احادیث ضعیفہ کا شرعی درجہ

احادیث ضعیفہ کا شرعی درجہ
فقہاء ومحدثین اور ائمہ مجتہدین کی تصریحات کی روشنی میں
                                                                                                مفتی محمد زید مظاہری ندوی
                                                                                               استاذحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء
محدثین کی اصطلاح میں حدیث ضعیف اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث صحیح کے کل یا بعض شرائط نہ پائے جائیں ، حدیث صحیح کے شرائط میں سند کا متصل ہونا ، راوی کا عادل وثقہ اور تامّ الضبط ہونا اور علل قادحہ سے خالی ہونا ہے، اسی وجہ سے محدثین کی تصریح کے مطابق احادیث ضعیفہ میں ضعف کے اسباب وعلل مختلف ہو سکتے ہیں، مثلا راوی کا غیر عادل یا سئّ الحفظ ہونا یا کثرت غفلت اورفسق و فجور میں مبتلا ہونا وغیر ذلک، اسی فرق کا لحاظ کرتے ہوئے احادیث ضعیفہ کے احکام میں بھی ائمہ مجتہدین ومحدثین نے تفصیل ذکر فرمائی ہے، حضرت شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں:
الحديث الضعيف هو الذي فقد فيه الشرائط المعتبرة في الصحة والحسن كلاً أو بعضاً ویذم راویہ بشذوذ أو نكارة أو علة، وبهذا الاعتبار يتعدد أحکام الضعيف ویکثر افراداً وتركيباً-(۱)
ترجمہ: حدیث ضعیف اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث صحیح و حسن کی کل یا بعض شرطیں نہ پائی جائیں، اور اس حدیث کے راوی کی شذوذیا نکارت یا کسی بھی علت قادحہ کی وجہ سے مذمت کی جائے، اس لحاظ سے ضعیف حدیث کی مختلف قسمیں اور مختلف احکام ہوں گے۔
 اس موضوع پر حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ؒنے ’’فتح الملہم شرح مسلم‘‘ کے مقدمہ میں اور حضرت علامہ ظفر احمد تھانوی نے ’’اعلاء السنن‘‘ کے مقدمہ میں تفصیلی کلام فرمایا ہے، علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’الحديث الضعيف هو ما وجد فيه شيء مما يوجب الردّ، وموجب الردّ هو بعينه موجب الضعف، أحدهما: سقوط راو من الرواة من إسناده۔
’’والثانى: وجود أمر في الراوى يوجب طعناً فيه، فعلى هذا يكون الحديث الضعيف نوعين: أحدها: ما يكون موجب الردّ فيه سقوط راو من الرواة من سنده، وثانيها: أن يكون موجب الرد فيه وجود أمر في الراوي  يوجب طعناً فيه۔۔۔۔۔۔۔۔ والأمور التي يوجب  الطعن في الراوي عشرة۔ الخ۔(۲)
ترجمہ: حدیث ضعیف وہ ہے جس میں کوئی ایسا سبب پایا جائے جو حدیث کے غیر مقبول ہونے کا ذریعہ بنے، اور یہی سبب حدیث کے ضعیف ہونے کا بھی باعث ہے۔
اصولیین نے اسے مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
(۱)یہ کہ سند میں کسی مقام پر انقطاع پایا جائے۔
(۲)راوی میں جن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔
مندرجہ بالا اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث ضعیف دو قسموں میں منقسم ہوجاتی ہے:
اول: وہ حدیث ضعیف کہلائے گی جس کی سند میں کوئی راوی ساقط ہو۔
ثانی: وہ حدیث بھی ضعیف کہلائے گی جس کے راوی کا مطعون ہونا حدیث کے غیر مقبول ہونے کا سبب بنے، اور اسباب طعن دس ہیں۔۔۔۔الخ۔
ائمہ حدیث وائمہ فقہ کا متفقہ فیصلہ
علماء محققین کی تصریح کے مطابق تمام ائمہ فقہ وحدیث اس بات پر متفق ہیں کہ چند شرائط کے ساتھ (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) فضائل ومسائل اور احکام شرع میں بھی احادیث ضعیفہ معتبر ہیںکہ ان کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں کیا جا سکتا، یعنی حدیث ضعیف کا درجہ قیاس سے بڑھ کر ہے، اور حدیث ضعیف قیاس پر بھی مقدم ہے،چنانچہ علامہ ابن قیمؒنےپورے وثوق کے ساتھ تمام ائمہ کے حوالہ سے یہی بات تحریر فرمائی ہے، علامہ ابن قیم ؒ کی عبارت درج ذیل ہے:
’’وليس أحد من الأئمة إلا وهو موافقة على هذا الأصل من حيث الجملة، فإنه ما منهم إلا وقد قدّم الحديث الضعيف على القياس۔‘‘ (۳)
اس عبارت میںعلامہ ابن قیمؒ نےواضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام ائمہ نے حدیث ضعیف کا اعتبار کرتے ہوئے اس کو قیاس پر مقدم کرنے کا اصول اپنایا ہے، اب ائمہ اربعہ میں سے ہر مسلک کی نیز مشہور محدثین کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں :
احادیث ضعیفہ کے سلسلہ میں حضرات احناف کا مسلک
۱۔علامہ ابن قیمؒ اور علامہ ابن حزم ؒنےاس بات پر تمام علماء کا اتفاق نقل فرمایا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک حدیث ضعیف رائےاور قیاس پر مقدم ہے، علامہ ابن قیمؒ کی عبارت درج ذیل ہے:
الإجماع علی أن مذھب  أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولی عنده من الرأى والقیاس۔(۴)
یعنی اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مذہب یہی ہے کہ ان کے نزدیک حدیث ضعیف قیاس ورائے سے اولیٰ اور اس پر مقدم ہے۔
۲۔علامہ ابن حزمؒ کے حوالہ سے علامہ سخاوی ؒ تحر یرفرماتے ہیں:
’’قال السخاويؒ: ذكر ابن حزم أن جميع الحنفية مجمعون على أن مذهب أبى حنيفة أن ضعیف الحديث أولى عنده من الرأى والقياس۔‘‘(۵)
یعنی تمام حنفیہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا مذہب یہی ہے کہ حدیث ضعیف بھی قیاس ورائے پر مقدم ہے ۔
فائدہ: حضرت امام ابو حنیفہؒ اور تمام احناف کےنزدیک جب حدیث ضعیف بھی رائے اور قیاس پر مقدم ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے قیاس کرنا جائز نہیں تو حدیث صحیح اور حدیث قوی بدرجہ اولیٰ قیاس اور رائے پر مقدم ہوگی اور اس کے ہوتے ہوئے قیاس کرنا جائز نہیں ہوگا، واللہ اعلم۔
(۳)حضرت ملاعلی قاریؒنے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں متعدد موقعوں پر تحریر فرمایا ہے کہ احناف کا مسلک یہی ہے کہ حدیث ضعیف معتبر اور قیاس پرمقدم ہے، اور فضائل اعمال میں تو اس کا معتبر ہونا اتفاقی امر ہے، چند عبارتیں ملاحظہ ہوں:
لأن مذهبهم القوى:  تقديم الحديث الضعيف على القياس۔(۶)
أجمعوا على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال۔(۷)
يعمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال باتفاق العلماء۔(۸)
الحديث الضعيف يعمل به في فضائل الأعمال۔(۹)
تمام عبارتوں کا حاصل یہی ہے کہ احناف کا قوی اور مضبوط مسلک یہی ہے کہ فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ کا اعتبار کیا جائے گا، اور یہ تمام علماء کا اتفاقی مسئلہ ہے ۔
(۴)شاہ عبد الحق صاحب محدث دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ حدیث ضعیف اگر متعدد طرق سے مروی ہو تو اس کا ضعف بھی جاتا رہتا ہے، اور وہ ضعیف حدیث بھی حسن لغیرہ کا درجہ رکھتی ہے، شاہ صاحبؒ کی عبارت درج ذیل ہے:
’’والضعيف إن تعدد طرقه وانجبر ضعفہ يسمى حسنا لغیره-‘‘(۱۰)
(۵)علامہ ابن الہمام شارح ہدایہ نے تحریر فرمایا ہے کہ حدیث ضعیف بھی معتبر ہے، البتہ اس کے معتبر ہونے کے کچھ شرائط بھی تحریر فرمائے ہیں۔
’’قال ابن الهمام: والاستحباب یثبت بالضعيف غير الموضوع۔‘‘(۱۱)
ويعمل بالضعيف أيضا فى الأحكام إذا كان فيه احتياط۔ (۱۲)
یعنی ضعیف حدیث جو موضوع نہ ہوامرمندوب کے اثبات کے لئے کافی ہے، اور احتیاط کے موقع پر احکام میں بھی اس کا ااعتبار کیا جائے گا، (احادیث ضعیفہ کے معتبر ہونے کےشرائط آگے آرہے ہیں)۔
البتہ حدیث موضوع کا اعتبار نہ فضائل میں ہے نہ احکام ومسائل میں، بلکہ اس کا نقل کرنا اور بیان کرنا بھی جائز نہیں، الا یہ کہ ساتھ ہی اس کی تردید بھی کردی جائے، چنانچہ علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں:
أما الموضوع فلا يجوز العمل به بحال ولا روایتہ إلا إذا قرن ببيانه ولو فی فضائل الأعمال۔ (۱۳)
احادیث ضعیفہ کے باب حضرات شوافع کا مسلک
حضرت شوافع کامسلک بھی یہ ہے کہ احادیث ضعیفہ احکام ومسائل میںتو معتبر نہیں، لیکن ترغیب وترہیب اور فضائل اعمال میں معتبر ہیں ، اور احکام میں بھی تنزّہ و استحباب کے باب میں احادیث ضعیفہ معتبر ہیں، یعنی مکروہ و مندوب کے اثبات کے لئے علماء شوافع نے بھی احادیث ضعیفہ کو کافی سمجھا ہے۔
نیز حضرت امام شافعی ؒجن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ حدیث مرسل کی حجیت کے قائل نہیں، لیکن کسی مسئلہ میں صحیح حدیث نہ ہونے کی صورت میں وہ بھی حدیث مرسل کو حجت مانتے ہیں، حضرات شوافع کے چند علماء محققین ومحدثین کی تصریحات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔حضرت امام نوویؒ شرح مہذب کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’إنما يجوز الاحتجاج من الحديث في الأحكام بالحديث الصحيح أو الحسن، وأما الضعيف فلا یجوز الاحتجاج به فی الأحكام والعقائد، وتجوز روايته والعمل به في غير الأحکام کالقصص وفضائل الاعمال والترغیب والترھیب۔‘‘(۱۴)
 یعنی عقائد و احکام میں تو حدیث صحیح اور حدیث حسن ہی سے استدلال کرنا درست ہے، جہاں تک تعلق حدیث ضعیف کا ہے تو احکام ومسائل اور عقائد کے باب میں تو ان سے استدلال کرنا درست نہیں، البتہ احکام کے علاوہ دوسرے موقعوں میںمثلاً ، قصص، فضائل اعمال، ترغیب وترہیب کے باب میں ضعیف حدیثوں کو بھی نقل کرنا جائز ہے۔
۲۔نیز تحریر فرماتے ہیں :
’’لکن الضعيف يعمل في فضائل الأعمال باتفاق العلماء۔‘‘(۱۵)
ترجمہ:  تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا۔
۳۔حضرت امام نوویؒ اپنی کتاب ’’التبیان فی آداب حملۃ القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
اعلم أن العلماء من أهل الحديث وغيرهم جوّزوا العمل بالضعيف في فضائل الأعمال۔(۱۶)
یعنی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لو کہ علماء اہل حدیث اور اس کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی فضائل اعمال میں ضعیف حدیثوں پر عمل کو جائز قرار دیا ہے ۔
۴۔حضرت امام نوویؒ اپنی کتاب ’’کتاب الاذکار‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب  بالحديث الضعيف مالم يكن موضوعاً ۔۔۔۔ إلى أن قال : إذا  ورد حديث ضعيف بكراهة بعض البيوع أو الأنكحة فإن المستحب أن ينزّه عنہ ولكن لا يجب۔(۱۷)
ترجمہ: فقہاء ومحدثین اور دوسرے علمائے محققین حضرات نے بھی فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کے باب میں ضعیف حدیثوں پر عمل کو جائز اور مستحب قرار دیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ حدیث موضوع نہ ہو، بلکہ بیوع اور نکاح کے باب میں اگر کوئی ایسی ضعیف حدیث پائی جاتی ہو جس سے کسی خاص صورت کی کراہت ثابت ہوتی ہو تو مستحب یہی ہے کہ اس سے بھی پر ہیز کیا جائے ، گو اس سے بچنا واجب نہ ہو۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ تحریرفرماتے ہیں:
’’ويعمل بالضعيف أيضا فى الأحكام إذا كان فيه احتياط۔‘‘(۱۸)
یعنی احتیاط کے موقعوں میں احکام میں بھی ضعیف حدیثوں پر عمل کیا جائے گا۔
نیزاپنی کتاب ’’اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
والحديث الضعيف لا يدفع وإن لم يحتج به، ورب حديث ضعیف الإسناد صحیح المعنی۔ (۱۹)
یعنی حدیث ضعیف گو(احکام میں) قابل احتجاج نہ ہو، لیکن پھر بھی اس کو رد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بہت سی ضعیف الاسناد حدیثیں معنی و مفہوم کے لحاظ سے بالکل درست ہوتی ہیں ۔
حضرات مالکیہ کا مسلک
۱۔علماء مالکیہ میں سے علامہ ابن العربی مالکیؒ نے اگر چہ علی االا طلاق احادیث ضعیفہ کے مقتضی پر عمل کرنے سے منع کیا  ہے، گو اس کاتعلق فضائل اعمال ہی سے کیوں نہ ہو، چنا نچہ فتح الملہم شرح مسلم میں علامہ شبیر احمد عثمانی نقل فرماتے ہیں:
و منع ابن العربي المالكي العمل بالضعيف مطلقاً۔(۲۰)
ترجمہ: ابن عربی نے ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو مطلقاً منع فرمایا ہے ۔
لیکن دوسرے علماء مالکیہ نے اس کو تسلیم نہیں کیا ،چنانچہ علامہ ابن قیمؒ نے تمام ائمہ سے (جس میں حضرت امام مالک بھی شامل ہیں) نقل فرمایا ہے کہ حدیث ضعیف معتبر ہے، اور اس کو قیاس پر مقدم کیا جائے گا، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ليس أحد من الأئمة إلا  وقد قدّم الحديث الضعيف على القياس۔‘‘(۲۱)
یعنی بغیر کسی استشناء کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ حدیث ضعیف کو قیاس پر مقدم رکھا جائے گا۔
نیز علامہ ابن قیم ؒنے امام مالک کے حوالہ سے صراحتاً نقل فرمایا ہے کہ ان کے نزدیک حدیث مرسل، حدیث منقطع اور بلاغات و اقوال صحابہ سب قیاس پر مقدم رکھے جائیں گے، یعنی ان کے ہوتے ہوئے قیاس کی گنجائش نہیں، چنانچہ فرماتے ہیں :
’’وأما مالك فإنه يقدم الحديث المرسل والمنقطع والبلاغات وأقوال الصحابي على القياس۔‘‘(۲۲)
ترجمہ: جہاں تک تعلق امام مالک ؒ کا ہے تو وہ تو حدیث مرسل ، منقطع ، بلاغات اور اقوال صحابہ کو بھی قیاس پر مقدم رکھتے ہیں۔
۲۔نیز علامہ ابن عبد البر مالکی اپنی کتاب ’’التمہید‘‘ میں حدیث ’’ھلاک  أمتي فى ثلاث : في القدرية، والعصبية ، والرواية عن غير ثبت‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
’’والحديث الضعيف لا يدفع وإن لم يحتج به، ورب حدیث ضعیف الإسناد صحیح المعنى۔۔۔۔انتھی۔‘‘(۲۳)
یعنی حدیث ضعیف گو قابل احتجاج نہ ہو، لیکن اس کو بھی رد نہیں کیا جائے گا (بلکہ قبول کیا جائے گا) کیوں کہ بہت سی حدیثیں سنداً ضعیف ہوتی ہیں، لیکن معناًصحیح ہوتی ہیں۔
الغرض مالکی مسلک میں بھی احادیث ضعیفہ قابل قبول وقابل اعتبار ہیں۔
حنابلہ کا مسلک
۱۔ائمہ ثلاثہ کی طرح حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے بھی یہی اصول اختیار فرمایا ہے کہ کسی مسئلہ میں حدیث صحیح نہ ہونے کی صورت میں حدیث مرسل اور حدیث ضعیف کا اعتبار کیا جائے گا، اور قیاس ورائے کے مقابلہ میں حدیث ضعیف اور حدیث مرسل کو ترجیح حاصل ہو گی، چنانچہ علامہ ابن قیم ؒ تحریر فرماتے ہیں :
الأصل الرابع من أصول الإمام أحمد التى هى عليها فتاواه: الأخذ بالمرسل والحديث الضعيف إذا لم یكن فى الباب شئ يدفعه، وهو الذى رجحہ  على القياس۔(۲۴)
یعنی امام احمد بن حنبل ؒ کے اصول جن پر ان کے فتاویٰ کی بنیاد ہے ان میں چوتھی اصل یہ ہے کہ :
’’کسی مسئلہ میں حدیث صحیح نہ ہونے کی صورت میں حدیث مرسل اور حدیث ضعیف کو اختیار کیا جائے، اور حدیث ضعیف و مرسل کو قیاس پر راجح قرار دیا جائے۔‘‘
۲۔ٹھیک یہی بات تقریباً اسی عبارت سے شیخ ابو زہرہ نے بھی امام احمد کے حوالہ سے نقل فرمائی ہے:
’’الأصل الرابع الأخذ بالمرسل والحديث الضعيف۔‘‘(۲۵)
۳۔شیخ الا سلام علامہ ابن تیمیہ نے اصولی طور پر حضرت امام احمد بن جنبل ؒ کا مقولہ نقل فرمایا ہے :
’’إذا جاء الحلال والحرام شدّدنا في الأسانيد، وإذا جاء الترغيب والترهيب  تساھلنا فی الأسانید۔‘‘(۲۶)
            یعنی جب مسئلہ حلال و حرام کا آتا ہے تو ہم حدیثوں کی سندوں میں زیادہ احتیاط برتتے ہیں، اور تشدّد سے کام لیتے ہیں، اور جب کوئی حدیث ترغیب و ترہیب سے متعلق ہوتی ہے تو اس میں ہم نرمی اختیار کرتے، اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔
۴۔علامہ سخاویؒ ’’القول البدیع‘‘ میں حضرت امام احمدبن جنبلؒ کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں:
وعن أحمد أنه يعمل بالضعيف إذا لم يوجد غيرہ ولم يكن ثم ما يعارضہ ، وفي رواية عنه: ضعيف الحديث عندنا أحب من رأى الرجال-(۲۷)
یعنی صحیح اور معارض حدیث نہ پائے جانے کی صورت میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا، اور ایک روایت میں ان سے منقول ہے کہ ہمارے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل کر نا قیاس ورائے پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ، ابن قیمؒ، علامہ سخاویؒ اور شیخ ابوزھرہؒ کی مذکورہ بالا تصریحات کی بنا پر یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حضرات حنابلہ کے یہاں بھی احادیث ضعیفہ معتبر ہیں، اور ترغیب و ترہیب یعنی فضائل اعمال سے متعلق احادیث ضعیفہ میں وہ بھی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں، اور احکام سے متعلقہ احادیث میں بھی وہ احادیث ضعیفہ کو قیاس ورائے پر ترجیح دیتے ہیں۔
 شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒکا موقف
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے احادیث ضعیفہ کے متعلق اپنے فتاوی میں تفصیلی کلام فرمایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ :
حلال و حرام یعنی احکام سے متعلقہ احادیث میں تو تشدد یعنی بہت احتیاط سے کام لیا جائے گا، اور ترغیب و ترہیب یعنی فضائل سے متعلقہ احادیث میں مساہلت یعنی نرمی اور چشم پوشی سے کام لیا جائے گا،اور فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ کا بھی اعتبار کیا جائے گا، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ احادیث ضعیفہ سےکسی عمل یا اس کی کمیت اور کیفیت کو ثابت کیا جائے، یا ثواب و عقاب کی مقدار اور نوعیت کو ثابت کیا جائے، یعنی حدیث ضعیف سے ان امور کو ثابت نہیں کیا جا سکتا ، (احادیث ضعیفہ سے مستحب عمل کے اثبات کا بھی علامہ ابن تیمیہؒ نےانکار فرمایا ہے) البتہ ثابت شدہ عمل یعنی جو عمل دوسرے دلائل شرعیہ سے یا عمومات سے ثابت ہو اس ثابت شدہ عمل میں ترغیب و ترہیب اور فضائل کے سلسلہ میں احادیث ضعیفہ کا اعتبار کیا جائے گا۔
یہ علامہ ابن تیمیہؒ کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے جس کو انہوں نے تفصیل سے مثالوں کی وضاحت کے ساتھ اپنے فتاوی میں تحریر فرمایا ہے، مختصر عبارت درج ذیل ہے :
قال أحمدؒ: إذا جاء الحلال  والحرام شدّدنا فى الأسانيد وإذا جاء الترغيب والترهيب تساھلنا في الأسانيد، وكذلك ما عليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف  في فضائل الأعمال، ليس معناه إثبات الاستحباب بالحديث الذى لا يحتج به ، فإن الاستحباب حكم شرعي فلا يثبت إلا بدلیل شرعی۔۔۔۔۔إلى أن قال: فإذا روى حديث في فضل بعض الأعمال المستحبة وثوابها وكراهة بعض الأعمال وعقابها فبمقادير الثواب والعقاب وأنوعه اذا ر وى فيه حديث لا نعلم أنه موضوع جازت روايته والعمل به بمعنى أن النفس ترجو ذلك الثواب أو تخاف ذلك العقاب۔
فالحاصل أن هذا الباب يروى ويعمل به فى الترغيب والترهيب لا في الاستحباب ثم اعتقاد موجبه وهو مقادير الثواب والعقاب يتوقف على الدليل الشرعي۔(۲۸ )
امام بخاری، امام ترمذی، امام بیہقی اور امام دار قطنی رحمہم اللہ تعالیٰ کا طرز عمل
حافظ ابن حجر، ملا علی قاری، علامہ شوکانی، علامہ مبارکپوری اور دیگر شرّاح حدیث کی تصریحات کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ائمہ مجتہدین کےعلاوہ حضرات محدثین، سلف صالحین حضرت امام بخاری، امام ترمذی، امام بیہقی، امام دار قطنی رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی احادیث ضعیفہ، غریبہ، مرسلہ، مقطوعہ کا فضائل میں اور بعض موقعوں میں احکام میں بھی اعتبار کیا ہے، خصوصاً جب کہ اس حدیث کے شواہد اور مؤیدات ومتابع پائے جاتے ہوں، اور شرائط ثلاثہ پائے جانے کی صورت میں تو احکام میں بھی ضعیف حدیثوں کا اعتبار کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں چند محدثین کی تصریحات ملاحظہ ہوں:
 حضرت امام بخاریؒ کا طرز عمل
فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کے باب میں احادیث ضعیفہ کی قبولیت کے تعلق سے جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا جو مسلک نقل کیا گیا حضرت امام بخاریؒ کا مسلک بھی اس کے مطابق ہے، یعنی امام بخاریؒ کے نزدیک بھی فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ کا اعتبار کیا جائے گا، جس کی واضح دلیل حضرت امام بخاریؒ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ ہے، جس میں امام بخاریؒ نے بڑی تعداد میں متکلم فیہ راویوں کی ضعیف روایتوں کو ذکر کیا ہے۔
شیخ علامہ فضل اللہ جیلانی ؒ نے ’’الادب المفرد‘‘ کی شرح ’’فضل اللہ الصمد‘‘ میں الادب المفردمیں ذکر کردہ حدیثوں کی سند اور ان کے رواۃ کا جائزہ لیا تو تقریب التہذیب کی بنیاد پر متکلم فیہ راویوں کی تعداد پچاس سے متجاوز ہے جس میں متکلم فیہ رواۃ کی تعداد ۲۲ اور مجہولین کی تعداد ۲۸ تحریر فرمائی ہے۔   (۲۹)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ کا مسلک بھی ضعیف احادیث کے سلسلہ میں جمہور محدثین کے مسلک کے مطابق ہے کہ فضائل اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث کا اعتبار کیا جائے گا۔
اسی وجہ سے شیخ عبد الفتاح ابو غدہ پورے وثوق سے تحریر فرماتے ہیں:
’’أقول: وہو مذہب البخاریؒ أیضاً فإنہ أتی منہا بکثیر فی کتابہ الأدب المفرد۔‘‘ (۳۰)
اس کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ خود بخاری شریف میں بھی متعد روایتیں ایسی ہیں جن کے رواۃ متکلم فیہ اور ضعیف ہیں،جس کی وجہ سے وہ روایت بھی ضعیف ہے، لیکن حافظ ابن حجرؒ کی تصریح کے مطابق چونکہ وہ حدیثیں ترغیب وترہیب اور فضائل سے تعلق رکھتی ہیں، اس لئے امام بخاریؒ نے ا س طرح تشدد سے کام نہیں لیا جیسا کہ احکام کے سلسلہ کی احادیث میں تشدد کیا ہے۔
ضعیف روایت کے اخذ وقبول کے سلسلہ میں حضرت امام ترمذیؒ کا مسلک
حضرت امام ترمذیؒ کی کتاب العلل نیز جامع ترمذی کو دیکھنے سے یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ضعیف اور متہم راوی کی روایت کے اخذ و قبول کے سلسلہ میں امام ترمذیؒ کا مسلک بھی وہی ہے جو جمہور محدثین کا ہے، حضرت امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ سوء حفظ اور کثرت خطاء کی وجہ سے ضعیف اور متکلم فیہ راوی کسی حدیث کے نقل کرنے میں اگر منفرد ہے، اور کوئی دوسرا اس کا متابع نہیں ہے تب تو اس کی روایت قابل قبول اور قابل احتجاج نہیں ہوگی، ورنہ قبول ہوگی، جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اس کی صراحت کی ہے ، مثلاً ابن ابی لیلیٰؒ کے متعلق فرمایا ’’لا یحتج بہ‘‘ کہ اس کی حدیث قابل قبول نہیں جبکہ نقل حدیث میں وہ منفرد ہو۔
 یہ خلاصہ ہے امام ترمذیؒ کی عبارت کا، عبارت درج ذیل ہے:
’’قال الإمام الترمذیؒ فی کتاب العلل: وکذلک من تکلم من أہل العلم فی مجالد بن سعید وعبداللہ بن لھیعۃ وغیرہما، إنما تکلموا فیہم من قبل حفظہم وکثرۃ خطئہم، وقد روی عنہم غیر واحد من الأئمۃ، فإذا تفرد أحد من ھؤلاء بحدیث ولم یتابع علیہ لم یحتج بہ، کما قال أحمد بن حنبلؒ: ابن أبی لیلیٰؒ لا یحتج بہ، إنما عنیٰ إذا تفرد بالشئی۔‘‘(۳۱)
مطلب یہ کہ ضعیف راوی نقل روایت میں اگر منفرد ہے تب تو اس کی روایت قابل قبول نہ ہوگی، لیکن اگر اس کے دوسرے متابع موجود ہوں اور وہ روایت متعدد طرق سے مروی ہو تو قابل قبول ہوگی۔
اور یہی راز ہے اس بات کا کہ بہت سے راویوں پر سوء حفظ اور کثرت خطاء کے سبب کلام کیا گیا ہے، بعض کو کذّاب اور ضال ومضل تک کہا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں ائمہ حدیث نے ایسے راویوں کی روایت کو بھی لیا ہے، مثلاً حضرت حسن بصریؒ نے معبد جہنی کو ضال ومضل تک کہا ہے، امام شعبیؒ نے حارث اعور کو کذّاب کہا ہے، لیکن اس کے بعد پھر ان کی روایت کو قبول بھی کیا ہے، جیسا کہ امام ترمذیؒ نے کتاب العلل میں اسکی تصریح فرمائی ہے ۔
امام بیہقی، امام دار قطنی بھی احادیث ضعیفہ کو تعدد طرق اور کثرت سند کی بنا پر قبول کرتے ہیں
امام ترمذی ؒ نے ’’باب ما جاء فی سؤر الھرۃ‘‘ کے تحت حضرت ابو قتادہؓ کی روایت نقل فرمائی ہے اس کی شرح میں علامہ مبارکپوریؒ نے علامہ شوکانیؒ کے حوالہ سے تفصیلی کلام فرمایا ہے، باب سے متعلق کئی حدیثوں کو بھی نقل فرمایا ہے، اور امام شافعی، امام دار قطنی اور امام بیہقی کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ ضعیف حدیث کی اگر متعدد سندیں ہوں تو کثرت طرق کی بنا پر وہ ضعیف حدیث بھی قوی اور مضبوط ہو جاتی ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
’’أخرج الشافعی والدار قطنی والبیہقی فی المعرفۃ، وقال: لہ أسانید إذا ضم بعضھا إلی بعض کانت قویۃ۔۔۔۔۔۔انتھی ما فی النیل۔‘‘(۳۲)
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ امام بیہقی اور امام دار قطنی کے نزدیک بھی ضعیف حدیث تعدّد ِطُرق کی بنا پر قوی اور مضبوط ہو جاتی ہے۔
امام شعبیؒ اور حسن بصریؒ نے بھی ضعیف اور غیر ثقہ راویوں کی روایت کو قرائن کی بنا پر قبول کیا ہے
سابقہ تفصیل سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ ضعیف اور غیر ثقہ راوی کی ضعیف روایتوں کو شواہد وقرائن اور تعدّد طرق کی بنا پر قبول کر لیا جاتا ہے، ائمہ اربعہ (حضرت امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ)، امام بخاری، امام ترمذی، امام بیہقی اور دیگر حضرات محدثین نے بھی شواہد و قرائن اور مویدات ومتابعات کی بنا پر احادیث ضعیفہ کا اعتبار کیا ہے، ائمہ اربعہ اور حضرات محدثین سے پہلے جلیل القدر تابعی حضر ت حسن بصری اور امام شعبی جیسے حضرات محدثین کے طرز عمل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی ضعیف اور غیر ثقہ، بلکہ ضال (گمراہ) راوی کی روایت کو جب کہ صحت وقبولیت کے دوسرے قرائن پائے جائیں، اور دل اس کی صداقت کی شہادت بھی دیتا ہو تو ایسے غیر ثقہ راویوں کی روایت کو بھی قبول کیا ہے۔
مثال کے طور پر ’’معبد الجہنی‘‘ راوی کے متعلق حضرت حسن بصریؒ نے سخت کلام فرمایا ہے، اس کو ضالّ ومضلّ تک فرمایا ہے، اور اس سے دور رہنے کی ہدایت بھی فرمائی ہے، بعض شرّاح حدیث نے فرمایا کہ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے تقدیر کا انکار کیا، چنانچہ مسلم شریف کی روایت میں ہے:
کان أول من قال فی القدر بالبصرۃ معبد الجھنی۔(۳۳)
لیکن ان سب کے باوجود حضرت حسن بصریؒ نے اس کی روایت کو قبول کیا ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ نے ’’کتاب العلل‘‘ میں اس کی صراحت فرمائی ہے:
’’۔۔۔۔۔۔۔عبد العزیز عطار حدثنی أبی وعمی قال سمعنا الحسن یقول: إیاکم ومعبد الجھنی، فإنہ ضالّ ومضلّ۔۔۔۔۔۔قد تکلم الحسن البصری فی معبد الجھنی، ثم روی عنہ۔(۳۴)
اسی طرح امام شعبی نے باوجود یکہ حارث اعور راوی کو کذّاب تک کہا، لیکن اس سے روایت بھی لی ہے، بلکہ اس سے علم الفرائض بھی حاصل کیا ہے، چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں:
قال أبو عیسیؒ: ویروی عن الشعبی قال: فالحارث الأعور وکان کذّابا، وقد حدث عنہ۔۔۔۔۔۔۔قال الشعبی: الحارث الأعور علّمنی الفرائض، وکان من أفرض الناس۔(۳۵)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ ضعیف اور غیر ثقہ راویوں سے مروی روایتوں کو قرائن وشواہد اور متابع ومؤیدات کی بنا پر (جب کہ دل مطمئن ہو) قبول کرنے اور ان کی روایت کو نقل کرنے کا سلسلہ حسن بصری اور امام شعبی (یعنی خیر القرون) کے وقت سے چلا آرہا ہے، اسی کو ہمارے ائمہ اربعہ اور حضرات محدثین وسلف صالحین نے بھی اختیار کیا ہے، واللہ اعلم۔
علماء غیر مقلدین علامہ شوکانیؒ وعلامہ مبارکپوریؒ کے نزدیک بھی احادیث ضعیفہ کثرت طرق وشواہد کی بنا پر معتبر اور قابل قبول ہوتی ہیں
امام ترمذی ؒ نے ’’باب ما جاء فی ترک الوضوء من القبلۃ‘‘ کے تحت یہ حدیث نقل فرمائی ہے:
’’أن النبیﷺ قبّل بعض نسائہ، ثم خرج إلی الصلوٰۃ ولم یتوضأ۔‘‘(۳۶)
امام ترمذی ؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے اس حدیث کو اس کی سند صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا یعنی قبول نہیں کیا، امام ترمذی ؒ کی عبارت درج ذیل ہے:
’’إنما ترک أصحابنا حدیث عائشۃ عن النبیﷺ فی ھذا، لأنہ لا یصح عندھم لحال الإسناد۔‘‘(۳۷)
اس کی شرح میں علامہ مبارکپوریؒ نے علامہ شوکانی ؒ کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے کہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن متعدد طرق سے مروی ہے، کثرت طرق کی وجہ سے اس حدیث کے ضعف کا انجبار ہو جاتا ہے، لہٰذا یہ حدیث قابل عمل اور قابل احتجاج ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ کے قول : ’’لا یصح عندھم لحال الإسناد‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
فھو ضعیف، ولکن قال الشوکانی فی النیل: الضعیف منجبر بکثرۃ روایاتہ، وبحدیث لمس عائشۃ لبطن قدم النبیﷺ۔
 آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں:
لکن حدیث الباب مروی من طرق کثیرۃ، فالضعیف منجبر بکثرۃ الطرق ویؤیدہ أحادیث عائشۃ الأخری کما قد عرفت۔(۳۸)
علماء غیر مقلدین کے نزدیک بھی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہونے کی دوسری مثال
امام ترمذی ؒ نے اپنی جامع میں باب منعقد کیا ہے: ’’باب فی فضل التکبیرۃ الأولیٰ‘‘ اور اس باب کے تحت حضرت انس ؒ کی موقوف روایت نقل فرمائی ہے۔
 اس حدیث پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے امام ترمذی ؒ اخیر میں تحریر فرماتے ہیں:
ھذا حدیث غیر محفوظ، وھو حدیث مرسل۔(۳۹)
یعنی یہ حدیث مرسل اور غیر محفوظ ہے۔
ملا علی قاریؒ، حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع السند ہے، لیکن چونکہ فضائل اعمال سے متعلق ہے، لہٰذا اس کو قبول کیا جائے گا، اور اس پر عمل کیا جائے گا، یہ پوری تفصیل علامہ مبارکپوریؒ نے نقل فرمائی ہے، عبارت درج ذیل ہے:
قال القاریؒ: ومثل ھذا ما یقال من قبل الرأی، فموقوفۃ فی حکم المرفوع۔قال ابن حجرؒ: رواہ الترمذی بسند منقطع، ومع ذلک یعمل بہ فی فضائل الأعمال۔(۴۰)
اس سے معلوم ہوا کہ علماء غیر مقلدین علامہ شوکانیؒ اور علامہ مبارکپوریؒ کے نزدیک بھی فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ ومقطوعہ معتبر اور قابل عمل وقابل قبول ہیں، واللہ اعلم۔
علامہ شوکانیؒ اور علامہ مبارکپوریؒ کا موقف
 علامہ شوکانیؒ کی نیل الاوطار اور علامہ مبارکپوریؒ کی تحفۃ الاحوذی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات (جو غیر مقلدین کے بڑے عالم اور پیشواء سمجھے جاتے ہیں) بھی جمہور کے مسلک ہی کو اختیار فرماتے ہیں، اور حدیث ضعیف اگر متعدّد طرق سے مروی ہوتو تعدد طرق اور کثرت رواۃ کی بناپر نہ صرف فضائل میں بلکہ احکام ومسائل میں بھی قبول کرتے ہیں، جیسا کہ درج ذیل مثالوں سے واضح ہوتا ہے:
(۱)مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کے متعلق علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ کی اکثر روایتیں اگر چہ ضعیف ہیں، لیکن مجموعۂ روایات کی بنا پرا س میں قوت پیدا ہوگئی اس لئے یہ قابل قبول ہوگی خصوصاً فضائل اعمال میں، علامہ شوکانیؒ کی عبارت درج ذیل ہے:
’’والآیات والأحادیث المذکورۃ فی ما تدل علی مشروعیۃ الاستکثار من الصلاۃ بین المغرب والعشاء، والأحادیث وإن کان أکثرہا ضعیفاً فہی منتہضۃ بمجموعہا لا سیما فی فضائل الأعمال۔‘‘(۴۱)
اس سے معلوم ہوا کہ فضائل اعمال میں علامہ شوکانیؒ بھی ضعیف حدیثوں کا اعتبار کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیر مقلدین کے بڑے علماء علامہ شوکانیؒ، علامہ مبارکپوریؒ وغیرہ بھی نہ صرف فضائل اعمال بلکہ احکام میں بھی احادیث ضعیفہ کا اعتبار کرتے اور قبول کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہوا۔
شیخ ابن بازؒ وغیرہ کا موقف
احادیث ضعیفہ کے تعلق سے ما قبل میں جمہور فقہاء مجتہدین ومحدثین کا مسلک ذکر کیا گیا، اسی مسلک کو سعودی عرب کے علماء وفقہاء شیخ ابن بازؒ وغیرہ نے بھی اختیار فرمایا، اور اسی کے مطابق فتویٰ دیا ہے، سعودی حکومت کی ماتحتی میں منتخب علماء کی زیر نگرانی متفقہ رائے سے ان کے دستخط کے ساتھ جو فتاویٰ شائع ہوتے اور عالم اسلام کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں ان میں واضح طور پر یہ فتویٰ صادر کیا گیا ہے کہ:
احادیث ضعیفہ فضائل میں معتبر ہیں، اور احکام ومسائل میں بھی معتبر ہیں جب کہ اس کے شرائط پائے جائیں مثلاً یہ کہ
(۱)اس کا ضعف شدید نہ ہو
(۲)اس کے شواہد ومتابعات موجود ہوں، یا وہ روایت متعدد طرق سے مروی ہو
(۳)یا وہ قواعد شرعیہ کے مطابق اور اس سے متأید ہو
(۴) کسی صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو،
ان شرائط کے پائے جانے کی صورت میں یہ ضعیف حدیث بھی قابل قبول اور حسن لغیرہ کا درجہ رکھتی ہے، جو ان احادیث کی چوتھی قسم میں شمار کی جاتی ہے جن کو حجت سمجھا جاتا اور جن سے استدلال کیا جاتا ہے، ایسی صورت میں احکام میں بھی حدیث ضعیف معتبر اور حجت سمجھی جائے گی، یہ خلاصہ ہے شیخ ابن بازؒ کے اس فتوے کا جو سعودی حکومت کے دارالافتاء سے معتمد علماء کی متفقہ رائے سے شائع کیا گیا ہے، ونصہ ھذا:
’’السوال الرابع من الفتویٰ رقم (۵۱۵۸): ہل یجوز العمل بالحدیث الضعیف
الجواب: یجوز العمل بہ إن لم یشتدّ ضعفہ، وکان لہ من الشواہد ما یجبر ضعفہ، أو کان معہ من القواعد الشرعیۃ الثابتۃ ما یؤیدہ، مع مراعاۃ عدم مخالفتہ لحدیث صحیح، وہو بذلک یکون من قبیل الحسن لغیرہ وہو حجۃ عند أہل العلم۔
السوال الثالث من الفتویٰ رقم (۹۱۰۵): ہل صحیح أن الحدیث الضعیف لا یؤخذ بہ إلا فی فضائل الأعمال أما الأحکام فلا یؤخذ بہ فیہا؟
الجواب: أولاً: یؤخذ بالحدیث الضعیف فی فضائل الأعمال إذا لم یشتدّ ضعفہ، وثبت أنہا من فضائل الأعمال فی الجملۃ، وجاء الحدیث الضعیف فی تفاصیلہا۔
ثانیاً: یعمل بالحدیث الضعیف فی إثبات الأحکام إذا قوی بحدیث آخر بمعناہ، أو تعددت طرقہ، فاشتہر أنہ یکون من قبیل الحسن لغیرہ، وہو القسم الرابع من اقسام الأحادیث التی یحتج بہا۔‘‘(۴۲)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا موقف
 حدیث ضعیف اور مرسل کے تعلق سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی جمہور فقہاء ومحدثین سے ہٹ کر کوئی دوسرا موقف نہیں اختیار فرمایا، بلکہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں واضح طور پر تحریر فرمایا ہے کہ حدیث مرسل اسی طرح ایسے ضعیف راوی کی حدیث جو قاصر الضبط یا مجہول الحال غیر متہم ہو اس کے متعلق مختار قول اور پسندیدہ بات یہی ہے کہ دوسرے قرائن کی وجہ سے وہ ضعیف روایت قابل قبول ہوگی، مثلاً یہ کہ اس ضعیف روایت کا قیاس صحیح کے مطابق ہونا، یا اس کی تائید میں آثار صحابہ یا دوسری مرسل یا مسند ضعیف حدیث کا پایاجانا یا اکثر اہل علم کا اس کے مطابق عمل ہونا وغیرہ، ان آثار وقرائن کے پائے جانے کی صورت میں ایسے ضعیف راوی کی ضعیف روایت اسی طرح مرسل روایت بھی مقبول اور قابل استدلال ہوگی، حضرت شاہ صاحب کی عبارت درج ذیل ہے، جس کا خلاصہ اوپر مذکور ہوا۔
’’والمرسل إن اقترن بقرینۃ مثل أن یعتضد بموقوف صحابی أو مسندہ الضعیف أو مرسل غیرہ والشیوخ متغائرۃ، أو قول أکثر أہل العلم، أو قیاس صحیح، أو إیماء من نص، أو عرف أنہ لا یرسل إلا عن عدل صح الاحتجاج بہ۔
وکذلک الحدیث الذی یرویہ قاصر الضبط غیر متھم أو مجہول الحال، المختار أنہ، یقبل إن اقترن بقرینۃ مثل موافقۃ القیاس أو عمل أکثر أہل العلم وإلا لا۔‘‘(۴۳)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ شرائط وقرائن پائے جانے کی صورت میں حدیث ضعیف وحدیث مرسل بھی قابل قبول ہوتی ہے، ان سب کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(۱) اس حدیث کا قیاس صحیح کے موافق ہونا۔
(۲) اکثر اہل علم کا قول اس کے مطابق ہونا۔
(۳)آثار صحابہ سے حدیث ضعیف یا حدیث مرسل کی تائید ہونا۔
(۴) حدیث ضعیف کے موافق دوسری مسند ضعیف حدیث کا پایا جانا جو دوسرے طریق سے مروی ہو۔
(۵) کسی نص سے اس کی تائید واشارہ کا پایا جانا۔
(۶) حدیث ضعیف کا متعدد طرق سے مروی ہونا۔
خلاصۂ کلام
مذکورہ بالا تفصیلات نیز جمہور فقہاء ومحدثین اور ائمہ مجتہدین کی تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک سلیم الطبع منصف ادنیٰ علم وفہم رکھنے والا شخص بھی بآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ فقہاء مجتہدین اور دعاۃ ومبلغین کی ذکر کردہ روایتوں پر جو حضرات نقدکرتے اور ان کے مصنفین پر طعن وتشنیع کرتے ہیں، حالانکہ وہ روایتیں متعدد طرق سے مروی ہیں، ان کے متابعات وشواہد بھی موجود ہیں، یا وہ روایتیں جو قیاس کے مطابق ہیں، یا فضائل اعمال سے ان کا تعلق ہے، ان پر اعتراض کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین اور دعاۃ ومبلغین پر اعتراض کرنا جب کہ ان کی ذکر کردہ روایتیں جن کو ضعیف کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اس بنا پر ایسی کتابوں اور ان کے مصنفین پر نقد کیا جاتا ہے، اگروہ حدیثیں محتف بالقرائن ہوں، یعنی قرائن وشواہد سے مؤید ہوں، اور قبولیت کے دوسرے شرائط بھی پائے جاتے ہوں، اس کے بعد بھی ان پر اعتراض کرنا محض تعصب وعناد اور حدیثوں سے انتہائی نا واقفیت اور جہالت کی بنا پر ہی ہوسکتا ہے،ان پر اعتراض کرنا دراصل جمہور فقہاء و محدثین اور ائمہ مجتہدین نیز علامہ ابن تیمیۃؒ، ابن قیمؒ، امام بخاریؒ، امام ترمذیؒ ، علامہ شوکانیؒ، علامہ مبارکپوریؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ جیسے محدثین ومحققین پر اعتراض کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
حواشی:
۱۔مقدمہ مشکوۃ للشیخ عبد الحق الدہلویؒ، صفحہ۶مصنف: شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، ناشر: آئی ایم اے پرنٹرس دہلی، سن طباعت ۲۰۱۵؁ء
۲۔مقدمہ فتح المہلم شرح صحیح مسلم،ج۱،ص:۱۴۷، مصنف: علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، ناشر: دارالضیاء بیروت، سن طباعت: ۲۰۰۶؁ء
۳۔اعلام الموقعين، الفصل الرابع: الاخذ بالمرسل والحدیث الضعیف، جلد۱، صفحہ ۳۱ مصنف: علامہ ابن القیمؒ، ناشر: دار ابن الجوزی جدہ سعودی عربی، سن طباعت: رجب ۱۴۲۳؁ھ
۴۔اعلام الموقعين، الفصل الرابع: الأخذ بالمرسل والحدیث الضعیف، جلد۱، صفحہ ۶۷
۵۔ قواعد في علوم الحديث، صفحہ۵۸، ابطال القیاس لابن حزم، صفحہ ۶۸،نوادر الحديث للشیخ محمد یونس الجونفوری، صفحہ ۱۶۶
۶۔مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۱، صفحہ ۴۱،مصنف حضرت ملا علی قاریؒ، ناشر ادارہ فیصل دیوبند، سن طباعت ۲۰۱۶؁ء
۷۔مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلوٰۃ، باب السنن وفضائلھا، ج ۳، ص: ۲۲۶
۸۔مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلوٰۃ، باب قیام شھر رمضان، جلد ۳، صفحہ ۳۴۰
۹۔مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب العلم، جلد ۱، صفحہ ۴۰۸
۱۰۔مقدمہ مشکوۃ المصابیح للشیخ عبد الحق الدہلویؒ، صفحہ ۵،ملحقہ مشکوٰۃ المصابیح، مصنف: شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، ناشر: آئی ایم اے پرنٹرس دہلی، سن طباعت ۲۰۱۵؁ء
۱۱۔فتح القدير شرح ہدایہ، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی الصلوٰۃ علی المیت، جلد ۲، صفحہ۹۵،، مصنف علامہ ابن ہمام حنفیؒ، دار الکتب العلمیۃ بیروت، سن طباعت ۲۰۰۳؁ء، مقدمہ فتح الملہم شرح مسلم، جلد ۱، صفحہ ۱۵۳
۱۲۔مقدمہ فتح الملہم شرح مسلم، جلد ۱، صفحہ۱۵۳
۱۳۔رد المحتار علی الدر المختار، جلد ۱، صفحہ ۷۸،مطبوعہ دار الکتاب دیوبند، سن طباعت ۲۰۱۱؁ء
۱۴۔شرح مہذب، جلد۱، صفحہ ۵۹،منصف: ابو زکریا یحی بن شرف نوویؒ
۱۵۔شرح مہذب للنووی، جلد ۳، صفحہ ۱۲۲
۱۶۔التبیان فی آداب حملۃ القرآن، خطبۃ الکتاب، صفحہ ۸،منصف ابو زکریا یحی بن شرف نوویؒ، ناشردار المنہاج للنشر والتوزیع جدہ، سن طباعت ۲۰۱۱؁ء
۱۷۔مقدمہ کتاب الأذکار للنووی، صفحہ ۵،مصنف ابو زکریا یحی بن شرف نوویؒ، ناشردار المنہاج للنشر والتوزیع جدہ، سن طباعت ۲۰۰۵؁ء
۱۸۔تدريب الراوی فی شرح تقریب النواوی، جلد ۱، صفحہ ۲۹۹،مصنف:علامہ جلال الدین سیوطیؒ، ناشردار ابن الجوزی جدہ سعودی عرب، سن طباعت ۱۴۳۱؁ھ
۱۹۔اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، صفحہ ۷،مصنف علامہ جلال الدین سیوطی، ناشر دار المعرفۃ بیروت، سن طباعت ۲۰۱۱؁ء
۲۰۔فتح الملہم شرح مسلم، جلد ۱، صفحہ ۱۵۲
۲۱۔اعلام الموقعين، الفصل الرابع: الأخذ بالمرسل والحدیث الضعیف، جلد۱، صفحہ ۳۲،مصنف: علامہ ابن القیمؒ، ناشر: دار ابن الجوزی جدہ سعودی عربی، سن طباعت: رجب ۱۴۲۳؁ھ
۲۲۔اعلام الموقعين، الفصل الرابع: الأخذ بالمرسل والحدیث الضعیف، جلد۱، صفحہ ۳۱
۲۳۔التمھید، جلد ۱، صفحہ ۵۸
۲۴۔اعلام الموقعين، فصل الرابع: الأخذ بالمرسل والحدیث الضعیف، جلد۱، صفحہ ۳۱
۲۵۔تاریخ المذاہب الاسلامیۃ، فی ترجمۃ الامام أحمدؒ، صفحہ ۳۲۹،مصنف امام ابو زہرہ، ناشر دار الفکر قاہرہ، سن طباعت ۲۰۱۵؁ء
۲۶۔فتاوی ابن تیمیہ، جلد ۱۸، صفحہ ۶۵،شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ، ناشردار الوفاء قاہرہ مصر، سن طباعت طبع اول ۱۴۱۸؁ھ
۲۷۔القول البدیع، صفحہ ۱۹۵
۲۸۔فتاویٰ ابن تیمیہ، جلد ۱۸، صفحہ ۶۸
۲۹۔ملاحظہ ہو، فضل اللہ الصمد شرح الأدب المفرد، صفحہ ۱۸۴
۳۰۔الحدیث الضعیف حکمہ وفوائدہ، صفحہ۹۴
۳۱۔کتاب العلل للترمذی، صفحہ۵۴،ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذیؒ
۳۲۔تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی، أبواب الطھارۃ، جلد۱، صفحہ ۲۶۳،قاضی عبد الرحمن مبارکپوریؒ،
۳۳۔صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان، حدیث ۸،ابو حسین مسلم بن الحجاج القشیری النیشاپوریؒ، آئی ایم اے پرنٹرس دہلی، سن طباعت ۲۰۱۶؁ء
۳۴۔کتاب العلل للترمذی، تحفۃ الالمعی شرح ترمذی، جلد ۱، صفحہ ۱۵۳
۳۵۔کتاب العلل للترمذی، تحفۃ الالمعی شرح ترمذی، جلد ۱، صفحہ ۱۵۳
۳۶۔جامع ترمذی، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء فی ترک الوضوء من القبلۃ، حدیث ۸۶،امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذیؒ، ناشر: الطاف اینڈ سنز کراچی پاکستان، سن اشاعت: ۲۰۰۹؁ء
۳۷۔جامع ترمذی، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء فی ترک الوضوء من القبلۃ، حدیث ۸۶
۳۸۔تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی، أبواب الطھارۃ، جلد۱، صفحہ ۲۴۰
۳۹۔جامع ترمذی، أبواب الصلوٰۃ، باب فی فضل التکبیرۃ الأولیٰ، حدیث ۲۴۱
۴۰۔تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی، أبواب الصلوٰۃ، جلد۲، صفحہ ۴۰
۴۱۔نیل الأوطار للشوکانی، جلد ۳، صفحہ ۶۰
۴۲۔فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للجوث العلمیۃ والافتاء، صفحہ ۳۶۹، ۳۷۰،موسسۃ الامیریۃ سعودی عرب، سن طباعت ۱۴۲۰؁ھ
۴۳۔حجۃ اللہ البالغۃ باب القضاء فی الحدیث المختلفۃ ص۳۲۰، ج۱ مطبوعہ بیروت لبنان

Tags

Share this post: