طرح دلیل ظنی کی تین قسمیں ہو جاتی ہیں۔
۱- قطعی الثبوت ظنی الدلالۃــ۔ مثلاً وہ آیات قرآنی اور احادیث متواترہ جو اپنے مضمون اور معنی پر پورے صراحت اور وضاحت سے دلالت نہیں کرتیں ان میں کسی مشترک لفظ کے استعمال کی وجہ سے یا تعبیر میں استعارہ کنایہ یا اجمال کی وجہ سے ایک سے زائد معانی کا احتمال رہتا ہے۔ مثلاً مطلقہ عورت کی عدت سے متعلق آیت ’’والمطلقات یتربصن بأنفسھن ثلاثۃ قروء‘‘ میں لفظ قرء کی جمع قروء کا استعمال ہوا ہے اور لفظ’’ قروء‘‘ عربی زبان میں مشترک ہے اس کے معنی کبھی طہر ہوتا ہے کبھی حیض، یہاں پر اس لفظ کی تشریح میں اختلاف کی وجہ سے مجتہدین میں اختلاف ہو گیا، بعض کا مسلک یہ ہوا کہ مطلقہ عورتوں کی عدت تین حیض ہے اور بعض کی رائے یہ ہوئی کہ ان کی عدت تین طہر ہے۔
۲- ظنی الثبوت قطعی الدلالتــ۔احادیث متواترہ کے علاوہ دوسری تمام حدیثیں ظنی الثبوت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کا ذریعہ ثبوت و نقل قطعی اور یقینی نہیں ہوتا،ان احادیث میں سے جن کی دلالت اپنی معنی و مفہوم پر انتہائی واضح اور صریح ہو وہ ظنی الثبوت قطعی الدلالت کے زمرے میں آتی ہیں۔
۳- ظنی الثبوت ظنی الدلالت۔ وہ اخبار آحاد جن کی اپنے مفہوم پر دلالت واضح اور صریح نہ ہو، ان میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہو، وہ سب ظنی الثبوت ظنی الدلالت ہیں۔
نصوص کتاب و سنت کے علاوہ جو دوسرے دلائل شرعیہ ہیں ان میں سے اجماع سکوتی، قیاس، استحسان، استصلاح، عرف وغیرہ ظنی دلائل ہیں۔
مسائل اجتہاد کی تحدید اور اجتہادی وغیر اجتہادی مسائل کی تعیین کے بارے میں کچھ تفصیلی گفتگو اس لئے ضروری معلوم ہوئی کہ دور حاضر میں بہت سے تجدد پسند مدعیان اجتہاد دین کے مسلمات، قطعیات اور منصوصات صریحہ کے بارے میں اجتہاد کے نام پر مشق ستم کر رہے ہیں، طلاق کا اختیار صرف مردوں کو ہونا، میراث میں لڑکوں کا لڑکیوں کے مقابلہ میں دوہرا حصہ ہونا، خنزیر اور سود کا حرام قطعی ہونا، یہ اور اس طرح کے بے شمار دینی مسلمات اور منصوصات صریحہ ہیں جنہیں اجتہاد کے نام پر بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسی کوششیں اجتہاد ہرگز نہیں بلکہ دین کے ساتھ کھلواڑ اور خالص نفس پرستی اور دنیا پرستی ہے۔اور یہ دین و شریعت میں تحریف کی ایک عیارانہ یا انتہائی غیر دانشمندانہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا؟
اجتہاد ایک شرعی ضرورت بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، اسلام قیامت تک کے لئے اللہ تعالی کا بھیجا ہوا آخری مذہب ہے، قیامت تک ظاہر ہونے والے نئے حالات و مسائل میں انسانیت کے لئے رہنما ہے، علماء امت کا فریضہ ہے کہ نت نئے حالات و مسائل میں کتاب و سنت کی اصولی ہدایات اور تعلیمات کی روشنی میں امت کی رہنمائی کریں، اور نئے پیش آمدہ مسائل کا شرعی حکم متعین کریں۔
اسلامی شریعت کا جاوداں اور لا زوال ہونا، ہر زمانہ اور ہر طرح کے حالات میں انسانیت کی رہنمائی کے لائق ہونا اجتہاد کے ہی ذریعہ ثابت ہوتا ہے، چنانچہ ہر زمانہ کے بابصیرت فقہاء نے سلسلۂ اجتہاد کو جاری رکھتے ہوئے اپنے دور کے حالات و مسائل کا شرعی حل اور حکم بیان کیا اور ہر طرح کے حالات میں امت کی دینی رہنمائی کی، حوادث و نوازل کے بارے میں متاخرین فقہاء اور اصحاب افتاء کی تحریروں کا مطالعہ کرنے سے بھی یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ان حضرات نے ائمہ مجتہدین کے بیان کردہ اصول اجتہاد و استنباط کی پابندی کرتے ہوئے مصادر شریعت کتاب و سنت، اجماع و قیاس، استحسان، استصلاح وغیرہ کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل ومشکلات کا شرعی حل تلاش کیا، یہ عذر کر کے اپنی ذمہ داریوں سے دست کش نہیں ہوئے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا، اب کسی کو حق نہیں کہ وہ کتاب و سنت سے مسائل کا استنباط کرے۔
بعض اہل اصول نے یہ ضرور لکھا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا لیکن ان کے اس جملہ کو یہ معنی پہنانا کہ ان کے نزدیک چوتھی صدی ہجری کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ان کے نظریہ اور دعوی کی غلط تشریح اور ترجمانی ہے۔
حضرت تھانویؒ کی تصریحات
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ چوتھی صدی ہجری کے بعد اجتہاد ختم ہوجانے کا معنی یہ نہیں ہے کہ چار سو برس کے بعد کسی کو اجتہاد کے قابل دماغ نہیں ملا، کیوں کہ اس پر کوئی دلیل قائم نہیں، علاوہ ازیں یہ مطلق صحیح بھی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ ہر زمانہ میں ہزاروں ایسی جزئیات نئی نئی پیش آتی ہیں جن کا کوئی جواب ائمہ مجتہدین سے منقول نہیں اور علماء خود اجتہاد کرکے ان کا جواب بتلاتے ہیں، پس اگر اجتہاد کا باب بالکل بند ہو گیا ہے اور اب کسی کا دماغ اجتہاد کے قابل نہیں ہو سکتا، تو کیا ایسے نئے نئے مسائل کا جواب شریعت سے نہیں ملے گا یا ان مسائل کے جواب کے لئے کوئی نیا نبی آسمان سے اترے گا؟ ’’الیوم أکملت لکم دینکم‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی تکمیل ہو چکی، دروازۂ اجتہاد اگر بالکل بند کر دیا جائے تو پھر شریعت کی تکمیل کس طرح مانی جائے گی کیوں کہ ظاہر ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ ان کا جواب کتب فقہ میں مذکورنہیں، نہ ائمہ مجتہدین سے کہیں منقول، ایک سوال آیا تھا کہ ہوائی جہاز میں نماز ہو سکتی ہے یا نہیں اب بتلائیے کہ اگر اجتہاد چار سو برس کے بعد بالکل جائز نہیں تو اس مسئلہ کا شریعت میں کوئی بھی جواب نہیں، پہلے زمانے میں نہ ہوائی جہاز تھا نہ فقہاء اس کو جانتے تھے، نہ کوئی حکم لکھا، اب ہم لوگ خود اجتہاد کرتے ہیں اور ایسے نئے نئے مسائل کا جواب دیتے ہیں۔
فقہاء رحمہم اللہ کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ چار سو برس کے بعد اجتہاد بالکل بند ہو گیا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اجتہاد فی الاصول کا دروازہ بند ہو گیا اور اجتہاد فی الفروع اب بھی بالکل باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ اگر اجتہاد فی الفروع بھی اب نہ ہو سکے تو شریعت کے نا مکمل ہونے کا شبہ ہوگا جو کہ بالکل غلط ہے شریعت میں کسی قسم کی کمی نہیں، قیامت تک جس قدر صورتیں پیش آتی رہیں گی سب کا جواب ہر زمانہ کے علماء شریعت سے نکالتے رہیں گے، کیوں کہ یہ جزئیات اگر کتب فقہ میں نہیں تو اصول وقواعد تو سب پہلے مجتہدین بیان کر چکے ہیں جن سے قیامت تک کے واقعات کا حکم معلوم ہو سکتا ہے۔
البتہ قرآن و حدیث سے اصول مستنبط کرنا یہ اب نہیں ہو سکتا، یہ خاص اجتہاد فی الاصول چار سو سال کے بعد ختم ہو گیا کیوں کہ اول تو جس قدر اصول و قواعد شریعت کے تھے وہ سب ائمہ مجتہدین بیان کر چکے، انہوں نے کوئی قاعدہ چھوڑا نہیں دوسرے ان کے بعد اگر کسی نے اصول مستنبط کئے بھی تو وہ مستحکم نہیں، کہیں نہ کہیں ضرور ٹوٹتے ہیں‘‘ (۳۵)۔
علامہ سیوطی کا نقطہ نظر
شیخ جلال الدین سیوطی (۹۱۱ھ) اجتہاد کے مسئلے میں بہت پر جوش ہیں، انہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’الرد علی من أخذ إلی الأرض وجھل أن الاجتھاد فی کل عصر فرض‘‘ اس کتاب کے نام سے خوداندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسئلہ اجتہاد میں علامہ سیوطی کی حساسیت کس قدر بڑھی ہوئی ہے، اجتہاد کے بارے میں اس قدر پر جوش ہونے کے باوجود انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مجتہد مستقل جس کے اپنے اصول استنباط ہوتے ہیں ایک زمانہ سے ناپید ہے۔
’’إن المجتھد المطلق أعم من المجتھد المستقل والمجتھد المقید، فإن المستقل ھو الذی استقل بقواعد نفسہ یبنی علیھا الفقہ خارجا عن قواعد المذاھب المقررۃ وھذا شیٔ فقد من دھر، بل لو أرادہ الإنسان الیوم لامتنع علیہ ولم یجز لہ، نص علیہ غیر واحد، قال ابن برھان فی کتابہ فی الأصول: اصول المذاھب وقواعد الأدلۃ منقولۃ عن السلف فلا یجوز أن یحدث فی الأعصار خلافھا، وقال (ابن المنیر) أتباع الأئمۃ الآن الذین حازوا شروط الاجتھاد مجتھدون ملتزمون أن لا یحدثو مذھبا، أما کونھم مجتھدین فلأن الأوصاف قائمۃ بھم، وأما کونھم ملتزمین أن لا یحدثوا مذھبا فلأن أحداث مذھب زائد بحیث یکون لفروعہ أصول وقواعد سوی قواعد المتقدمین متعذر الوجود لاستیعاب المقدمین لسائر الأسالیب‘‘ (۳۶)۔
( مجتہد مطلق مجتہد مستقل اور مجتہد مقید سے عام ہے کیوں کہ مجتہد مستقل وہ ہے جس کے اپنے الگ قواعد استنباط ہوں، دوسرے ثابت شدہ مذاہب سے ہٹ کر اپنے قواعد پر فقہ کی بنیاد رکھے، ایسا اجتہاد ایک زمانہ سے مفقود ہے، بلکہ اگر اس زمانہ میں کوئی ایسا اجتہاد کرنا چاہے تو اس کے لئے ایسا کرنا ممنوع اور ناجائز ہے، اس کی صراحت متعدد اہل اصول نے کی ہے، ابن برہان اصول فقہ کے موضوع پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: مذاہب کے اصول اور ادلہ کے قواعد سلف سے منقول ہیں ان زمانوں میں ان اصول وقواعد کے بر خلاف اصول ایجاد کرنا جائز نہیں ہے۔ ابن منیر لکھتے ہیں: موجودہ دور میں ائمہ کے وہ متبعین جو شرائط اجتہاد کے جامع ہیں مجتہد ملتزم ہیں، اس بات کے پابندہیں کہ کوئی مذہب ایجاد نہ کریں،وہ لوگ مجتہد اس لئے ہیں کہ اوصاف اجتہاد کے حامل ہیں اور کوئی مذہب ایجاد نہ کرنے کے پابند اس وجہ سے ہیں کہ ایسے زائد مذہب کا ایجاد جس کے فروع کے لئے متقدمین کے قواعد سے علیحدہ مستقل قواعد ہوں متعذر الوجود ہے کیوں کہ متقدمیں نے تمام اسالیب استنباط کا احاطہ کر لیا ہے)۔
واقعہ یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین کے اصول و نتائج استنباط سے ہٹ کر اجتہاد و استنباط کے نئے اصول وقواعد وضع کرنا اور ان پر جدید فقہ کی تشکیل و تدوین کرنا بعض جدت طراز ذہنوں کا ایسا خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا، فقہ اور اصول فقہ کا وسیع وعمیق مطالعہ رکھنے والے جانتے ہیںکہ اجتہاد و استنباط کے جوجو اصول و مناہج ممکن تھے انہیں ائمہ متقدمین نے مرتب کر دیا، اور اس سلسلے میں ذہانت ، نکتہ رسی اور طباعی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر دوسرے مذاہب اور اصول قانون کی تاریخ میں نہیں ملے گی، بعد کے ادوار میں جن حضرات نے مستقل اصول سازی کی کوشش کی ان کی جد و جہد کا حاصل اس سوا کچھ اور نہیں ہے کہ انہوں نے مختلف اجتہادی مکاتب فکر سے خوشہ چینی کرکے اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنی چاہی جس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکتی۔
اسلام کی حفاظت کا بند و بست اللہ جل شانہ نے اس طرح بھی فرمایا کہ اسلام کوجس دور میں جس صلاحیت کے افراد درکار ہوئے انہیں پیدا فرمایا ، ایک خاص زمانہ کے بعد مجتہد مستقل کے ناپید ہونے کی تکوینی مصلحت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’ قدرتی قاعدہ ہے کہ ہر شے عموماً اپنی ضرورت کے وقت ہی ہوا کرتی ہے، جس فصل میں عموماً بارش کی حاجت ہوتی ہے اسی فصل میں بارش ہونے کا قاعدہ ہے، اسی طرح ہوائیں حاجت کے وقت چلا کرتی ہیں۔۔۔۔ اسی طرح جب تک تدوین حدیث کی ضرورت تھی بڑے بڑے قوی حافظہ کے لوگ پیدا ہوئے تھے، اب ویسے نہیں ہوتے۔۔۔۔ اسی طرح جب تک تدوین دین کی ضرورت تھی قوت اجتہاد والے یہ لوگ بھی بہ خوبی موجود تھی اب چوں کہ دین مدون ہو چکا اور اصول قواعد ممہد ہو چکے اب اجتہاد کی اتنی ضرورت نہیں رہی، ہاں جس قدر اب بھی اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے اتنی قوت اجتہاد یہ بھی باقی ہے یعنی اصول مجتہدین کے تحت جزئیات جدیدہ کا استخراج کرلینا‘‘ (۳۷)۔
استقلالی شان رکھنے والے مجتہدین کے ناپید ہونے کے باوجود نئے مسائل و حوادث کے بارے میں اجتہاد کا عمل امت میں ہمیشہ جاری رہا اور جاری رہے گا، اجتہاد امت پر عائد ہونے والا ایک اہم فریضہ ہے لہذا اس کا کلیۃً موقوف ہونے کا سوال نہیں پیدا ہوتا، اجتہاد فی الفروع کی صلاحیت رکھنے والے فقہاء ہر دور میں موجود رہے جنہوں نے ائمہ مجتہدین سے منقول اصول اجتہاد ، مناہج استنباط کی روشنی میں کتاب و سنت سے نئے پیش آمدہ مسائل کا شرعی حل تلاش کیا اور امت کی بر وقت رہنمائی کی۔
اجتہاد فی الفروع کی صلاحیت بھی ہر عالم میں نہیں ہوتی، اس کے لئے بھی علم و تفقہ کا خاصا بلند معیار مطلوب ہے، لیکن اس صلاحیت کی افراد کبھی امت سے ناپید نہیں ہوئے۔
کیا اجتہاد قابل تجزی ہے؟
مباحث اجتہاد میں سے ایک اہم بحث تجزی اجتہاد کی بحث ہے، تجزی اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان بعض ابواب فقہیہ میں اجتہاد کی صلاحیت اور استحقاق رکھتا ہو اور باقی میں نہیں، اہل اصول کے غالب اکثریت اجتہاد میں تجزی کو درست مانتی ہے، اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے امام غزالی لکھتے ہیں:
’’ ان آٹھوں علوم کا اجتماع مجتہد مطلق کے لئے شرط ہے جو شریعت کے تمام ابواب میں فتوی دیتا ہے لیکن میرے نزدیک اجتہاد ایسا منصب نہیں ہے جس کے اجزاء نہ ہو سکیں، بلکہ یہ بات کہنا درست ہے کہ کسی عالم کو بعض احکام کے بارے میں مقام اجتہاد حاصل ہے اور بعض کے بارے میں نہیں، جو شخص قیاس کے ذریعہ غور و فکر کے طریقہ کار سے واقف ہو وہ قیاس سے تعلق رکھنے والے مسئلہ میں فتوی دے سکتا ہے اگر چہ وہ علم حدیث میں ماہر نہ ہو’’ مسئلہ مشترکہ‘‘ میں غور فکر کرنے والے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ فقیہ النفس ہو اور علم فرائض کے اصول و معانی سے واقف ہو اگر چہ اسے وہ احادیث نہ معلوم ہوں جن کا تعلق نشہ آور چیزوں کی حرمت اور بلا اجازت ولی نکاح کرنے سے ہے، کیوں کہ اس مسئلہ کے سمجھنے اور حل کرنے میں ان احادیث سے کوئی مدد نہیں ملے گی، ان احادیث کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا ان احادیث سے ناواقفیت اس مسئلہ کے بارے میں صلاحیت اجتہاد کو ناقص کیسے کر سکتی ہے، اسی طرح جو شخص ذمی کے بدلہ میں مسلمان کو قتل کرنے کے بارے میں وارد احادیث کو اور ان سے استنباط کے طریقہ کو جانتا ہے اس کے لئے یہ بات مضر نہیں ہے کہ وہ نحو کے ان قواعد سے نا واقف ہے جن کے ذریعہ ’’وامسحوا برؤوسکم وأرجلکم إلی الکعبین‘‘ کے اعراب کو حل کر سکے، اسی پر دوسرے مسائل کو قیاس کر لیجئے، مفتی ہونے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب دے سکے، ایک بار امام مالکؒ سے چالیس سوالات کئے گئے ان میں چھتیس کے جواب میں انہوں نے فرمایا ’’لاأدری‘‘ (میں جانتا نہیں ہوں) امام شافعیؒ نے بلکہ صحابہ کرام ؓ نے مختلف مسائل کے بارے میں توقف فرمایا، لہذا مفتی کے لئے بس اتنا ضروری ہے کہ جس مسئلہ کے بارے میں فتوی دے بصیرت حاصل ہونے کے بعد فتوی دے، جن مسائل سے بہ خوبی آگاہ ہے، انہیں کے بارے میں فتوی دے، اپنے معلوم اور غیر معلوم مسائل میں تمیز کرے، نا معلوم مسائل کے بارے میں توقف کرے اور معلوم مسائل کے بارے میں فتوی دے‘‘(۳۸)۔
مختلف تصریحات
امام رازی (۶۰۶ھ)لکھتے ہیں:
’’الحق أنہ یجوز أن تحصل صفۃ الاجتھاد فی فن دون فن، بل فی مسألۃ دون مسألۃ خلافا لبعضھم‘‘ (۳۹)۔
(حق یہ ہے کہ ایک فن میں مقام اجتہاد حاصل ہونا دوسرے فن میں حاصل نہ ہونا بلکہ ایک مسئلہ میں حاصل ہونا دوسرے میں حاصل نہ ہونا درست ہے لیکن اس میں بعض لوگوں کا اختلاف ہے)۔
اصول بزدوی کے شارح مشہور حنفی اصولی عبدالعزیز بخاری نے اس مسئلہ میں بالکل وہی رائے دی ہے جو امام غزالی کے حوالہ سے آپ پڑھ چکے ہیں(۴۰)۔ شیخ تاج الدین سبکی( ۷۷۱ھ) نے بھی تجزی اجتہاد سے اتفاق کیا ہے ( ۴۱)۔
مشہور اصولی علامہ سیف الدین آمدی تجزی اجتہاد پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بعض مسائل کے حکم کے بارے میں اجتہاد کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ انسان اس مسئلہ کے متعلقات سے بہ خوبی واقف ہو، اس مسئلہ سے واقفیت کے لئے جن باتوں کا علم ناگزیر ہو ان سے آگاہ ہو، اس مسئلہ سے غیر متعلق چیزوں اور باقی مسائل فقہیہ کے متعلقات سے نا واقف ہونا اس کے لئے مضر نہیں ہے جس طرح مجتہد مطلق بہت سے مسائل کے بارے مقام اجتہاد پر فائز ہوتے ہوئے ان مسائل کے دائرے سے باہر کی بعض چیزوں سے ناواقف ہوتا ہے، مفتی کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ تمام مسائل کے احکام و دلائل سے واقف ہو کیوں کہ یہ انسان کے دائرہ استطاعت سے باہر ہے، امام مالکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے چالیس مسائل دریافت کئے گئے، ان میں سے ۳۶ کے جواب میں انہوں نے ’’لاأدری‘‘ (میں جانتا نہیں ہوں) کہا‘‘ ( ۴۲)۔
علامہ کمال بن ہمام نے التحریر (۴۳)میں اور علامہ بیضاوی نے منہاج الاصول (۴۴) میں تجزی اجتہاد کو حق قرار دیا ہے، اہل اصول کے غالب اکثریت نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
دوسرا نقطہ نظر
تجزی اجتہاد کے بارے میں دوسرا موقف یہ ہے کہ تجزی اجتہاددرست نہیں ہے، جس شخص میں اجتہاد کی بنیادی اہلیت موجود ہے وہ تمام ابواب اور تمام مسائل میں اجتہاد کر سکتا ہے، اجتہاد دراصل ایک ملکہ اور صلاحیت کا نام ہے جو مختلف علوم میں مہارت و ممارست سے حاصل ہوتی ہے، اور کسی کام کی صلاحیت ناقابل تقسیم ہوتی ہے اس کے مختلف حصے نہیں کئے جا سکتے، علاوہ ازیں فقہ اسلامی کے تمام ابواب و مسائل ایک دوسرے سے بہت گہرے طور پر مربوط ہیں، انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اجتہاد کا فریضہ وہی شخص انجام دے سکتا ہے جس کی تمام ابواب و مسائل پر نظر ہو۔
اس موقف کی طاقتور ترجمانی علامہ شوکانیؒ نے ارشاد الفحول میں کی ہے، موصوف لکھتے ہیں:
’’ تحقیق یہ ہے کہ اجتہادمیں تجزی ناممکن ہے، کیوں کہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مجتہد کے لئے کسی دلیل کی بنا پر حکم لگانا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے مقتضی کے پائے جانے اور مانع کے نہ پائے جانے کا ظن غالب حاصل نہ ہوجائے اور یہ بات مجتہد مطلق ہی کو حاصل ہو سکتی ہے جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے کسی خاص باب یا کسی خاص مسئلہ کے تمام متعلقات کا احاطہ کر لیا ہے، اسے مذکورہ بالابات کا ظن غالب حاصل نہیں ہوتا کیوں کہ یہ بات ممکن ہے کہ اس کے علم کی رسائی جہاں تک ہو سکی وہاں وہ مانع موجود ہو، اگر ایسا کوئی شخص ظن غالب کا دعوی کرتا ہے تو یہ دعوی محض ظن و تخمین پر مبنی ہے، اس شخص سے بحث کرنے پر یہ بات واضح ہو جائے گی‘‘ (۴۵)۔
تیسرا نقطہ نظر
تجزی اجتہاد کے بارے میں تیسرا (۴۶) موقف یہ ہے کہ علم فرائض کی حد تک تجزی اجتہاد درست ہے یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص فرائض کے مسائل کے بارے میں اجتہاد کر سکتا ہو اور دوسرے ابواب فقہیہ کے بارے میں صلاحیت اجتہاد نہ رکھتا ہو یا فرائض میں اجتہاد نہ کر سکتا ہو اور دوسرے ابواب مسائل کے بارے میں اجتہاد کر سکتا ہو۔
جن حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے ان کی بنیاد یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرائض علم کی مستقل اکائی معلوم ہوتی ہے، علم فرائض کے مسائل کا دوسرے ابواب فقہیہ کے مسائل سے اتنا گہرا ربط نہیں ہے، جتنا گہرا ربط دوسرے ابواب فقہیہ کے مسائل کے درمیان ہے اس لئے اجتہاد کے بارے میں فرائض کو دوسرے ابواب فقہیہ سے جدا کیا جا سکتا ہے۔
تجزی اجتہاد کے بارے میں ابن الزملکانی نے بہت معقول اور مناسب بات کہی ہے فرماتے ہیں:
’’الحق التفصیل فما کان من الشروط کلیا کقوۃ الاستنباط ومعرفۃ مجاری الکلام وما یقبل من الأدلۃ وما یرد ونحوہ فلابد من استجماعہ بالنسبۃ إلی دلیل ومدلول فلا تتجزا تلک الأھلیۃ وما کان خاصا بمسئلۃ أو مسائل أو باب فإذا استجمعہ الإنسان بالنسبۃ إلی ذلک الباب أو تلک المسألۃ أو المسائل مع الأھلیۃ کان فرضہ فی ذلک الجزء الاجتھاد دون التقلید‘‘ (۴۷)۔
(اس مسئلہ میں حق یہ تفصیل کرنا ہے کہ جو شرائط کلی نوعیت کی ہیں مثلاً قوت استنباط ، اسالیب کلام کی واقفیت مقبول ومردود دلائل کی واقفیت وغیرہ ان کا جمع ہونا ہر دلیل و مدلول میں ضروری ہے، یہ اہلیت قابل تجزی نہیں ہے اور جن شرائط کا تعلق چند مسائل یا کسی خاص باب سے ہے اگر بنیادی اہلیت کے ساتھ کسی شخص میں کسی باب یا مسئلہ کی شرائط پائی گئیں تو اس شخص پر خاص اس باب یا مسئلہ میں اجتہاد کرنا لازم ہوگا، تقلید جائز نہیں ہوگی)۔
ابن الزملکانی کی یہ بات دراصل تجزی اجتہاد کو جائز کہنے والوں کے قول کی توضیح و تشریح ہے ظاہر ہے کہ کلام عرب کے اسالیب کی واقفیت قوت استنباط، مقبول وغیر مقبول ادلہ کی معرفت،اصول اجتہاد و استنباط سے واقفیت اوراس طرح کی بعض دوسری بنیادی صلاحیتیں ہر اجتہاد کرنے والے کے لئے ناگزیر ہیں خواہ وہ تمام ابواب و مسائل کے بارے میں اجتہاد کرے یا کسی خاص باب یا مسئلہ کے بارے میں، تجزی اجتہاد کے نام پر ان بنیادی شرائط اور صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ہاں کسی خاص باب یا مسئلہ کے بارے میں اجتہاد کرنے کے لئے اگر کوئی مخصوص صلاحیت یا مطالعہ درکار ہوتو اسے اس باب یا مسئلہ تک محدود رکھا جائے گا اسے ہر جگہ لازم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دور حاضر اور تجزی اجتہاد
میرا خیال یہ ہے کہ صلاحیت اجتہاد کو اگر ناقابل تقسیم و تجزی مان بھی لیا جائے تو بھی صلاحیت اجتہاد رکھنے والے شخص کے لئے ہر مسئلہ میں اجتہاد کرنا موجودہ حالات میں تقریباً ناممکن ہے، زمانہ گزرنے کے ساتھ حوادث و مسائل کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے معاشیات، سیاسیات وغیرہ کے میدانوں میں روزانہ نت نئے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں جو شرعی فیصلہ اور حل کے طالب ہیں اس لئے موجودہ دور میں کسی شخص کا تمام اجتہادی مسائل کے بارے میں اجتہاد کر پانا غیر عملی سی بات ہے خصوصا اس لئے کہ نئے پیش آمدہ مسائل ماضی کے مسائل کی طرح سادے اور آسان نہیں تجارت، بینکنگ، معاشیات، سیاسیات، سماجیات، بین الاقوامی تعلقات وغیرہ کے میدانوں میں جو نئے مسائل در پیش ہیں وہ بہت پر پیچ اور تہہ در تہہ ہیں ان معاملات و مسائل کو پورے طور پر سمجھنے اور ان کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے بسا اوقات پورے معاشی، سیاسی یا سماجی نظام کو سمجھنا پڑتا ہے، مختلف میدانوں کے ماہرین اور متخصصین سے مدد لینی پڑتی ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ حکم شرعی لگانے سے پہلے تصویر مسئلہ کا کام بہت مشکل اور پرپیچ ہو گیا ہے، ان نئے مسائل کی صحیح تصویر اسی وقت سامنے آسکتی ہے جب کہ مفتی کو اس میدان زندگی کے بارے میں براہ راست گہری واقفیت ہو جس میدان سے اس مسئلہ کا تعلق ہے یا مفتی اس میدان زندگی کے ماہرین سے رابطہ قائم کرکے پوری ذہانت اور بیدار مغزی کے ساتھ سوالات کرکے اور کھود ۔۔۔کرید کرکے صورت مسئلہ کو سمجھے۔
ان حالات میں ہمارے اہل اصول کا اختیار کردہ تجزی اجتہاد کا اصول بڑا کار آمد اور عملی ہے، دور حاضر میں جب کہ جزوی اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے علماء بھی کمیاب ہوتے جا رہے ہیں، وسائل علم کی فراوانی کے باوجود علم کی سطح برابر گرتی جا رہی ہے مادیت کی چمک دمک نے علمی ریاضت اور یکسوئی کا وہ ماحول ہی درہم برہم کر دیا ہے جس کی برکت سے مختلف علوم و فنون کی جامع بلند قامت شخصیتیں پروان چڑھتی تھیں، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ علوم اجتہاد میں درک رکھنے والے خداتر س علماء فقہاء فقہ اسلامی کے مختلف ابواب کو اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنائیں، اور زندگی کے مختلف میدانوں ( مثلاً تجارت زراعت، اقتصادیات، بینکنگ، سیاسیات، سماجیات، بین الاقوامی تعلقات وغیرہ) میں پیدا ہونے والے مسائل کا شرعی حکم اور حل مصادر شریعت کی روشنی میں تلاش کریں ۔
٭٭٭
حواشی:
(۱)لسان العرب۱؍ ۵۲۰-۵۲۱
(۲)ترتیب القاموس المحیط۱؍۵۴۶
(۳)المستصفی ۲؍۵۱۰
(۴)تیسیر التحریر ۴؍۱۷۸-۱۷۹
(۵)المستصفی ۲؍۵۱۰
(۶)الابھاج فی شرح المنھاج ۳؍۲۶۲
(۷)تیسیرالتحریر ۴؍۱۷۹، التقر یر و التحبیر۳؍ ۲۹۱
(۸)مسلم الثبوت ۲؍ ۵۹۸
(۹)آمدی، الأحکام فی أصول الأحکام۴ ؍۲۱۸
(۱۰)عقد الجید فی أحکام الاجتھاد والتقلید ص۳
(۱۱)المستصفی ۲؍ ۱۰۱، الابہاج فی شرح المنہاج۳ ؍ ۲۷۲، التقریر والتحبیر ۳؍ ۲۵۲، کشف الا سرارالبخاری ۴؍۱۱۲۵
(۱۲)شرح مختصر الروضۃجلد۳،ص ۵۷۷، تحقیق ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(۱۳)نہایۃالسول فی شرح منھاج الاصول الاسنوی ۴؍ ۵۴۹، تیسیر التحریر۴ ؍۱۸۱
(۱۴)امام الحرمین جوینی، البرہان فی اصول الفقہ ۲؍ ۱۳۳۱
(۱۵)کشف الأسرار ۴؍۱۱۳۵، دوسرے اہل اصول نے بھی اسی طرح کی صراحتیں کی ہیں ملاحظہ ہو: شرح مختصر الروضہ للطوفی ۳؍۵۷۹، ۵۸۰، المحصول للرازی جزء ثانی قسم ثالث ص۳۳
(۱۶)المستصفی۲؍ ۱۰۲، ۱۰۳
(۱۷)المستصفی ۲؍ ۱۰۲، الابھاج۳؍ ۲۷۳، التقریر والتحبیر۳؍۲۹۳، حاشیۃ نہایۃ السول ۴؍ ۵۵۳
(۱۸) المستصفی ۲؍۱۰۱، ۱۰۲
(۱۹) غزالی، المستصفی۲ ؍۱۰۲
(۲۰)شاطبی، الموافقات فی الشریعۃ ۴؍۱۱۴- ۱۱۵
(۲۱)شاطبی، الموافقات۴؍۱۱۸
(۲۲)شرح مختصر الروضۃ جلد۳؍ ۵۸۱،۵۸۲
(۲۳)الموافقات۴؍۱۰۶-۱۰۷
(۲۴)غزالی، المستصفی۲؍۱۰۳
(۲۵) شوکانی، ارشاد الفحول ۲۵۲
(۲۶)المحصول ۲قسم۳؍۳۶
(۲۷)المستصفی۲؍۱۰۳
(۲۸)الابھاج فی شرح المنھاج ۳؍۲۷۳، ۲۷۴
(۲۹)البرھان فی أصول الفقہ۲؍۱۳۳۲
(۳۰)الابھاج فی شرح المنھاج ۳؍۲۷۲
(۳۱)آمدی، الاحکام فی أصول الااحکام ۴؍۲۱۹
(۳۲) المحصول فی علم أصول الفقہ جزء ثانی قسم ثالث۳۹
(۳۳) المستصفی ۲؍ ۱۰۳
(۳۴)ملاحظہ ہو: کشف الاسرار للبخاری۴؍۱۱۳۴، التقریر والتحبیر ۳؍۲۹۲، الأحکام فی أصول الأحکام ۴؍۲۲۱
(۳۵)اشرف الجواب ۲؍ ۲۱۰ ۔۲۱۲
(۳۶)ص:۱۱۲، ۱۱۳
(۳۷)دعوات عبدیت ۱۹؍۱۵۷
(۳۸)المستصفی ۲؍۱۰۳
(۳۹)المحصول فی علم أصول الفقہ جزء ثانی قسم ثالث ۳۷
(۴۰)کشف الاسرار۴؍۱۱۳۷
(۴۱)الابہاج فی شرح المنہاج۳؍۲۷۴
(۴۲)سیف الدین آمدی، الأحکام فی أصول الأحکام ۴؍۲۲۱
(۴۳)تیسیر التحریر شرح التحریر۴؍ ۱۸۲
(۴۴)نہایۃ السول فی شرح منہاج الأصول ۴؍۵۵۵
(۴۵)ارشاد الفحول ۲۳۷
(۴۶)التقریر والتحبیر۳؍۲۹۳
(۴۷) التقریر والتحبیر ۳؍۲۹۴