بیگمات ریاست بھوپال کی علمی تصنیفات تعلیمی نظریات اور مذہبی خدمات

بیگمات ریاست بھوپال کی
علمی تصنیفات تعلیمی نظریات اور مذہبی خدمات
                                                                                                ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی
                                                                           پروفیسر اسلامک اسٹڈیز، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد
انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں کہ مسند ریاست و حکمرانی پر فائز رہ کر علم و ادب کے شہ پارے اور تصنیف و تالیف کے جلوے خواتین نے بکھیرے ہوں ۔خواتین اگر چہ نصف انسانیت اور نصف زندگی ہیں ، لیکن حکومت و سیادت کے اعلی منصب پر ان کی موجودگی ‘ ہر زمانہ اور ہر قوم میں خال خال ہی دیکھی گئی ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ خواتین نے علم و ادب کی بزمیں سجائی ہیں ، ان کی علمی ترک تازیوں نے معرکے سر کئے ہیں،اور ان کے علمی جواہر پاروں کی ضوپاشیاں انسانیت کو جلابخشتی رہی ہیں۔ لیکن انھوں نے سطوت علمی کے ساتھ شکوہ سلطانی کا جلال بھی قائم کیا ہو‘ اس کی مثالیں شاذ اور نادر ہیں۔ ایسی ہی نادر اور کمیاب مثالوں میںریاست بھوپال کی وہ بیگمات ہیں جنھوں نے برسوں تک انتہائی قابلیت کے ساتھ فرمانروائی کی، اور ساتھ ہی ان کے گہر بار قلم سے دینی اور علمی موضوعات پر اتنی تعداد میں تصنیفات تیار ہوئیں ‘ جتنی عام اہل قلم بھی کم ہی تیار کر پاتے ہیں۔ سیاست کی ہنگامہ خیزی اور علم کی یکسوئی کے دو متضاد ماحول کو یکجا کرنے کا کمال تو ان بیگمات بھوپال نے انجام دیا ہی تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے اہل علم کی سرپرستی اور علمی قدردانی کا بھی فراخدلانہ نمونہ پیش کیا، جس کے تحت اسلامی علوم کی قیمتی اور نادر کتابوں کی اشاعت اور تقسیم بڑے پیمانہ پر انجام پائی۔ یہ خدمات اور کارنامے اس قابل ہیں کہ انھیں چشم بصیرت کا سرمہ بنایا جائے ، آنے والی نسلیں ان سے متعارف ہوں، اور ان کے نقوش قدم کو دوسروں کے لئے نشان منزل بنایا جائے۔
بیگمات بھوپال
ریاست بھوپال کی ان حکمراں خواتین کو عرف عام اور سرکاری لقب میں ’ بیگمات بھوپال‘ کہا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی لفظ ’ نواب‘ بھی ان کے نام کا حصہ رہا ہے۔یوں تو ریاست بھوپال کی تعمیر اور ترقی میں دس بیگمات کے نام آتے ہیں۔ لیکن برطانوی دور کی چار بیگمات نواب قدسیہ بیگم ، نواب سکندر بیگم ، نواب شاہجہاں بیگم اور نواب سلطان جہاں بیگم معروف حکمراں رہی ہیں، جنھوں نے 1819  سے 1926 کے عرصہ میں ایک سو سات سال تک حکمرانی کی ہے۔ کتاب ’ بیگمات بھوپال ‘ کے مصنف محمد امین زبیری جو خود نواب سلطان جہاں بیگم کے دربار سے وابستہ رہے ہیں‘ وہ لکھتے ہیں:
’’ اس کا سنگ بنیاد فتح بی بی کے ہاتھوں رکھا گیا، ان کے زمانہ تک بھوپال صرف ایک گاؤں تھا ، لیکن انہوں نے ایک قلعہ کی بنیاد ڈالی اور اس گاؤں کو ایک شہر کی صورت میں آباد کرایا، اس طرح بھوپال کی آئندہ ترقیوں کا ابتدائی خاکہ ایک خاتون کے ہاتھ سے تیار ہوا، اور اس میں جن بیگمات نے رنگ آمیزیاں کیں ‘ ان میں نواب قدسیہ بیگم ، نواب سکندر بیگم، نواب شاہجہاں بیگم اور نواب سلطان جہاں بیگم کا نام خاص طور پر نمایاں ہے‘‘۔(۱)
 زیر نظر تحریر میں آخر ی دو بیگمات بھوپال یعنی نواب شاہجہاں بیگم اور نواب سلطان جہاں بیگم کے علمی کارناموں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یہ دونوں جو بالترتیب ماں اور بیٹی بھی ہیں ‘ اپنے روشن علمی کارناموں اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے اہل علم کے نزدیک انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
نواب شاہجہاں بیگم
نواب شاہ جہاں بیگم 20 جولائی 1838 میں پیداہوئی تھیں، ان کے والد محمد جہانگیر خاں اور والدہ نواب سکندر بیگم تھیں ۔ 1868 میں والدہ کے انتقال کے بعد نواب شاہ جہاں بیگم مسند ریاست پر فائز ہوئیں ، اور اپنی وفات 1901 تک حکمراں رہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نواب سلطان جہاں بیگم اس منصب پر فائز ہوئیں، جن کی پیدائش 1858 میں ہوئی تھی ، اور جنھوں نے 1930 میں وفات پائی ، لیکن اپنی وفات سے چار برس قبل ہی اپنے اکلوتے رہ گئے بیٹے نواب حمید اللہ خاں کے حق میں 1926 میں حکومت سے دست بردار ہوگئی تھیں۔
نواب شاہجہاں بیگم نے ریاست کی فلاح و بہبود پر بہت توجہ دی، تعلیمی ترقی کے لئے بڑی تعداد میں اسکول قائم کئے ، صنعت کو فروغ دیا،اور عوام کی معاشی ترقی کے لئے اقدامات کئے۔ ان سب کے ساتھ انھوں نے بذات خود تصنیف و تالیف کے کام سے دلچسپی لی، اور متعدد موضوعات پر کتابیں قلم بند کیں۔ ان کے علمی اور تصنیفی کاموں کو ہم تین جہت سے دیکھ سکتے ہیں، اول یہ کہ خود بیگم صاحبہ نے مختلف موضوعات پر کتابیں تصنیف فرمائیں، دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنی ریاست اور ملک عزیز میں تصنیفی اور علمی کاموں کو فروغ دیا ، تیسرے یہ کہ انھوں نے اپنے خصوصی تعاون اور سرکاری سرپرستی میں دینی اور علمی کتابوں کی اشاعت اور اہل علم میں ان کی تقسیم کے انتظامات کئے۔ ان تینوں نوعیت کے کاموں کی تفصیل درج ذیل ہے:
علمی تصنیفات
نواب شاہجہاں بیگم اعلی علمی ذوق اور تصنیفی صلاحیت رکھتی تھیں، انھوں نے نسل نو بالخصوص بچیوں کی تربیت کے لئے کتابیں لکھیں، چنانچہ ان کی ایک تصنیف ’تہذیب نسواں و تربیت الانسان ‘ ہے ، یہ کتاب آسان زبان میں اور عمدہ تفہیم کے ساتھ مؤثر اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ ان کی دوسری کتاب ’ عفت المسلمات‘ ہے ، اس کتاب کے عنوان سے اس کے موضوع کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ بچوں کی تربیت پر ان کی کتاب ’ تربیت اطفال‘ کے نام سے ہے۔ اسی طرح آپ کی تقاریر کا مجموعہ ’ سیرت مصطفی ‘ کے نام سے ہے ۔ ان کتابوں کے علاوہ نواب شاہجہاں بیگم نے اپنے خاندان کے افراد کی سوانح عمریاں اور اپنی ریاست کی تاریخ کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ یہ کتابیں درج ذیل ہیں:  ’ حیات سلطانی‘ اس میں دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے حالات زندگی ہیں۔ ’ تذکرہ باقی‘ جو ان کے شوہر نواب باقی محمد خاں صاحب بہادر جنگ کی سوانح ہے۔ ’ حیات قدسی‘ جس میں نواب قدسیہ بیگم صاحبہ کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے۔ تاریخ کے موضوع پر نواب شاہجہاں بیگم کی تالیف ’ تاج الاقبال تاریخ ریاست بھوپال‘ ہے، یہ کتاب تین جلدوں میں ہے۔نواب سلطان جہاں بیگم اپنی تصنیف ’حیات شاہجہانی ‘میں لکھتی ہیں:
 ’’ تاریخ میں ’ تاج الاقبال ‘ مشہور کتا ب ہے ، جس میں سردار دوست محمد خاں بانی ریاست کے حالات سے لے کر اپنی حکومت کے ابتدائی چار سال تک کے حالات درج کئے ہیں، یہ کتاب 11 فرمانروایان بھوپال کی جن کا زمانہ فرماں روائی 1120 ھ سے شروع ہوتا ہے ، ایک مکمل تاریخ ہے ، اس میں 169 سال کے تمام حالات نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہیں‘‘ (۲)
نواب شاہجہاں بیگم ایک قادر الکلام شاعرہ بھی تھیں ، آپ کا تخلص شیریں تھا۔ آپ کے دو مجموعہ کلام ’ تاج الکلام ‘ اور ’دیوان شیریں‘ طبع ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مثنوی ’ صدق البیان‘  بھی تصنیف کی جس میں ہندوستان کے جغرافیائی و طبعی حالت ، قدیم معاشرت اور تہواروں کے بارے میں معلومات ہیں۔اسی طرح چیچک سے بچاؤ اور اس کے علاج کے لئے ایک کتاب ’ قاطع جدری‘ تالیف کی۔(۳)
تعلیمی خدمات
نواب شاہجہاں بیگم کے علمی کارناموں میں اپنی ریاست کے اندر علمی ماحول کی ترویج بھی ہے ، انھوں نے تعلیم کے فروغ کے لئے ’ نظارۃ المعارف العمومیہ ‘ کے نام سے محکمہ تعلیم قائم کیا۔(۴)۔ وہ سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کی سرپرست تھیں۔ان کے دور میں بہت سارے اصحاب علم و فضل اور اساتذہ بھوپال آئے، جن کی قدر دانی کی گئی، اور علمی اداروں میں ان سے خدمات لی گئیں۔ محمد امین زبیری لکھتے ہیں:
’’ نواب شاہجہاں بیگم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ علم اور اہل علم کی قدر شناس تھیں، ان کی اس قدر شناسی کی وجہ سے بھوپال اہل کا مرکز بنتا گیا تھا۔ (۵)
 نواب شاہجہاں بیگم پر اپنی تصنیف میں ڈاکٹر رضیہ حامد نے عہد شاہجہانی کے علماء بھوپال کے نام سے ایک عنوان قائم کرکے 49 اہل علم و کمال کا تذکرہ کیا ہے ، جن میں منشی جمال الدین خاں، نواب صدیق حسن خاں، شیخ حسین بن محسن یمانی، شیخ محمد بن حسین انصاری، حکیم عبد العلی لکھنوی اور مولوی سلامت اللہ جیراجپوری جیسے نامور اہل علم کے نام مذکور ہیں(۶)۔ نواب صاحبہ ان فضلاء کے علمی کاموں میں بھی بڑی فراخ دلی کے ساتھ حصہ لیتی تھیں ۔
نواب شاہجہاں بیگم نے علم کی اشاعت اور علمی کاموں کے فروغ کے لئے متعدد مدارس قائم کئے۔ مدرسہ سلیمانیہ کو‘ جو پہلے سے قائم تھا‘ اس کو کافی ترقی دی، حیات شاہجہانی کی مصنفہ نواب سلطان جہاں بیگم لکھتی ہیں:
 ’’ سرکار خلد نشیںنے نواب سلیمان جہاں بیگم صاحبہ کی یادگار میں مدرسہ سلیمانیہ قائم کیا تھا ، سرکار عالیہ نے اس مدرسہ کو بہت ترقی دی، عربی ، فارسی، اردو ، ہندی کے جدا جدا سیکشن قائم کئے، انگریزی تعلیم کے کلاس قائم کئے، اسی کے ساتھ ساتھ مدرسہ کے لئے ایک وسیع کتاب خانہ بھی عنایت فرمایا، انگریزی تعلیم کو رفتہ رفتہ ترقی دے کر ہائی اسکول کے درجہ تک پہونچادیا، اور پھر 1892 میں اس کو کلکتہ یونیورسٹی سے افلیٹ کیا‘‘ (۷)
ڈاکٹر رضیہ حامد لکھتی ہیں:
’’نواب شاہجہاںبیگم کو تعلیم و تعلم سے خاص شغف تھا۔ انھوں نے نواب سکندر بیگم کے قائم کردہ مدرسہ سلیمانیہ کو ترقی دی اور 1892 میں اس کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے کیا، اس مدرسہ میں اردو ، عربی اور فارسی کے ساتھ انگریزی تعلیم کا بھی انتظام کیا۔مدرسوں کے لئے باقاعدہ نصاب جاری کئے ، مدرسوں کی ملازمت کے لئے تعلیمی سرٹیفیکٹ اور سند کو ضروری قرار دیا(۸)۔
            نواب شاہجہاں بیگم نے اس کے علاوہ اپنے والد کے نام پر مدرسہ جہانگیریہ تعمیر کرائی ۔ اسی طرح اپنی نواسی ’ بلقیس ‘ کے نام پر نرسنگ ہوم قائم کیا۔
علمی و مذہبی خدمات
 نواب صاحبہ نے اہل علم کے تعاون سے ایک ایسی ڈکشنری تیاری کرائی جو سات زبانوں میں تھی ، یہ زبانیں اردو ، عربی ، فارسی ، ترکی ، سنسکرت، ہندی اور انگریزی ہیں۔ اس کے علاوہ بیگم صاحبہ نے ہفت روزہ ’ عمدۃ الاخبار ‘ شروع کرایا جو ریاست کے اندر دو مطبع خانوںمطبع سکندری اور مطبع شاہجہانی سے چھپتا تھا۔
نواب صاحبہ کے علمی کارناموں کا ایک نمایاں عنوان نامور عالم دین نواب صدیق حسن خاں قنوجی بھوپالی سے عقد مناکحت اور ان کے ذریعہ وسیع پیمانہ پر علمی تصنیف و تالیف اور کتابوں کی اشاعت و تقسیم کا کام ہے۔نواب صدیق حسن خاں عربی ، فارسی اور اردو کے بہت بڑے عالم دین تھے، قنوج کے رہنے والے تھے ، تلاش معاش میں وہ بھوپال آئے تھے ، اور وزیر جمال الدین صدیقی دہلوی کے یہاں ملازمت کی تھی، انھوں نے ان کی قابلیت سے متاثر ہو کر اپنی بیٹی سے ان کا عقد کردیا تھا۔ نواب سکندر بیگم کے زمانے میں وہ ناظم دفتر تاریخ ، اور مدرسہ سلیمانیہ کے سرشتہ تعلیم کے افسر کے عہد ہ پر فائز ہوئے تھے، پھر بتدریج ترقی کرتے گئے اور نواب شاہجہاں بیگم کے چیف سکریٹری ہوگئے تھے ۔ نواب شاہجہاں بیگم کے پہلے شوہر باقی محمد خاں کی وفات کے بعد حکومت برطانیہ کے مشورے سے نواب صدیق حسن خاں سے ان کی دوسری شادی 1871 میں ہوئی تھی۔محمد امین زبیری لکھتے ہیں:
’’ مولوی جمال الدین خان صاحب مدار المہام ریاست کے مشورہ سے مولوی سید صدیق حسن خان صاحب کا انتخاب کیا گیا ، اور 17 صفر 1388 مطابق 8مئی 1871 کو ان سے نکاح ہوا۔ نواب شاہجہاں بیگم کی سفارش و کوشش سے ان کو ’ نواب والا جاہ امیر الملک‘ کا خطاب اور خلعت فاخرہ سرکار انگلشیہ سے مرحمت ہوا ،اور ان کا مرتبہ مثل نوابان بھوپال کے تسلیم کیا گیا‘ ‘ (۹)
 نواب صدیق حسن خاں کے قلم سے دو سو سے زائد کتابیں تیار اور طبع ہوئی تھیں ، ان میں تفسیر ، حدیث اور دیگر موضوعات کی اہم کتابیں جیسے ابجد العلوم، اتحاف النبلاء ، فتح البیان ، الروضۃ الندیہ ، اور نز ل الابرار وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی طرح انھوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ علوم اسلامیہ کی اہم ونایاب کتابوں جیسے تفسیر ابن کثیر ، فتح الباری،اور سنن الدارمی وغیرہ کی طباعت کراکر اہل علم میں تقسیم فرمائیں۔ نواب صاحب کی کتابوں کی اشاعت اور پھر ان کی تقسیم میں بیگم صاحبہ کا پورا تعاون حاصل رہتا تھا ۔نواب صدیق حسن خاں کا انتقال بیگم صاحبہ کی حیات میں ہی ازدواجی زندگی کے چھبیس برسوں بعد 1890 میں ہوا تھا۔ نواب صاحب اپنی بیگم شاہ جہاں بیگم کے تحقیقی اور علمی کاموں میں بھی صلاح کار اور معاون رہا کرتے تھے۔
ڈاکٹر رضیہ حامد لکھتی ہیں:
 نواب شاہجہاں بیگم نے مطبع شاہجہانی قائم کیا، اس سے لاکھوں قرآن مجید کے نسخے طبع ہوکر مفت تقسیم ہوتے تھے۔ نیل الاوطار ، فتح البیان، تفسیر ابن کثیر ، نزل الابرار، روضۃ الندیہ ، جلاء العینین، اور فتح الباری جیسی نایاب کتب کو دوبارہ طبع کروانے میں زر کثیر خرچ کیا اور ریاست و بیرون ریاست مفت تقسیم کروایا‘‘۔(۱۰)
ڈاکٹر رضیہ مزید لکھتی ہیں:
 ’’ ریاست بھوپال میں علم و ادب کی اشاعت کے لئے آٹھ سرکاری مطابع کتابیں چھاپنے میں مصروف رہتے تھے۔ بھوپال کے ان مطابع سے تقریبا دو سو کتابیں سالانہ چھپتی تھیں، اور مفت تقسیم کی جاتی تھیں(۱۱)۔
ڈاکٹر سلیم حامد رضوی نے لکھا ہے :
 ’’ نواب شاہجہاں بیگم کا عہد اردو علم و ادب کے لحاظ سے بھوپال کا سنہرا زمانہ کہا جاسکتا ہے ۔ اردو میں مختلف علوم و فنون پر جتنی کتابیں اس دور میں شائع ہوئیں اس کی نظیر مشکل سے مل سکتی ہے‘‘(۱۲)
 اسلم جیراجپوری نے اس عہد کے بھوپال کو ’ بغدا دالہند‘ کہا ہے(۱۳)۔
نواب سلطان جہاں بیگم
نواب سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمراں تھیں، اپنی والدہ کی زندگی میں ان کی ولیہ عہد رہیں ، اور ان کی وفات کے بعد مسند آرائے سریر سلطنت ہوئیں۔ 27 ذی قعدہ 1274مطابق 9 جولائی 1858 کو بھوپال کے ایوان موتی محل میں پیدا ہوئیں، عمدہ تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا ، اور ماہر اساتذہ سے عربی ، فارسی ، انگریزی اور علوم اسلامیہ نیز فنون سپہ گری کی تعلیم و تربیت حاصل کی(۱۴)۔  ڈاکٹر رضیہ نے ان کی تعلیم کے بارے میں لکھا ہے :
’’ سلطان جہاں بیگم کی ذکاوت اور ذہانت کو سکندر بیگم کی تربیت نے جلا بخشی، انھوں نے جلد ہی اردو ، فارسی ، پشتو اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی۔ نشانہ بازی، گھڑ سواری میں باکمال استادوں کی زیر نگرانی مشاق ہوگئیں۔ فنون سپہ گری اور تیر اندازی سے سلطان جہاں بیگم پوری طرح واقف ہوگئی تھیں‘‘(۱۵)۔
 نواب احمد علی خاں بہادر سے نکاح ہوا، اور پانچ اولاد ہوئیں: صاحبزادی بلقیس جہاں بیگم، نواب نصر اللہ خاں بہادر، نواب حافظ محمد عبید اللہ خاں بہادر، صاحبزادی آصف جہاں بیگم اور نواب میجر حاجی محمد حمید اللہ خاں بہادر۔ لیکن سوائے آخری صاحبزادہ کے بقیہ سب نے آپ کی حیات میں ہی داغ مفارقت دی(۱۶)۔
تصنیفی خدمات
نواب سلطان جہاں بیگم نے امور جہاں داری کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام ایک مستقل مشغلہ کے طور پر اختیار فرما یا تھا ۔ کتاب ’ بیگمات بھوپال ‘ میں مولوی محمد مہدی صاحب جو نواب صاحبہ کے دفتر تصنیف و تالیف کے نائب مہتمم تھے ‘ لکھتے ہیں:
’’ یہ فخر بھوپال ہی کی تاریخ کو حاصل ہے جس میں مسلسل دو بیگمات صاحب تصنیف ہوئی ہیں، پہلی سرکار خلد مکان نواب شاہ جہاں بیگم بالقابہا ، اور دوسری ان کی لائق و مفتخر جانشین علیا حضرت نواب سلطان جہاں بیگم صاحبہ(طال حیاتہا) ، لیکن ان دونوں فخر نسواں بیگمات میں ایک بہت بڑا فرق ہے ، سرکار خلد مکان کا تصنیف و تالیف مستقل مشغلہ نہ تھا ، لیکن علیا حضرت کی علمی و سیاسی زندگی مساوی حیثیت رکھتی ہے ،اور تصنیف و تالیف علیا حضرت کے مشاغل کا ایک لازمی جزو ہے۔ یہ رسم بھی علیا حضرت ہی کی ایجاد ہے کہ ہر سالگرہ یوم ولادت اور یوم صدر نشینی کے موقع پر حکام و اراکین ریاست کو ایک علمی تحفہ تقسیم فرمایا جاتا ہے ، جس میں عموما خود علیا حضرت ہی کی ایک دو تصانیف ہوتی ہیں ، اس طرح ہر سال اردو لٹریچر میں ایک مفید و قابل قدر اضافہ ہوجاتا ہے ‘‘۔ (۱۷)
            ڈاکٹر رضیہ حامد لکھتی ہیں:
 ’’ ان کی مصنفہ اور مؤلفہ کتب کی تعداد 40 تک پہنچتی ہے ، ان کی کتب کے خاص موضوع تاریخ ریاست بھوپال ، فرمانراویان بھوپال ریاست کی سوانح، بچوں اور خواتین کے صحت عامہ، معیشت اور معاشرت ، اور تعلیم کا فروغ، اس کے علاوہ مذہب و اخلاق اور امور خانہ داری سے متعلق ہیں،انھوں نے حج کا سفر نامہ بھی لکھا ہے ‘‘ (۱۸)
نواب سلطان جہاں بیگم کی پہلی تصنیف ’ روضۃ الریاحین‘ نامی سفرنامہ حجاز ہے۔نواب صاحبہ نے ایک بڑے قافلہ کے ساتھ سفر حج کیا تھا جو اکتوبر 1903کو شروع ہوکر اپریل 1904کو مکمل ہوا تھا۔ اس سفر حج کی روداد انھوں نے ’روضۃ الریاحین‘ یعنی سفر نامہ کشور حجاز کے نام سے لکھ کر شائع کیا۔ ان کی تصنیفات میں ’ حیات قدسی ‘ پہلی خاتون فرمانروا نواب قدسیہ بیگم کی سوانح عمری پر ہے، جس میں تین ابواب میں شخصی احوال ، قومی و ملکی خدمات اور اخلاق وعادات بیان کئے گئے ہیں ۔ اپنی والدہ نواب شاہجہاں بیگم کی سوانح عمری پر ان کی کتاب ’ حیات شاہجہانی‘ ہے ، اس میں سات ابواب قائم کرکے ان کی ذاتی زندگی، حکمرانی، ریاست کے احوال، حکومت برطانیہ کے ساتھ تعلقات، مشاغل ، اخلاق و اطوار، اور ان کی تصنیفی اور علمی خدمات کا احاطہ تاریخی حوالوں کے ساتھ کیا ہے ۔ اس سلسلہ کی ایک کتاب ’ حیات سکندری‘ ہے ، جو ان کی نانی نواب سکندر بیگم کی سوانح عمری ہے ، اسے صاحبزادہ میجر جنرل عبید اللہ خاں مرتب کررہے تھے ، جواں عمر بیٹے کے انتقال کے بعد نواب سلطان جہاں بیگم نے اسے نظر ثانی کرکے طبع کرایا، اس کتاب کے تین حصوں میں ان کے خاندانی احوال، سوانح اور نظام حکومت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔نواب صاحبہ نے اپنے والد نواب باقی محمد خاں کی سوانح عمری مرتب کی، اور ’تذکرہ باقی‘ کے نام سے کتاب طبع کرائی، جس کے دو حصوں میں حالات زندگی اور اوصاف و اخلاق وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ بچوں کی تربیت کے لئے ایک کتاب ’باغ عجیب ‘ کے نام سے دلچسپ اسلوب میں لکھا ہے ۔
مولانا عبدا لسلام ندوی‘ نواب صاحبہ کی تصنیفات کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’ سرکار عالیہ نے تصنیف و تالیف کا مشغلہ کسی ملکی یا سیاسی ضرورت سے اختیار نہیں کیا ، بلکہ ان کو خالص علمی شوق اور سوشل و معاشرتی اصلاح نے اس کی طرف متوجہ کیا۔۔۔سرکار عالیہ کو موجودہ مصنفین میں یہ خاص امتیاز حاصل ہے کہ ان کی تصنیف و تالیف کا مقصد صرف علمی نہیں بلکہ زیادہ تر عملی ہے ، اس لئے ان کی تصانیف کی مختلف نوعیت قائم ہوگئی ہے ۔ عمل کا سب سے بڑا میدان مذہب ہے اور اس میں سرکار عالیہ کی دو کتابیں ہیں: ہدیۃ الزوجین اور سبیل الجنان۔ فن حفظان صحت بالکل علمی فن ہے اور اس میں سرکار عالیہ کی چار کتابیں ہیں : تندرستی ، بچوں کی پرورش ،حفظ صحت اور ہدایات تیمارداری۔ فن تدبیر منزل جو حکمت عملی کے اقسام میں داخل ہے اس میں سرکار عالیہ نے دو کتابیں تصنیف فرمائی ہیں : معیشت و معاشرت ، تعلیم و تربیت پرتربیت الاطفال اور متعدد خطبات ہیں جو شائع کردئے گئے ہیں۔ باقی کتابیں تاریخ میں ہیں ، اور ان کے نام یہ ہیں: روضۃ الریاحین ، تزک سلطانی ، گوہر اقبال حیات شاہجہانی ، اختر اقبال ، تذکرہ باقی ، اور حیات قدسی‘‘(۱۹)۔
 پردہ کے موضوع پر نواب صاحبہ کی کتاب انتہائی جامع اور مدلل ہے، مولانا عبد السلام ندوی کے بقول:
’’ اس کتاب میں سب سے پہلے پردہ کی تاریخ غایت تفصیل کے ساتھ لکھی ہے ، اور خواتین اسلام میں پردے کا جو التزام تھا اس کے متعلق غایت اور مؤثر واقعات جمع کئے ہیں، اس کے بعد حدیث و قرآن سے پردے کی فضیلت اور اس کا وجوب ثابت کیا ہے ، پھر بے پردگی کے تمام نقصانات دکھائے ہیں ، اور بے پردگی کی حمایت میں جو دلائل پیش کئے جاتے تھے ان کا دندان شکن جواب دیا ہے۔ حصہ مذہب میں علمائے سلف و حال کے مضامین وفتاوی کو بطور تتمہ منضم کردیا ہے، جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جدید و قدیم دونوں نے پردہ کی پابندی پر اتفاق کیا ہے، غرض اس کتاب میں ان تمام حیثیتوں کو جن سے پردہ کا وجود ثابت ہوتا ہے ‘ پوری قابلیت کے ساتھ جمع کردیا ہے‘‘(۲۰)۔
بھوپال کی تاریخ نواب سکندر بیگم لکھنا چاہتی تھیں، اس کے لئے انھوں نے دفتر تاریخ قائم کیا تھا اور کافی مواد جمع کرلیا تھا ، لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی ۔ ان کے انتقال کے بعد نواب سلطان جہاں بیگم نے اسی کام کو مرتب کرکے تین جلدوں میں ’ تاج الاقبال تاریخ بھوپال‘ کے نام سے تیار کیا اور طبع کرایا۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک کتاب ’ تزک سلطانی ‘ کے نام سے لکھی جو گویا تاج الاقبال کی چوتھی جلد ہے ۔اسی طرح انھوں نے اپنے عہد کے حالات اورواقعات بیان کرتے ہوئے  ’ اختر اقبال ‘ اور ’گوہر اقبال‘ کے نام سے دو مزید کتابیں تیار کیں، جو ان کے عہد تک کی تاریخ بھوپال ہے۔
نواب سلطان جہاں بیگم نے تصنیف و تالیف کو باضابطہ اپنا ایک مشغلہ بنایا تھا ، اور اس کے لئے بہت اہتمام کیا کرتی تھیں۔ موضوع کی تعیین، مسودہ تحریر کرنا، ان کی اصلاح اور آخر آخر تک ان پر نظر ڈالنا سب آپ بذات خود انجام دیا کرتی تھیں۔ کتاب ’ بیگمات بھوپال‘ میں مولوی محمد مہدی نے‘ جو نواب صاحبہ کے دفتر تصنیف و تالیف کے نائب مہتمم تھے‘ ان کے طریقہ تصنیف کی تفصیل بیان کی ہے جو بہت عمدہ اور دلچسپ ہے ، اور جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بذات خود موضوع کی تعیین کرکے اپنے دفتر کے ارکان سے صرف مواد اور متعلقہ کاغذات کی فراہمی کا کام لیتی تھیں ، تصنیف کا کام خود کرتیں، اور مسودہ کو صاف کر کے دفتر ان کے پاس بھیج دیتا ، وہ اس مسودہ کی اصلاح اور ترمیم و اضافہ خود کرتیں ، اور دفتر سے دوبارہ مسودہ صاف ہوکر جاتا تو پھر خود ہی اسے پڑھ کر درست اور فائنل کیا کرتی تھیں (۲۱)۔
مولوی محمد مہدی کے بقول:
 ’’علیا حضرت کی تصانیف کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ خشک اور روکھے پھیکے مضامین اس قدر دلچسپ انداز میں لکھے گئے ہیں جس سے زیادہ کسی قادر الکلام مصنف سے ممکن نہیں ہے‘‘(۲۲)۔
موضوع کی اہمیت و انتخاب اور مواد کتاب کی قدر و قیمت کے بارے میں مولوی محمد مہدی نے بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے ، وہ لکھتے ہیں:
’’ علیا حضرت ہر مضمون اور ہر مطلب کو جیسے شستہ اور دل نشین پیرایہ میں ادا فرماتی ہیں اس کی نظیر ملک کی دیگر مصنف خواتین میں مشکل سے ملے گی، علیا حضرت کی ہر تصنیف حشو و زوائد سے پاک اور صرف مفید اور کام کی باتوں پر حاوی ہوتی ہے،علیا حضر ت کو علاوہ مذہب کے‘  حفظان صحت میں ماہر فن کا درجہ حاصل ہے، اور اس موضوع پر علیا حضرت نے جو کتابیں تصنیف فرمائی ہیں وہ ملک میں بے حد مقبول ہوچکی ہیں ، پنجاب ، بنگال ، پونہ اور حیدر آباد دکن کے سررشتہ تعلیم نے تندرستی اور بچوں کی پرورش وغیرہ کتب انعامی میں داخل کی ہیں۔ تعلیم پر علیا حضرت نے اپنے لکچروں میں جن بیش بہا اور قابل قدر خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ اس پیچیدہ اور نازک مسئلہ پر مکمل ہدایت نامہ ہیں ۔ فن تربیت و تدبیر منزل وہ فن ہے جس پر علیاحضرت نے خاص طور پر توجہ فرمائی ہے اور اپنے سالہا سال کے تجربہ اور غور وفکر کے بعد ایک نہایت مبسوط کتاب چار حصوں میں تصنیف کی ہے ، ہدیۃ الزوجین اور حفظ صحت اس کتاب کے دو ابتدائی اجزاء ہیں، اور دو آخری حصے معیشت و معاشرت کے نام سے موسوم ہیں ، اس موضوع پر اردو میں اس قدر جامع کثیر المعلومات اور موجودہ ضروریات پر حاوی کوئی کتاب موجود نہیں ہے ‘‘(۲۳)
تعلیم کا فروغ
نواب سلطان جہاں بیگم کی علمی خدمات کاایک اہم باب یہ ہے کہ انھوں نے تعلیم کی اشاعت اور فروغ کے لئے تعلیمی اداروں  اور مصنفین کو مالی تعاون فراہم کیا،اس معاملہ میں ان کے فیض کا دریا ہمیشہ موجزن رہا ، اور انھوں نے خود بڑھ کر شاہانہ اعانتوں اور مالی معاونتوں سے شاد کام کیا ۔ چنانچہ انھوں نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کو شاہانہ مدد دی، اور عمارت کی تعمیر کے لئے گراں قدر عطیہ عطا فرمایا، دار العلوم دیوبند کے لئے نہ صرف معینہ وظیفہ جاری رکھا بلکہ اس میں دو ہزار کا سالانہ اضافہ فرمایا،اسی طرح ندوۃ العلماء کو سالانہ امداد جاتی تھی ، اس میں بھی اضافہ کرکے اسے دوہزار چھ سو کی امداد سالانہ کردی۔انجمن ترقی اردو کو چار ہزار کی یکمشت امداد دی اور ماہانہ امداد جاری فرمائی ۔ ایسے کتنے ہی ادارے ہیں جن کی بروقت اور مستقل اعانت اس دربار سے ہوتی رہتی تھی(۲۴)۔
اداروں کے علاوہ مصنفین اور مؤلفین کو بھی ان کے علمی کاموں کے لئے فراخدلی سے اعانت فرماتی تھیں۔ سیرت نبوی کی تالیف کے لئے علامہ شبلی کی جانب سے جس قدر روپئے کی اپیل کی گئی ، نواب صاحبہ نے وہ پوری رقم خود اپنے ذمہ لے لی ، اور مراجع کی کتابوں کی خریداری کے لئے مزید رقم ریاست سے ادا کی گئی۔ جب سیرت نبوی ﷺ کی تصنیف کا تخمینہ اندازہ سے زیادہ بڑھ گیا اور علامہ شبلی نے یہ بات نواب صاحبہ کے عرض گذار کی تو اس موقع کی گفتگو مصنف ’بیگمات بھوپال‘ کی زبانی سنئے:
’’ سیرت کے مصارف کا تخمینہ اندازہ سے بہت زیادہ بڑھ گیا تھا، لیکن جب مولانا نے عرض کیا تو ہر ہائنیس نے فرمایاکہ: ’’ آپ مطمئن رہئے جو مصارف ہوں گے وہ میں دوں گی‘‘، اور اسی وقت فورا حکم دے دیا ، پھر مولاناسے فرمایا کہ’ ’ لیجئے میں نے تو اپنا فرض پورا کردیا اور یقینا میں اس ثواب کی مستحق ہوگئی جو اس نیک کام میں مجھے ملے گا، لیکن آپ کی صحت تو اتنی خراب ہے کہ دو دو وقت آپ کھانا نہیں کھاتے ، اگر آپ نہ رہے تو کتاب کیونکر پوری ہوگی‘‘۔ مولانا نے کہاکہ: ’’ یہ کتاب ضرور پوری ہوگی، میں نے دو آدمی تیار کردئے ہیں، حمید الدین اور سید سلیمان ، وہ پوری کرلیں گے‘‘۔ ہر ہائینس کی اس فیاضی اور جوش و حوصلہ سے مولانا پر ایک خاص اثر ہوا اور اسی اثر میں مولانا نے یہ قطعہ نظم فرمایا:
            مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں میں بہر صورت         کہ  ابر فیض  سلطان جہاں بیگم  زر افشاں ہے
            رہی  تالیف  و  تنقید روایت  ہائے  تاریخی            تو اس کے واسطے حاضر مرا دل ہے مری جاں ہے
            غرض دو ہاتھ ہیں اس کام کے انجام میں شامل     کہ جس میں اک فقیر بے نوا ہے ایک سلطاں ہے‘‘ (۲۵)
 محمد امین زبیری لکھتے ہیں:
’’ہر ہائینس کی قومی تعلیمی فیاضی کے خوان کرم سے دور و نزدیک رعایا و غیر رعایا سب ہی بہرہ اندوز ہیں ، اور موجودہ زمانہ میں مسلمانان ہند کی کوئی تعلیمی تحریک ایسی نہیں جو بقدر ہمت اس فیض عام سے مالا مال نہ ہوئی ہو، اور علاوہ یکمشت امدادوں کے ‘ بہت سے مدارس اور انجمنیں وغیرہ سالانہ امدادوں سے بہرہ ور ہیں‘‘(۲۶)۔
تعلیمی نظریات
نواب سلطان جہاں بیگم ذاتی تصنیف و تالیف اور علمی و تعلیمی کاموں میں بھر پور معاونت کے ساتھ ریاست اور بیرون ریاست کے دوروں میں تعلیمی اداروں میں حاضر ہوتیں ، اور وہاں علمی معیار کو بلند کرنے نیز طلبہ بالخصوص طالبات کو عمدہ اخلاق و کردار سے آراستہ کرنے پر بھرپور توجہ دیا کرتی تھیں۔ نواب صاحبہ کی ایسی تقریریں متعدد ہیں جن سے ان کے تعلیمی نظریات اور بالخصوص خواتین کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے ان کے خیالات سے آشنائی ہوتی ہے۔
نواب سلطان جہاں بیگم تعلیم کے ساتھ تربیت اورشریفانہ اخلاق کو ضروری سمجھتی تھیں ، اسی طرح مذہبی تعلیم اور خدا ترسی کے بغیر تعلیم کو وہ گوہر بے آب قرار دیتی تھیں۔ ایک موقع پر سلطانیہ اسکول میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا :
 ’’ میری عزیز لڑکیو! یاد رکھو کہ عمدہ تعلیم و تربیت تمہاری پونچی ہے ، دستکاری تمہار ا زیور ہے ، اچھے اور شریفانہ اخلاق تمہارا حسن ہے ، جس لڑکی میں یہ صفات ہوں گی وہ ہرچھوٹے بڑے کی نظر میں عزیز ہوگی ، اور ان خوبیوں کے باعث دنیا کی کوئی تکلیف نہ اس کو مایوس و ذلیل کرسکتی ہے ، اور نہ کوئی دولت اس کو مغرور بناسکتی ہے ‘‘(۲۷)۔
 ایک موقع پر وہ کہتی ہیں:
 ’’ اے عزیز لڑکیو! تم کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تعلیم سب نکمی ہوگی اگر تم اپنے مذہب کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے سے بے پروائی کروگی، مذہبی احکام کی پابندی وہ چیز ہے جس پر تمہاری عزت ، تمہاری حرمت ، تمہاری ترقی اور آخر کار تمہاری نجات کا انحصار ہے‘‘(۲۸)۔
 وہ مزید کہتی ہیں:
’ ’ یاد رکھو کہ تعلیم کا اصلی جز خدا ترسی و مذہب ہے ، اور جب تک مذہب و خدا ترسی شامل نہ ہو تعلیم مثل گوہر بے آب کے ہے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی، مذہب کی آبیاری سے تعلیم کی جڑ مضبوط ہوتی ہے ، اور وہی درخت بار آور ہوتا ہے جس کی جڑ مضبوط ہو۔ اس لئے تعلیم کے عمدہ نتائج بھی اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب کہ تعلیم میں مذہب کی آبیاری کی جائے ، مذہب ادائے حقوق اور پابندی احکام شرعی و فرائض کی تاکید کرتا ہے ، اس سے دل میں راستبازی و نیکی پیدا ہوتی ہے‘‘(۲۹)۔
سلطان جہاں بیگم عورتوں کی تعلیم کو بہت ضروری سمجھتی تھیں ، اور اس کے لئے ہر طرح کوششیں کرتی تھیں۔ایک موقع پر وہ اپنی تقریر میں کہتی ہیں:
 ’’ میں اپنی اس رائے پر نہایت مضبوطی سے قائم ہوں کہ کبھی کوئی ملک یا قوم یا خاندان حقیقی ترقی یا تہذیب کا ادعا نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کی عورتیں تعلیم و تربیت میں بحصہ مساوی سہیم و شریک نہ ہوں، اس لئے تعلیم نسواں کی اشاعت میں جو کچھ میں کررہی ہوں وہ میرا ایک فرض ہے‘‘(۳۰)۔
لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اسلام نے خواتین کو جو اور جہاں تک آزادی دی ہے ‘ وہی اس کو تمام خرابیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔ یورپ کے سفر سے واپسی کے بعد حالات سفر پر لیڈیز کلب میں 1912 میں انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
 ’’ مسلمان عورتوں کو کبھی اس آزادی سے زیادہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے جو مذہب اسلام نے ان کو عطا کی ہے ، اور وہ آزادی ایسی آزادی ہے جو عورت کو اپنے حقوق سے مستفید ہونے اور تمام خرابیوں سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے۔ ہماری قومی تاریخ ہم کو جتارہی ہے کہ مسلمان عورتوں نے اسلام اور شعائر اسلام کے پابند رہ کر دنیا میں کیسے کیسے کارہائے نمایاں کئے ہیں ، کیسے کیسے علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کی، ان کی تربیت و تعلیم نے کیسے کیسے اولو العز م اور مشہور اشخاص پیدا کئے ، دور کیوں جاؤ خود بھوپال میں اسی نتیجہ تعلیم پر نظر ڈالو اور گذشتہ دونوں فرمان روا بیگمات کے حالات دیکھو جو تعلیم کے اعلی نتائج ہیں‘‘ (۳۱)۔
اسی لیڈیز کلب میں خواتین کے سپاس نامہ کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’ خواتین ! میں سمجھتی ہوںکہ یہ ایک بڑی غلطی ہوگی کہ عورتیں تمام ملکی و تمدنی امور میں مردوں کی مساوات کا دعوی کریں، ان کو اس دائرہ سے باہر نہیں جانا چاہئے جو دست قدرت نے ان کے چاروں طرف کھینچ دیا ہے ، نہ اس معاملہ میں ا ن منطقی دلیلو ں کی پیروی کرنی چاہئے جو اس مساوات کے متعلق کی جاتی ہیں ، مستثنی اور خاص مثالیں سب پر حاوی نہیں ہوتیں۔ ہر عورت چاند سلطانہ ، رضیہ بیگم اور نواب سکندر بیگم نہیں ہوسکتی، صدہا سال میں تاریخ کوئی ایسی مثال پیدا کرتی ہے جو خدواند کریم کی قدرت کا محض ایک ثبوت ہوتی ہے، ایسی مساوات کے خیال سے گھر کی خوشیاں برباد ہوجاتی ہیں، اور خانہ داری کا لطف جاتا رہتا ہے ، ہاں جو حقوق خدا نے ایک دوسرے کے مقرر کردئے ہیں ان کو مانگنا اور لینا چاہئے‘‘(۳۲)۔
علمی مقام و مرتبہ
آخر میں ہم نواب سلطان جہاں بیگم کے معاصر دو نامور ترین علمی شخصیات کی رائے ان کے علمی مقام و مرتبہ کے بارے میں نقل کرکے اپنے مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کئی مرتبہ علیا حضرت کے دربار میں تشریف لے گئے تھے ، اور ان کے ساتھ علمی تبادلہ خیال اور گفتگو کی تھی ، ان کی ایسی ہی ایک گفتگوکے بارے میں اسی دربار کے مصنف محمد امین زبیری اپنی کتاب ’ بیگمات بھوپال‘ میںلکھتے ہیں:
’’ تقریر کی جان فصاحت و بلاغت اور دقیقہ سنجی ہے ، علیا حضرت کی تقریر ان سچے موتیوں کی ایک مسلسل لڑی ہوتی ہے ، علامہ شبلی مرحوم سے زیادہ کون باریک بین اور دقیقہ رس ہوگا، انہوں نے علیا حضرت کی گفتگو سن کر جو رائے قائم کی ہے وہ ہم اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ مرحوم ایک مضمون میں لکھتے ہیںکہ : ’ مجھ کو حکمرانان اسلام سے متعدد رؤساء اور والیان ملک کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے ۔ ان سے گفتگو اور ہم کلامی کی بھی نوبت آئی ہے ، لیکن میں بغیر کسی قسم کی رواداری اور تملق کے اس کہنے پر مجبور ہوں کہ میں نے اس وقت تک کسی رئیس یا والی ملک کو اس قدر وسیع المعلومات ، خوش تقریر ، فصیح اللسان ، نکتہ سنج اور دقیقہ رس نہیں دیکھا، وہ تقریر فرمارہی تھیں اور میں محو حیرت تھا۔۔۔وہ مختلف علمی اور انتظامی امور پر گفتگو کرتی تھیں اور میں سوچتا تھا کہ مخدرات اور حجلہ نشیں بھی اس قدر معلومات حاصل کرسکتی ہیں؟‘‘(۳۳)۔ 
 اور علامہ سید سلیمان ندوی نے ان کی وفات پر مئی 1930 میں یاد رفتگاں میں لکھا :
 ’’سلطانہ مرحومہ مشرقی و مغربی تعلیم و تمدن کا ایسا مجمع البحرین تھیں جو آج مصلحین امت کا آئیڈیل ہے ، ان کی مشرقی تعلیم پوری اور مغربی واقفیت بقدر ضرورت تھی، وہ نہ صرف فرماں روا تھیں، بلکہ ہندوستانی خواتین کی رہنما، مسلمانوں کی واحد یونیورسٹی کی رئیسہ علیا، مذہبی تعلیم کی سب سے بڑی حامی، مذہبی علوم وفنون کی سب سے بڑی سرپرست، ہندوستان کی معتدل نسوانی اصلاحات کی سب سے بڑی مبلغ، مسلمان عورتوں میں سے سب سے بڑی کثیر التصانیف اور سب سے بہتر مقررہ۔ لیکن ان ہر قسم کے انتظامی ، اصلاحی ، ملکی ، علمی اور تعلیمی کارناموں سے بڑھ کر ان کا حقیقی شرف ان کی مذہبی گرویدگی، دینی عقیدت اور ایمانی جو ش و ولولہ تھا‘‘(۳۴)۔
حواشی:
۱۔         محمد امین زبیری مارہروی، بیگمات بھوپال ، دیباچہ صفحہ ۲، حمیدیہ آرٹ پریس ، بھوپال 1918 ۔
۲۔         نواب سلطان جہاں بیگم ، حیات شاہجہانی ، صفحہ 151، مطبع مفید عام آگرہ، 1914۔
۳۔ڈاکٹر رضیہ حامد، نواب شاہجہاں بیگم، صفحہ 88 ، باب العلم پبلی کیشنز، بھوپال، 2015
۴۔ڈاکٹر رضیہ حامد ،حوالہ سابق، صفحہ 57
۵۔         محمد امین زبیری، بیگمات بھوپال، حصہ اول ، صفحہ 92، حمیدیہ آرٹ پریس ، بھوپال 1918
۶۔         ڈاکٹر رضیہ حامد، نواب شاہجہاں بیگم، فہرست کتاب، حوالہ سابق۔
۷۔نواب سلطان جہاں بیگم ، حیات شاہجہانی، صفحہ 39، حوالہ سابق۔
۸۔ڈاکٹر رضیہ حامد،حوالہ سابق، صفحہ 58
۹۔         محمد امین زبیری، بیگمات بھوپال، حصہ اول ، صفحہ 75، حوالہ سابق)۔ (نواب صدیق حسن خاں کے احوال کے لئے دیکھئے ان کی خود نوشت ’ ابقاء المنن بابقاء المحن‘  ، تسہیل محمد خالد سیف، ناشر نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی ، لکھنؤ۔ اورحکیم عبد الحی حسنی کی ’نزہۃ الخواطر، جلد ہشتم، دار ابن حزم بیروت ، 1999
۱۰۔ڈاکٹر رضیہ حامد، حوالہ سابق ، صفحہ 58
۱۱۔       ڈاکٹر رضیہ حامد ، حوالہ سابق ، صفحہ 96۔
۱۲۔  اردو ادب میں بھوپال کا حصہ ،صفحہ 95، بحوالہ ڈاکٹر رضیہ حامد، حوالہ سابق، صفحہ 97۔
۱۳۔ڈاکٹر رضیہ حامد ،حوالہ سابق ، صفحہ 99۔
۱۴۔محمد امین مارہروی، مہتمم تاریخ نے اپنی کتاب ’ بیگمات بھوپال ‘ میں خود نواب سلطان جہاں بیگم کی تصنیفات سے استفادہ کرتے ہوئے ، نیز بذات خود ان کے دربار سے وابستگی کے دوران ذاتی معلومات حاصل کرتے ہوئے اور ان کے متعلقین سے معلومات حاصل کرکے تفصیلات فراہم کی ہیں۔
۱۵۔ڈاکٹر رضیہ حامد، نواب سلطان جہاں بیگم، صفحہ 82 ، باب العلم پبلی کیشنز، بھوپال، 2011۔
۱۶۔دیکھئے : محمد امین زبیری ، بیگمات بھوپال ، حصہ دوم ، صفحہ 4، حوالہ سابق
۱۷۔محمد امین زبیری ، بیگمات بھوپال ، حصہ دوم ، صفحہ 106، حوالہ سابق
۱۸۔ڈاکٹر رضیہ حامد ، نواب سلطان جہاں بیگم، صفحہ 202، باب العلم پبلی کیشنز، بھوپال، 2011 ۔
۱۹۔محمد امین زبیری، بیگمات بھوپال، حصہ دوم ، صفحہ 115-116، حوالہ سابق ۔
۲۰۔ حوالہ سابق، صفحہ 117-118۔
۲۱۔ حوالہ سابق ،صفحہ 108۔
۲۲۔ حوالہ سابق ، صفحہ 110۔
۲۳۔حوالہ سابق، صفحہ 109-110۔
۲۴۔ حوالہ سابق ، صفحہ 54۔
۲۵۔حوالہ سابق ، صفحہ 52-53
۲۶۔حوالہ سابق ، صفحہ 55 ۔
۲۷۔ ڈاکٹر رضیہ حامد، نواب سلطان جہاں بیگم ، حوالہ سابق ، صفحہ 147 بحوالہ در شہوار ، صفحہ30-31 ۔
۲۸۔حوالہ سابق ، صفحہ 154 ۔
۲۹۔ایضا، صفحہ 160 بحوالہ تقریر جلسہ مدرسہ سلطانیہ 13 دسمبر 1909۔
۳۰۔  ڈاکٹر رضیہ حامد،حوالہ سابق، صفحہ 145 ۔
۳۱۔ محمد امین زبیری ، بیگمات بھوپال ، حصہ دوم ،حوالہ سابق، صفحہ 100
۳۲۔حوالہ سابق، صفحہ 101
۳۳۔حوالہ سابق، صفحہ 121
۳۴۔سید سلیمان ندوی ، یاد رفتگان، صفحہ 100 ، مطبع معارف اعظم گڑھ 1986

Tags

Share this post: