اعجاز قرآنی کی حقیقت اوراقسام

اعجاز قرآنی کی حقیقت اوراقسام
                                                                                                    مولاناڈاکٹرمحمد علی ندوی
                                                                                                       استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسان کو ایمان، عبادت، اخلاق اور کامیابی کا راہ دکھانا ہے، لہٰذا ضروری تھا کہ اس کی حقانیت سب کے سامنے واضح ہو، اور حجت تام ہو، چنانچہ قرآن کریم خود ہی معجزہ کی شکل میں سامنے آیا، بلکہ اس کے اعجاز کے کئی پہلو ہیں، جن میں ایک نمایاں پہلو ’’اعجازِ علمی‘‘(Scientific Miracles)بھی ہے۔قرآن میں کائنات،فلکیات  (Astronomy) ،حیاتیات (Biology)،طب(Medicine)،علوم طبیعہ(Natural Sciences) اور فطری قوانین کے ایسے اشارات ملتے ہیں جنہیں اُس وقت کے انسان پورے طور پرسمجھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جدید سائنس نے صدیوں بعد ان کی تصدیق کی۔ یہی پہلو قرآن کے ’’سائنسی اعجاز‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور جب اللہ ہی کائنات کا خالق ہے، اور قرآن اللہ ہی کا کلام ہے، تو یہ ناممکن ہے کہ قرآن اُن کائناتی وسائنسی حقائق کے خلاف ہو جو قرآن کے نزول کے بعد دریافت ہوئے۔
ایمان محض تقلید یا اندھی تسلیم پر نہیں قائم ہوتا بلکہ خدا کی توفیق شامل حال رہتی ہے، اور طلب صادق ہوتی ہے تو دلائل (چاہے وہ شرعی ہوں یا عقلی وسائنسی )بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ اس وقت سائنس وہ زبان ہے جسے آج کی نئی نسل بخوبی سمجھتی ہے۔ اس لئے ہمیں ان کے سامنے وہ سائنسی دلائل پیش کرنے چاہئے جو قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض حقائق کو یورپ کے سائنس دانوں نے خود دریافت کیا اور یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اسلام نے ان کا ذکر چودہ صدی پہلے کر دیا تھا۔ اور اب بھی قرآن و سنت میں ایسی سائنسی نشانیاں باقی ہیں جن کے راز آج کی سائنس نہیں کھول پائی، اور وہ وقت ضرور آئے گا جب سائنس ان کو بھی دریافت کرے گی، ان شاء اللہ۔ (۱ )
دورِ حاضر کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ علوم کی برق رفتار ترقی اور کائنات کے اسرار و رموز کی کھوج کے لمبے سفر سے ایک نئے سفر پر روانہ ہوچکا، سائنسی انقلاب کے مختلف مراحل (صنعتی، الکٹرونک، ڈیجیٹل، آن لائن، وغیرہ) سے گزر کر اے آئی کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے، جو پچھلے مراحل سے زیادہ پر خطر ہے۔
اسلئے اس زمانے میں ایمان سے محروم ایک تعداد اسلام قبول کرنے اور دل کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے، شکوک وشبھات رفع کرنے کے لیے؛ اللہ کی قدرت،اس کی مخلوقات اوراس کے خالق ومدبر ہونے میں غور کے ساتھ سائنسی دلائل کی محتاج ہے؛ کیونکہ سائنسی علوم کی برق رفتار ترقی نے انسان کو حیران کر دیا ہے اور کمزور ایمان رکھنے والوں کے عقائد کو متزلزل کر دیا ہے۔
جب انسان کائنات کے حقائق کو دریافت کرتا ہے، اللہ کی مخلوقات کے بھید کھولتا ہے، تو علل ومعلولات اور اسباب ومسببات سے حقیقی ’’مُسبّب الاسباب‘‘اور ’’مدبّر الامور‘‘ کائنات کا نظام چلانے والے رب کی طرف اسکی رسائی ہوتی ہے۔ یہ تحقیق و جستجو انسان کو صرف مادی و سائنسی ترقی کے منازل تک محدود نہیں رکھتی، بلکہ اس کے ایمان کو تازگی اور یقین کو پختگی بھی عطا کرتی ہے۔
ليکن یہی انسان اگر ایمان کے نور اور عقلی شعور سے کام نہ لے، خواہشِ نفس کے غلبہ میں آجائے اور اپنے جہل کا اعتراف نہ کرے تو وہ علّت و معلول اور اسباب و نتائج کی لمبی کڑی میں گم ہوکر ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے،اپنے مشاہدات اور اخذ کی ہوئی باتوں پر بھروسہ کرلیتا ہے، وہ کائنات کے وجود اور تصرفات کو انہی علل و اسباب کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور ان اسباب کے خالق کو اور اس ہستی کو بھول جاتا ہے جس نے اُسے اور اس پورے جہاں کو عدم سے وجود بخشا۔ وہ ان غیبی حقائق کو جھٹلا دیتا ہے جن کا اسے علم نہیں، اور صرف انہی مشہود حقیقتوں پر ایمان لاتا ہے جو اس کے تجربہ میں آچکی ہیں، حالانکہ اگر ایک صدی یا دو صدی پہلے کوئی شخص اُسے یہی حقائق بتاتا تو وہ انکار کردیتا اور جھٹلادیتا۔ حقیقت میں یہ انسان کتنا جاہل اور کتنا ناشکرا ہے! :
 ﴿قُتِلَ الإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ، فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ﴾ [عبس: 17-22]
خدا تعالیٰ فرماتا ہے: لعنت ہے انسان پر! وہ کتنا ناشکرا ہے! اس [کے رب] نے اسے کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفہ سے اس کو پیدا کیا اور اس کا تناسب بنایا۔ پھر اس کے لیے [دنیا میں آنے کا] راستہ آسان کر دیا۔ پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا، پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔“
حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی محتاج ہے، اُسے اُس ذات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے جو کائنات اور اسباب کا خالق ہے۔ وہ گمراہ ہے، جسے راہ دکھانے والے کی حاجت ہے۔ وہ پیاسا ہے، جسے آسمانی سیرابی درکار ہے۔ وہ اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، جسے نبوت و ہدایت کی روشنی کی ضرورت ہے۔ وہ مردہ ہے، جسے وحی کی روح درکار ہے۔
یہی قرآنِ پاک کے سائنسی معجزہ (اعجازِ علمی) کا مقصد ہے، کہ وہ انسان کو اس کے خالق سے جوڑ دے، اور اُس فکری بگاڑ کا مقابلہ کرے جو سب سے بڑی خرابی ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ایک مسلمان اسے دعوتِ حق کے لیے استعمال کرے، لوگوں کو اللہ اور اُس کے دینِ حق کی طرف بلائے، خشک دلوں میں ایمان کے بیج بوئے اور مُردہ روحوں میں حیات بخش آبشاریں رواں کرے۔
انسانوں کو انبیاء اور معجزات کی حاجت وضرورت:
انسان خواہ کتنا ہی عقل مند کیوں نہ ہو، اس کی عقل محدود ہے، اس کی نگاہ قاصر ہے، اور اس کا علم ناقص اور ادھورا ہے۔ اس لئے وہ اپنی سوجھ بوجھ کے بل پر ایسی کامل راہِ حیات نہیں ڈھونڈ سکتا جو رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہو، وہ خود ہدایت اور رب چاہی زندگی گزارنے کا وہ کامل طریقہ نہیں پاسکتا جس میں کامیابی مضمر ہے، اور جس سے اس کی انفرادي واجتماعی، جسمانی وروحانی، دنیاوی واخروی زندگی سنور جائے اور اس کی نجات و سعادتِ ابدی یقینی ہو جائے۔
اسی لیے انس وجن کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے پاس ایک رسول بھیجے، جو اپنی زبان سے انہیں اللہ کا پیغام سنائے، بتائے کہ اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے، ان کے لیے کس طرزِ حیات کو پسند کرتا ہے، اور ایمان، عبادات، معاملات اور نظامِ حیات کے کون سے اصول ان کے لیے ہدایت اور فلاح کے ضامن ہیں۔
اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
 ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا﴾ (النحل: 36)
پس جو ایمان لائے اور رسول کی پیروی کی وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے، اور جنہوں نے انکار کیا ان پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی، جیسا کہ فرمایا:
 ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (الإسراء: 15)، اور فرمایا: ﴿رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء: 165)
لیکن ایک طرف انسان کی سرشت میں عناد و تکبر ہے، تو دوسری طرف بعض جھوٹے مدعیِ نبوت بھی اٹھتے رہے ہیں؛اس لیے حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ اپنے سچے انبیاء کو ایسے معجزات عطا کرے جو انسانی طاقت سے ماورا ہوں،تاکہ یہ روشن دلیل بن جائیں کہ یہ نبی سچا ہے، اس کا دعویٰ جھوٹ نہیں بلکہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ومؤیَّد ہے۔ یوں سچّا نبی جھوٹے مدعی سے الگ پہچانا جائے۔
معجزات کا قوم کے حالات اور مہارت کے موافق ہونا
پھر اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو ایسا معجزہ عطا کیا جو ان کی قوم کے فن اور مہارت کے عین مطابق ہو، تاکہ وہ آسانی سے اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں کہ یہ کسی بشر کا کرشمہ نہیں بلکہ رب کی قدرت کا نشان ہے، اس طرح معجزہ کا اثر ان کے دلوں کو زیادہ گہرائی سے چھو سکے:
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم جادوگری میں یدِ طولیٰ رکھتی تھی، تو ان کا معجزہ عصا تھا، جو ان کے جادو کے سارے کرشمے نگل گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماہر جادوگر بھی سجدے میں گر گئے اور مان گئے کہ یہ انسانی کمال نہیں بلکہ خدائی نشان ہے۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم طب اور علاج کے فن میں مشہور تھی، تو اللہ نے انہیں ایسے معجزات عطا کیے جو تمام اطباء کے فہم سے بالاتر تھے: پیدائشی اندھوں کو بینا کر دینا، کوڑھیوں کو شفا دینا، اور مردوں کو زندہ کرنا؛ یہ سب اللہ کے حکم سے۔
یوں ہر نبی کے معجزات قوم کے فن کے عین مطابق تھے، وہ درخشاں نشانیاں تھیں جن میں نہ کوئی ابہام رہا نہ دھندلاہٹ، بلکہ ایسی روشن حقیقتیں جو ہر منصف مزاج کو جھکا دیتی تھیں۔ تاکہ ان پر حجت پوری ہو اور حق کھل کر سامنے آجائے۔
معجزات کی حقیقت: انبیاء کے معجزات محض حیران کن مظاہر نہیں تھے بلکہ نبوت کی صداقت کی روشن دلیلیں تھیں۔ یہ نشانیاں ایسی واضح اور بے غبار تھیں کہ سچائی کے متلاشی ان کے سامنے بے ساختہ جھک جاتے۔ جادوگر موسیٰؑ کے سامنے سجدے میں گر گئے، فصحائے عرب قرآن کی فصاحت کے آگے سرِتسلیم خم کر گئے، اور آج کے سائنسدان قرآن کے بیان کردہ حقائق پر جھکنے پر مجبور ہو گئے۔
یوں معجزہ ہر دور میں نبی کی سچائی کی وہ بجلی ہے جو دلوں کے اندھیروں کو چیر کر روشنی پھیلا دیتی ہے۔
سابقہ انبیاء کے معجزات اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں فرق:
نبی اکرم ﷺ کو بھی، سابقہ انبیاء علیہم السلام کی طرح، بے شمار معجزاتِ حسی عطا ہوئے: جیسے چاند کا شق ہونا، آپ کی مبارک انگلیوں سے پانی کا چشمے کی طرح بہنا، کنکریوں کا تسبیح کرنا، کھجور کے تنے کا آپ کے فراق میں سسکنا، اور اس طرح کے سیکڑوں معجزات۔ مگر چونکہ آپ ﷺ کی رسالت سابقہ رسالتوں کے برعکس عالمگیر اور خاتم تھی، اس لیے مناسب تھا کہ آپ کو ایسا معجزہ عطا ہو جو اس شانِ رسالت کے لائق ہو۔
  1. عالمگیر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے، خواہ عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 ﴿وما أرسلناك إلا كافة للناس بشيراً ونذيراً﴾ [سبأ: 28]
 اور آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ہرنبی کو اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا، اور مجھے تمام انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘(بخاری: 335، مسلم: 521)
  1. اور خاتم ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت قیامت تک باقی ہے، اور آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ارشادِ باری ہے:
﴿ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين﴾ [الأحزاب: 40]
پس ایسی رسالت ونبوت کو ایک ایسا معجزہ درکار تھا جو اس کی فطرت کے مطابق ہو:
* اس کے اعجاز کی صورتیں مختلف ہوں تاکہ ہر طبقے اور ہر قوم پر حجت پوری ہو سکے۔
* اور اس کے پہلو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تازہ ہوتے رہیں تاکہ قیامت تک آنے والی نسلیں بھی رسول کی صداقت اور خداکی طرف سے بھیجا ہوا ہونے کی گواہ بنتی رہیں۔
اسی لیے آپ ﷺ کے معجزات صرف حسی تک محدود نہ رہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معنوی اور متنوع معجزات سے بھی نوازا: اعجاز تشریعی، اعجاز غیبی ، اعجاز سائنسی وغیرہ۔ اور ان سب پر فوقیت رکھنے والا آپ ﷺ کا سب سے بڑا اور جامع معجزہ وہ ہے جو ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا ہے، ہر قوم اور ہر زمانے کے لیے ایک ہی شان سے معجزہ ہے، اور وہ ہے قرآن کریم، کلامِ رب العالمین، ایک جامع و ہمہ گیر، ابدی وسرمدي، معجزہ ہے جس کے اعجاز مين تنوع اور مختلف پہلو ہیں، جو محمدِ عربی ﷺ کی صداقت پر ابدی گواہ ہے۔
اعجاز کی تعریف اور دور اول میں اسکے مراحل
اعجاز کا لغوی معنی :
"اعجاز” مصدر ہے "أعجز” سے، جو "عجز” سے مشتق ہے۔ "عجز” کے معنی ہیں کمزوری عاجزی و بےبسی۔ "اعجاز” کے معنی ہیں کسی کی عاجزی و بےبسی کو ظاہر کرنا۔ جب کہا جاتا ہے "أعجز فلاناً” یعنی کسی کو عاجز و بےبس کر دیا، اسی نسبت سے نبی کا "معجزہ” وہ کرشمہ ہے جس کے ذریعے مخالفین چیلنج کے وقت خاموش اور بےجواب ہو جاتے ہیں۔ یہاں لفظ کے آخر میں آنے والی "ت” مبالغہ کے لیے ہے، یعنی نہایت شان دار اور فیصلہ کن عاجز کر دینے والی چیز۔
اصطلاحی معنی: معجزہ کہتے ہیں ایسی غیر معمولی خارقِ عادت چیزکو جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو. چیلنج اور دعوتِ مقابلہ کے ساتھ آئے، اور پھر مقابلہ اور اس کی مثل پیش کرنے سے ہر مدعی عاجز رہ جائے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
 ﴿وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ﴾ [البقرۃ: 23]
 اگر تمہیں شک ہے اس چیز میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سورت لے آؤ۔
 لیکن وہ نہیں لاسکے، یہی اصل میں اعجاز ہے۔
اعجازِ قرآنی کا مفہوم ومقصود:
قرآن کے اعجاز سے مراد یہ ہے کہ قرآن نے مخلوق کی اس بات سے عاجزی ثابت کر دی ہے کہ وہ اس جیسی کتاب نہیں لا سکتے۔ خواہ اس کی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہو، یا اس میں بیان کردہ ماضی و مستقبل کی غیبی خبریں ہوں، یا اس کے قانون سازی میں ہو، یا اس کے اعجاز کے دیگر پہلوؤں میں۔ یہی سب نشانیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ کتاب کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اور جب قرآن کا اعجاز ثابت ہو گیا تو لازم ہے کہ اس اعجاز کے مقصود کو قبول کیا جائے، اور وہ مقصود ہے: اللہ کی اس آخری کتاب پر اور اس کے برگزیدہ نبی محمد ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی ہدایت کو زندگی کا چراغ بنانا۔
قرآنِ کریم کی صداقت اور کلام اللہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کريم نے عربوں کو تین نمایاں مرحلوں میں للکارا:
سب سے پہلے پورے قرآن کے مقابلے پر انہیں للکارا کہ اگر دم ہے تو اس پورے قرآن کی مانند کلام لے آؤ [سورہ الاسراء: 88]، مگر وہ بےبس ہو کر رہ گئے اور اس للکار کا کوئی جواب نہ دے سکے.
پھر چیلنج کو آسان کر کے صرف دس سورتوں کے مثل لانے پر انہیں للکارا کہ اگر طاقت رکھتے ہو تو اس جیسی دس سورتیں لے آؤ، جیسا کہ [سورۂ ہود میں اعلان کیا گیا، آيت: 13]۔ مگر وہ بےبس ہو کر رہ گئے اور اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دے سکے۔(۲)
پھر کلامِ الٰہی نے چیلنج کو اور بھی آسان کر دیا، کہ اگر دم ہے تو بس ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو، جیسا کہ سورۂ [یونس: 38] اور سورۂ [بقرہ:23] میں فرمایا گیا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ عرب کے فصحا و بلغاء، اور بعد کے تمام انسان، آج تک اس چیلنج کے سامنے بےبس ہیں اور قیامت تک بےبس رہیں گے۔ ہر گزرتے دن قرآن کی نئی جہت اور معجزہ سامنے آتا ہے، اور انسانوں کی عاجزی پر مزید مہر لگ جاتی ہے۔ قرآن کل بھی معجزہ تھا، آج بھی ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔
اعجازِ قرآنی کے مختلف پہلو  (وجوہِ اعجازِ قرآنی)
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو ہر زمانے میں اپنی صداقت اور اعجاز کے ساتھ انسانیت کو چیلنج کرتی ہے۔
چنانچہ قرآنِ عظیم کئی جہات سے معجزہ ہے:
* یہ اپنے الفاظ وبیان اور اپنی فصاحت وبلاغت میں معجزہ ہے۔
* اپنے اسلوب اور نظم میں معجزہ ہے۔
* اپنی تشریعات اور احکام میں معجزہ ہے۔
* اور غیب کی ماضی ومستقبل کی خبریں دینے میں بھی معجزہ ہے۔
* اسی طرح یہ ان علوم و معارف کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے جنہیں اس نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا، اور جنہیں نہ اس سے پہلے کسی کتاب نے یکجا کیا اور نہ اس کے بعد کوئی کتاب کر سکے گی۔
* مزید یہ کہ قرآن اُن کائناتی حقیقتوں کے بیان میں بھی معجزہ ہے جو آفاق و انفس میں پوشیدہ تھیں، اور جن تک نزولِ قرآن کے زمانہ میں انسانی عقل و علم کی رسائی نہ ہوسکی تھی۔
قرآن کے اعجاز کو مفسرین اور محققین نے مختلف پہلوؤں سے بیان کیا ہے، جن میں سے چار نمایاں پہلو یہ ہیں:
اعجازِ بیانی (Miracle of Eloquence)
اعجازِ تشریعی (Miracle of Legislation)
اعجازِ غیبی (Miracle of Prophecies)
اعجازِ علمی (Scientific Miracles)
اعجازِ بیانی و بلاغی :
قرآنِ حکیم اپنی زبان و بیان کی شان میں وہ درجہ رکھتا ہے جو کسی بشر کے بس میں نہیں۔ عرب فصاحت و بلاغت  کے امام تھے، زبان و بیان میں اپنی مہارت پر نازاں تھے، ان کی محافلِ سخن عربی ادب کی چوٹی سمجھی جاتی تھیں۔ ایسے ماحول میں قرآن نازل ہوا، جس نے نہ صرف ان کے خطبوں اور قصیدوں کو ماند کر دیا، بلکہ خود ان کے ادبی ائمہ کو بے بس کر دیا، سب نے اس کی فصاحت کے آگے سر جھکا دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان سب کو چیلنج دیا:
 ﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ [الإسراء: 88]
کہہ دو: اگر تمام انسان اور جنات جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا لے آئیں، تو ہرگز اس جیسی چیز نہ لا سکیں گے، خواہ وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔
یہ چیلنج صرف ایک کتاب کے لانے تک محدود نہ رہا، بلکہ کبھی ایک سورۃ کے برابر کچھ پیش کرنے کو کہا گیا، اور کبھی صرف چند آیات کے مثل لانے کی دعوت دی گئی۔ لیکن عرب کے بڑے بڑے ادیب و شاعر عاجز رہ گئے۔ یہی وہ اعجاز ہے جسے اعجازِ بیانی و بلاغی کہا جاتا ہے۔
قرآن کا اسلوب ایسا ہے جو نہ شاعری ہے نہ نثر، بلکہ ایک منفرد طرز ہے جس کی نظیر ممکن نہیں۔
قرآنِ مجید کی سب سے پہلی اور نمایاں خصوصیت اس کا اسلوبِ بیان ہے۔ اسکی عظمت واعجاز کی سب سے پہلی جھلک اس کے کلام کی فصاحت، معانی کی گہرائی اور اسلوب کی بلاغت میں نظر آتی ہے۔ یہ ایسا بیانی حسن ہے جس کے سامنے عرب کے چوٹی کے فصحاء و بلغاء کا بھی مبہوت رہ جاتے تھے۔
اس کی آیات کے طرزِ بیان میں روانی، تاثیر اور دلوں کو مسخر کرنے کی قوت ہے۔
الفاظ کا جرس، جملوں کی ترتیب، ایجاز واطناب کا توازن، ذکر و حذف، تعریف وتنکیر، تقدیم و تاخیر.. یہ سب مل کر ایک ایسی ادبی رفعت پیدا کرتے ہیں جو انسانی طاقت سے باہر ہے۔
مثال کے طور پر عرب کا مشہور مقولہ ’’القتل أنفی للقتل‘‘ (قتل، قتل کو روکتا ہے) بڑا بلیغ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن قرآن نے صرف چند الفاظ میں اس سے کئی گنا زیادہ معنوی گہرائی پیدا کر دی:
﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ﴾ [البقرة: 179]
اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔
قرآن کے الفاظ، تراکیب، آہنگ اور اسلوب میں ایک ایسی روحانی ہیبت اور دلی تاثیر ہے جس کی مثل انسانی کلام میں ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ولید بن مغیرہ جیسے ماہرِ سخن نے قرآن سنا تو بے ساختہ بول اُٹھا:
"خدا کی قسم! میں نے ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسان کا کلام ہے نہ جن کا۔ اس میں ایک عجیب سی مٹھاس ہے، اس پر ایک خاص رونق ہے، اس کا اوپر والا حصہ پھل دار اور بابرکت ہے، اور اس کا نیچے والا حصہ سیراب کرنے والا ہے، یہ کلام بلند ہے اور اس پر کوئی بلند نہیں ہوسکتا۔ یہ کسی بشر، شاعر یا کاہن کا کلام نہیں، بلکہ ایک غالب حقیقت ہے جس پر کوئی بات غالب نہیں آسکتی۔”(۳ )
اسی لیے قرآن کی ہر سورت اور ہر آیت، اپنی جگہ ایک معجزہ ہے، جو قیامت تک انسانی زبانوں اور قلموں کو چیلنج دیتا رہے گا۔
 اعجازِ تشریعی
دنیا کے مذاہب و ادیان میں قوانین ملتے ہیں، لیکن یا تو وہ چند محدود عبادات تک رہ گئے، یا چند اخلاقی نصیحتوں تک محدود تھے۔ کسی نظام نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس جامعیت کے ساتھ اپنے دائرۂ قانون میں نہ سمیٹا، جیسا کہ قرآن نے کیا۔
قرآنِ حکیم کی شریعت ایک کامل اور متوازن قانون ہے، ہمیں ایک ایسا جامع نظامِ حیات دیا جو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر عدل و انصاف قائم کرتا ہے۔
یہ فرد کی اصلاح بھی کرتا ہے، خاندان کو استحکام بھی بخشتا ہے، اور معاشرے کے لیے عدل و مساوات کی فضا بھی قائم کرتا ہے۔
یہ سیاست و معیشت کے اصول بھی بیان کرتا ہے، عبادات اور اخلاق کے ضوابط بھی عطا کرتا ہے، اور جنگ و امن دونوں کے لیے قوانین بھی فراہم کرتا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
 ﴿ونزلنا عليك الكتاب تبيانًا لكل شيء وهدى ورحمة وبشرى للمسلمين﴾ [النحل: 89]
اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والی ہے، اور ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لیے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون کسی ایک نسل یا کسی خاص طبقے کے لیے محدود نہیں، بلکہ ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے یکساں طور پر قابلِ عمل ہے۔ دنیا کے بدلتے حالات کے باوجود اس کے اصول تازہ رہتے ہیں اور ہر نئی صورتِ حال کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔
فقیہ العصر علامہ مصطفی الزرقاء (رحمہ اللہ) کے نزدیک قرآن کا تشریعی اعجاز اس بات میں ہے کہ اس نے ایسے بنیادی اور آفاقی اصول دیے ہیں، جن کی روشنی میں قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، جو ہر دور، ہر علاقہ اور ہر طبقہ میں انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں۔(۴)
یعنی، قرآن کی شریعت جامد اور محدود نہیں، بلکہ لچکدار اور زندہ ہے۔ وہ زمانے کے تقاضوں کا جواب دیتی ہے، مگر اپنی اصل بنیادوں میں کبھی تبدیلی نہیں آنے دیتی۔ عبادات میں روحانیت، معاملات میں عدل، اخلاق میں بلندی، اور معاشرت میں توازن یہ سب قرآن کی شریعت کا مظہر ہے۔
اسی پہلو نے قرآن کو تمام قوانین پر فوقیت دی گئی ہے، اور اسی وجہ سے وہ قیامت تک انسانیت کا ضابطۂ حیات ہے۔
اعجازِ غیبی :
قرآنِ حکیم میں بے شمار ایسی خبریں دی گئی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت پردۂ غیب میں تھیں۔ نہ کوئی انسان ان کا اندازہ لگا سکتا تھا اور نہ ہی عقل و تجربہ ان تک پہنچ سکتے تھے اور نہ اس زمانے کے انسانوں کے علم میں تھیں ۔ لیکن وقت آنے پر وہ خبریں ایک ایک کر کے حقیقت کے روپ میں ظاہر ہوئیں، اور حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔ یہی قرآن کے اعجازِ غیبی کا روشن ثبوت ہے:
1- غیبِ ماضی
قرآن پاک نے اُن تاریخی حقائق کو بیان کیا جن تک نہ رسول اللہ ﷺ کی رسائی تھی اور نہ اہلِ عرب کے پاس ان کی تفصیلات موجود تھیں۔ چنانچہ قرآن نے پچھلی امتوں کے حالات بیان کیے: قوم نوحؑ، عاد، ثمود، فرعون اور بنی اسرائیل کے واقعات، جن کو عرب نہیں جانتے تھے۔ قرآن نے نہ صرف ان کی تفصیلات بیان کیں بلکہ ان سے عبرت و ہدایت کے پہلو بھی اجاگر کیے۔
ارشاد باری ہے:
 ﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا﴾ [هود: 49]
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے انہیں نہیں جانتے تھے۔
2- غیبِ حال
قرآن پاک نے غیب کی خبریں نبی کریم ﷺ کی زندگی میں بیان کیں، مثلا: منافقین کے راز، یہودیوں کی سازشیں، قرآن پاک نے کھول کر بیان کردیں، جب کہ سازش عمل تک پہونچی بھی نہ تھی۔
3- غیبِ مستقبل
قرآن نے مستقبل کی خبریں آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بھی اطلاع دی۔
مثال کے طور پر: روم اور فارس کی جنگ؛ روم کی شکست کے بعد ان کی فتح کی خبر، جو چند برس بعد بالکل سچ ثابت ہوئی سورۃ الروم میں ارشاد ہے:
﴿غُلِبَتِ الرُّومُ * فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ * فِي بِضْعِ سِنِينَ﴾ [الروم: 2-4]
رومی مغلوب ہو گئے ہیں، اور عنقریب بضع (چند) سالوں میں غالب آجائیں گے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں ہوا جب رومی سلطنت بظاہر تباہی کے دہانے پر تھی۔ لیکن ٹھیک چند سال بعد روم کو عظیم فتح نصیب ہوئی، اور قرآن کی پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
* اسی طرح قرآن نے فتحِ مکہ کا وعدہ کيا (الفتح: 27)، دینِ اسلام کے دنیا پر غالب آنے کی بشارت دي (التوبہ: 33) اور دشمنوں کے انجام کی پیشن گوئیاں۔(۵)
یہ سب خبریں آئندہ کے حالات کو واضح کرتی ہیں اور وقت کے ساتھ ان کا وقوع پذیر ہونا قرآن کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔
غیب کی ایک چوتھی قسم ہے غیبِ کونی و آفاقی، یہ ایک مستقل اعجاز کا پہلو ہے جسکو چوتھے نمبر پر ذکر کیا جاتا ہے.
یہ اعجازِ غیبی قرآن کے اُس نورانی پہلو کو نمایاں کرتا ہے جس میں انسانی عقل عاجز نظر آتی ہے۔ ماضی کی پردہ نشین داستانیں، حال کے مخفی حقائق اور مستقبل کی روشن پیشن گوئیاں سب مل کر یہ اعلان کرتی ہیں کہ یہ کلام انسان کا نہیں بلکہ ربّ العالمین کا ہے۔
 چوتھا پہلو: سائنسی اعجاز [اعجازِ علمی ]
چونکہ قرآنِ حکیم کلامِ خالقِ کائنات ہے، اس لیے اس میں کائنات کے رازوں اور مظاہرِ فطرت کی طرف ایسے اشارے ملتے ہیں جو انسانی عقل و تحقیق کے لیے رہنما ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت یہ باتیں انسانی علم سے بالکل باہر تھیں، لیکن صدیوں بعد سائنس نے ان کی تصدیق کی، اور یوں قرآن کی صداقت نئی آنکھوں سے جلوہ گر ہوئی۔ یہی ہے سائنسی اعجاز، جسکو عربی میں: ’’اعجازِ علمی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ اعجاز بھی اعجازِ غیبی کے دائرے میں آتا ہے، کیوں کہ قرآن وسنت میں کچھ ایسے کائناتی حقائق بیان کیے گئے ہیں جو اُس زمانے میں انسانوں کے علم ان کی دسترس میں نہ تھے، جدید تجرباتی سائنسی طریقوں سے بہت بعد میں ثابت ہوئے۔
اس اعجاز کی مثالیں آج کے سائنسی علوم میں واضح طور پر سامنے آئی ہیں، جدید سائنسی انکشافات کے بعد یہ حقیقت خوب واضح ہوئی کہ قرآن کی بعض آیات ایسے حقائق کی طرف اشارہ کرتی ہیں جنہیں اُس وقت انسان جان ہی نہیں سکتا تھا۔ مثلاً:
 جنین اور تخلیقی مراحل میں قرآن کا اعجاز:
قرآن پاک نے انسان کی تخلیق (Creation of Man) کے مراحل کو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ  ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا﴾ [المؤمنون: 12-14]، ﴿ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ ﴾ [الحج: 5]
ان آیات اور دیگر آیات میں جنین کی تخلیق اور نشوونما کے تمام مراحل [نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام (ہڈیاں)، لحم (گوشت)] کو سائنسی ترتیب کے ساتھ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
جدید علمِ جنین (Embryology)نے انہی مراحل کو بالکل اسی ترتیب سے دریافت کیا ہے۔
ماہرِ علمِ جنین (Embryology) پروفیسر کیتھ ایل مور (Keith L. Moore) نے اپنی کتاب The Developing Human  میں واضح کیا ہے کہ قرآن کی یہ تعبیرات جنین کی نشوونما کے مراحل سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں، اور اتنی دقیق تفصیل کا ادراک جدید سائنس کے بغیر ممکن نہ تھا۔ (۶ )
 کائنات کے پھیلنے (Cosmological Theory of Expansion) کا ذکر:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
 ﴿وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْيدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ﴾ [الذاریات: 47]
اور ہم نے آسمان کو قوت کے ساتھ بنایا اور ہم اسے وسیع کر رہے ہیں۔
یہ آیت نہایت حیرت انگیز طور پر جدید فلکیات (Modern Astronomy) کی اس دریافت سے ہم آہنگ ہے کہ کائنات (Universe) مسلسل پھیل رہی ہے۔
انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں ماہرین فلکیات(Astronomers)نے مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔
مشہور ماہر فلکیات (Astronomer) ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے 1925ء میں اپنے مشاہدات سے اور 1929ء میں اپنی مشہور تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس کا آغاز کسی بند حالت سے ہوا تھا۔ یہ دریافت قرآن کے بیان کی سائنسی توثیق ہے۔ ( ۷)
* آگے مستقل عنوان کے تحت مختلف علوم میں سائنسی اعجاز (Scientific I‘jaz) مثالیں جمع کی گئی ہیں، علم فلکیات(Astronomy)، علوم ارضی، موسمیات (Meteorology) ، علوم  بحری (Marine Sciences)، نباتیات (Botany) ، حیاتیات (Biology) ، حیوانیات (Zoology) ، علم الجنین  (Embryology)،علم طب یا میڈیکل سائنس ، وغیرہ ہر ایک کے تحت اسکی مثال دینے کی کوشش کی جائیگی ان شاء اللہ.
خلاصہ یہ کہ قرآن نے کئی صدیوں پہلے وہ حقائق بیان کیے جو سائنس نے بہت بعد میں دریافت کیے۔
یوں سائنسی اعجاز دراصل ایک ایسا زاویہ ہے جو قرآن کی صداقت کو نئے انداز میں واضح کرتا ہے۔(۸)
 اعجازِ قرآنی کا پانچواں پہلو: اعجازِ جامع و ہمہ گیر
قرآنِ حکیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اعجاز کے ایک نہیں، بلکہ بے شمار پہلو جمع ہیں۔ اگر یہ صرف زبان و بیان کے کمال تک محدود ہوتا، تو شاید اسے صرف عرب کے فصحاء و بلغاء ہی محسوس کرتے۔ اگر یہ محض شریعت و قانون سازی تک محدود ہوتا تو شاید صرف فقہاء و قانون داں اس کی عظمت کو جان پاتے۔ اگر یہ صرف غیب کی خبریں یا سائنسی حقائق بیان کرتا، تو یہ اعجاز بھی وقت کے ایک خاص حصے تک محدود سمجھا جاتا۔
لیکن قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ:
وہ بیانی و بلاغی ہے: الفاظ کا جادو اور معانی کی گہرائی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
وہ تشریعی ہے: ایک کامل ضابطۂ حیات، جو فرد، خاندان اور ریاست سب کو سنبھالتا ہے۔
وہ غیبی ہے: پردۂ غیب سے متعلق خبریں دے کر ان کی صداقت وقت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے۔
وہ علمی (سائنسی) ہے: فطرت کے رازوں اور کائنات کے سربستہ پردوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یوں قرآن ہر علم، ہر طبقے اور ہر دور کے لیے ایک الگ پہلو سے معجزہ بن کر ظاہر ہوتا ہے۔
قرآن کا تسلسل اور ابدیت:
قرآن کی معجزاتی شان یہ بھی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اعجاز کم نہیں ہوتے، بلکہ نئے سے نئے رخ کھلتے رہتے ہیں۔
فصحاء و بلغا آج بھی اس کے اسلوب پر حیران ہیں۔
قانون داں آج بھی اس کے عدل و حکمت پر سر جھکاتے ہیں۔
سائنس داں آج بھی اس کی اشارات میں نئی دریافتوں کی جھلک پاتے ہیں۔
اور عام انسان آج بھی اس کے الفاظ سے روحانی غذا اور قلبی سکون حاصل کرتا ہے۔
قرآن گویا ہر دور کے انسان کو چیلنج کرتا ہے: آؤ، دیکھو! میں تمہارے لیے ہر زمانے میں زندہ دلیل ہوں، کبھی بیان کے جادو سے، کبھی قانون کی حکمت سے، کبھی علم و سائنس کی گہرائی سے، اور کبھی دل و جان کی تسکین سے۔
 پس اعجازِ قرآنی کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ ایک معجزہ نہیں بلکہ ہزاروں معجزوں کا مرقع ہے؛ ایک ایسی دائمی روشنی جو قیامت تک نسل در نسل انسانیت کو اپنی صداقت کا یقین دلاتی رہے گی۔
خلاصہ یہ کہ قرآنِ کریم وہ آفتابِ ہدایت ہے جس کی کرنیں کبھی مدھم نہیں ہوتیں۔ اس کا ہر صفحہ ایک نیا جہاں کھولتا ہے،ہر آیت ایک نئی روشنی بکھیرتی ہے، اور ہر لفظ ایک نئی حقیقت کا سراغ دیتی ہے۔
اس کا بیانی اعجاز ایسا ہے کہ فصاحت و بلاغت کے شہسوار بھی اس کے سامنے بے زباں ہو گئے۔
اس کا تشریعی اعجاز ایسا ہے کہ اس نے ایک کامل اور عادلانہ ضابطۂ حیات دنیا کو عطا کیا، جو فرد سے لے کر ریاست تک ہر سطح پر رہنمائی کرتا ہے۔
اس کا غیبی اعجاز ایسا ہے کہ اس نے پردۂ غیب کی خبریں دیں، جو وقت کے ساتھ حقیقت میں ڈھلتی رہیں اور صداقت کی گواہی بنتی رہیں۔
اس کا علمی (سائنسی) اعجاز ایسا ہے کہ کائنات اور فطرت کے وہ بھید آشکار کیے جو صدیوں بعد سائنس نے دریافت کیے۔
یوں قرآن ایک ساتھ کئی جہات میں معجزہ ہے، اور ہر زمانے کے انسان کو الگ الگ پہلو سے للکارتا ہے۔ کوئی عالم اس کے سامنے آتا ہے تو اسے علم کا سمندر دکھائی دیتا ہے، کوئی فقیہ اس پر غور کرتا ہے تو اسے قانون کا کامل نظام نظر آتا ہے، کوئی خطیب یا شاعر اس پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے زبان و بیان کا بے مثال شاہکار ملتا ہے، اور کوئی سائنس داں اسے پڑھتا ہے تو اسے کائنات کی تحقیق کی راہیں روشن دکھائی دیتی ہیں۔
قرآن پاک بے شمار معجزات کا مجموعہ ہے، جن کو چار جامع انواع میں سمیٹنے کی یہاں کوشش کی گئی ہے، مزید خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ اس کا معجزہ یہی ہے کہ یہ صرف ایک قوم یا ایک دور کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت اور قیامت تک کے لیے زندہ و جاوید حجت ہے۔
سچ ہے کہ نبیوں کے معجزے وقت کے ساتھ مٹ گئے، مگر قرآن کا معجزہ وقت کے ساتھ اور نکھرتا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ہر نبی کو ایسے معجزے عطا کیے گئے جن پر لوگ ایمان لائے، لیکن مجھے وحی عطا کی گئی ہے جو اللہ نے مجھ پر نازل فرمائی، پس مجھے امید ہے کہ میرے ماننے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔(۹)
یہاں وحی سے مراد قرآن مجید ہے۔ اس کی معجزاتی شان، اس کے بے شمار فوائد اور ہمہ گیر نفع کی وجہ سے ہی آپ ﷺ کے پیروکار سب سے زیادہ ہوئے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن کا معجزہ قیامت تک جاری ہے، اس کا اسلوب اور بلاغت غیر معمولی ہیں، اس میں غیب کی خبریں ہیں، اور ہر دور میں وہ خبریں سچ ہوتی چلی جاتی ہیں جو اس میں دی گئی تھیں، جو رسول اللہ ﷺ کی صداقت پر دائمی شہادت ہیں۔ اس کا فیض ان لوگوں تک بھی پہنچتا ہے جو موجود ہیں اور ان تک بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے… اور یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے متبعین سب سے زیادہ ہیں۔ (۱۰ )
اسی حقیقت کو ایک شاعر نے نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے:
جاء النـبيون بالآيات فانصـرمت      وجئـتنا بكتاب غير منصـرم
آياته كلما طـال المـدى جـدد       يزينهن جـلاء العتق والقـدم
ترجمہ: آئے نبیوں کے ساتھ معجزے اور ختم ہو گئے اور آپ ہمارے پاس لائے ایسی کتاب جو کبھی ختم نہ ہوگی۔
اس کی آیات وقت گزرنے کے ساتھ نئی روشنیوں میں جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں * جنہیں تازگی اور قدامت دونوں کی آب و تاب سنوارتی رہتی ہے۔ ( ۱۱)
حواشی:
(۱ ‏) دیکھیے: مجلۃ الشريعة، جامعة الكويت، شمارہ 35، (ص 42(، مقال الإعجاز العلمي في القرآن والسنة وأثره في تعميق الإيمان، لعبد الكريم عبيدات، الإعجاز العلمي للدكتور محمد علي شفيق الندوي (ص16)
(۲ ‏) ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ (الإسراء: 88)
ترجمہ: "کہہ دو، اگر انسان اور جن سب جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا لے آئیں تو وہ اس جیسا نہ لاسکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔”
( ‏۳) رواه معمر، عن أيوب السختياني، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن الوليد بن المغيرة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقرأ عليه القرآن، فكأنه رق له، فبلغ ذلك أبا جهل، فأتاه [فأكرهه على أن يذكره بسوء]، فقال: وماذا أقول؟ فوالله ما فيكم رجل أعلم بالأشعار مني، ولا أعلم برجزه ولا بقصيده مني، ولا بأشعار الجن، والله ما يشبه الذي يقول شيئًا من هذا، ووالله إن لقوله الذي يقول حلاوة، وإن عليه لطلاوة، وإنه ‌لمثمر أعلاه، مغدق أسفله، وإنه ليعلو وما يعلى، وإنه ليحطّم ما تحته..أخرجه الحاكم في المستدرك على الصحيحين(2/ 550) (3872) وقال: صحيح الإسناد على شرط البخاري، ووافقه الذهبي فقال: على شرط البخاري. قلت: رجاله ثقات، وقد اختُلف في وصله وإرساله عن عكرمة، والمرسَل أصح.
(۴)علامہ زرقاء نے یہ بات مختلف کانفرنسوں میں فرمائی، اور اسکی وضاحت کے لیے دیکھیے : المدخل الفقهي از مصطفی الزرقاء (١/ ٧٤، ٢٨٦، ٣٠٧)
(۵)مثلا ارشاد باری ہے:
لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ﴾ (الفتح: 27)
یقیناً تم مسجدِ حرام میں داخل ہو گے، ان شاء اللہ، امن کے ساتھ۔
 یہ خبر صلح حدیبیہ کے موقع پر دی گئی؛ جبکہ بظاہر ممکن نہ تھا؛ پھر بھی دو سال بعد فتح مکہ کے وقت پوری ہوئی۔
* ارشاد باری ہے:
﴿سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ﴾ (القمر: 45)
یہ لشکر شکست کھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔
یہ خبر بدر کے دن حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
 (۶) Moore, K. L. The Developing Human: Clinically Oriented Embryology. Saunders, 2015.
* موريس بوکاي،  The Bible, The Qur’an and Science، ص (199)
( ۷) Stephen Hawking, A Brief History of Time, Bantam Books, 1988, p. 50.
Zaghloul El-Naggar, Scientific Miracles in the Qur’an, Cairo, 2003, p. 44.
Hubble, E.: A Relation between Distance and Radial Velocity among Extra-Galactic
(۸) مشہور فرانسیسی ڈاکٹر موریس بوکائی (Maurice Bucaille)  جنہوں نے The Bible, the Qur’an and Science لکھی، لکھتے ہیں:
"قرآن میں سائنسی حقائق کی ہم آہنگی نے مجھے اس نتیجے تک پہنچایا کہ یہ کتاب کسی بشر کی تصنیف نہیں ہو سکتی۔”
(Maurice Bucaille, The Bible, the Qur’an and Science, p. 120)
(۹) بخاری شریف: (4981)، مسلم شریف: (152)
( ۱۰) دیکھیے: فتح الباري (9/7)، طبعة دار المعرفة، بیروت.
(۱۱  ) اعجاز کے مختلف پہلووں کے لیے دیکھیے:
اعجاز القرآن للباقلاني(ص47)،معترك الأقران في إعجاز القرآن(1/ 43)، دلائل النبوة للبيهقي، (ج6، ص 18)، البرہان في علوم القرآن للزركشي، (2/ ص 79)، إعجاز القرآن والبلاغة النبوية للرافعي (ص108)، إشارات الإعجازلبديع الزمان النورسي (ص15)، مباحث في إعجاز القرآن للدكتور مصطفى مسلم (ص113- 288)،الإعجاز العلمي في القرآن والسنة للدكتور عبد المجید الزندانی (ص 15، 35-36)،تأصيل الإعجاز العلمي للدكتور زغلول النجار (ص 55-56)،نیز راقم کی کتاب :الإعجاز العلمي في القرآن الكريم» للدكتور محمد علي بن شفيق الندوي (ص22- 28)

Tags

Share this post: