ذرائع ابلاغ اور مقاصدشریعت
منورسلطان ندوی
معاون علمی مجلس تحقیقات شرعیہ
مقاصد کی تعریف
مقاصد لفظ مقصد کی جمع ہے،جس کے معنی ہیں راستہ کاسیدھاہونا،انصاف،میانہ روی،اور کسی تک پہونچنا، قرآن میں یہ لفظ کئی مواقع پر آیاہے،مثلا
لوکان عرضا قریبا وسفرا قاصدا لاتبعوک۔(۱)
اگر نزدیک میں مال حاصل کرناہوتااور سفرہلکاپھلکاہوتاتویہ منافقین ضرور آپ کے ساتھ چلتے۔
وعلی اللہ قصد السبیل (۲)
اور سیدھاراستہ اللہ تک پہونچتاہے۔
اقصد فی مشیک (۳)
اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو۔
قدیم فقہاء کے نزدیک مقاصد کالفظ اصطلاح کے طور پراستعمال نہیں ہوا،البتہ معاصر فقہاء نے اسے ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیاہے،مقاصد کی تعریف مختلف مصنفین نے الگ الگ کی ہے،امام طاہربن عاشوراس کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
المعانی والحکم الملحوظۃ للشارع فی جمیع احوال التشریع او معظمہا بحیث لا تختص ملاحظتہا بالکون فی نوع خاص من احکام الشریعۃ فیدخل فی ہذا اوصاف الشریعۃ وغایتہا العامۃ والمعانی التی لا یخلو التشریع عن ملاحظتہا ویدخل فی ہذا ایضا معان من الحکم لیست ملحوظۃ فی سائر انواع الاحکام ولکنہا ملحوظۃ فی انواع کثیرۃ۔(۴)
وہ معانی اورحکمتیں جن کالحاظ تشریع کے تمام یااکثرحالات میں کیاجائےبایں طورکہ ان کی پابندی کسی خاص قسم کے احکام تک محدود نہ ہو۔ اس میں شریعت کی صفات اور اس کی عمومی غایتیں شامل ہیں، اور وہ معانی بھی شامل ہیں جن کوملحوظ رکھنا تشریع میں ضروری ہے۔ اس میں ایسی حکمتیں بھی شامل ہیں جو تمام انواع کے احکام میں محفوظ نہیں ہوتیں، لیکن بہت سے انواع میں ملحوظ ہوتی ہیں۔
ڈاکٹریوسف حامد عالم نے مقاصد کی تعریف اس طرح کی ہے:
ہی المصالح التی تعود علی العباد فی دنیاہم واخراہم سواء اکان تحصیلہا عن طریق جلب المنافع او عن طریق دفع المضار۔(۵)
یہ ایسے مصالح ہیں جودنیایاآخرت میں بندوں پرمرتب ہوتے ہیں،خواہ یہ نفع پہونچانے کے ذریعے ہویانقصان کو دفع کرنے کے ذریعے۔
نورالدین الخادمی لکھتے ہیں:
ہی المعانی الملحوظۃ فی الاحکام الشرعیۃ والمترتبۃ علیہا سواء اکانت تلک المعانی حکما جزئیۃ أو مصالح کلیۃ أم سمات اجمالیۃ وہی تتجمع ضمن ہدف واحد ہو تقریرعبودیۃ اللہ مصلحۃ الانسان فی الدارین (۶)
یہ ایسے معانی ہیں جو شرعی احکام میں محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ وابستہ ہیں، چاہے وہ معانی جزئی احکام ہوں یا کلی مصالح،یا پھر اجمالی خصوصیات ہوں،یہ سب ایک ہی ہدف کے تحت جمع ہوتے ہیں، یعنی اللہ کی عبادت اور انسان کی دونوں جہانوں میں بھلائی۔
مقاصد کی اصطلاح گرچہ بعد میں وجودمیں آئی،مگریہ باتیں مصالح کے عنوان سے ہمیشہ علماء متقدمین کے یہاں زیربحث رہی ہیں،ڈاکٹرجاسرعودہ مقاصد کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر خود اصطلاح ’مقاصد‘کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے توہمیں امام جوینی بھی (جواس علم کے ابتدائی موسسین میں سے ہیں)کبھی کبھی مقاصد شریعت کو ’مصالح عامہ‘سے تعبیرکرتے ہوئے نظرآتے ہیں،اور امام غزالیؒ نے توتمام مقاصد کو (چاہے وہ ضروریات کی قبیل سے تعلق رکھتے ہوں یاحاجیات وتحسینات کی)مصالح مرسلہ کے ضمن میں ذکر کیا ہے، اور طوفی نے مصلحت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: مصلحت وہ سبب ہے جوشارع کے مقصد کو بطور عبادت نہ کہ عادت پہونچائے،اسی طرح قرافی کاکہناہے کہ :شریعت انہی مقاصد کا اعتبار کرتی ہے جن سے کوئی غرض صحیح وابستہ ہو، جویاتوانسان کے لئے کسی مصلحت کومہیا کرے یاکسی مفسدہ کواس سے دور کرے،تاج سبکی نے تحریرکیاہے :شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام نے تمام فقہ کی اصل ’اعتبار مصالح‘اور ’درء مفاسد‘کوقراردیاہے،بلکہ اگر کوئی کہنا چاہے تویہ بھی کہہ سکتاہے کہ انہوں نے صرف ’اعتبار مصالح‘کوہی فقہ کی اصل قراردیا ہے ، اس لئے کہ درحقیقت ’درء مفاسد‘بھی ’اعتبار مصالح‘ کے ہی ضمن میں آتاہے،اور خود شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام نے القواعدالکبری میں تحریرفرمایاہے کہ : جو کوئی بھی ’جلب مصالح‘اور ’درء مفاسد‘کے سلسلہ میں شریعت کا تتبع کرے گا اسے یہ یقین ہوجائے گا کہ اس ’مصلحت ‘ کااعتبار نہ کرنا جائزنہ تھا،اور اس ’مفسدہ‘کے قریب جاناناجائزتھا،چاہے اس کے سلسلہ میں کوئی نص، اجماع یاقیاس اس کونہ ملے،اس لئے کہ شریعت کافہم (یاتفقہ) اسی کا متقاضی ہے‘‘۔(۷)
مقاصدکے اقسام
فقہاء نے مختلف جہات کے اعتبارسے مقاصد شریعت کی الگ الگ قسمیں بیان کی ہیں،افراد امت سے تعلق کے تناظرمیں مقاصد شریعت کی تین قسمیں ہیں:مقاصد عامہ،مقاصد خاصہ ، مقاصد جزئیہ۔(۸)
مقاصدعامہ
یہ وہ مقاصد ہیں جن کی رعایت شریعت کے تمام ابواب یااکثرابواب میں پائی جاتی ہے،مثلا حفاظت دین، حفاظت نفس،حفاظت عقل،حفاظت نسل،حفاظت مال،اسی طرح رفع حرج،رفع ضرر،لوگوں کے درمیان عدل کاقیام وغیرہ۔
نورالدین الخادمی لکھتے ہیں:
وہی التی تلاحظ فی جمیع او اغلب ابواب الشریعۃ ومجالاتہا بحیث لا تختص ملاحظاتہا فی نوع خاص من احکام الشریعۃ فیدخل فی ہذا اوصاف الشریعۃ وغایاتہا الکبری۔(۹)
یہ وہ چیزیں ہیں جن کالحاظ تمام یا زیادہ تر ابواب شریعت اور اس کے میدانوں میں کیاجاتاہے، اس طرح کہ اس کی رعایت کسی خاص قسم کے شریعت کے احکام تک محدود نہیں ہیں، چنانچہ اس میں شریعت کی خصوصیات اور اس کے بڑے مقاصد شامل ہیں۔
مقاصدخاصہ
مقاصد خاصہ سے مراد وہ مصالح یاامور ہیں جن کاشریعت اسلامی کے کسی ایک میدان سے متعلق ابواب میں خیال رکھاگیاہو،مثلا عبادات کے مقاصد ،خاندانی نظام سے متعلق مقاصد،مالی احکام سے متعلق مقاصد،عقوبات اور سزائوں سے متعلق مقاصد وغیرہ۔
نورالدین الخادمی کے الفاظ میں:
وہی التی تتعلق بباب معین او ابواب معینۃ من ابواب المعاملات وقد ذکر ابن عاشور ان ہذہ المقاصد ہی: خاصۃ بالعائلۃ …بالتصرفات المالیۃ …بالمعاملات المنعقدۃ علی الابدان کالعمل والعمال …بالقضاء والشہادۃ…بالتبرعات…بالعقوبات۔(۱۰)
مقاصدجزئیہ
شریعت کے کسی متعین حکم سے متعلق مقاصد جیسے وجوب،استحباب،کراہت،شرط وغیرہ،نکاح میں مہرکامسئلہ ،کہ اس کامقصد میاں بیوی کے درمیان محبت پیداکرناہے،اسی طرح نکاح میں گواہوں کاشرط ہوناکہ اس کامقصد عقد نکاح کی پختگی ہے تاکہ باہم نزاع سے بچاجاسکے،شریعت کے کسی حکم میں کبھی ایک ہی مقصد ہوتاہے،اورکبھی ایک زائد مقاصد بھی ہوتے ہیں،ایک حکم میں ایک مقصد کی مثال مخطوبہ (منگیتر) کودیکھنا ہے، کہ اس کا مقصد نکاح کرنے سے پہلے اس کی جانب رغبت کاپیداکرناہے،اور ایک سے زائد مقاصد کی مثال اذان ہے کہ اس کامقصد نمازیوں کو نمازکے لئے بلانابھی ہے،اور یہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ نمازکاوقت شروع ہوگیاہے۔
اسی طرح کبھی ایک حکم میں دوطرح کے مقاصد جمع ہوتے ہیں،ایک عمومی مقصد اور دوسرے جزئی مقصد،جیسے نکاح کاعمومی مقصد حفاظت نسل ہے،اور جزئی مقصد پاکدامنی، لذت،انس کاحصول ہے۔(۱۱)
ڈاکٹرجمال الدین عطیہ لکھتے ہیں:
نعنی بہا المقاصد الخاصۃ بباب معین أو بابواب متجانسۃ من الشریعۃ أو مجموعۃ متجانسۃ من احکامہا وکذلک الخاصۃ بالعلوم الانسانیۃ والاجتماعیۃ الکونیۃ لضبطہا بموازین الشریعۃ۔ (۱۲)
مقاصد کی دوسری تقسیم
بعض فقہاء نے مکلف کی ضرورت کے پس منظرمیں مقاصد کی تین قسمیں کی ہیں، ضروریات، حاجیات اور تحسینات،یعنی ضرورت،حاجت اور تحسین۔
ضروریات
ضروریات سے مراد ایسے اساسی مصالح جن کے بغیر فرد اور معاشرہ کاوجودممکن نہیں، اوران کے نہ ہونے سے زندگی کوخطرہ لاحق ہوجائے،امام شاطبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فاما الضروریۃ فمعناہا انہا لا بد منہا فی قیام مصالح الدین والدنیا بحیث اذا فقدت لم تجرمصالح الدین علی استقامۃ بل علی فساد وتہارج وفوت حیات وفی الاخری فوت النجاۃ والنعیم والرجوع بالخسران المبین۔ (۱۳)
علامہ شاطبی نے ضروریات میں پانچ چیزوں کوشامل کیاہے،جواس طرح ہیں: حفاظت دین،حفاظت نفس، حفاظت نسل،حفاظت مال،حفاظت عقل۔(۱۴ )
حاجیات
حاجیات میں وہ مقاصد شامل ہیں جن کی وجہ سے تنگی دور ہوتی ہے،کشادگی آتی ہے، مثلا مرض کے نتیجہ میں لاحق ہونے والی مشقت کی وجہ سے عبادت میں تخفیف،حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی وسعت وغیرہ،حاجیات کاتعلق عبادات،عادات،معاملات اور جنایات سے ہوتاہے،یعنی یہ مقاصد انہی شعبوں میں پائے جائیں گے۔
علامہ شاطبی لکھتے ہیں:
واما الحاجیات فمعناہا انہا مفتقر الیہا من حیث التوسعۃ ورفع الضیق المودی فی الغالب الی الحرج والمشقۃ اللاحقۃ بفوت المطلوب فاذا لم تراع دخل علی المکلفین علی الجملۃ الحرج والمشقۃ ولکنہ لا یبلغ مبلغ الفساد العادی المتوقع فی المصالح العامۃ وہی جاریۃ فی العبادات والعادات والمعاملات والجنایات۔ (۱۵)
ضروریات کی حفاظت کاتقاضہ ہے کہ حاجیات کی حفاظت کی جائے،اور حاجیات کی بنیاد تنگی اور حرج کو دور کرنے پر ہے،لہذا ہروہ مصلحت اور ہروہ حکم جوانسان کے لئے گنجائش پیداکرے،اور یک گونہ اطمینان حاصل ہواس کا شمار حاجیات میں ہوگا۔(۱۶ )
اورجہاں تک تحسینیات کاتعلق ہے تواس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جوآداب کے قبیل سے ہیں،کہ جن کے ذریعہ ہرکام اچھے طریقہ پر انجام دیاجائے،اس کے نہ ہونے سے زندگی کے نظام میں کوئی خلل نہیں پیدا ہوتا،نہ ہی حرج اور تنگی لاحق ہوتی ہے ،البتہ زندگی ناپسندیدہ ہوجاتی ہے۔
علامہ شاطبی کے الفاظ میں:
واما التحسینات فمعناہا الاخذ بما یلیق من محاسن العادات وتجنب المدنسات التی تانفہا العقول الراجحات ویجمع ذلک قسم مکارم الاخلاق۔(۱۷)
اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جن کاتعلق محاسن اخلاق اور مکارم اخلاق سے ہے، اوراس کے فقدان سے تنگی اور حرج لاحق نہیں ہوتاہے،اس کی مثال طہارت، سترعورت،کھانے پینے کے آداب،وغیرہ ،اس میں وہ تمام مصالح اور تمام منفعت شامل ہیں جو ضرورت اور حاجت کے درجہ میں تونہیں ہیں مگران میں لوگوں سے فائدہ ہے، دینی اعتبار سے اور دنیوی اعتبارسے۔
مقاصدکے باب میں ذرائع ابلاغ کی حیثیت
گذشتہ صفحات میں ضروریات کی تعریف کے ضمن میں یہ بات گزرچکی ہے کہ یہ ایسے بنیادی مصالح ہیں جوافراد اور معاشرہ کے لئے ضروری ہیں، اور ان کے نہ ہونے کی وجہ سے زندگی انحطاط کاشکارہوجاتی ہے،اس تعریف کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ کوضروریات میں شامل ہوناچاہیے،کیونکہ رائے عامہ کی ہمواری اور شعورکوبیدارکرنے میں اس کا جو کردارہے اس کی روشنی میں ضروریات میں شامل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
امام ماوردیؒ زندگی کے لئے ضروری امورکاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اعلم ان مابہ تصلح الدنیا حتی تصیر احوالہا منتظمۃ وامورہا ملتئمۃ ستۃ اشیاء ہی قواعدہا وان تفرغت وہی دین متبع وسلطان قاہر وعدل شامل وامن عام وخصب دائم وامل فسیح۔(۱۸)
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دین کی اشاعت اور نظام کااستقراردونوں کاوجود ہوتا ہے ، اور اس کے بغیر دنیاکانظام چل نہیں سکتاہے،اسی لئے ذرائع ابلاغ کوحکومت کاچوتھاستون کہا جاتاہے،ذرائع ایسامرکزی عنصرہے جوانتظامیہ ،عدلیہ اور مقننہ تینوں کے لئے راہ ہموار کرتاہے،اس پس منظرمیں دیکھاجائے توامام ماوردی نے زندگی کے لئے جن چھ امور کا ضروری قراردیاہے ان سب کویہ مکمل کرنے والاہے۔
افراداور معاشرہ کی اصلاح میں ذرائع ابلاغ کاٹھوس اور موثرکردارایسی حقیقت ہے جس کاانکار نہیں کیا جاسکتا ہے،ذرائع ابلاغ سے معاشرہ سنورسکتاہے،اوراسی سے معاشرہ خراب بھی ہوسکتاہے،ذرائع ابلاغ کاضرورت میں شامل ہونااس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ شریعت کے بنیادی مقصد یعنی امت کے نظام کی حفاظت اور اس کی بہتری کو باقی رکھنے میں بنیادی کردار ذرائع ابلاغ کاہوتاہے۔
خاص وعام کی اصلاح کے بارے میں شریعت میں واضح ہدایات موجود ہیں،اوراسی مقصد کی تکمیل کے لئے رسولوں کی بعثت ہوئی،آسمانی کتابیں نازل کی گئیں،حضرت شعیب علیہ السلام کی زبان سے اداہونے والایہ جملہ اس بات کی دلیل ہے،ان ارید الاالاصلاح ما استطعت (۱۹)
دینی اصلاح میں دین اور دنیادونوں سے متعلق امور شامل ہیں،یعنی سیاسی، اقتصادی،معاشرتی،سماجی،عمرانی ہر طرح کے اموراس میں داخل ہیں،مختلف آیات قرآنی سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
ہوانشاکم من الارض واستعمرکم فیہا(۲۰)
اللہ ہی نے تمہیں زمین سے پیدا کیاہے اور زمین ہی میں بسایاہے۔
ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیاۃ الدنیا ویشہداللہ علی مافی قبلہ وہو الد الخصام واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیہا ویہلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد وذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ فحسبہ جہنم ولبئس المہاد (۲۱)
بعض لوگ وہ ہیں کہ دنیوی زندگی میں آپ کوان کی بات بھلی لگتی ہے،وہ اپنے دل کے حال پر اللہ کوگواہ بھی بناتے ہیں،حالانکہ وہ سخت ترین دشمن ہیں۔جب وہ حکومت پالیتے ہیں توزمیں میں اس بات کے لئے دوڑدھوپ کرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اور کھیتیوں اور جانوروں کوہلاک وبرباد کردیں ،اوراللہ فساد کو پسند نہیں کرتے۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو توغرور ان کوگناہ پر کمربستہ رکھتاہے،ان کے لئے دوزخ ہی کافی ہے اور وہ کیاہی برا ٹھکانہ ہے۔
شریعت میں ایسے اداروں پر خاص توجہ دی گئی ہے جوعمومی نظام کی حفاظت کرتے ہیں،اورعمومی مصالح کی تکمیل کاسامان فراہم کرتے ہیں،مثلا قضاء یعنی عدالت کانظام ، انتظامی نظام وغیرہ،علماء امت کااس بات پر اتفاق ہے کہ قضاۃ اور ائمہ کومتعین کرناواجب ہے،کیونکہ ان افرادکے ذریعہ ہی دینی اور دنیوی فرائض کی تکمیل ہوتی ہے،اس پس منظر میں غور کیاجائے توذرائع ابلاغ کی بھی یہی حیثیت ہے کہ عمومی مصالح کی تکمیل میں اس کا بڑاموثرکردار ہوتاہے۔ (۲۲)
اگر ذرائع ابلاغ کوضروریات کے زمرہ میں شامل نہ مانے تولازمااس کوحاجیات کے زمرہ میں شامل میں سمجھا جائے گا،حاجیات کی وضاحت اس سے قبل گزرچکی ہے کہ جن کے فقدان سے تنگی لاحق ہوسکتی ہے وہ حاجیات میں شمار کی جائے گی،اس بناء پر ذرائع کو حاجیات میں شمار کیاجاناچاہیے کہ اس کے نہ ہونے سے پریشانی اور تنگی یقینی ہے،اور جب اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل تنگی پائی جائے توپھرایسی حاجت ضرورت شمار ہوتی ہے، کیونکہ ضروریات کی حفاظت کاتقاضہ ہے کہ حاجیات کی حفاظت کی جائے،پروفیسر عمر عبید حسنہ لکھتے ہیں:
واذا کان الامرکذلک فانہ جریا علی ماذکر سلفا من تعقید للمقاصد فانہ دائر بین الحاجیات والضروریات وقد نرتفع بتوصیفہ الی مرتبۃ الضروریات لما یترتب لہ فی الاعلام العالمی ضد الاسلام والمسلمین وقصد مسخ ہویۃ المسلمین فضلا عن مسخ الہویہ الانسانیۃ ککل فدور الاعلام لا یقتصر علی العطاء والابداع فی تقدیم الوجبات الاعلامیۃ علی تنوعہا وتعددہا بل دورا لا یقل اہمیۃ فی مواجہۃ الہجمۃ الاعلامیۃ الخارجیۃ الشرسۃ التی تستہدف ہویتنا وتحقق تبعیتنا۔ (۲۳)
فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے کہ حاجت کبھی ضرورت کے درجہ میں آجاتی ہے، فقہی قاعدہ ہے:
الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ عامۃ کانت أوخاصۃ۔(۲۴)
شیخ زرقاء اس قاعدہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الحاجۃ تتنزل فیما یحظرہ ظاہر الشارع منزلۃ الضرورۃ عامۃ کانت او خاصۃ وتنزیلہا منزلۃ الضرورۃ فی کونہا تثبت حکما وان افترقا فی کون حکم الاول مستمرا وحکم الثانیۃ موقتۃ بمدۃ قیام الضرورۃ اذ الضرورۃ تقدر بقدرہا۔ (۲۵)
’حاجت عام ہویاخاص ‘اس کی تشریح الموسوعۃ الفقہیۃ میں اس طرح کی گی ہے:
ومعنی کون الحاجۃ عامۃ ان الناس جمیعایحتاجون الیہا فیما یمس مصالہم العامۃ من تجارۃ وزراعۃ وصناعۃ وسیاسۃ عادلۃ وحکم صالح ومعنی کون الحاجۃ خاصۃ ان یحتاج الیہا فرد او افراد محصورون او طائفۃ خاصۃ کارباب حرفۃ معینۃ۔(۲۶)
امام شاطبی لکھتے ہیں :
فلذلک اذا حوفظ علی الضروری فینبغی المحافظۃ علی الحاجی واذا حوفظ علی الحاجی فینبغی ان یحافظ علی التحسینی اذاثبت ان التحسینی یخدم الحاجی وان الحاجی یخدم الضروری فان الضروری ہوالمطلوب (۲۷)
ذرائع ابلاغ اور شریعت کے مقاصدعامہ
اسلامی شریعت کانزول کچھ مقاصد کی تکمیل اور کچھ مفاسد کودورکرنے کے لئے ہوئی ہے،اور ذرائع ابلاغ اپنی تمام شکلوں:سمعی،بصری،مقروئی کے ساتھ انسان کے لئے شئی لازم بن چکے ہیں بحیثیت فرد بھی اور بحیثیت جماعت بھی،اور انسان کے مسائل میں مضبوط کردار بھی اداکرتے ہیں،اس طرح گذشتہ کی تفصیلات کے مطابق مقاصد کی تینوں قسموںپر اس کا انطباق ہوتاہے،بایں طور کہ ذرائع ابلاغ شریعت کے کلی مقاصد یعنی حفاظت دین، حفاظت نفس،حفاظت عقل ،حفاظت مال کے محافظ ہیں،اسی کے ساتھ یہ بہت سے جزئی مقاصد کے بھی محافظ ہیں۔
مصالح کی حفاظت جہاں ایجابی پہلوسے ہوتی ہے وہیں سلبی پہلوسے بھی ہوتی ہے(۲۸) اسی طرح حفاظت میں اعلی اور ادنی دونوں سطحیں شامل ہیں، مثلامصالح صرف ضروریات اور حاجیات تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ تحسنیات بھی اس میں شامل ہیں،حاصل یہ کہ شریعت کی جانب سے مصالح کی حفاظت تمام پہلوئوں سے ہے اور تمام جہتوں سے ہے،امام زرکشی لکھتے ہیں:
فان قلت اذا کانت کل شریعۃ انبنت علی مصالح الخلق اذ ذاک فبماذا اختصت شریعتنا حتی صارت افضل الشرائع وأتمہا؟قلت بخصائص عدیدۃ منہا …استجماعہا لمہمات المصالح وتتماتہا ولعل الشرائع قبلہا انما انبنت علی المہمات وہذہ جمعت المہمات والتممات۔ (۲۹)
اگر آپ کہیں کہ اگر ہر شریعت مخلوق کے مفادات پر مبنی ہے تو پھر ہماری شریعت کس چیز میں خاص ہے کہ یہ سب شریعتوں سے افضل اور مکمل ہو گئی؟ میں کہوں گا کہ اس کی کئی خصوصیات ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اہم مفادات اور ان کی تکمیل کو جمع کرتی ہے، اور شاید اس سے پہلے کی شریعتیں صرف اہم مفادات پر مبنی تھیں، جبکہ یہ اہم مفادات اور ان کی تکمیل کو یکجا کرتی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شریعت کے پانچوں مقاصد کی تکمیل کس طرح ہوگی اس کاجائزہ ذیل کی فصلوں میں لیں گے۔
۱۔حفظ دین اور ذرائع ابلاغ
ضروریات دین میں سب سے مقدم حفظ دین ہے،امام شاطبی کے بقول حفظ دین کے ایجابی پہلوبھی ہیں اور سلبی پہلوبھی،ایجابی طریقہ سے حفظ دین کی ابتداء دلائل اور عقل کی روشنی میں،دلوں میں ایمان کی آبیاری، ایمان کی مضبوطی، تذکیرکے ذریعہ اس کی نگرانی،بندہ اور خدا کے درمیان تعلق کی مضبوطی جیسے کاموں سے ہوتی ہے،اور ان تمام کاموں کے لئے دعوت الی اللہ ، تعلیم، تربیت، امربالمعروف ونہی عن المنکرکے طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔
حفظ دین سے متعلق مقاصد میں دین سے متعلق شبہات کاازالہ،اعداء اسلام کے اعتراضات کا جواب دیناہے، ان دونوں طریقہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال نہایت ضروری ہے ۔
ایجابی اور سلبی دونوں لحاظ سے حفظ دین کے مختلف مراتب ہیں،کلمہ شہادت کا اقرار ضرورت کادرجہ رکھتا ہے، نماز،زکوۃ کامرتبہ حاجت کاہے،جبکہ نوافل تحسنیات کے دائرہ میں آتے ہیں،ان مراتب کاذکرکرتے ہوئے ڈاکٹریوسف حامدالعالم لکھتے ہیں:
ومصلحۃ الدین متفاوتۃ منہا ما یقع فی رتبۃ الضرورۃ والاصل بالنسبۃ لبقیۃ المصالح وہذہ المرتبۃ ہی التصدیق والاعتراف بوجود الحقیقۃ الکبری وہی مرتبۃ الایمان باللہ والیوم الآخر۔
ومنہا مایقع فی رتبۃ الحاجۃ وہی العبادۃ والعمل بناء علی الاوامر الجازمۃ وہی مرتبۃ توابع الایمان المکملۃ لمقصودہ کالصلاۃ والزکاۃ والصوم والحج۔
ومنہا مایقع وقع التزین والتحسین وہی نوافل الخیر وکل الاعمال التی تعتمد علی اوامر غیر جازمۃ وہی تلی المرتبۃ الثانیۃ وتکملہا مثل نوافل الصلوات والصدقات ونوافل الصیام والحج۔ (۳۰)
اسلام کاتعارف
حفاظت دین سے متعلق مذکورہ تمام کاموں کے لئے ذرائع ابلاغ کااستعمال کیا جا سکتا ہے،بایں طور کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ایسے پروگرام منعقد کئے جائیں جو اسلام کے تعارف پر مشتمل ہوں،جن میں اسلام کے حقائق کو موثر اندازمیں پیش کیاجائے ، اسی طرح غیرمسلموں کواسلام سے واقف کرانے کے مقصد کے لئے پروگرام پیش کئے جائیں ۔
علامہ ابن عاشورتحسینی مصالح کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والمصالح التحسینیۃ ہی عندی ما کان بہا کمال حال الامۃ فی نظامہا حتی تعیش آمنۃ مطمئنۃ ولہا بہجۃ فی مرای بقیۃ الامم حتی تکون الامۃ الاسلامیۃ مرغوبا فی الاندماج فیہا أو فی التقرب منہا۔(۳۱)
اورمیرے نزدیک تحسینی مصالح وہ ہیں جن کے ذریعے امت کی حالت میں کمال ہو تاکہ وہ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے اور باقی امتوں کے سامنے اس کی شان و شوکت ہو تاکہ اسلامی امت میں شامل ہونے یا اس کے قریب آنے کی خواہش پیدا ہو۔
لادینی افکارکاجائزہ
اظہاررائے کی آزادی کے نام پر اور اجتہاد کے پرفریب نعروں کے ذریعہ جوافکار و نظریات پیش کئے جاتے ہیں،اورجس طرح ذرائع ابلاغ کوان مقاصد کے لئے استعمال کیاجاتاہے اوراپنی شریعت کے بارے میں اپنے ناقص فہم اور غیردینی تصورات کوپیش کرنے کاعمل جاری ہے،اس کوروکنے کے لئے اہل علم کامیدان میں آنااوران کے جواب کے لئے تیارہوناضروری ہے،ابلاغ کے مختلف ذرائع کواستعمال کرکے ان کے پھیلائے ہوئے افکارکاجائزہ اور جواب وقت کی اہم ضرورت اور علماء کافریضہ ہے،رسول اللہ ﷺ کاارشادہے:
یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاہلین۔(۳۲)
دین کاصحیح فہم نہ رکھنے والوں کودین کی بات کرنے سے روکنابھی اسی ذمہ داری میں شامل ہے۔
عدل وانصاف کافروغ
حفاظت دین کے حوالہ سے میڈیاکاایک اہم کام عدل کاقیام اور عوام کے درمیان عدل وانصاف کی ترویج واشاعت کرناہے ،کیونکہ میڈیاکی طاقت ہرطاقت پر بھاری ہوتی ہے،اوراسی لئے میڈیاکوچوتھاستون کہا جاتاہے، بے شمارایسے پروگرام ہیں جن میں فساد کے حقائق کاانکشاف ہوتاہے،جب میڈیاکے ذریعہ معاملات منکشف ہوتے ہیں تب لوگوں کوان کے حقوق ملتے ہیں۔
اس طرح کی چیزیں بھی اقامت عدل کے حوالہ سے حفاظت دین کاحصہ ہیں،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لقدارسلنارسلنا بالبینات وانزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلنا الحدید فیہ باس شدید ومنافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ ورسلہ بالغیب ان اللہ قوی عزیز۔(۳۳)
ہم نے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ آسمانی کتاب اور ترازو بھی اتارا،تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں،اور ہم نے لوہا بھی پیدا کیا،جس میں بڑی طاقت اور لوگوں کے لئے بہت سے فائدے ہیں،اور اس لئے کہ جو لوگ بن دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں اللہ ان کودیکھ لیں،یقینا اللہ ہی طاقتور اور غالب ہیں۔
اورالتحریرمیں ہے:
واما القسط فہو اجراء امور الناس علی ما یقتضیہ الحق فہو عدل عام بحیث یقدر صاحب الحق منازعا لمن قد احتوی علی حقہ۔(۳۴)
دینی شعائرکی حفاظت
دین کی حفاظت کے دائرہ میں اسلامی شعار اور دینی رموزکی حفاظت بھی شامل ہے، دینی اداروں،دینی شخصیات اور دینی شعائرکونشانہ بناناذرائع ابلاغ کاقدیم وطیرہ ہے،مثلا پردہ کامذاق اڑانا،وغیرہ ان جیسے امورپرتوجہ دینااورایسے پروگرام پیش کرناجن کے ذریعہ دینی شعائرکی اہمیت عام لوگوں کے ذہنوں میں بڑھے،بھی ضروری ہوگا،اوریہ بھی دین کی حفاظت میں شامل ہے۔
عربی زبان کی حفاظت
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دین کی حفاظت کے ذیل میں عربی زبان کی نشرواشاعت اور اس کی حفاظت بھی ہے،کیونکہ عربی زبان دین کاخزانہ ہے،شریعت کی جانب سے ہر مسلمان پر اتنی عربی زبان سیکھناواجب ہے جس سے اس کی عبادت صحیح ہوسکے،البحرالمحیط میں ہے:
ومعرفۃ لسانہ فرض علی کل مسلم من مجتہد وغیرہ وقد قال الشافعی رحمہ اللہ علی کل مسلم ان یتعلم من لسان العرب ما یبلغہ جہدہ فی اداء فرضہ ،وقال فی القواطع:معرفۃ لسان العرب فرض علی العموم فی جمیع المکلفین الا انہ فی حق المجتہد علی العموم فی اشرافہ علی العلم بالفاظہ ومعانیہ اما فی حق غیرہ من الامۃ ففرض فیما ورد التعبدبہ فی الصلاۃ من القراء ۃ والاذکار لانہ لایجوز بغیرالعربیۃ۔(۳۵)
زبان کی خدمت میں ذرائع ابلاغ کاکرداراور اس کی تاثیرناقابل انکارحقیقت ہے، فصیح زبان کی حفاظت اور عامی سے پرہیزذرائع ابلاغ سے متعلق افرادکی ذمہ داری ہے۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
اما اعتیاد الخطاب بغیر اللغۃ العربیۃ۔ التی ہی شعار الاسلام ولغۃ القرآن ۔حتی یصیر ذلک عادۃ للمصر واہلہ او لاہل الدار او للرجل مع صاحبہ او لاہل السوق او للامراء او لاہل الدیوان او لاہل الفقہ فلا ریب ان ہذا مکروہ فانہ من التشبہ بالاعاجم وہومکروہ کما تقدم…واعلم ان اعتیاد اللغۃ یوثر فی العقل والخلق والدین تاثیرا قویا بینا ویوثر ایضا فی مشابہۃ صدر ہذہ الامۃ من الصحابۃ والتابعین ومشابہتم تزید العقل والدین والخلق وایضا فان النفس اللغۃ العربیۃ من الدین ومعرفتہا فرض واجب فان فہم الکتاب والسنۃ فرض ولا یفہم الا بفہم اللغۃ العربیۃ وما لایتم الواجب الابہ فہو واجب۔(۳۶)
دین کی حفاظت کے ذیل میں اسلامی شعائرکی توقیربھی ہے،اسلامی شعائر مثلا حجاب وغیرہ کواکثرمذاق کاموضوع بنایاجاتاہے،اسی طرح دینی اداروں اور تنظیموں کونشانہ بنایا جاتا ہے،آرٹ کے نام پر عریانیت کی تبلیغ کی جاتی ہے،ان جیسے معاملات میں بھی ذرائع ابلاغ کابڑاکردارہوگا،اوریہ بھی حفاظت دین کاحصہ ہے۔
۲۔ حفظ نفس اورذرائع ابلاغ
انسانی جان کی حفاظت شریعت کے بنیادی مقاصد میں ہے،انسانی جان کی حفاظت کا مطلب صرف قتل کی حرمت اور قصاص نہیں ہے،بلکہ نسل انسانی کے وجودکی حفاظت سے ہی حفاظت نفس کاآغازہوتاہے،اورنفس سے متعلق جملہ اسباب اس میں شامل ہیں، مثلا غذا، لباس،مکان،دواکی ضرورت،ہلاکت سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیراورحفظان صحت سے متعلق تدابیر بھی شامل ہیں،ابن عاشورلکھتے ہیں:
ومعنی حفظ النفوس:حفظ الارواح من التلف افرادا وعموما…ولیس المراد حفظہا بالقصاص فقط کمامثل الفقہاء بل القصاص ہو اضعف انواع حفظ النفوس لانہ تدارک بعض الفوات، بل الحفظ اہمہ حفظہاعن التلف قبل وقوعہ مثل مقاومۃ الامراض الساریۃ وقد منع عمربن الخطاب الجیش من دخول الشام لاجل طاعون عمواس۔(۳۷)
حلال وحرام کی رہنمائی
حلال وحرام کااصول شریعت کی بنیادی نظام کاحصہ ہے،شریعت نے جن غذائوں کو حلال کیاہے اس میں انسان کے لئے نفع رکھاہے،اور جن چیزوں کوحرام کیاہے اس میں انسان کے لئے ضررہے،حرام وحلال کی حکمت ومصالح کوذرائع ابلاغ نہ صرف بہتر انداز میں پیش کرسکتاہے بلکہ عام انسان کومطمئن بھی کرسکتاہے۔
اصول صحت کی رہنمائی اور غذاکے بارے میں بیداری
غذا،دوا وغیرہ سے متعلق صحت کے اصول کی رہنمائی،اس مقصد کے لئے طب اور غذا پرمشتمل خصوصی پروگرام، غذائیت سے متعلق بیداری پیداکرنے کے لئے پروگرام، تندرست اورفٹ رہنے کے لئے ورزش کے پروگرام،ایسے موبائل ایپلیکشن کی تیاری جو مناسب غذااورجسمانی ورزش کی رہنمائی کرے،صحت اور جسم کی طرف توجہ دیناانسانی جان کی حفاظت کااہم ذریعہ ہے۔
دوائوںکے مفیداور مضراثرات کاجائزہ
صحت کے حوالہ سے غیرمنظورشدہ دوائوں کی خطرناکی کی طرف توجہ دلانااہم ترین ضرورت اور ذرائع ابلاغ کا لازمی فریضہ ہے،مثلا موٹاپے کاعلاج، کا سمیٹک کاغیرضروری استعمال،اوراس سلسلہ میں مختلف ایجنسیوں اور اداروں مثلا وزارت صحت اورنگرانی کے اداروں اور ذرائع ابلاغ کے درمیان تعاون وہم آہنگی بھی ضروری ہے تاکہ قابل اعتماد دوائوں کااعلان اورتشہیرآسان ہو۔
منشیات کے خلاف جنگ
انسانی جان کی حفاظت کے ذیل میں تمباکونوشی اور منشیات کے خلاف محاذ آرائی بھی شامل ہے،اس مقصد کے لئے ویب سائٹس پرمتعدد صفحات(pages) بنے ہوئے ہیں۔
آلودگی کے بارے میں بیداری
فضاء اور ماحول اوراس کی دیکھ بھال ،نیزماحول کوآلودگی سے بچانے میں ذرائع ابلاغ کابڑاکردارہوسکتاہے،یہ بھی انسانی جان کی حفاظت کے دائرہ میں آتے ہیں۔
رفاہی سرگرمیوں کی تشہیر
محتاجوں کی ضرورت کی تکمیل کے لئے عطیات اور امدادی مہمات میں میڈیا بڑا کرداراداکرسکتاہے،مختلف رفاہی اداروں کی ایسی سرگرمیوں کی اشاعت میں میڈیانے ہمیشہ سرگرم رول اداکیاہے،میڈیاکے ذریعہ ہی رفاہی کام کرنے والوں اور ضرورت مندوں کے درمیان رابطہ ممکن ہوتاہے۔
جرائم کی روک تھام
جرائم اور اس کی مختلف صورتوں کی روک تھام میں میڈیابڑاکرداراداکرتاہے،اس سلسلہ میں قانوی مواد کی تشہیر،مجرمانہ اعمال کی سزائوں کی تصاویرنشرکرنااس مقصد کے لئے مفیدہوتاہے۔
عوامی مصالح کی حفاظت
اس طرح کی سرگرمیوں میں میڈیاکامحتاط ہونااورمصالح اور مفاسدپراس کی نظر کا ہونا بہت ضروری ہے،جرائم کی خطرناکی سے متعلق بیداری پیدا کرنے والے بہت سے پروگرام بسااوقات لوگوں کے دلوں میں ان جرائم کے ارتکاب پرآمادگی پیداکردیتے ہیں،اسی طرح شرعی بنیادکہ اصلا بری ہوناہے،اس کالحاظ بھی ضروری ہے،جرم ثابت ہونے سے قبل اس کا مجرم ہونابیان نہیں کیاجاسکتاہے،اسی طرح مجرم کی بے عزتی یااس کے افرادخاندان کے بارے میں نازیباسلوک روانہیں ہوسکتا،کیونکہ اس سے اس کے خاندان کوتکلیف پہونچانا لازم آئے گا۔
۳۔حفظ عقل اور ذرائع ابلاغ
دیگرضروریات کی طرح حفاظت عقل بھی مقاصد شریعت کابنیادی حصہ ہے، حفاظت عقل کے سلسلہ میں پہلے صرف خمرکاذکرکیاجاتاتھا،کیونکہ خمرعقل کوازکاررفتہ کردینے والے چیز ہے،لیکن اس مفہوم میں بڑی توسیع ہوئی ہے، حفاظت عقل میں نفس عقل اورتمام تر عقلی صلاحیتوں کی حفاظت شامل ہے،اوریہ حفاظت تعلیم ،علم ومطالعہ اور علمی سطح کو بلندکرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے،اسی طرح عقل کو غووفکر،تدبر،آزادانہ سوچ کاعادی بنانے اورنتائج اخذ کرنے کاملکہ پیداکرنے سے عقل کی حفاظت کاسامان فراہم ہوتاہے۔
شیخ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:
میرے نزدیک اسلام میں حفظ عقل کی تکمیل متعددوسائل وامورکے ذریعہ ہوتی ہے،جیسے ہرمسلمان پرعلم کی تحصیل، اس راہ میں سفراوراز آغاز تاانتہا اس کے لئے جہد مسلسل کافرض ہونا،ہرایسے علم کی تحصیل کا فرض کفایہ ہوناجس کی ضرورت امت کواپنے دینی اور دنیاوی امور میں ہو،ایسے مخصوص علمی مزاج کاپیدا ہونا جویقین کاطالب اور اتباع ظن وہوی اوربے جاتقلید کاانکاری ہو،اورآیات کونیہ میں غور وفکرکی دعوت،ان کے علاوہ حفاظت عقل کے اور بھی وسائل اسلام میں ہیں،جن کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب ’العقل والعلم فی القرآن الکریم ‘ میں ذکر کی ہے۔(۳۸)
ڈاکٹرسیف عبدالفتاح لکھتے ہیں:
حفاظت عقل تمدن کی ایک بنیادی ضرورت ہے،وہ نسل یاوہ لوگ جوعقل ودانائی سے بے بہرہ ہوں وہ معاشرہ کے لئے ایک غیرمفید بھیڑہیںیاپھرتمدن کے مقاصد کونقصان پہونچانے والے ایک ’منفی اضافہ‘کی سی حیثیت رکھتے ہیں، حفاظت عقل کاتکلیفات شرعیہ کامناط نیزحمل امانت اور خود ارادیت کی اساس ہونا…تمام غلط افکار اور عقل کونقصان پہونچانے والی چیزوں سے عقل کی حفاظت ایک ایسی چیزہے جس کواستعمال کرکے اہم عہد حاضر کے اپنے بعض مسائل کو حل کرسکتے ہیں،جیسے ہجرت عقول(اصحاب عقل ودانش کی دوسرے معاشروں کو ہجرت) غیر مہذب ذہنیت،عقلی یافکری کشمکش اور عقلوں کاسوخت ہونا۔(۳۹)
اندھی تقلیدسے بچنے اور اوہام پریقین نہ کرنے کے مزاج کوفروغ دینا
عقل کی حفاظت میں یہ بھی شامل ہے کہ عقل کوان چیزوں سے بچایاجائے جواس کو کمزورکرنے،اس کی صلاحیت کوختم کرنے کاراستہ بھٹکانے اور گمراہ کرنے کاذریعہ بنتے ہیں،ان اسباب میں جمود،اندھی تقلید،اوہام وخرافات پریقین،اور علم ودلائل کے بغیرکوئی بات کہنے یاماننے کامزاج شامل ہیں۔
اللہ تعالی کاارشادہے:
وما یتبع اکثرہم الا ظنا ان الظن لایغنی من الحق شیئا ان اللہ علیم بمایفعلون۔(۴۰)
تم میں سے اکثر لوگ محض بے بنیاد گمان کی پیروی کرتے ہیں،یقینا ایسا گمان حق کوجاننے کے سلسلے میں ذرا بھی فائدہ مند نہیں،وہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا اللہ کوان سب کی خبر ہے۔
یا ایہا الذین آمنو ا اجتنبوا کثیر ا من الظن ان بعض الظن اثم۔(۴۱)
اے ایمان والو! بہت سارے گمانوں سے بچو ،کیوں کہ بعض گمان (یعنی بدگمانی) گناہ ہوتے ہیں۔
عقل کوزائل کرنے والے ظاہری اسباب سے اجتناب کی تلقین
ان معنوی اسباب کے ساتھ عقل کوختم کرنے یاکم کرنے کے ظاہری اسباب سے بچنابھی ضروری ہے،ظاہری اسباب میں ظاہری نشہ اوراس سے متعلق تمام چیزوں سے اجتناب اس میں شامل ہیں،ان سے بچناضروری ہے،اور استعمال کی صورت میں سزائیں متعین ہیں۔(۴۲)
اللہ تعالی کاارشادہے:
یسئلونک عن الخمر قل فیہما اثم کبیر ومنافع للناس واثمہما اکبرمن نفعہما۔(۴۳)
لوگ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے،اور لوگوں کے کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں،لیکن ان کاگناہ ان کے فائدوں سے بڑھ کر ہے۔
یا ایہا الذین آمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔ (۴۴)
اے ایمان والو! بے شک شراب ،جوا،مورتیاں،اور فان نکالنے کے تیر، گندی باتیں اور شیطان کے کام ہیں، ان سے بچو،تاکہ تمہارا بھلا ہو۔
عقل کے استعمال پرابھارنا
چونکہ اعلام کاعمومی مقصد عوام پراس طرح اثرڈالناکہ کسی متعین قضیہ میں رائے عامہ پیداہوسکے،اوریہ مقصد خبر، تبصرہ اور تجزیہ کے ذریعہ حاصل ہوتاہے،اسی طرح اعلام کے ذیلی مقاصد میں عوام کی رائے میں ایسی تبدیلی پیدا کرنا ہے جواعلام سے مقصود تبدیلی سے ہم آہنگ ہو،اس پس منظر میں رائے عامہ کی تبدیلی کے ذریعہ لوگوں کے عمل ومزاج میں تبدیلی اوران میں بیداری کے لئے حفاظت عقل کے کردارکومضبوط وموثر بنانا ضروری ہے، آزادانہ غوروفکرکی اہمیت کو اجاگرکرکے،اس مقصد کے لئے قرآن کریم بہترین مثال ہے، قرآن لوگوں کی عقل اوران کے ضمیرکومخاطب بناتا ہے، قرآن کی بے شمارآیات میں علم ، غور وفکراورتدبرکی دعوت دی گئی ہے،اور عقل کواستعمال کرنے پرابھارا گیاہے، علماء نے غوروفکر کواسلامی فریضہ قراردیاہے۔
شریعت کافطرت سے ہم آہنگ ہونے کوثابت کرنا
عقل کی حفاظت کے مقصد میں یہ بات بھی شامل ہوگی کہ شریعت پرجمودکے جو الزامات لگتے رہتے ہیں ان کاپردہ فاش کیاجائے،اوراس بارے میں مقاصد شریعت کا علم بہت اہم ہے۔
اسی طرح اس بات کاواضح کرنابھی حفاظت عقل میں شامل ہوگی کہ اسلامی شریعت انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے،اور شرعی اوامرونواہی کے موجودنہ ہونے کی صورت میں فطرت ہی صحیح اور سیدھی بنیادہے جس پر اللہ تعالی نے مخلوق کوپیدافرمایاہے،اورانہیں زندگی میں پیغام کواداکرنے اور ذمہ داری کواداکرنے کااہل بنایاہے۔
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جب اس تصورکوموثر انداز میں پیش کیاجائے گاتولوگ اسلام سے قریب ہوں گے،اور یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہوپائے گی کہ اسلام اور عقل کے درمیان کوئی بعد اور تضاد نہیں ہے،کیونکہ فطرت اور عقل ہی اس دین میں تشریعی احکام کی بنیاد ہے۔
۴۔حفظ نسل اور ذرائع ابلاغ
شریعت نے ایجابی اور سلبی دونوں سطحوں پر نسل کی حفاظت کامکلف بنایاہے،نسل کے وجودکی بقاء کے لئے نکاح کی مشروعیت ہوئی ہے،اوراس عمل کومعاشرتی زندگی کے لئے اتنا اہم قراردیاگیاکہ اس معاہدہ نکاح کوقرآن میں ’میثاق غلیظ‘ قراد دیاگیا:
وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا۔(۴۵)
اور تم کیسے اس کو واپس لوگے حالانکہ تم ایک دوسرے سے ہم بستری کرچکے ہو،اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہے۔
اسی طرح ازدواجی زندگی کابہت ٹھوس نظام بنایاگیاہے،اس کے آداب واحکام متعین ہیں جومعاشرتی نظام کو پائیدار بناتے ہیں،اورمضبوطی عطاکرتے ہیں،ان احکام میں تناسل کی ترغیب،بچوں کی بہترتربیت کی جانب توجہ دینے،اوران کی کفالت وحضانت کانظام شامل ہیں۔
نسل کی حفاظت کے سلبی پہلو میں زناکی حرمت ،جنسی انارکی کی حرمت،اس سے متعلق سزائیں،نوزائیدہ بچوں کو مارنے کی حرمت اورجنین کے قتل کی حرمت شامل ہیں ۔
حفاظت نسل خواہ ایجابی اعتبارسے ہویاسلبی اعتبارسے،اس کامطالبہ ہے کہ معاشرہ اور ملک میں ایسی عمومی پالیسی اختیار کی جائے جس کے نتیجہ میں حفاظت نسل کی مطلوبہ تمام چیزیں فراہم ہواوروہ تمام چیزیں ختم ہوجائیں تواس کے لئے نقصان کاباعث ہوں۔
نظام حیات کو پرکشش بناکرپیش کرنا
نسل کی حفاظت کے لئے میڈیاکامطلوبہ کرداریہ ہے کہ وہ معاشرہ اورسماج میں معاشرتی زندگی کوخوشگوارنظام حیات کی شکل میں پیش کرے،بایں طور کہ خاندان کی اہمیت کو معاشرہ کی اساس کے طورپرپیش کرے،اسی طرح اس خاندانی نظام کوتوڑنے والے چیزیں مثلامہرکی مقدارمیں نامناسب زیادتی، گھریلو اسباب کی فراہمی میں شوہرکی سختی جیسے عوامل کے خاتمہ کی کوشش کرے،اس طرح کے فوائد ذرائع ابلاغ سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔
فواحش کے فروغ پرنکیر
حفاظت نسل کے سلبی پہلومیں ایک کام یہ بھی ہے کہ فواحش کے فروغ کو روکا جائے، جن مجلات اور جن میڈیائی اداروں سے فواحش کی ترغیب ہوتی ہے،ان پر نکیل کساجائے، جو میگزین اور انٹرنیٹ کے صفحات خاندان کوتوڑنے کاذریعہ بنتے ہیں،اسی طرح خاندانوں کی عزت سے کھلواڑکرنے کاسبب بنتے ہیں،ان کوروکاجائے۔
ازدواجی زندگی کوکمزورکرنے والے افکارکاجائزہ
اسی طرح ازدواجی زندگی کوتوڑنے والے افکارونظریات کی نشریات کاجائزہ لینابھی ضروری ہے،فلموں اور ٹی وی سیریل کااس بارے میں بڑارول ہوتاہے، ازدواجی زندگی کی مشکلات ومسائل کے حل پرمبنی پروگرام کے ذریعہ اس کی باضابطہ کوشش ہوتی ہے،اسی طرح آزادی کے نام پر بغیرشادی کے جنسی روابط کو فروغ دیاجاتاہے۔
سماج پربرے اثرات ڈالنے والی عادتوں پر نظر
ذرائع ابلاغ کے سلبی پہلومیں ایسی بہت سی کوششیں شامل ہیں جن کامعاشرہ اور سماج پر بڑااثرہوتاہے،مثلا:
جھوٹ:خلاف واقعہ کسی خبر کاعمدایاسہوانقل کرنا،خواہ اس کاتعلق ماضی سے ہویا مستقبل سے، ایسی بری عادت ہے جس کاآپس کے تعلقات پر براہ راست اثر پڑتاہے، اسی طرح معاشرتی زندگی پر اس کااثرہوتاہے،اوراس سے بھیانک نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
افواہ:ایسی معلومات اور افکارجسے لوگ نقل کرتے ہیں،مگران کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی،یامن گھڑت خبروں کا پھیلانا ہے جن کاحقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو، قرآن میں واقعہ کی تحقیق پر زوردیاگیاہے،ارشادہے:
یاایہاالذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنبأ فتبنیواأن تصیبوا قوما بجہالۃ فتصبحوا علی مافعلتم نادمین۔ (۴۶)
اے مسلمانو!اگر تمہارے پاس کوئی غیرمعتبر شخص کوئی خبرلائے تواس کی خوب تحقیق کرلیاکرو،کہیں ایسانہ ہوکہ تم کسی گروہ کوناواقفیت میں نقصان پہونچادو، پھر تم کواپنی حرکت پر پچھتاناپڑے۔
ایک قرات میں ’فتبینوا‘کی جگہ’ فتثبتوا ‘آیاہے،گویااللہ تعالی نے آنے والے خبروں کوچھانٹ پھٹک کرنے کے بعد اسے دوسروں تک منتقل کرنے کاحکم دیاہے۔
جب تک خبرکی صحت نہ معلوم ہواس وقت تک اس کونقل کرناایک مسلمان کاشیوہ نہیں ہے،حدیث میں اس کی ممانعت موجودہے:
کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع۔(۴۷)
ایک بری عادت جونسل کی حفاظت سے مغایرہے،مگرمیڈیامیں خوب رائج ہے،وہ بہتان لگاناہے،قذف کاتعلق ان جرائم میں سے ہے جوبے حیائی کوفروغ دیتے ہیں،بلکہ یہ بے حیائی کوپھیلانے کادروازہ ہے،شریعت میں قذف کوحرام قراردیاگیاہے،یہ گناہ کبیرہ ہے،اور بہتان لگانے والے پر حدواجب کی گئی ہے،جواسی کوڑے ہیں،اور ان کی گواہی بھی مردودہوگی،سواء اس کے کہ دلیل سے اس کی بات ثابت ہوجائے:
والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شہداء فاجلدوہم ثمانین جلدۃ ولاتقبلوا لہم شہادۃ ابدا واولئک ہم الفاسقون ۔(۴۸)
اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تمہت لگائیں پھر چارگواہ نہ لاسکیں توان کواسی کوڑے لگائواوران کی کوئی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو،یہی لوگ پکے نافرمان ہیں۔
ایک محدود دائرہ میں بھیدودوسرے کے عیوب کوبیان کرنے اور اس کی تشہیرکرنے سے بھی منع کیاگیا ہے، تو پھر میڈیاکی سطح پر عیب کی تشہیرکی ممانعت کتنی سخت ہوگی۔
قذف کے لئے شریعت میں دوطرح کی حدیں متعین ہیں،ایک کوڑالگانا،اور دوسرا تہمت لگانے والے کی گواہی کاقبول نہ کیاجانا،اسی طرح حدشرعی کے شرائط نہ پائے جانے کی صورت میں ولی امرکے لئے تعزیرکے ذریعہ سزا متعین کرنے کاحق ہے،شریعت نے اس مسئلہ میں لوگوں کے مزاج اور جرم کی نوعیت کوملحوظ رکھاہے،دوسروں کی عزت سے کھیلنے والوں کے لئے اس سزامیں بڑی عبرت ہے۔(۴۹)
۵۔ حفظ مال اورذرائع ابلاغ
پانچواں اساسی مقصد حفظ مال ہے،دین اور دنیادونوں میں مال کی بڑی اہمیت ہے، شریعت میں حلال طریقہ پر کسب معاش یعنی مال حاصل کرنے کاحکم دیاگیا ہے ،مال حاصل کرنے کے ساتھ اس مال کی حفاظت کابھی حکم دیاگیا ہے،مال کی حفاظت کاشریعت میں کیا مقام ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ مال کی حفاظت کی خاطراگر جان چلی جائے تووہ شہیدکے حکم میں ہے:
من قتل دون مالہ فہوشہید۔(۵۰)
مال کومحفوظ کرنے کے لئے چوری کوحرام کیاگیا،اور اس کی سزا متعین کی گئی:
السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہماجزاء بما کسبا نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم۔(۵۱)
چوری کرنے والا مرد ہویاعورت ،ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو،یہ ان کے کرتوت کی سزاہے،اور اللہ کی طرف سے عبرت کے لئے ہے،اور اللہ بڑی قوت والے اور حکمت والے ہیں۔
مال غصب کرنے کی بھی ممانعت ہے:
ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔(۵۲)
اور ناحق طریقہ پر ایک دوسرے کامال نہ کھائو۔
مال کے تحفظ کادائرہ
شریعت میں مال کے تحفظ کامطلب صرف چوری کی حرمت اور چور کاہاتھ کاٹنانہیں ہے،بلکہ اس میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جوشریعت کی جانب سے زمین پراللہ کی نیابت، عمرانیات اور اصلاح ارض سے متعلق ہیں،وہ چیزیں بھی شامل ہیں جومال کی اہمیت،اس کی حرمت اوراس کے مطلوبہ کردار ،اوراس کے حصول کے لئے زمین میں سفرسے متعلق ہیں ، تجارتی معاہدات اور مالی معاملات سے متعلق جوشرعی احکام ہیں وہ بھی داخل ہیں،اسی طرح مال کوضائع ہونے سے بچانے سے متعلق شرعی قواعد مثلا چوری کی حرمت ،چوری کی سزا، اسراف کی ممانعت،مال کوضائع کرنے کی ممانعت،غلط طریقہ سے دوسروں کامال کھانے کی ممانعت،یتیموں کے مال کی حفاظت،اوراس مال کوبہتراندازمیں صرف کرنے کی ہدایت،نیزغلط طریقہ سے مال کوخرچ کرنے اور پاگلوں کومال خرچ کرنے کی ممانعت شامل ہیں ۔ (۵۳)
حفظ مال کے مفہوم میں ارتقاء
دیگرمقاصد کے مفہوم کی طرح حفظ مال کے مفہوم میں بھی ارتقاء ہواہے،اب اس کا دائرہ بہت وسیع ہوچکاہے، ڈاکٹرجاسرعودہ لکھتے ہیں:
غزالی کی اصطلاح ’حفظ المال‘جوعامری کی اصطلاح ’مزجرۃ اخذ المال‘یا چوری کی سزا کے ہم معنی تھی،اوراسی طرح جوینی کی اصطلاح ’عصمۃ الاموال‘میں عصرحاضرمیں اتنا ارتقاء ہواکہ اب اقتصادیات وسماجیات کی رائج اصطلاحات کاساتھ دے سکیں،مثلا ہمیں مقاصد شریعت کی بعض معاصر تحریروں میں اجتماعی تکفل،اقتصادی اعتبار سے معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان مال کی منصفانہ تقسیم اور زیادہ فرق نہ ہونے دینے جیسی اصطلاحات کا استعمال خوب دکھ رہا ہے، زیادتی اور غصب سے افراد کے مال کی حفاظت نیزسود کی حرمت وغیرہ کے علاوہ اب مذکورہ بالا اصولوں کابھی تذکرہ کیاجارہاہے،اور صحیح فہم ہے،اس جیسے ارتقاء سے اجتماعی اقتصای ترقی کی حوصلہ افزائی کے لئے مقاصد کے استعمال کاموقع ملتاہے،اوراس کی اکثرمسلم اکثریتی ممالک کو بہت زیادہ ضرورت ہے،اسی طرح مقاصدی اصطلاحات کا یہ ارتقاء investmentکے میدان میں ’اسلامی متبادل‘بھی پیش کرتاہے،اس متبادل کوآج کل غیر مسلم اکثریت والے ممالک میں بھی خوب رواج مل رہاہے،خاص طور پر حالیہ عالمی اقتصادی بحران میں اس کی مقبولیت میں مزیداضافہ ہواہے۔(۵۴)
ڈاکٹرجاسرعودہ اپنی دوسری کتاب میں اس کی مزیدوضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عامری نے ضروریات خمسہ کے ضمن میں ایک مقصد ’مزجرۃ اخذالمال‘(ناحق مال ہتھیانے سے روک تھام) کا ذکرکیاہے،جس کی وجہ سے چوری اور ڈکیتی کی حدود مشروع کی گئی ہیںپھرامام الحرمین نے اسی کو’عصمۃ المال‘سے تعبیرکیاہے،اور بعد میں اس کو امام غزالی نے مستصفی میں ’حفظ المال‘کی اصطلاح دی،امام شاطبی نے موافقات میں اس کے مآخذ بیان کئے ہیں،عصرحاضرمیں مال کے مفہوم میں زبردست وسعت پیدا ہوئی ہے،اب اس کے مفہوم کے اندر مملوکہ اثاثہ (welth)کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی اعتبار سے قیمت (Value)بھی داخل ہوگئی ہے،اس ارتقاء کی تعبیر ہم کو اسلامی اقتصادیات کے ان نظریات میں ملتی ہے ،جس کے سلسلے میں اسلامی بینکنگ کے مختلف پروجکٹس کے سامنے آنے کے بعد پچھلی تین دہائیوں میں خوب علمی کام ہواہے،محترم ہادی خسرو شاہی جیسے بعض معاصر محققین نے ’حفظ المال‘کے مفہوم میں کتاب وسنت کے استقراء کے نتیجہ میں مزیدوسعت دی ہے،انہوں نے اس کے اساسی مفہوم (افرادکے مال کی حفاظت) کے علاوہ اس میں بعض وہ امور بھی داخل کئے جن کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے،جیسے اجتماعی تکافل اور اقتصادی اعتبارسے معاشرہ کے طبقات میں زیادہ فرق نہ ہونے دینا۔ (۵۵)
بجلی اور توانائی کوصحیح استعمال کرنے کامزاج بنانا
اس مقصد کی تکمیل میں میڈیاکے رول کی اہمیت اس طرح نظرآتی ہے کہ زمین کو آبادکرنے اور استخلاف جیسے بنیادی مقصد کے لئے مال صرف کرنے پرآمادہ کیاجائے،اس ابلاغی مہم میں بجلی اور توانانی کے صحیح استعمال کی رہنمائی،اقتصادی مہمات بھی شامل ہیں۔
ملکی مصنوعات کی خریداری
اسی طرح حفظ مال سے متعلق میڈیا اہم کرداراداسکتاہے کہ وہ ملکی مصنوعات کوخریدنے پر لوگوں کوآمادہ کرے،یہ ملکی معاشیات کی مضبوطی کاذریعہ ہے،اس سے روزگار کے مواقع بھی نکلیں گے،اوراس طرح حفظ نفس کے مقصد کی تکمیل میں بھی معاونت ہوگی۔
مالی کرپشن کاانکشاف
میڈیاکاایک سلبی کرداریہ بھی ہوسکتاہے کہ کرپشن کاپردہ فاش کیاجائے،اور کرپشن کرنے والے کواجاگر کیا جائے،یہ میڈیاکاسب سے بڑاکام ہوگا۔
تصوراتی مقابلوں کی روک تھام
مال کوغلط طریقہ پر خرچ سے بچانے میں بھی میڈیااپنارول اداکرسکتاہے،بطورخاص خیالی مقابلوں کے ذریعہ، کیونکہ اس طرح کے مقابلے ممنوع اورعموماًجوامیں شامل ہوتے ہیں۔
جعلی مصنوعات کی ترویج پر نکیر
فرضی منصوبوں کی ترویج واشاعت اورجعلی مصنوعات کی ترویج اشاعت جس میں لوگوں کامال غلط طریقہ سے کھایاجاتاہے،ان چیزوں کوروکنے میں میڈیااپناکردار ادا کر سکتا ہے۔
ابلاغ اورشریعت کے مقاصدخاصہ
مقاصدخاصہ سے مرادوہ مصالح یاامورہیں جن کاشریعت کے کسی ایک حصہ یاکسی مخصوص شعبہ کے تمام ابواب میں خیال رکھاگیاہوجیسے عبادات سے متعلق شریعت کے مقاصد،خاندانی نظام سے متعلق مقاصد،مالی احکام سے متعلق مقاصد،سزائوں سے متعلق مقاصد وغیرہ
درج ذیل تفصیلات کی روشنی میں اعلام کے مقاصدخاصہ کوسمجھاجاسکتاہے :
مسلمانوں کے مسائل کی فکر
مسلمانوں کے عام مسائل ومعاملات سے دلچسپی لینااعلام کے مقاصدخاصہ میں شامل ہے،کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کوخیرخواہی قراردیاہے،آپ ﷺ نے فرمایا:
الدین النصیحیۃ،قلنا لمن،قال للہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتہم۔(۵۶)
اعلام خیرخواہی کاکام کرتاہے،اس طرح کہ ایک جانب جہاں حکومت کواپنے پروگراموں اورخبروں کے ذریعہ حالات سے واقف کراتاہے اوراس تک خیرخواہی کومنتقل کرتاہے وہیں دوسری طرف ضرورت مندوں کی مددبھی کرتاہے بایں طورکہ ان کی آواز حکمراں طبقہ تک پہونچاتاہے،اسی طرح ضرورت مندوں اور رفاہی اداروں کے درمیان پل کاکام کرتاہے۔
خبروں کوپرکھنے کامزاج عام کرنا
ابلاغ کے خصوصی مقاصد میں خبروں کی تصدیق وتوثیق کے کلچرکوفروغ دیناہے،یہ شریعت کے اصولوںمیں ایک اہم اصول ہے ،جس کی رعایت ہمیں اسلام کے اکثرمسائل میں نظرآتی ہے،گرچہ اسلامی معاشرہ میں سچائی اور عدالت کاغلبہ ہوناچاہیے مگراس کے باوجود خبروں کے نقل کرنے کے سلسلہ میں سخت اصول وضوابط بنائے گئے ہیں،جن خبروں کے نتائج جتنے اہم ہوتے ہیں ان خبروں کی تحقیق میں اسی قدر احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ سے کوئی بات نقل کرنے سے شرعی احکام کا وجود ہوتا ہے ،اس لئے اس معاملہ میں شریعت میں اسی قدراحتیاط کی تاکید کی گئی ہے،جمع قرآن کے سلسلہ میں جس درجہ احتیاط کوملحوظ رکھاگیا،احادیث کو جمع کرنے کے سلسلہ میں جونظام بنایا گیاوہ اس کی بہترین دلیل ہیں،احادیث کوجمع کرنے سے متعلق جرح وتعدیل کاپورافن وجود میں آیا،جس میں رواۃ کے حالات زندگی کوہمیشہ کے لئے محفوظ کردیاگیا۔
الف:اگر کسی بات سے دوسروں کے حقوق متعلق ہوں یااس سے ایسے اثرات مرتب ہونے والے ہوں جن میں نفع یاضرر کاپہلوہوتاہے توایسے مسائل میں بھی شریعت نے احتیاط کاطریقہ اختیار کیاہے،اسی مقصد کے تحت حدود کے نفاذ کے لئے گواہوں کی گواہی ضروری قراردی گئی ہے،خریدوفروخت میں حق ثابت ہوتاہے ،اس لئے وہاں بھی گواہ کاہونا مستحب ہے،نسب کی اہمیت اور نسل کی حفاظت کی خاطرنکا ح میں گواہوں کاہوناشرط ہے، اگرکسی بات کوثابت کرنے کے لئے شرعی ضوابط نہ ہوں توکوئی کچھ بھی کہہ سکتاہے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لویعطی الناس بدعواہم لادعی ناس دماء رجال واموالہم ولکن الیمین علی من ادعی علیہ۔(۵۷)
ب:جوشرائط قرآن واحادیث کے نقل کے لئے ہیں وہ شرائط صحابہ سے نقل کے لئے نہیں ہیں،کہ یہاں سند کا متصل ہوناضروری نہیںہے،لیکن یہ حقیقت ہے کہ نقل کرنے کاطریقہ جتنامضبوط ہوگانقل ہونے والی بات اتنی ہی قابل اعتماد ہوگی ، شرع من قبلنااور قول صحابی کے حجت ہونے کے لئے سلسلہ میں اس اصول کودیکھاجاسکتاہے۔
ج:اسلام کے آخری دین ہونے کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ دین اتناوسیع اور ہمہ گیرہوکہ لوگوں کے مسائل حل ہوسکیں، اوران کے حالات کی رعایت ہوسکے،جب ایساہونے لگےتب ہی کہا جائے گاکہ یہ دین ہردور اور ہرعلاقہ کے لئے مفید ہے،اسی بنیاد پر شریعت میں زمانہ کی تبدیلی سے بعض مسائل میں تبدیلی کااصول موجودہے،فسق وفجورکے عام ہونے اور دین سے رشتہ کمزورہونے کے نتیجہ میں اس بات کاقوی امکان ہے کہ لوگوں کے مسائل ان کے فجور کے تناسب سے ہوں گے،یعنی فجورمیں جتنازیادہ آگے بڑھیں گے مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے،اس لئے عدالت کے اصول کے باوجود اس زمانہ میں تصدیق وتوثیق کا مرحلہ ضروری ہے،گویااصل توقف کرناہے تاآنکہ تحقیق کامرحلہ مکمل نہ ہوجائے،قرآن میں ایسے لوگوں پر نکیرکی گئی ہے جوظن وتخمین پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھتے ہیں:
ان یتبعون الا الظن وان الظن لا یغنی من الحق شئیا۔(۵۸)
وہ محض بے بنیاد گمان کی پیروی کررہے ہیں،اور ایسا وہم وگمان حق کے معاملہ میں کچھ کام نہیں آتا۔
اورخبرکی تصدیق کاحکم قرآن میں دیاگیاہے:
یا ایہا الذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنباء فتبنیوا۔(۵۹)
اے مسلمانو! اگر تمہارے پا س کوئی غیر معتبر شخص کوئی خبر لائے تواس کی خوب تحقیق کرلیا کرو۔
اسی طرح ہرسنی ہوئی بات کونقل کرنے سے منع کیاگیاہے،رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:
کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع۔(۶۰)
خاص طور پر جوباتیں امن عامہ کے لئے خطرہ بن سکتی ہوں ان باتوں کوبغیرتصدیق کے نقل کرنااسی ممانعت میں شامل ہے،جھوٹی خبریں گڑھنے کاجرم کرنے والوں کوقرآن میں’ مرجفون‘سے تعبیرکیاہے،المرجفون فی المدینۃ۔ (۶۱)
زمخشری لکھتے ہیں:
المرجفون :ناس کانوا یرجفون باخبارالسوء عن سرایا رسول اللہ فیقولون ہزموا وقتلوا وجری علیہم کیت وکیت فیکسرون بذلک قلوب المومنین یقال أرجف بکذا:اذا اخبر بہ علی غیر حقیقۃ لکونہ خبرا متزلزا غیر ثابت۔ (۶۲)
اور شیخ محمدطاہربن عاشورمرجفون کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الارجاف:اشاعۃ الاخبار،فیہ معنی کون الاخبار کاذبۃ او مسیئۃ لاصحابہا یعیدونہا فی المجالس لیطمئن سامعون لہا مرۃ بعد مرۃ بانہا صادقۃ لان الاشاعۃ انما تقصد للترویج بشئی غیر واقع او مما لایصدق بہ لاشتقاق ذلک من الرجف والرجفان وہوالاضطراب والتزلزل فالمرجفون قوم یتلقون الاخبار فیحدثون بہا فی مجالس ونواد ویخبرون بہا من یسال ومن لایسال ومعنی الارجاف ہنا :انہم یرجفون بما یوذی النبی ﷺ والمسلمین والمسلمات ویتحدثون عن سرایا المسلمین فیقولون :ہزموا او اسرع فیہم القتل او نحوذلک لایقاع الشک فی نفوس الناس الخوف وسوء ظن بعضہم ببعض۔ (۶۳)
اور شعراوی لکھتے ہیں:
فالمرجفون ہم الذین یحاولون زلزلۃ الشئی الثابت وزعزعۃ الکیان المستقر،کذلک کان المنافقون کلما رأو ا للاسلام قوۃ حاولوا زعزعتہا وہزہا لاضعافہ والقضاء علیہ وہولاء ہم الذین نسمیہم فی التعبیرالسیاسی الحدیث’الطاہورالخامس‘وہم الجماعۃ الذین یروجون الاشاعات ویذیعون الاباطیل التی تضعف التیار العام وتہدد استقرارہ۔(۶۴)
ج:مطلوبہ مسلم معاشرہ میں جملہ افرادذمہ داری کواٹھانے میں برابردرجہ کے شریک ہوتے ہیں،امام شافعی کایہ جملہ معروف ہے’ المستمع شریک القائل‘کہ سننے والابولنے والے کے عمل میں شامل ہے۔
ابونعیم نے امام شافعی کی پوری بات اس طرح نقل کی ہے:
قال خرج الشافعی یوما من سوق القنادل متوجہا الی حجرتہ فتبعناہ فاذا رجل یسفہ علی رجل من اہل العلم فالتفت الیہ الشافعی فقال :نزہوا اسماعکم عن استماع الخناکما تنزہون السنتکم عن النطق بہ فان المستمع شریک القائل وان السفیہ ینظر الی اخبث شئی فی وعائہ فیحرص ان یفرغہ فی اوعیتیکم ولو ردت کلمۃ السفیہ لسعد رادہا کما شقی بہا قائلہا۔(۶۵ )
لہذا ابلاغ کی ذمہ داری پیغام کوپہونچانے والے اور پیغام کوقبول کرنے دونوں پر ہوگی،دونوں اس امانت کو اٹھانے میں برابردرجہ کے شریک ہیں،پیغام کوقبول کرنے کاکردارپیغام رساں سے کم نہیں ہوتا،اللہ تعالی نے ان لوگوں پر نکیرفرمائی ہے جوپیغام کو قبول کرنے اوراس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
واذا جاء ہم امر من الامن اوالخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لا تبعتم الشیطان الا قلیلا۔(۶۶)
جب ان کو امن یا خوف کی کوئی خبر ملتی ہے تواس کومشہور کردیتے ہیں، اور اگر وہ اس کو رسول اور اپنے میں سے ذمہ داروں تک پہونچادیتے توان میں سے جوتحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی تحقیق کرلیتے،اور اگر تم پراللہ کا کرم اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو کچھ لوگوں کے سوا تم توشیطان کی پیروی کرلئے ہوتے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
’اذاعوابہ‘ای افشوہ واظہروہ وتحدثوا بہ قبل ان یقفوا علی حقیقتہ …’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم‘ای یستخرجونہ ای لعلموا ماینبغی ان یفشی منہ وما ینبغی ان یکتم ۔ (۶۷)
زمخشری لکھتے ہیں:
ہم ناس من ضعفۃ المسلمین الذین لم تکن فیہم خبرۃ بالاحوال ولا استبطان للامور…ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر وقالوا نسکت حتی نسمعہ منہم ونعلم ہل ہو مما یذاع او لایذاع لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم لعلم صحتہ وہل ہو مما یذاع او لا یذاع۔ (۶۸)
اعلام تبلیغ کابہترین ذریعہ
شریعت کے نزدیک ابلاغ وسیلہ ہے،مقصود نہیں،اصل مقصود دین کی تبلیغ ہے، اور ابلاغ اس تبلیغ کی ادائیگی کا بہترین وسیلہ ہے،لہذا یہ تبعاواجب ہے،فقہاء کہتے ہیں:وسیلۃ المقصود تابعۃ للمقصود علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
لما کانت المقاصد لا یتوصل الیہا الا باسباب وطرق تفضی الیہا کانت طرقہا واسبابہا تابعۃ لہا معتبرۃ بہا فوسائل المحرمات والمعاصی فی کراہتہا والمنع بحسب افضائہا الی غایتہا وارتباطہا بہا ووسائل الطاعات والقربات فی محبتہا والاذن فیہا بحسب افضائہا الی غایتہا فوسیلۃ المقصود تابعۃ للمقصود وکلاہما مقصود لکنہ مقصود قصد الغایات وہی مقصودۃ قصدالوسائل فاذا حرم الرب تعالی شیئا ولہ طرق ووسائل تفضی الیہ فانہ یحرمہا ویمنع منہا تحقیقا لتحریمہ وتثبیتا لہ ومنعا ان یقرب حماہ ولو اباح الوسائل والذرائع المفضیۃ الیہ لکان ذلک نقضا للتحریم واغراء النفوس بہ وحکمتہ تعالی وعلمہ یابی ذلک کل الاباء۔(۶۹)
وسائل سے مراد وہ راستے ہیں جومصالح اور مفاسد تک پہونچاتے ہیں،اور مقاصد سے مرادوہ نتائج ہیں جنہیں شریعت پیداکرناچاہتی ہے،چنانچہ وسائل میں حکم اس پرلگے گا جوکچھ ترسیل کیاجاتاہے ،چاہے اچھی چیزیں ترسیل کی جائے یابری چیزیں،افضل مقاصد کے وسائل اچھے سمجھے جاتے ہیں،اور برے مقاصد کے وسائل برے سمجھے جائیں گے،یعنی وسائل کی حدبندی مصالح اور مفاسد کی ترتیب کے تناظرمیں ہوگی۔علامہ قرافی لکھتے ہیں:
وکذا کون الوسیلہ الی افضل المقاصد افضل الوسائل والی اقبح المقاصد اقبح الوسائل والی ما یتوسط متوسطۃ کمالا یخفی فافہم۔(۷۰)
ابلاغ جہاد کی طرح ہے
ابلاغ کی حیثیت اوراس کاحکم جہادکے خاص احکام سے بھی متعین کیا جاسکتا ہے، جہادکامقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے،اسی طرح ابلاغ کامقصد بھی یہی ہے، لہذامقصود کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں،اور موجودہ زمانہ میں قتال تلواراورگولی میں منحصرنہیں ہے بلکہ قلم، پروگرام،الیکٹرانک نشریات سب سے زیادہ طاقت والاہتھیارہے،اسی لئے ابلاغ کو آج چوتھی نسل کی جنگ سے تعبیرکیاجاتاہے۔
حوالہ جات:
(۱)سورہ توبہ:۴۲
(۲)سورہ نحل:۹
(۳)سورہ لقمن:۱۹
(۴)مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ،ج۳، ص: ۱۶۵، ط:وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیۃ،قطر،۱۴۲۵ھ
(۵)المقاصدالعامۃ ،ص:۷۹،المعہدالعالی للفکرالاسلامی،طبع دوم ،۱۹۹۴ء
(۶)الاجتہاد المقاصدی،ج۱،ص:۵۲،وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیۃ ،قطر
(۷)فقہ مقاصد،ص: ۲۳۔ ۲۴، از ڈاکٹرجاسرعودہ، ترجمہ احمدالیاس نعمانی ندوی
(۸)نظریۃ المقاصد عندالشاطبی، ص: ۷
(۹)الاجتہاد المقاصدی،ص:۳۶
(۱۰)الاجتہاد المقاصدی،ص:۳۶
(۱۱)مقاصد الشریعۃ، ص: ۷۵، احمد الریسونی،ط:دارالکلمۃ، ۲۰۱۴ء
(۱۲)نحو تفعیل مقاصد الشریعۃ، ص:۱۳۱،دارالفکر دمشق۱۴۲۲ھ
(۱۳)الموافقات،ج۲،ص:۱۸
(۱۴)حوالہ سابق، ج۲، ص:۲۰
(۱۵)الموافقات، ج۲، ص: ۲۱
(۱۶)محاضرات فی مقاصد الشریعۃ ،ص:۱۹۴،از ڈاکٹر احمد ریسونی، دارالکلمۃ
(۱۷)الموافقات، ج۲، ص: ۲۱
(۱۸)ادب الدنیا والدین، ج۱،ص:۱۳۳، مکتبۃ الحیاۃ،۱۹۸۶ء
(۱۹)سورہ ہود:۸۸
(۲۰)سورہ ہود:۶۱
(۲۱)سورہ بقرہ:۲۰۴۔۲۰۶
(۲۲)معلمۃ زاید،ج۴،ص:۴۶۳)
(۲۳)مراجعات فی الفکر والدعوۃ والحرکۃ ،ص:۵۶،از دکتور عمر عبید حسنۃ،معلمۃ زاید ج۷، ص:۲۷۵
(۲۴)الاشباہ والنظائر،ابن نجیم،ج۱، ص:۹۱
(۲۵)شرح القواعدالفقہیۃ ،ج۱،ص:۱۱۹
(۲۶)الموسوعۃ الفقہیۃ ،ج۱۶،ص:۲۵۶
(۲۷)الموافقات، ج۲، ص: ۲۱
(۲۸)الموافقات،ج۲، ص: ۱۸
(۲۹)(البحر المحیط فی اصول الفقہ ،ج۴،ص:۱۱۲
(۳۰)المقاصد الشریعۃ العامۃ، ص: ۲۲۶،۲۲۷
(۳۱)مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ،ج۳،ص:۲۳۴
(۳۲)السنن الکبری للبیہقی،ج۱۰،ص:۳۵۳،دارالکتب العلمیۃ ، بیروت،۲۰۰۳ء
(۳۳)سورہ الحدید:۲۵
(۳۴)التحریروالتنویر،ج۲۷،ص:۴۱۶،از شیخ محمدطاہر بن عاشور ،ط:دارسحنون للنشر والتوزیع ، تونس
(۳۵)البحرالمحیط ،ج۸،ص:۲۳۳
(۳۶)اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم،ج۱،ص:۵۲۶،ط:دارعالم الکتب ،بیروت لبنان،۱۹۹۹ء
(۳۷)مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ، ج۲، ص:۱۳۹
(۳۸)مدخل لدراسۃ الشریعۃ الاسلامیۃ ،ص:۷۵، ط: مکتبہ وہبہ،قاہرہ ۱۹۹۷ء
(۳۹)فقہ مقاصد،ص:۳۳، از ڈاکٹر جاسر عودہ، ترجمہ مولانااحمدالیاس نعمانی، بحوالہ نحوتفعیل النموذج المقاصدی فی المجال السیاسی والاجتماعی،یہ مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ :دراسات فی قضایا المنہج ومجالات التطبیق نامی کتاب میں شامل ہے،
(۴۰)سورہ یونس:۳۶
(۴۱)سورہحجرات:۱۲
(۴۲)معلمۃ زائد،ج۳،ص:۳۹۹
(۴۳)سورہبقرہ:۱۲۹
(۴۴)سورہ مائدہ:۹۰
(۴۵)سورہ سورہ نساء:۲۱
(۴۶)سورہ حجرات :۶
(۴۷)صحیح مسلم، باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع ، حدیث نمبر : ۷
(۴۸)سورہ نور:۴
(۴۹)معلمۃ زاید،ج۳،ص:۴۰۰
(۵۰)صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی ان من قصد اخذ مال غیرہ بغیرحق ،حدیث نمبر:۳۷۸
(۵۱)سورہ مائدہ ۳
(۵۲)سورہ بقرہ:۱۸۸
(۵۳)معلمۃ زاید، ج۳، ص: ۴۰۰،احمدالریسونی
(۵۴)علم مقاصد شریعت : ایک آسان تعارف،ڈاکٹرجاسرعودہ،ترجمہ مولانااحمدالیاس نعمانی ندوی، ص: ۵۰
(۵۵)فقہ مقاصد:شرعی احکام کامقاصد شریعت سے ربط، ص: ۲۸، از ڈاکٹرجاسرعودہ
(۵۶)صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب قول النبی الدین النصیحۃ،حدیث نمبر:۴۲،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث نمبر:۲۰۵
(۵۷)صحیح البخاری،کتاب تفسیر القرآن،باب ان الذین یشترون ،حدیث نمبر:۲۵۵۴،صحیح مسلم،کتاب الاقضیۃ،باب الیمین علی المدعی علیہ،حدیث نمبر: ۱۱۷۱
(۵۸)سورہ نجم :۲۸
(۵۹)سورہ حجرات:۶
(۶۰)صحیح مسلم،باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع
(۶۱)سورہ احزاب:۶۰
(۶۲)الکشاف،ج۳،ص:۵۷۰
(۶۳)التحریر و التنویر، ج۲۲،ص:۱۰۸
(۶۴)تفسیر الشعراوی،ج۱،:۷۵۵۷
(۶۵)حلیۃ الاولیاء،ج۹،ص:۱۲۳،دارالکتاب العربی،بیروت،طبع چہارم، ۱۴۰۵ھ
(۶۶)سورہ نساء:۸۳
(۶۷)احکام القرآن، ج۵، ص:۲۹۱
(۶۸)الکشاف، ج۱، ص:۵۷۲
(۶۹)اعلام الموقعین ،ج۳، ص: ۱۵۳
(۷۰)الفروق للقرافی،ج۲،ص:۶۲، مزید دیکھئے : مقاصد الشریعہ لابن عاشور، ج۳، ص: ۴۰۰،قواعد الاحکام، ج۱،ص:۵۳،عن معلمۃ زائد،ج ۲۶،ص: ۴۵۱