اختلافی مسائل میں حق کا تعدد

اختلافی مسائل میں حق کا تعدد

مولانابدراحمد مجیبی ندوی

استاذالمعہدالعالی للتدریب علی الافتاء والقضاء ،پٹنہ

شریعت اسلامی کے اصل مصادر کتاب اللہ اور سنت نبوی ہیں۔ اس کے بعد تیسرا مصدر اجماع ہے۔ ان تینوں مصادر سے احکام شریعت کا اثبات ہوتا ہے ۔ اس کے بعد قیاس کو بھی بحیثیت مصدرتسلیم کیاگیا ہے ۔ پہلے تینوں مصادر سے مسائل کے استنباط کا نام قیاس ہے۔ یعنی جن مسائل کا حکم کتاب وسنت اور اجماع سے معلوم نہیں ہوتا ہے ان کا حکم ان تینوںمصادر سے استنباط کرکے معلوم کیاجاتا ہے ۔ اسی کو قیاس کہتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ پہلے تینوں مصادر سے حکم کا اثبات ہوتا ہے ، قیاس سے حکم کا اثبات نہیں ہوتا، بلکہ اظہار ہوتا ہے ۔ یعنی  جس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں موجود نہیںہے اس میں شریعت کا کیا حکم ہے یہ قیاس سے ظاہر ہوتا ہے۔   

مجتہدین قرآن وسنت سے استنباط کرکے مسائل کے احکام اخذ کرتے ہیں ۔ وہ اجتہاد کی اعلی صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ان کے صلاح وتقوی پر امت کو پورا اعتماد ہوتا ہے۔وہ مسائل کی تحقیق میں اپنی پوری جدوجہد کرتے ہیںاور شریعت اسلامی کی روشنی میں احکام کا استخراج کرتے ہیں۔ اس طرح مجتہدین کرام کی محنت وکاوش سے زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق شرعی احکام کا ایک جامع مجموعہ ہی نہیں ایک مکمل کتب خانہ تیار ہوگیا ہے۔ اللہ تعالی مجتہدین امت کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔   

فقہ اسلامی سے واقفیت رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ احکام میں حضرات مجتہدین کی رائیں مختلف بھی ہوتی ہیں، بعض اوقات ایک ہی مسئلہ میں مختلف رائیں سامنے آتی ہیں۔ ایک ہی مسئلہ کا حکم ایک مجتہد کے نزدیک فرض ، دوسرے مجتہد کے نزدیک سنت اور تیسرے مجتہد کے نزدیک وہ ناجائز نظر آتاہے ۔ اسی طرح ایک چیز ایک مجتہد کے نزدیک حلال ہے اور دوسرے مجتہد کے نزدیک وہی چیز حرام ہے۔ اس لئے اصول فقہ میں ایک اہم بحث یہ آتی ہے کہ مجتہد حضرات جو اجتہاد کرتے ہیں اور مسائل میں اختلاف ہوتا ہے تو کیا اللہ تعالی کے نزدیک اس مسئلہ میں جو حق وصواب ہے تمام مجتہدین وہاں تک یقینی طور سے پہنچ جاتے ہیں یا کوئی ایک مجتہد حق وصواب تک پہنچتاہے باقی مجتہد حضرات خطا پر رہتے ہیں۔ اس کو اس طرح سمجھاجائے کہ حضرات مجتہدین کا جن مسائل میں اختلاف ہے ان میں حق وصواب ایک ہی ہے یا متعدد؟ اگر حق وصواب ایک ہی ہے تو بعض مجتہدین حق تک پہنچیں گے اور باقی خطا پر رہیں گے ، اگر حق وصواب متعدد ہے تو ہر مجتہد اپنے اجتہاد میں جس نتیجہ تک پہنچے گاوہی حق صواب ہوگا۔ اس میں فقہاء کرام کے دونوں طرح کے اقوال ہیں ۔ ہم ان کو کچھ تفصیل سے پیش کرتے ہیں۔     

مسائل کی قسمیں اور ان کے احکام

مسائل کی دوقسمیں ہیں ، (الف) کلامی مسائل جن کو عقلیات سے تعبیر کرتے ہیں ، یعنی عقائد۔ (ب) فقہی مسائل جن کو فقہیات سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی فقہی فروعات ۔

(۱) کلامی مسائل یعنی عقائد کی ہے۔عقائدمیں سب کا اجماع ہے کہ حق صرف ایک ہے ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جس کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے وہ دین اسلام سے خارج ہے، مثلاً یہود ونصاری کا اختلاف ، مجوسیوں اور ہنود کا اختلاف ، ملحدوں کا اختلاف،۔ نصاری تثلیث کے قائل ہیں۔ یہو دحضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ مانتے ہیں اور نبوت محمدی کا انکار کرتے ہیں ، مجوسی بھی دو خداؤں یزداں اور اہرمن کے قائل ہیںاور توحید کے منکر ہیں۔ ہنود بھی توحید کے منکر ہیں اور ہزاروں خداؤں کو مانتے ہیں۔ ملحدین سرے سے خدا کا انکار کرتے ہیں۔یہ سب اسلام سے خارج ہیں۔    

اگر عقائد میں غلطی ایسے مسائل میں ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد جیسے وجود باری تعالی، نبوت ورسالت ، بعث بعد الموت ، جنت ودوزخ کے وجود وغیرہ میں سے نہیں ہے ، مگر فرق ضالہ کے عقائد جیسے انکار رویت باری ، خلق افعال، ارادۂ کائنات، مسئلہ امامت وغیرہ جو معتزلہ ، خوارج اور روافض وغیرہ فرق ضالہ کے عقائد ہیں تو ایسے عقائد رکھنے والے ضال ومبتدع ہیں ۔

عقائد میں حق کے ایک ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔ کیونکہ اگر عقائد میں حق کو متعدد مانیں تو وجود باری پر ایمان اور اس کا انکار ، توحید وتثلیث ، رسالت پر ایمان اور اس کا انکار یوم حشر پر اقرار وانکار وغیرہ سب حق ہوجائیں گے جواسلامی عقائد کے معارض ہے اور قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے ، اس لئے اس پر امت کا اجماع ہے کہ عقائد میں حق ایک ہی ہے، اس کی مخالفت کفرو شرک یا صریح گمراہی ہے۔

 امام عبد العزیز بخاری (م :  ۷۳۰ھ) لکھتے ہیں۔ 

المسائل العقلیۃ التی ھی من اصول الدین فان الحق فیھا واحد بالاجماع ، والمخطیٔ فیھا کافر مخلد فی النار ان کان علی خلاف ملۃ الاسلام کالیہود والنصاری والمجوس، ومضلل مبتدع ان لم یکن کاصحاب الاھواء من اھل القبلۃ  (۱)

  ترجمہ:  عقلی مسائل جو اصول دین میں سے ہیں ان میں بالاجماع حق ایک ہی ہے۔ان میں خطا کرنے والا کافر اور مخلد فی النار ہے اگر اس کا عقیدہ ملت اسلام کے خلاف ہو، جیسے یہود ،نصاری اور مجوس ۔ اور اگر ملت اسلام کے خلاف نہ ہو تو گمراہ اور مبتدع ہے جیسے اہل قبلہ میں سے گمراہ فرقے۔   

امام غزالی فرماتے ہیں۔

اما الکلامیۃ:  فنعنی بھا العقلیات المحضۃ والحق فیھا واحد، ومن اخطأ الحق فیھا فھو آثم، فان اخطأ فیما یرجع الی الایمان باللہ ورسولہ فھو کافر، وان اخطأ فیما لایمنعہ من معرفۃ اللہ عزوجل ومعرفۃ رسولہ کما فی مسألۃ الرؤیۃ وخلق الاعمال وارادۃ الکائنات وامثالھا فھو آثم من حیث عدل عن الحق وضل، ومخطیٔ من حیث اخطأ الحق المتیقن، ومبتدع من حیث قال قولاً مخالفاً للمشھورین السلف ولایلزم الکفر۔ (۲)      

   ترجمہ: کلامی مسائل سے مراد عقلیات محضہ(یعنی عقائد) ہیں ان میں حق ایک ہی ہے، جو ان مسائل میں حق تک پہنچنے میں غلطی کرے گا وہ گنہگار ہوگا۔ اگر ان مسائل میں غلطی کرے جن کا تعلق اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے ہے تو وہ کافر ہوگا۔ اور اگر ان مسائل میں غلطی کرے جو اللہ کی معرفت اور رسول کی معرفت سے مانع نہیں ہیںجیسے رویت باری، خلق اعمال، ارادہ ٔ کائنات وغیرہ تو وہ گنہگار ہوگا اس طور پر کہ اس نے حق سے عدول کیا اور گمراہ ہوا، یقینی حق میں غلطی کرنے کی وجہ سے خطا کار اور مشہور اسلاف کے مخالف قول اختیار کرنے پر مبتدع۔ اس سے کفر لازم نہیں ہوتا۔  

(۲) دوسری قسم فقہی مسائل کی ہے۔ مسائل فقہیہ کی بھی دو قسمیں ہیں۔ (الف ) جن کے احکام قطعی دلائل سے ثابت ہیں۔ (ب) جن کے احکام ظنی دلائل سے ثابت ہیں۔

(الف) جن فقہی مسائل کے احکام قطعی دلائل سے ثابت ہیںیعنی قرآن کریم سے یا احادیث متواترہ سے یا اجماع سے ان کا ثبوت ہے۔ان کے بارے میں بھی سب کا اتفاق ہے کہ ان میں بھی حق ایک ہی ہے ۔ اگر یہ مسائل ضروریات دین میں سے ہیں جیسے نماز کی فرضیت، روزہ ،زکوۃاورحج کی فرضیت، شراب ، زنااور چوری کی حرمت وغیرہ تو ان کا انکار کرنے والے کو اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔اگر یہ ضروریات دین میں سے تو نہیں ہیں مگر دلائل قطعیہ سے ثابت ہیں تو ان کی مخالفت کرنے والوں کوگنہگار اور خطاکار کہاجائے گا۔          

   امام غزالی فرماتے ہیں۔      

اما الفقہیات: فالقطعیۃ منھا وجوب الصلوات الخمس، والزکوۃ، والحج ، والصوم وتحریم الزنا، والقتل، والسرقۃ، والشرب وکل ماعلم قطعاً من دین اللہ فالحق فیھا واحد، وھو المعلوم۔ والمخالف فیھا آثم ، ثم ینظر: فان انکر ما علم ضرورۃ من مقصود الشارع کانکار تحریم الخمر، والسرقۃ، ووجوب الصلاۃ، والصوم فھو کافر لان ھذا الانکار لایصدر الا عن مکذب بالشرع۔ وان علم قطعا بطریق النظر لا بالضرورۃ ککون الاجماع حجۃ، وکون القیاس وخبر الواحد حجۃ، وکذلک الفقہیات المعلومۃ بالاجماع فھی قطعیۃ فمنکرھا لیس بکافر لکنہ آثم مخطیٔ ۔(۳)          

   ترجمہ:  فقہی مسائل میں سے قطعی یہ ہیںپنج گانہ نماز ، زکوۃ، حج اور روزہ کا وجوب، زنا ، قتل، چوری ، شرب (خمر) کی حرمت اور وہ تمام چیزیں جو ضروریات دین میں سے ہیں۔ان میں حق ایک ہی ہے جو کہ معلوم ہے۔ اس کا مخالف گنہگار ہے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ اگر اس نے ایسی چیز کا انکار کیاہے جس کا یقینی طور سے شارع کے مقصود میں ہونا معلوم ہے جیسے شراب اور چوری کی حرمت سے انکار ،نماز وروزہ کے وجوب سے انکار تو وہ کافر ہے۔ اس لئے کہ ان کا انکار شریعت کی تکذیب کرنے والے سے ہی صادر ہوتا ہے ۔ اگر ایسے مسائل ہیں جن کا یقینی علم نظری طور سے ہے جیسے اجماع کا حجت ہونا، قیاس اور خبر واحد کا حجت ہونا، اسی طرح اجماع سے جو فقہی مسائل معلوم ہیں تو وہ قطعی ہیں ان کا منکر کافر نہیں ہے مگر گنہگار اور مخطی ہے۔

علامہ سبکی لکھتے ہیں۔      

الخلاف فی ان المصیب واحد انما ھو فی المسائل الفروع الظنیۃ کما عرفت، اما مسائل الاصول القطعیۃ فالمصیب فیھا واحد بلا خلاف۔ (۴)  

   ترجمہ:  مصیب کے ایک ہونے (یعنی حق تک پہنچنے والا ایک ہی ہے)میں اختلاف فروعی ظنی مسائل میں ہے جیسا کہ معلوم ہوا۔ اصول قطعی کے مسائل میں(یعنی جن کے دلائل قطعی ہیں) بلااختلاف مصیب (حق تک پہنچنے والا)ایک ہی ہے۔ 

  علامہ شوکانی لکھتے ہیں۔

 ماکان منھا قطعیا معلوما بالضرورۃ انہ من الدین کوجوب الصلوات الخمس، وصوم رمضاں، وتحریم الزنا، والخمرفلیس کل مجتہد فیھا بمصیب بل الحق فیھا واحد، فالموافق لہ مصیب، والمخطیٔ غیر معذور، وکفرہ جماعۃ لمخالفتہ للضروری، وان کان فیھا دلیل قاطع ولیست من الضرورات الشرعیۃ فقیل : ان قصر فھو مخطیٔ آثم ، وان لم یقصر فھو مخطیٔ غیر آثم ۔ (۵)         

   ترجمہ:  جو ان میں قطعی ہیں،ضروریات دین میں سے ہیںجیسے پنج گانہ نماز، اور روزہ کا وجوب اور زنا و خمر کی حرمت تو ان میں ہر مجتہد مصیب نہیں ہے۔ بلکہ ان میںحق ایک ہی ہے ۔ جو حق کے موافق ہے وہ مصیب ہے اور اس میں غلطی کرنے والا معذور نہیں ہے۔ ضروریات دین کی مخالفت کی وجہ سے ایک جماعت اس کی تکفیر کی قائل ہے۔ اگر ان مسائل میںدلیل قطعی ہے مگروہ ضروریات دین میں سے نہیں ہیںتو اگر (اجتہاد کرنے میں)کوتاہی کی ہے تو وہ مخطیٔ اور گنہگار ہوگا۔ اور اگرکوتاہی نہیں کی ہے تو مخطیٔ ہوگا،گنہگار نہیں ہوگا۔     

(ب) جن فقہی مسائل کے احکام دلائل ظنیہ سے ثابت ہیں یعنی اخبار آحاد سے یا قیاس سے ان کا ثبوت ہے ان میں عند اللہ حق ایک ہے یا متعدد؟ اگر حق ایک ہے تو وہاں تک پہنچ جانے والا مجتہد مصیب ہوگا ، باقی مجتہدین مخطیٔ ہوں گے۔ اور اگر حق متعدد ہے تو تمام مجتہدین مصیب ہوں گے ۔ اس کے بارے میں علماء اسلام کے اقوال مختلف ہیں۔ اس بارے میں چار اقوال ذکر کئے جاتے ہیں۔  

(۱) پہلا قول یہ ہے کہ اگر ان مسائل میں مجتہدین کرام کے اجتہادات مختلف ہوں تو حق بھی متعدد ہوگااور سب حق برابر درجے کے ہوں گے۔ یعنی اگر کسی مسئلہ میں مجتہدین کے اجتہادات میں ختلاف ہے ، کوئی مجتہد وجوب کا قائل ہے ، کوئی جواز کاقائل ہے، کوئی حرمت کاقائل ہے، تو اس جماعت کے نزدیک سب کا قول حق وصواب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں ۔کل مجتہد مصیب ۔ہر مجتہد حق وصواب تک پہنچتا ہے۔ اگر اس نے اجتہاد کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے تو اپنے اجتہاد سے وہ جس نتیجہ پر پہنچا ہے وہ عند اللہ حق وصواب ہے، اس لئے جتنے مجتہدین نے اجتہاد کیا وہ سب حق وصواب تک پہنچے ہیںاورسب کے حق درجہ میں برابر ہیں۔ 

(۲) دوسرا قول یہ ہے کہ جن مسائل میں مجتہدین کے اجتہادات مختلف ہیںان میں حق متعدد ہوگا اور ہر مجتہد مصیب ہوں گے،مگر سب حق ایک درجہ کے نہیں ہوں گے۔بلکہ ان میں سے ایک کادرجہ زیادہ ہوگا، جس کو’’ احق‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ ان میں حق تو متعدد ہوں گے مگر ایک’’ احق‘‘ ہوگا۔اس کو’’ قول بالاشبہ ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ قاضی ابو زید دبوسی فرماتے ہیں۔  

 قال فریق من المتکلمین: الحق فی ھذہ الحوادث التی یجوز الفتوی باحکامھا بالقیاس والاجتھاد حقوق، وکل مجتہد مصیب للحق بعینہ ، ثم انھم افترقوا فقال قوم : الحق عند اللہ تعالی حقوق علی التساوی، وقال قوم : الواحد من  الجملۃ احق۔(۶)      

  ترجمہ:  متکلمین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جن واقعات ومسائل کے حکم کا قیاس واجتہاد سے فتوی دینا جائز ہے(یعنی فقہی فروعی مسائل) ان میں حق متعدد ہیں اور ہر مجتہد بعینہ حق تک پہنچ جاتا ہے۔پھر ان میں اختلاف ہے ۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ تمام حق عند اللہ برابر ہیں۔ اور دوسری جماعت کہتی ہے کہ ان میں سے ایک’’  احق  ‘‘ہے۔

فخر الاسلام بزدوی لکھتے ہیں ۔

 قال بعض الناس وھو المعتزلۃ : الحقوق متعددۃ، وکل مجتھد مصیب فیما ادی الیہ اجتھادہ، ثم اختلف من قال بالحقوق، فقال بعضھم  باستوائھا فی المنزلۃ، وقال عامتھم: بل واحد من الجملۃ احق۔ (۷) 

  ترجمہ:  بعض لوگ جو کہ معتزلہ ہیں کہتے ہیں کہ حق میں تعدد ہے اور ہر مجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب ہے۔ پھر تعدد حق کے قائلین میںاختلاف ہے ، ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمام حق درجے میں برابر ہیں۔(لیکن) ان میں سے زیادہ تر لوگ اس کے قائل ہیں کہ ان متعدد حق میں سے ایک’’ احق‘‘ ہے۔  

 عام طور سے پہلے دونوںا قوال کو جماعت معتزلہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ معتزلہ ’’  وجوب اصلح‘‘ کے قائل ہیں۔ یعنی ان کے عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی پر لازم ہے کہ وہ بندوں کے لئے وہی کام کرے جو بندوں کے لئے اصلح(زیادہ بہتر)ہے۔ یہ دونوں قول کہ حق ایک ہے یا متعددان میں بندوں کے لئے اصلح یعنی زیادہ بہتر یہی ہے کہ حق متعدد ہو اور ہر مجتہد اپنے اجتہاد میں حق تک پہنچ جائے۔ 

مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے قائل صرف معتزلہ نہیں ہیں بلکہ اہل سنت وجماعت میں سے بھی کچھ اہم حضرات نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ جن میں امام ابو الحسن اشعری جیسی شخصیت کا نام بھی لیاجاتا ہے۔ امام ابو بکر باقلانی، امام مزنی ، امام غزالی رحمہم اللہ جیسی ممتاز شخصیات بھی اس طرف گئی ہیں۔امام غزالی نے صراحت کے ساتھ المستصفی میں اس کو اپنا مسلک قرار دیا ہے۔

  والمختار عندنا ھو الذی نقطع بہ ونخطیٔ المخالف فیہ  ان کل مجتہد فی الظنیات مصیب، وانھا لیس فیھا حکم معین للہ تعالی۔ (۸) 

  ترجمہ:  ہمارے نزدیک مختار قول جس کو ہم قطعی سمجھتے ہیں اور اس کے مخالف کو غلط سمجھتے ہیں یہ ہے کہ ظنیات میں(یعنی جن مسائل کے احکام دلائل ظنیہ سے ثابت ہیں) ہر مجتہد مصیب ہے اوران مسائل میں اللہ تعالی کا کوئی حکم متعین نہیں ہے۔

(۳) تیسرا قول یہ ہے کہ جن اجتہادی مسائل میں مجتہدین کرام کے اقوال مختلف ہیں ان میں عند اللہ حق ایک ہی ہوگا، باقی اقوال عند اللہ خطا پر مبنی ہوں گے۔ یعنی کوئی ایک اجتہاد ہی عند اللہ حق وصواب تک پہنچا ہوگا ، باقی اجتہادات عند اللہ حق وصواب تک نہیں پہنچے ہوں گے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ جو اقوال عند اللہ خطا ہوں گے وہ ابتداء میں بھی خطا ہوں گے اور انتہاء میں بھی خطا ہوں گے۔

(۴) چوتھا قول یہ ہے کہ مجتہدین کرام کے درمیان جن اجتہادی مسائل میں اختلاف ہے ان میں عند اللہ ایک ہی حق ہوگاباقی اقوال عند اللہ خطا پر مبنی ہوں گے، لیکن جو اقوال عند اللہ خطا ہوں گے وہ ابتداء میں صواب ہوں گے ، انتہاء میں خطا ہوں گے۔

  فخر الاسلام بزدوی لکھتے ہیں:

واختلف اھل المقالۃ الصحیحۃ، فقال بعضھم : ان المجتھد اذا اخطأ کان مخطأ ابتداء ً وانتھاء ً، وقال بعضھم : بل ھو مصیب فی ابتداء اجتھادہ، لکنہ مخطیٔ انتھاء ً فیما طلبہ، وھذا القول الآخر ھو المختار عندنا۔ (۹)

  ترجمہ:  صحیح قول والے( حق کے ایک ہونے کے قائل) حضرات میں اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیںکہ جب مجتہد خطا کرتا ہے تو وہ ابتداء ً اور انتہاء ً دونوں اعتبار سے خطا کرتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مجتہداپنے ابتداء اجتہاد میں مصیب ہوتا ہے لیکن انتہاء اجتہادمیں مخطیٔ ہوسکتاہے ۔ یہی دوسرا قول ہمارے نزدیک مختار ہے۔ 

جن مجتہدین کا اجتہاد عند اللہ حق وصواب تک پہنچ گیاہے ان کامعاملہ واضح ہے کہ مجتہد نے اجتہاد کیا اور ان کا اجتہاد عند اللہ حق وصواب تک پہنچ گیا ، ان کو اس پر دوہرا اجر ملے گااور اس اجتہاد پر وہ عمل بھی کریں گے۔ لیکن جن مجتہدین کے اجتہاد ات حق وصواب تک نہیں پہنچ سکے ،خطا پر مبنی رہے ان کے بارے میں اوپر ذکر کیا گیا کہ ایک قول میں وہ ابتداء اورانتہاء دونوں اعتبار سے خطا پر ہیں ، دوسرے قول میں ابتداء میں مصیب ہیں اور انتہاء میں خطا پر ہیں۔ ان اقوال میں ابتداء اور انتہاء کا کیا مطلب ہے ؟    

حضرات اصولیین نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ انتہاء میں خطا پر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عند اللہ حق وصواب تک نہیں پہنچ سکے اور ابتداء میں خطا پر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اس اجتہاد پر اجر وثواب کے مستحق نہیں ہوں گے اوراس اجتہاد پر عمل کرنا بھی ان کے لئے جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح ابتداء میں صواب پر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر چہ وہ اپنے اجتہاد میں عند اللہ حق وصواب تک نہیں پہنچ سکے ہوں مگر وہ اس اجتہاد پر اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے اور اس اجتہاد پر عمل کرنا ان کے لئے جائز ودرست ہوگا۔ 

  قاضی ابو زید دبوسی فرماتے ہیں۔

وقال اھل الفقہ وبعض اھل الکلام : الحق عند اللہ واحد، ثم افترقوا، فقال قوم: اذا لم یصب المجتہد الحق عند اللہ کان مخطا ابتداء وانتھاء حتی ان عملہ لایصح، وقال علماؤنا رحمھم اللہ: کان مخطا للحق عند اللہ، مصیبا فی حق عملہ حتی ان عملہ بہ یقع صحیحا شرعا کانہ اصاب الحق عند اللہ تعالی ۔(۱۰)     

  ترجمہ:  فقہاء اوربعض متکلمین کہتے ہیں کہ عند اللہ حق ایک ہے، پھر ان میں اختلاف ہے ۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ جب مجتہد عند اللہ حق تک نہیں پہنچ سکاتو وہ ابتداء اور انتہاء دونوں میں خطا پر ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل بھی نہیں کرسکتاہے۔ اور ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ وہ عند اللہ حق تک نہیں پہنچ سکا تو بھی اپنے (اجتہاد پر)عمل کرنے میں مصیب ہے۔ یہاں تک کہ اپنے اجتہاد پر اس کا عمل شرعاً صحیح ہوگاگویاکہ (عمل میں) اس نے عند اللہ حق کو پالیا۔

  تعدد حق کے قائلین کے دلائل

پہلے دونوں اقوال میںیہ بات مشترک ہے کہ اختلافی مسائل میں ہر مجتہد مصیب ہوگااوروہ حق وصواب تک پہنچے گا یعنی حق میں تعدد ہوگا ۔ ان حضرات کے دلائل درج ذیل ہیں۔

(۱) ہر مجتہد کو شارع نے اجتہاد کرکے حق تک پہنچنے کا مکلف بنایاہے۔اگر حق کو ایک مانیں ، متعدد نہ مانیں تو یہ ’’تکلیف مالایطاق‘‘ہے یعنی طاقت واستطاعت سے زیادہ کا مکلف بناناہے۔کیونکہ اس ایک حق تک پہنچ جانا تمام مجتہدین کی قدرت ووسعت میں نہیں ہے ، اس لئے کہ اس کی دلیل پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کا راستہ مخفی ہوتا ہے۔جب حق ایک ہے اور اس تک پہنچ جاناہر مجتہدکی وسعت میں نہیں ہے تو اس کا مکلف بنانا وسعت سے زیادہ کا مکلف بنانا ہے جو تکلیف مالایطاق ہے۔تکلیف مالایطاق شرعاً درست نہیںہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا۔ (۱۱)

اس مسئلہ میں تکلیف مالایطاق سے بچنے کے لئے یہ ماننا ضروری ہے کہ حق متعدد ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جہت قبلہ سے ناواقف کچھ لوگ جب استقبال قبلہ کے لئے تحری کرکے نماز پڑھتے ہیں اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی تحری کے مطابق الگ الگ سمت کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے تو سب کی نماز درست ہوجاتی ہے جب کہ ان میں سے کچھ کا رخ کعبہ کی سمت میں نہیں تھا۔ اس مسئلہ میں سب کی نماز اس لئے درست ہوئی کہ سب نے حق کو پالیا یعنی سب کا استقبال قبلہ ہوگیا۔   

اسی طرح اگر کسی ایک زمانے میں متعدد رسول مبعوث ہوئے ہوں اور ان کی شریعت کے احکام میں فرق ہو کہ ایک رسول کی شریعت میں ایک چیز جائز ہے اور دوسرے رسول کی شریعت میں وہ چیزناجائز ہے تو دونوں کی شریعت حق ہے ، یعنی اس چیز کا جائز ہونا اور ناجائز ہونا دونوں حق ہیں۔  

زمانے کے اختلاف سے بھی حق میں تعدد ہوسکتا ہے ، مثلاً یہ کہ ایک ہی رسول کی شریعت میں یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ ابتداء میں ایک چیز حرام تھی ، بعد میں اس کی حرمت منسوخ ہوگئی اور اس کی اباحت ہوگئی۔ اسی طرح ابتداء میں ایک چیز مباح تھی ، بعد میں اس کی اباحت منسوخ ہوگئی اور وہ حرام ہوگئی ۔اس میں اس کی حرمت بھی حق ہے اور اس کی اباحت بھی حق ہے۔ 

اسی طرح مکلفین کے احوال مختلف ہونے سے بھی حق کا تعدد ہوسکتا ہے، مثلا ً ایک شخص کے لئے کسی چیز کی حرمت ہے اور دوسرے کے لئے اسی چیز کی اباحت ہے۔ جیسے مضطر کے لئے میتہ حلال ہے ، دوسرے لوگوں کے لئے حرام ہے۔ منکوحہ عورت شوہر کے لئے حلال ہے، دوسرے لوگوں کے لئے حرام ہے۔جس عورت کو تین طلاق دی گئی ہے اس سے نکاح کرنا سابق شوہر کے لئے حرام ہے ، دوسرے لوگوں کے لئے جائز ہے۔اسی طرح ہر مجتہد اپنے اجتہاد میںحق پر ہوسکتا ہے، اس کے لئے اور اس کے متبعین کے لئے اس کا اجتہاد حق وصواب ہوگا، دوسرے مجتہد کا اجتہاد اس کے لئے اور اس کے متبعین کے لئے حق وصواب ہوگا۔      

  فخر الاسلام بزدوی لکھتے ہیں :

تعدد حق کے قائلین نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جب مجتہدین حق تک پہنچنے کے مکلف بنائے گئے ہیںاور حق تک پہنچ جانا ان کی وسعت میں اسی وقت ہوگاجب حق کو متعدد مانیں ،تو مکلف بنانے کی شرط کو درست کر نے کے لئے تعدد حق کا قول واجب ہوا،جیساکہ قبلہ کے لئے تحری کرنے والوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ سب مصیب ہیں، یہاں تک کہ ان سے فرضیت کی ادائیگی ہوجاتی ہے،اور فرض کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب مامور بہ پر(یعنی جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اس پر)عمل کرلیا جائے، حالانکہ جس نے کعبہ کی طرف پشت کرکے نماز پڑھی اس کی غلطی معلوم ہوچکی ہے۔ اس لئے جب دلیل قائم ہوتو حلت وحرمت میں حق کا متعدد ہونا درست ہے ،جیسے رسولوں (کی شریعت)کے اختلاف کے وقت تعدد حق درست ہے اور زمانے کے اختلاف کے وقت بھی درست ہے ۔ اسی طرح مکلفین کے اختلاف کے وقت بھی درست ہے۔(۱۲)  

(۲)دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر ہر مجتہد کو مصیب نہ مانیں اور حق کو ایک مانیں تو یہ لازم آئے گا کہ ظنی مسائل میں پہلے سے عند اللہ کوئی حکم متعین ہے اور ہر مجتہد کو اپنے اجتہاد سے اس حکم تک پہنچنا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی مجتہد اپنے اجتہاد میں عند اللہ متعین اس حکم تک نہیں پہنچ سکے تو اس کا قول اور اس کا فیصلہ ماانزل اللہ (اللہ کے نازل کردہ حکم) کے خلاف ہوگا اور ایسے مجتہد کو فاسق یا کافر ماننا پڑے گا۔کیونکہ ماانزل اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو ایک آیت میں فاسق اور دوسری آیت میں کافر کہاگیا ہے۔ (۱۳) جب کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ مجتہد مخطی کو فاسق یا کافر کسی نے نہیں کہا ہے۔ اس کو معذور بلکہ اکثر اس کو ماجور(یعنی اجرو ثواب کا مستحق) مانتے ہیں ۔ اس لئے مجتہد مخطی کو کفر وفسق سے بچانے کے لئے لازم ہے کہ حق کو متعدد مانیں۔ علامہ سبکی فرماتے ہیں۔ 

احتج المصوبون بوجھین، احدھما : لولم یکن کل مجتہد مصیبا لتعین الحکم فی الواقعۃ قبل الاجتھاد وحینئذ فیکون المجتہد المخالف باجتھادہ لذلک الحکم حاکما بخلاف ما انزل اللہ فیفسق لقولہ تعالی : ’’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون‘‘  ویکفر فی آیۃ اخری: ’’ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون‘‘ ۔(۱۴)   

   ترجمہ:  ہر مجتہد کے مصیب ہونے کے قائل حضرات نے دو طرح کے دلائل سے استدلال کیا ہے۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ اگرہر مجتہد مصیب نہ ہو تو اجتہاد سے قبل اس واقعہ میں(عند اللہ) حکم متعین ہوگا اور اس صورت میں اس حکم کے مخالف مجتہد کو ماانزل اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے والا ماننا پڑے گاجس سے وہ اللہ تعالی کے اس قول کی وجہ سے فاسق ہوجائے گا ’’ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون‘‘ اور اللہ تعالی کے قول کی وجہ سے وہ کافر ہوجائے گا’’ ومن لم یحکم بما انزل للہ فاولئک ھم الکافرون‘‘ ۔

(۳) تیسری دلیل یہ ہے کہ اگر ہر مجتہد کو مصیب نہ مانیں تو مجتہد کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ کسی ایسے مجتہد کو جو بعض مسائل میں اس کا مخالف ہو حاکم بنائے یا عہدہ قضا تفویض کرے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ لازم آئے گا کہ اس نے حق کے خلاف فیصلہ کرنے پر اس کو قادر بنادیا ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ حالانکہ سب کے نزدیک مسائل میں اپنے سے اختلاف کرنے والے مجتہد کو عہدہ قضا تفویض کرنا جائز ہے۔کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنے دور خلافت میں عہدہ قضا ء پر فائز کیاتھا،حالانکہ دادا کی میراث اور بعض مسائل میں ان کا اجتہاد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد سے جدا تھا ۔ علامہ سبکی فرماتے ہیں۔ 

والثانی: لولم یکن کل مجتھد مصیبا لما جاز للمجتھد ان ینصب حاکماً مخالفاً لہ فی الاجتھاد لانہ فی ظنہ قد مکنہ من الحکم بغیر الحق، ولیس کذلک، لانہ جائز بدلیل ان ابابکر رضی اللہ عنہ نصب زیداً رضی اللہ عنہ مع انہ کان یخالفہ فی الجد وفی غیرہ وشاع ذلک بین الصحابۃ من غیر نکیر۔ (۱۵)

   ترجمہ :  دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر ہر مجتہد مصیب نہ ہو تومجتہد کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ اجتہاد میں اپنے سے اختلاف رکھنے والے مجتہد کو حاکم (یا قاضی)بنائے ، اس لئے کہ اس نے اس صورت میںاپنی رائے میں حق کے خلاف فیصلہ کرنے پر اس کو قادر بنادیا ہے۔جب کہ یہ ناجائز نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عہدہ (قضاء)تفویض کیا تھا۔حالانکہ وہ دادا (کی میراث )اور بعض دوسرے مسائل میں ان سے اختلاف رکھتے تھے۔ اور یہ بات صحابہ کرام کے درمیان بغیر کسی نکیر کے مشہورو معروف تھی ۔     

   جمہور کے دلائل  

جمہور امت کے نزدیک اختلافی مسائل میں حق ایک ہی ہے۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں ۔

پہلی دلیل :  آیت قرآنی ۔ 

ففھمناھا سلیمان وکلا آتینا حکما وعلما۔ (۱۶)

   ترجمہ:  ہم نے اس میں سلیمان کو فہم خاص عطا کیا اور دونوں کو قوت فیصلہ اور علم سے نوازا۔

اس آیت قرآنی میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ حضرت داؤدعلیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے، ان کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا تھاکہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات میں کھل گئیں اور ان بکریوں نے رات بھر میں دوسرے لوگوں کے کھیت کوچر کر صاف کردیا۔ اس مقدمہ میں داؤد علیہ السلام نے پہلے ایک فیصلہ فرمایا مگر پھر ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان علیہ السلام نے دوسرا فیصلہ فرمایااور یہی دوسرا فیصلہ نافذ ہوا۔ اس مقدمہ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام دونوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرمایامگر قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلہ کی تائید کی اور اس کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ فہم خاص کا فیصلہ قرار دیا ۔ اس آیت قرآنی سے  ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام حق تک پہنچے تھے۔حضرت داؤد علیہ السلام اس فیصلہ میں حق تک نہیں پہنچے تھے۔اس پورے واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مجتہد خطا پربھی رہ سکتاہے۔ ضروری نہیں کہ ہر مجتہد حق تک پہنچ جائے ۔ علامہ اکمل الدین بابرتی لکھتے ہیں۔   

 ان حکم داؤد علیہ السلام بدفع رقاب الغنم الی صاحب الزرع کان بالاجتھاد، لانہ لو کان ثابتا بالوحی لما جاز لسلیمان علیہ السلام خلافہ، ولداؤد علیہ السلام الرجوع الیہ، واذا اختص سلیمان بالفھم وھو اصابۃ النظر فیہ دل علی ان الاخر کان غیر صواب ، اذ لوکان مصیبین لم یکن لتخصیص سلیمان بالفھم فائدۃ۔(۱۷)

  ترجمہ:  بکریاں کھیت والوں کو دینے کا حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ اجتہاد سے تھا۔ اس لئے کہ اگر وہ وحی کی بنیاد پر ہوتا تو حضرت سلیمان ؑکے لئے اس کے خلاف فیصلہ کرنا جائز نہیں ہوتا ، اور نہ حضرت داؤد ؑکے لئے رجوع جائز ہوتا، جب حضرت سلیمان ؑ فہم خاص سے سرفراز کئے گئے اور یہ اس مسئلہ میں حق تک پہنچنا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ دوسری طرف صواب نہیں تھا۔ اس لئے کہ ا گر دونوں مصیب ہوتے تو حضرت سلیمان ؑ کے ساتھ فہم خاص کی تخصیص کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

یہاں پر ایک اشکال ہوتا ہے کہ کیا انبیاء علیہم السلام بھی اجتہاد کے مکلف تھے اور مجتہدین کی طرح ان سے بھی اجتہاد میں غلطی ہوسکتی تھی؟  انبیاء علیہم السلام تو وحی پر عمل فرماتے تھے اور وہ معصوم تھے۔ وحی کے ہوتے ہوئے ان کا اجتہاد کرنا اور اجتہاد میں عند اللہ حق تک نہیں پہنچنا اس کا کیا مطلب ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جن واقعات میں وحی سے حکم نہیں ملاتھا ان میں وحی کے انتظار کے بعد انبیاء علیہم السلام اجتہاد فرماتے تھے اور اپنے اجتہاد سے ثابت نتیجہ پر عمل فرماتے تھے اور امت کو اس کے مطابق حکم دیتے تھے۔انبیاء علیہم السلام کے اجتہاد میں بھی غلطی ہوسکتی تھی، البتہ ان کی غلطی پر اللہ تعالی کی طرف سے ان کو متنبہ کردیا جاتا تھااور اس غلطی کی اصلاح کردی جاتی تھی۔اس لئے وہ خطا پر باقی نہیں رہتے تھے۔ نبی کے اجتہاد اور مجتہد کے اجتہاد میں یہی فرق ہے کہ نبی کے معصوم ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے نبی کے خطا کی اصلاح ہوجاتی تھی اور وہ خطا پر باقی نہیں رہتے تھے۔ مجتہدین چونکہ معصوم نہیں ہیں اس لئے وہ اپنی خطا پر باقی رہ جاتے ہیں۔

 فخر الاسلام بزدوی فرماتے ہیں:

والقول الاصح عندنا ھو القول الثالث، وھو ان الرسول مامور بانتظار الوحی فیما لم یوح الیہ من حکم الواقعۃ ثم العمل بالرأی بعد انقضاء مدۃ الانتظار۔ ( ۱۸)

 ترجمہ:  ہمارے نزدیک اصح قول تیسرا قول ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس واقعہ کے حکم کے بارے وحی نہیں آئی ہے اس میں رسول اس کے مامور ہیں کہ(پہلے) وحی کا انتظار کریں، پھر انتظار کی مدت ختم ہوجانے کے بعد رای پر عمل کریں۔

فخر الاسلام بزدوی آگے لکھتے ہیں۔  

الا تری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم معصوم عن القرار علی الخطا، اما غیرہ فلا یعصم عن القرار، فاذا کان کذلک کان اجتہادہ ورأیہ صواباً بلاشبھۃ۔ (۱۹)     

ترجمہ:  دیکھ لیجئے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا پر برقرار رہنے سے بچا لئے گئے ہیں، اور دوسرے( مجتہد) خطا پرباقی رہنے سے نہیں بچا ئے گئے ہیں۔ جب ایسی بات ہے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد اور آپ کی رائے بلا شبہ حق وصواب ہے۔

(۲) جمہور کی دوسری دلیل :  صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے۔

عن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران، واذا حکم فاجتہد ثم اخطا فلہ اجر۔(۲۰)

  ترجمہ: حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔ حاکم جب فیصلہ کے لئے اجتہاد کرے اور حق وصواب تک پہنچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہے۔اور جب فیصلہ کے لئے اجتہاد کرے اور خطا پر رہے تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مجتہد اپنے اجتہاد میں غلطی پر بھی رہ سکتا ہے، کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بات فرمائی کہ اگر صواب تک پہنچے تو دو اجر ملے گااور اگر صواب تک نہیں پہنچ سکے خطا پر رہ جائے تو ایک اجر ملے گا۔ اجتہاد میں غلطی پر رہنے کامطلب یہی ہے کہ اجتہاد میں حق تک نہیں پہنچ سکے ۔ 

(۳) تیسری دلیل :  سنن نسائی اور جامع ترمذی کی روایت ہے۔

عن ابی ھریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اذا حکم الحاکم فاجتہد فاصاب فلہ اجران واذا اجتہد فاخطا فلہ اجر۔ (۲۱)

  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ان ہی الفاظ میں ہے ، اس سے بھی مجتہد کے اجتہاد میں خطا پر رہنے کا امکان ظاہر ہوتا ہے۔

(۴)  چوتھی دلیل :  حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا،

فان اجتہدت فاصبت القضاء فلک عشرۃ اجور، وان اجتہدت فاخطات فلک اجر واحد۔ (۲۲)  

  ترجمہ:  اگر تم نے اجتہاد کیا اور قضاء میں صواب تک پہنچ گئے تو تمہارے لئے دس اجر ہے اور اگر تم نے اجتہاد کیا اور خطا پر رہ گئے تو تمہارے لئے ایک اجر ہے۔

اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ مجتہد اجتہاد کرتا ہے تو صواب تک پہنچ سکتاہے اور خطا پر بھی رہ سکتاہے۔ ہر مجتہد مصیب ہو یہ ضروری نہیںہے۔بلکہ مجتہد مصیب اور مخطی دونوں ہوسکتا ہے۔

(۵) پانچویں دلیل:  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مسئلہ میں اجتہاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اللھم ان کا ن صوابا فمنک وحدک، لاشریک لک، وان کان خطا ٔ فمنی ومن الشیطان واللہ ورسولہ منہ بریٔ۔ (۲۳) 

  ترجمہ :  اے اللہ! اگر یہ صواب ہے تو تنہا تیری طرف سے ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور اگر خطا ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں۔ 

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح ہے کہ اجتہاد میں بھی غلطی ہوسکتی ہے، کیونکہ انہوں نے صواب اور خطا دونوں کا تذکرہ کردیاہے۔  

(۶) چھٹی دلیل :   اجماع سے بھی اس کا ثبوت ملتاہے کہ اجتہاد میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔کیونکہ عہد صحابہ میں اجتہاد میں غلطی پر صحابہ ایک دوسرے کو ٹوکتے تھے اور ان کی خطا ثابت کرتے تھے۔ اگرہر مجتہد مصیب ہوتا توٹوکنے اور خطا ثابت کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اورایسی صراحت نہیں ملتی کہ اس ٹوکنے پر صحابہ کرام میں سے کسی نے نکیر کی ہوکہ کیوں اس کی تغلیط کررہے ہو، وہ بھی مجتہد ہے اور ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے۔ اس تخطیہ یعنی دوسرے کی خطا ثابت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا اس پر اتفاق تھا کہ مجتہد خطاپر بھی ہوسکتاہے۔ علامہ بابرتی تحریر کرتے ہیں۔      

و یجوز ان یستدل علی ذلک بالاجماع، فان الصحابۃ اطلقوا الخطا فی الاجتہاد کثیراً شایعاً ، ولم ینکر بعضھم علی بعض فی التخطئۃ فکان ذلک اجماعاً منھم علی ان الحق فی واحد من اقاولیھم ۔ (۲۴)

  ترجمہ:  اس پر اجماع سے بھی استدلال کیاجاسکتا ہے کہ صحابہ کرام نے بہت کثرت سے (دوسرے کو) اجتہاد میں مخطی قراردیاہے۔ اس تخطیہ پر انہوں نے ایک دوسرے کی نکیر نہیں کی ۔ تخطیہ پر نکیر نہ کرنا ان کی جانب سے اس پر اجماع تھا کہ مجتہدین کے اقوال میں سے حق کسی ایک میں ہی ہوگا۔   

  علامہ سبکی فرماتے ہیں۔

 ومن جید مااستدل بہ القائلون بان المصیب واحد اجتماع الصحابۃ ومن بعدھم للمناظرۃ وطلب کل واحد من المتناظرین خصمہ الی ماینصرہ، فلو ان کل مجتہد مصیب لیس فی الحجاج والمناظرۃ فائدۃ۔ (۲۵)      

  ترجمہ:  جو حضرات کسی ایک (مجتہد) کے مصیب ہونے کے قائل ہیںان کا ایک اچھا استدلال یہ ہے کہ صحابہ کرام اور ان کے بعد لوگوں کا اس پر اتفاق تھا کہ ( مسائل میں)مباحثہ اور دوسرے سے اس کے مؤید دلائل کا مطالبہ کیاجائے گا ، اگر ہر مجتہد مصیب ہوتا تو اس مباحثہ و مناظرہ سے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔

  علامہ شوکانی لکھتے ہیں:

 وقد کان یخطیٔ بعضھم بعضا، ویعترض بعضھم علی بعض۔ ولوکان اجتہاد کل مجتہد حقاً لم یکن للتخطئۃ وجہ ۔ (۲۶) 

  ترجمہ: صحابہ کرام (مسائل میں) ایک دوسرے کی تخطیہ کرتے تھے۔ ایک دوسرے پر اعتراض کرتے تھے ۔ اگر ہر مجتہد کا اجتہاد حق ہوتاتو اس تخطیہ کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(۷) ساتویں دلیل:  قیاسی دلیل یہ ہے کہ حق کا متعدد ہونا محال ہے، کیونکہ حق کو متعددماننے کی صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ایک زمانے میں ایک ہی شخص کے بارے میں ایک ہی چیز حلال بھی ہو اور حرام بھی ، صحیح بھی ہو اور فاسد بھی اور یہ محال ہے۔ فخر الاسلام بزدوی فرماتے ہیں ۔

 واما الاستدلال بنفس الحکم فھو ان الفطر والصوم وفساد الصلاۃ وصحتھاووجود الشییٔ وعدمہ وقیام الحظر والاباحۃ فی شییٔ واحدیستحیل اجتماعہ، ولایصح المستحیل حکما شرعیا۔ (۲۷)

  ترجمہ:  نفس حکم سے استدلا ل یہ ہے کہ روزے کا ٹوٹ جانااور اس کا صحیح ہونا ، نمازکا فساد اور اس کی صحت، کسی چیز کا وجود اور اس کا عدم ، ایک ہی چیز کی حلت وحرمت ،ان کا اجتماع مستحیل ہے اور مستحیل حکم شرعی نہیں ہوسکتا۔    

علامہ شوکانی لکھتے ہیں:

وذھب ابو حنیفۃ و مالک والشافعی واکثر الفقہاء الی ان الحق فی احد الاقوال ولم یتعین لنا، وھو عند اللہ متعین لاستحالۃ ان یکون الشییٔ الواحد فی الزمان الواحد فی الشخص الواحد حلالا وحراما۔ (۲۸)         

  ترجمہ:  امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور اکثر فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ(مجتہدین کے) اقوال میں سے کسی ایک قول میں حق ہے اور وہ ہمارے لئے متعین نہیں ہے۔ جب کہ وہ عند اللہ متعین ہے۔ (حق کے ایک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ )ایک چیز کا ایک زمانے میںایک ہی شخص کے بارے میں حلال وحرام ہونا محال ہے۔   

  تعدد حق کے قائلین کے دلائل کا جائزہ

جو حضرات حق کو متعدد مانتے ہیں اور ہر مجتہد کو مصیب قرار دیتے ہیں۔ ان کی یہ دلیل محل نظر ہے کہ ہر مجتہد حق تک پہنچنے کا مکلف ہے اور حق کومتعدد نہ ماننے کی صورت میں تکلیف مالایطاق لازم آئے گی۔ محل نظر اس وجہ سے ہے کہ مجتہدین حق تک پہنچنے کے مکلف نہیں ہوتے، بلکہ حق تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے مکلف ہوتے ہیںاور ان کی کوشش کے اعتبارسے ہی ان کو اجر ملتا ہے۔اگر حق تک پہنچ گئے تو ان کو دو اجر ملے گا اور اگر حق تک نہیں پہنچ سکے تو ایک اجر ملے گا ۔اس لئے حق کو ایک ماننے میں تکلیف مالایطاق لازم نہیں آئے گی۔(۲۹)   

ان حضرات کی دوسری دلیل کہ حق کے متعدد نہ ہونے کی صورت میں حق تک نہ پہنچنے والے مجتہد کو فاسق یا کافر ماننا ہوگاکہ اس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف کیا ، یہ بھی محل نظر ہے، کیونکہ مجتہد اس بات کا مامور ہے کہ اپنے اجتہاد پر فیصلہ کرے، لہذا اپنے اجتہاد پر اس کا فیصلہ (خواہ وہ اپنے اجتہاد میں خطا پر ہی کیوں نہ ہو)اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ ہوگا، اس لئے کفر یا فسق لازم نہیں آئے گا، بلکہ اجتہاد کرنے کی وجہ سے وہ اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔ (۳۰)

ان حضرات کی تیسری دلیل بھی محل نظر ہے کہ حق کو ایک ماننے کی صورت میں ایک مجتہد کو جو بعض مسائل میں اس کا مخالف ہو عہدہ قضاء پر فائز نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس کے نزدیک یہ حق کے خلاف فیصلہ کرنے پر اس کو قادر بنانا ہے جو جائز نہیں ہے۔ جب کہ سب کے نزدیک اپنے مخالف مجتہد کو عہدہ قضاء پر تفویض کرنا جائز ہے۔اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو عہدہ قضاء دینا ممنوع ہے جو باطل کے مطابق فیصلہ کرے ، اور مجتہد مخطی باطل پر فیصلہ نہیں کرتا ، بلکہ اس کو اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ اس پر عمل کرتا ہے ،اس لئے اس کو عہدہ قضاء تفویض کرنا جائز ہے ۔ (۳۱)

  حق کو ایک ماننے والے حضرات یعنی جمہور کے دلائل کا جائزہ

 تعدد حق کے قائلین جمہور کی پہلی دلیل آیت قرآنی : ’’  ففھمنا ھا سلیمان وکلا آتینا حکما وعلما‘‘ کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس میں حق اور احق کا ذکر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے احق پر عمل کیا اور حضرت داؤدعلیہ السلام حق تک پہنچے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب دونوں کے فیصلوں کو حکم اور علم سے تعبیر کیاگیا ہے تو ان میں سے ایک خطا اورباطل کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا خطا اور باطل کو حکم اور علم کہا جائے گا؟

 جن احادیث میں مجتہد کو صواب پر دو اجر اور خطا پر ایک اجر ملنے کا ذکر ہے ان میں صواب سے مراد احق تک پہنچنا ہے اور خطا سے مراد احق تک نہیں پہنچ پانا ہے ، اس لئے وہ تعددحق کے قائلین کے خلاف نہیں ہے۔ صحابہ کرام سے جو ایک دوسرے کے اجتہاد پر نکیر منقول ہے وہ بھی صواب وخطا سے متعلق نہیں ہے ، حق واحق سے متعلق ہے۔

 قیاسی دلیل کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں اجتماع نقیضین لازم نہیں آتا کیونکہ ایک مجتہد کا اجتہاد اس کے اور اس کے متبعین کے لئے ہے، دوسرے مجتہد کا اجتہاد اس کے اور اس کے مجتہدین کے لئے ہے۔ اس لئے روزہ کے درست ہونے اور فاسد ہونے ، نماز کے درست ہونے اور فاسد ہونے اور حلت وحرمت کا اجتماع ایک شخص کے لئے لازم نہیں آتا ، بلکہ اپنے اجتہاد کے مطابق ایک مجتہد کے لئے ایک حکم ہے ، دوسرے مجتہد کے لئے دوسرا حکم ہے۔ امام غزالی اور دوسرے حضرات نے اس کو تفصیل سے ذکر کیاہے ۔        

خلاصہ یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں اکابر علماء کی ایک جماعت حق کو متعدد مانتی ہے اور تمام مجتہدین کو حق پراور ایک کو احق پر مانتی ہے۔لیکن جمہور امت کے نزدیک عند اللہ حق ایک ہی ہے، اس لئے اگر کسی مسئلہ میں مجتہدین کے اجتہادات مختلف ہوں تو ان میں سے کوئی ایک اجتہاد ہی عند اللہ حق وصواب ہوگا، باقی اجتہادات عند اللہ خطا پر محمول ہوں گے۔ لیکن ابتداء میں ہر مجتہد مصیب ہوگا یعنی وہ اپنے اجتہادپر عمل کرسکتا ہے اور اجتہاد کرنے پر اس کو اجرو ثواب بھی ملے گا۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک یہی قول راجح اور صحیح ہے ۔ مسالک اربعہ کی کتابوں سے اس کے حوالے ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں۔   

   فقہ حنفی: 

امام جصاص رازی تحریر کرتے ہیں:

ہشام ؒنے امام محمد ؒسے نقل کیاہے کہ مجتہدین کے مختلف اقوال میں سے کسی ایک میں ہی عند اللہ حق ہوگا،مگرجس نے اجتہاد کیا اور خطا پر رہاتو اس کو اللہ تعالی نے جس کام کا مکلف بنایا تھا اور جو اس پر واجب تھا اس کو (اجتہاد کرکے)اس نے ادا کردیا، اس لئے وہ عند اللہ اجر وثواب کا مستحق ہوگاجہت قبلہ کے بارے میں تحری کرنے والے کی طرح، کسائی نے امام محمدؒ سے نقل کیاہے کہ دو فقیہ کسی مسئلہ میں جب اجتہاد کرتے ہیں اور دونوں کااجتہاد مختلف ہوتا ہے تو دونوں کو جس کام کا مکلف بنایاگیا تھا اس کو انہوں نے انجام دیدیااور دونوں اپنے کام میں اجر وثواب کے مستحق ہوں گے، ان میں سے ایک بعینہ حق تک پہنچ گیا اور دوسرا خطا پر رہا۔ (اس میں اجرو ثواب اس لئے مل رہاہے )کیونکہ دونوں بعینہ حق تک پہنچنے کے مکلف نہیں تھے۔ اگر بعینہ حق تک پہنچنے کے مکلف ہوتے تو خطا پر رہ جانے والا گنہگار ہوتا۔ لیکن دونوں اجتہاد کرنے اور اپنی رائے میں حق کو تلاش کرکے اس تک پہنچنے کے مکلف تھے، تو انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی،(اس لئے اجر کے مستحق ہوئے۔) امام محمدؒفرماتے ہیں کہ یہی امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کا قول ہے ۔ (۳۲)    

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شوافع کی بعض کتابوں میں امام ابو یوسف ؒاور امام محمدؒ کو جو مصوبین یعنی تعدد حق کے قائلین میں شمار کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کی طرح حضرات صاحبینؒ بھی حق کے ایک ہونے اور مجتہد کے عند اللہ مصیب ومخطی ہونے کے قائل تھے۔

  فقہ شافعی

 علامہ ابن السمعانی شافعی لکھتے ہیں:

امام شافعی ؒ کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ مجتہدین میں ایک ہی مصیب ہے اور باقی مجتہد خطا پر ہیں۔لیکن یہ ایسی غلطی ہے جس میں مخطی معذور ہے ، گنہگار نہیں ہے۔ ہمارے بعض اصحاب کہتے ہیں کہ یہی امام شافعی ؒ کا قول اوران کا مذہب ہے۔ اس کے سوا ان کاکوئی قول  معروف نہیں ہے۔ (۳۳)

  فقہ حنبلی

علامہ ابن قدامہ حنبلی تحریر کرتے ہیں:

مجتہدین میں سے کسی ایک کے قول میں حق ہے۔ اس کے سوا دیگر مجتہدین خطا پر ہیں۔ خواہ(یہ اختلاف) دین کے اصول میں ہو یا فروع میں،لیکن اگر ایسے فروع میں ہے جس میں نص یا اجماع سے قطعی دلیل نہ ہوتومخطی مجتہد معذور ہے ، گنہگار نہیں ہے، بلکہ اس کو اپنے اجتہاد پر اجر ملے گا۔ (۳۴)

  فقہ مالکی

علامہ حطاب رُعَینی مالکی لکھتے ہیں:

اگر ان میں سے ہر ایک نے فروع میں اجتہاد کیا اور حق تک پہنچ گیا تو اس کو دو اجر ملے گا، ایک اجر اس کے اجتہاد پر اور دوسرا اجر اس کے حق تک پہنچنے پر، اور اگر اس نے فروع میں اجتہاد کیا اور حق تک نہیں پہنچ سکاتو اس کو اس کے اجتہاد پر ایک اجر ملے گا، اس کی دلیل آئے گی، اور صحیح قول میں اس کے خطا پراس کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ (۳۵)

حکم پہلے سے متعین ہے یا نہیں

اسی بحث سے متعلق یہ مسئلہ بھی ہے کہ اختلافی مسائل میں مجتہد کے اجتہاد سے قبل عند اللہ کوئی حکم متعین ہے یا نہیں؟

اس میں بھی متعدد جماعتیں ہیں۔ جو حضرات حق کے تعدداور ہر مجتہد کے مصیب ہونے کے قائل ہیںوہ کہتے ہیں کہ اجتہاد سے قبل کوئی حکم متعین ہے۔ مجتہد اجتہادکے بعد جس نتیجہ تک پہنچتا ہے وہی اللہ تعالی کا حکم ہوجاتاہے۔ اس لئے ہر مجتہد کا اجتہاد عند اللہ حق ہے۔  

ان ہی میں سے ایک جماعت کہتی ہے کہ کوئی حکم تو متعین نہیں ہے، مگر ایک ایسا حکم ضرور ہے کہ اگر اللہ تعالی کا حکم ہوتا تو اسی کے مطابق ہوتا،یعنی ایک ایسا حکم ہے کہ جس کی مجتہدین جستجو کریں گے مگروہ اس تک پہنچ جانے کے مکلف نہیں ہیں،اس مسلک والوں کو ’’اشبہ کے قائل‘‘کہاجاتاہے۔   

جمہور جو حق کے ایک ہونے کے قائل ہیںان کا اس پر اتفاق ہے کہ اجتہاد سے قبل عند اللہ ایک حکم متعین ہوتا ہے، مجتہدین کواسی حکم کے حصول کی کوشش کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ 

اس پر اتفاق کے بعد ان میں اس میں اختلاف ہے کہ اس حکم پر کوئی دلیل ہے یا نہیں؟ اور اگر دلیل ہے تو قطعی ہے یا ظنی ؟ایک جماعت کہتی ہے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ایک دفینہ کے مثل ہے،مجتہد اتفاق سے وہاں پہنچ جاتا ہے، اس لئے جو وہاں تک پہنچ جائے اس کو دو اجر ملتا ہے، اور جو کوشش کے باوجود وہاں تک نہیں پہنچ سکے اس کو ایک اجر ملتا ہے۔

ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس پر دلیل ہے اور دلیل قطعی ہے ، لیکن جو وہاں تک نہیں پہنچ سکے اس کو گناہ نہیں ہوتاکیونکہ دلیل پوشیدہ اورراستہ مستور ہے۔   

ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ اس پر دلیل ہے مگروہ دلیل ظنی ہے، مجتہد کو اس حکم تک پہنچنے کا مکلف نہیں بنایاگیا ہے،اس حکم تک پہنچنے کی جدوجہد اور کوشش کرنے کا مکلف بنایاگیا ہے، اس لئے اگر کوئی وہاں تک نہیں پہنچ سکے تو وہ معذور ہوگااور اپنی جدوجہد اور کوشش کی وجہ سے اجرو ثواب کا مستحق بھی ہوگا۔یہی ائمہ اربعہ کی رائے ہے۔ امام غزالی لکھتے ہیں۔  

دونوں فریق میں اس میں اختلاف ہے کہ غیر منصوص واقعہ میں کیا اللہ تعالی کا حکم (اجتہاد سے پہلے ) متعین ہوتا ہے جسے مجتہد کو طلب کرنا ہے؟مصوبین کے اہل تحقیق اس طرف گئے ہیں کہ غیر منصوص واقعہ میں اللہ تعالی کا کوئی متعین حکم نہیں ہے جس کو ظن(یعنی اجتہاد) سے طلب کیاجائے ۔ بلکہ حکم ظن (یعنی اجتہاد)کے تابع ہوتا ہے ، مجتہد کو اجتہاد سے جو ظن غالب ہوجائے وہی اللہ تعالی کا حکم ہے۔یہی مختار قول ہے۔ یہی قاضی(ابو بکر باقلانی)کی رائے ہے۔

مصوبین کی ایک جماعت کا یہ خیال ہے کہ اس میں اللہ تعالی کا متعین حکم ہے جس کو طلب کیاجائے گا، کیونکہ طلب کے لئے مطلوب ضروری ہے،لیکن اس کو حاصل کرنے کا مجتہدکو مکلف نہیں بنایاگیا ہے، اس لئے اگر وہ اس متعین حکم تک نہیں پہنچ سکا جب بھی مصیب ہوگا ، اس اعتبار سے کہ اس کو جس کام کا مکلف بنایاگیا تھاوہ اس نے ادا کردیاہے۔ 

جو حضرات اجتہاد کر نے والوں میں سے کسی ایک کو ہی مصیب مانتے ہیںان کا اس پر اتفاق ہے کہ اس میں اللہ کا حکم معین ہے ، مگر ان میں اس میں اختلاف ہے کہ اس پر کوئی دلیل ہے یا نہیں؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ وہ دفینہ کے مثل ہے تلاش کرنے والا اتفاقاً وہاں تک پہنچ جاتا ہے۔جو اس تک پہنچ جائے اس کے لئے دو اجر ہے ، اور جو اس تک نہیں پہنچ سکے اس کے لئے ایک اجر ہے اس کی محنت اور کوشش کی وجہ سے۔ 

 جو حضرات اس طرف گئے ہیں کہ اس پر دلیل ہے ان میں اس میں اختلاف ہے کہ دلیل قطعی ہے یا ظنی ؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ دلیل قطعی ہے ، مگر دلیل کے خفا کی وجہ سے مخطی سے گناہ ساقط ہے۔ جو حضرات دلیل ظنی کے قائل ہیں ان میں ختلاف ہے کہ کیامجتہد کو اس دلیل تک پہنچنے کا قطعی طور سے حکم دیا گیا ہے ؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ اس کے خفا اور غموض کی وجہ سے مجتہد اس کا مکلف نہیں ہے ، اس لئے وہ معذور یا ماجور ہوگا۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ مجتہد اس کو طلب کرنے کا مکلف ہے ۔ جب وہ خطا پر رہا تو وہ ماجور نہیں ہوگا مگر اس کو گناہ بھی نہیں ہوگا۔ یہ مذاہب کی تفصیل ہے۔ (۳۶) 

مجتہد سے اجتہاد کے بارے میں پرسش ہوگی یا نہیں؟ 

 ایک سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے روز ظنیات میں مخطی مجتہد سے ان کے حق تک نہ پہنچنے پر پرسش ہوگی؟یعنی ان سے سوال وجواب ہوگا کہ تم فلاں فلاں مسائل میں حق تک کیوں نہیں پہنچ سکے تھے، غلطی پر کیوں رہے؟  

اس کا جواب یہ ہے کہ مخطی مجتہد کے ساتھ روز محشر کیا معاملہ ہوگا اس کا علم تو اللہ تعالی کو ہے۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مخطی مجتہد کو بھی روز قیامت اجر وثواب سے نوازا جائے گااور دنیا میں اپنے اجتہاد پر وہ عمل بھی کرے گا، اس کو اجتہاد میں حق تک نہ پہنچنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔امام غزالی فرماتے ہیں ۔

لا اثم فی الظنیات اصلا،لاعند من قال المصیب فیھا واحد،و لاعند من قال کل مجتہد مصیب، ھذا ھو مذہب الجماہیر۔(۳۷)  

  ترجمہ:  ظنیات میں کوئی گناہ نہیں ہے، نہ ان کے نزدیک جو ان میں کسی ایک کو مصیب مانتے ہیں اور نہ ان کے نزدیک جو ہر مجتہد کو مصیب مانتے ہیں۔ یہی جمہور کا مسلک ہے۔

جب وہ اپنے اجتہاد اور اپنی پوری جدوجہد اور کوشش کے باوجود بھی حق تک نہیں پہنچ سکا تو وہ معذور ہے ، معذور سے کیا سوال وجواب ہوگا؟ جب کہ اس کو گناہ بھی نہیں ہوگابلکہ اس کو اس کی محنت ومشقت پر اجر بھی مل رہاہے، اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد مخطی سے اس خطاکے بارے میں کوئی پرسش نہیں ہوگی۔  

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے رائے

آخر میں ہم اس مسئلے سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی رائے کو پیش کررہے ہیں ۔واضح رہے کہ شاہ صاحب ؒ ہر مجتہد کو مصیب مانتے ہیں۔ نیز وہ حق کے تعدداور کسی ایک کے احق ہونے کے قائل ہیں۔حضرت شاہ صاحب اپنی کتاب’’ عقد الجید‘‘ میں فرماتے ہیں۔  

  اختلافی مسائل کی چار قسمیں ہیں۔

 (۱لف)پہلی قسم : قطعی طور سے معلوم ہے کہ حق اسی میں متعین ہے۔ اس لئے اس کے خلاف قول (یافیصلہ) کو توڑدینا واجب ہے ،کیونکہ وہ(مخالف قول) یقینی طور سے باطل ہے۔

(ب) دوسری قسم: جس میں حق ہونا ظن غالب سے معلوم ہے،ظن کے مطابق اس کا مخالف قول باطل ہے ۔

(ج) تیسری قسم : جس میں قطعی طور سے معلوم ہو کہ اختلاف کے دونوں پہلو کا اختیار دیا گیا ہے۔

 (د) چوتھی قسم : جس میں ظن غالب سے معلوم ہو کہ اختلاف کے دونوں پہلو کا اختیار دیاگیا ہے۔(۳۸ )

  پھر اس پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

ہر مجتہد اپنے اجتہاد سے جس حکم کو پیش کرتا ہے وہ شارع علیہ السلام کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ یہ نسبت یا تو شارع کے الفاظ کی طرف ہوتی ہے یا ایسی علت کی طرف ہوتی جو شارع کے الفاظ سے ماخوذ ہوتی ہے۔ جب ایسا معاملہ ہے تو ہر اجتہاد میں دو مقام ہیں۔

ایک مقام یہ ہے کہ کیا شارع نے اپنے کلام میں اس معنی کا ارادہ کیاہے یا اس کے غیر معنی کا ارادہ کیا ہے؟ اور جس وقت شارع نے وہ منصوص حکم دیا ہے تو کیا اس علت کو مدار حکم بنایا ہے یا نہیں ؟ اگرتصویب (یعنی مجتہدین میںاختلاف اور ان میں سے ایک کودرست قرار دینا)اس کے اعتبار سے ہے تو مجتہدین میں سے کوئی ایک غیر متعین طور سے مصیب ہے اور دوسرے مصیب نہیں ہیں۔    

 دوسرا مقام یہ ہے کہ شریعت کے جملہ احکام میں سے یہ ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے صراحۃ ً یا دلالۃً یہ بات فرمائی ہے کہ جب ان پر نصوص مختلف ہوں یا نصوص میں سے کسی نص کے معانی میں اختلاف ہوجائے تو وہ اجتہاد کرنے اور ان میں سے حق کو پہچاننے میں پوری طاقت لگانے پر مامور ہوں گے ، جب کسی مجتہد کے سامنے ایسی کوئی صورت پیش آجاتی ہے تواس پر اس امر کے مطابق کرنا( یعنی اجتہادکرنا)واجب ہوجاتا ہے۔ جیسے امت سے یہ کہا گیا ہے کہ جب تاریک رات میں ان پر قبلہ مشتبہ ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ تحری کریں اور تحری کی جہت کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ۔ اس حکم کو شریعت نے تحری کے وجود پر معلق کیا ہے۔ جیسا کہ نماز کے وجوب کو وقت کے ساتھ معلق کیاہے۔جیساکہ بچے کے مکلف ہونے کو اس کے بلوغ پر معلق کیاہے۔ اگر بحث اس مقام کے پیش نظر ہے تو دیکھا جائے گا کہ اگریہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن میں مجتہد کے اجتہاد کو توڑ دیا جاتاہے(یعنی نصوص قطعیہ کے خلاف اجتہاد) تو اس کا اجتہاد قطعی طور سے باطل ہے ۔ اگر اس مسئلہ میں کوئی حدیث صحیح ہے اور مجتہد نے اس کے خلاف حکم دیا ہے تو اس کا اجتہاد ظنی طور سے باطل ہے ۔ اگر دونوں مجتہد اس طریقے پر چلے ہیں جس پر چلنا ان کے لئے مناسب تھا اور کسی صحیح حدیث کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ کسی ایسے امر(نصوص قطعیہ)کی مخالفت کی ہے جس سے قاضی یا مفتی کا اجتہاد توڑ دیا جاتا ہے تو وہ دونوں حق پر ہیں۔ (۳۹)    

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک اجتہادی مسائل میں جن میں قطعی دلیل نہیں ہوتی مجتہدین کے اجتہادات اگر مختلف ہوں تو حق ایک ہی ہوگا، باقی اجتہادات خطا پر مبنی ہوں گے۔ البتہ ہر مجتہد کو اپنے اجتہاد پر عمل کرناجائز ودرست ہے۔ جو مجتہد حق تک پہنچے ہیں وہ دوہرے اجر کے مستحق ہوں گے ، ایک اجر اجتہاد ومحنت پر اور دوسرا اجر حق تک پہنچ جانے پر۔ جو مجتہد پوری تحقیق وجستجو کے بعد بھی حق تک نہیں پہنچ سکے ، خطا پر رہ گئے ان کو بھی ایک اجر ملے گا، یہ اجر ان کو ان کے اجتہاد و محنت پر ملے گا۔   

 اکابر علماء کا ایک طبقہ اس کا قائل ہے کہ تمام مجتہدین حق تک پہنچ جاتے ہیں ۔ البتہ بعض’’ احق‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں اور بعض حق تک رہتے ہیں ۔ علامہ اسنوی شافعی امام الحرمین سے نقل کرتے ہیں: 

جس مسئلہ میں نص موجود نہیں ہے اس کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ اس میں اجتہاد سے پہلے اللہ تعالی کا کوئی حکم متعین نہیںہے۔ بلکہ اللہ تعالی کاحکم مجتہدین کے ظن(اجتہاد) کے تابع ہے۔ یہ لوگ اس کے قائل ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہے۔ یہ حضرات امام ابو الحسن اشعری ، قاضی(ابو بکر باقلانی) اور اشاعرہ ومعتزلہ کے جمہور متکلمین ہیں ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ایسے مسئلہ میں (اجتہاد سے پہلے) کوئی ایسا حکم ہونا ضروری ہے کہ اگر اللہ تعالی کا حکم ہوتا تو وہی ہوتا۔ یہ قول بالاشبہ(یعنی احق کا قول) ہے۔بعض کہتے ہیں کہ یہ شرط نہیں ہے۔ (۴۰) جیساکہ اوپر گزرا کہ امام غزالی کا بھی یہی مسلک ہے اورحضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی بھی یہی رائے ہے۔ 

 اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرات مجتہدین خصوصاً ائمہ اربعہ اپنے جن اجتہادات میں عند اللہ حق تک پہنچ گئے ہیں ان پر وہ اجر عظیم کے مستحق ہوں گے۔ جن اجتہادات میں کوشش کے باوجود وہ حق تک نہیں پہنچ سکے ان میں بھی وہ اجروثواب کے مستحق ہیں۔ کیونکہ مجتہد کے صواب وخطا دونوں صورتوں میں ان کے لئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی طرف سے اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لئے دونوں صورتوں میں وہ اجر وثواب کے مستحق ہیں ، اسی طرح دونوں صورتوں میں وہ ابتداء میں مصیب ہیں ، اس لئے ان کے اجتہادات پر عمل کرنا جائز ودرست ہے۔ نیز دنیا میں یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ کون سے مسائل میں کون مجتہد حق کے مطابق ہے اور کون سے مسائل میں وہ حق کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے ائمہ اربعہ کے خلاف زبان درازی نہیں کرنی چاہئے۔ اجتہادی مسائل میں ان کو برحق ماننا چاہئے۔

حواشی:

(۱)کشف الاسرار لعبد العزیز البخاری ۴؍ ۱۷

(۲)المستصفی للغزالی  ۲؍ ۴۰۰

(۳)المستصفی  ۲؍۴۰۲

(۴)الابھاج للسبکی شرح المنھاج للبیضاوی  ۵؍ ۴۱۶

(۵)ارشاد الفحول للشوکانی  ۲؍۲۳۱

(۶)تقویم الادلۃ للدبوسی :  ص  ۴۰۷

(۷)اصول البزدوی :  ص ۲۷۸

(۸)المستصفی للغزالی ۲؍ ۴۱۰

(۹)اصول البزدوی :  ص۲۷۸

(۱۰)تقویم الادلۃ:  ص۴۰۷

(۱۱)سورۃ البقرۃ  :  ۲۸۶

(۱۲)اصول البزدوی:  ص ۲۷۸

(۱۳) سورۃ المائدۃ: ۴۴، ۴۷

(۱۴)الابھاج  للسبکی شرح المنھاج للبیضاوی ۵؍ ۴۱۷

(۱۵) الابھاج للسبکی ۵؍۴۱۸

(۱۶)سورۃ الانبیاء :  ۷۹

(۱۷)التقریر شرح اصول البزدوی للبابرتی ۶؍۲۷۲

(۱۸)اصول البزدوی :  ص  ۲۳۰

(۱۹)اصول البزدوی :  ص  ۲۳۲

(۲۰)الصحیح للبخاری : باب اجر الحاکم اذا اجتہد فاصاب او اخطا، صحیح مسلم :باب اجر الحاکم اذا اجتہد فاصاب او اخطا

(۲۱)السنن للنسائی :  الاصابۃ فی الحکم ، الجامع للترمذی:  باب ما جاء فی القاضی یصیب ویخطی

(۲۲)المسند لاحمد بن حنبل  ۴؍ ۲۰۵

(۲۳)المستدرک علی الصحیحین للحاکم النیسابوری ۲؍ ۱۹۶

(۲۴)التقریر للبابرتی ۶؍۲۷۴

(۲۵)الابھاج للسبکی شرح المنھاج للبیضاوی ۵؍۴۱۶

(۲۶)  ارشاد الفحول للشوکانی  ۲؍۲۳۱

(۲۷)  اصول البزدوی ص۲۷۶

(۲۸)  ارشاد الفحول للشوکانی ۲؍۲۳۱

(۲۹)  التقریر للبابرتی  ۶؍۲۷۸

(۳۰)  الابھاج للسبکی شرح المنھاج للبیضاوی ۵؍۴۱۸

(۳۱)الابھاج  ۵؍۴۱۸

(۳۲)  الفصول فی الاصول للجصاص الرازی ۴؍۲۹۷

(۳۳)   قواطع الادلۃ لابی المظفر ابن السمعانی ۲؍۳۰۹

(۳۴)   روضۃ الناظر وجنۃ المناظر لابن قدامۃ الحنبلی : ص ۳۵۹ 

(۳۵)  قرۃ العین لشرح ورقات امام الحرمین للحطاب الرُعَینی المالکی : ص ۴۶

(۳۶)  المستصفی للغزالی  ۲؍۴۱۰

(۳۷)  المستصفی ۲؍؍۴۱۰

(۳۸) عقد الجید فی احکام الاجتھاد والتقلید لولی اللہ  الدہلوی ص ۷ 

(۳۹)  عقد الجید فی احکام الاجتھاد والتقلید لولی اللہ  الدہلوی ص ۱۳

(۴۰)  نھایۃ السول للاسنوی  ۲؍ ۳۱۸

Tags

Share this post: