علامہ ابن حزم ظاہری ؒ، حیات و کمالات
ڈاکٹرمحمد نصر اللہ ندوی
استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
اندلس صدیوں تک علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے، اس کی خاک سے بڑے بڑے اہل علم اور اصحاب فضل و کمال پیدا ہوئے، جنہوں نے علم و ادب، فکر و فن اور تہذیب و ثقافت کے میدان میں دنیا کی قیادت کی، بالخصوص چوتھی صدی ہجری میں ایسی نابغہ روزگار اور عبقری شخصیتیں پیدا ہوئیں جن کو تمام علوم و فنون میں دسترس حاصل تھا، اورجن کے علمی کارنامے آج بھی زندہ و جاوید ہیں، ان شخصیات میں ابن حزم اندلسی کا نام سر فہرست ہے۔
وہ علمی کہکشاں میں بدر منیر کی طرح ہیں،ان کی ذات میں تمام علوم و فنون جلوہ گر تھے،تفسیر،حدیث، فقہ تاریخ، ادب ،شعر ہر موضوع پر ان کو امامت کا درجہ حاصل تھا ،لیکن علمی دنیا میں ان کی شہرت ان کے فقہی اصول، فقہی نظریات اور اجتہادی تفردات کی وجہ سے ہوئی۔
ابن حزم فقہ ظاہری کے امام تھے،انہوں نے ابو داؤد اصفہانی کی فقہ کو از سر نو زندہ کیا اور اس کا دائرہ وسیع کیا،وہ تقلید کے سخت خلاف تھےاور قیاس کے منکر تھے، ائمہ مجتہدین کے درمیان ان کی شخصیت بالکل منفرد تھی اوردین و دنیا کی جامع تھی، دینی علوم میں وہ منصب امامت پر فائز تھے،اس کے ساتھ ساتھ وہ بنو امیہ کے سیاسی مشیر تھے،ان کا شمار اسلامی تاریخ میں ابن جریر طبری کے بعد سب سے بڑے مصنف کے طور پر ہوتاہے، ان کےقلم گہر بار سے چار سو سے زیادہ کتابیں وجود میں آئیں۔
نام و نسب
ابن حزم کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابو محمد علی بن أحمد بن سعید بن حزم بن غالب بن صالح بن خلف معدان بن سفیان بن یزید، وہ ایرانی النسل تھے. ان کے جد امجد یزید بن ابی سفیان بن حرب (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی کے) کے موالی میں سے ہیں۔ (۱ )
شیخ ابوزہرہ کا خیال ہے ابن حزم ایرانی النسل تھے، ان کے جد امجد نے خلیفہ راشد عمر بن خطاب کے عہد میں اسلام قبول کیا تھا، وہ لکھتے ہیں :
فانہ اذا کان أصله فارسيا ولاء جده ليزيد بن أبي سفيان فان إسلامه يكون قد يما یرجع إسلام هذه الأسرة إلى عهد عمر بن خطاب رضي الله عنه۔(۲)
ابن حزم کا گھرانہ ایرانی النسل تھا،یزید بن أبی سفیان کے موالی میں سے تھا،عہدقدیم سے مسلمان تھا اور فاروقی عہد میں اسلام سے وابستہ ہو۔
اس بنیادپر یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ نسلا ایرانی تھے اور موالات کے اعتبار سے قریشی تھے ،بنی امیہ کےتئیں ان کےمتعصب ہونے کے پیچھے یہی موالات کار فرما تھی، ان کے اجداد میں سب سے پہلے جس نے اندلس کی راہ اختیار کی وہ ان کے جد اعلی خلف تھے، ان کا خاندان( منت لیشم ) نامی جگہ میں خیمہ زن ہوا جو اندلس کے مغرب میں واقع ہے ، وہاں ان کے خاندان کو جاہ و حشمت حاصل ہوئی۔( ۳)
ولادت
ابن حزم کے سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کی پیدائش اندلس کے معروف شہر قرطبہ میں ۳۸۴ھ میں ہوئی۔صاعد اندلسی لکھتے ہیں:
وكتب إلى بخط يده أنه ولد بعد صلاة الصبح وقبل طلوع الشمس آخر يوم من شهر رمضان من سنة أربع و ثمانين و ثلاث مأة۔(۴)
ابن حزم نے خود نوشت میں اپنے دست قلم سے لکھا ہے کہ ان کی پیدائش بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل رمضان کے آخری دن ۳۸۴ھ کو ہوئی۔
ابن حزم نے بنو امیہ کے حکمران خلیفہ منصور بن ابی عامر کے دور میں آنکھیں کھولیں، ان کے والد اس حکومت میں اہم عہدے پر فائز تھے،خلیفہ منصور کی نگاہ میں ان کی بڑی عزت تھی اور وہ ان پر بہت اعتماد کرتا تھا، وہ بھی خلیفہ کے لیے نہایت مخلص تھے اور حکومتی نظام چلانے کا زبردست تجربہ رکھتے تھے، ان کی رہائش گاہ قصر زہرا سے متصل تھی، جو خلیفہ منصور کا محل تھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خلیفہ کی نگاہ میں ان کا کیا مقام وہ مرتبہ تھا۔ (۵)
احمد بن سعید منصور کے بعد اس کے ولی عہد مظفر کے دست راست رہے، وہ ایک اچھے منتظم اور بڑے مدبر تھے ۔ (۶)
ان کو خلیفہ کا اس قدر اعتماد حاصل تھا کہ وہ اپنی غیر موجودگی میں اس کو اپنا جانشین بناتا تھا؛ تاکہ حکومت کے امور انجام دے سکیں۔(۷)
ابن حزم کی پرورش اپنے عظیم باپ کے زیر سایہ ایسے گھرانے میں ہوئی، جو ادب و حکمت کا گہوارہ تھا اور جہاں ہر طرف شاہی حکومت کا جلوہ تھا،اس ادبی ماحول نے ان کی صلاحیتوں کو اس طرح صیقل کیا کہ آگے چل کر ان کے قلم گہربار سے سینکڑوں تصانیف منصہ شہود پر آئیں۔
ابن حزم کا خاندان اندلس کا بہت ہی معزز خاندان تھا، ذکاوت و فطانت کے اعتبار سے ممتاز تھا، اس کا عکس ابن حزم اور ان کے والد میں صاف نظر آتا ہے۔(۸)
ابن حزم کے والد احمد بن سعید بڑے ذی علم اور صاحب فضل و کمال تھے، شعر و ادب کا نہایت ذوق رکھتے تھے.،ان کی مجلس میں مشاہر علماء اور عمرو بن حبرون و خلف بن رضا جیسے شعراء شریک ہوتے تھے، کوئی شخص گفتگو میں غلطی کرتا یا تحریر میں نامناسب الفاظ و تعبیرات استعمال کر تا تو ان کو شدید تعجب ہوتا اور بہت حیرانی کا اظہار کرتے ۔
حمیدی کا بیان ہے:
سمعت أبا العباس أحمد بن رشيق يقول: كان الوزير أبو عمرو بن حزم يقول: إني لا أعجب ممن يخطئ في خطابته أو يجيء بلفظ قلقة في مكاتبة ،لأنه ينبغي له اذا شك في شيء أن يتركه ويطلب غيره ،فالكلام أوسع من هذا۔ (۹)
میں نے ابو عباس کو کہتے ہیں ہوئے سنا: وزیر ابو عمر بن حزم کہتے تھے کہ مجھے ان لوگوں پر سخت تعجب ہوتا ہے جو اپنی گفتگو میں غلطی کرتے ہیں اور تحریر میں غیر موزوں الفاظ و تعبیرات کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ کسی لفظ کے بارے میں شک ہو تو اسے چھوڑ دینا ہے چاہیے اور اس کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کرنا چاہیے، اس لیے کہ کلام میں بڑی وسعت ہوتی ہے۔
احمد بن سعید کے محل میں علمی مجالس منعقد ہوتی تھیں، جن میں فقہی موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے ،ابن عماد ن کے بارے میں رقم طراز ہیں:
كان مفتيا لغويا متبحرا في علم اللسان.(۱۰)
یعنی وہ مفتی تھے، لغت اور زبان کا گہراعلم رکھتے تھے۔
وفات
ابن حزم کے سوانح نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کی وفات شعبان کے اخیر میں ۴۵۶ھ میں ہوئی۔ صاعد اندلسی لکھتے ہیں:
فقلت من خط ابنه أبي رافع أن أباه توفي رحمه الله عشية يوم الأحد بليلتين بقيتا من شعبان سنة ست وخمسين وأربع، وكان عمره إحدى و سبعين سنة و عشرة أشهر و تسعة وعشرين يوماً۔ (۱۱)
میں نے ابن حزم کے بیٹے ابو رافع کے دست قلم سے لکھی ہوئی تحریر دیکھی کہ میرے والد کی وفات ۲۸شعبان ۴۵۶ھ کو ہوئی۔
تربیت و پرورش
ابن حزم کے والد کی سیاسی معاشی اور سماجی اعتبار سے بہترین پوزیشن تھی ،لہذا ابن حزم کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی، ان کا بچپن شاہی لاڈ و پیار میں گزرا،وہ تنگدستی اور محتاجی سے بالکل نا آشنا تھے،ان کی تربیت کے لیے ان کے والد نے کئی اتالیق مقرر کر رکھے تھے، ان کی طفولیت کا بڑا حصہ عورتوں کے درمیان گزرا جن کی آغوش میں وہ پروان چڑھے اور تربیت حاصل کی، عورتوں کے علاوہ وہ کسی سے مانوس نہیں تھے،مردوں کی صحبت ان کو اس وقت میسر ہوئی جب وہ عنفوان شباب میںداخل ہو گئے، انہوں نے قرآن کی ابتدائی تعلیم اور عربی اشعار بھی عورتوں سے سیکھے۔ وہ خود لکھتے ہیں:
ولقد شاهدت النساء وعلمت من أسرارهن مالايكاد یعلم غيری، لأن ربيت في حجورهن ونشأت بين أيديهن، ولم أعرف غيرهن، ولا جالست الرجال وأنا في حد الشباب وحين تفیل وجهي ،وهن علمنني القرآن و وروينني كثيراً من الأشعار، و دربننی في الخط ،ولم يكن كدي وأعمال ذهني منذ أول فهمي وأنا في سن الطفولة جداً إلا تعرف أسبابهن والبحث عن أخبارهن وتحصيل ذلك ۔(۱۲)
میں نے عورتوں کو بہت قریب سے دیکھا، مجھے ان کے اتنے راز معلوم تھے جو کسی اور کو نہیں تھے، اس لیے کہ میری پرورش ان کی آغوش میں ہوئی ،میں مردوں کی صحبت میں اس وقت بیٹھا جب عنفوان شباب کو پہنچ گیا اور میرا چہرہ بڑا ہو گیا،عورتوں نے مجھے قرآن سکھایا ،اشعار حفظ کرائے اور خطاطی کی مشق کرائی ،میرا شعور اس وقت بیدار ہوا جب مجھے عورتوں کے حالات اور واقعات کے بارے میں جستجو ہوئی۔
اس نورانی ماحول میں بہت دلار اور پیار کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی. اس ماحول نے ان کو انتہائی ذکی الحس بنا دیا اور ان کے وجدان کو صیقل کر دیا ،لیکن بایں ہمہ وہ عفت و پاک دامنی کا نمونہ تھے، ان کا دامن کبھی گناہ سے آلودہ نہیں ہوا، اس میں ان کے والد کی تربیت کا بڑا دخل تھا، جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نگرانی میں کوتاہی نہیں کی، انہوں نے ابن حزم کی تربیت کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا، جو صلاح و تقوی اور عفت و پاک دامنی میں اپنی مثال آپ تھا ،جس نے کبھی نامحرم خاتون کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا،جو ہر موقع پر ان کو گناہ اور معصیت سے دور رکھتا،والد کی تربیت کا ابن حزم کے اخلاق و کردار پر گہرا اثر پڑا؛ چنانچہ معصیت سے اجتناب اور نیکی کی طرف رغبت ان کی فطرت ثانیہ بن گئی، وہ اپنے بارے میں پوری صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں:
أقسم بالله أجل الأقسام إني ما حللت مئزري على فرج حرام قط و،لا يحاسبني ربی کبيرة الزنا منذ عقلت إلى يوم هذا، والله المحمود على ذلك. وكان السبب فيما ذكرته أني كنت وقت تأجج نار الصبا وتمكن غزارة الفتوة محظرا على بين رقباء ورقائب ،فلا ملكت نفسي وعقلت صحبت أبا علي الحسن بن علي الفارسي في مجلس أبي القاسم عبد الرحمن بن يزيد الأزدي شيخنا وأستاذي رضي الله عنه ،وكان أبو علي المذكور عاقلا عاملاممن تقدم في الصلاح والزهد في الدنيا والاجتهاد والآخرة، فنفعني الله به كثيراً وعلمت موقع الإساءة وقبح المعصية۔(۱۳)
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے زنا کا کبھی ارتکاب نہیں کیا، (الحمد للہ) اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شہوت کی آگ میرے اندر دہک رہی تھی میرے اوپر نگرانی کرنے والوں کا سخت پہرہ تھا، جب میں سن شعور کو پہنچا تو ابو الحسن بن علی فارسی کے ساتھ اپنے استاد اور شیخ عبدالرحمن بن یزید الأزدی کی مجلسوں میں حاضر ہونے لگا، ابو علی ایک سمجھدار اور عالم با عمل شخص تھے،نیکی او رتقوی میںبہت ممتاز تھے اور حقیقی معنوں میں زاہد تھےاور آخرت کے لیے کوشاں تھے،اللہ تعالی نے مجھے ان سے بڑا نفع پہنچایا اور مجھے گناہوں کے مواقع کے بارے میں اچھی طرح علم ہو گیا۔
ابن حزم کی عفت و پاک دامنی کا راز دو چیزوں میں پوشیدہ تھا:
(الف) ابو الحسن علی بن فارسی کی کیمیا اثرصحبت جو عفت و پاک دامنی کا پیکر تھے اور عورتوں سے بالکل گریزاں تھے، حتی کہ عورتوں سے ان کا حلال رشتہ بھی نہیں تھا ۔
(ب) والد محترم کی سخت نگرانی ،جو ایک لمحہ بھی ان کی تربیت سے غافل نہیں رہے اورہر وقت نگرانی کے لیے خواتین کو متعین کر رکھا تھا، جو چہرے کی لکیروں اور آنکھوں کی حرکات و سکنات پر بھی نظر رکھتی تھیں۔(۱۴)
طلب علم
ابن حزم نے بچپن ہی سے شہزادوں کی طرح اشعار حفظ کیے،قرآن کریم حفظ کیا اور یہ سب کچھ عورتوں سے سیکھا، لیکن ان کے والد نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، ان کی تعلیم کے لیے ایک نہایت باوقار اور متقی استاد کو متعین کر رکھا تھا، جو خود بھی ان کو تعلیم دیتے اور مشائخ کے علمی حلقوں میں بھی لے جاتے، ان کا نام ابو الحسن بن علی فارسی تھا،ابن حزم نے علی احمد بن جسور سے علم حاصل کیا اور ان سے حدیث کی روایت کی، وہ خود لکھتے ہیں :
حدثنا أحمد بن الجسور عن أحمد بن مطرف عن عبيد الله بن يحيى عن أبيه عن مالك عن حبيب بن عبد الرحمن الأنصاري عن حفص بن عاصم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله: إمام عادل، وشاب نشأ في عبادة الله، ورجل قلبه معلق بالمسجد ،اذااخرج منه يعود إليه، ورجلان تحابا في الله اجتمعا علی ذلک وتفرقا عليه، ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه, ورجل دعته امرأة ذات حسب فقال: إني أخاف الله، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه(۱۵)
ابن حزم بچپن سے ہی طلب علم کی طرف مائل تھے، ابتدا میں ان کا محور علم اسلامی علوم تھا، خاص طور سے حدیث اور تاریخ سے ان کو دلچسپی تھی۔
فقہ کی طرف وہ بعد میں متوجہ ہوئے، جب اس میدان میں انہوں نے قدم رکھا، تو سب سے پہلے فقہ مالکی سے ان کا واسطہ پڑا کہ اس دور میں اسی کا غلغلہ تھا اور حکومت اسی پر کاربند تھی، فطری طور پر وہ فقہ مالکی کی طرف متوجہ ہوئے، انہوں نے مؤطا عبداللہ بن دحون سے پڑھی، اسکے علاوہ دیگر علماء کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا ،اس دوران ،ان کی نظر سے یہ بات گزری کہ امام شافعی نے اپنے شیخ امام مالک پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ میں مالک سے محبت کرتا ہوں ،لیکن مجھے ان سے زیادہ حق سے محبت ہے ،چنانچہ ابن حزم نے اللہ سے استخارہ کیا اور امام مالک پر نقد کیا ؛تاکہ لوگوں کو یہ بتا دیںکہ امام مالک بھی ایک انسان تھے، بعد میں وہ مالکی مسلک سے شافعی مسلک کی طرف منتقل ہو گئے، اس لیے کہ انہیں محسوس ہوا کہ شافعیت ان کی فکر اور مزاج سے زیادہ قریب ہے۔ (۱۶)
فقہ شافعی کے مطالعہ کے دوران وہ اہل عراق کے مذہب سے بھی سرسری طور پر گزرے، پھر فقہ ماثور کا مطالعہ کیا، لیکن ان کی اجتہادی طبیعت کسی ایک مسلک کی پابندی پر قانع نہیں ہوئی ، ا ن کو امام شافعی کا یہ طرز پسند آیا کہ وہ نصوص پر سختی سے کاربند رہتے ہیں، یا کم ازکم اپنی رائے کو نص پر محمول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ جب یہ دیکھتے کہ امام مالک استحسان اور مصلحت کی بنیاد پر فتوی دیتے ہیں توامام شافعی ان پرشدت کےساتھ حملہ کرتے ہیں، انہوں نے استحسان کے رد میں ایک کتاب بھی لکھی ،تاہم فقہ شافعی پر بھی وہ زیادہ دنوں تک کار بند نہیں رہ سکے،اب ان کا میلان ظاہریہ کے شیخ اور امام شافعی کے تلمیذ داؤد اصفہانی کی طرف ہوا ،جو صرف نصوص کے الفاظ دیکھتے یا آثار و روایات سے استدلال کرتے اور کبھی کبھار استصحاب کو بنیاد بناتے۔(۱۷)
ابن حزم کی ذہنی تشکیل میں ان کے استاد مسعود بن سلیمان کا بڑا ہاتھ تھا، جو بڑے عالم و زاہد تھے اور ظاہر سے استدلال کرتے اور مختلف اقوال میں ایک کو اختیار کرتے ،اپنے استاد کا یہ انداز ان کو بہت پسند آیا ،کہ اس میں فکر کی آزادی تھی اور مذاہب اربعہ کی بندش نہیں تھی،اورہمیشہ نصوص و آثار کو پیش نظر رکھا جاتا ۔
ابن حزم کو جو کتاب ہاتھ لگتی پڑھ ڈالتے اور جو استاد ملتے ، ان سے استفادہ کرتے، حدیث انہوں نے أحمد بن جسور سے پڑھی،فقہ کی تعلیم أبو القاسم عبدالرحمن ازدی اور عبداللہ بن دحون سے حاصل کی،ان کے علاوہ کئی اساتذہ سے علوم قرآن اور لغت میں کسب فیض کیا ،جن کے اسماءمعلوم نہیں ہو سکے اور جو اس وقت مشہور شہروں قرطبہ، مریہ، بلنسیہ اور شاطبہ میں موجود تھےجہاں ابن حزم کا قیام رہا،ان کی مجموعی تعلیم اورمختلف تجربات سے ان کی شخصیت تشکیل پائی، جس نے نگاہوں کو خیرہ کر دیا اور جس کےتذکرے کی گونج تاریخ میں سنائی دیتی ہے۔ (۱۸)
سیاسی زندگی
ابن حزم کے والد احمد بن سعید خلیفہ منصور محمد بن عامر کے اہم وزیر تھے، خلیفہ کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے مظفر کے وزیر بنے ،ان کو باپ اور بیٹے دونوں کا اعتماد حاصل تھا، وہ پورے خلوص اور لگن کے ساتھ حکومت کے نظام کو چلاتے تھے، لیکن ۳۹۲ ھ میں جب اموی حکومت میں انتشار شروع ہوا تو وہ حکومت سے کنارہ کش ہو گئے،اس دوران قرطبہ کے حالات بہت خراب ہو گئے اور ہر طرف بدامنی پھیل گئی، اموی حکومت کی آپسی رسا کشی اور سیاسی اتھل پتھل کے بیچ۴۰۲ھ میں ان کا انتقال ہو گیا،یہ سب کچھ ابن حزم کی آنکھوں کے سامنے ہوا، اپنے والد کی وفات کے کچھ دنوں بعد ابن حزم نے سیاسی زندگی میں قدم رکھا،لیکن اس کا آغاز ہی آزمائشوں سے ہوا، وہ بقلم خود رقم طراز ہیں :
وفي أثر ذلك نكَبَني خیرانُ صاحبِ المَریۃ، إذ نُقل إليه من لم يَتَّقِ الله عز وجل من الباغين،وقد انتقم الله منهم عني وعن صاحبي محمد بن إسحاق،انانسعى في القيام بدعوة الدولة الأموية، فاعتقلنا عنده شهراً ثم أُخرجنا على جهة التغریب، قصدنا إلى حصن القصر ولقينا صاحبه،فأقمنا عنده شهورا، ثم ركبنا البحر قاصدین بلنسیۃ عند ظهور أمير المؤمنين المرتضی عبد الرحمن بن محمد وساكناه بها۔(۱۹)
یعنی اس کے بعد مریہ کے حاکم خیران نے آزمائش میں ڈال دیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی بدخواہ نے میرے حوالہ سے ان کے پاس یہ شکایت کردی (اللہ اس سے انتقام لے)کہ ہم اموی حکومت کے قیام کیلئے کوشش کر رہے ہیں،چنانچہ ہم ایک ماہ تک ان کے پاس قید میں رہے،پھرہمیں جلا وطن کر دیا گیا،ہم نے محل کے قلعہ کا رخ کیا اور کچھ ماہ قیام کرنے کے بعدجب امیر المومنین مرتضی عبد الرحمن بن خلیفہ بنائے گئےتوسمندر کے راستہ بلنسیہ پہنچے، اور ان کے ساتھ وہیں قیام کیا۔
سن ۴۰۹میں ابن حزم پھر قرطبہ واپس آگئے اور۴۱۴ھ میں جب ان کے دوست عبدالرحمن مستظہر تخت خلافت پر متمکن ہوئے ،تو ابن حزم منصب وزارت پر فائز کیے گئے ،لیکن اس پر صرف دو ماہ ہی قائم رہ سکے، اس لیے کہ دو ماہ بعد ہی محمد بن عبدالرحمن الناصر نے خلیفہ وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا ،جس کے نتیجے میں مستظہر کو قتل کر دیا گیا۔(۲۰)
اس حادثہ کے کچھ عرصہ بعد ہی ابن حزم کو پھر گرفتار کر لیا گیا ،اور جب ہشام کا دور آیا جو ۴۱۸ ھ سے ۴۲۲ھ پر محیط ہے ، تو ان کو معافی کا پروانہ دیا گیا تاکہ دوبارہ منصب وزارت پر فائز ہوں ، یہ تاریخ کا وہ دور ہے جس میں اموی حکومت کا چراغ اندلس کے اندر ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا ، فوج نے ہشام کو حکومت سےمعزول کر دیا ،چنانچہ وہ بھاگ کر لارندہ پہونچا اور وہیں ۴۲۸ھ میں ہلاک ہوگیا ،ہشام کے معزول ہوتے ہی ابن حزم وزارت سے دست بردار ہوگئے اوربظاہر سیاست سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہوگئے ،ہشام کی حکومت ختم ہوتے ہی روئے زمین سے اموی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور مغرب میں خلافت کی لڑی بھی ٹوٹ گئی اور پھر اندلس میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہوگیا ۔ (۲۱)
ابن حزم کو وہ زمانہ نصیب ہوا جس میں اموی حکومت آخری سانسیں لے رہی تھی اور طوائف الملوکی دستک دے رہی تھی ، ابن حزم کی زندگی کا یہ دور سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھا ،چنانچہ ابن حزم کو گرد ش ایام سے گزرنا پڑا اور غم ہائے روزگا ر کا سامنا کرنا پڑا ، ان حالات نے ان کی فکر اور طرزحیات پر گہرا اثر ڈالا ، خاص طور سے وہ حالات جن کی وجہ سے وہ مستقل ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہوئے ،اس آزمائش کی وجہ سے وہ مسلسل رنج وغم سے دوچار رہے اور ذہنی تناؤ کا شکار رہے ، اس کا تذکرہ خود انہوں نے اپنے ایک دوست کے نام مکتوب میں کیا ہے ، اغلب یہ ہے کہ یہ خط انہوں نے خلیفہ مستظہر کے قتل کے بعد لکھا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
آپ جانتے ہیں کہ میرا ذہن منتشر ہے اور میری حالت خستہ ہے، اس لئے کہ ہم اپنے وطن سے دور ہیں، گردش ایام کا شکار ہیں، اپنوں نے منھ پھیر لیا ، حالات نہایت خراب ہیں ، ہمارے آباء واجداد کی پونجی لٹ گئی ،جاہ ومنصب خاک میں مل گئے ، ہم یاس وقنوطیت کا شکار ہوگئے اور تقدیر کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں ۔(۲۲)
ان حالا ت میں ابن حزم کے ذہن ودماغ پر منفی اثرات مرتب کئے ،حتی کہ بعض محققین کا خیال ہے کہ ان حزم کے اسلوب اور مناقشوں میں جو تشدد نظر آتا ہے اس کا سبب ظلم وستم اور ذہنی تناؤ ہے جس سے وہ مشکل حالات میں وہ دو چار ہوئے ، لیکن سوال یہ ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی کرنے کے بعد کیا وہ گوشہ نشیں ہوگئے اور گرد و پیش کے حالات سے لاتعلق ہوگئے ؟
ابن حزم جیسے شخص کے لئے جس کانہایت مضبوط سیاسی پس منظر تھا ، یہ ممکن نہیں تھا ، چناچہ وہ اس کے بعد وہ نا موافق حالات پر سلاطین وحکام پر سخت تنقید کرتے اور ان کے خلاف باغیانہ تیور دکھا تے جو مسلمانوں کے ساتھ ڈھل مل رویہ اختیار کرتے اور ان پر ذمیوں کو فوقیت دیتے ،خلاصہ یہ کہ ابن حزم کی عمومی زندگی اندلس کے حالات کی عکاس تھی اور تضادات سے پر تھی ، ان کی پرورش اموی حکومت کی آغوش میں ہوئی اور جب انہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اندلس طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا اور سیاسی و سماجی لحاظ سے غیر مستحکم ہوگیا ، عنفوان شباب میں وہ ایک شہزادے کی طرح تھے۔پھر جلا وطن کئے گئے اور اخیر میں ایک مفکر کے طور پر سامنے آتے ہیں ،جس کی زبان نہایت تند وتیز تھی،جو علماء وفقہاء سے مقابلہ کرتا ،فقہ وفلسفہ اور دین کے موضوع پر سخت اسلوب میں مناظرہ کرتا اور تشدد آمیز رویہ اختیار کرتا،حتی کہ اپنی ایک کتاب میں خود کو بہت بحث کرنے والا سے تعبیر کیا۔( ۲۳)
ثقافت اور علمی مقام
ابن حزم مختلف علوم وفنون میں ابتکاری صلاحیتوں کے مالک تھے ، انہوں نے علم و ادب کے ہر موضوع پر قلم اٹھایا، یہاں تک کہ طب میں بھی ان کے رسائل ہیں ۔(۲۴)
مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ علم کا بحر ذخار تھے، کتاب وسنت سے استنباط پر ان کو غیر معمولی قدرت تھی،اسی کے ساتھ ساتھ وہ کثیر التصانیف مؤلف تھے ، ان کی جلالت علمی کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں:
كان إليه المنتھی فی الذكاء وحدّة الذهن، وسعة العلم بالكتاب والسنّة، والمذاهب والملل والنِّحَل، والعربية والآداب، والمنطق والشعر، مع الصدق والدِّيانة، والحِشمة، والوفاء بالوعود، والرياسة، والثروة، وكثرة الكتب۔(۲۵)
طبقات الامم کے مؤلف صاعد الاندلسی ابن حزم کی تبحر علمی اور مختلف علوم و فنون میں ان کی مہارت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أخبرني إبنه الفضل، أعني أبا رافع، أن مبلغ مؤلفاته في الفقه والحديث والأصول والنِّحل والملل وغير ذلك، ومن التاريخ والنسب وكتب الأدب، والرد على المعارضين، يبلغ نحو أربعة مئة مجلد، تشتمل على قریب ثمانين ألف ورقة، وهذا شيء ما علمناه من أحدٍ ممن كان في دولة الإسلام قبله، إلا لأبي جعفر بن جرير الطبري، فإنه فاق أكثر أهل الإسلام تأليفاً.(۲۶)
يہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ابن حزم ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا تھے،اس کی شہادت ان کے مخالفین نے بھی دی ہے، ابن حزم سے قبل تاریخ کسی ایسی شخصیت سے واقف نہیں ہے جو ان کی طرح علوم و فنون کی جامع ہو،وہ ایک بڑے صاحب قلم و قرطاس ادیب اور عظیم محدث تھے، جس کو ہر موضوع کی حدیث یاد تھی،وہ منطق و فلسفہ میں رسوخ رکھتے تھے اور اس موضوع پر بڑی جرأت کے ساتھ اظہار خیال کرتے تھے، منطق میں ارسطو کی غلطیاں نکالتے تھے،تاریخ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد حقیقت کی تہ تک پہنچتے کی کوشش کرتے،انساب پر انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ قلم کا جوہر دکھایا، الغرض علم کا کوئی ایسا باب نہیں جس میں ابن حزم نے غواصی نہیں کی اور اس کے لعل و گوہر تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی،ان کی علمی جدوجہد کا مطمح نظر جاہ و منصب کا حصول نہیں تھا ،وہ خود ایک شہزادے تھے اور ان کے گھر میں دنیا کی ساری نعمتیں میسر تھیں ،ان کی تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کا مقصد علم کی اشاعت اور حقیقت کا اظہار تھا، ان کےدور کے مؤرخین پوری امانت داری اور فخریہ انداز میں ان کے علمی کارناموں کو بیان کرتے ہیں حتی کہ صاعد اندلسی نے ابن حزم کے کارناموں کو منفرد معجزہ قرار دیا اور کثرت تصانیف میں ان کو أبو جعفر طبری کے مشابہ کہا، ابن حزم کا یہ امتیاز ہے کہ غیر اسلامی فرقوں پر ان کی اتنی ہی گہری نظر تھی جتنی اسلامی فرقوں پر تھی،وہ تمام فرقوں کا بڑی گہرائی سے تجزیہ کرتے اور پوری جرات کے ساتھ ان پر تنقید کرتے،وہ کسی بڑے عالم کی رائے کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے اگر وہ کتاب و سنت کے ظاہر کے خلاف ہوتی، ان کی شاہکار کتاب’’الفصل في الملل والأهواء والنحل‘‘ اس کا واضح ثبوت ہے۔
ابن حزم کا علمی کارنامہ بالکل منفرد ہے ،سیرت نگاروں اور اصحاب تاریخ نے اس کا تذکرہ بڑے بلند الفاظ میں کیا ہے اور ان کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں،انہوں نے تصنیف و تایف کی دنیا میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد ۴۲۳ھ میں قدم رکھا اور۴۵۶ھ میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ،یعنی انہوں نے صرف ۳۵سال کے عرصے میں ہر موضوع پر کتابوں کا انبار لگا دیا، جن کی تعداد۴۰۰کے قریب پہنچتی ہے،ان کی کثرت تصانیف کو دیکھ کر یسع غافقی نے کہا تھا:
أما محفوظ أبو محمد، فبحر عجاج، وماء ثجاج يخرج من بحره مرجان الحِكَم، لقد حفظ علوم المسلمين، وأربی على أهل كل دين ،و ألف الملل والنحل،وكان أولا یلبس الحرير، ولا یرضی من المکانۃ إلا بالسرير۔(۲۷)
ابن حزم کی تصنیفات ایک پر شور سمندر اور موسلادھار بارش کی طرح ہیں جن سے حکمت کے موتی نکلتے ہیں۔
خصوصیات و امتیازات
ابن حزم کو خالق ازل نے بے پناہ خوبیوں اور متنوع صلاحیت سے آراستہ کیا تھا، جس نے ان کی شخصیت کو اوج ثریا تک پہنچا دیا اور جس کے نتیجے میں گراں قدر تصنیفات وجود میں آئیں، جن سے قیامت تک آنے والی نسلیں کسب فیض کرتی رہیں گی۔ان کا احاطہ چھ نکات میں کیا جا سکتا ہے۔
زبردست حافظہ اور استیعاب کا ملکہ:
ان کا حافظہ زبردست اور استیعاب کا ملکہ بے پناہ تھا، جس کی بدولت وہ اپنے مد مقابل کو زیر کر دیتے اور اس پر اپنا رعب قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے،ابن حزم کے معاصرین اور مؤرخین ان کی قوت حافظہ اور استیعاب کی صلاحیت پر سخت حیران نظر آتے ہیں، اس ضمن میں امام ذہبی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے ان کی حاضر جوابی ، قوت حافظہ اور علم کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
ذكر لابن حزم قول من يقول: أجل المصنفات "المؤطا” فقال بل أولی الكتب بالتعظيم، الصحیحان و صحیح سعيد بن السكن، والمنتقي لابن الجارود، والمنتقي للقاسم بن أصبغ، ومصنف الطحاوی، ومسند البزاز، ومسندا بن أبي شيبة، ومسند أحمد بن حنبل، ومسند ابن راهویہ، ومسند الطيالسي، ومسند الحسن بن سفيان، ومسند عبد الله بن محمد السندي، ومسند يعقوب بن شيبة، ومسند علي بن المديني، ومسند ابن أبي غرزة، ثم بعدها الذي فيه كلام غيره، مثل مصنف عبد الرزاق، ومصنف بقي بن مخلد، وكتاب محمد بن نضر المرزوي، وكتاب أبي بكر المنذر الاكبر والاصغر ،ثم مصنف حماد بن سلمة،ومصنف سعيد بن منصور، ومصنف وكيع، ومصنف الفريابي، ومؤطا مالك بن انس، ومؤطا ابن ابي ذئيب، وموطا ابن وهب، ومسائل أحمد بن حنبل، وفقه أبي عبيدة وفقه أبي الثور۔(۲۸)
ان تصنیفات کا ذکر جو۳۰سے زائد ہیں، ان کی اہمیت کے حساب سے بالترتیب مؤلفین کے نام سے وہی شخص کر سکتا ہے، جس کا حافظہ غیر معمولی اور جس کا علم وسیع اور جس کی حاضر جوابی لاجواب ہو اورجو ضرورت کے وقت قوت حافظہ کے استعمال کا ہنر بخوبی جانتا ہو۔
قوت ملاحظہ اور ادراک:
ابن حزم کے اندر قوت ملاحظہ کی اور ادراک کی غیر معمولی صلاحیت تھی،وہ کسی بھی مسئلے کی تہ تک پہنچنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور اسباب کے سہارے مسببات تک پہنچنے کی کوشش کرتے، وہ ظاہر پر قناعت نہیں کرتے ،مسئلہ کی گہرائی میں اترتے اور جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے، انہوں نے اسلامی فرقوں کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا، وہ ہر ایک فرقے کے نظریات اور اس کے دلائل کا باریکی سے جائزہ لیتے، وہ ان عوامل و محرکات تک پہنچنے کی کوشش کرتے جن کے نتیجے میں مختلف فرقے وجود میں آئے اور ہر ایک نے الگ الگ نظریات اختیار کیا ،ان کی مشہور کتاب "الفصل فی الملل والنحل” میں یہ پہلو واضح طور پر نظر آتا ہے، اسی طرح ان کا رسالہ "الاخلاق والسير في مداواة النفوس” میں بھی یہ پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے،فضائل ورذائل کے باب میں لکھتے ہیں:
من العجائب أن الفضائل مستحسنة ومستثقلة ،والرذائل مستقبحة ومستحبة ۔(۲۹)
صبر و استقامت اخلاص:
آزمائشوں میں گرفتار ہونے اور مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود وہ کبھی نا امید ی کا شکار نہیں ہوئے ،بلکہ آزمائشوں نے ان کے حوصلے کو مہمیز لگایا اور ان کی تصنیفی صلاحیت کو مزید نکھار دیا،اسی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر غیر معمولی تواضع تھا اور غرور کا شائبہ بھی نہیں تھا، وہ عجب سے بہت دور تھے اور اس کو اخلاص کےلئے آفت سمجھتے تھے ،وہ لکھتے ہیں:
ان أعجبت برأيك فتذكر سقطاتک، وفي كل رأي قدرتہ صوابا فخرج بخلاف تقديرک وأصاب غيرك وأخطات أنت، فإن فعلت ذلك فاقل أحوالک أن یوازن سقوط رأیک صوابہ، فتخرج لا لك ولا عليه والأغلب أن خطأك أكثر من صوابك ،وهكذا كل أحد من الناس بعد النبیین۔(۳۰)
علم اور علماء کا حد درجہ احترام :
علماء کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور علم کے فضائل کو کثرت سے بیان کرتے، بقول ابن حزم علم کا مشغلہ انسان کو بہت سے افکار پر یشان اور وساوس وفتن سے محفوظ رکھتا ہے، وہ لکھتے ہیں:
لو لم يكن من فائدۃ العلم والاشتغال به اإلا أنه يقطع المشتغل به عن الوساوس والفتن المضنیۃومطارح الآمال التی لا تفید غیر الهم وكفاية الأفکار المؤلمۃ للنفس ،لكان ذلك أعظم داع إليه، فكيف وله من االفضائل ما يطول ذكره ۔(۳۱)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
لذة العالم بعلمه، ولذ الحكيم بحكمته ،ولذة المجتهد لله عز وجل باجتهاده، أعظم من لذة الآكل بأكله والشارب بشربه، والكاسب بكسبه ،واللاعب بلعبه ،والآمر بأمره۔ (۳۲)
فکر کی بلندی اور علم کا جنون:
ابن حزم کے اندر علم کا بے پناہ شوق تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان پر حصول علم کا جنون تھا، انہوں نے ہر فن کو گہرائی سے پڑھا اور ہر موضوع پر دسترس حاصل کی، وہ ان لوگوں کو بہت کوستے تھے جو علم کے سمندر میں غواصی سے دامن بچاتے ہیں اور چند کلیوں پر قناعت کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں:
من شغل نفسه بأدنى العلم وترك أعلاها وهو قادر عليه، كان كزارع الذرة في الأرض التي يجوز فيه البر وكفارس الشعراء حيث يزكو النخيل والزيتون۔(۳۳)
علم کا ادب اور اخلاص پر زور:
علم کی مجلسوں میں حاضری کے آداب بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
اذا حضرت مجلس علم فلا یکن حضورک الا حضور مستزید علما واحدا ،لا حضور مستغبن بما عندک، طالبا عثرۃ تشنعھا أو غریبۃ تشیعھا،فھذہ أفعال الأراذل الذین لا یفلحون فی العلم أبدا۔(۳۴)
حواشی:
۱۔جذوۃ المقتبس: ۲۹۰
۲۔ابن حزم حیاتہ وفقہہ:۲۵-۲۶،شیخ ابوزہرہ،طبع: دارالفکر العربی،قاہرہ
۳۔طبقات الامم:۸۶
۴۔طبقات الامم:۸۸،صاعد الاندلسی،تحقیق:محمد مطر ،مصر
۵۔طبقات الامم ص : ۸۸
۶۔طبقات الامم: ص۸۸
۷۔تاریخ الادب الاندلسی : ۲۴۷-۲۴۷ ،احسان عباس،طبع: دارالثقافۃ،بیروت
۸۔معجم الادبا ء ۱۲/۴۰،از یاقوت حموی،مطبعۃ السعادۃ ،القاہرہ
۹۔جذوۃ المقتبس ،الحميدي ص: ۱۱۸،طبع: نشر الثقافۃ الاسلامیۃ،القاہرۃ
۱۰۔شذرات الذہب۳/۱۶۳،از ابن عماد حنبلی،مکتبۃ القدس، القاہرۃ
۱۱۔طبقات الأمم ،از صاعد اندلسی،طبع : المکتبۃ الحیدریۃ النجف،ص : ۸۷،وفيات الأعيان ص: ۳۲۹
۱۲۔طوق الحمامۃ ص: ۱۴۴،ابن حزم اندلسی،طبع: الموسسۃ الوطنیۃ ،الجزائز
۱۳۔طوق الحمامۃ ص:۲۷۴-۲۷۵
۱۴۔ابن حزم حیاتہ وآراءہ ص: ۲۷
۱۵۔ابن حزم،حیاتہ وعصرہ وآراء ہ ،ص:۳۰،امام ابوزہرہ مصری
۱۶۔ابن حزم حیاتہ، عصرہ وآرءاہ ص:۳۵
۱۷۔حوالہ بالا ص: ۳۴
۱۸۔حوالہ بالا ص:۳۴
۱۹۔طوق الحمامۃ ص:۱۱۸
۲۰۔نفخ الطیب،۱لمقری،/ ۴۱۲،طبع:مکتبۃ الحیاۃ بیروت
۲۱۔ابن حزم ورسالۃ المفاضلہ بین الصحابہ :۲۵،احسان عباس،طبع:الموسسۃ العربیۃ،بیروت
۲۲۔طوق الحمامہ :۲۴- ۳۲۳
۲۳۔طوق الحمامہ:۷۴،۷۵،۲۰۱
۲۴۔وفیات الاعیان ۳/ ۲۵- ۳۳،طبع:دارصادر،بیروت
۲۵۔الشذرات، ابن عماد حنبلي۳/ ۲۹۹
۲۶۔طبقات الامم ص۸۷،الشذرات۳/ ۲۹۹
۲۷۔تذکرۃ الحفاء،امام ذہبی ص ۳/ ۱۱۴۸،طبع:دارالکتب العلمیۃ،بیروت
۲۸۔تذکرۃ الحفاظ۳/ ۱۱۵۳
۲۹۔الاخلاق والسير فی مداوۃ النفوس ص:۴۴،احسان عباس،طبع: الموسسۃ العربیۃ،بیروت
۳۰۔حوالا بالا ص: ۵
۳۱۔رسائل ابن حزم(رسالۃ فی مداوۃ النفوس و تہذيب الاخلاق )از:احسان عباس ص:۱۲۱
۳۲۔الاخلاق والسير فی مداوۃالنفوس ص: ۶۰
۳۳۔حوالہ بالا
۳۴۔حوالہ بالا