شاہ ولی اللہ دہلوی کی فقہی تصنیفات اور فقہی آراء

شاہ ولی اللہ دہلوی کی فقہی تصنیفات اور فقہی آراء

مفتی ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی

 پروفیسر اسلامک اسٹڈیز ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد

شاہ ولی اللہ دہلوی ؒاسلامی تاریخ کی ان نامور ہستیوں میں سے ایک ہیں ، جنھوں نے نہ صرف علوم وفنون کے مختلف شعبوں میں اپنے افکار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ بلکہ جن کی تصنیفات اور تحریریں چشم تحقیق کا سرمہ بنی ہوئی ہیں۔شاہ ولی اللہ دہلوی کو ان ناموران اسلام میں ایک یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپ کی ذات کئی مکاتب فکر، مسالک اور جماعتوں کا مرکز ہے ۔یہ بات خصوصیت کے ساتھ بر صغیر میں دیکھی جاتی ہے کہ اہل سنت وجماعت کے مختلف مکاتب فکر ، فقہی مسالک ، ذوقی مشارب ، نظریاتی جماعتوں ، تحریکات اور تعلیمی اداروںنے اپنا سلسلہ انتساب آپ کی مرکزی شخصیت سے استوار کیا ہے۔

بارہویں صدی ہجری کے ربع اول میں اسلامی ہندوستان کے مرکزی مقام دہلی سے قریب پھلت (ضلع مظفر نگر) نامی ایک قصبہ میں وقت کے جید عالم دین حضرت شاہ عبد الرحیم ؒکے گھر میں (4 شوال 1114ھ ؍مطابق 1703ء ) شاہ ولی اللہ پیدا ہوئے ۔ احمد نام رکھا گیا ۔ دہلی میں مقیم رہ کر والد محترم سے تعلیم وتربیت حاصل کی ۔ مروجہ ظاہری علوم کی تکمیل اور باطنی تربیت وسلوک سے آراستگی کے بعد سترہ برس کی عمر میں ( 1131ھ ) والد صاحب کے مسند درس وارشاد پر بیٹھے ۔ افادہ کے ساتھ ذاتی مطالعہ و تحقیق اور استفادہ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔1143ھ ؍ مطابق 1731ء میں حرمین شریفین کا سفر کیا اور وہاں علوم حدیث کے وسیع مطالعہ اور گہرے استفادہ سے فیضیاب ہوئے۔ ہندوستان واپس آکر قرآن و حدیث کی تعلیم اور اشاعت پر خصوصی توجہ دی ۔ اور اتحاد و جامعیت اور تجدید و احیائے دین کا وہ مبارک ومسعود کام شروع فرمایا جس کا فیض آج ایک جانب بر صغیر کی مختلف دینی جماعتوں ، علمی و تعلیمی اداروں اور اصلاح و تربیت کے مراکز کے ذریعہ جاری و ساری ہے ۔ اور دوسری طرف خود آپ کی بیش بہا تصنیفات و تالیفات آپ کے جامع افکار کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں۔اور اس سرچشمہ سے علم و تحقیق اور اصالت وجامعیت کی نہریں رواں دواں ہیں۔

شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنے فکر ونظر اور ذوق و نتیجہ ء تحقیق کو بڑی حد تک بذات خود قلم بند فرمادیا ہے۔ مختلف موضوعات پر آپ کے رسائل بڑی تعداد میں ہیں ، جن میں سے کئی تو امتداد زمانہ کے باعث بآسانی دستیاب بھی نہیں ہیں ۔ اور کئی ایسے ہیں جو لائبریریوں میں موجود ہیں ، لیکن طباعت سے محروم۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مطبوعہ رسائل اور کتب بھی نایاب یا کمیاب ہوتی جارہی ہیں۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کی جانب سنجیدگی کے ساتھ ان اداروں اور افراد کو توجہ دینی چاہئے جو علم وتحقیق سے دلچسپی رکھتے ہیں اور بالخصوص جو ادارے شاہ ولی اللہ ؒ کے علوم و افکار کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ شاہ صاحب ؒکی جو کتابیں اور رسائل طبع ہوکر عام ہوئے اور علمی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لئے گئے ، ان کی تعداد بھی نصف صد کے قریب پہنچتی ہے۔

شاہ صاحب ؒ کی یہ تصنیفات مختلف اور متنوع موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں ، جن میں علوم القرآن ، علوم الحدیث، فقہ و اسرار شریعت ، تاریخ و سیرت ، تصوف ، معاشرت اور سیاسیات ومعاشیات شامل ہیں۔ ان میں آپ کی زیادہ متداول تحریروں اور کتب و رسائل کا تعلق علوم القرآن ، علوم حدیث ، علوم فقہ اور علوم تصوف سے ہے۔

زیر نظر سطور میں ہمارے زیر گفتگو شاہ صاحب ؒ کی وہ تصنیفات اور رسائل اور آپ کی وہ آراء وافکار ہیں جو فقہی مباحث سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ فقہی مباحث کے ساتھ دور ونزدیک کسی طور پر تعلق رکھنے والی آپ کی تحریریں اور آراء و افکار آپ کی کن تصنیفات میں موجود ہیں تو درج ذیل کتابوں اور رسائل کا نام لیا جاسکے گا۔

۱-  عقد الجید فی احکام الاجتہاد و التقلید        

۲-   الانصاف فی بیان سبب الاختلاف

۳-  حجۃ اللہ البالغہ

۴-   فیوض الحرمین

۵-  المسوی من الموطا 

۶-   المصفی شرح موطا

۷-  التفہیمات الالہیہ

مذکورہ بالا کتابیں شاہ صاحب ؒ کی وہ تصنیفات ہیں جن میں آپ کی فقہی آراء کم و بیش پائی جاتی ہیں۔لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ شاہ صاحب ؒ کی فقہی تصنیفات کون کون سی ہیںتو فقہی احکام ومسائل کے معروف معنی میں ان میں سے کسی کتاب کو فقہی کہنا مشکل ہوگا۔خالص فقہی ابواب اور اس کے معروف احکام ومسائل کی بحث پر آپ نے کوئی کتاب تصنیف نہیں فرمائی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب شاہ صاحب ؒ کو دیگر علوم و افکار کے ساتھ فقہی مباحث میں بھی تجدید اور اجتہاد کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ تو پھرآپ کی کوئی تصنیف خالص فقہی موضوع پر کیوں نہیں ہے؟ اس کا جواب پانے کے لئے ہمیں اس عہد پر ایک نظر ڈالنی ہوگی جس میں شاہ صاحب ؒ نے زندگی گذاری۔

 شاہ صاحب ؒکا عہد در اصل فقہی موشگافیوں اور مناظروں کا زمانہ تھا۔ جس کے نتیجہ میں فقہی تعصب وتصلب اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا تھا۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں قرآن و حدیث سے رشتہ بہت کمزور ہوچکا تھا۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اس دور کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے:

’’فقہ و فتاوی کی لفظی پرستش ہر مفتی کے پیش نظر تھی ۔ مسائل فقہ میں تحقیق و تدقیق مذہب کا سب سے بڑا جرم تھا ۔ عوام تو عوام خواص تک قرآن پاک کے معانی و مطالب اور احادیث کے احکامات و ارشادات اور فقہ کے اسرار سے بے خبر تھے‘‘۔ (۱)

اور مولانا مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے کہ :’’جزئیاتی فقہاء کی گرفت زیادہ تھی ‘‘ (۲) بلکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ نے اس دور کی حالت یوں ذکر فرمائی ہے:

’’اس زمانہ میں فقیہ اس شخص کا نام ہے جو باتونی ہو ، زور زور سے ایک جبڑے کو دوسرے  جبڑے پر پٹکتا ہو، جوفقہاء کے اقوال قوی ہو ں یا ضعیف، سب کو یاد کرکے بغیر کسی امتیاز کے اپنی زبان درازی سے بیان کرتا چلا جاتا ہے ‘‘ ۔  (۳)

ایسے دور میں فقہ کے مروجہ مسائل و احکام پر روایتی طرز کی کوئی کتاب تصنیف کرنا نہ ہی وقت کی ضرورت تھی اور نہ اس عظیم مشن و منصب کے شایاں جس کے لئے خود شاہ صاحب ؒ منجانب اللہ اپنے آپ کو مامور سمجھ رہے تھے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒنہ صرف بذات خود مجتہدانہ اور محققانہ ذوق و مزاج رکھتے تھے، بلکہ آپ کو والد محترم کی جانب سے بھی ایسا ہی ماحول ملا تھا۔آپ کے والد حضرت شاہ عبد الرحیم ؒ ممتاز علماء احناف میں سے تھے ، اور مغل فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر کی زیر نگرانی تیار ہونے والی عظیم الشان کتاب ’فتاوی عالمگیری‘کے مرتبین میں شامل تھے ،ان کے محققانہ مزاج کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ’انفاس العارفین ‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت محترم اکثر امور میں مذہب حنفی کے مطابق ہی عمل کرتے تھے ، ہاں بعض چیزیں جن میں حدیث یا وجدان کی رو سے دوسرے مذاہب کے اقوال کو راجح سمجھتے ، ان میں دوسرے مذاہب واقوال پر عمل کرتے۔ ایسی چیزوں میں سے یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھتے اور نماز جنازہ میں بھی سورہ فاتحہ پڑھتے‘‘ ۔ (۴)

پھر حرمین شریفین میں قیام کے دوران شاہ صاحب ؒ نے حدیث نبوی سے خصوصی شغف رکھا۔ اور واپسی کے بعد یہاں علوم حدیث کی اشاعت آپ کے پیش نظر رہی ۔ ساتھ ہی لوگوں کو براہ راست کتاب الہی سے جوڑنا آپ کا نصب العین تھا۔ ان دونوں باتوں کے لئے آپ نے قرآن وحدیث کے درس و تدریس کے ساتھ ترجمہ قرآن اور شروح حدیث پر تصنیفی کام انجام دیا۔ چنانچہ قرآن کا فارسی ترجمہ’ فتح الرحمان ‘ ، اصول تفسیر پر ’الفوز الکبیر ‘ ، ’شرح تراجم ابواب بخاری ‘ اور موطا کی دو شروحات ’المسوی ‘ اور ’المصفی ‘ و غیرہ اسی غرض سے منظر عام پر آئیں۔

اس پس منظر میں شاہ صاحب کے علمی مقاصد میں ایک مقصد یہ تھا کہ فقہی تعصب کو ختم کیا جائے ، فقہی مسالک کے درمیان رواداری کی فضاء قائم کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فقہ وحدیث کے درمیان تطبیق کا کام انجام دیا جائے ۔ ا س مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنی جامع اور معتدل فقہی آراء ذکر فرمائی ہیں ۔ شاہ صاحب ؒ کی یہ آراء عموماً فقہی مسالک کے درمیان ہم آہنگی ، فقہ وحدیث کے درمیا ن تطبیق اور فقہی اختلاف میں اعتدال کی راہ کی نشاندہی سے متعلق ہیں۔یہی تین وہ مرکزی نکات ہیں جو شاہ صاحب کی تمام فقہی آراء و افکار اور تحریروں میں مختلف اسلوب و انداز اور مختلف سیاق میں بکھرے ہیں ۔

اس تفصیل کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ شاہ صاحبؒ کی تصنیفات میں مروجہ مفہوم کے اندر کوئی فقہی تصنیف کیوں موجود نہیں ہے۔اور جب ہم شاہ صاحبؒ کی فقہی تصنیفات کا عنوان قائم کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد شاہ صاحب ؒ کی  فقہی آراء اور ان پر مشتمل تحریریں ہوتی ہیں۔

مذکورہ تناظر کی فقہی آراء پر مشتمل شاہ صاحب ؒ کی ان تحریروں او ر تصنیفات پر ایک نظر ڈالی جائے جن کے نام گذشتہ سطور میں لئے گئے ہیں ، تو ان میں سے بھی صرف دو کتابیں بلکہ رسالے ہی ایسے کہے جا سکتے ہیں جو باضابطہ فقہی مباحث کے ساتھ مخصوص ہیں۔اور یہ دونوں ہیں: ’عقد الجید فی احکام الاجتہاد و التقلید‘ اور ’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ‘ ۔ ان دونوں پر گفتگو ہم آگے کریں گے۔

 ان دو کے علاوہ دیگر جن کتابوں کے نام لئے گئے ہیں ، پہلے ان پر اور ان میں موجود افکار شاہ ؒ پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ ان تصنیفات میں تیسرے نمبر پر ’حجۃ اللہ البالغہ ‘ کا نام آتا ہے ۔ حجۃ اللہ البالغہ شاہ صاحب ؒ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے ۔ اس کے تعارف میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ کا یہ بلیغ جملہ نقل کردینا کا فی ہوگا کہ :’’ شاہ صاحب ؒ کی یہ مایہ نازتصنیف رسول اللہ ا کے ان معجزات میں سے ہے جو آپ ا کی وفات کے بعد آپ کے امتیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور جن سے اپنے وقت میں رسول اللہا  کا اعجاز نمایاں اور اللہ کی حجت تمام ہوئی ‘‘۔

اس کتاب کے جو حصے ہمارے زیر بحث موضوع سے متعلق ہیں ، ان میں سب سے پہلے کتاب کے جزء اول کا ساتواں مبحث ہے ۔ اس کا عنوان ہے ’مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی ا‘۔ ا س مبحث میںشاہ صاحب ؒ نے رسول اللہ ا سے اخذ شریعت کے طریقوں ، مختلف احادیث میں تطبیق ، کتب حدیث کے مراتب اور حدیث نبوی سے استنباط احکام کے طریقوں پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے ۔ اس بحث کے بعد تتمہ کے عنوان سے ایک قدرے مفصل باب کے تحت وہ مباحث آتے ہیں جو معمولی فرق کے ساتھ علاحدہ رسالہ کی شکل میں ’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ‘ کے عنوان سے بھی مطبوعہ ملتے ہیں۔ اس باب میں فقہی اختلاف کی حقیقت و حیثیت ، اختلاف کے علمی اور فطری اسباب ، اس کے تاریخی تناظر اور فقہی اختلاف کے باب میں ائمہ مجتہدین کی روادارانہ روش پر بڑی معتدل اور محققانہ گفتگو کی گئی ہے ۔ اس ضمن میں شاہ صاحب ؒ نے صحابہ کرام ، تابعین اور مجتہدین کی حیات سے فقہی اختلاف میں رواداری کی مثالیں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ : ’’ اسی وجہ سے علماء ہمیشہ اجتہادی مسائل میں مفتیوں کے فتاوی کو جائز قرار دیتے تھے اور وہ قاضیوں کے فیصلوں کو صحیح تسلیم کرتے تھے اور بسا اوقات وہ اپنے مذہب کے خلاف بھی عمل کرتے تھے‘‘۔ حجۃ اللہ البالغہ کے دوسرے جزء میں فقہی ابواب کی ترتیب سے احادیث کی شرح و تفصیل کی گئی ہے ۔ یہ حصہ گو کہ شرح احادیث ہے لیکن بیان اسرار شریعت کے ضمن میں فقہی استنباط اور آراء کے ذکرکی وجہ سے یہ بھی زیر بحث موضوع کے تحت آجاتا ہے۔

شاہ صاحب ؒ کے فقہی افکار و آراء پر مشتمل تصنیفات میں چوتھے نمبر پر ’فیوض الحرمین‘ ہے۔ فیوض الحرمین جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، شاہ صاحب ؒ نے حرمین شریفین میں اپنے سواسالہ (چودہ مہینے ) قیام کے دوران جو فیوض و فوائد حاصل کئے ، اور رسول اللہ اسے روحانی استفادہ میں جو کچھ حاصل فرمایا ، انھیں اس رسالہ میں تحریر فرمایا ہے۔ اس میں کل47 مکاشفات ہیں جنھیں ’مشاہد‘کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے ، جن میں صرف چار ؍پانچ مکاشفات کا تعلق فقہی بحث سے ہے ۔ ان میں ایک مکاشفہ فقہی مسالک کے مقام و مرتبہ سے متعلق ہے جس میں آپ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ا کے نزدیک سارے فقہی مسالک برابر درجہ رکھتے ہیں،اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ایک دوسرے مکاشفہ میں آپ اپنے بارے میں یہ بتاتے ہیں آپ کو اس بات کی وصیت کی گئی ہے کہ مذاہب اربعہ کے پابند رہیں اور حتی الامکان ان کے درمیان تطبیق سے کام لیں۔ ان کے علاوہ دو اور مکاشفات ذکر کئے گئے ہیں جن میں شاہ صاحب ؒ کو ایک ایسے طریقہ اور منہج سے آگاہ کیا گیا ہے جس کے ذریعہ سنت اور فقہ حنفی میں تطبیق کی کیفیت واضح ہوتی ہے ۔ اور شاہ صاحب ؒ نے اس طریقہ انیقہ کو اکسیر اعظم اور کبریت احمر سے تعبیر کیا ہے۔

شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے موطا امام مالک کی شرح تصنیف فرمائی۔ اہل علم آگاہ ہیں کہ موطا کتاب حدیث بھی ہے اور کتاب فقہ بھی ۔ امام مالک نے اس میں تدوین احادیث کے ساتھ فقہی مسائل و آراء بھی درج فرمائے ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکے نزدیک کتب حدیث میں موطا امام مالک سب سے اونچے مقام پر فائز ہے ۔ حجۃ اللہ البالغہ میں کتب حدیث کے طبقات پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے طبقہ اولی کی کتابوں میں موطا امام مالک کو سر فہرست رکھا ہے ۔ شاہ صاحب ؒ نے اس کی دو شرحیں لکھیں ۔ ایک عربی زبان میں جس کا نام ’ المسوی من الموطا ‘ ہے۔ اور دوسری شرح فارسی زبان میں ’المصفی‘کے نام سے ہے۔ ان دونوں شروحات میں آپ نے فقہی مباحث پر محققانہ اور مجتہدانہ اسلوب میں گفتگو کی ہے۔اس میں آپ نے فقہ و حدیث کی تطبیق اور فقہی مسالک کے درمیان جمع وتطبیق کا وہ نمونہ پیش کیا ہے جو آپ کی مجتہدانہ کاوشوں کامقصود اور جامعیت و اعتدال کامطلوب تھا۔

ا س کے بعد آپ کی کتاب ’ التفہیمات الالٰہیہ ‘ سامنے آتی ہے ، جس میںموقع موقع سے فقہی نکات اٹھائے گئے ہیں ۔ کتاب میں علوم شریعت کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے مضامین بیان کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کا اہم حصہ وہ بھی ہے جس میں سماج کے مختلف طبقات میں پیدا ہونے والی خرابیوں او رعیوب و نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ اور ہر طبقہ کو مخاطب کرکے اسے اصلاح پر ابھارا گیا ہے۔

التفہیمات الالٰہیہ میں ایک موقع پر فقہی مسالک کے درمیان جمع اور حدیث کے ساتھ ان کی تطبیق پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں  :

’’علوم ملا اعلی کے موافق حق یہ ہے کہ دونوں مذاہب کو ایک مذہب کی طرح کردیا جائے۔ اس طور پر کہ دونوں مسالک کے فقہی مسائل کو ان ہی کی تدوین کردہ کتب حدیث پر پیش کیا جائے ، جو مسئلہ حدیث کے موافق ہو اسے باقی رکھا جائے ، اور جو حدیث کے مخالف ہو اسے ساقط کردیا جائے۔ متفقہ مسائل پر سختی سے عمل کیا جائے اور مختلف فیہ مسئلہ میں دو قول قرار دیا جائے اور دونوں پر عمل صحیح قرار پائے ۔  یا ہر دو قول کو اس طرح سمجھا جائے ،جیسے قرآن میں بعض الفاظ کی قراء ت دو طرح ہے ، یا ایک قول کو رخصت اور دوسرے قول کو عزیمت پر محمول کیاجائے ، یا یہ سمجھا جائے کہ کفارہ کے طریقوں کی طرح ایک عمل کی ادائیگی کے دو طریقے ہیں یا دونوں کو برابر درجہ کا مباح سمجھا جائے‘‘۔(۵)

اسی کتاب میں شاہ صاحب ؒ خود اپنے عمل کے بارے میںبتاتے ہوئے لکھتے ہیں  :

’’بقدر امکان جمع میکنم در مذاہب مشہورۃ مثلا صوم و صلوۃ و و ضو و غسل و حج بوضع واقع می شود کہ ہمہ اہل مذاہب صحیح دانند ، و عند تعذر الجمع باقوی مذاہب ازروئے دلیل و موافقت صریح حدیث می نمایم‘‘ ۔(۶)

(روزہ ، نماز ، و ضو ، غسل اور حج جیسے مسائل میں بقدر امکان مذاہب مشہورہ کے درمیان جمع کرتا ہوں، کیونکہ تمام اہل مذاہب صحیح ہیں۔ اور جب تطبیق دشوار ہوتی ہے تو از روئے دلیل اور صریح حدیث کے موافق جو قوی مذہب ہو اسے اختیار کرتا ہوں)۔

یہ شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی ان کتابوں اور تحریروں کا تذکرہ تھا جو مخصوص طور فقہی موضوع پر تصنیف نہیں کی گئی تھیں ۔ البتہ ان میں جا بجا آپ کی فقہی آراء اور افکار کے زریں موتی بکھرے ہیں۔ اب ہم شاہ صاحب ؒ کے ان دو رسالوں پر گفتگو کریں گے جو فقہی موضوع کے ساتھ خاص ہیں۔ ان میں ایک ہے ’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ‘ اور دوسرے ’ عقد الجید فی احکام الاجتہاد و التقلید ‘ ۔

الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، فقہی اختلاف کے اسباب  کے مرکزی موضوع پر ہے ۔ اور جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا ، اس رسالہ کا تقریبا پورا حصہ معمولی فرق و تبدیلی کے ساتھ حجۃ اللہ البالغہ جزء اول کے آخر میں بھی شامل ہے ۔علاحدہ سے مطبوعہ رسالہ کا اردو ترجمہ بھی متعدد بار شائع ہوچکا ہے ۔

فقہی اختلاف کا موضوع بڑا اہم اور خالص علمی ہے ۔ یہ نازک موضوع بھی ہے اور عملی زندگی سے گہر ا ربط رکھنے والا بھی۔اس موضوع پر متعدد اہل علم کی وقیع تحریریں شائع ہوچکی ہیں ۔ امام ابن تیمیہ کی ’رفع الملام عن الائمۃ الاعلام‘ ، عبد الوھاب شعرانی کی ’المیزان الکبری ‘، امام سیوطی کی ’جزیل المواھب فی اختلاف المذاہب‘ ، ابن رشد کی ’بدایۃ المجتہد‘ اور متعدد متقدمین اور متاخرین علماء نے فقہاء کے اختلاف آراء کو بیان کیا ہے ، اور فقہی اختلاف کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے ۔ معاصر مصنفین کی بھی کئی کتابیں اس موضوع پر آچکی ہیں جن میں شیخ محمد عوامہ اور ڈاکٹر وھبہ مصطفی زحیلی کے نام یہاں لئے جاسکتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کا رسالہ الانصاف مختصر لیکن ٹھوس علمی ہے ۔ اس میں آپ نے جہاں فقہی اختلاف کی ابتدائی تاریخ بیان کی ہے۔ وہیں صحابہ ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کے درمیان فقہی اختلاف کی علمی بنیادوں کو بھی علمیت اور معقولیت کے پیرایہ میں نمایاں کیا ہے ۔

شاہ صاحب ؒ کی نظر میں اس اختلاف کے چھ اسباب تھے ۔ پہلا سبب حدیث سے عدم واقفیت ہے ، یعنی کبھی حدیث نہ معلوم ہونے کی صورت میں اجتہاد سے فتوی دیا جاتا اور بعد میں اسی مسئلہ پر کسی حدیث نبوی کا علم ہوتا جس سے کبھی تو اجتہادی رائے کی تائید ہوجاتی تھی، اور کبھی حدیث نبوی میں حکم اس رائے کے برعکس ملتا تو ایسی صورت میں اس رائے سے رجوع کرلیا جاتا تھا۔ دوسرا سبب حضور ا کے ایک عمل سے حکم کے استنباط میں فرق ہے۔  جیسے دوران حج مقام ابطح میں حضور ا کے قیام کو حضرت عائشہ ؓو حضرت ابن عباس ؓنے محض اتفاقی امر سمجھا ۔ جبکہ حضرت ابوہریرہؓ وحضرت ابن عمرؓ نے اسے قربت پر محمول کرکے حج کی سنت قرار دیا۔ تیسرا سبب سہو اور بھول ہے۔ جیسے کوئی صحابی حضورا کے کسی عمل کو بھول گئے ، دوسرے صحابی نے انھیں یاد دلایا ۔ چوتھا سبب حدیث کے ضبط و فہم میں اختلاف ہے۔ جیسے حضرت عائشہ ؓبتاتی ہے ہیں کہ ایک بار حضور ا ایک یہودی عورت کی قبر کے پاس سے گذرے جس کے گھر والے رو رہے تھے ، تو آپ ا نے فرمایا کہ عورت کو قبر میں عذاب ہورہا ہے اور یہ لوگ رورہے ہیں ، لیکن حضرت ابن عمر ؓ اس کو صحیح طریقہ سے ضبط نہ کرسکے اور یہ سمجھا کہ گھر والوں کے رونے سے میت کو عذاب قبر ہوتا ہے۔پانچویں وجہ شاہ صاحب ؒ نے یہ بتائی کہ کبھی حکم کی علت متعین کرنے میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا ۔ جیسے ایک جنازہ گذرتے دیکھ کر آپ ا کھڑے ہوگئے تو کسی نے اس کھڑے ہونے کی وجہ ملائکہ کی تعظیم سمجھی ۔ کسی نے موت کی ہولناکی وجہ سمجھی اور کسی نے کافر و مومن دونوں جنازہ کیلئے اس حکم کو عام قرار دیا۔چھٹی وجہ مختلف احادیث میں تطبیق ہے کہ حدیث کے اندر ایک عمل کے بارے میں دو متضاد حکم کا ذکر ہے۔ ایسے موقع پر کسی نے دونوں میں تطبیق کی راہ نکالتے ہوئے دونوں حکموں کو الگ الگ موقعوں کے لئے قرار دیا ، کسی نے تطبیق کی دوسری شکل نکالی اور کسی نے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی۔

اسباب اختلاف کو شمار کرانے کے ساتھ شاہ صاحب ؒ نے فقہی اختلاف کی حیثیت اور مقام ومرتبہ کو بھی واضح کیا ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ بیشتر مسائل میں اختلاف کی نوعیت صرف یہ ہے کہ دو طریقوں میں سے افضل کون ہے ۔ اس کے ساتھ شاہ صاحب ؒ نے اس راہ اعتدال کی بھی نشاندہی کی ہے جو علمائے محققین اور فقہائے محدثین کی روش رہی ہے اور جس کو عملی زندگی میں اختیار کیا جانا چاہئے۔(۷)

شاہ ولی اللہ کادوسرا رسالہ ’ عقد الجید فی احکام الاجتہاد و التقلید‘ ہے ۔ یہ رسالہ خصوصیت کے ساتھ اجتہاد و تقلید کے موضوع سے بحث کرتا ہے۔ اجتہاد اور تقلید کا موصوع فقہی مباحث میں ایک معرکۃ الآراء عنوان رہا ہے ۔ اس میں مختلف ادوار کے اندر افراط و تفریط دیکھی گئی ہے اور آج بھی اس حوالے سے لوگوں میں موجود بے اعتدالیاں اس موضوع کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہیں ۔ شاہ ولی اللہ کا زمانہ دوسرے امور کے ساتھ ساتھ اجتہاد و تقلید کے حوالہ سے بھی معتدل رہنمائی کامحتاج تھا۔ چنانچہ آپ نے اس موضوع پر قلم اٹھا یا اور ’بقامت کہتر و بہ قیمت بہتر‘  رسالہ تیار فرمایا۔

یہ رسالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ شروع کے دو ابواب میں اجتہاد کی حقیقت اور شرائط اجتہاد اور مجتہدین کے اختلاف کے اسباب اور اختلاف آراء کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد کے دو ابواب تقلید سے متعلق ہیں ۔ تیسرے باب میں مسالک اربعہ کی تقلید کے جواز اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے ۔ اور چوتھے باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسالک اربعہ کی تقلید کے حوالے سے لوگوں کے کیا درجات اور کتنی قسمیںبنتی ہیں؟ کس شخص پر کس درجہ میں اجتہاد ضروری ہے اورتقلید کن لوگوں کے لئے جائز اور کس موقع پر ضروری ہے۔ آخری باب میں ، جس کا شاہ صاحب ؒ نے کوئی عنوان نہیں دیا ہے، تقلید میں میانہ روی ، فتوی کے اصول اور اختلافی آراء میں مقلدین کے طرز عمل و غیرہ پر رہنمائی دی گئی ہے۔

شاہ صاحب ؒ کا یہ رسالہ اپنے اختصار کے باوجود بڑا معرکۃ الآراء ہے ۔ اس میں نہ صرف اعتدال اور توازن ہے۔ بلکہ اجتہاد اور تقلید دونوں کی صحیح شرعی حیثیت واضح کرتے ہوئے عملی زندگی میں دونوں کے کردار کی حد بندی کی گئی ہے۔ شاہ صاحب ؒنے شرعی علوم اور علمی اہلیت کے حوالہ سے لوگوں کے مراتب اور درجات کو نمایاں کیا ہے۔ اور یہ واضح فرمایا ہے کہ کس درجہ کی اہلیت والے شخص کے لئے کس درجہ کا اجتہاد مطلوب ہے۔ اور کس سطح پر عامی شخص کے لئے کس قسم کی تقلید صحیح ہے۔

اجتہاد اور تقلید کے تعلق سے شاہ صاحب ؒ کی معتدل آراء کی چند جھلکیاں آپ بھی دیکھئے:

شاہ صاحب ؒ کی رائے ہے کہ :

 اجتہاد ہر زمانہ میں فرض کفایہ ہے ۔ آپ کی وضاحت ہے کہ ہر زمانہ میں مجتہد مستقل کی موجودگی ضروری نہیں ہے، بلکہ کم ازکم مجتہد منتسب کا ہونا ضروری ہے ۔ اور مجتہد منتسب وہ شخص ہے جو حدیث اور اپنے اصحاب کی فقہ دونوں کا جامع ہو۔ شاہ صاحب ؒ کی رائے ہے کہ تجزی اجتہاد بھی درست ہے۔ یعنی کوئی شخص ایک موضوع میں اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو اور دوسرے موضوع پر نہ رکھتا ہو ۔ آپ یہ وضاحت کرتے ہیں کہ جس شخص کے اندر کسی ایک مسئلہ کے اندر بھی اجتہاد کی صلاحیت ہو اس پر ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں اجتہاد سے کام لے ۔ شاہ صاحب ؒ کے نزدیک تقلید کامفہوم یہ ہے کہ کسی عالم راشد کی اتباع اس جذبہ و اعتقاد کے ساتھ کی جائے کہ ا س میں دراصل رسول اللہ ا کی اتباع ہے ۔ شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ جو شخص خود یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ کسی مسئلہ میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم جان سکے وہ کسی قابل اعتماد عالم سے پوچھ لیتا ہے کہ اس مسئلہ میں اللہ اور اس کے رسول کاکیا حکم ہے۔یہ تقلید جائز ہے اور یہ افتاء و استفتاء نبی کریم ا کے عہد سے مسلمانوں کے درمیان چلا آرہا ہے۔

شاہ صاحب ؒ کاکہنا ہے کہ جو شخص کسی معین فقیہ کی تقلیداس اعتقاد کے ساتھ کرے کہ اس فقیہ سے خطا ممکن نہیں ہے ۔  اور اس کے خلاف دلیل ظاہر ہوجائے تب بھی وہ اس فقیہ کا قول ترک نہیں کرے گا۔ اسی طرح کوئی شخص رسول اللہ ا کا صریح حکم سامنے آجانے کے بعد بھی حدیث کے خلاف عمل کرے ۔ اور ایسے ہی کوئی شخص اس بات کو جائز نہ سمجھے کہ مثلا ایک حنفی کسی شافعی سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کر سکتا ہے ۔ یا ایک شافعی کسی حنفی سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرسکتا ہے۔تو یہ تین قسم کے عمل حرام تقلید ہیں۔ شاہ صاحب ؒ کا صراحت کے ساتھ کہنا ہے کہ عوام الناس کو خواہش پرستی اور اتباع نفس سے بچانے کے لئے مذاہب اربعہ کی تقلید کا پابند رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ اور تقلید ترک کرنا ان کے لئے بہت بڑے مفسدہ کا سبب ہے۔ اور اس پر پوری امت یا امت کے قابل ذکر لوگوں کا آج تک اتفاق ہے ۔ شاہ صاحب ؒ کی رائے ہے کہ عامی شخص کا کوئی مسلک نہیں ہوتا۔ اس کا مسلک صرف مفتی کا فتوی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ کی یہ بھی رائے ہے کہ ایک مسلک کی تقلید کرنے والا بعض شرائط کے ساتھ دوسرے مسلک کی تقلید کرسکتا ہے۔(8)

مذکورہ بالا سطور میں شاہ صاحبؒ کی فقہی تصنیفات اور ان کے اندر موجود شاہ صاحب ؒ کی فقہی آراء کا ایک تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب ؒ کی فقہی تصنیفات کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ یہ بات بجاطور پر کہی جاسکتی ہے کہ شاہ صاحب ؒ نے فقہی اختلاف ، فقہی مسالک اور اجتہاد و تقلید کے باب میں جو نقطہ نظر پیش کیا ہے وہ نہ صرف گہرے مطالعہ کا نچوڑ ہے، اور اسلام کا حقیقی مطلوب ہے ۔ بلکہ حقیقت کی زندگی میں وہی صحیح معنوں میں ایسا قابل عمل ہے ، جس سے اسلام کی خوبصورت اور داعیانہ تصویر نمایاں ہوتی ہے۔

 شاہ صاحب ؒ کی آراء ہماری علمی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ او رشدید ضرورت ہے کہ مسلکی گروہ بندیوں سے بالا ہوکر انھیں اسی طرح اپنائیں اورعام کریں ، جس طرح خود شاہ صاحب ؒ کی شخصیت کو سب نے اپنا یا ہے۔

حوالے جات:

۱۔       ندوی ، سید سلیمان : مقالات سلیمانی ، صفحہ44، دارالمصنفین اعظم گڑھ۔

۲۔      گیلانی ، مناظر احسن ،مقالہ مشمولہ رسالہ الفرقان ، شاہ ولی اللہ نمبر، صفحہ 291، لکھنؤ

۳۔      دہلوی ، شاہ ولی اللہ، الانصاف فی بیان سبب الاختلاف صفحہ 29۔

۴۔      دہلوی ، شاہ ولی اللہ ، انفاس العارفین ، بحوالہ اسعدی ، عبیداللہ ، فقہ ولی اللہی ، صفحہ116، مظفر نگر۔

۵۔      ایضا،التفہیمات الالٰہیہ،1؍211، مطبوعہ مجلس علمی ، ڈابھیل 1355ھ۔

۶۔      ایضا،التفہیمات الالٰہیہ،2؍202، مطبوعہ مجلس علمی ، ڈابھیل 1355ھ۔

۷۔      ایضا،حجۃ اللہ البالغہ1؍159، مطبوعہ مکتبہ دار التراث ، مصر

۸۔             ایضا،عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت، 2015

Tags

Share this post: