اختلافی مسائل میں اعتدال اوراتحادکی راہ
مولانامحمد ظفر عالم ندوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنو
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امت مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہے جس امت کی تعلیمات میں اتحاد ملت اور اس کے نظام زندگی میں وحدت امت کو بنیادی حیثیت حاصل ہو وہ آج گروہی تصادم، مسلکی اختلاف، علاقائی ولسانی تفریق، برادری و خاندانی تقسیم میں بٹی ہوئی ہے، عام لوگوں کا کیا حال؟ خود علماء کا طبقہ مختلف قسم کے تحفظات کا شکار نظر آرہا ہے، اسکی ایک تعداد دین و مسلک اور فکر ونظر کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر تنقید و تبصرے میں مشغول نظر آتی ہے، خالص علمی اور تحقیقی بحثوں میں بھی ایک دوسرے پرناروا تنقید فراخ دلی سے ہوتی رہتی ہے ، تفسیق و تضلیل تو عام بات ہے تکفیر سے بھی باز نہیں آتی ، اہل علم و نظر کے درمیان اختلاف کی خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور اس اختلاف و انتشار کا خمیازہ پورا عالم اسلام بھگت رہا ہے۔ دوسری طرف مسلم قیادت فکری اضمحلال، سیاسی بے شعوری اور عملی انتشار کا شکار ہے جس کا نتیجہ ہے کہ دشمنان اسلام امت مسلمہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور ان کو بے وزن کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو رہے ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پورا عالم اسلام جن مشکلات سے دو چار ہے شاید اس سے قبل کی تاریخوں میں اس کی کوئی نظیر نہی ملتی، اہل نظر علماء اور ہمدرد ملی رہنما اس پہلو سے کافی فکرمند ہیں۔
اختلاف کا مفہوم
اختلاف کے مفہوم کو جاننے کے لئے سب سے پہلے ہم ماہر لغت امام راغب اصفہانی کی طرف رجوع کرتے ہیں موصوف فرماتے ہیں:
الاختلاف والمخالفة أن يأخذ كل واحد طريقاً غير طريق الآخر في حاله أو قولہ۔(۱)
اختلاف یہ ہے کہ ایک فریق کسی قول یا حالت میں وہ طریقہ اختیار کرے جو دوسرے فریق نے نہیں اختیار کیا ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف حالت و ہیئت میں بھی ہو سکتا ہے اور قول ورائے میں بھی۔
علامہ جر جانیؒ نے کتاب التعریفات میں اختلاف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ حق کے اثبات اور باطل کے ابطال ورد کے لئے دو فریقوں کے درمیان جو بحث و مباحثہ ہو اس کو اختلاف کہتے ہیں: موصوف کے الفاظ ہیں:
"منازعة تجري بين المتعارضين لتحقيق حق وابطال باطل” (۲ )
علامہ جر جانیؒ کی تعریف سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ اختلاف کسی قول، نظریہ اور عقیدہ میں بھی ہو سکتا ہے۔
علامہ ابو البقاء الکفویؒ نے کلیات میں یہ واضح کیا ہے کہ اختلاف خلاف سے جدا گانہ چیز ہے، اختلاف کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ فریقین کے طریقہ استدلال گو مختلف ہوں لیکن مقصود ایک ہو۔ اسی طرح اختلاف کے لئے ضروری ہے کہ اس پر کوئی دلیل ہو، خلاف میں طریقوں کے ساتھ مقصود بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور کوئی دلیل نہیں ہوتی ، اختلاف آثار رحمت میں سے ہے اور خلاف آثار بدعت میں ہے۔(۳)
خلاصہ یہ ہے کہ اختلاف اس کو کہتے ہیں جس میں فریقین کی غایت ایک ہو اور ذرائع و وسائل مختلف ہوں اور خلاف یہ ہے کہ وسائل اور مقاصد دونوں الگ الگ ہوں ۔
علامہ جرجانیؒ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کا اطلاق کلیات اور جزئیات دونوں طرح کے اختلافات پر ہوتا ہے، گویا اختلاف کے دائرہ میں وہ اختلافات بھی آئیں گے جن کا تعلق اصولی اور بنیادی احکام سے ہوگا اور وہ اختلافات بھی آئیں گے جن کا تعلق جزوی احکام و مسائل سے ہوگا۔
اختلاف کے انواع
اختلاف کے تمام گوشوں کا جائزہ لیں تو بنیادی طور پر اختلاف کی تین قسمیں سامنے آتی ہیں:
(۱) مذاہب و ادیان کا اختلاف جیسے: اسلام، یہودیت ، نصرانیت۔
(۲) عقائد کا اختلاف جیسے : قدریہ، جبریہ، جہمیہ، خوارج ، روافض وغیرہ۔
(۳) فروعی احکام کا اختلاف جیسے: مسالک اربعہ۔
اس طرح اختلاف کی کل تین انواع ہوتی ہیں : ادیان، فرقے اور مسالک فقہیہ ۔ اسلام نے ان تینوں انواع کے سلسلہ میں واضح ہدایات دی ہیں۔
فروعی مسائل میں اختلاف کا مفہوم اور علماء سلف کا موقف
علماء سلف کی سوانح اور ان کی تصنیفات کے مطالعہ سے یہ بات ملتی ہے کہ ان کے نزدیک فروعی مسائل میں اختلاف کا مفہوم نزاع نہیں تھا بلکہ وہ اس کو توسع کا نام دیتے تھے حضرت طلحہ بن مُصرّفؒ جو تابعین میں ہیں ان کے بارے میں ان کے ایک شاگرد موسی الجُہنیؒ بیان کرتے ہیں کہ ان کے سامنے جب اختلاف کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ اختلاف نہ کہو بلکہ توسع کہو۔
"كان طلحة إذا ذكر عنده الاختلاف قال: ” لا تقولوا الاختلاف ولكن قولوا السعة” (۴)
یہ حضرات اختلاف کو توسع کے معنی میں لیتے اور اس کی تاکید فرماتے ۔
امام ابن تیمیہؒ کی مشہور کتاب مجموع الفتاوی میں یہ واقعہ درج ہے:
"صنف رجل كتابا سماہ کتاب الاختلاف فقال أحمد: سمه كتاب السعة”.( ۵)
(ایک شخص نے اختلاف کے نام سے ایک کتاب لکھی تو امام احمدؒ نے فرمایا کہ اس کا نام ”کتاب الاختلاف“ نہ رکھو بلکہ ”کتاب السعۃ“ نام رکھو۔ ) کیونکہ اختلاف ایک ایسا لفظ ہے جس میں فرقت اور دوری کا وہم ہوتا ۔ اس کے برعکس توسع کا لفظ رخصت ، مباح اور یسر کا مفہوم اپنے اندر لئے ہوئے ہوتا ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ اس تنبیہ سے اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اختلاف توسع کا نام ہے نزاع کا نہیں، اسی لئے یہ حضرات احکام کی تشریح میں توسع کو پسند فرماتے اور یسر کا پہلو اختیار کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا موقف
ابن عبدالبرؒ نے اپنی کتاب ” جامع بیان العلم و فضلہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
"ما أحب أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يختلفوا لأنه لو كانوا قولاً واحدا كان الناس في ضيق وإنهم أئمة يقتدى بهم ولو أخذ رجل بقول أحدهم كان في سعة ( ۶)
(میں اس کو نہیں پسند کرتا اگر صحابہ کرام اختلاف نہیں کرتے اس لئے کہ اگر وہ ایک رائے رکھتے تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے حالانکہ یہ سب قابل اقتداء امام ہیں، لہذا اگر کوئی ان میں سے کسی کے قول کو اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہے )۔
حضرت عمر ابن عبدالعزیزؒ کے قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی مسئلہ میں اختلاف در اصل اس مسئلہ کی مختلف نوعیتوں اور جہتوں کو واضح کر کے کسی بھی پہلو کو اختیار کرنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے جس میں امت کے لئے یسر بھی ہے اور رحمت بھی ، کیونکہ اگر کسی غیر منصوص مسئلہ میں اختلاف سامنے نہ آتا تو امت کسی ایک ہی قول پر عمل کرنے پر مجبور ہوتی جو بسا اوقات تنگی اور پریشانی کا سبب بنتی۔
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیقؒ کا موقف
امام الحجہ حضرت قاسم بن محمدؒ جو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پوتے اور سادات تابعین میں ہیں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓ کے اختلاف سے بڑا فائدہ پہونچایا ، جو بھی صحابہؓ میں سے کسی بھی صحابیؓ کے عمل پر عمل کرلے تو اسکے لئے اسکی گنجائش واجازت ہے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ عمل بہتر ہے ۔
"لقد نفع الله بإختلاف أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في أعمالهم، لا يعمل العامل بعمل رجل منهم إلا رأى أنه في سعة، ورأى أنہ خير منه قد عمله. (۷)
حضرت قاسم بن محمدؒ کے قول سے یہ بات معلوم ہوئی جس صحابیؓ کے قول و عمل کو اختیار کر لیا جائے وہ درست ہے بلکہ بہتر ہے اس طرح مختلف صحابہؓ کے اقوال پر عمل کرنے کی امت کے لئے گنجائش ہے اور یہ توسیع کی راہ ہے۔
قاضی يحی بن سعید کا موقف :
قاضی یحی بن سعید انصاریؒ اجلہ تابعین میں ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مفتی کسی چیز کو حلال کا فتوی دے اور دوسرا حرام کا تو حرام کا فتوی دینے والا حلال کہنے والے کے بارے میں نہ سوچے کہ وہ ہلاک ہو گیا ، یا حلال کا فتوی دینے والا نہ سوچے کہ حرام کہنے والا ہلاک ہو گیا بلکہ دونوں کی گنجائش ہے۔
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: مَا بَرِحَ الْمُسْتَفْتُونَ يُسْتَفْتَوْنَ فَيُحِلُّ هَذَا وَيُحَرِّمُ هَذَا فَلَا يَرَى الْمُحَرِّمُ أَنَّ الْمُحَلِّلَ هَلَكَ لِتَحْلِيلِهِ وَلَا يَرَى الْمُحَلْلَ أَنَّ الْمُحَرِّمَ هَلَكَ لِتَحْرِيمِهِ۔(۸)
امام ذہبیؒ نے بھی تذکرۃ الحفاظ میں اسی سے ملتی جلتی بات نقل کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی صاحب موصوف کے نزدیک الگ الگ اہل فتوی کی الگ الگ رائے ہو تو یہ عیب نہیں،اسلئے ایک دوسرے پر نہ تنقید کرے، نہ گمراہ سمجھے بلکہ ہر قول پر عمل کرنا دین پر عمل کرنا ہے۔
امام مالکؒ کا موقف
امام ذہبیؒ نے سیر أعلام النبلاء میں نقل کیا ہے کہ امام مالکؒ سے امیر المؤمنین ابو جعفر المنصور نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی کتاب ” الموطا “ بلاد مسلمین میں لاگو کر دوں اور لوگوں کو اس پر عمل کرنا لازم کردوں اور دیگر کتابوں کو منسوخ کر دوں ، اس پر امام مالکؒ نے جو جواب دیا ہے واقعہ یہ ہے کہ یہ امت کا کوئی غیر معمولی بہی خواہ اور آخری درجہ کا متقی ہی جواب دے سکتا ہے۔ فرمایا: امیر المؤمنین آپ ایسا نہ کریں کیونکہ لوگوں کے پاس صحابۂ کرامؓ کے بہت سے اقوال پہونچ چکے ہیں۔ اور انھوں نے بہت سے روایتیں سنی ہیں ، جن کو جو روایتیں ملی ہیں وہ ان پر عمل کر رہے ہیں اگر آپ انہیں کسی ایک کتاب اور قول کا پابند بنادیں گے تو وہ اس پر مجبور ہو جائیں گے اور اس میں ان کے لئے تنگی ہو جائے گی حالانکہ ان کے لئے وسعت اور آسانی موجود ہے ،امام مالکؒ کے الفاظ امام ذہبیؒ نے اس طرح نقل کئے ہیں:
"فقلت: يا أمير المؤمنين لا تفعل هذا فإن الناس قد سبقت إليهم أقاويل، وسمعوا أحاديث ورووا روايات، وأخذ كل قوم بما سبق إليهم وعملوا به و دانوا به من اختلاف اصحاب رسول اللہ ﷺ وغيرهم وردهم عما اعتقدوه شديد فدع الناس وما هم عليه "(۹)
امام مالکؒ کے اس موقف سے کئی چیزیں سامنے آئیں:
(۱)کسی ایک قول پر امت کو مجبور کرنا باعث حرج و تنگی ہے، اور مختلف اقوال کی گنجائش رکھنا ذریعہ رحمت و وسعت ہے، اسی لئے امام مالکؒ نے فرمایا :
إن إختلاف العلماء رحمة من الله على هذه الأمة ( ۱۰)
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ اس میں علماء متاخرین کی آراء کا لحاظ بھی ہے جس سے اتحاد اور رحمت کی راہ کھلتی ہے۔
(۳) تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آداب علماء میں سے ایک خاص ادب یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے مسلک اور رائے پر چھوڑ دینا چاہئے جب تک وہ حق و راستی اور شرعی بنیاد پر باقی ہو۔
امام ابن تیمیہؒ کا نظریہ:
اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے اور اتحاد کی فضا قائم کرنے میں امام ابن تیمیہؒ کا یہ نظریہ کافی قابل توجہ اور لائق اتباع ہے، موصوف فرماتے ہیں: مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے اور ان کے درمیان باہمی ربط و تعلق قائم کرنے کی خاطر اپنے مسلک کے مستحبات کو ترک کر دینا عمل کرنے سے بہتر ہے کیونکہ دین میں تالیف قلب کسی استحبابی عمل کا فائدہ حاصل کرنے سے بہتر ہے:
"يستحب للرجل أن يقصد إلى تاليف القلوب بترك هذه المستحبات لأن مصلحة التاليف في الدين أعظم من مصلحة فعل مثل هذا۔(۱۱)
امام سفیان ثوریؒ کا نظریہ:
الفقیہ والمتفقہ میں خطیب بغدادی نے امام سفیان ثوریؒ کا قول نقل کیا ہے:
” إذا رأيت الرجل يعمل العمل الذي قد اختلف فيه وأنت ترى غيره فلا تنهه”. (۱۲)
( جب تم کسی کو ایسے مسئلے میں عمل کرتے ہوئے دیکھو جس میں اختلاف ہو اور دوسرا اس عمل کے علاوہ پر عمل کرے تو تم اس کو نہ روکو)۔
امام ابو حنیفہؒ کا قول :
خطیب بغدادیؒ نے اختلافی مسائل میں مخالف رائے رکھنے والے علماء کے احترام کے سلسلہ میں امام ابو حنیفہؒ کا ایک قول نقل کیا ہے جو موجودہ دور میں پوری ملت اسلامیہ کے لئے مشعل راہ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے :
قولنا هذا رأي وهو أحسن ما قدرنا عليه، فمن جاءنا بأحسن من قولنا فهو أولى بالصواب منا۔(۱۳)
یہ میری رائے ہے اور میرے نزدیک یہ بہتر ہے، اگر کوئی اس سے بہتر رائے لے آئے تو وہ میری رائے سے زیادہ درست ہوگی۔
امام ابوحنیفہؒ کا اسی قسم کا قول ایک دوسری جگہ ہے:
"هذا الذي نحن فيه رأي لا نجبر أحدًا عليه، ولا نقول: يجب على أحد قبوله بكراهية، فمن كان عنده شيئ أحسن منه فليأت به ( ۱۴)
امام ابوحنیفہؒ کے قول سے ان کی وسعت قلبی ، فراخ چشمی اور مخالف رائے کو اہمیت دینے کا مزاج واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
امام شافعیؒ کا توسع :
امام شافعیؒ کا اس سلسلہ میں طرز عمل کافی توسع اور ائمہ مجتہدین کے ساتھ احترام کا رہا ہے امام ابو حنیفہؒ کے اقوال سے کافی اختلافات رہے ہیں اس کے باوجود فرماتے ہیں:
” من أراد أن يتبحر في الفقه فهو عيال على أبي حنيفة
( جو فقہ میں مہارت پیدا کرنا چاہے وہ امام ابوحنیفہؒ کے محتاج ہیں)
یہ واقعہ تو کافی مشہور ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے مزار پر جب امام شافعیؒ پہونچے ہیں تو امام صاحبؒ کے مسلک کے مطابق نماز فجر ادا کی اور قنوت نازلہ نہیں پڑھی اور فرمایا کہ مجھے اس صاحب قبر کی مخالفت کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس سے جہاں ائمہ مجتہدین کے بارے ان کا احترام معلوم ہوتا ہے وہیں ان کا توسع بھی ظاہر ہوتا ہے۔(۱۵)
ان کے علاوہ ائمہ مجتہدین سے بڑی تعداد میں اقوال اور اعمال منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء سلف میں ایک دوسرے کی آراء کا احترام کرنے اور اپنی ہی رائے کو حق پر منحصر نہ سمجھنے کا رواج رہا ہے، بلکہ امت کو ان کے حسب حال کسی بھی مجتہد کے قول پر عمل کرنے کا موقع فراہم کرنے کی روش رہی ہے۔ یہی طرز حضرات صحابہ کرامؓ میں بھی تھا۔
اختلاف اور علامہ سیوطیؒ کا حکیمانہ بیان:
ہم اپنی اس تمہیدی گفتگو کو علامہ سیوطیؒ کے اس پر مغز بیان پر ختم کرتے ہیں جس کو انھوں نے اختلاف مسالک کے بارے میں ظاہر کیا ہے۔ موصوف اپنے رسالہ جزیل المواہب کی ابتداء میں فرماتے ہیں:
"إعلم أن اختلاف المذاهب في الملة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة وله سر لطيف أدركه العالمون، وعمى عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي جاء بشرع واحد فمن أين مذاهب أربعة؟ ” ومن العجب أيضًا” : من يأخذ فی تفضيل بعض المذاهب على بعض تفضيلاً يؤدى إلى تنقيص المفضل عليه وسقوطه، وربما أدّى إلى الخصام بين السفهاء وصارت عصبية وحمیۃ جاهلية والعلماء منزهون عن ذلك، وقد وقع الاختلاف في الفروع بين الصحابة وہم خير الأمة، فما خاصم أحد منهم أحدا ولا عادى أحد أحدًا ولا نسب أحد أحدا إلى خطأ ولا قصور…… ورد أن اختلاف هذه الأمة رحمة من الله لها وكان إختلاف الأمم السابقة عذابًا وهلاكًا……..فعرف بذلك أن اختلاف المذاهب في هذه الامۃ خصيصة فاضلة لهذه الأمة وتوسيع في هذه الشريعة السمحة السهلة، فكانت الأنبياء قبل النبي صلى الله عليه وسلم يبعث أحدهم بشرع واحد وحكم واحد، حتى إن من ضيق شريعتهم لم يكن فيها تخيير في كثير من الفروع التي شرع فيها التخيير فی شریعتنا وتحتم فی شریعۃ النصاری”. (۱۶)
ترجمہ : جان لو! اس ملت میں مذاہب و مسالک کا اختلاف خدائے حکیم و علیم کی عظیم نعمت ہے اور علماء اس کے لطیف راز سے واقف ہیں ، جہلاء کو اس کی خبر نہیں، میں نے بعض جاہلوں سے یہاں تک کہتے ہوئے سنا کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک ہی شریعت لیکر آئے پھر یہ چار مذاہب کہاں سے آگئے؟
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ ایک مسلک کو دوسرے مسلک پر فوقیت دینے میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ نزاع کی نوبت آجاتی ہے جو سراسر جاہلی عصبیت ہے، یہ ہرگز علماء کا شیوہ نہیں ہے، فروعی مسائل میں اختلاف تو اس امت میں صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی رہا ہے جو امت میں سب سے بہتر لوگ تھے لیکن اس کی وجہ سے کسی نے کسی سے نہ لڑائی کی اور نہ عداوت اور نہ ہی کسی کو غلط اور کوتاہ علم کہا ،حدیث میں آیا ہے کہ اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے جبکہ اس سے قبل امتوں میں اختلافات ہلاکت اور عذاب کا باعث تھے۔
پس معلوم ہوا کہ اس ملت میں مذاہب و مسالک کا اختلاف اس کی خصوصیت اور عظمت کا ذریعہ اور اس وسیع اور سہل شریعت میں توسیع ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جو انبیاء تشریف لائے ان میں ہر ایک ایک ہی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی شریعتوں میں تنگی تھی اور بہت سے فروعی احکام میں جہاں رخصت کی گنجائش ہونی چاہئے کوئی رخصت وتخییر نہیں تھی۔
شریعت محمدی متعدد شریعتوں کی جامع
آگے امام سیوطیؒ تحریر فرماتے ہیں کسی ایک مسئلہ میں متعدد اقوال و آراء ہونے کی وجہ سے اس کے متعدد احکام ہو جاتے ہیں اس طرح یہ شریعت کئی شریعتیں ہو جاتی ہیں :
من ذلك: مشروعية الإختلاف بينهم في الفروع، فكانت المذاهب على إختلافها كشرائع متعددة ،كل مأمور بها في هذه الشريعة فصارت هذه الشريعة كأنها عدة شرائع بعث النبي صلى الله عليه وسلم بجميعها، وفي ذلك توسعة زائدة لها وفخامة عظيمة لقدر النبي صلى الله عليه وسلم وخصوصية له، على سائر الأنبياء، حيث بعث كل منهم بحكم واحد و بعث هو في الأمر الواحد بأحكام متنوعة يحكم بكل منها وينفذ ويصوب قائلة ويؤجر عليه، ويہتدى به”۔ (۱۷)
ترجمہ:اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ فروعی احکام میں اختلاف مشروع اور جائز ہے، لہذا مختلف مسالک متعد د شرائع طرح ہو گئے جو اس شریعت میں مامور بہ ہیں، اس طرح یہ شریعت کئی شریعتیں ہو گئی ہیں اور تمام کو لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے ہیں۔
اس میں مزید توسع ہے اس سے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور تمام انبیاء پر آپ کو خصوصیت حاصل ہو جاتی ہے، بایں طور کہ سابقہ انبیاء میں ہر نبی ایک معاملہ میں ایک ہی حکم کے ساتھ مبعوث ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی معاملہ میں متعدد احکام کے ساتھ مبعوث ہوئے اور ان احکام پر حکم نافذ ہوگا ، اس کا قائل اپنے قول پر درست مانا جائے گا ، اس پر اجر بھی ملے گا اور وہ قابل اتباع ہوگا ۔
آگے علامہ موصوفؒ اس اہم نکتہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
” وهذا معنى لطيف فتح الله به، يستحسنه كل من له ذوق وإدراك لأسرار الشريعة.(۱۸)
علامہ سیوطیؒ کے مذکورہ بیان سے جہاں اختلاف کی اہمیت ، خصوصیت اور افادیت معلوم ہوتی ہے وہیں اس کی حقیقت اور اصل روح بھی واضح ہو جاتی ہے۔
حاشیہ:
۱۔ مفردات الفاظ القرآن ، ص:۲۹۴،طبع چہارم،دارالقلم دمشق ۲۰۰۹
۲۔کتاب التعريفات للجرجانی، ص:۱۳۵، تحقیق: ابراہیم الابیاری،طبع : دارالریان للتراث المدنیۃ
۳۔الکلیات معجم فی المصطلحات والفروق اللغویۃ، ج۱، ص: ۷۹۔۸۰،طبع دوم ۱۹۹۸،موسسۃ الرسالۃ بیروت ،لبنان
۴۔حليۃ الاولياء : ٥ ، ص : ۱۱۹،مطبع السعادۃ ،مصر،طبع اول
۵۔مجموع الفتاوی، ج۱۴، ص:۱۵۹،ترتیب:عبدالرحمن بن محمد بن قاسم،طبع : مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، المدینۃ المنورۃ السعودیۃ،۲۰۰۴ء
۶۔جامع بيان العلم ج ۲،ص ۹۰۱،ابوعمر یوسف بن عبدالبر ،تحقیق: ابوالاشبال الزہیری،طبع :دار ابن الجوزی السعودیۃ، ۱۹۹۴ء
۷۔جامع بيان العلم ج ۲،ص ۹۰۰،ابوعمر یوسف بن عبدالبر ،تحقیق: ابوالاشبال الزہیری،طبع :دار ابن الجوزی السعودیۃ،۱۹۹۴ ء
۸۔جامع بيان العلم ج ۲،ص ۹۰۲،ابوعمر یوسف بن عبدالبر ،تحقیق: ابوالاشبال الزہیری،طبع :دار ابن الجوزی السعودیۃ، ۱۹۹۴ء
۹۔ سیر اعلام النبلاء ج ۸ / ص:۷۸،شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی،طبع سوم،موسسۃ الرسالۃ، ۱۹۸۵
۱۰۔کشف الخفاومزیل الالباس عما اشتہر من الاحادیث علی السنۃ الناس،ج۱،ص:۶۶،اسماعیل بن محمدعجلونی،مکتبۃ القدسی، قاہرہ،۱۳۵۱ھ
۱۱۔ مجموع الفتاوی ج ۲۲/ ص:۴۰۷،ترتیب:عبدالرحمن بن محمد بن قاسم،طبع : مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف،المدینۃ المنورۃ السعودیۃ،۲۰۰۴ء
۱۲۔الفقیہ والمتفقہ ج ۲ / ص: ۱۳۶،ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی،تحقیق:ابو عبدالرحمن عادل بن یوسف الغرازی،طبع دوم دارابن الجوزیۃ،السعودیۃ،۱۴۲۱ھ
۱۳۔ تاریخ بغداد ج ۱۵ ص:۴۷۳،ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی،تحقیق: دکتور بشارعواد معروف،طبع :دارالغرب الاسلامی،بیروت،طبع اول ۲۰۰۲ء
۱۴۔تاریخ بغداد ۱۴۰/۱۳
۱۶۔جزيل المواہب فی إختلاف المذاہب للسيوطي،ص:۲۵۔۲۷،طبع: دارالاعتصام،تحقیق: عبدالقیوم بن محمد شفیع البستوی
۱۷۔ جزيل المواہب فی اختلاف المذاہب لجلال الدین السیوطی،ص:۱۲۸،دارالاعتصام
۱۸۔حوالہ سابق،ص:۲۹