اسلامی قوانین اور وضعی قوانین۔ایک موازنہ

اسلامی قوانین اور وضعی قوانین۔ایک موازنہ
                                                                                                                                                                                                                                                  مولانامنورسلطان ندوی
                                                                                                          استاذفقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء
موازنہ کی اہمیت
اسلامی قانون اور وضعی قانون کے درمیان اصلا کوئی موازنہ نہیں ہے،کیونکہ موازنہ ان چیزویں میں ہوتاہے جویکساں ہوں،اسلامی قانون اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ ہے،جبکہ وضعی قانون انسان کا بنایاہواہے ،پہلے قانون کا ماخذوحی الہی ہے،اور دوسرے قانون کامآخذانسانی عقل،انسانی تجربات ومشاہدہ ،لیکن اس واضح اوراصولی فرق کے باوجود دونوں قوانین کے درمیان موازنہ کرناچاہیں تواس موازنہ سے درج ذیل فوائد حاصل ہوسکتے ہیں:
۱۔فہم وشعورمیں اضافہ ہوگا
۲۔قانونی نظاموں سے واقفیت حاصل ہوگی
۳۔قانونی نظاموں کے محاسن اور نقائص کاجائزہ سامنے آئے گا
۴۔اسلام میں قانون کی حکمت،عدل اور انسان دوستی کو اجاگرکرنے کاموقع ملے گا
۵۔اسلامی شریعت پراعتمادمیں اضافہ ہوگا۔
معروف اسلامی مفکروفلسفی اور قانون داں علامہ اقبال نے دونوں قوانین کے درمیان موازنہ کی افادیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہاں تک فرمایاکہ اصول قانون کی روشنی میں اسلامی قانون کی ابدیت وحقانیت کوثابت کرنے والاوقت کا مجدد کہلائے گا۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص زمانہ حال کے جورس پروڈنس (اصول قانون) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا،اور بنی نوع انساں کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا،قریباتمام ممالک میں اس وقت مسلمان یاتو اپنی آزادی کے لئے لڑرہے ہیں،یاقوانین اسلامیہ پرغوروفکر کررہے ہیں۔۔۔غرض یہ وقت عملی کام ہے،کیونکہ میری ناقص رائے میں مذہب اسلام اس وقت گویا زمانےکی کسوٹی پر پرکھا جارہا ہے، اور شاید تاریخ اسلام میں ایساوقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔(۱)
قانون کی ضرورت
عام طورپر یہ ماناگیاہے کہ انسانی مدنی الطبع ہے،اور اس کے لئے سماج کا وجود ضروری ہے،سماجی زندگی میں باہم ایک دوسرے سے ربط وتعلق ضروری ہے،اسی طرح باہمی معاملات کاپایاجاناناگزیرہے،اور باہمی تعلقات کے نتیجہ میں اختلافات ونزاعات بھی پیدا ہوں گے،ان اختلافات ونزاعات کو حل کرنے کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیاجاسکے کہ ایک دوسرے کے تئیں حقوق وفرائض کیا ہیں،تبھی آپسی نزاعات حل ہوسکتے ہیں،مجلۃ الاحکام العدلیۃ کے آغازمیں ہی اس نکتہ کو پیش کیا گیاہے:
انسان اپنی اس حیثیت میں کہ وہ طبعا مدنی الطبع ہے،اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ حیوانوں کی طرح انسانی زندگی بسر کرسکے،تمدن کی بساط کے پھیلائو کے بموجب باہمی تعلق ومشارکت کامحتاج ہے،صورت حال یہ ہے کہ ہرشخص اس چیز کا طلب گار ہے جواس کے موافق ہو،اور ہراس چیزسے برافروختہ ہے جواس کی راہ میں مزاحم ہو،اس صورت میں عدل قائم رکھنے اور انسان کے مابین نظم وانتظام کو خلل سے محفوظ رکھنے کے لئے شرعی قوانین کی ضرورت ہے۔(۲)
علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اس حقیقت کو بہت پہلے بیان کرچکے ہیں۔
قانون کیا ہے؟
ڈاکٹرصبحی رجب محمصانی کے مطابق قانون کالفظ اپنی اصل کے لحاظ سے یونانی ہے،سریانی کے راستہ سے عربی میں داخل ہواہے،پہلے قانون کالفظ مسطرۃ(یعنی اسکیل) کے معنی میں استعمال ہوتاتھا،پھر قاعدہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا،آج کل یہ لفظ یورپ کی زبان میںبمعنی قانون کلیسااستعمال ہوتاہے۔(۳)
لسان العرب میں قانون کامعنی اس طرح بیان کیاگیاہے:مقیاس کل شئی۔یعنی ہرچیزکے اندازہ کرنے کا آلہ(۴)
یہیں سے اس لفظ میں عموم ہواکہ ہرطرح کے جامع اور ضروری قاعدے کے لئے استعمال ہونے لگا،مثلا قانون صحت،قوانین فطرت،وغیرہ۔(۵)
قانون کی اصطلاحی تعریف
جدیدقانون میںقانونی اصطلاحی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
انسانی اعمال کے لئے وہ قواعد جن کی پابندی لوگوں کے لئے لازم کردی گئی ہو،یامعاشرہ کے کسی طبقہ یاکسی گروہ کے اعمال سمع وطاعت کے لئے ایک منظور شدہ حکم نامہ ۔(۶)
سالمنڈ قانون کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ہم کہہ سکتے ہیں کہ قانون ان اصول وقواعد کے مجموعے کا نام ہے جوریاست یامملکت اپنی حکومت میں عدل وانصاف رکھنے کی خاطر منظور کرتی اور نافذ کرتی ہے،بالفاظ دیگر قانون ان اصول وقواعد پر مشتمل ہوتاہے جوعدالت ہائے انصاف نزدیک مسلمہ ہو،اور اس پر یہ عدالتیں عامل ہوں۔ (۷)
چیمبرزانسائیکلوپیڈیا میں ہے:
ہمارے خیال میں قانون اخلاقی روابط کے ان قواعد کانام ہے جوکسی ریاست کے آزاد وخودمختار اہل اقتدار اپنے ملک کے لوگوں کے لئے تجویز کریں ۔ (۸)
قانون کی ایک واضح تعریف یہ بھی کی گئی ہے:
انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لئے قواعد وضوابط کا ایک مجموعہ جوافراد کی رضامندی سے مرتب کیا جائے اور حکومت اسے نافذ کرے۔(۹)
قانون کاآغازکب ہوا؟
دنیامیںقانون کاآغازکب ہوااور پہلا قانون کونساہے،اس بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں،اکثرماہرین قانون قانونی تصورات کے آغاز کوماقبل مسیح کی تاریخ سے جوڑتے ہیں،چنانچہ پہلاتحریری قانون یاقانونی مجموعہ ’’تعزیرات حموربی ‘‘(Code of Hammurabi)کوقراردیاجاتاہے،بابل کے بادشادحموربی ( ۱۷۵۴قبل مسیح )کے دور میں یہ قانون تیار ہواتھا،اور ایک پتھرکے ستون پر نقش تھا۔
 اسی طرح قدیم قوانین میں ’’روما کے احکام دوازدہ ‘‘(Twelve Table of Romb)کوبنیادی حیثیت حاصل ہے۔
عصرجدید میں قانون سازی کی طرف پہلی کوشش فرانس میں ہوئی،نابلیون نے چارماہرین قانون پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی ،تاکہ قانون کامجموعہ تیارکیاجائے،چنانچہ اس کمیٹی کی طرف سے تیارہ کردہ مجموعہ ’’مجموعہ نابلیون‘‘کے نام سے ۱۸۰۴؁میں شائع ہوا،اس کے بعدفرانس کاعدالی قانون،قانون تجارت،بحری قانون ،قانون تحقیق جرائم اور قانون تعزیرات کے الگ الگ مجموعے شائع ہوئے۔(۱۰)
وضعی قوانین کانشووارتقا
انسانی قوانین کی تدوین کس طرح سے ہوئی،کن مراحل سے گزری،اس کی تاریخ بہت طویل ہے،اور اس بارے میں مختلف نقطائے نظر بھی پائے جاتے ہیں،عبدالقادرعودہ شہیدنے اس بارے میں تفصیل سے لکھاہے،انہوں نے خلاصہ کے طور پر جولکھاہے،اس کو نقل کرنامناسب ہے:
قانون اس وقت وجود میں آیا جب خاندان اور قبیلہ وجود میں آیاجب خاندان اور قبیلہ وجود میں آیا،اس وقت خاندان کے سربراہ کا قول ہی پورے خاندان کے لئے قانون کادرجہ رکھتاتھا،اور قبیلے کے سربراہ کافرمان پورے قبیلے کا قانون ہوکرتاتھا،قانون اسی طرح سوسائٹی کے نشوروارتقاء کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتارہا،یہاں تک کہ ریاست وجود میں آگئی،ابتداءً ہوتایہ تھا کہ ہر خاندان کی عادتیں دوسرے خاندانوں سے مختلف ہوتیں،اور ہرقبیلے کی روایات دوسرے قبیلے سے جدا ہوتیں،مگر جب ریاست وجود میں آگئ،توعادتوں اور روایات میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی،اور ایک ریاست کے ماتحت آنے والے تمام افراد ،خاندانوں اور قبائل کے لئے ان روایات سے کچھ عمومی قوانین اخذ کرلئے گئے جن کی پابندی سب پر لازم کردی گئی،مگر ایک ریاست کاقانون دیگر ریاستوں کے قوانین سے کوئی لگا نہیں کھاتاتھا،حتی کہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں فلفسیانہ،سائنسی،اور اجتماعی نظریات کی روشنی میں قانونی ارتقاء کاآخری مرحلہ شروع ہوا،اور اس وقت سے اب تک قانون نے عظیم ترقیات حاصل کرلیں،اور جدیدقانون کو ایسی بنیادیں فراہم ہوگئیں جن کاقدیم قوانین میں کوئی وجود تک نہ تھا،ان جدید نظریات کی اساس انصاف،مساوات،رحم اور انسانیت کےاصول ہیں،جن کی عالمی اشاعت کے نتیجے اقوام عالم کے بیشتر قواعد میں ایک حدتک وحدت پیدا ہوگئی ہے،مگر بہرحال اب بھی ہرقومی ریاست کا اپناقانون ہے،جوبیشترتفاصیل اور متعدد باریک نکات میں دیگرقوانین عالم سے بالکلیہ مختلف ہے۔(۱۱)
اسلامی قانون کا نشوونما
اسلامی قانونی کی نشوونمااس طرح نہیں ہوئی جس طرح وضعی قانون کی نشوونما ہوئی،کہ سماج کے ترقی کرنے سے قانون ترقی کرتارہے،اور نہ ہی قانون کی طرح یہ شکل ہوئی کہ پہلے تھوڑے قوانین تھے بعد میں حسب ضرورت اس کی تعداد میں اضافہ ہوتارہا،اور نہ ہی یہ صورت حال ہوئی کہ پہلے منشترقوانین تھے، بعد میں یکجاکرلئے گئے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت پہلے دن سے جامع اور مکمل تھی،اس میں نہ کوئی کمی تھی اور نہ نقص،جس کی تلافی کی ضرورت بعد میں پیش آئے۔
حضرت آدم علیہ السلام سےاس دنیاکاآغازہوا،حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں کس کس طرح کے قوانین تھے،اور زندگی کے کن پہلوئوں پر مشتمل تھے،اس بارے میں تاریخ خاموش ہے،قرآن میں ایسے متعدداحکام موجود ہیں جوحضرت آدم علیہ السلام کو دئے گئے،جس سے اندازہ ہوتاہے کہ قانون کا بنیادی تصورموجود تھا،مثلا سورہ بقرہ میں ہے:
قلنااہبطوا منہا جمیعا فاما یایتنکم منی ہدی فمن تبع ہدای فلا خوف علیہم ولا ہم یحزنون والذین کفروا وکذبوا بآیاتنا اولئک اصحاب النار ہم فیہا خالدون۔( ۱۲ )
اسی طرح سورہ مائدہ میں حضرت آدم کے دوبیٹوں کی جنگ کاذکرموجود ہے،یہاں بھی کچھ قانونی اشارے ملتے ہیں۔(۱۳ )
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد رسولوں اور نبیوں کا سلسلہ جاری رہاہے،اور ہردور کے لحاظ سے احکام نازل ہوتے رہے،حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث کئے گئے،اور آپ کے ذریعہ ایک جامع اور مکمل شریعت نازل ہوئی،جوقیامت تک انسانوں کی رہبری کے لئے ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔(۱۴)
رسول اللہ ﷺ کے دورمیں شریعت کانزول مکمل ہوگیا،البتہ شریعت کے اصول وکلیات کی روشنی میں شریعت کی تفصیل وتشریح اورعملی اطلاق کے لئے فقہ اسلامی کانظام جوصحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے ذریعہ شروع ہوا،وہ وقت کے ساتھ ارتقاپذیر ہوتارہا،اور آج بھی جاری ہے ۔
فقہ اسلامی کی تدوین کے مختلف مراحل ہیں،بعض علماء نے تین مراحل بعض نے چھ مراحل،اورمعروف فقیہ شیخ مصطفی احمد زرقاء نے آٹھ مراحل کاذکر کیاہے۔ (۱۵)
فقہ اسلامی کوجدیدقانون کے اندازمیں مرتب کرنے کاآغازالمجلہ کی ترتیب سے ہوتاہے،یہ عہدعثمانی کاعظیم اور تاریخی کارنامہ ہے،اس کےبعد اس سلسلے میں مختلف کوششیں ہوئی ہیں،اجتماعی اجتہادکے لئے فقہی اکیڈیموں  کا قیام،فقہی موسوعات کی تیاری،اور فقہ اسلامی کوزیادہ تفصیلی، تحقیقی اندازاور قانونی اسلوب میں پیش کرنے کی کوششیں قابل ذکرہیں۔(۱۶)
اسلامی قانون کے مصادر
کسی بھی قانون کے لئے مصدرسند (Authority)کادرجہ رکھتاہے،اسلامی قانون میں ان مصادرکوالحجج الشرعیۃ،ادلۃ الاحکام الشرعیۃ،اور اصول کے الفاظ سے تعبیرکیاجاتاہے،بعض مصادرکے دلیل ہونے پر علماکااتفاق ہے،مثلا قرآن،سنت،اجماع،قیاس،اور بعض کے بارے میں اختلاف رائے پایاجاتاہے،بعض علمائے اصول نے ان مصادر کو مصادراصلیہ اور مصادرثانویہ کے لحاظ سے بھی تقسیم کیاہے۔(۱۷)
اسلامی قانون کااصل الاصول، مصدرالمصادراور بنیادی سرچشمہ قرآن مجید ہے،اس کے مصدرہونے پر تمام فقہاء کااتفاق ہے، سنت رسول بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ علامہ آمدی بیان کرتے ہیں:
’’والاصل فيها انما هو الکتاب: لأنه راجع الی قول الله تعالیٰ المشرع للأحکام والسنة مخبرۃ عن قوله تعالیٰ وحکمه، و مستند الاجماع فراجع اليهما‘(۱۸)
اسلامی قانون کا دوسری بنیادی سرچشمہ سنت رسول ہے،اس کادرجہ قرآن کے بعد کاہے،مگریہ مستقل اسلامی قانون کامصدرہے۔
اس کے بعد اجماع اور قیاس اسلامی قانون کے مصادرہیں۔یہ چاروں متفق علیہ ہیں،ان کےعلاوہ ضمنی مصادر میںعرف، استحسان اور مصالح مرسلہ قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹرحمید اللہ ؒ نے اسلامی قانون کے مآخذ میں کچھ اضافہ فرمایاہے،ان کے مطابق مآخذ اس طرح ہیں:
۱۔قرآن مجید
۲۔سنت یااحادیث نبوی
۳۔خلفائے راشدین کاتعامل
۴۔دیگرمسلمان حکمرانوں کا عمل بشرطیکہ مسلمان فقہاء نے اس سے برائت کااظہار نہ کیاہو۔
۵۔نامورمسلمان فقہاء کی آراء
الف۔اجماع            ب:قیاس
۶۔ثالثوں کے فیصلے
۷۔بری اور بحری سپہ سالاروں ،سفراء اور دوسرے سرکاری حکام کو دی جانے والی سرکاری ہدایات
۹۔غیرملکیوں اور بین الاقوامی تعلقات سے متعلق ملکی قانون سازی
۱۰۔روایات اور عرف عام۔(۱۹)
وضعی قانون کے مصادر
وہ تمام عناصر جن کاقانون کے نشوونمامیں خاص کرداررہاہے،انہیں قانون کامآخذ ماناجاتاہے،مختلف ادورمیں وضعی قوانین کے مختلف مآخذ رہے ہیں،قانون کا سب سے قدیم مآخذ رسم ورواج کوماناگیاہے،رسم ورواج کی بنیاد خاندان،برادری اور قبیلے کی عادت اور طوروطریقہ ہے،ہرقسم کے رواج کو قانون کادرجہ نہیں دیاجاتا،اس کی کچھ شرائط ہیں،ماہرین قانون نے اس سلسلے میں چھ شرطوں کاذکرکیاہے،کس رواج کو قانون کادرجہ دیاجائے اس کااختیار عموماعدالتوں اور مقننہ کو ہوتاہے۔
قانون کے مآخذدوطرح کے ہیں ،رسمی مآخذ (Formal Sources of Law)اور غیر رسمی مآخذ ( Non-Formal Sources)
رسمی مآخذ
۱۔قانون کے رسمی مآخذمیں قانون کاسب سے اہم مصدرآئین (Constitution)کوماناجاتاہے،یہ ملک کاسب سے اعلی قانونی دستاویزہوتاہے ۔
۲۔دوسرامصدرقانون سازی (Lagislation)ہے،جمہوری روایات کے مطابق قانون رائے عامہ کا مظہر تصور کیا جاتا ہے اور عوام کی رائے مجلس قانون ساز کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے،پارلیامنٹ اور اسمبلی کوقانون بنانے کااختیار دیاگیاہے۔
۳۔عدالتی فیصلے (Judicial Precedents)بھی قانون کے مآخذہیں،اعلی عدالتوں کے فیصلے نچلی عدالتوں کے لئے قابل تقلید ہوتے ہیں۔
۴۔دویادوسے زیادہ ملکوں یاقوموں کے درمیان ہونے والے معاہدے(Treaties) بھی قانون کے مآخذشمارہوتے ہیں۔
غیر رسمی مآخذ
رسمی مآخذ(Formal Sources) نہ ہونے کی صورت میں جج صاحبان،عدل وانصاف کے علمی اصولوں سے رہنمائی لیتے ہیں،معروف قانون داں اور فلسفی بوڈن ہیمرنے غیررسمی مآخذ کو غیرمعمولی اہمیت کاحامل قرار دیا ہے، انہوں نےچھ غیر رسمی مآخذکاتذکرہ کیاہے،جن میں انصاف کے عمومی اصول (Standards of Justice) اور اصول مساوات (Equity)قابل ذکرہیں(۲۰)
۱۔”equity” کو قدرتی انصاف (Natural justice) سے بھی کہاجاتاہے،معروف ماہر قانون بلیک اسٹون(Black Stone) نے اصول مساوات کو تمام قوانین کی روح قرار دیا ہے۔(Salmond’s Jurisprudence  )
۲۔”The Concept of Law‘‘کے مصنف H.L.A Hartنے اخلاقی اقدار (Morality ) کوبھی قانون کے غیر رسمی مآخذ میں شمار کیا ہے۔
۳۔سابق چیف جسٹس آف انڈیا محمد ہدایت نے اسلامی فقہ کو مسلم پرسنل لاء سے متعلق مسائل میں قابل اعتبارمصدرقراردیاہے۔
۴۔رسم ورواج کاشماررسمی اور غیررسمی دوطرح کے مآخذ میں ہوتاہے۔
اسلامی قانون کی خصوصیات
۱۔اسلامی قانون کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہواہے،جو پوری دنیاکاخالق ومالک ہے،تمام احکام وحی کی شکل میں انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوئے ہیں۔
۲۔یہ شریعت کامل ومکمل ہے،اور کسی بھی طرح کے نقص سے پاک ہے،کیونکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ ہے،اور اللہ تعالی عالم الغیوب ہے،اور کمال کی صفت سے متصف ہے،لہذا ان کی طرف سے نازل کردہ قانون بھی کامل ہے۔
۳۔اس قانون کاایک امتیازی پہلواس کی جامعیت ہے،یعنی یہ ہردوراور ہرعلاقہ کے لئے ہے،اور انسان کے تمام مسائل کاحل پیش کرتاہے،کوئی ایسامسئلہ نہیں ہے جس کا حل اسلامی قانون میں موجود نہیں ہے۔
اللہ تعالی خود فرماتے ہیں:
 ونزلناعلیک الکتاب تبیانا لکل شئی وہدی ورحمۃ وبشری للمسلمین۔(۲۱)
وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا۔(۲۲)
تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ للعالمین نذیرا۔(۲۳)
۴۔دنیااور آخردونوں کا جامع ہے:
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ۔(۲۴)
ڈاکٹرعبدالقادرعودہ شریعت کی جامعیت کاتذکرہ کرتے ہوئے دستوری اندازمیں لکھتے ہیں:
شریعت اسلامی کو اللہ سبحانہ تعالی نے اس طرح بنایاہے کہ اس پر زمانے کے تغیرات کاقطعا کوئی اثرنہیں ہوتا،اس پر کہنگی اور قدامت کے آثار طاری نہیں ہوتے،اور اس کے عام اصولوں اور اساسی نظریات میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی،شریعت اسلامیہ کی دفعات میں اس قدر عمومیت اور لچک موجود ہے کہ وہ ہرممکن حالت میں نافذ ہوسکتی ہے،یہی وجہ شریعت اسلامیہ میں اس طرح تغیر وتبدل کی ضرورت پیش نہیں آئی جس طرح رواجی قوانین کی دفعات میں ترمیم (Modification)اور تبدیلی کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔
شریعت اسلامیہ اپنے نزول کے دن سے ہی تمام جدید ترین نظریات کی حامل تھیں جن تک رواجی قوانین کی رسائی ایک زمانہ گزرنے کے بعد اب جاکر ہوئی ہے،حالانکہ یہ قانون اپنے وجود میں شریعت اسلامیہ سے بہت قدیم ہے،جبکہ شریعت اسلامیہ میں اپنے نزول کے دن ہی ایسی خوبیاں موجود تھیں جن تک قانون جدید اب تک نہیں پہونچ سکاہے،بس یہ سمجھئے کہ آج اہل قانون جن اعلی اصولوں کی تنفیذ کی تمنا اور آرزو کرتے ہیں وہ شریعت اسلامیہ میں اسوقت موجود تھے جب وہ نازل ہوئی تھی۔(۲۵)
۵۔اسلامی قانون انسانی کے انفرادی، اجتماعی مسائل اور ریاست کے مسائل کابھی حل پیش کرتاہے۔
۶۔اسلامی قانون حالت امن اور حالت جنگ دونوں میں رہبری کرتاہے۔
۷۔اسلامی قانون انسان کے ذاتی مسائل اور انفرادی معاملات سے لے کر بین الاقوامی معاملات ومسائل کاحل پیش کرتاہے۔
تین امتیازی خصوصیات
عبدالقادرعودہ شہید نے اسلامی قانون کے تین امتیازی اوصاف بتائے ہیں،اور ان کی تطبیق کی مثالیں پیش کی ہیں،یہ تین اوصاف اس طرح ہیں:
۱۔کمال   
یہ ایک مکمل قانون ہے،جس قدر قواعد،اصول اور نظریات کی ضرورت ہوسکتی تھی وہ سب شریعت میں موجود ہیں،اور شریعت کادامن ان تمام اصول ونظریات سے بھراہواہے جومستقبل قریب یا بعید میں انسانیت کی ضروریات کی تکمیل کے لئے کارآمدہوسکتے ہیں۔
۲۔رفعت 
شریعت اسلامیہ کے قواعد اور اصول ہمیشہ سوسائٹی کے معیار سے بلند تررہتے ہیں،اور خواہ انسانی زندگی کامعیار کتناہی اونچا نہ ہوجائے شریعت اسلامیہ میں ایسے اصول ونظریات موجود ہیں جواس کی رفعت کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے،اور ہمیشہ اس کا معیار انسانی معیارات سے بلند تررہے گا۔
۳۔ہمیشگی
شریعت اسلامیہ ثابت اور مستقل ہے،اور اس میں ہمیشگی کی صفت ہے،خواہ کتناہی طویل دور کیوں نہ گزرجائے اس کی دفعات میں کوئی تبدیلی اور کوئی تغیر نہیں آتا،مگر اس عدم تغیر کے باوجود شریعت ہردور کے لائق اور ہرزمانے کے مناسب رہتی ہے۔(۲۶)
نظریہ مساوات،عورت مردکی مساوات کا نظریہ،نظریہ حریت ،حریت فکر،حریت عقیدہ،حریت قول،نظریہ شوری،اقتدارحاکمہ کی تحدیدکانظریہ ،نظریہ طلاق،نظریہ تحریم خمر،تعددازدواج کا تصور،ثبوت او رمعاہدات کے نظریات ،تحریری ثبوت کاتصور،تجارتی معاملات کا ثبوت ،یہ اور ان جیسے دیگر عناوین مذکورہ امتیازی پہلوئوں کے لئے بطور دلیل پیش کئے جاسکتے ہیں۔
اسلامی قانون کا دائرہ
اسلامی شریعت انسان کی پوری زندگی پرحاوی ومحیط ہے،یعنی زندگی کا کوئی گوشہ ایسانہیں ہے جہاں شریعت کی رہنمائی موجود نہ ہو،فقہاء نے شرعی احکام کوزندگی کے گوشوں کے لحاظ سے مختلف حصوص میں تقسیم کیا ہے:
۱۔عبادات             ایسے احکام جن کا تعلق اللہ تعالی کی عبادت سے ہے،مثلانماز،روزہ،وغیرہ
۲۔احوال الشخصیۃ  ایسے احکام جن کا تعلق انسان کی خاندانی اور عائلی زندگی سے ہے،مثلا نکاح ،طلاق
۳۔معاملات                       ایسے احکام جن کا تعلق آپسی معاملات اور بطورخاص اموال وحقوق سے ہو،مثلا خریدوفروخت
۴۔عقوبات وجنایات  جن کا تعلق جرم،مجرم کی سزااور انتظامی امور سے ہو
۵۔سیر                 دوملکوں کے درمیان کے معاملات اور جنگ سے متعلق احکام
۶۔آداب                اخلاق ومحاس سے متعلق احکام
۷۔احکام سلطانیہ     حکومت سے متعلق اموربطور خاص حاکم کارعیت سے معاملہ،ان کے حقوق وفرائض
(۲۷)
 بعض مصنفین نے شرعی احکام نئے انداز میں اس طرح تقسیم کیاہے:
۱۔فقہ الاسرۃ                    
۲۔مالی معاملات
۳۔تمدنی مرافعات (سول قانون)عائلی مسائل یامعاملات کے مسائل جن میں عدالتی کاروائی کی ضرورت ہو
۴۔بین الاقوامی قوانین
۵۔سلطانی قوانین
۶۔مالیاتی قوانین (بیت المال ،سرکاری خزانہ،آمدنی کے وسائل )
۷۔خارجہ تعلقات کےا حکام
۸۔قانون تعزیر(تفصیل کے لئے دیکھئے:قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز)
وضعی قوانین کے اقسام
ملکوں کےنظام حکومت کے اعتبارسے وضعی قوانین کے اقسام الگ الگ بیان کئے گئے ہیں،مجموعی طورپروضعی قوانین کودرج ذیل قسموںمیں بانٹاگیاہے:
۱۔آئینی قانون(جن قوانین کا تعلق حکومت کے بنیادی ڈھانچہ،اختیارات کی تقسیم،شہریوں کے حقوق وفرائض سے تعلق ہو۔)
۲۔فوجداری قانون
۳۔دیوانی قانون(افراد یااداروں کے درمیان نجی حقوق وفرائض سے متعلق )
۴۔انتظامی قانون(سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے لئے )
۵۔مزدورقانون
۶۔تجارتی قانون
۷۔بین الاقوامی قانون
۸۔ماحولیاتی قانون
۹۔خاندانی قانون
۱۰۔ٹیکس قانون
بعض ماہرین قانون کے مطابق آئینی،انتظامی اور فوجداری قانون کو عوامی قانون(Public Law) کہا جاتا ہے۔
دیوانی،تجارتی،اور خاندانی قانون کونجی قانون( Private Law )کہاجاتاہے۔
فرداور مذہب سے متعلق قانون کو پرسنل لا(Personal Law )
پارلیامنت اور ریاستی اسمبلیوں کے ذریعہ بنائے کئے قوانین کو تحریری قانون( Statutory Law)کہاجاتاہے۔
اسلامی قانون اور وضعی قانون کے درمیان اصولی اور اساسی فرق
  ۱۔اسلامی قانون اللہ سبحانہ تعالی کانازل کردہ ہے،اس لئے اس میں ہردورکے مسائل کوحل کرنے کی صلاحیت موجود ہے،اس کے برعکس وضعی قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہیں،اس لئے اس میں صرف وقتی ضروریات کی تکمیل ہے،غیرمتوقع حالات پرحاوی نہیں ہیں۔
۲۔اسلامی نظام قانون مادیت اور روحانیت دونوںپرمشتمل ہے،کیونکہ شریعت کانزول انسان کی دنیااور آخرت دونوں کوسنوارنے کے لئے ہواہے،جبکہ وضعی قوانین میں آخرت کاکوئی تصور نہیں ہے۔
۳۔معاملات اور احوال الشخصیہ جنہیں جدیدقانون میں سول قوانین کہاجاتاہے،ان میںاسلام میں حلال وحرام کاواضح فرق ہے،جبکہ وضعی قوانین میں حلال وحرام کا کوئی مسئلہ نہیں ہے،اسی طرح وضعی قانون میںباطنی امور کی کوئی رعایت نہیں ہوتی ،بلکہ صرف مظاہر کودیکھاجاتاہے،جبکہ اسلامی قانون میں ہرعمل میں باطنی ترقی بھی ملحوظ ہوتی ہے۔(۲۸)
۴۔اسلامی قانون پہلے دن سے یہ جدیدنظریات سے لبریز ہیں،جبکہ وضعی قوانین میں ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جدیدنظریات شامل ہوئے ہیں۔
۵۔سوسائٹی اپنے مسائل کی تنظیم کے لئے قانون سازی کرتی ہے،اس لئے یہ قواعدسوسائٹی کے پیش رونہیں بلکہ اس کے پیروہوتے ہیں،قانون کے حوالے سے یہ جملہ معروف ہے کہ سماج آگے آگے چلتاہےاور قانون پیچھے پیچھے،مگراسلامی قانون ہمیشہ سماج کے آگے چلتاہے،وہ سماج کی اصلاح کرتے ہے۔(۲۹)
۶۔کوئی غلط عمل سماج میں رائج ہوجائے اور وسیع پیمانہ پر پھیل جائے تووقت کے ساتھ قانون بھی اسے تسلیم کرلیتاہے،خواہ وہ عمل اخلاقی یامذہبی روایات کے مطابق غلط ہی کیوں نہ ہو،اسی کو کہاجاتاہے:
"Law evolves with society.”یعنی: قانون معاشرے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔
جبکہ اسلامی قانون میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کہ کوئی ناجائز عمل معاشرہ میں رواج پذیر ہوجانے سے وہ جائزہوجائے،اسلامی قانون میں عرف کی اہمیت ہے،مگر اس کے حدود متعین ہیں،کوئی عرف قرآن،وسنت،اجماع یاقیاس کے خلاف ہوتووہ باطل قرارپائے گا۔
۷۔قانون میں ترمیم وتنسیخ اور تدوین کاآئینی اختیار مقننہ کے پاس ہے،دستورہندکے آرٹیکل 368 کے تحت آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے،اس کے برخلاف اسلامی قانون میں ترمیم کااختیارکسی کو نہیں ہے،مجتہدین اسلامی قانون کی تشریح وتوضیح کرتےہیں،انہیں کسی حکم کوبدلنے کااختیارنہیں ہے،ان کاکام شرعی اصولوں کی روشنی میں نئے مسائل کاحل تلاش کرناہے۔
۸۔بین الاقوامی رجحانات اور عالمی دبائوکےنیتجہ میں بھی قانون سازی ہوتی ہے،وضعی قوانین میں اس کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ عملی طورپراس کے بے شمار نمونے ملتے ہیں،مگر شرعی طور پر اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
عبدالقادرعودہ دونوں قوانین کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے واضح طور پر لکھاہے کہ دونوں کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے،وہ تحریرکرتے ہیں:
شریعت اسلامیہ اور قانون کے نشووارتقاء کی کیفیت بیان کرنے کے بعد ہم بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ اور قانون میں باہم کوئی مماثلت نہیں ہے،اور نہ یہ دونوں مساوی درجے کی چیزیں ہیں کہ ایک کا دوسری پر قیاس کرنا درست ہو،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کے لحاظ سے قانون کے مزاج اور طبیعت سے قطعا مختلف ہے،کیونکہ اگر شریعت اسلامیہ کا مزاج بھی قانون کے مزاج کی طرح ہوتا توشریعت کی وہ صورت نہ ہوتی جس صورت میں یہ نازل ہوئی ہے،اس کے بجائے یہ ہوتاکہ ایک ابتدائی شریعت نازل ہوتی ،پھر قانون کی طرح جماعتی ارتقاء کے ساتھ وہ ترقی پاتی،اور جدید نظریات جوقانون نے اب جاکر اخذ کئے ہیں وہ اس وقت شریعت اسلامیہ میں بھی نہ ہوتے،بلکہ شریعت اسلامیہ ان نظریات تک اس وقت پہونچتی جب ہزارہاسال گزرنے کے بعد یہ نظریات رواجی قوانین کاحصہ بن چکے ہوتے۔(۳۰)
چنداہم پہلوجن سے وضعی قوانین خالی ہیں
اسلامی قانون میں بے شمارایسے پہلوہیں جن سے وضعی قوانین یکسرخالی ہیں،یہاں تک کہ ترقی یافتہ قوانین بھی اس تک ابھی نہیں پہونچ پائے ہیں،چند مثالیں پیش ہیں:
۱۔اخلاقیات
اسلامی قانون میں اخلاقیات کاپہلوہرجگہ شامل ہوتاہے،شریعت کے نزول کامقصد اخلاقی قدروں کی تکمیل ہے،چنانچہ اسلامی قانون کے ہر حکم میں مکارم اخلاق کی تکمیل کاپہلو نظرآتاہے،اس کے برخلاف وضعی قوانین میں صرف دنیوی مصالح کا لحاظ رکھاجاتاہے۔
اسلامی قانون میں اخلاقی اقدارکی اتنی اہمیت ہے کہ بسااوقات کسی اچھے عمل کو چھوڑنابھی قابل جرم بن جاتاہے،مثلا فقہ مالکی میں یہ مسئلہ لکھاہے کہ ایک آدمی کے پاس پانی ہے،اور ان کی ضرورت سے زائد ہے،وہ کسی مسافرکوپانی دینے سے منع کردیتاہے،اور وہ مسافرپیاس کی شدت سے مرجاتاہے،توپانی دینے سے منع کرناوالاقتل عمد کامرتکب شمارکیاجائے گا،گرچہ وہ پانی کا مالک تھا۔(۳۱)
علامہ ابن قدامہ نے لکھاہے کہ جوشخص کسی آگ میں گرکر یاپانی میں ڈوپ کرمرنے سے بچاسکتاہے،اور نہیں بچاتاہے،وتوایساآدمی قابل ضمان ہے،یہ ایساہی ہے جیسے اس کے پانی یاکھانانہ دینے کی وجہ سے کوئی مرجائے۔ (۳۲)
حوالے:
۱۔چراغ راہ ،سرورق،اسلامی قانون نمبرجلداول،مرتب خورشیداحمد، پاکستان
۲۔مجلۃ الاحکام العدلیۃ، ص:۲۷،۲۸، ترجمہ عبدالقدوس ہاشمی،ناشر علماء اکیڈمی شعبہ مطبوعات ،محکمہ اوقاف پنجاب،لاہور
۳۔فلسفۃ التشریع فی الاسلام، ص:۹،از ڈاکٹر صبحی محمصانی، فلسفہ شریعت اسلام ،(اردوترجمہ) ، ص: ۲۴، مترجم: مولوی محمد احمد رضوی،ناشر:مجلس ترقی ادب لاہور،نومبر ۱۹۹۹؁
۴۔لسان العرب،ج۷،ص:۲۲۹
۵۔فلسفہ شریعت اسلام (اردوترجمہ)،ص:۲۴
۶۔بحوالہ چراغ راہ ،اسلامی قانون نمبر،The Pocket Lap Laxicon,A.W.Motion,page:216
۷۔(Jurisprudence 10th Edi Salmond,Page:41)
۸۔بحوالہ چراغ راہ ،اسلامی قانون نمبرجلداول
۹۔چراغ راہ ،اسلامی قانون نمبر،مضمون نگار:ابصارعالم،ص:۳۱
۱۰۔قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز، مصنف: مولانا اختر امام عادل قاسمی،سن طباعت:۲۰۰۸؁
۱۱۔اسلام کافوجداری قانون،ص:۱۴،اردوترجمہ التشریع الجنائی فی الاسلام،از عبدالقادر عودہ شہید، مترجم: ساجد الرحمن کاندھلوی،ناشر:اسلامک پبلی کنشنزلاہور۱۹۹۷
۱۲۔سورہ بقرہ :۳۸۔۳۹
۱۳۔تفصیل کے لئے دیکھئے :قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز،ص:۲۷،از مولانااخترامام عادل قاسمی
۱۴۔سورہ مائدہ :۳
۱۵۔المدخل الفقہی العام، ص:۱۶۲،مصطفی احمد زرقاء،طبع :دارالقلم دمشق،۲۰۰۴؁
۱۶۔المدخل الفقہی العام میں اس کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں
۱۷۔تفصیل کے لئے دیکھئے :التحبیر شرح التحریر ۳ : ۱۲۲۹۔۱۲۳۱،علاء الدین ابوالحسن بن سلیمان مرداوی دمشقی صالحی حنبلی،مکتبۃ الرشید ،ریاض ۲۰۰۰؁
۱۸۔الاحکام فی اصول الاحکام، ج۱،ص:۱۵۸،علی بن محمد آمدی،ناشر:المکتب الاسلامی دمشق،طبع دوم ۱۴۰۲؁
۱۹۔چراغ راہ،اسلامی قانون نمبر جلد اول ،مضمون ڈاکٹرحمیداللہ ؒ،
۲۰۔تفصیل کے لئے دیکھئے:E.Boden, Jurisprudence, p.346
۲۱۔سورہ نحل:۸۹
۲۲۔سورہ سبا:۲۸
۲۳۔سورہ فرقان:۱
۲۴۔سورہ زلزلۃ:۷
۲۵۔اسلام کا فوجداری قانون،ص:۱۶
۲۶۔اسلام کا فوجداری قانون،ص:۲۶
۲۷۔المدخل الفقہی العام،ص:۶۶۔۶۷
۲۸۔المدخل الفقہی العام،ص:۶۷
۲۹۔تفصیل کے لئے دیکھئے :اسلام کا فوجداری قانون،ص:۲۶
۳۰۔اسلام کا فوجداری قانون،ص:۱۷
۳۱۔حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر،ص:۸۵۳،محمد بن احمد بن عرفۃ دسوقی مالکی،طبع:دارالفکر
۳۲۔المغنی،ج۷،ص:۸۳۴،موفق الدین محمد بن قدامہ مقدسی طبع:عالم الکتب للطباعۃ والنشروالتوزیع، ریاض، ۱۹۹۷؁

Tags

Share this post: