صحیح مسلم : چندنمایاں خصوصیات

صحیح مسلم : چندنمایاں خصوصیات
                                                                                                           مولاناسیدبلال عبدالحی حسنی ندوی
                                                                                                        (ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
 ولادت اور نام و نسب
محدثین کے سرخیل ، جلیل القدر حافظ حدیث ، حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں دوسری کتاب کے مصنف امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ مقبول ترین افراد امت میں بھی ممتاز مقام کے حامل ہیں ، کنیت ابوالحسین اور لقب عساکر الدین ہے، قبیلہ قشیر کی طرف نسبت ولاء حاصل ہے، غالباً امام موصوف کے پر دادا اور دبن کو شاذ قبیلہ قشیر کے کسی مخلص وبا توفیق فرد کے ہاتھ پر ایمان لائے اسی لیے ’’قشیری“ کہلائے ، یہ اسلام ہی کا نشان امتیاز ہے کہ ایک عجم کا رہنے والا خالص عربی النسل خاندان کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا ہے تو اسی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور یہ بھی اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے عجمی خاندان میں پیدا ہونے والے ایک فرد کو امامت کے اس مقام تک پہنچا دیا کہ بڑے بڑے ائمہ اس کی علمی عظمت و شان کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہیں۔
204ھ میں خراسان کے مشہور شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے، خراسان کی سرزمین سے علم حدیث کے دو ایسے آفتاب و ماہتاب طلوع ہوئے جن کی ضوفشانی سے قیامت تک ساری دنیا روشنی حاصل کرتی رہے گی، ایک امام بخاری ، دوسرے امام مسلم۔
تحصیل علم اور اس کے لیے اسفار
نیشا پور خراسان کا وہ مشہور شہر ہے جس کو علامہ یا قوت حموی نے "معدن الفضلاء ومنبع العلماء” جیسے القاب سے یاد کیا ہے اور یہ لکھا ہے :
 قد خرج منها من أئمة العلم من لا يحصى ۔ (۱)
(وہاں سے بے شمار ائمہ علم نکلے)
علامہ تاج الدین سبکی تحریر فرماتے ہیں:
 "قد كانت نيشابور من أجل البلاد وأعظمها لم يكن بعد بغداد مثلها (۲)
 ( نیشا پور سب سے عظیم اور بڑا شہر تھا، بغداد کے بعد اس کی نظیر نہ تھی )
امام مسلم نے آنکھیں کھولیں تو نیشا پور مرکز علم بنا ہوا تھا، امام اسحاق بن راہویہ، امام یحیی بن یحیی تمیمی اور امام ذہبی جیسے اساطین علم مسند درس کے لیے باعث زینت تھے، امام مسلم نے ان حضرات سے کسب فیض کیا ، ۲۲۰ ھ میں امام موصوف نے حج کا سفر کیا، اور اس سے ان کی رحلت علمیہ کا آغاز ہوتا ہے، مکہ مکرمہ میں انہوں نے امام قعنبی سے استفادہ کیا، اور دوسرے حضرات سے بھی حدیثیں سنیں پھر کوفہ تشریف لائے، شیخ احمد بن یونس اور ایک جماعت مشائخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، پھر وطن تشریف لائے اور وہاں کے کبار ائمہ سے تکمیل کی، پھر ۲۳۰ ھ سے پہلے پہلے دوبارہ اسفار شروع کئے اور حجاز ، عراق، شام، مصر اور دوسرے ملکوں اور شہروں کے اساتذہ حدیث سے استفادہ کیا، ان کے مشائخ میں امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین ، امام ابو حاتم رازی، ابوبکر بن ابی شیبہ، قتیبہ بن سعید بلخی، محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابو مصعب زہری سرفہرست ہیں، مشائخ کی تعداد دوسو سے متجاوز ہے۔
امام بخاری سے استفادہ
ا مام مسلم کے اساتذہ میں امام بخاری کا نام نامی بھی شامل ہے، جب امام بخاری نیشاپور تشریف لائے تو امام مسلم نے ان سے بھر پور استفادہ کیا اور مستقل ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، جب امام ذہلی کا امام بخاری سے ایک مسئلہ میں اختلاف ہوا تو امام مسلم نے امام بخاری کا ساتھ دیا، اسی مسئلہ کی وجہ سے امام بخاری کو نیشا پور چھوڑنا پڑا، امام مسلم امام ذہلی سے بھی استفادہ کرتے رہے، یہاں تک ایک دن امام ذہلی نے مجلس درس میں اعلان کر دیا کہ جو تلفظ بالقرآن کو مخلوق سمجھنے میں بخاری کی رائے رکھتا ہو وہ ہم سے روایات نہ کرے، امام مسلم اسی وقت اٹھے اپنی چادر سر پہ رکھی اور چل دیئے ، جتنی روایتیں اب تک انہوں نے امام ذہلی کی لکھی تھیں جا کر وہ سب خزانہ ایک اونٹ پر لاد کر امام ذہلی کو واپس کر دیا۔ (۳)
 امام ذہبی و دیگر مصنفین نے یہ واقعہ اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔
امام بخاری سے ان کے تعلق کا حال یہ تھا کہ ایک مرتبہ امام مسلم، امام بخاری کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا کہ اے استاذ الاساتذہ ، سید المحدثین علل حدیث کے طبیب ! اجازت دیجیے کہ میں آپ کی قدم بوسی کا شرف حاصل کروں ، حافظ خطیب بغدادی نے اپنی سند سے یہ واقعہ نقل کیا ہے ۔ (۴)
امام بخاری سے امام مسلم نے اصول حدیث کے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
تجارت
امام مسلم نے اپنی علمی مشغولیت کے ساتھ تجارت بھی کی، نیشاپور کے ایک  محلہ خان محمش میں ان کا کاروبار تھا اور اس میں انہوں نے ترقی بھی کی ، ابن العماد حنبلی نے لکھا ہے:
 وله الأملاك وثروة (۵)
( وہ صاحب جائداد و صاحب مال تھے )
علم میں انہماک
 علم میں انہماک کا حال یہ تھا کہ مطالعہ اور تصنیف کے وقت عام طور پر پوری طرح یکسوئی اختیار فرما لیتے ، اس دوران لوگوں سے ملنا پسند نہ تھا، اس کا نتیجہ تھا کہ لاکھوں حدیثیں نوک زبان تھیں، ایک مرتبہ امام صاحب کے لیے مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی ، ایک حدیث کا ذکر آیا جو امام صاحب کے علم میں نہیں تھی ، اپنے گھر تشریف لے گئے، رات کا وقت تھا چراغ جلایا اور فرمایا اب کوئی یہاں نہ آئے، لوگوں نے عرض کیا کھجور کی یہ ٹوکری ہدیہ میں آئی ہے، فرمایا : اندر رکھ دو، بس رات بھر حدیث کی تفتیش میں لگے رہے اور انہماک کا حال یہ تھا کہ ایک ایک کھجور کھاتے رہے اور یہ اندازہ ہی نہ کر سکے کہ کتنی کھجوریں کھالیں ، صبح ہوئی تو حدیث مل چکی تھی اور ساتھ ساتھ کھجوریں بھی ختم ہو گئی تھیں، حاکم نیشا پور نے اسی واقعہ کو امام کی وفات کا سبب قرار دیا ہے۔ (۶)
وفات
آپ کی وفات ۲۵ رجب المرجب 261 ھ یکشنبہ کے دن ہوئی، دوشنبہ کے روز نیشاپور کے باہر نصر آباد میں تدفین ہوئی۔ (۷)
ائمہ کا خراج تحسین
ائمہ متقدمین نے امام موصوف کی علمی قدر و منزلت کا اعتراف کیا ہے ، خودان کے معاصر ائمہ اور مشائخ نے بلند الفاظ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔
امام ابو زرعہ رازی (٢٦٤ھ) اور امام ابو حاتم رازی (۲۷۷ھ) جن میں اول الذکر امام صاحب کے مشائخ میں سے ہیں اور ثانی الذکر امام بخاری کے طبقہ کے شیخ ہیں، دونوں حضرات امام مسلم کو صحیح حدیث کے علم میں دوسرے معاصر مشائخ پر فوقیت دیتے تھے۔ (۸)
امام اسحاق بن راہویہ (۲۳۸ھ) جو اپنے زمانے کے بڑے امام ہیں، امام احمد بن حنبل نے بھی ان سے روایات نقل کی ہیں، امام مسلم کے کبار مشائخ میں سے ہیں، انہوں نے امام صاحب کے بارے میں فرمایا تھا: ان جیسا کون ہوگا۔ (۹)
حافظ مسلمہ بن قاسم(۳۵۳ھ)تاریخ کبیر میں فرماتے ہیں:
 مسلم جلیل القدر ثقة من أئمة المحدثين۔(۱۰)
 ( مسلم بلند مرتبہ ہیں، ثقہ ہیں، ائمہ محدثین میں سے ہیں)
امام ابو عبد اللہ حاکم نیشاپور (٤٠٥ھ) کے والد نے امام مسلم کی زیارت کی تھی،وہ فرماتے تھے کہ میں نے امام صاحب کو خان محمش میں حدیث بیان کرتے سنا ہے (۱۱) خود امام حاکم نیشاپوری فرماتے تھے اہل حجاز ، اہل عراق ، اہل شام سب کے سب علم حدیث میں اہل خراسان کے امتیاز کو تسلیم کرتے ہیں، امام بخاری ، امام مسلم کے اس فن میں تفوق اور ان کے منفرد مقام کی وجہ سے ( ۱۲)
محمد بن بشار جو خود امام موصوف کے مشائخ میں سے ہیں فرماتے تھے:
 حفاظ الدنيا أربعة أبو زرعة بالرى ومسلم بنيشابور وعبدالله الدارمي بسمرقند و محمد بن اسماعیل ببخاری۔(۱۳)
 حفاظ حدیث دنیا میں چار ہیں، ری میں ابوزرعہ، نیشا پور میں مسلم، سمرقند میں دارمی اور بخارا میں محمد بن اسماعیل بخاری(۱۴)اللہ تعالیٰ نے امام صاحب کو وجاہت ظاہری بھی عطافرمائی تھی ، حاکم نیشاپوری، ابو عبد الرحمن سلمی سے نقل کرتے ہیں، وہ لکھتے تھے :
میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو صاحب جمال بھی تھے اور لباس بھی ان کا بہتر تھا، ایک اچھی چادر ان پر پڑی ہوئی تھی اور عمامہ کا کنارہ وہ دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈالے ہوئے تھے، بتایا گیا کہ یہ مسلم ہیں، اسی اثنا میں حکومت کے اہل کار پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ امام مسلم امامت فرمائیں گے لوگوں نے ان کو آگے بڑھایا انہوں نے تکبیر کہی اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ (۱۵)
صحیح مسلم کے شارح قاضی عیاض” (٥٤٤ ھ) شرح کے مقدمہ میں امام صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں:
أحد أئمة المسلمين وحفاظ الحديث ومتقن المصنفين، أثنى عليه غير واحد من الأئمة المتقدمين و أجمعوا علی امامته وتقديمه وصحة حديثه وثقته وقبول كتابه۔(۱۶)
ائمہ مسلمین حفاظ حدیث اور پختہ کار مصنفین میں سے ایک ہیں ، ائمہ متقدمین میں سے متعدد نے ان کے لیے کلمات تحسین فرماتے ہیں ، ان کی امامت، تفوق، ان کی حدیثوں کی صحت اور ان کی ثقاہت اور کتاب کی قبولیت پر سب کا اتفاق ہے ( ۱۷)
امام صاحب کی عظمت کے لیے یہی کیا کم ہے کہ حدیث کی صحیح ترین دو کتابوں میں سے دوسری کتاب کے وہ مصنف اور جامع ہیں، دنیا کے خطہ خطہ میں یہ کتاب پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے، ہزاروں کتابیں اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں لکھی گئیں لیکن جو قبولیت امام بخاری کی صحیح اور امام مسلم کی صحیح کو حاصل ہوئی، کوئی کتاب اس قبولیت عام میں ان کے برابر نہیں۔
تصنیفات
امام مسلم نے صحیح کے علاوہ تاریخ الرجال، طبقات اور حدیث کے بعض دوسرے موضوعات پر متعدد کتا بیں تصنیف فرمائیں، جن کتابوں کا علم ہو سکا ذیل میں ان کی فہرست دی جا رہی ہے:
 (۱) کتاب تمييز الكنى والأسماء                       (۲) كتاب الطبقات
 (۳) كتاب الوحدان                                      (٤) كتاب العلل
(٥) كتاب شيوخ مالك وسفيان وشعبة                  (٦) كتاب رجال عروة بن زبير
 (۷) كتاب التمييز                                       (۸) كتاب الأفراد في ذكر جماعة من الصحابة والتابعين ليس لهم راو الا واحد من الثقات
(۹) أوهام المحدثين                          (۱۰) الجامع على الأبواب
(۱۱) المسند الكبير على الرجال                       (۱۲) كتاب الأقران
(۱۳) كتاب عمرو بن شعیب                           (١٤) كتاب سؤالات أحمد بن حنبل
(١٥) کتاب المخضرمين                               (١٦) كتاب أولاد الصحابة –
(۱۷) كتاب أفراد الشاميين                              (۱۸) کتاب الانتفاع بأهب السباع
یہ کتابیں دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں، کتاب التمييز ریاض سے چھپ چکی ہے، اور بہت سی کتابیں وہ ہیں جن کے صرف نام ملتے ہیں، دشمنان اسلام کی ظالمانہ کاروائیوں میں دنیائے علم کے جس خزانہ سے محروم ہوئی اس میں امام صاحب کی بھی متعدد کتابیں شامل ہیں لیکن جس کتاب نے امام صاحب کو زندہ جاوید کر دیا اور دنیائے اسلام میں ان کو شہرت و قبولیت بخشی وہ ان کی کتاب ”صحیح“ ہے۔
صحیح مسلم
امام مسلم نے تین لاکھ ان روایات سے اپنی کتاب کے لیے حدیثوں کا انتخاب کیا ہے جو انہوں نے براہ راست اپنے شیوخ سے لی تھیں (۱۸)، پھر انہوں نے صرف اپنی ذاتی رائے پر بس نہیں کیا بلکہ مزید احتیاط کے پیش نظر وہی حدیثیں نقل کیں جن کی صحت پر اور مشائخ وقت کا بھی اتفاق تھا۔ خود وہ فرماتے ہیں:
 ليس كل شئی عندى صحيح وضعته ههنا انما وضعت ههنا ما أجمعوا عليه (۱۹)
ہروہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح تھی اس کو میں نے یہاں درج نہیں کیا، میں نے تو یہاں صرف ان حدیثوں کو درج کیا ہے جن کی صحت پر مشائخ وقت کا اجماع ہے۔
مولانا عبد الرشید نعمانی تحریر فرماتے ہیں:
شیخ ابن الصلاح وغیرہ نے اجماع سے اجماع عام سمجھا ، اس لیے ان کو امام مسلم کے اس دعوے کی صحت کے متعلق سخت اشکال ہوا، لیکن امام مسلم کی مراد اجماع سے اجماع عام نہیں، بلکہ اس دور کے بعض خاص مشہور شیوخ وقت کا اجماع ہے، چنانچہ علامہ بلقینی نے اس سلسلہ میں امام احمد بن حنبل، یحیی بن معین، عثمان بن ابی شیبہ اور سعید بن منصور خراسانی ان چار ائمہ حدیث کے نام گنا کر لکھا ہے کہ امام مسلم کی مراد اجماع سے ان حضرات کا اجماع ہے ۔ (۲۰)
کتاب اگر چہ ابواب و موضوعات کے اعتبار سے نہایت مرتب ہے، لیکن امام صاحب نے شاید غایت درجہ احتیاط کی بنا پر احادیث صحیح کے درمیان کچھ بھی لکھنا گوارہ نہ کیا، پوری کتاب میں صرف صحیح احادیث ہیں، تراجم ابواب بعد میں محدثین نے قائم فرمائے ہیں، امام نووی فرماتے ہیں کہ اس لیے ان میں کہیں ناموزونیت نظر آتی ہے۔
امام ابو زرعہ رازی کی خدمت میں
امام ابو زرعہ علل حدیث اور فن جرح و تعدیل کے بڑے امام ہیں، امام بخاری کے ہمسر سمجھے جاتے ہیں ، امام مسلم کے مشائخ میں سے ہیں، کتاب مکمل کرکے اما مسلم نے اپنے شیخ کی خدمت میں پیش کی اور جن روایات کے بارے میں بھی امام ابو زرعہ کا کلام ہوا وہ کتاب سے خارج کر دی، اس طرح تنقیح در تنقیح کے بعد احادیث صحیحہ کا یہ منتخب مجموعہ تیار ہوا، جس کو آج دنیا ” صحیح مسلم کے نام سے جانتی ہے، یہ ابو زرعہ رازی و ہی بزرگ ہیں جن کے انتقال کا عجیب و غریب واقعہ رجال و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔
ابو جعفر تستری کہتے ہیں کہ ہم جاں کنی کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اس وقت علماء وائمہ کی ایک جماعت وہاں موجود تھی ، ان لوگوں کو تلقین میت کی حدیث کا خیال آیا کہ آنحضرت علی کا ارشاد مبارک ہے:
 "لقنو اموتاکم لا اله الا الله ” (۲۱)
(اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو)
 مگر کسی کو امام موصوف کو تلقین کی ہمت نہ ہوتی تھی، آخر سب نے سوچ کر یہ راہ نکالی کہ تلقین کی حدیث کا مذاکرہ کرنا چاہیے، چنانچہ محمد بن مسلم نے ابتدا کی :حدثنا الضحاك بن مخلد عن عبد الحميد بن جعفر (ہم سے ضحاک ابن مخلد نے،انہوں نے عبدالحمید بن جعفر سے روایت کی ہے ) اتنا کہہ کر وہ رک گئے بقیہ حضرات بھی خاموش ہو گئے ، اس پر امام ابو زرعہ نے اس جاں کنی کے عالم میں روایت بیان کرنی شروع کی:
 حدثنا بندار حدثنا أبو عاصم حدثنا عبد الحميد بن جعفر عن صالح عن كثير بن مرة الحضرمي عن معاذ بن جبل قال قال رسول الله لمن كان أخر كلامه لا اله الا الله۔
( مجھ سے بندار نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو عاصم نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبد الحمید بن جعفر نے بیان کیا ، وہ صالح سے اور وہ کثیر بن مرہ سے اور وہ حضرت معاذ بن جبل سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا: جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو )
 بس اس قدر کہہ سکے تھے کہ روح پرواز کر گئی ، اس کے آگے ہے، "دخل الجنۃ ( وہ جنت میں داخل ہو گیا )
 یہ جملہ ان کی زبان سے ادا نہ ہو سکا اور اس کی عملی شکل سامنے آگئی ۔ (۲۲)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
امام موصوف نے انتخاب حدیث کے لیے جو ترتیب قائم فرمائی تھی وہ دو طرح کے لوگوں کی روایات تھیں، ایک طبقہ اعلی درجہ کے لوگوں کا تھا، دوسرا طبقہ متوسطین کا تھا، اس سے بعض حضرات نے یہ سمجھ لیا کہ امام موصوف کا ارادہ دونوں طبقوں کی روایات کو الگ الگ جمع کرنے کا تھا اور وہ صرف پہلے ہی طبقہ کی روایات جمع کر سکے تھے اور ایک ہی کتاب مرتب ہو سکی تھی کہ ان کی وفات ہو گئی اور دوسرے طبقہ کے لوگوں کی روایات جمع کرنے کا ان کو موقع نہیں مل سکا، جب کہ امام صاحب موصوف کی عبارت سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انتخاب حدیث میں اولا انہوں نے طبقہ اولیٰ کی روایات لی ہیں، پھر اس کے ذیل میں طبقہ ثانیہ کی روایات بھی نقل کی ہیں، اس کے لیے مستقل کسی کتاب کی تصنیف کا ارادہ ان کا نہیں تھا۔
خود مصنف کی عبارت درج ذیل ہے، جو وہ اپنی کتاب کے مقدمہ کے آغاز میں تحریر فرماتے ہیں:
انا نعمد الى جملة ما أسند من الأخبار عن رسول الله ﷺ فنقسمها على ثلاثه أقسام وثلاث طبقات من الناس ………فأما القسم الأول فأما نتوخى أن نقدم الأخبار التي هي أسلم من العيوب من غيرها وأنقى من أن يكون ناقلوها أهل استقامة في الحديث واتقان لما نقلوا فاذا نحن تقصينا أخبار هذا الصنف من الناس أتبعناها أخباراً يقع في أسانيدها بعض من ليس بالموصوف بالحفظ والاتقان كالصنف المقدم قبله على أنهم وان كانوا فيما وصفنا دونهم كان اسم الستر والصدق وتعاطى العلم يشملهم فأما ما كان فيها عن قوم هم عند أهل الحديث متهمون أو عند الأكثر فيهم فلسنا نتشاغل بتخريج حديثهم (۲۳)
ہم نے آنحضرت ﷺ سے منقول روایت کا قصد کیا تو ہم نے ان کی تین قسمیں کیں اور لوگوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا، جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے تو ہم نے یہ چاہا کہ پہلے وہ حدیثیں پیش کریں جو دوسری حدیثوں کے مقابل عیوب سے محفوظ ہیں اور ہر طرح سے پاک ہیں اس طور پر کہ اس کے رواۃ جو بھی نقل کرتے ہیں وہ پوری طرح ٹھیک ٹھیک پختگی کے ساتھ نقل کرتے ہیں، جب ہم نے اس قسم کی روایتیں نقل کر لیں تو ذیل میں ہم نے وہ روایتیں نقل کیں جن کی سندوں میں بعض ایسے لوگ بھی آگئے ہیں جو حفظ واتقان میں پہلی قسم کے رواۃ کی طرح نہیں ہیں، ان سے کم مرتبہ ہیں، ہاں عدالت، صدق اور علم سے اشتغال کی صفت ان پر بھی صادق آتی ہے، ہمیں وہ روایتیں جن کے ناقلین تمام محدثین یا اکثر محدثین کے یہاں متہم ہیں تو ہم نے ان کی روایتیں نقل کرنے میں اپنا وقت صرف نہیں کیا )
امام مسلم کی اس وضاحت سے بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ انکا ارادہ الگ تصنیف کا نہیں تھا، انہوں نے اس کتاب میں دو طرح کے رواۃ کی روایات لی ہیں، ایک قسم اول کے رواۃ ہیں اور اکثر روایتیں ان ہی حضرات کی ہیں، دوسرے نمبر پر ان لوگوں کی روایات ہیں جو دوسرے طبقہ کے رواۃ ہیں لیکن ان کی روایات امام صاحب نے ضمنا درج کی ہیں۔
صحیح مسلم کے مشہور شارح قاضی عیاض نے بھی شرح کی تمہید میں اس کی پوری طرح وضاحت فرمادی ہے۔ (۲۴)
کتاب کی خصوصیات
امام مسلم نے پندرہ سال کی محنت شاقہ سے یہ کتاب تیار فرمائی، خود بھی ایک ایک حدیث کو جانچا پرکھا اور اپنے وقت کے امام ابو زرعہ رازی کی خدمت میں پیش کرکے جو کمی رہ گئی تھی وہ بھی دور کر دی، وہ خود اپنی تصنیف کے متعلق فرماتے ہیں:
 "ما وضعت شيئا في هذا المسند الا بحجة وما أسقطت منها شيئاً الا بحجة (۲۵)
 ( میں نے اس مسند میں جو بھی شامل کیا ہے وہ دلیل کے ساتھ کیا اور جو نہیں کیا وہ بھی دلیل کے ساتھ نہیں کیا )۔
صحت روایات میں یہ کتاب دنیا کے کتب خانوں میں دوسرا درجہ رکھتی ہے اگرچہ بعض علماء نے اس کو نمبر ایک پر رکھا ہے، لیکن صحیح یہی ہے صحت میں صحیح بخاری سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں، البتہ موضوعات کے اعتبار سے روایات کے جمع و ترتیب میں اس کتاب کا ثانی نہیں، اس طرح یہ کتاب خالص احادیث صحیحہ کا ایسا مرتب مجموعہ بن گئی ہے کہ شاید ہی کوئی دوسری کتاب اس امتیاز میں اس کی شریک ہو، صحت حدیث کے ساتھ حسن ترتیب میں بلا شبہ یہ کتاب فرد فرید ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض ائمہ نے اس کتاب کو صحیح بخاری پر بھی ترجیح دی ہے۔
ائمہ کا اعتراف
حافظ ابوعلی نیشاپوری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ جملہ بہت مشہور ہے:
 ” ما تحت ادیم السماء أصح من كتاب مسلم في الحديث (۲۶)
 (زیر آسمان کوئی کتاب بھی مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح نہیں ہے )
حافظ صاحب موصوف کی یہ رائے عام علماء وائمہ کی رائے کے خلاف ہے، اس لیے کہ تقریبا تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ صحیح ترین کتاب بخاری کی صحیح ہے، اس کے بعد امام مسلم کی صحیح کا درجہ ہے، اس لیے اکثر حضرات نے اس کو حافظ ابو علی کی ذاتی رائے قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے اس کو حسن ترتیب پر محمول کیا ہے ۔
حافظ مسلمہ بن قاسم فرماتے ہیں:
 "لم يضع أحد مثله  (۲۷)
 کسی نے ایسی تصنیف نہیں کی۔
 اور اس میں کیا شبہ ہے صحت کے ساتھ حسن ترتیب میں یہ کتاب لاثانی ہے۔اس لیے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
حصل المسلم في كتابه حظ عظيم مفرط لم يحصل لأحد مثله بحيث أن بعض الناس للناس كان يفضله على صحيح حديث اسماعيل وذلك لما اختص به من جمع الطرق وجودة السياق والمحافظة على أداء الألفاظ كما هى من غير تقطيع ولا رواية بمعنی ۔(۲۸)
 ( مسلم کو اپنی کتاب میں جو عظیم مقام حاصل ہوا وہ کسی کو حاصل نہ ہوا، اس طور پر کہ بعض لوگ اس کو محمد بن اسماعیل ( بخاری ) کی صحیح پر بھی فوقیت دیتے ہیں اور یہ مقام اس کی اس خصوصیت کی بناء پر ہے کہ انہوں نے اسانید یکجا کر دی ہیں، ترتیب بہت اعلیٰ رکھی ہے، روایتیں جیسی منقول تھیں ویسے ہی بیان کر دی ہیں، نہ ان کے ٹکڑے کیے اور نہ الفاظ میں فرق کیا )
کتاب میں مذکورہ بالا خصوصیات کی بناء پر حضرت امام موصوف نے فرمایا تھا:
لو أن أهل الحديث يكتبون مائتي سنة الحديث فمدارهم على هذا المسند الصحيح۔(۲۹)
 (محد ثین اگر دو سو سال تک بھی حدیثیں لکھتے رہیں جب بھی ان کا دار و مدار اسی مسند صحیح پر رہے گا )
امام صاحب نے جس اخلاص کے ساتھ یہ عمل انجام دیا تھا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو سو سال کیا ساڑھے گیارہ سو سال گذرنے کو آئے مگر کتاب کی مقبولیت اسی طرح ہے۔
حواشی:
۱۔معجم البلدان فی ذکرنيسابور،شہاب الدین یاقوت الحموی،ج۵،ص:۳۳۲،ط:دارصادر،بیروت
۲۔طبقات الشافعيه الكبرى ١/ ١٧٣،از تاج الدین سبکی
۳۔سير اعلام النبلاء: ٥٧٢/١٢ ،علامہ شمس الدین ذہبی
۴۔تاریخ بغداد ۱۳۰ – ۱۰۲، از خطیب بغدادی،تاریخ دمشق: ٣١/ ٦٨،از ابن عساکر
۵۔شذرات الذهب ۲ – ۲۹۷،علامہ شمس الدین ذہبی
۶۔سيراعلام النبلاء: ١٢ – ٥٦٤،علامہ شمس الدین ذہبی
۷۔وفيات الاعيان: – ١٣٦،ابن خلکان
۸۔سير اعلام النبلاء: ١٢ – ٥٦٣،علامہ شمس الدین ذہبی
۹۔تاریخ بغداد،خطیب بغدای،ج۱۵،ص:۱۲۱ سير أعلام النبلاء،از ذہبی،ج۱۲،ص:۵۶۳، اکمال المعلم،از قاضی عیاض،ج۱،ص:۸۰
۱۰۔اکمال المعلم،از قاضی عیاض،ج۱،ص:۸۰
۱۱۔سيراعلام النبلاء ١٢-٥٧٠،علامہ شمس الدین ذہبی
۱۲۔اكمال المعلم: ١-٨٠،از قاضی عیاض
۱۳۔سیر اعلام النبلاء،علامہ شمس الدین ذہبی،ج۱۲،ص:۴۲۳
۱۴۔سير أعلام النبلاء: ١٢ – ٥٦٤،ازعلامہ ذہبی، تاریخ بغداد: ١٢-١٦،از خطیب بغدادی
۱۵۔سير اعلام النبلاء: ١٢ – ٥٦٦،علامہ شمس الدین ذہبی
۱۶۔اكمال المعلم: ١-۷۹،از قاضی عیاض
۱۷۔اکمال المعلم: ۷۹/۱
۱۸۔اكمال المعلم: ١-۷۸،از قاضی عیاض
۱۹۔صحیح مسلم، باب التشهد في الصلاة،حدیث نمبر:۴۰۴
۲۰۔سنن ابن ماجہ اور علم حدیث ص: ۲۱۵، بحوالہ تدریب الراوی: ۲۸
۲۱۔صحیح مسلم: ٢١٦٢
۲۲۔تذكرة الحفاظ : ١٤٦/٢،از حافظ ذہبی
۲۳۔مقدمة مسلم، ص: ۲
۲۴۔اكمال المعلم، ص: ٨٦
۲۵۔اكمال المعلم، ص: ۸۰
۲۶۔تاریخ بغداد: ۱۳-۱۰۱،اکمال  المعلم: ج۱،ص:۸۰
۲۷۔اکمال المعلم: ۸۰، مقدمة فتح الباري فصل ثاني،ابن علامہ ابن حجرعسقلانی،ج۱،ص:۱۳
۲۸۔تهذيب التهذيب از علامہ ابن حجر عسقلانی : ۱۰ –  ۱۲۷؛ اكمال المعلم: ۷۸/۱
۲۹۔اكمال المعلم: ج۱،ص:۸۲،از قاضی عیاض

Tags

Share this post: