علامہ سرخسیؒ کے بعض تاریخی تسامحات
مولاناعتیق احمد بستوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
فقہ کی بعض کتابوں میں کچھ ایسی معلومات شامل ہوگئی ہیں جو درست نہیں ہیں، بلکہ خلاف واقعہ ہیں، بعض بڑے مصنفین کی تحریروں میںآجانے کی وجہ سے انہیں درست اور قابل اعتماد مانا جاتا ہے، جبکہ تحقیق کرنے پر ان کا غلط ہوناثابت ہوتاہے،امام اوزاعی(ولادت۸۸ھ(۱)-وفات۱۵۷ھ(۲)اور امام محمد بن حسن شیبانی (و۱۳۲ھ-ت ۱۸۹ھ)کے تعلقات کے بارے میں بعض بے بنیاد باتیں امام سرخسی(۳)کی بعض مشہور تصنیفات میں آگئی ہیں، جنھیں بکثرت متاخرین نے نقل کیا ہے اور ان پر اعتماد کیا ہے، متاخرین کی بعض درسی تصنیفات میں بھی ان چیزوں کا ذکر آیاہے، جس کی وجہ سے علماء اور مفتیان کرام کے ذہنوں میں بھی وہ چیزیں مسلمات کی طرح در آئی ہیں، اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ان غلط باتوں کی تردید کردی جائے اور واقعات کی صحیح صورتحال اہل علم کے سامنے پیش کردی جائے۔
امام سرخسی کی مشہور کتاب ’’شرح السیر الکبیر‘‘ جس کا بڑا حصہ انھوں نے زمانہ اسیری میں تصنیف فرمایا ہے،اس میں امام اوزاعی اور امام شیبانی کے بارے میں بعض باتیں تحریر فرمائی ہیں جو تاریخی تجزیہ کے اعتبار سے بے بنیاد ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے وزن کی وجہ سے متعدد حضرات نے انھیں من وعن نقل کیا ہے اور فقہ حنفی کی کتابوں میں وہ چیزیں درج ہوگئی ہیں،ان کا تعلق امام محمد کی دو کتابوں ؛’’السیر الصغیر‘‘ اور’’ السیر الکبیر‘‘ کے تصنیفی پس منظر سے ہے، اس لئے پہلے ہم امام سرخسی کی پوری عبارت نقل کردیتے ہیں اور اس کا ترجمہ کرتے ہیں، پھر اس میں واقع ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی اختصار کے ساتھ کرتے ہیں:
فأما سبب تصنیف ہذا الکتاب – السیر الکبیر – أن السیر الصغیر وقع فی ید عبد الرحمن بن عمر و الأوزاعی عالم أہل الشام، فقال: لمن ہذا الکتاب؟ فقال لمحمد العراقی، فقال وما لأہل العراق والتصنیف فی ہذا الباب؟ فإنہ لاعلم لہم بالسیر ،ومغازی رسول اللّٰہ صلی الہ علیہ وسلم وأصحابہ، کانت من جانب الشام والحجاز دون العراق، فإنہ محدثۃ فتحاً، فبلغ مقالۃ الأوزاعی محمداً، فغاظہ ذلک، وفرغ نفسہ حتی صنف ہذا الکتاب،فحکی انہ لما نظرفیہ الأوزاعی قال: لولا ما ضمنہ من الأحادیث لقلت: إنہ یضع العلم من عند نفسہ، وأن اللہ عین جھۃ اصابۃ الجواب فی رأیہ، و صدق اللہ: وفوق کل ذی علم علیم۔
ثم أمر محمد رحمہ اللہ تعالی ان یکتب ہذا الکتاب فی ستین دفترا وأن یحمل علی عجلۃ إلی باب الخلیفۃ، فقیل للخلیفۃ: قد صنف محمد کتاباً یحمل علی العجلۃ إلی الباب، فأعجبہ ذلک، وعدہ من مفاخر أیامہ، فلما نظر فیہ ازداد اعجابہ بہ،ثم بعث أولادہ لیسمعوا منہ ہذا اللکتاب، وکان اسماعیل بن توبہ القزوینی مودب اولاد الخلیفۃ فکان یحضر معھم لیحفظھم کالرقیب۔(۴)
ترجمہ: اس کتاب (السیر الکبیر) کی تصنیف کا سبب یہ ہوا کہ السیر الصغیر اہل شام کے بڑے عالم عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی کے پاس پہونچی تو انھوں نے دریافت کیا کہ یہ کتاب کس کی ہے؟ کسی نے کہا محمد عراقی کی ہے، تو امام اوزاعی نے فرمایا کہ اہل عراق کو اس باب میں تصنیف کا کیا حق؟ انھیں تو سیر کا علم نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے غزوات شام وحجاز کی طرف ہوئے، عراق میں نہیں ہوئے، عراق تو بعد میں فتح ہوا، امام اوزاعی کی یہ بات امام محمد تک پہنچی تو انھیں اس پر غصہ آیا اور انھوں نے اپنے کو فارغ کرکے یہ کتاب تصنیف فرمائی، نقل کیا گیا ہے کہ جب امام اوزاعی نے اس کا مطالعہ کیا تو فرمایا کہ اگر اس میں احادیث شامل نہ ہوتیں تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنی طرف سے علم و ضع کررہا ہے، بیشک اللہ نے اس کی رائے میں درست جواب تک پہنچنے کو متعین فرمایادیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے صحیح فرمایا ہے، کہ ’’ہر علم والے سے اوپر علم والے ہوتے ہیں‘‘۔
پھر امام محمد نے حکم فرمایا کہ اس کتاب کو ساٹھ رجسٹروں میں لکھا جائے اور گاڑی پر رکھ کر خلیفہ کے دروازے تک لے جایا جائے، خلیفہ سے کہا گیا ، محمد نے ایک ایسی کتاب لکھی ہے جو گاڑی پر رکھ کر آپ کے دروازے پر لائی گئی ہے، تو اسے خلیفہ نے پسند کیا اور اسے اپنے زمانے کے قابل فخر کارناموں میں شمار کیا، جب اس کا مطالعہ کیا تو اس کی پسندیدگی میں اضافہ ہوا، پھر اپنے بچوں کو بھیجا تاکہ امام محمدؒ سے یہ کتاب سنیں اور اسماعیل بن توبہ قزوینی خلیفہ کے بچوں کے اتالیق تھے، وہ ان بچوں کے ساتھ آتے تھے تاکہ نگراں کی طرح ان کی حفاظت کریں۔
امام سرخسی کی مذکورہ بالا عبارت کا تجزیہ کرنے سے پہلے شرح السیر الکبیر کے مقدمہ میں امام سرخسی کی درج ذیل عبارت کو نقل کرنا بھی ضروری ہے، ملاحظہ ہو:
لیعلم ان السیر الکبیر آخر تصنیف صنفہ محمد رحمہ اللہ فی الفقہ ولہذا لم یروہ عنہ ابوحفص رحمہ اللہ لانہ صنفہ بعد انصرافہ من العراق۔(۵)
(یہ بات جان لینی چاہئے کہ السیر الکبیر فقہ میں امام محمد کی آخری تصنیف ہے، اسی لئے ان سے اس کتاب کی روایت ابوحفص نے نہیں کیا، کیونکہ امام محمد نے اس کی تصنیف ابوحفص کے عراق سے واپس آنے کے بعد کی)
امام سرخسی کی مذکورہ بالا عبارت کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے پہلے چند تاریخوں کا ذکر کرنا ضروری ہے، جن کا تعلق امام اوزاعی اور امام محمد کی زندگی اور اس اقتباس کے بعض مندرجات سے ہے، ان تاریخوں کو ہم نمبروار ذکر کرتے ہیں۔
(۱) اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور خلافت میں ۸۸ ھ میں ان کی پیدائش ہوئی۔(۶)
(۲)عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کے عہد میں ۱۵۷ ھ میں امام اوزاعی کی وفات ہوئی۔(۷)
(۳)امام محمد بن حسن کی تاریخ پیدائش: ۱۳۲ھ(۸)
(۴)امام محمد بن حسن کی تاریخ وفات: ۱۸۷ ھ (۹)
(۵)امام ابوحنیفہ کی تاریخ وفات: ۱۵۰ ھ(۱۰)
(۶) خلیفہ ہارون رشید کا تخت خلافت پر بیٹھنا: ۱۷۰ھ (۱۱)
(۷) ابوحفص کبیر کا سن ولادت: ۱۵۰ ھ(۱۲)
(۸) ابوحفص کبیر کا سن وفات: ۲۱۷ ھ(۱۳)
اس واقعہ کی فروگزاشتیں اور تناقضات
امام سرخسی نے شرح السیر الکبیر میں اپنے شاگردوں کے سامنے السیر الکبیر کی تصنیف کے سلسلہ میں جو قصہ بیان کیا اس میں کئی متناقض باتیں اور واشگاف تاریخی غلطیاں ہیں ، انھیں ہم ترتیب وار بیان کرتے ہیں۔
پہلی بات: اس واقعہ سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام اوزاعی امام محمد بن حسن سے واقف نہیں تھے، ان کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا، حالانکہ امام شیبانی امام اوزاعی کے وفادار شاگرد تھے، انھوں نے امام اوزاعی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اور ان کے چشمۂ شیریں سے سیراب ہوئے جیسا کہ انھوں نے امام ابوحنیفہ امام مالک بن انس امام سفیان ثوری وغیرہ سے بھی استفادہ کیا، امام محمد بن حسن شیبانی کا امام اوازاعی کا شاگرد ہونا تذکرہ وتراجم کی مستند کتابوں میں درج ہے، اس کا تذکرہ امام ذہبی نے اپنی کتاب مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ(۱۴ )میں اورسمعانی نے کتاب الانساب (۱۵)میں اور حافظ ابن حجر نے تعجیل المنفعۃ (۱۶)میں کیا ہے۔
بعض معاصر محققین نے ذکر کیا ہے کہ امام محمد بن حسن شیبانی نے دوسال اپنے استاذ امام اوزاعی سے استفادہ کیا، استاذایسے شاگرد سے کیسے ناواقف ہوگا جس نے پورے دو سال اس سے استفادہ کیا ہو اور وہ بھی اس زریں دور میں جب کہ اساتذہ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ تعلق اسی طرح ہوتا تھا، جس طرح والدین کا اپنی اولاد سے ہوتا تھا۔
حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی (متوفی۱۳۶۶ھ)نے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کی مشہور کتاب اعلاء السنن پر اپنے مقدمہ( فوائد فی علوم الفقہ ص ۲۶۰)میں امام محمد بن الحسن الشیبانی کے تذکرہ میں لکھا ہے:
’’واما الحدیث فقد سمعہ من أبی حنیفۃ أو ابی یوسف و غیرھما من مشائخ کثیرۃ بالکوفۃ و البصرۃ والمدینۃ ومکہ والشام وبلاد العراق بل جمع الی علم ابی حنیفۃ وابی یوسف علم الاوزاعی والثوری ومالک رضی اللہ عنھم حتی صار اماماً لایبلغ شأوہ فی الفقہ قویا فی التفسیر والحدیث حجۃ فی اللغۃ باتفاق اھل العلم ممن لم یصب بتعصب۔‘‘(۱۷)
ترجمہ: جہاں تک فن حدیث کا تعلق ہے تو انھوں نے حدیث ابوحنیفہ اور ابویوسف اور کوفہ،بصرہ، مدینہ ، مکہ ، شام بلاد عراق کے بہت سے مشائخ سے سنی، بلکہ انھوں نے ابوحنیفہ اور ابویوسف کے علم کے ساتھ اوازعی ، ثوری اور مالک رحمہم اللہ کے علم کو بھی جمع کرلیا، حتی کہ وہ ایسے امام ہوگئے کہ فقہ میں ان کے مقام تک نہیں پہونچا جاسکتا ، تفسیر و حدیث میں قوی تھے، اہل علم کا اتفاق ہے کہ وہ لغت میں حجت تھے۔
دوسری بات: امام سرخسی کی تصریح کے مطابق السیر الکبیر فقہ میں امام محمد بن حسنؒ کی آخری تصنیف ہے، امام سرخسی کے ذکرکردہ قصے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امام محمد نے یہ کتاب امام اوزاعی کی زندگی میں لکھی، کتاب کو شہرت حاصل ہوئی اور یہ کتاب امام اوزاعی تک پہونچی انھوں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا اور مولف کتاب کی تعریف کی، تاریخی مصادر قصہ کے اس حصے کا انکار کرتے ہیں، کیوں کہ امام اوزاعی کی وفات ۱۵۷ھ(۱۸) میں ہوئی اور اس وقت امام محمد بن حسن شیبانی کی عمر کل پچیس سال تھی، کیونکہ ان کی پیدائش ۱۳۲ھ(۱۹) میں ہوئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام محمد اپنی فقہی تصنیفات سے جو بڑی تعداد میں ہیں پچیس سال عمر ہونے سے پہلے ہی فارغ ہوچکے تھے، یہ بہت بعید بات ہے کیونکہ امام محمد بن حسن شیبانی کی وفات ۱۹۸ھ میں ہوئی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام اوزاعی کی وفات کے بعد مزید بتیس سال زندہ رہے اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ انھوں نے اپنی تمام فقہی کتابیں امام اوزاعی کی وفات سے پہلے تصنیف کرڈالیں تو سوال یہ ہے کہ اس بتیس سال کی طویل مدت میں ان کی تصنیفی کارکردگی کیا رہی؟
تیسری بات: امام سرخسی کے بیان کے مطابق امام محمد بن حسن شیبانی نے السیر الکبیر ابوحفص الکبیر کے عراق سے واپسی کے بعد تصنیف کی اسی لئے ابوحفص کبیر نے امام شیبانی سے اس کتاب کی روایت نہیں کی اب ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ابوحفص کبیر کی تاریخ ولادت کیا ہے ؟ ان کے عراق کا سفر کرنے اور عراق سے واپس کا زمانہ کیا ہے؟
امام حفص کبیر( احمد حفص العجلی الکبیر) کے تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی ولادت ۱۵۰ھ (۲۰)میں ہوئی اور ظاہر ہے ان کا تحصیل علم کے لئے ماوراء النہر سے عراق جانا اسی وقت ہوا ہوگا جبکہ وہ بالغ ہوچکے ہوں یا بلوغ کی عمر کے قریب ہوں تو اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماوراء النہر سے عراق کا سفر کیا اور یہ بھی فرض کرلیں کہ امام محمد کی خدمت میں کم ازکم پانچ سال رہے کیوں کہ وہ امام محمد کے مخصوص ترین تلامذہ میں سے تھے، اور مورخین کے بیان کے مطابق ایک مدت تک وہ ان کی صحبت میں رہے تو ان کی عراق سے واپسی ۱۷۱ھ میں ہوگی اور سیر کبیر کی تصنیف اس کے بعد ماننی پڑے گی،تو امام اوزاعی جن کی و فات ۱۵۷ھ میں ہوئی ان تک امام محمد کی السیر الکبیر کیسے پہونچ سکتی ہے اور اس کی وہ تعریف کیسے کرسکتے ہیں؟
چوتھی بات:امام محمد بن حسن شیبانی اپنی کتاب کتاب السیر الکبیر کی تصنیف سے خلیفہ عباسی ہارون رشید کے دور خلافت میں فارغ ہوئے جیسا کہ تاریخی مصادر سے اور خود امام سرخسی کے بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسماعیل بن توبہ قزوینی خلیفہ ہارون رشید کے بچوں کے اتالیق تھے جیسا کہ یہ بات عبدالقادر قرشی کی الجواہر المضیئۃ اور عبدالکریم قزوینی کی اخبار قزوین اور تاریخ و تراجم کی دوسری کتابوں سے معلوم ہوتی ہے اور خلیفہ ہارون رشید ۱۷۰ ھ (۲۱)میں تخت خلافت پر بیٹھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام اوزاعی ایسی کتاب پر مطلع ہوں اور اس کے مصنف کی تعریف کریں جو کتاب ان کی وفات پر کم از کم چودہ سال گزرنے کے بعد تصنیف کی گئی۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ امام محمد بن حسن شیبانی کی السیر الکبیر امام اوزاعی کی زندگی میں تصنیف نہیں ہوئی، بلکہ ان کی وفات پر کافی زمانہ گزرنے کے بعد یہ کتاب تصنیف ہوئی، لہٰذا امام اوزاعی کا اس کتاب پر مطلع ہونا اور اس کی تعریف کرنا ایک افسانوی واقعہ ہے جو امام سرخسی کے ذہن میں جاگزیں ہوگیا تھا اور انھوں نے اپنے شاگردوں کو اوزجند کی جیل میں شرح السیر الکبیر املاء کرانے کے دوران اسے املاء کرادیا تھا۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ کہانی تاریخ و تراجم کی کتابوں میں داخل ہوگئی اور لوگوں نے تحقیق وتجزیہ کئے بغیر اسے ایک دوسرے سے نقل کیا، حتی کہ یہ کہانی ان کتابوں میں راہ پاگئی، جو مدارس و جامعات میں تدریس کے لئے طے پائی ہیں، مثلا علامہ محمد امین بن عابدین شامی نے اس واقعہ کو اپنی کتاب ’’شرح عقود رسم المفتی‘‘ میں ذکر کیا ہے، اور یہ کتاب اسلامی مدارس و جامعات کے شعبۂ فقہ و افتاء میں خاص طور سے پڑھائی جاتی ہے۔
اسی طرح اس کہانی کا ذکر تھوڑی تبدیلی کے ساتھ عالم اسلام کے مشہور محقق ڈاکٹررواس قلعہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’موسوعۃ فقہ عبدالرحمن الاوزاعی ‘‘ میں کیا ہے، ڈاکٹر رواس قلعہ جی کا بڑا احسان ہے کہ انھوں نے اپنی عمر فقہ سلف کی جمع وترتیب میں لگائی ، متعدد صحابہ ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کی فقہی آراء وا جتہادات کو انھوں نے اپنی مختلف موسوعات میں جمع کیاہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی ’’موسوعہ فقہ عبدالرحمن الاوزاعی‘‘ ہے۔
ڈاکٹر رواس قلعہ جی کے یہاں اس واقعہ کا ذکر
ڈاکٹر رواس قلعہ جی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتے ہیں:
لقد کان کتاب السیر وھو المعروف بالسیر الصغیر الذی وضعہ ابوحنیفۃ اقدم ما صنف فی السیر وقداملیٰ ابوحنیفہ ھذاالکتاب علی اصحابہ ؛ ابی یوسف و محمد بن الحسن الشیبانی وزفربن الہذیل واسد بن عمرو الحسن بن زیاد اللولوی وغیرہم۔
وبعد وفاۃ ابی حنیفۃ وقع کتاب السیر الذی رواہ محمد بن الحسن عن ابی حنیفۃ بیدالاوزاعی فنظر فیہ وقال لمن ھذاالکتاب ؟ فقیل لمحمد بن الحسن العراقی فقال: مالاھل العراق والتصنیف فی ھذاالباب؟ فانہ لاعلم لھم بالسیرو مغازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واصحابہ ، کانت من جھۃ الشام والحجاز دون العراق فانھا محدثۃ فتحاً۔
بلغت مقالۃ الاوزاعی محمد بن الحسن فغاظہ ذلک و فرغ نفسہ حتی صنف کتابہ ’’شرح السیر الکبیر‘‘ ولما نظر فیہ الاوزاعی قال: لولاتضمنہ من الاحادیث لقلت :انہ یضع العلم من عند نفسہ وان اللہ عین جھۃ اصابۃ الجواب فی رایہ وصدق اللہ : وفوق کل ذی علم علیم۔
ثم امر محمدبن الحسن ان یکتب ھذالکتاب فی ستین دفترا وان یحمل بالعجلۃ الی باب الخلیفۃ، فقیل للخلیفۃ : ان محمدا قد صنف کتابا یحمل علی العجلۃ الی الباب، فاعجبہ ذلک وعدہ من مفاخر ایامہ فلما نظر فیہ الخلیفۃ ازداد اعجابہ۔ ثم بعث اولادہ الی مجلس محمد بن الحسن لیسمعوا منہ ھذاالکتاب وکان اسماعیل بن توبہ القزوینی مؤدب اولاد الخلیفۃ فکان یحضر معھم لیحفظھم۔(۲۲)
کتاب السیر جو سیر الصغیر کے نام سے معروف ہے، اسے امام ابوحنیفہ نے تصنیف کیا ہے، یہ سیرت کی قدیم ترین کتابوں میں سے ہے اور امام ابوحنیفہ نے یہ کتاب اپنے شاگردوں ابویوسف محمد بن حسن شیبانی، زفر بن ہذیل ، اسد بن عمر، حسن بن زیاد لولوی وغیرہم کو املاء کرائی۔
امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد کتاب السیر جس کی روایت محمد بن حسن شیبانی نے امام ابوحنیفہ سے کی تھی امام اوزاعی کے ہاتھ لگی، انھوں نے اس کا مطالعہ کیا، اور پوچھا کہ یہ کس کی کتاب ہے، جواب دیا گیا کہ محمد بن حسن عراقی کی ہے، امام اوزاعی نے فرمایا: اہل عراق کو اس باب میں تصنیف کا کیا حق ہے؟کیونکہ انھیں سیر کا علم نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے غزوات شام و حجاز میں ہوئے ناکہ عراق میں عراق تو جلد فتح ہوا ہے۔
امام اوزاعی کی یہ بات امام محمد بن حسن کو پہونچی تو انھیں غصہ آیا تو انھوں نے اپنے آپ کو فارغ کرلیا، یہاں تک کہ اپنی کتاب شرح السیر الکبیر لکھی اور جب امام اوزاعی نے اس کا مطالعہ کیا تو فرمایا کہ اگر یہ کتاب احادیث پر مشتمل نہ ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص اپنی جانب سے علم وضع کرتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ نے اس کی رائے میں صحیح جواب دینے کا پہلو متعین فرمادیا ہے، اور اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ ہر علم والے کے اوپر علم والا ہے۔
پھر امام محمد بن حسن نے حکم فرمایا کہ یہ کتاب ساٹھ دفتروں میں لکھی جائے اور گاڑی پر رکھ کر خلیفہ کے دروازے تک پہونچائی جائے خلیفہ سے عرض کیا گیا کہ امام محمد نے ایک ایسی کتاب لکھی ہے جو گاڑی پر لاد کرآپ کے دروازے تک لائی گئی ، خلیفہ نے اسے پسند فرمایا اور اسے اپنے دور خلافت کے قابل فخر کارناموں میں شمار کیا اور جب اس کا مطالعہ کیا تو اس کی پسندیدگی مزید بڑھی تو اپنے بچوں کو امام محمد سے یہ کتاب سننے کے لئے ان کی مجلس میں بھیجا اور اسماعیل بن توبہ قزوینی خلیفہ کے بچوں کے اتالیق تھے وہ بھی بچوں کے ساتھ حاضر ہوتے تھے تاکہ ان کی نگہداشت کریں۔
ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے اس قصہ کا ذکر کرتے ہوئے کشف الظنون جلد دوم صفحہ ۱۰۱۳ اور کتاب الام ج۱ ص ۱۰۱ کا حوالہ ہے۔
مجھے یہ قصہ کتاب الام میں نہیں ملا،کشف الظنون کے مولف نے اس قصہ کا ذکر کیا ہے، لیکن اس قصہ کا ذکر کرنے والے تمام حضرات کا ماخذ امام سرخسی ہیں جن کی شخصیت پر اعتماد کرتے ہوئے لوگوں نے اس قصہ کو نقل کیا باوجود یکہ اس قصہ کی تائید عقل ونقل کسی سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں داخلی طور پر ایسی چیزیں موجود ہیں جو اس کے بطلان کو واضح کرتی ہیں۔
ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے غالبا سبقتِ قلم سے السیر الکبیر کے بجائے ’’شرح السیر الکبیر‘‘لکھ دیا ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی کے یہاں مذکورہ بالا واقعہ کا ذکر
الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ علامہ شامی نے آداب افتاء پر اپنی مشہور کتاب شرح عقود رسم المفتی میں امام سرخسی کے حوالے سے اس قصہ کو نقل کیا ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے ابن عابدین شامی کی عبارت بھی یہاں من و عن پیش کردی جائے:
وذکر الامام شمس الائمۃ السرخسی فی اول شرحہ علی السیر الکبیر: ھو آخر تصنیف صنفہ محمد فی الفقہ۔ثم قال:وکان سبب تألیفہ: أنَّ ”السیر الصغیر” وَقَعَ بید عبد الرحمن بن عمروالأوزاعی عالم أہل الشام، فقال: لمن ہذا الکتاب؟ فقیل: لمحمد العراقی، فقال: ما لأہل العراق والتصنیف فی ہذا الباب؟ فإنَّہ لا عِلْمَ لہم بالسیر ومغازی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وأصحابہ، کانت من جانب الشام والحجاز دون العراق فإنہا مُحدثۃ فتحاً، فبلغ ذلک محمداً، فغاظہ ذلک، وفرغ نفسہ حتی صنف ہذا الکتاب فحکَی أَنَّہ لما نظر فیہ الأوزاعی قال: لولا ما ضمنہ من الأحادیث لقلتُ: إنہ یضع العلم، وإن اللہ تعالی عَیْنَ جَہَۃَ إصابۃ الجواب فی رأیہ، صدق اللّٰہ العظیم: وفوق کل ذی علم علیم۔‘‘
ثُمَّ أَمَرَ محمَّدٌ أنْ یُکتبَ ہذا فی سِتِّینَ دَفتراً وأن تُحْمَلَ علی عجلۃ إلی باب الخلیفۃ، فأعجبہ ذلک، وعدَّہ من مفاخر زمانہ۔(۲۳)
امام سرخسی کے حوالے سے امام محمد کی کتاب السیر الصغیر اور کتاب السیر الکبیر کے تصنیفی پش منظر کے سلسلہ میں امام اوزاعی کا جس طرح ذکر ہوا اور جس کو بہت سے مصنیفن نے اپنی کتابوں میں بلا تحقیق درج کرلیا، اس کا مختلف وجوہ سے باطل ہونا واضح ہوچکا ہے پھر اس قصہ مین السیر الصغیر پر امام اوزاعی کی جو تنقید ذکر کی گئی ہے وہ خود اس قصہ کے نادرست ہونے کی گواہی دیتی ہے، لیکن یہاں ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ’’سیر‘‘ کے موضوع پر امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ نیز امام اوزاعی اور ان کا دفاع کرنے والوں کے درمیان علمی بحث و مناقشہ ایک ثابت شدہ علمی واقعہ ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرہ نگار متفق ہیں کہ امام صاحب نے اپنے شاگردوں کو سیر کے موضوع پر ایک رسالہ املاء کرایا تھا، جس کی روایت ان سے ان کے متعدد تلامذہ(امام ابویوسف، امام زفر، امام محمد وغیرہ نے کی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ یہی ’’کتاب السیر‘‘ بروایت محمد امام اوزاعی کو پہنچی ہو، اس کی تردید میں امام اوزاعی نے اپنی کتاب ’’الرد علی سیر ابی حنیفۃ‘‘ تصنیف کی اور اس کتاب کا تنقیدی جائزہ امام ابویوسف نے اپنی کتاب ’’الرد علی سیر الاوزاعی‘‘ میں لیا جو دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے شائع ہوچکی ہے اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب کا جائزہ امام شافعیؒ نے لیا ہے جو ان کی مشہور کتاب الا م میں شامل ہے۔(الکتاب الام،سیرالامام الاوزاعی ،ج۱۰،ص:۲۳۷۔۳۵۱،تحقیق:ڈاکٹراحمد بدرالدین حسون، ط: دارقتیبہ دمشق،پہلاایڈیشن ۱۹۹۶ء مطابق ۱۴۱۶ھ)
امام سرخسی کے حوالہ سے علامہ ابن عابدین شامی نے ’’السیر الصغیر‘‘کے بارے میں امام اوزاعی کے جس تاثر اور ردعمل کا ذکر کیا ہے وہ اس لئے بھی مخدوش ہے کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے بہت کمزور ہے، امام اوزاعی جیسا صاحب کمالات و فضائل مجتہد اور محدث جس کی اسلامی علوم پر گہری نظر تھی وہ ایسی کمزور اور بے بنیاد بات نہیں کہہ سکتاہے، چنانچہ حضرت مولانا ابوالوفاء افغانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابویوسف کی کتاب ’’الرد علی سیر الاوزاعی‘‘ کے مقدمہ تحقیق میں لکھا ہے کہ امام اوزاعی کا کہنا کہ اہل عراق کو سیر کا علم نہیں ہے الی آخرہ ممنوع ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے غزوات جس طرح حجاز و شام میں ہوئے اس طرح عراق میں بھی ہوئے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عراق پر حملہ کیا ، پھر وہ شام میں داخل ہوئے، اور خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو عراق اور فارس کی طرف روانہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جن صحابہؓ نے شام اور دوسرے ممالک کے غزوات میں شرکت کی ان میں سے بہت سے حضرات نے کوفہ میں رہائش اختیار کی اور انہیں سے اہل عراق نے یہ علم سیکھااور طبقہ در طبقہ یہ سلسلہ جاری رہا اور اہل عراق کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے مغازی اور سیر کے احکام سے واقف ہونے کے لئے یہ لازم بھی نہیں ہے کہ وہ لوگ ان صحابہ کے ساتھ حجاز اور شام کے غزوات میں موجود رہے ہوں، کیونکہ سیر و مغازی کا علم ان لوگوں کے سینوں سے لیاجاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اورآپ کے بعد خلفائے راشدین کی خلافت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے، خواہ وہ غزوات کسی بھی ملک میں ہوئے ہوں ، حجاز، شام، عراق، مصر ، فارس، روم ، افریقہ، ہند، ترک، یا کسی دوسرے ملک میں ہوئے ہوں، ’’حارثی نے اپنی مسند میں قاسم بن معن عن ابی حنیفۃ عن الھیثم عن عامر شعبی کی سند سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت عامر شعبیؒ غزوات کے بارے میں بیان کرتے اور حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سنا کرتے تھے، ایک مرتبہ انھوںنے حضرت عامر شعبی کی غزوات سے متعلق گفتگو سن کر فرمایاکہ یہ شخص اس طرح بیان کررہا ہے گویا وہ ان غزوات میں خود شریک رہا ہو،طبرانی نے ثقہ راویوں کی سند سے یہ روایت کی ہے کہ امام شعبی غزوات کے بارے میں حدیث بیان کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ان کے پاس سے اس وقت گذر ہوا جبکہ آپ (عامر شعبی) مغازی سے متعلق حدیث بیان کررہے تھے تو آپ (ابن عمرؓ)نے فرمایا: یقیناً یہ شخص غزوات سے متعلق حدیثوں کو مجھ سے زیادہ محفوظ کئے ہوئے ہے، اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں میں نے شرکت کی ہے‘‘ اور امام شعبی فن سیر و مغازی میں امام اعظم کے استاذ ہیں تو پھر علم سیر میں قلت علم کی اس طرح کی بے بنیاد باتوں کا الزام امام ابوحنیفہ پر کس طرح لگایا جاسکتا ہے؟(۲۴)
امام ابویوسفؒ اور امام محمد ؒ کے تعلقات کے بارے میں بے بنیاد باتیں
امام ابویوسف (۱۸۲ھ) اور امام محمد(۱۸۷ھ) کے تعلقات کے بارے میں بھی علامہ سرخسی نے بعض ایسی باتیں بے سند لکھی ہیں جو کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں، حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی (۱۳۶۶ھ) جو ایک بڑے محقق اور نقاد عالم تھے، انھوں نے علامہ سرخسی کا مقام و مرتبہ ملحوظ رکھنے کے ساتھ ان باتوں پر سخت تنقید کی ہے، اور ان کا بالکل بے وزن اور بے بنیادہونا واضح کیا ہے، اعلاء السنن کے ایک مقدمہ میں جو حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی کے قلم سے ہے وہ تحریر فرماتے ہیں:
بطلان کلام السرخسی فی سبب حدوث الجفاء بینہما:
واتضح بذلک بطلان ما ذکرہ السرخسی فی شرح السیر من سبب حدوث الجفاء بینہما، فکلہ خرافۃ یتحاکاہا بعض الأخبار یین بدون سند، وہی أقصوصۃ اجتماع أہل العلم حول محمد بن الحسن وازدحام المتفقہۃ بمجلسہ ببغداد بعد أن تولی أبویوسف القضاء وحسد أبی یوسف لہ، وبلوغ صیت محمد الی الرشید ورغبۃ الرشید فی مجالستہ وتقریبہ وتدبیر الی یوسف إبعاد محمد من مجلس الرشید بأن قال لہ:’’ إن بمحمد سلس البول لایستطیع معہ اطالۃ الحدیث بالمجلس‘‘، وقال لمحمد:’’ ان الرشید سریع الملل‘‘ وأوصاہ بالقیام عن المجلس عندما یشیر الیہ الی آخر الروایۃ المصنوعۃ الموضوعۃ۔
فمثل الی یوسف فی جاہہ العریض وعلمہ الواسع ودینہ المتین ووفرۃ التلامیذ وکثرۃ المؤلفات وکتاب الأمالی لہ وحدہ فی نحو ثلاثمأۃ جزء ا کما یرویہ ابوالقاسم العامری کیف یحسد تلمیذہ فی کثرۃ جماعتہ؟ وعزتہ عزتہ و شہرتہ شہرتہ بل کان ذلک موضع أن یفتخر بہ وأیضا فمتی کان محمد ببغداد إلی أن أشخصوہ للقضاء، فکیف یری أبویوسف فی بغداد کثرۃ المترددین إلی مجلسہ حتی یغیظہ ذلک ویحسدہ؟ ثم کیف یختلق علیہ مرضا لم یکن بہ قط؟ فہل بلغ بأبی یوسف الحمق إلی أن یکذب ویعرض نفسہ للافتضاح اذا انتدب الرشید طبیبا یداوی مرض محمد وعدد الأطباء ببابہ کثیرا ولم یذکر فی القصۃ أن الرشید کان أحبہ، ثم کیف یشیر علیہم بجعلہ قاضی الرقۃ وہی عاصمۃ الصیف لخلفاء بنی العباس وفی ذلک غایۃ القرب الی مجالس الخلفاء؟ علی أن عادۃ محمد فیما یرویہ عن أبی یوسف بعد ہذا التجافی أن یقول: ’’حدثنی الثقۃ‘‘ یرید أبا یوسف فکیف یمکنہ ان یصف أبایوسف بالثقۃ علی تقدیر صدور تلک المخازی منہ۔
وہکذا تکون الأکاذیب فی الغالب مصحوبۃ بما یظہر اختلاقہا فان الکذوب لا یحفظ ،فالأمر ما ذکرہ ابن ابی العوام الحافظ بسندہ لا ما ذکرہ السرخسی بلا سند وما کان یحق لمثلہ فی فضلہ ونبلہ أن یملی مثل ہذہ الأخلوقۃ من کوۃ جبہ علی تلامیذہ ولا صحۃ لہا مطلقا ،لا یذکرہا الا بعض الأخباریین الذین یدونون الأقاصیص بدون سند لمجرد التسلیۃ عند السمر حتی لا یوجد شیء من ہذا القبیل فی کتب الخصوم قبل السرخسی وھم سراع الی اذاعۃ مثلھا ولو کانوا ظفروا بھا لطاروا بھا کل مطار واذا ھی کذلک فلا شک فی کذبھا واختلافھا، ھی الکذب من ای النواحی اتیتھا۔
ولعل عذر السرخسی فی ذلک انہ کان فی المجلس بعیدا عن الکتب وإنما کان علی ما یملیہ عن ظہر القلب وکانت تلک القصہ علقت بذھنہ من قبل من بعض کتب الاسمار ولم یتسع وقتہ لتمحیصہا، وکنا نعہد منہ جبلا من جبال العلم لا یتزحزج فی أبحاثہ العلمیۃ فعز علینا أن نراہ علی مثل ہذہ الأخلوقۃ المکشوفۃ فی کتابہ الخالد، ولکن ابی اللہ ان یصح الاکتا بہ کما قال الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ ولایبعد ان یکون ذلک مدسوسا علیہ فی کتابہ فقل ما سلم عالم من الدس فی کلامہ ۔ واللہ أعلم‘‘ (۲۵)
امام ابویوسف اور امام محمد کے درمیان دوری پیدا ہونے کے سلسلہ میں سرخسی کے کلام کا باطل ہونا اسی سے واضح ہوگیا جس کو سرخسی نے السیر الکبیر کی شرح میں ان دونوں ائمہ کے درمیان دوری پیداہونے کے سبب کے طور پر بیان کیا ہے یہ پورا واقعہ خرافات پر مشتمل ہے جسے بعض قصہ گو بلاسند کے نقل کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابویوسف کے منصب قضا سنبھالنے کے بعد امام محمد بن حسن کے پاس اہل علم کا جمگھٹا ہونے لگا اور بغداد میں ان کی مجلس میں فقہ سیکھنے والوں کا اژدحام ہوگیا، اور اس کی وجہ سے امام ابویوسف ان سے حسد کرنے لگے اور امام محمد کی شہرت خلیفہ ہارون رشید تک پہونچی اور ہارون رشید کو ان سے ہم نشینی اور انھیں قریب کرنے کا شوق پیدا ہوا اور امام ابویوسف نے امام محمد کوہارون رشید کی مجلس سے دور رکھنے کی یہ تدبیر کی کہ خلیفہ سے کہا کہ محمد بن حسن کو سلس البول کا مرض ہے، اس مرض کی وجہ سے وہ مجلس میں دیر تک نہیں بیٹھ سکتے اور امام محمد سے کہا کہ خلیفہ ہارون رشید جلدی اکتا جاتے ہیں ، اس لئے جب اشارہ کیا جائے تو آپ خلیفہ کی مجلس سے اٹھ جائیں اسی طرح کی اور بہت سی باتیں اس موضوع روایت میں شامل ہیں۔
امام ابویوسف کو جنھیں عظیم جاہ و منصب حاصل تھا، ان کو اللہ نے جس قدروسیع علم عطا فرمایا تھا اور وہ دین متین پر مضبوطی سے قائم تھے، ان کے بے شمارتلامذہ تھے کثیر تصانیف تھیں، تنہا ان کی کتاب الامالی ابوالقاسم عامری کی روایت کے مطابق تین سو اجزاء میں تھی وہ کیسے اپنے شاگرد سے اس بات پر حسد کریں گے کہ ان کی طرف رجوع بڑھ گیا ہے جب کہ امام محمد کی عزت خود ان کی عزت اور امام محمد کی شہرت خود ان کی شہرت ہے بلکہ ان کے لئے یہ چیز قابل فخر تھی کہ ان کے خاص شاگرد کو عزت و شہرت ملے؟دوسری بات یہ ہے کہ امام محمد بغداد میں کہاں تھے؟ انھیں تومنصب قضاکے لئے بغداد میں طلب کیا گیا، وہ بغداد میں ہوتے تو شاید یہ بات سمجھ میں آتی کہ ان کی مجلس میں کثرت سے آنے والوں کو دیکھ کر انھیں غصہ اور حسد ہوتا، پھر امام ابویوسف امام محمد کے بارے مین ایسی بیماری کیسے گڑھ سکتے تھے جو ان میں تھی ہی نہیں، کیا نعوذباللہ امام ابویوسف کو اتنی ناسمجھی سوار ہوگئی تھی کہ وہ جھوٹ بولیں اور اپنی رسوائی کا سامان کریں، کیونکہ خلیفہ ہارون رشید کسی طبیب کو بلا کر امام محمد کے مرض کا علاج کراسکتا تھا، خلیفہ کے دربار میں اطباء کی بہت کثرت تھی، قصہ میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ خلیفہ رشید امام محمد کو چاہتا تھا۔ (اگر امام ابویوسف امام محمد سے ناراض اور ان کے بدخواہ تھے)تو وہ ہارون رشید کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے تھے کہ امام محمد کو’’رقہ‘‘کا قاضی بنادے جو کہ خلفاء بنو عباس کا موسم گرما کا پایہ تخت تھا، اور اس طرح وہ خلفاء کی مجالس سے انتہائی قریب ہوجاتے؟ علاوہ ازیں تعلقات میں دوری پیدا ہونے کے بعد امام محمد کی یہ عادت تھی کہ وہ امام ابویوسف سے روایت کرتے ہوئے ان کا نام لینے کے بجائے ’’حدثنی الثقۃ‘‘(مجھ سے ایک معتبر شخص نے بیان کیا) کہتے اور ثقہ سے مراد امام ابویوسف کو لیا کرتے تھے، یہ کیسے ممکن ہے کہ بالفرض امام ابویوسف سے ان گھٹیا حرکتوں کے صادر ہونے کے بعد امام محمد انھیں ثقہ کہہ سکیں۔
اس طرح کی جھوٹی روایات میں اکثر وبیشتر ایسی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں جو ان کے جعلی ہونے کو ظاہر کرتی ہیں، اس لئے کہ جھوٹے شخص کو یاد نہیں رہتا، لہٰذا ان دونوں حضرات کے درمیان دوری کے سلسلہ میں صحیح بات وہی ہے جس کو حافظ ابن العوام نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے، وہ چیز درست نہیں ہے جس کو سرخسی نے بلاسند ذکر کیا ہے، سرخسی جیسے فاضل اور عظیم شخص کے لئے صحیح نہیں تھا کہ یہ گھڑا ہوا قصہ اپنے شاگردوں کو املا کریں جس میں کوئی صحت نہیں ہے، اس کا تذکرہ بعض قصہ گو ہی کرتے ہیں اور کہانیوں کو سند کے بغیر مدون کرتے ہیں تاکہ شب خوابی کے وقت ان سے جی بہلایا جائے، ان میں سے کوئی چیز حنفیہ کے مخالفین کی کتابوں میں بھی سرخسی سے پہلے نہیں ملتی ہے، حالانکہ انھیں اس طرح کی باتیں پھیلانے کا شوق تھا اگریہ چیزیں ان کو ملتیں تو ہر جگہ اس کو پھیلاتے، لہٰذ اس قصہ کے جھوٹا ہونے اور گھڑے ہوئے ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، تمام پہلووں سے یہ قصہ جھوٹا ہے۔
شاید اس سلسلے میں سرخسی کا عذر یہ ہے کہ وہ اپنی مجلس املا میں کتابوں سے دور تھے، کتابوں سے مراجعت کے بغیر جو کچھ دل و دماغ میں تھا اس کا املاء کرائے تھے، ہوسکتا ہے کہ یہ قصہ شب خوابی کی قصہ کہانیوں کی بعض کتابوں سے ان کے ذہن میں پیوست ہوگیاہواور انھیں اس کی چھان بین کا موقع نہ ملا ہو، امام سرخسی کوہم ان کے علمی بحثوں میں علم کا عظیم پہاڑ پائے ہیں جو بحثوں میں ڈگمگائے نہیں ہیں، ہمارے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ ان کی شاہکار کتاب میں ہم اس طرح کا کھلا ہوا تراشیدہ قصہ دیکھیں ،لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ’’اللہ کو یہ بات منظور نہیں کہ ان کی کتاب کے سوا کوئی کاتب مکمل طور پرصحیح ہو، یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ یہ قصہ ان کی کتاب میں بعد میں شامل کردیا گیا ہو بہت ہی کم علماء کے کلام اس طرح کی دسیسہ کاری سے محفوظ رہ پائے ہیں۔
علامہ شیخ زاہدالکوثری نے بھی اپنی کتاب بلوغ الامانی فی سیرۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی میں تفصیل سے امام سرخسی کے ذکر کردہ قصہ پر سخت تنقید کی ہے اور اسی طرح امام محمد کے تعلق سے بعض دوسرے فرضی واقعات کا جوابوں کے ساتھ رد کیا ہے۔(۲۶)
حواشی:
(۱)ملاحظہ ہو: ابن عساکر کی کتاب تاریخ دمشق ، حرف العین ، ج۳۵ /ص ۱۳۶، دارالفکر بیروت
(۲)ملاحظہ ہو: حوالۂ بالا
(۳)ملاحظہ ہو: علامہ عبدالحئی لکھنوی کی کتاب : الفوائد البھیۃ ص ۲۶۱، شرکۃ دارارقم بیروت
(۴)’’شرح السیر الکبیر‘‘ازشمس الائمۃ محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی(المتوفیٰ ۴۸۳ھ) مقدمۃ الشارح، ص ۳،۴
(۵)شرح السیر الکبیر ج۱/ص۳-۴ مقدمہ کتاب
(۶)تاریخ دمشق،ابن عساکر، حرف العین، ج۳۵/۱۵۶، دارالفکر بیروت / امام ذہبی سیر اعلام النبلاء ج۷/ ص: ۱۰۹، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(۷)ملاحظہ ہو: سابق حوالہ
(۸)امام ذہبی ، سیراعلام النبلاء ، ج۹ / ص ۱۳۵، موسسۃ الرسالۃ بیروت
(۹)ملاحظہ ہو، حوالہ بالا ص ۱۳۶
(۱۰)الانساب، ابوسعد عبدالکریم بن محمد بن منصور السمعانی ، ج۷/ ص ۲۵۱، مکتبۃ ابن تیمیہ القاہرۃ
(۱۱) ملاحظہ ہو ابن عساکر کتاب تاریخ دمشق ج۶/۴۴۵، مطبع دارالفکر بیروت
(۱۲)ملاحظہ ہو: امام ذہبی کی کتاب سیر اعلام النبلاء ج۱۰/ص ۱۵۸، موسسۃ الرسالۃ بیروت
(۱۳)ملاحظہ ہو: حوالہ ٔبالا ص ۱۵۹
(۱۴) مناقب الامام ابی حنیفہ وصاحبیہ، امام ذہبی ص ۷۹، لجنۃ احیاء المعارف النعمانیۃ حیدرآباد، الھند
(۱۵) کتاب الانساب سمعانی ج۳/ص۴۸۳، دارالفکر بیروت
(۱۶)تعجیل المنفعۃ ، ابن حجر عسقلانی ،ج۲/ ص ۱۷۵، دارالبشائر بیروت
(۱۷)فوائد فی علوم الفقہ ص۰ ۲۶ للشیخ مولانا حبیب احمد الکیرانوی، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱۴۱۴ھ
(۱۸)ملاحظہ ہو :حاشیہ۲
(۱۹)ملاحظہ ہو :حاشیہ۲
(۲۰)تعجیل الامنفعۃ ص ۳۶۱، اور ملاحظہ ہو: امام ذہبی کی کتاب سیر اعلام النبلاء ج۱۰/۱۵۸
(۲۱)ملاحظہ ہو :حاشیہ ۱۱
(۲۲)موسوعۃ فقہ ابی عبدالرحمن الاوزاعی
(۲۳)شرح عقود رسم المفتی ، ص ۷۹، ۸۰
(۲۴)الرد علی سیر الاوزاعی ص ۳ ، پہلا ایڈیشن طبع لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد
(۲۵)مقدمات اعلاء السنن فوائد فی علوم الفقہ ص ۲۸۰-۲۸۱
(۲۶) ملاحظہ ہوشیخ زاہد الکوثری کی کتاب بلوغ الامانی فی سیرۃامام محمد بن الحسن الشیانی کے پہلے ایڈیشن کے صفحات ۳۷ تا ۳۹، نیز صفحات۲۹ تا ۳۴