العنایۃ فی تحقیق الاحادیث الغریبۃ فی الھدایۃ
تعارف و تبصرہ
مولاناعتیق احمد بستوی
استاذ حدیث و فقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قوموں کی علمی و فکری زندگی اس پر موقوف ہے کہ ان کے یہاں تحقیق و ریسرچ کا سلسلہ جاری رہے، اور اس میں ترقی اور پیش رفت ہوتی ر ہے جو قوم تحقیق وریسرچ کے قافلہ سے پچھڑ جاتی ہے، اس کے یہاں یہ کام موقوف ہو جاتا ہے یا کمزور پڑ جاتا ہے وہ رفتہ رفتہ جمود و تعطل کا شکار ہوجاتی ہے، اور دوسری اقوام کی دریوزہ گری کرتی ہے۔
اسلام نے علم وتحقیق، تفکر وتدبر، استدراک اور نقد کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس کی ہر طرح حوصلہ افزائی کی ہے، مسلمانوں نے اسلامی علوم ہی نہیں بلکہ تمام مفید عصری اور انسانی علوم کو ترقی دینے، انہیں آگے بڑھانے اور علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں تحقیق و دراسہ،استنتاج و استخراج، اختراع و ایجاد کی ہمت افزائی کی ہے اور علم کے بارے میں کتاب و سنت کے دئے ہوئے تصورات کی بنیاد پر تمام نافع علوم کی قدر شناسی اور ہمت افزائی کر کے علم و تحقیق، تصنیف و تالیف کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے۔
بلاد مغرب ( یورپ و امریکہ وغیرہ)علم و تحقیق کی غیر معمولی اہمیت اور اس کی لذت سے اسی وقت آشنا ہو سکے، جب اندلس کے راستہ سے علم و تحقیق کے بارے میں اسلامی تصورات و افکار کی روشنی یورپ کی تاریک فضاؤں پر پڑی اور بلاد مغرب کے اہل علم جو عیسائیت کی غیر معقول بندشوں کی وجہ سے علم و تحقیق کے میدان میں آگے آنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے، انہیں اندلس کے مسلم علماء محققین اور سائنس دانوں کی شاگردی اور صحبت سے اور ان کے افکار سے متاثر ہو کر یہ حوصلہ ملا کہ وہ علم و تحقیق کے بارے میں لگائی گئی، مذہبی بندشوں کو توڑ کر اور اس کے لئے قربانیاں دے کر جرات و ہمت کے ساتھ تحقیق وریسرچ کے میدان میں رواں دواں ہوں اور مغربی دنیا کو دور ظلمت سے نکال کر سائنسی اور انسانی علوم کے میدان میں سرگرم سفر کردیں۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اُدھر یورپ میں طویل سناٹے کے بعد اندلس کے فیضان سے علم وتحقیق کا کارواں رواں دواں ہوا،اس نے تیزگام سفر شروع کر دیا اور سائنسی اور صنعتی علوم میں مغرب نے اتنی ترقی کی کہ دنیا کی سیاسی قیادت کے ساتھ علمی اور فکری قیادت بھی اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ دوسری طرف مسلمان مختلف اسباب کی بنیاد پر سیاسی زوال کے ساتھ علمی اور فکری زوال کا بھی شکار ہوگئے اورعالم اسلام میں علم و تحقیق ریسرچ و اختراعات کی جو گرم بازاری تھی وہ رفتہ رفتہ ماند پڑتے پڑتے تقریبا ختم ہوگئی اور بلاد مغرب کے ایسے دریوزہ گر ہوگئے کہ ان کی نگاہیں ہر میدان میں بلاد مغرب کی طرح اٹھنے لگیں اور تمام معاملات میں ان کا قبلہ مغرب ہو گیا۔
سائنسی اور صنعتی علوم ہی میں نہیں، بلکہ مذہبی علوم میں بھی بحث و تحقیق استنتاج و استخراج کا سلسلہ رفتہ رفتہ بہت کمزور پڑ گیا، اور علوم و فنون کے میدان میں سناٹا نظر آنے لگا، علم کا کا رواں ایک روایتی ڈھرے پر چلنے کا عادی ہو گیا، اپنے اسلاف کے سرمایہ علم کو آگے بڑھانے ان پر تحقیق و ریسرچ کرنے، ان کا تنقیدی اورتحقیقی جائزہ لینے اور میدان علم میں ترقی کرنے کی کوشش کے بجائے ایک طرح کی علمی قناعت پسندی اور علمی جمود کی کیفیت طاری ہوتی گئی، جس سے عالم اسلام علم وتحقیق کے میدان میںپسماندگی کا شکار ہوگیا اور اپنے اسلاف کے علمی سرمایہ کی قدردانی اور اس کی حفاظت بھی کما حقہ ہم سے نہ ہوسکی، علمی و تعلیمی ادارے قائم ہوئے، اور کچھ تعلیمی اصلاحی و تربیتی کام بھی کرتے رہے، لیکن علوم وفنون کے میدان میں حوصلہ مندی اولوالعزمی اور مہم جوئی ختم ہوگئی، جو ہمارے اسلاف کا امتیاز تھا اور ان کی پہچان تھی، علامہ اقبال مرحوم نے بانگ درا میں اپنی نظم’’خطاب بہ جوانان اسلام‘‘ میں کتنے درد و سوز کے ساتھ اس علمی زوال کا مرثیہ لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں:
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو د یکھا ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
غنی روزسیاہ پیر کنعان را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا
ہمارے بڑے دینی مدارس اور عصری جامعات نیز بلاد عربیہ کی یو نیور سٹیز اور تحقیقی و تصنیفی اداروںمیںعلم و تحقیق کے جو کام ہو رہے ہیں، میں ان سے بالکل نا آشنا نہیں ہوں، بڑی حد تک ان سے واقف رہنے کی کوشش کرتا ہوں، ان میں سے بعض بڑے معیاری اور قابل قدر ہوتے ہیں،خواہ مخطوطات کی تحقیق و دراسہ کا کام ہو یا علوم اسلامیہ کے مختلف اہم موضوعات پرمستقل تصنیف و تالیف کا کام، لیکن یہ واقعہ ہے کہ اکثر مقالات وابحاث سرسری اور سطحی ہوتے ہیں ان میں وہ عرق ریزی تلاش و جستجو، نقد و تجزیہ نہیں ہوتا، جس کا موضوع تقاضا کرتا ہے نہ ایم۔ اے، پی۔ ایچ۔ ڈی کے طلبا وہ محنت کرتے ہیں جو انہیں کرنی چاہئے اور نہ مشرفین پورے طور پر رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ بسا اوقات تو محض خانہ پری محسوس ہوتی ہے،اگر چہ تحقیق مخطوطات سے اتنا فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ کوئی اہم قلمی کتاب جو اب تک شائع نہیں ہو سکی تھی اشاعت کے لائق بن جاتی ہے، یا اشاعت پذیر ہو جاتی ہے اور یہ کم فائدہ نہیں ہے، اگر مخطوطے پر تحقیق کا کام صحیح طور پر نہیں کیا جا سکا تو اس کے مصنف اور کتاب پر ظلم ضرور ہو جاتا ہے، لیکن کسی نہ کسی شکل میں وہ کتاب اہل علم کے سامنے آجاتی ہے اگر وہ کوئی اہم کتاب ہوتی ہے تو دوبارہ اس پر زیادہ بہتر اور مکمل انداز میں تحقیق کا داعیہ پیدا ہو جاتا ہے، اور کوئی نہ کوئی اہم شخص اس کام کو بہتر طور پر انجام دے دیتا ہے۔
دور حاضر میں سہولت اور وسائل کی کثرت کی وجہ سے تصنیف وتالیف، تحقیق و دراسہ کا کام کافی آسان ہو گیا ہے، اس لئے اسلامی علوم پر بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہو رہی ہیں، مطبوعات کا ایک سیلاب ہے جو مختلف عوامل و محرکات کی وجہ سے ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اور مطبوعات کی اس کثرت میں بہت بڑی تعداد رطب و یابس قسم کی ہے، ایسی کتابیں جو معیاری ہوں، پوری علمی ریاضت و محنت کے ساتھ لکھی گئی ہوں اور علم آموز یا فکر انگیز ہوں بہت کم سامنے آتی ہیں اور اگر ایسی کتابیں کہیں نظر آتی ہیں تونگاہیں ان پرٹھہر جاتی ہیں اور انہیں مطالعہ کرنے اور ان سے استفادہ کرنے کا دل چاہتا ہے، اگر چہ اب پیرانہ سالی اور کثرت مصروفیات کی وجہ سے زیادہ مطالعہ کا موقع نہیں ملتا۔
اسی طرح کی ایک کتاب جوتقریباً ڈیڑھ دو سال پہلے مجھے سفرِبرطانیہ کے دوران ملی، مصنف سے ملاقات تو نہیں ہوئی،لیکن انہوں نے ازراہ محبت اس کا نسخہ میرے پاس بھیجا اوریہ خواہش بھی کی کہ اس کتاب پر میں اپنی رائے تحریرکروں، وہ کتاب ہے جناب مولانا ڈاکٹر یوسف شبیر صاحب کی ’’العنایۃ فی تحقیق الأحادیث الغریبۃ فی الہدایۃ‘‘ جو دو جلدوں میں مکتبہ اسما عیل بریطانیا سے شائع ہوئی۔
یہ کتاب میرے پاس ایک سال سے زائد عرصے سے ہے،وقتا فوقتا میں دلچسپی سے اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں،اس سے استفادہ کرتا ہوں، کتاب پر چند عظیم شخصیات کی بلند پا یہ تقریظات ہیں، جن سے کتاب کی خصوصیات اور اس کے مقام کا علم ہوتا ہے،وہ شخصیات ہیں: حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی دامت بر کا تہم (پاکستان)، شیخ نظام یعقوبی العباسی (بحرین) شیخ عبداللہ بن یوسف الجدیع (سعودی عربیہ)۔
کتاب کے ٹائٹل پر کتاب کا تعارف اس طرح کر ایا گیا ہے کہ یہ کتاب امام مرغینانی کی کتاب ’’الہدایۃ‘‘ کی ان احادیث کی تحقیق ہے، جن پر بلند پایہ ائمۂ حدیث امام زیلعیؒ اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ مطلع نہیں ہو سکے، اسی کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں عبد القادرقرشی،ابن الترکمانی اور ابن ابی العز کی تحقیقات بھی شامل ہیں، نیز علامہ عینی، شیخ ابن الہمام، قاسم بن قطلوبغا کے استدراکات بھی کتاب کی زینت ہیںاور تقریباً اسی(۸۰) احادیث ایسی ہیں جن پر ان بلند پایہ ائمہ نے بھی استدراک نہیں کیا ہے۔
یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے اور مکتبہ اسماعیل برطانیہ نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے، اس کی تحسین و تزئین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، جلد اول کے صفحات ۸۰۸ ہیں، اور جلد دوم کے صفحات۸۱۰ ہیں،اس کتاب پر مصنف کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی ہے اور یہ کتاب بلاشبہ اس کی مستحق بلکہ اس سے زیادہ کی مستحق ہے، بلاشبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب حدیث وفقہ کے علوم کاگنجینہ ہے، مصنف نے بہت ہی تحقیق، دیدہ ریزی، بلند ہمتی اور صبر کے ساتھ تحقیق کے اعلی ترین معیار پر اس کتاب کو مرتب کیا ہے، ایسی بلند پایہ تحقیقی اور تنقیدی کتابیں خال خال نظر آتی ہیں اور ایسی کتابوں کو اپنے علمی مراجع میں شامل کرنا، اہل علم اور طلبہ کے لئے بہت نفع بخش اور کار آمد ہے۔
جس موضوع پر امام زیلعی،حافظ ابن حجر، عبد القادر قرشی، ابن الترکانی، ابن ابی العز،حافظ عینی، علامہ ابن ہمام، اور شیخ قاسم ابن قطلوبغا پوری داد تحقیق دے چکے ہوں اور اپنے اپنے نتائج بحث وتحقیق پیش کر چکے ہوں، ایسے موضوع پر دور حاضر کے ایک نوجوان عالم دین کا داد تحقیق دینااور علوم وفنون کے سمندر میں غواصی کر کے بے شمار قیمتی درخشاں موتیاں نکال لانا بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے، خاص بات یہ ہے کہ تنقید واستدراک میں ان کا اسلوب انتہائی تواضع اور ادب کا ہے، کہیں بھی ان کے قلم سے کسی بھی شخصیت کے بارے میں ادنیٰ بے ادبی کا شبہ بھی نہیں ہوتا۔
مصنف برطانیہ کے مشہور مفتی اور محدث حضرت مولانا مفتی شبیر احمد دامت برکاتہم(بلیک برن برطانیہ)کے فرزند ارجمندہیں،جن کے قلم سے مختلف معیاری تصانیف شائع ہو چکی ہیں، انہوں نے اپنے والد گرامی اور برطانیہ کے دوسرے علماء و مشائخ سے خوب خوب استفادہ کیا، اسی کے ساتھ ساتھ ہند و پاک کے انتہائی نامور اور محقق علماء اور مشائخ سے انہوں نے بھر پور استفادہ کی کوشش کی جس کا اندازہ زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے بخوبی ہوتا ہے، خاص طور سے مظاہر علوم سہارنپور کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ، جو بلا شبہ اپنے دور کے امیر المومنین فی الحدیث تھے اور علوم اسلامیہ خصوصا حدیث اور علوم حدیث پر ان کی نگاہ بڑی محققانہ اور مبصرا نہ تھی، ان سے اوران کی تحریروں سے مصنف کتاب نے بھر پور استفادہ کیا ہے اور جگہ جگہ ان کے حوالے دئے ہیں، اسی طرح شیخ الاسلام حضرت مولانامحمدتقی عثمانی دامت بر کا تہم سے مصنف کا بڑا گہرا رابطہ و تعلق ہے اور سفر و حضر میں مصنف کتاب ان سے کافی استفادہ کرتے رہے ہیں، اس کتاب پر حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی تقریظ مصنف سے ان کی غیر معمولی تعلق اور اعتماد کاپتہ دیتی ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ کسی موضوع پر کتنا بھی کام ہو چکا ہو،ا گرکوئی ذہین، حوصلہ مند اور تحقیقی اور تنقیدی مزاج رکھنے والا شخص اس وادی میں قدم رکھے اوراپنی توانائیاں صرف کرتا رہے تو نئے گوشے اور نئی دریا فتیں پیش کر سکتا ہے،اور کاروان علم و تحقیق کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
کتاب کی دونوں جلدوںمیں ہدایہ کی جن احادیث پربحث و تحقیق کی گئی ہے اور سابق ائمہ کے نتائج فکر کو پیش کرنے کے ساتھ مصنف نے اپنی رائے بھی ظاہر کی ہے، ان کی تعداد۳۷۹ ہے، دوران تحقیق فقہ وحدیث کے بے شمارمباحث پر گفتگو آئی ہے اور جن شخصیات کی تحقیقات اور نتائج فکر کو پیش کیا گیا ہے ان کا مختصر تعارف بھی کر ایا گیا ہے، کتاب کے کچھ اہم مباحث کی اگر نشاندہی کی جائے تو اس سے بھی یہ تحریر کافی طویل ہوجائے گی، کتاب کے اخیر میں تفصیلی فہرستیں ہیں، جن میں سے ایک فہرست متفرق ابحاث و تحقیقات کی ہے، جوجلد دوم کے صفحہ۶۴۵ سے۶۵۴ تک پھیلی ہوئی ہیِ اس پر نظر ڈالنے سے کتاب کے اصل موضوع سے ہٹ کر دوسرے ابحاث و تحقیقات کی نشا ند ہی ہوتی ہے،اطراف حدیث وآثار کی طویل فہرست ہے اور اس کے بعد مصادر ومراجع کی بہت جامع اور مفصل فہرست ہے، مراجع کی تعداد۸۲۲ ہے، اس سے مصنف کے کثرت مطالعہ اور تحقیق و تصنیف میں دیدہ ریزی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس تحقیقی اور دستاویزی کتاب کو قبول فرمائے، اہل علم و فکر کے درمیان قبولیت سے نوازے اور مصنف کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے۔
اس غیر معمولی کتاب پر میں مصنف اور ناشر دونوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور علوم اسلامیہ خصوصاً فقہ وحدیث سے دلچسپی رکھنے والے علماء، فضلاء اور طلبہ سے امید کرتا ہوں کہ اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں گے، اور اس کتاب کے مباحث کو زیادہ نکھارنے میں مدد دیں گے۔