فتاویٰ عالمگیری

فتاویٰ عالمگیری

ترتیب وتالیف، مصنفین ومرتبین، طباعتیں اورترجمے

                                                                                            مولانانورالحسن راشد کاندھلوی

                                                                                                         مفتی الہی بخش اکیڈمی،کاندھلہ

برصغیرہند پاکستان میں مسلمانوں کی فقہ حنفی سے وابستگی اور اس کے مطابق مسائل پر عمل کرنے اور زندگی گزارنے کی روایت پرانی ہے، بہت پرانی، اسی قدر جس قدر برصغیر ہند میں اسلامی حکومت وانتظام قائم ہونے کی تاریخ !

سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان کو،فتح کرکے ، یہاں پہلی اسلامی حکومت کی بنیادرکھی تھی، اسی وقت سے یہاں فقہ حنفی کی آبیاری بھی شروع ہوگئی تھی، سلطان محمودغزنوی خودبڑے عالم محدث ، مفسر اور فقیہ تھے، ان کی اور تصانیف کے علاوہ فقہ حنفی پر بھی ایک عمدہ کتاب یادگار تھی، محمودغزنوی کے بعد سلطان محمد غوری نے دوبارہ جنگی قوت سے محمود کے کام کو آگے بڑھایا، جس کی نیابت شمس الدین التمش نے کی،ہندوستان میں التمش سے پہلے مرتب فقہی تصانیف کا سراغ نہیں ملتا، محمودغزنوی کے عہد کی صرف ایک فقہی تالیف’ مجموعۂ سلطانی‘ہے، جو فارسی میں ہے اور ۴۲۱ھ؁ [۱۰۳۰ء] میں تالیف ومرتب ہوئی تھی، ہمارے دور تک موجودومعلوم ہے، اورکئی مرتبہ چھپ بھی چکی ہے،اس کے علاوہ تقریباً دو صدیوں تک کوئی اور فقہی مجموعہ دریافت نہیں، مگر التمش کے بعد جو تصانیف ومؤلفات کا سلسلہ رواں ہوا، وہ آج تک رواں دواں ہے۔ اس دور کی لکھی ہوئی اہم کتابوں کے تذکرہ کی بھی اس مختصر تحریر میںگنجائش نہیں ہے، مگر محمود کے آخری دور، تقریباً ۴۰۰ھ؁[۱۰-۱۰۰۹ء۔]سے آخر عہد مغلیہ ۷۳-۱۲۷۲ھ؁[۱۸۵۷ء]تک جوپچیس تیس کتابیں، مصنفات اور مجموعے ایسے ہیں جن کوہندوستان کے اہم علمی فقہی باقیات میں شمار کیاجاتاہے، افسوس کہ اس مختصر تحریر میں ان کے اجمالی تعارف کا بھی موقع نہیں، یہاں صرف عہدمغلیہ کی ایک بہت اہم، معروف اور ممتاز فقہی یادگار، فتاویٰ ’’فتاویٰ عالمگیریہ یا فتاویٰ ہندیہ‘‘ کے حوالہ سے چند معلومات پیش کی جارہی ہیں:

اورنگ زیب عالمگیر

 مغل خاندان کے حکمرانوں میں ،اورنگ زیب عالمگیر اپنی سادہ زندگی ، نظام مملکت وحکومت کی نگرانی، بہترین عدل وانتظام، جنگی مہارت اور بڑے بڑے لشکروں کی قیادت وسالاری، اعلیٰ درجہ کی حکمت عملی، فتوحات ، ملک کے اندرونی نظام اور ضروریات پر وسیع مبصرانہ نگاہ ،اس کی روشنی میں دوراندیشانہ اقدامات،رعایا اور تمام قوموں کے ساتھ یکساں عدل وانصاف اورایسی عالی اقدار وحدود کی حکومت، جس میں غریب امیر، مسلم وغیر مسلم کسی کے لئے شکایت کاموقع نہ ہو، مگر اس نظام کے اساس کن ضوابط اوراس کے اصول وقوانین کیاہوں اوراس ملک میں کس کورہنما اور اساس بنایا جائے۔

 برصغیر میں فقہ حنفی کے ماننے والوں کی واضح اکثریت ہونے کی وجہ سے،خصوصاً مسلمانوں کے لئے فقہ حنفی کے قواعد اور اصول وضوابط کی روشنی میں ہی کام کیا جاسکتاتھا۔

 اورنگ زیب عالمگیر نے نظام مملکت سنبھالنے کے ساتھ ہی اس پر عمل کا اہتمام کیااور پورے ملک ومملکت میں تمام قاضیوں اور فتویٰ دینے والے اصحاب کو، اس کی ہدایات جاری کردی گئی تھیں اور سب ہی قاضی، مفتی اور حاکمان وقت، فقہ حنفی کے مطابق احکام جاری کرنے اور فیصلے لکھنے لگے تھے۔

 یہ نظام اگر چہ پورے ملک میں جاری ہوگیا تھا مگراس پر عمل میں ایک بڑی مشکل اورپیچیدگی سامنے آئی جس نے خاصے انتشار کی صورت اختیار کرلی تھی، کہ اگرچہ قاضی اور مفتی صاحبان ،فقہ حنفی کی روشنی میں فیصلے لکھ رہے تھے، صادر کررہے تھے، مگر ا ن کے ذرائع علم اور مآخذ، فقہ واحکام، الگ الگ ہوگئے تھے، کسی عالم ومفتی کاکسی کتاب پر اعتماد تھا، وہ اس کے مطابق فتوے اور فیصلے تحریر فرماتے تھے، دوسرے مفتی صاحب کاماخذ ومرجع دوسری کتاب تھی وہ اس کو معتبر ومستند جان کر اس کی روشنی میں اپنے احکامات لکھتے تھے، تیسرے مفتی اورحاکم کے مستدلات ان دونوں سے الگ ہوتے تھے، اس لئے ان کے فیصلے اور فتوئوں میں اورانداز جھلکتاتھا، یعنی فقہی مسلک کے کامل اتحاد کے باجود، مختلف زمانوں کے بڑے مصنفین اور مجموعہائے فتاویٰ کے اختلافات ، جائز،ناجائز، مکروہ غیر مکروہ، حسن اور احسن وغیرہ جیسے جزوی اختلافات کی وجہ سے، فتاویٰ مختلف ہوجاتے تھے۔ چوں کہ ان کے سامنے موجود کتابوں میں وہی کچھ لکھا ہوا تھا، جو انہوں نے اپنے فتوئوں اوراحکامات میں درج کیا، اس لئے ان کو خطاکار بھی نہیں کہا جاسکتاتھا، ان پر کوئی الزام بھی نہیں دھرا جاسکتا تھا، مگر اس کی وجہ سے فیصلوں کی ترتیب ویکسانیت اورنظام عدل وانصاف متأثر ہورہا تھا۔ لہٰذا ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک ایسی کتاب یا بڑا مجموعۂ فقہ وفتاویٰ مرتب کیا جائے، جس میں غیرمعتبر، کمزور اقوال وروایات نہ ہوں،ائمہ فقہائے احناف کے اصول اور تفریعات کی سادہ آسان وضاحت وتعبیر ، سادہ آسان زبان میں اس طرح ہو کہ جس سے ہراک عالم اور قاضی بلا تأمل استفادہ کرکے، اس سے اخذ ونقل کرسکے ۔ تمام عدالتوں میں اسی ایک معتبر کتاب کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں ، اوراسی کو بنیاد بناکر تمام اصحاب فقہ وفتاویٰ اپنی تحریرات مرتب فرمائیں ، مسائل سے آگاہی بخشیں اور فتاویٰ جاری کریں ۔

 سلطان اورنگ زیب عالمگیر نے اس ضرورت کو بہت شدت سے محسوس کیاکہ، تمام فتاویٰ میں یکسانیت کے لئے ایک بڑی جامع، دستاویزی کتاب یاایسے مجموعۂ فتاویٰ کی ترتیب وتدوین ہونی چاہئے، جس کے نسخے تمام حکام وعمال اور سب قاضیوں اور علماء کے سامنے موجود رہیں اوروہ اسی کتاب کی روشنی میں اپنے فیصلے اور فتوے صادر فرمائیں۔بادشاہ کو اس خیال واحساس نے ایک بڑی کتاب کی تالیف وتدوین پر متوجہ کیا،جس کے لئے ایک بڑا اوروسیع منصوبہ بنایاگیا اور اس کی جزوی ترتیب وتفصیل تک، تمام گوشوں پر غور وفکر کرکے عمل میں لانے کا ارادہ کرلیاگیا۔ عالمگیر کے مشہور درباری مؤرخ، محمد ساقی مستعد نے لکھاہے:

کافۂ اہل اسلام بمعنی بہا مسائل علمائے مذاہب حنفی علمایند ، ومسائل مذکورہ درکتب فقہ بسبب اختلاف قضاۃ ومفتیان باد، آیات ضعیفہ واقوال مختلفہ آنہا مخلوط است، ومع ہذا مجموع آں را یک کتاب حاوی نیست وتاکتب بسیار فراہم نیاید، کس را استحضارے دانی ودستکاہی وسیع ومنیع کافی درعلم فقہ نباشد واستنباط نمی تواندنمود۔(۱)

ترجمہ: اکثر مسلمانان اپنی ضرورت ومسائل میں مذہب حنفی پر عمل کرتے ہیں اور فقہ کی کتابوں میں جو مسائل درج ہیں ،وہ قاضیوں اور مفتیوں میں اختلاف ،روایات ضعیفہ اور مختلف اقوال میں ملے ہوئے ہیں، جب تک بہت کتابیں حاصل نہ ہوں، کسی کو بھی، ان کااستحضار اوران کے مندرجات پر وسیع اور کافی معلومات نہیں ہوںگی اور [ان روایات واختلافات کی وجہ سے]کسی مسئلہ میں بھی علمی تحقیق اور صحیح استنباط نہیں کیا جاسکتا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کو زمانۂ شہزادگی سے ہی، اس اختلاف وانتشار کااندازہ اور خاصاعلم تھا۔اس کے نقصانات اوراس سے نظم وانتظام حکومت پر، پڑنے والے اثرات کا مشاہدہ ہوچکا تھا، اس لئے جیسے ہی اورنگ زیب تخت نشین (۲)ہوئے ، زمام حکومت ان کے ہاتھ میں آئی ، اسی وقت سے نظام قضات اور فقہ وفتاویٰ کے درست کرنے اوراس کو ایک ترتیب کے تحت لانے پر توجہ فرمائی اورجن معاملات وامور کو خاص توجہ اوراہتمام سے، اپنی خاص نگرانی میں مکمل کرایا، ان میں فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتدوین بھی ہے۔

آغاز تالیف

فتاویٰ عالمگیر ی کی تالیف کی ابتداء،اورنگ زیب عالمگیر کے، دسویں سال یعنی جلوس۱۰۷۸ھ؁[۶۸-۱۶۶۷ء] کے غالباً آخری مہینوں میں ہوئی۔اس مجموعۂ فتاویٰ کی تالیف وتدوین کے لئے اورنگ زیب نے ممتاز علمائے کرام اور اہل فقہ وفتاویٰ کی جماعت تشکیل کی، اس مقصد کے لئے علماء کا جو انتخاب ہوا، اس کی واضح تفصیلات کسی ایک جگہ دستیاب نہیں، صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ اس کے لئے اول چند بڑے علماء نامزد کئے گئے تھے، انہونے متوقع ، فتاویٰ عالمگیری کی تالیف وترتیب ،مباحث وابواب کی غالباً مفصل درجہ بندی کی، متعلقہ عنوانات کو جلدوں کے لحاظ سے تقسیم ومرتب کیا اور ان سب علماء کو جو اس کی تشکیل اور تقسیم ابواب وعنوانات میں شریک اور نمایاں تھے، ان جلدوں یا حصوں کو تقسیم کردیاگیااوران کوان جلدوں،حصوں کی تالیف کے لئے ذمہ دار بنادیا گیا اور ہراک کو،اپنے کام میں تعاون اور تلاش وترتیب کے لئے، علمی معاونین اور ماتحت علماء رکھنے ،مقرر کرنے کی بھی اجازت دیدی گئی۔

 اس پورے نظام کے سربراہ، اوراس کی تالیف وتحریر میں مشغول علماء کے سرپرست اور ذمہ دار، اس دور کے ایک بہت ممتاز عالم اور فقیہ، شیخ نظام برہان پوری بنائے گئے تھے۔ اور اس وقت کے اکثر مؤرخین خصوصاً معاصر مؤرخ محمد ساقی مستعد نے لکھاہے:

وسرکردگیٔ ایں مہم بہ قدوۂ فضلائے امام شیخ نظام تفویض یافت(۳)

ترجمہ: اس اہم کام کی نگرانی وذمہ داری ، فاضلوں کے سربراہ اور امام، شیخ نظام [برہان پوری] کے سپرد ہوئی۔

شیخ نظام نے اپنے فاضل ترین رفقاء اور معاونین پر کام تقسیم کردیا تھا، یہ پانچ علماء تھے، جنہوں نے اس ذمہ داری کو قبول فرمایا اور اس کو آگے بڑھاکر مکمل کیا۔ مولانا عبدالحی حسنی نے نقل کیا ہے کہ:

’’الشیخ نظام الدین البرہان پوری  ولاہ تدوین الفتاویٰ العالم گیریۃ وترتیبہا، باستخدام الفقہاء الحنفیہ، وولی أربعۃ رجال تحت أمرہ، فقسم أرباعہا علی أربعتہم:أحدہم:قاضی حسین جون پوري المحتسب، وثانیہم: السید علي اکبر سعد اللّٰہ خاں،وثالثہم: الشیخ حامد الجون فوري، ورابعہم: المفتی محمد اکرم اللاہوری۔(۴)

علماء کے مراتب اور ان کے ماتحت اصحاب

درج اصحاب کے علاوہ اور بھی ممتازفاضلین اور اہل نظراس خدمت کے بڑے ذمہ داروں میں شامل تھے، جیسے علامہ شیخ جلال الدین مچھلی شہری، جلداول کی ترتیب وتالیف ان کے سپرد کی گئی تھی،(۵)ایک چوتھائی کتاب کی تصنیف وترتیب کے لئے مولانا شیخ محمدحسین جونپوری ذمہ دار تھے،(۶)اور مولانا شیخ اکرم لاہوری بھی ایک چوتھائی کے (۷)ان سب کے معاونین بھی کام کرتے رہے۔کسی کے دو، کسی کے چارنائب تھے، سب سے زیادہ معاونین شیخ وجیہ الدین گوپاموی کی نیابت وتعاون کے لئے تھے، ان کے ماتحت اس مقصد کے لئے دس علماء کام کرتے تھے (۸) اور علماء کے بھی دو، تین یازیادہ معاون ومددگار تھے، سلطان عالمگیر نے ان کے علاوہ کئی علماء اور اصحاب کمال کو، اس خدمت وتالیف میں شرکت اور تعاون دینے کے لئے مقررونامزد کیاتھا۔ 

شریک علماء کی کل تعداد

 ایسے علماء کی کل کیا تعداد تھی، اس کی صراحت نہیں ملی، اکثر مؤرخین اور تذکرہ نگاروں نے تیس سے چالیس تک علماء کا تذکرہ کیا ہے،لیکن عموماً جو نام شمار کرائے گئے ہیں یا ہمیں ملے ان کی تعداد چالیس تک بھی نہیں پہنچتی، اس سے قطع نظر برصغیر ہند کے ایک بڑے عالم، مصنف، محدث، فقیہ اور مترجم، علامہ سید امیرالدین محدث ملیح آبادی نے، شرکائے فتاویٰ عالمگیریہ کی تعداد پانچ سوتک لکھی ہے۔ملیح آبادی فرماتے ہیں:

’’ پس سلطنت کی سرپرستی میں خزانۂ وافی جس کی تعداد کثیر کا احاطہ علم الٰہی میں ہے، اس کارخیر میں صرف کرکے، متعدد نسخ، وصحاح اصول اور بیشمار معتبر کتب وشرح، ائمہ، وفتاویٰ مشائخ وتالیفات کو کمال احتیاط ووثوق کے ساتھ جمع فرماکر، ان علماء کی جماعت عظیم کو، جن کی تعداد کم ترایک سو کی پانچ گونہ، یعنی پانچ سو ۔۔۔۔۔ہے، یہ نوادر جواہر یعنی کتب فقہ وشریعت تفویض فرمائیں‘‘(۹)

اراکین ترتیب فتاویٰ عالمگیری کے نام

ہمیں شرکائے تالیف کی اس بڑی تعداد میں سے صرف چند علمائے کرام کے نام دستیاب ہوئے، جو حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق یہاں درج کئے جارہے ہیں:

۱۔مفتی ابوالبرکات دہلوی(۱۰)

۲۔ملا ابوالواعظ ہرگامی (۱۱)

۳۔قاضی ابو الخیرٹھٹھوی(۱۲)

۴۔علامہ ابوالفرح (۱۳)

۵۔شیخ احمد بن ابوالمنصور گوپاموی(۱۴)

۶۔ مفتی محمد اکرم لاہوری (۱۵)  وفات:۱۰۹۴ھ؁[۸۳-۱۶۸۲ء]

۷۔مولانا محمد جمیل جونپوری(۱۶)  وفات:۶؍ رجب ۱۱۲۳ھ؁[۱۷۱۱ء]

۸۔مولانا جلال الدین مچھلی شہری(۱۷)

۹۔مولانا حامد جونپوری(۱۸)

۱۰۔ قاضی محمد حسین جونپوری(۱۹)  وفات:۱۰۷۶ھ؁[۶۶-۱۶۶۵ء]

۱۱۔قاضی محمد دولت فتح پوری (۲۰)

۱۲۔شیخ رضی الدین بھاگل پوری(۲۱)

۱۳۔مولانا محمد شفیع  (۲۲)

۱۴۔ شاہ عبدالرحیم دہلوی (۲۳) وفات:۱۲؍صفر۱۱۳۱ھ؁[۹-۱۷۱۸ء]

۱۵۔ قاضی عبدالصمد جون پوری (۲۴)

۱۶۔ مولانا عبدالفتاح صمدانی  (۲۵)

۱۷۔قاضی عصمت اللہ لکھنوی (۲۶)وفات:۱۲؍رجب ۱۱۱۳ھ؁[۰۲-۱۷۰۱ء]

۱۸۔سید علی اکبر سعداللہ خانی (۲۷)وفات:۱۰۹۰ھ؁[۱۶۷۹ء]

۱۹۔ شیخ محمد غوث کاکوروی (۲۸) وفات:۱۱۱۸ھ؁[۱۷۰۶ء]

۲۰۔ ملاغلام محمد لکھنوی (۲۹)

۲۱۔ مولانا محمد فائق  (۳۰)

۲۲۔ملافصیح الدین پھلواری(۳۱) 

۲۳۔میر سید قنوجی (۳۲) وفات:۱۱۰۱ھ؁[۹۰-۱۶۸۹ء]

۲۴۔ ملاوجیہ الرب (۳۳)

۲۵۔شیخ وجیہ الدین گوپاموی(۳۴)

۲۶۔ شیخ نظام برہان پوری (۳۵)  [جو سربراہ کار اور بنیادی ذمہ دار تھے]

۲۷۔سید نظام الدین ٹھٹھوی (۳۶) 

مرتبین فتاویٰ عالمگیری کے سلسلہ میان کے علاوہ بھی چند اورنام ملتے ہیں، مگر معتبر علمی ذرائع سے ان کی تصنیف وترتیب فتاویٰ عالمگیری میں شرکت کی تصدیق نہیںہوئی، اس لئے ان کے نام درج نہیں کئے۔

مرتبین فتاویٰ عالمگیری کی تنخواہیں

ان میں سے ہرایک کی تنخواہ مقرر تھی، کسی کی تین روپیہ روزانہ، کسی کی دوروپئے ، کسی کی ایک روپئے، ایک دو صاحبان کی ڈھائی روپئے اور بعض اصحاب کی آٹھ آنہ روزبھی تھی۔

نقد تنخواہوں کے علاوہ مزید سہولت اور مستقبل کی ضروریات پوراکرنے کے لئے جاگیریں اور زمین جائیداد عطا کرنے کا بھی مستقل معمول تھا، مختلف تذکروں اور تحریرات میں ایسے کئی فرامین درج ہیں، جو اس خدمت میں شرکت اور حصہ لینے کی وجہ سے، بادشاہ [اورنگ زیب عالمگیر] کے دربار سے جاری ہوئے تھے۔

تصنیف کا مقابلہ اور بادشاہ کی مراجعت ومطابقت

 ترتیب فتاویٰ عالمگیری کے لئے جو علماء بڑے ذمہ دار بنائے گئے تھے، اوران پر اس کی جلدیں یا ابواب تقسیم ہوئے تھے، وہ اپنی اپنی جگہوں پر، اس کی تالیف وترتیب میں مشغول رہتے اور اپنا اپنا کام ، مولانا شیخ نظام برہان پوری کی خدمت میں روانہ کرتے رہتے تھے، شیخ نظام اس کو دیکھتے، پڑھتے اور اس میں جوترمیم واضافہ مناسب خیال کرتے، عمل میں لاتے تھے اور جب اس کی طرف سے اطمینان ہوجاتا۔ تواس کو ملاحظۂ شاہی کے لئے پیش کیا جاتا تھا، ہفتہ میں تین راتوں میں بادشاہ کے ساتھ محفل قرأت وسماعت منعقد ہوتی تھی ،سلطان مولانا نظام کے ساتھ بیٹھ کر، اس کو سنتے، ملاحظہ کرتے اور اس میں جو کمی زیادتی ہوتی، یا جس حذف واضافہ اورترمیم کی ضرورت محسوس کی جاتی ، اس پر بات ہوتی اور اس کے بعد یہ باب یا عنوان مکمل شمار کرلیا جاتا تھا۔ بختاور خاں کے حوالہ سے مؤلف نزہۃ الخواطر نے لکھاہے کہ:

’’وکان یذاکرہ في إحیاء العلوم والفتاویٰ العالم گیریۃ وبعض کتب السلوک، ثلاثۃ أیام في کل أسبوع‘‘ (۳۷)

کام کی تقسیم اوراس کے ذمہ داران

سلطان کے سامنے عالمگیری کا ابتدائی متن یا مسودات پیش کرنے والے علماء میں سرفہرست فتاویٰ عالمگیری کے نگراں اور سرپرست، شیخ نظام برہان پوری، اور میر سید محمدقنوجی کے نام آتے ہیں، بادشاہ کا ہفتہ میں تین دن، شب میں عالمگیری کے مسودات کی سماعت اور اور ان کی تحقیق وتکمیل کامعمول تھا، متن کی ترتیب کے علاوہ عبارات کی مشکلات اور ان کی بعض خامیوں پر اورعلماء کے ساتھ نشست ہوتی تھی اوربعض پیچیدہ عبارتوں اور مسائل کی تنقیح اور وضاحت کی جاتی تھی، اس کے لئے اور علماء بھی تعاون فرماتے تھے۔(۳۸)

سلطان اورنگ زیب عالم گیرفتاویٰ عالم گیریہ کے مسودہ کو کس قدر توجہ سے سنتے اور پڑھتے تھے اور اس کی باریکیوں پر نگاہ رکھتے تھے اور سلطان کی اس میں نظر کس قدر تیز تھی اورکس قدر دور تک جاتی تھی، اس کااندازہ حضرت شاہ ولی اللہ کے والد ماجد مولانا شاہ عبدالرحیم کے ایک واقعہ سے ہوتاہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ کے والد ماجد، شاہ عبدالرحیم کے قلم سے، ایک تصحیح کا قصہ

مولانا شاہ عبدالرحیم بھی کچھ وقت کے لئے مجلس تصنیف وفتاویٰ عالمگیری کے رکن رہے تھے،شاہ ولی اللہ نے ان کی روایت سے اس کاتذکرہ کیاہے۔ شاہ عبدالرحیم فرماتے تھے کہ میں ایک دن فتاویٰ عالمگیری کے ایک مسودہ [باب] پر نظرثانی کررہاتھا دیکھا کہ نقل میں غلطی ہوگئی ہے، دو عبارتیں یا مسئلے مل گئے ہیں ، مخلوط ہوگئے ہیں، تو میں نے اس عبارت کو درست کردیا اور اس کے حاشیہ پر لکھ دیا :

من لم یتفقہ في الدین قد غلط فیہ، ہذا غلط وصوابہ ہکذا۔

بعد میں جب یہ اوراق یا مسودہ اپنے وقت پر ملاحظۂ سلطانی کے لئے پہنچا اور مولانا شیخ نظام برہان پوری نے، سلطان کے سامنے پڑھا، شیخ نظام نے اصل مسودہ کی عبارت اور مولانا شاہ عبدالرحیم کا یہ فقرہ، ایک ساتھ پڑھ دیا، سن کر سلطان چونکے اور مولانا نظام سے سوال کیا، یہ کیا قصہ ہے: شیخ نظام نے فرمایا کہ میں اس کا مطالعہ نہیں کرسکا، اس کے متعلق کل کچھ عرض کرسکوں گا۔ شیخ نظام گھر واپس آئے تو ملا حامد پر ناراض ہوئے کہ میںنے یہ جلد تمہارے اعتماد پر چھوڑدی تھی، تم نے مجھے بادشاہ کے سامنے شرمندہ کرایا، اس وقت تو ملاحامد خاموش رہے، کچھ نہیں کہا بعد میں مولانا شاہ عبدالرحیم سے اس کا ذکر کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ کیا تھا، یہ میں نے تصحیح کی تھی، مگر مولانا نظام سے اس کے پڑھنے میں کچھ سہو ہوگیا۔(۳۹)

چند اور علماء جوشرکائے تصنیف کی مشکلات حل کرتے تھے

اطلاعات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ تصنیف وترتیب کے لئے موجود علمائے کرام کے علاوہ چند ایسے افاضل علماء بھی فتاویٰ عالم گیری کے مرتبین کی مشکلات حل کرنے کے موجود رہتے تھے۔ علی شیر قانع ٹھٹھوی نے سید نظام الدین ثانی کے احوال میں لکھاہے :

’’درفتاویٰ عالمگیری بسا مشکل حل کردہ‘‘(۴۰)

مجموعی اخراجات

فتاویٰ عالمگیری کی تالیف وترتیب کے علاوہ اس کے کام، مطالعۂ مراجعت وغیرہ کے لئے، جو علمائے کرام، شاہی دربار میں طلب کئے جاتے تھے، ان کی تنخواہوں، یا یومیہ اجرت کے علاوہ اور مصارف بھی شاہی ہدایات کے مطابق اداکئے جاتے تھے، اسی لئے فتاویٰ کی تالیف وترتیب کاخرچ خاصا بھاری بھرکم ہوا۔ اورنگ زیب کے دربار میں موجود مؤرخ، محمد ساقی مستعد کی اطلاع ہے کہ:

’’وہم گی آں فریق بوظائف شائستہ ومواہب ارجمند کامیاب گشتہ، چنانچہ قریب دولک روپیہ صرف لوازم آں کتاب مستطاب کہ مسمیٰ بفتاویٰ عالم گیری است گردیدہ‘‘(۴۱)

ترجمہ: عمدہ وظیفوں اور شاہی عطایا کی وجہ سے ان سب لوگوں[علمائے کرام] کا تعاون اور مدد حاصل رہی، اس کی وجہ سے کتاب کی تالیف وتدوین اور اس کے متعلقات پر، جو فتاویٰ عالمگیری کے نام سے مشہور ہے، تقریباً دو لاکھ روپئے خرچ ہوئے‘‘

بعد کے تقریباً تمام ہی مؤرخین ومصنفین نے ، فتاویٰ عالمگیری پر مجموعی خرچ کی، یہی دو لاکھ کی صراحت کی ہے۔

زمانہ اور مدت تالیف

فتاویٰ عالمگیری کے متعلق اہل تاریخ نے لکھاہے ،کہ دسویں سال جلوس ۱۰۶۸ھ؁میں اس کی تالیف شروع ہوئی تھی،اس اطلاع کی دو مختلف ذرائع سے تصدیق بھی ہورہی ہے، مثلاً شیخ ابوالمنصور گوپاموی کے تذکرہ میں یہ صراحت ملتی ہے، کہ ان کو سلطان اورنگ زیب عالمگیرنے جائیداد عطافرمائی تھی، جو فتاویٰ عالمگیری میں شرکت اور تعاون کے لئے تھی۔ یہ فرمان ۱۱؍ذی الحجہ ۱۰۷۸ھ؁ [۶۸-۱۶۶۷ء]کو جاری ہواتھا، غالباً یہی فتاویٰ عالم گیری کا سنہ آغاز اور آغاز تصنیف وترتیب ہے۔

۱۰۷۸ھ؁[۶۸-۱۶۶۷ء] میں کتاب کی تدوین وآغاز کے بعد،اس منصوبہ اور تصنیف پر، بڑی توجہ اور خاصی تیزی سے کام ہوا۔ جمع وترتیب ، انتخاب وتلخیص ، تصنیف وتالیف کے علاوہ مراجعت، اصول،حل مشکلات اور آخری نظرکاکام ساتھ ساتھ چلتا رہاجو دوسال کی قلیل مدت میں ہر جہت سے کامل اور تیار ہوگیا تھا اور ۱۰۸۰ھ ؁[۷۰- ۱۶۶۹ء] کے بظاہر آخری دنوں میں اس کے تمام کاموں اورمرحلوں کا اختتام ہوگیاتھا۔

نسخۂ مؤلفین کی نقلیں

جب فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتالیف بالکل مکمل ہوگئی اور اس کا آخری مبیضہ یا نسخۂ مصنفین، بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیاگیا،تو بادشاہ نے اس کی نقلیں تیار کرنے اور ملک کے ممتاز اہل علم، قاضیوں اور حاکموں کو بھیجنے کے احکامات جاری کئے۔ اس طرح اس کتاب کا مطالعہ اور اس سے نقل واستفادہ پورے برصغیرمیں عام ہوگیا تھا اور آہستہ آہستہ یہ کتاب یا مجموعۂ فتاویٰ، ملک کا مرجع فقہ وفتاویٰ بن گیاا، اسی کا اثر ہے کہ آج تک ہندوپاکستان کے اکثر کتب خانوں اور ذاتی ذخیروں کے علاوہ، یورپ، ممالک عربیہ اور ترکی کے کتب خانوں میں بھی، عالم گیری کے خطی نسخے خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں مکمل نسخے تو کم ہیں مگر مختلف جلدیں یانا تمام نقلیں کثرت سے ہیں۔ جس میں خود اورنگ زیب کے زمانۂ حکومت کے مکتوبہ نسخے بھی ہیں۔

نسخۂ مصنفین گذشتہ صدی تک موجودتھا

 لیکن ان تمام نسخوں اور نقلوں سے بڑھ کر وہ نسخہ تھا، جس کو نسخۂ مصنفین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس نسخہ کا تمام نسخوں پر امتیاز اوراس کے متن کی اہمیت وصداقت اور نسخوں سے بہت بڑھ کر ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کایہ نسخۂ مصنفین، علامہ شبلی نعمانی نے مرادآباد [یوپی] کے ایک ذاتی مگر بہت وقیع ،تاریخی ذخیرہ، کتب خانہ خانوادۂ قاضیان مرادآباد میں ۱۹۱۰ء [۱۳۲۸ھ؁]میں دیکھاتھا۔ علامہ شبلی نعمانی نے ،مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام ایک خط میں لکھا ہے :

’’اس وقت مرادآباد میں ہوں، یہاں ایک قدیم خاندان قضاۃ کا ہے، ان کے ہاں شاہی کتب خانہ کی متعدد کتابیںہیں، عالم گیری کی ایک جلد مسودۂ مصنفین ہے، لیکن یہ ان کا بیان ہے، آج منگواکر دیکھوںگا۔(۴۲)

فتاویٰ عالمگیری مقاصد اور امتیازات

عالمگیری، جو اس اہتمام سے علماء کی ایک بڑی جماعت کی محنت وکاوش سے مرتب ہوئی اورجو اس بڑے ملک کے تمام قاضیوں ، حاکموں کے لئے بطور رہنما اور بنیادی دستاویز کے لئے لکھی گئی تھی، اس لئے بلاشبہ اس کے اس وقت عام معمول ومعروف ، ہندوستانی فقہی مصنفات سے خاصا فرق اور امتیاز ہوگا،جس کا ا س کے تمام مصنفین ومرتبین کو خوب علم اور گہرا احساس ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری کی چندخصوصیات

 اس قدر اہم اور بڑی کتاب میں اگرخود ان پہلوئوں کی وضاحت ہوتی، تو اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہ رہتی اور وہی تحریر یا دیباچہ، تمام پڑھنے والوں کے لئے مفید ومستند مأخذ ثابت ہوتا، لیکن اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ضرورت ہے کہ اس کی چند خصوصیات اور طریقۂ تالیف وانتخاب کا کچھ ذکر کردیا جائے۔

فتاویٰ عالمگیری اپنی کچھ خصوصیات میںفقہی مجموعوں سے ممتاز ہے، اس کے دیکھنے سے جو خاص پہلو سامنے آتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

الف: یہ صرف ایک شخص، یا دوچار علماء کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ فقہائے حنفیہ کی ایک بڑی جماعت کی محنت ہے۔ عالمگیرنے جن علمائے کرام کو اس کی ترتیب وتالیف کے لئے منتخب کیا تھا، وہ اس دور کے علمی میدانوں میں بہت عالی مقام تھے،زہد وتقویٰ اور تدین وپارسائی میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا، انہوںنے کمال محنت اوربہت عرق ریزی سے یہ اہم فریضہ انجام دیاتھا ۔ اس لئے اس میں فقہی غلطیوںکا امکان کم ہے، تاہم اس کے مندرجات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔

ب:ہندوستان میں علم فقہ کی یہ پہلی مفصل ایسی کتاب ہے، جو ایک بڑے حکمراں بادشاہ کی ذاتی دلچسپی اور ہدایات کی روشنی میں لکھی گئی اور اس پرپورے ملک میں عمل بھی ہوا۔یہ کتاب کئی بار کتابت وطباعت کی منزلوں سے گذری ،اس کے فارسی ، اردو،انگریزی زبانوں میں ترجمے کئے گئے، اس کے مضامین ومندرجات سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوئے۔ اگرچہ اس کتاب کے علاوہ بھی مختلف حکمرانوں کے دور میں، فقہاء نے فقہی موضوعات پر عمدہ کتابیں لکھیں اورفقہ پر بہترین مجموعے مرتب فرمائے، جو اس دور کے حکمرانوںسے منسوب ہیں، لیکن ان میں سے اکثر تصانیف قبولیت عام سے محروم رہیں، ان میں سے بیشتر مجموعے اور مصنفات طباعت کے مرحلے سے نہیں گزرے، لیکن فتاویٰ عالمگیری اس میں بھی سب سے فائق ہے، اس کی تصنیف کے ساتھ ساتھ نقلیں کی گئیں اور شہرت عام نصیب ہوگئی تھی اوراس کو دنیا بھر کے فقہی حنفی سرمایہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

ج:      اس میں عبادات پرہی توجہ نہیں ہے، معاملات کی بھی ضروری تفصیل اوران کی جزئیات کا واضح تذکرہ ہے اور اہم مسائل پر قابل قدر اہم روشنی ڈالی گئی ہے۔

د: ہراک مسئلہ کے مأخذ کاحوالہ دیا گیاہے، اگرمسئلہ واضح کرنے والا اصل مآخذ [جس کا حوالہ دیا گیا] سامنے نہیں ہے،جس کی وجہ سے مسئلہ دوسری کتاب سے نقل کیا گیا ہے، تو ’’ناقلاً عن فلان‘‘ کا لفظ لکھ کر ، اصل مآخذ کاذکر کردیا ہے۔

ہ:اس میں جو مسائل درج ہیں،وہ فقہ حنفی کے مطابق راجح اور مفتی بہ ہیں یا ظاہرالروایۃ کے ہیں۔ یعنی یہ مسائل فقہ حنفی کی ان چھ معروف کتابوں سے اخذ کئے گئے ہیں، جو امام محمد کی تصنیف ہیں،فقہ حنفی کی اصطلاح کے مطابق ان ہی کو ظاہر الروایۃ سے تعبیر کیا جاتاہے۔ وہ یہ ہیں: جامع الکبیر، جامع الصغیر، المبسوط، الزیادات، السیرالکبیر اور  السیرالصغیر۔

و:فتاویٰ عالمگیری میں اس بات کا تقریباً التزام کیاگیا ہے، کہ ہر’’کتاب‘‘ کے شروع میں مسئلہ متعلقہ کے معنی ومطلب کی وضاحت کردی جائے، جیسے: کتاب الحوالۃ، کتاب الشہادات یا کتاب الوکالۃ وغیرہ سب کے آغاز میں ،اس کی ضروری صراحت ہے کہ حوالہ کے کیا معنی ہیں، شہادت کا کیا مطلب ہے اور وکالہ کسے کہتے ہیں۔

ز:اس کی ترتیب وہی ہے ، جو ہدایہ کی ہے۔

ح:      تمام مسائل پر اچھی بحث کرکے انہیں واضح کرنے میں احتیاط اور دانش مندی سے کام لیاگیا ہے ۔

ط:تکرار اور غیر ضروری چیزوں سے پرہیز کیاگیا ہے۔

ی:      غیر ضروری دلائل اور نظائر سے پاک ہے۔

ک: اکثر صورتوں میں احادیث وآراء کے واضح مفہوم کو ملحوظ رکھاگیاہے،شاذ ونادرصادر ہونے والے فیصلوں کو نظر انداز کردیاہے، اس صورت کے علاوہ کہ جب اس شاذونادر پر عمل کے علاوہ، اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجودہی نہ ہو۔

ل:      تمام حوالے مستند کتابوں سے دئیے گئے ہیں، اگر مستند کتب میں ایک ہی مسئلہ کے مختلف حل ہوں، تو اس صورت میں کسی ایک کو ترجیح دی گئی ہے اوراس کے ساتھ نئے دلائل کا اضافہ کردیاہے۔

 م: کتاب کے بڑے بڑے موٹے موٹے عنوانات، کتب حدیث وفقہ کی طرح، لفظ’’کتاب‘‘سے واضح اور علیحدہ کئے گئے ہیں۔ان میں سے کتاب اللقیط،کتاب اللقطۃ، کتاب الاباق اور کتاب المفقودکے علاوہ، باقی تمام عنوانات ومباحث کے لئے علیحدہ ابواب مقرر کئے گئے ہیں، ہراک باب میں ’’فصل‘‘ کے تحت کچھ ذیلی عنوانات قائم کرکے،اس مسئلہ سے متعلق بہت سے ضمنی مسائل کی وضاحت ہے۔ جیسے : کتاب الطہارۃ، سات ابواب پر مشتمل ہے، جنہیں باب اول، باب ثانی، باب ثالث، باب رابع میں تقسیم کرکے الگ الگ کیا گیا ہے، ان میں سے ہراک باب کے تحت کچھ فصلیں ہیں ،اگریہ فصلیں بھی ایک سے زائد ہیں، توان کو فصل اول ،فصل ثانی ، فصل ثالث سے ممتاز کیا گیا ہے ۔

ن :      مختصر یہ ہے کہ فتاویٰ عالمگیری ایک گلستان فقہ ہے، جس میں عبادات ومعاملات، دونوں پہلوئوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اور ہراک مسئلہ کے ہر گوشہ کو فقہی حوالوں سے منقح کیا گیا ہے۔ کسی حصے میں بھی تشنگی حتی الامکان باقی نہیں رہنے دی گئی۔

نسخۂ مصنفین میں تمہید یا اختتامیہ موجودنہیں   مگر تعجب ہے کہ ایسی مہتم بالشان تالیف ، جس کی تصنیف وتدوین پر بادشاہ وقت نے اس قدر توجہ کی، ملک بھر سے بڑے جلیل القدر علماء کو جمع فرمایا، ان کے مختلف زمرے متعین کئے اوراس پر بہت فیاضی سے بڑی رقم خرچ کی، مگر اس بڑی گراں قدر کتاب کے اول میں نہ آخر میں، ایسی کوئی تحریر ودیباچہ، مقدمہ یا اختتامیہ نہیںہے،جس سے اس کتاب کی تالیف وترتیب کے مقاصد،مرتبین کے طریقۂ کاراور متعلقہ سوالات کے جوابات پر کچھ روشنی پڑتی ہو اور کتاب کے مندرجات، مقاصد، ترتیب اور وجہ انتخاب کا کچھ اندازہ ہوتا ہو۔

یہ بات گذرگئی ہے کہ فتاویٰ عالمگیری کے آغاز واختتام پر، کہیں بھی ، اس خدمت وتالیف کے محرک سلطان اورنگ زیب عالمگیرکانام، ان کے کسی نائب و منشی یا کسی درباری کے قلم سے، تمہید یا اختتام کے عنوان سے ایک سطربھی موجود نہیں،شاید اسی کا خیال کرتے ہوئے اس کے مؤلفین ومرتبین گرامی نے بھی اس کا اظہار نہیں فرمایا۔ ہندوستان کی ابتدائی اور دوسری طباعت پرمصححین اور ناشرین کی، ایک ایک صفحہ کی وجہ اشاعت درج ہے، لیکن بولاق کی طباعتوں پر مطبع کےمصححین کے قلم سے دو تین تحریریں، کلمۂ آغاز ، اختتام اور عرض تصحیح کااضافہ ہے، یہی الفاظ بعض ہندوستانی طباعتوں میں بھی چھپ گئے ہیں، جن کی وجہ سے یہ غلط فہمی ممکن ہے کہ یہ تحریرمصنفین عالم گیری کی ہے،مگر یہ خیال صحیح نہیں، اس لئے اس پر توجہ ضروری ہے۔(۴۳)

عالمگیری کی سب سے پہلی طباعت

فتاویٰ عالمگیری کی دنیا بھر میں سب سے پہلی طباعت، مطبع تعلیمی[Education Press] کلکتہ کی ہے، اس مطبع نے عالمگیری کی طباعت کاکام ۱۸۲۷ء؁ [۱۲۴۴ھ؁]میں شروع کیا تھا، جو چار سال کی محنت وکاوش کے بعد، ۱۸۳۲ء [۱۲۴۸ھ؁] میں مکمل ہوا، یہ طباعت چار بہت ضخیم جلدوں پر مشتمل تھی۔(۴۴)

طبع ثانی ، کلکتہ۱۸۴۲ء[۱۲۵۶ھ؁]

 عالم گیری حال آں کہ چار بڑی جلدوں پر مشتمل خاصی بھاری بھرکم کتاب تھی اوراس وقت کی قوت خرید کے مطابق، اس کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی، مگراس طباعت اور کتابوں کی طرح بہت مانگ ہوتی ، اور یہ نسخہ بہت جلد ختم ہوکر تاجران کتب اور ناشرین کے یہاں سے ختم ہوگیا تھامگر اس کی طلب او رخریدار بہت تھے، اس لئے بنگال بلکہ ہندوستان کے ایک بڑے، وقیع علمی ادارہ، ایشیاٹک سوسائٹی [Asiatic Society]کلکتہ نے اس کی نئی طباعت کا فیصلہ کیا، اوراس کی تصحیح ونگرانی کے لئے جید علماء کی ایک جماعت کاانتخاب کیا، علمائے کرام کی اس جماعت نے، جس کے سربراہ مولانا محمد عبداللہ تھے، اس دوسری طباعت پر خاص توجہ کی، پہلی طباعت میں جو غلطیاں رہ گئی تھیں، ان کی تصحیح ونظرثانی کی، پوری کتاب پر نظرثانی فرمائی اور خاصی محنت کے بعد، ایشیاٹک سوسائٹی [Asiatic Society]کے سلسلۂ مطبوعات میں اس کی اشاعت ہوئی۔ تصحیح ونگرانی فرمانے والے تین ممتاز ومنتخب علماء تھے،یہ تینوں اس وقت کے برصغیر کے ممتاز علمی ادارے، مدرسہ مولوی محسن علی[بندرہوگلی] میں استاد تھے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

مولانا منصور احمد پورنوی، مولانا غلام مخدوم بلیاوی، اور مولانا ظہورالحسن پورنوی  تینوںنے عالم گیری کے متن کو طباعت کے ساتھ صحیح ومنقح کیا اور یہ نسخہ خاصے سلیقہ سے نسبۃً جلی حروف میں، سفید موٹے کاغذ پر چھپا۔عالمگیری کی بعد کی تمام طباعتوں کی اصل یہی کلکتہ کی دوسری طباعت ہے، اس لئے اس کا کسی قدر مفصل تعارف دیا جارہاہے۔

یہ طباعت بڑی پیمائش کی چھے جلدوں اور چارہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے، اس کی طباعت ۱۲۵۸ھ [۱۸۴۲ء] میں شروع ہوکر، ۱۲۵۱ھ؁[۱۸۳۵ء] میں مکمل ہوئی، ہراک کتاب کے آغاز پر، عربی میں کتاب کانام اور متعلقہ اطلاعات چھپی ہوئی ہیں، یہی اطلاعات آخری صفحہ پر انگریزی میں بھی ہیں۔

اس طباعت کا یوسف سرکیس اور دوسرے فہرست نگاروں نے بہت کم تذکرہ کیا ہے، اس لئے اس کا تفصیلی تعارف ملاحظہ ہو:

الفتاویٰ العالمگیریہ [الہندیہ]طبعۃ ایشیاتک سوسائتی ،کلکتہ

(۱)المجلدالأول[کتاب الطہارۃسےکتاب الطلاق تک]مطبوعہ۱۲۵۸ھ؁[۱۸۴۲ء]صفحات: ۷۶۳

(۲)المجلدالثانی[کتاب العتاق سےکتاب الوقف تک]مطبوعہ۱۲۵۸ھ؁[۱۸۴۲ء]صفحات: ۵۶۵

(۳)المجلد الثالث[کتاب البیوع سےکتاب الوکالۃ تک]مطبوعہ۱۲۵۹ھ؁[۱۸۴۳ء]صفحات: ۷۵۹

(۴)المجلد الرابع[کتاب الدعوی سےکتاب الاجارۃ تک]مطبوعہ جمادی الاخریٰ۱۲۴۸ھ ؁[اکتوبر ۱۸۳۲ء] صفحات:۷۵۹

(۵)المجلد الخامس[کتاب المکاتب سے کتاب الرہن تک]مطبوعہ ربیع الاول ۱۲۵۰ھ ؁[جولائی ۱۸۳۴ء] صفحات:۶۹۷

(۶)المجلدالسادس[کتاب الجنایات سےکتاب الفرائض تک]مطبوعہ رجب۱۲۵۱ھ؁ [اکتوبر ۱۸۳۵ء] صفحات:۶۶۷

فتاویٰ عالمگیری کی ایک قدیم اوریادگار طباعت

 کلکتہ کی طباعتوں کے بعد عالمگیری کی جو اشاعتیں جلوہ نما ہوئیں، ان میں سے ایک قابل توجہ اشاعت مطبع احمدی [باہتمام امو جان] دہلی کی ہے۔ یہ طباعت دہلی سے منشی محمد حسین کے اہتمام وانصرام سے چھپی تھی۔ منشی محمد حسین نے لکھاہے کہ پرانی طباعت کلکتہ کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں تھا، اس لئے میں نے علماء کی ایک جماعت سے نسخہ کلکتہ کی مزید تصحیح یا نظرثانی کرائی اور پہلی مرتبہ یہ اہم کتاب ٹائپ سے ہٹ کر باریک نسخ میں کتابت کرائی گئی ، اور طباعت کے عام [حجری] طریقہ پر شائع کی گئی۔

منشی محمد حسین کامرتب کرایا ہوا یہ نسخہ شعبان ۱۲۷۸ھ؁[فروری۱۸۶۲ء] میں دہلی کے ایک ممتاز اشاعتی مرکز ، مطبع مرزا امو جان، احمدی پریس شاہدرہ دہلی سے، عام کتابی پیمائش سے خاصے بڑے ناپ کے چھے حصوں پر مشتمل، دو بڑی جلدوں میں چھپاتھا، ہراک جلد میں تین تین حصے شامل ہیں۔ باریک عربی خط[نسخ] کی کتابت ہے، فی صفحہ چوالیس سطریں آئی ہیں، عمدہ طباعت ہے اور اس دور کے شاید سب سے عمدہ اور باریک کاغذ پر چھپی ہے، پہلی جلد کے تینوں حصوں کے مجموعی طورپر پانچ سو اکتیس صفحات ہیں۔اس کے بعد اسی طباعت کی نقل، مطبع نول کشور، لکھنؤ نے چھاپی، کان پور کے مطابع سے بھی شائع ہوئی اور دوسرے مقامات سے بھی۔

بولاق،مصر کی طباعتیں  عرب ملکوں یا  دنیائے اسلام میں طباعت کے فن اور پریس کا ہندوستان میں دینی، اسلامی، اساسی کتابوں کی طباعت کے پچاس سال بعد آغاز ہوا، جس میں ان کتابوں پربھی توجہ کی گئی، جو ہندوستان میں شائع ہوچکی تھیں اور عالم اسلام میں ان کی ضرورت تھی، ایسی کتابوں میں فتاویٰ عالمگیری بھی شامل تھی، جس کو فتاویٰ ہندیہ کے نام سے شائع کیاگیاتھا۔

فتاویٰ عالم گیری کی یہ طباعت مطبع بولاق، مصر کی ہے، جو۱۳۱۰ھ؁[۹۳-۱۸۹۲ء]میں مطبع کے مصححین شیخ عبدالرحمان حنفی بحراوی اور محمد حسین کی تصحیح سے چھے جلدوں میں چھپی۔ بعد میں اس کے عکس[Re-print]بار بار چھپتے رہے اور اب بھی چھپتے ہیں۔

فتاویٰ عالمگیری کے ترجمے

 فتاویٰ عالمگیری، ہندوستان کے تمام قاضیوں، علماء اور اہل فقہ وفتاویٰ کے لئے لکھی گئی تھی،ملک کی پڑھنے لکھنے کی عام زبان فارسی تھی، بہت سے اہل علم اور عام پڑھنے والوں کے لئے فارسی ہی پڑھنے، استفادہ کی زبان تھی، اس لئے ضروری تھا کہ اس کو فارسی میں منتقل کرلیاجائے، اس بڑی ضرورت کاخود بادشاہ کو بھی گہرا احساس تھا، اس لئے انہوں نے اس کے ترجمہ میں بھی پوری دلچسپی لی اور ترکی کے ایک فاضل کو ،جو عربی ، فارسی دونوں زبانوں میں اعلیٰ کمال رکھتے تھے، عالمگیری کے فارسی ترجمہ کے لئے مقرر فرمایا۔شیخ عبداللہ چلپی نے اس کا عمدہ ترجمہ کیا، مولانا عبدالحی حسنی نے محمد بقاء سہارنپوری کے حوالہ سے لکھاہے:

’’وأمر بترجمۃ الفتاویٰ العالمگیریۃ ذکرہ السہارنپوري‘‘ (۴۵)

 عبداللہ چلپی نے یہ ترجمہ کیا، یہ ترجمہ آخرتک پہنچ گیاتھا، یا ناتمام رہا، اس کی صراحت نہیں ملی، راقم کو اس کے خطی نسخوں کا علم نہیں۔

فارسی کا ایک اور ترجمہ

 فارسی میں عالمگیری کا ایک اور ترجمہ، گیارہویں صدی کے مؤلف ومترجم حبیب اللہ نے کیاتھا، اس ترجمہ کا خود، مترجم نے تذکرہ کیاہے۔ حبیب اللہ نے علمائے دہلی کے احوال پر اپنی تصنیف: ’’ذکر جمیع اولیائے دہلی‘‘میں لکھاہے کہ وہ عالم گیر کی دختر، زیب النساء کی سرکار سے وابستہ تھے، اس دوران فتاویٰ عالمگیری کے فارسی ترجمہ میں مصروف تھے۔ حبیب اللہ نے لکھاہے:

’’چند نے درسرکار زیب النساء بنت عالم گیر، ترجمہ فتاویٰ عالمگیری نمود‘‘ (۴۶)

مگر اس ترجمہ کا کہیں اور ذکر نہیں ملتا اور یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کہاں تک پہنچا تھا اور اس کا نسخہ موجود ہے یا ضائع ہوچکاہے۔

خلاصۂ عالم گیری، فارسی

 انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد اپنا پورا نظام قائم کرلیا تھا، جن عدالتوں، قاضیوں کا اہتمام اوراس کے لئے ضروری کتابوں کی طباعت اور فراہم کا اہتمام بھی تھا۔ اسی ضرورت کے تحت ان کوفتاویٰ عالمگیری کے ایک مختصر فارسی ترجمہ کا خیال ہوا، جس کو انگریز دفاتر کے حکام اور فیصلے کرنے والے اپنے سامنے رکھ سکیں،جو چند افراد اعلیٰ درجہ میں یہ ترجمے کرسکتے تھے، ان میں سے ایک بڑی شخصیت، مولانا قاضی نجم الدین کاکوروی کی تھی۔ مولانا مفتی نجم الدین انگریزوں کے نظام عدالت میں پورے ملک کے قاضی القضاۃ، فقہ وفتاویٰ کے ممتاز ترین علماء میں نامور اور قضاء وافتاء کا مکمل تجربہ رکھنے والے تھے، اور ملک بھر میں پیش آنے والے تمام معاملات کوخوب اچھی طرح جانتے پرکھتے تھے۔

قاضی صاحب نے کتاب کے ان خاص ابواب کا فارسی میں ترجمہ اور شرح کی، جن کی حاکموں ، قاضیوں کو بطور خاص ضرورت رہتی تھی،یہ شرح وترجمہ کتاب الجنایات کے نام سے کئی مرتبہ شائع بھی ہوئی، اوراس کے قلمی نسخے بھی دستیاب ہیں۔

اردو ترجمے

فتاویٰ عالمگیری کے اردو میں دوترجمے ہوئے ، ایک کامل بلکہ مکمل واکمل ، دوسرا ناقص وناتمام! پہلا مکمل ترجمہ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ نے کرایا تھا اور اسی نے اس کو کئی مرتبہ بہت اہتمام سے شائع کیا۔ منشی نول کشور نے اس کاترجمہ تین علیحدہ علماء سے کرایا، اول دو جلدیں کسی عالم نے ترجمہ کرکے دیدیں تھیں، مگر وہ ترجمہ اس قدر غلط اور بے وزن تھا، کہ اہل علم نے اس کو دیکھنا بھی پسند نہ کیا، اس لئے اس کے بعد ایک جید عالم مولانا احتشام الدین مرادآبادی کو اس کے لئے منتخب کیا، مولانا نے دو جلدوں کاترجمہ کیا ، یہ عمدہ لائق اعتماد ترجمہ تھا، مگر کسی وجہ سے مولانا اس میں آگے توجہ نہ کرسکے، تو اس ترجمہ کی نظرثانی اور باقی جلدوں کے ترجمہ کے لئے مطبع نول کشور سے وابستہ ایک جلیل القدر اور دیدہ ور محقق وفقیہ ، مولاناسید امیر علی محدث ملیح آبادی سے اس ترجمہ کی درخواست کی گئی، مولانا امیر الدین نے اپنے مزاج ومعمول کے مطابق، اس پر خاطرخواہ توجہ فرمائی اوراس کا ترجمہ بڑی شان سے مکمل فرمایا۔

یہ ترجمہ اردو زبان کے اعلیٰ ، علمی دینی کتابوں کے ترجموں میں ایک لائق فخر اور مایۂ نازترجمہ کہا جاسکتا ہے، مولانا سید امیر علی کے ترجموں کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ مولانا بہت بڑے مصنف، محقق حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے خاص شاگرد اور دیدہ ور عالم اور صاحب نظر مصنف تھے۔

مولانانے جس کتاب کا ترجمہ کیا اس میں واقعہ یہ ہے کہ چارچاند لگادئیے(۴۷)اس کتاب کے متن، مندرجات ومباحث پر ایسی باریک اور گہری نظر کے ساتھ گرفت فرماتے ہیں اور ان کا ایسا عمدہ اور فاضلانہ حل پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو بڑا نفع اور بصیرت حاصل ہوتی ہے، عالم گیری کاترجمہ بھی اس کا ایک بہترین اورتمام ترجمہ کرنے والوں کے لئے بڑی مثال ہے۔

مولانا ملیح آبادی نے اس کا عام ترجمہ نہیں کیا، بلکہ اپنے خاص علمی مزاج اور معمول کے مطابق، اس کو اصل سے زیادہ علمی، مفید اور کارآمد بنانے کی نہایت عمدہ کوشش کی ہے، ترجمہ سادہ عام فہم ہے مگر مصنف اور متن کتاب کی پیروی وہیں تک ہے، جہاں تک وہ صحیح ہے، اگر اس میں مسئلہ کی، زبان وبیان کی، الفاظ وکلمات وغیرہ کی کچھ بھی کمی ہے، تو مولانا اس کی مکمل فوراً تصحیح کریں گے اور بہت سے مقامات پر قال المت رجم کے تحت اپنی تحقیقات اور وہ مباحث پیش کریں گے، جن سے اصل کتاب کا دامن خالی ہے، یہ تمام افادات اپنے آپ میں ایک تحفہ اور اس موضوع کے طلبہ ہی نہیں، علمائے کرام کے لئے بصیرت افروزاور علم افزا ہیں۔

مولانانے اس پر ایک بہت وقیع اور فقہ سے متعلق علوم ونکات سے لبریز، ایک مفصل، جامع اور ایسا بھر پور مقدمہ لکھاہے ، جو بہت بڑا علمی رہنما اور منبع علوم ہے، اس میں فقہ کے تمام گوشوں ، عنوانات ومتعلقات پر بہت تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، امکان بھر کسی پہلوکو تشنہ وناتمام نہیں چھوڑا۔ علم فقہ، علمائے فقہ، مراتب فقہ وفقہاء اور متعلقات فتاویٰ عالمگیری سب ہی پہلوئوں کو روشن کردیا ہے، اس میں مولانا کا بالکل وہی رنگ، وہی انداز جو اُن کے استاذ جلیل فخرالمتأخرین مولانا عبدالحی فرنگی محلی کاہے۔

علامہ سید امیر علی ایک ایک عنوان، باب بلکہ ہراک مسئلہ اور اس کی عبارتوں پر، بہت دقت نظر سے توجہ کرتے ہیں، مؤلفین کتاب سے اگر کسی مسئلہ کے بیان میں سہووخطا ہوئی ہے تو اس کی وضاحت فرمائیں گے، اس کے علاوہ عالم گیری کے جملہ مندرجات کی فاضلانہ تصحیح کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ عالم گیری میں جو جزئیہ نقل ہوا ہے، اگروہ خود تصحیح چاہتاہے، مسئلہ مفتی بہ وہ نہیں ہے، جو اس کتاب میں نقل ہواہے جس سے عالم گیری میں لیا گیاہے، اصل مسئلہ جس پر اعتمادہے وہ کتاب فلاں میں ہے اور وہ اس طرح ہے۔

تصحیح متن کے لئے بے نظیر کاوش

 حضرت مترجم ، مولانا سید امیر علی نے عالم گیری کی تصحیح پر توجہ فرمائی اوراس کا جو نمونہ پیش فرمایا ہے، وہ کم سے کم اردو ترجموں میں بے مثال ہے۔ مولانا ملیح آبادی نے اس کے متن پر جس باریکی سے نگاہ ڈالی اور حرف حرف کی تصحیح کی وہ قابل ملاحظہ ومطالعہ ہی نہیں، اہل علم اور فتاویٰ عالمگیری سے استفادہ کرنے والوں کے لئے، بے مثال سرمایہ ہے۔

مولانا ملیح آبادی کے سامنے عالم گیری کی کلکتہ کی دوسری طباعت تھی، مولانا امیر علی نے ترجمۂ فتاویٰ عالمگیری کے مقدمہ میں، تقریباً پچاس صفحات میں فتاویٰ عالمگیری کے متن میں درج کتب فقہ کے اقتباسات اور جزئیات کی تصحیح کی ہے، یہ لفظ غلط ہے، اس میں ج کی جگہ ف آگیاہے، اس میں میم کی جگہ قاف ہے، یعنی ایک ایک حرف کی صحت کی کوشش کی اور ان اغلاط کی وجہ سے متن کتاب اور مسائل کی صحت جس طرح ہوئی ہے، مولانا نے اس پر بہت قابلیت ، وسعت نظر اور انتہائی گہرائی سے مفصل گفتگو فرمائی ہے، یہ بحث مقدمہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیری کی بڑی ناپ (A/4)کے پچاس سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، جس کا ۲۷؍سطری مسطر ہے۔ اگر اس کو مرتب کرکے شائع کیا جائے تو تقریباً ڈہائی سو صفحات کی کتاب ہوسکتی ہے۔

تصحیح کا کام کس بالغ نظری سے انجام پایا ہے، اس کا اس سے کچھ اندازہ کیا جاسکتاہے کہ مولانا نے عالمگیری کے متن، مطبوعہ ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کی آخری چار جلدوں کی اغلاط کی وضاحت وتفصیل تحریرفرمائی ہے ،مولانا نے اس عنوان کے آغاز پر لکھاہے:

اس فتاویٰ کا کوئی قلمی نسخہ جس پر اعتماد ہو مترجم کو دستیاب نہیں ہوا، ہاں مطبوعہ نسخے جو مختلف مطابع میں چھپے ہیں نظر سے گذرے، غالباً مطبوعہ کلکتہ جو عموماً علماء زمانہ میں بہت مستند سمجھاگیا ہے، وہی باقیوں کامنقول عنہ ہے اور اس کے بعض حواشی سے یہ بات البتہ ظاہر ہے کہ اس کی طبع وصحت کے وقت، متعدد نسخے قلمی بکمال اہتمام مع کتب لغات موجود تھے اورشاید اسی اہتمام پر نظر سرسری اس امر کاباعث ہوئی کہ اس کی صحت پر تمام وثوق مشتہر ہورہاہے۔

 چونکہ ترجمہ کے شرائط سے ہے کہ مترجم کو اصل کے ادراک سے بہرہ وافی ہوجائے، تب اس کو دوسری زبان میں لاسکتاہے ۔ لہٰذا بتوفیق اللہ عزوجل اس میں تامقدور کوشش کی نظر رہی، جس کے عمدہ نتائج سے ایک یہ ہے کہ اس معتمد اصل، یعنی مطبوعہ کلکتہ میں بھی بکثرت اغلاط ظاہر ہوئے، ازاں جملہ بعضے ایسے بھی ہیں کہ ذمہ دار صحت نے منقول عنہ سے اس باعث سے مخالفت کی کہ اس کے زعم میں منقول عنہ کا یہ مقام سہو یا غلط تھا حالانکہ اس نے اپنی اصلاح میں خود غلطی اٹھائی لیکن اصل عبارت حاشیہ پر لکھ دی، جس سے صحت مقام دستیاب ہوجانے پر اس کاشکریہ ادا کرنا چاہئے اور دیگر مقامات میں ظاہر نہیں ہوتا کہ منقول عنہ اسی طرح سہو کے ساتھ اس کو حاصل ہوئی یا طبع کی بے اعتدالی ہے اور چونکہ علاوہ ایک عظیم فائدے کے بنظر ترجمہ بھی، مزید احتیاط اسی میں ہے کہ ان مقامات میں سے چند خفیف وچند قابل اہتمام نظر مواضع کو مقدمہ میں لکھ دوں جو مطبوعہ کلکتہ سے بعد طبع ترجمہ مقابلہ کرنے کی توفیق حاصل ہونے میں نظر آئی، اگرچہ جس اصل سے ترجمہ کیاگیا تھا، بوقت ترجمہ اُسی اصل کی فروگذاشت کازعم تھا۔(۴۸)

تصحیح کے مختصر نمونے درج ذیل ہیں:

l        کتاب الصلوٰۃ ، باب چہارم، مسئلہ الخلاصہ۔ لفظ عزال فقط بزاء معجمہ مسطور ہے اور ظاہراً صحیح عزرال ہے، اول زائے معجمہ پھر مہملہ

l        باب ہفتم، مسئلہ کافی میں لایلقی بصیغۂ نفی منقول ہے،اور صواب میرے نزدیک صیغۂ اثبات ہے۔ ص:۴۲

l        مبسوط سرخسی میں لکھاہے:’’ وأدی الذکوۃ من السائمۃ‘‘ اور صواب من الدراہم ہے۔

l        مسئلہ سراج الوہاج میں لکھاہے: فلہ حصۃ من الثمر اور صواب من الثمر ہے۔

l        کتاب الرجوع عن الشہادۃ، باب :۶ الحاوی نحوہما غلط ہے، صواب: نجوہما، أی نجوم الأمۃ المکاتبۃ۔

 پورے پچاس صفحات[خیال رہے کہ بڑی ناپ کے ستائیس سطری صفحہ کے صفحات] اسی طرح کی تصحیحات اور مہارت ودقت نظرسے مالامال اور بعض مرتبہ حیران کردیتے ہیں۔

اس مقدمہ کے مندرجات وخصوصیات پر ایک بڑے مقالہ کی علیحدہ ضرورت ہے، مختصر یہ ہے کہ اس مقدمہ سے ہمارے اہل فتویٰ اور دوسرے اہل علم کو خصوصاً خاص فائدہ اٹھانا چاہئے۔

یہ مقدمہ دوسوبارہ صفحات پر مشتمل ہے اور کتاب کی جلداول کا ترجمہ تین سو آٹھ صفحات میں آیاہے۔

یہ ترجمہ دس جلدوں میں مکمل ہوا اور چھپا،پیش نظر طباعت، منشی نول کشور کے مطبع لکھنؤ کی ہے، ۱۹۳۲ء؁ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ غالباً اس ترجمہ کی تیسری اشاعت ہے۔

عالمگیری کا ایک اور ترجمہ ، دیوبند سے بھی چھپاتھا ،جس پراس ترجمہ کی طباعت کامکتبہ آفتاب ہدایت، دیوبند نے اہتمام کیاتھا اور اس کی قسطیں حضرت مفتی عزیزالرحمان کے گھر سے چھپتی رہیں، سب سے پہلے اس کانگراں ، مولانا مفتی جمیل الرحمان مفتیٔ دارالعلوم کومتعین کیاگیا،مفتی صاحب نے یہ خدمت مولانا لقمان الحق فاروقی کے سپرد کی کہ وہ اس کو انجام دیں اور مکتبہ آفتاب ہدایت اس کو شائع کرے، مولانا لقمان صاحب نے کسی واضح اور مفصل تمہیدکے بغیر اس کا آغاز کردیا اورمکتبہ آفتاب ہدایت نے شائع کرنا شروع کیا، مگر افسوس ہے کہ پہلی دوسری قسطوں پرسنین طباعت درج نہیں،لیکن اندرونی اطلاعات سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی طباعت۱۹۶۴ء میں شروع ہوئی تھی، مگر ا س کے نگراں اور مترجم تبدیل ہوتے رہے، مولانا لقمان الحق صاحب کے بعد، کتاب النکاح اور کتاب کے جزء :۶ سے ترجمہ کا کام، مولانا خورشیدعالم صاحب ،استاذ دارالعلوم دیوبند کو منتقل ہوا، جو بہت فاضل اور ممتاز ترجمہ نگار تھے۔ کتاب الطلاق اوراس اشاعت کے جزء:۹ تک مولانا خورشیدعالم کاترجمہ ہے اور یہاں سے ،رجعت اور ان کے طریقوں سے مولانا عبداللہ سلیم صاحب کاترجمہ شروع ہوگیا، لیکن مولانا کا صرف ایک ہی قسط کاترجمہ ہے، اس کے بعد کی چار قسطیں مولانا مفتی نظام الدین صاحب کے قلم سے آئیں اور یہ مجموعہ چودہ قسطوں میں کتاب الأیمان تک شائع ہوا۔ اس کے بعد اور قسطیں چھپیں یا کیا ہوا ، اس کا مجھے علم نہیں ہے۔

حوالہ جات:

(۱)مآثر عالم گیری فارسی۔ محمد ساقی مستعد۔ ص:۲۳۳[نول کشور ، لکھنؤ ۱۸۷۳ء] تقریباً یہی بات فتاویٰ عالمگیریہ  مطبوعہ مطبع احمدی،اموں جان[دہلی:۱۲۷۸ھ] کے سرورق پرلکھی ہے اوریہی مولوی ذکاء اللہ نے تاریخ ہندوستان جلدہشتم ص:۷۴-۴۷۳۔ [لاہور:۲۰۱۰ء] میں کہی ہے۔

(۲) اورنگ زیب عالمگیر ذی قعدہ ۱۰۶۸ھ؁[جولائی ۱۶۵۸ء] یوم جمعہ کو تخت نشین ہوا۔ مآثر عالمگیری ۔ محمد ساقی مستعد ص:۵ [مطبع نول کشور لکھنؤ:۱۸۷۳ء]اس کے دس مہینوں کے بعد ،۲۴؍ رمضان المبارک ۱۰۶۹ھ؁ [اگست۱۶۵۹ء] میں پورے تزک واحتشام کے ساتھ تخت نشینی کی روایت خاص ادا کی گئی۔مآثر عالمگیری فارسی ، ص:۱۲[لکھنؤ:۱۸۷۳ء]

(۳) مآثر عالمگیری ، ص:۲۳۳

(۴) نزہۃ الخواطر ، مولانا عبدالحی حسنی ، ص:۴۳۲۔جلد:۵  [دائرۃ المعارف ،حیدرآباد: ]

(۵) نزہۃ الخواطر ، مولانا عبدالحی حسنی ، ص:۵۸۔جلد:۶  [دائرۃ المعارف ،حیدرآباد:]

(۶) محبوب الالباب [تعارف مخطوطات] تالیف :خدابخش خاں ، ص:۵۱۷ [خدابخش لائبریری پٹنہ:۱۹۹۱ء]

(۷) فرحت الناظرین ،محمد اسلم پسروری ، ترجمہ ایوب قادری، ص:۱۳۱[کراچی: ۱۹۷۲ء]

(۸) نزہۃ الخواطر، ص:۴۴۳۔جلد:۵

(۹) مقدمہ، ترجمہ فتاویٰ ہندیہ از مولانا سید امیر علی ملیح آبادی ص:۲۰۸۔ جلد اول [مطبع نول کشور، لکھنو: ۱۹۳۲ء]

(۱۰) الف : نزہۃ الخواطر مولانا عبدالحی حسنی ص:۴، جلد:۶[طبع دوم، دائرۃ المعارف ، حیدرآباد:۱۳۹۸ھ؁] ب:  برصغیر میں علم فقہ۔ مولانا اسحاق بھٹی، ص:۳۲۱[بیت الحکمت ، لاہور:۱۴۳۰ھ؁]

(۱۱)  الف: نزہۃ الخواطر ص:۳۶،ج:۵[طبع دوم] ب: فتاویٰ عالمگیری اوران کے مؤلفین۔ مولانا مجیب اللہ ندوی ص:۹۰[ لاہور ۱۹۸۸ء] ج:  دیار پورب میں علم اور علماء ۔ قاضی اطہر مبارک پوری ص:۱۱۹، د:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۱۸[ البلاغ پبلیکشنز دہلی: ۱۴۳۰ھ؁]

(۱۲) الف :تحفۃ الکرام ۔ میرعلی شیر قانع ٹھٹھوی،ج:۳، ص:۲۱۸، [مطبع ناصری، دہلی:۱۳۰۴ھ؁] ب: تذکرہ علمائے ہند، [فارسی]رحمان علی ص:۲۶۱[طبع دوم مطبع نول کشور، لکھنؤ۱۹۱۴ء] تذکرہ علمائے ہند ، ترجمہ اردو، ایوب قادری ص:۶۹۱ [طبع اول ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی:۱۹۶۱ء۔ طبع دوم کراچی: ۲۰۰۳ء]،ج:نزہۃ الخواطر ص:۱۸، ج:۵ [طبع دوم]،د:تذکرہ مشاہیر سندھ۔ مولانا دین محمد وفائی، ص:۵۰۷[سندھی ادبی بورڈ، جام شورو سندھ ۲۰۰۵ء]،ہ:برصغیر میں علم فقہ، ص:۲۹۴،و:فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۰۲

 (۱۳)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۱۶،ج:۶[طبع دوم]،ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۵۱،ج: فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۹۷

 (۱۴) الف:  نزہۃ الخواطر ص:۲۲، ج:۶[طبع دوم]، ب:  دیار پورب میں علم اور علماء، ص:۱۲۰،ج:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۲۲

(۱۵)الف:  مآثر عالمگیری۔ محمد ساقی مستعد ص:۱۰۷، ۱۷۲،۲۲۵[مطبوعہ نول کشور۔ لکھنؤ : اکتوبر۱۸۷۳ء] ، ب: فرحت الناظرین ۔ محمد اسلم ابن محمد حفیظ انصاری، ص:۱۳۱،مترجم ۔ پروفیسر محمد ایوب قادری [اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ پاکستان ۱۹۷۲ء]، ج:  تذکرہ علمائے ہند۔ ص:۲۷۴،تذکرہ علمائے ہند ، ترجمہ اردو ایوب قادری ص:۵۸۹ [طبع اول ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی:۱۹۶۱ء۔ طبع دوم، ص:۷۲۹ کراچی: ۲۰۰۳ء]،د:نزہۃ الخواطر ص:۴۳۲، ج:۵، [طبع دوم]، ہ: برصغیر میں علم فقہ ، ص:۳۳۶

(۱۶) الف:  نزہۃ الخواطر ص:۲۹۴،ج:۶[طبع دوم]، ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۲۹۷،ج:فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۳۰

(۱۷)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۵۸،ج:۶[طبع دوم]، ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۱۳، ج:دیار پورب میں علم اورعلماء، ص:۱۲۱، د:  فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ،ص:۱۰۲

 (۱۸)  الف:  تحفۃ الکرام ، ص:۲۲، جلد:۲،ب: فرحت الناظرین ، ص:۱۲۹[ترجمۂ اردو]، ج: تذکرہ علمائے ہند، ص:۲۶۴،تذکرہ علمائے ہند ، ترجمہ اردو ایوب قادری ص:۵۹۰ [طبع اول ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی: ۱۹۶۱ء۔ طبع دوم، ص:۷۳۰ کراچی: ۲۰۰۳ء]، د: نزہۃ الخواطر،ص:۴۳۲،ج:۵۔ ص:۶۲،ج:۶ [طبع دوم]  ہ: محبوب الالباب ، ص:۵۱۸۔ و:فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ،ص:۱۰۳

(۱۹)  الف: مآثر عالمگیری ، ص:۴۵۔ ۴۶،ب: تحفۃ الکرام ، ص:۲۳، جلد:۲، ج: فرحت الناظرین ، ص: ۱۲۵[ترجمۂ اردو]، د: تذکرہ علمائے ہند، ص:۲۷۵،تذکرہ علمائے ہند ، ترجمہ اردو ایوب قادری ص:۵۹۰ [طبع اول ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی:۱۹۶۱ء۔ طبع دوم، ص:۷۳۰ کراچی: ۲۰۰۳ء] ہ: نزہۃ الخواطر، ۳۷۵۔۴۳۲ ، ج:۵ [طبع دوم] و: محبوب الالباب ، ص:۵۱۷،ز: فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ،ص:۳۳،ح: برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۰۰

(۲۰)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۳۰۳، ج:۶[طبع دوم]،ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۲۹

(۲۱)  الف:  مآثر عالمگیری ، ص:۴۵،ب: نزہۃ الخواطر ص:۱۵۲،ج:۵ [طبع دوم]، ج:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۲۹۶   ،د: ماہنامہ معارف ، اعظم گڈھ[دسمبر۱۹۶۵ء]۔ ص:۴۰۶

(۲۲)  الف:  ماہنامہ معارف [اپریل ۱۹۳۷ء؁] ص:۲۸۵،ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۴۹،ج:  فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۰۵

 (۲۳) الف:  انفاس العارفین ، حضرت شاہ ولی اللہ ، ص:۲۴[مطبع احمدی ، دہلی]،ب: نزہۃ الخواطر ص:۱۴۶، جلد:۶[طبع دوم]، ج: برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۳۸،د: فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ،ص:۳۴

(۲۴)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۱۵۴، جلد:۶  [طبع دوم]،ب: دیار پورب میں علم اورعلماء ص:۱۲۲،  ج:برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۱۶

(۲۵)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۱۵۸،ج:۶،[طبع دوم]،ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۲۵

(۲۶)  الف:  تذکرہ علمائے ہند ، ص:۱۴۰،ب: نزہۃ الخواطر ص:۱۸۱،جلد: ۶، [طبع دوم]،ج:  دیار پورب میں علم اورعلماء ص:۱۲۲،  د:  برصغیر میں علم فقہ ، ص:۳۲۶

(۲۷)  الف:  مآثر عالمگیری ،ص:۶۶،ب: فرحت الناظرین، ص:۱۲۸[ترجمہ اردو]، ج: نزہۃ الخواطر ص: ۲۹۰۔ ۴۳۲، ج:۵، [طبع دوم]،د:محبوب الالباب ،خدابخش خاں، ص:۵۱۷ [خدا بخش پٹنہ۱۹۹۱ء]،ہ:  دیار پورب میں علم اور علماء، ص:۱۲۰، و: برصغیر میں علم فقہ ص:۳۱۴،ز: فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۰۰

(۲۸)  الف:  نزہۃ ص:۳۳۹،ج:۶[طبع دوم]،ب:  تذکرہ مشاہیر کاکوری ۔ مولانا علی حیدر کاکوروی، ص: ۳۵۴[خدا بخش ، پٹنہ ۱۹۹۹ء]،ج:  دیار پورب میں علم اور علماء ، ص:۱۲۳،د:  فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۹۵

 (۲۹)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۲۰۸،ج:۶ [طبع دوم]، ب:دیار پورب میں علم اور علماء، ص:۱۲۲،ج: فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۹۸

(۳۰) فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۰۹

(۳۱)  الف:  نزہۃ الخواطر ص:۲۲۵،ج:۶[طبع دوم]،ب:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۴۱،ج:  ماہنامہ معارف [اپریل ۱۹۴۷ء] ص:۲۹۴، د:  فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۱۰

(۳۲)  الف: مآثر عالمگیری ۔ ص:۴۶، ۵۸، ۹۳،ب: تحفۃ الکرام ،جلد: ۲، ص:۹۳،ج:  مآثر الامراء ۔ صمصام الدولہ شاہنواز خاں، فارسی، ص:۶۰۴،جلد:۳[کلکتہ:۱۸۹۰ء]،د:  تذکرہ علمائے ہند ، ص:۲۱۶، تذکرہ علمائے ہند ، ترجمہ اردو ایوب قادری ص:۴۷۵ [طبع اول :۱۹۶۱ء۔ طبع دوم، ص:۴۰۶]،ہ: نزہۃ الخواطر ص:۵۴، جلد:۶،[طبع دوم]،و:  فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۲۸

(۳۳)  الف:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۵۰ ،ب:فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۰۸

(۳۴)  الف:  فرحت الناظرین ص:۱۳۲[ترجمہ اردو]،ب:نزہۃ الخواطر ص:۴۴۳،ج:۵[طبع دوم]، ج:  دیار پورب میں علم اور علماء ، ص:۱۲۰،د: برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۰۲،ہ: فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۳۴

 (۳۵)  الف:  مآ ثر عالمگیری ، ص:۵۶، ۵۸، ۶۲،۶۸، ۷۳، ۲۳۳،ب:تحفۃ الکرام ، ص:۲۵،جلد:۲۔ ، ج: فرحت الناظرین ، ص:۱۰۱،د: انفاس العارفین ، ص:۲۴،ہ:تذکرہ علمائے ہند، ص:۲۴۲،و:  محبوب الالباب ، ص:۵۱۷،ز:نزہۃ الخواطر ص:۴۳۲، ج:۵[طبع دوم] ،ح:برصغیر میں علم فقہ ، ص:۲۸۴،ط:فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۲۶

(۳۶)  الف:  تحفۃ الکرام ص:۱۹۷،جلد:۳۔ب:  تذکرہ علمائے ہند[فارسی] ص:۲۸۸  ،ج:  نزہۃ الخواطر ص:۴۳۲، جلد: ۵ [طبع دوم]،د:  برصغیر میں علم فقہ، ص:۲۹۱  ،ہ:  فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ، ص:۱۰۲

(۳۷) نزہۃ الخواطر ، ص:۴۳۳، جلد:۵

(۳۸) انفاس العارفین ، شاہ ولی اللہ ۔ فارسی ، ص:۲۴ [مطبع احمدی: دہلی: بلاسنہ]

(۳۹) انفاس العارفین ، شاہ ولی اللہ ۔ فارسی ، ص:۲۴ [مطبع احمدی: دہلی: بلاسنہ]

(۴۰) تحفۃ الکرام ص:۱۹۷، جلد:۳ [مطبع ناصری ۔ دہلی: ۱۳۰۴ھ؁]

(۴۱) مآثر عالمگیری ۔ محمد ساقی مستعد ص:۲۳۳۔ [لکھنؤ: ۱۹۷۳ء]

(۴۲) مکتوب محررہ:۱۰؍مارچ ۱۹۱۰ء[۱۳۲۸ھ؁] مکتوب: ۸۰’’بنام نواب حبیب الرحمن خاں شروانی، مرتبہ علامہ سید سلیمان ندوی۔ ص:۱۷۷۔ جلداول[اعظم گڈھ ۱۹۲۸ء]‘‘

(۴۳) ملاحظہ ہو: فتاویٰ عالم گیری، طبع دوم ایشیاٹک سوسائٹی ، کلکتہ۔ ۱۲۵۸ھ][۱۸۴۲ء] اور مطبوعہ مطبع احمدی ۔ اموں جان۔ دہلی:۱۲۷۸ھ؁ ۔

(۴۴) معجم المطبوعات العربیہ والمعربۃ۔ یوسف سرکیس کالم:۴۹۸  [عکس طبع اول، دارصادر بیروت]،اس سے پہلی طباعت کا، کلکتہ کی دوسری طباعت ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ کے ناشرین نے بھی ذکر کیاہے۔

(۴۵)وأمرہ بترجمۃ الفتاویٰ العالم گیریۃ۔نزہۃ الخواطر، ص:۲۶۶-۲۶۷، جلد:۵[ حیدرآباد: ۱۳۹۶ھ ؁ ۔ ۱۹۷۶ء]

(۴۶) ذکر جمیع اولیائے دہلی۔ مرتبہ ڈاکٹر شریف حسین قاسمی، ص:۱۴۷[ طبع اول ٹونک:۸۸-۱۸۸۷ء]

(۴۷) مولانا کے دو یا تین اور ترجمے ہیں اورہراک اپنی جگہ ایک دریائے علم وکمال ہے!

اول ترجمہ شرح وقایہ،عین الہدایہ ترجمہ مع ضروری حل وشرح ہدایہ ۔ مولانا نے فتح الباری، حافظ ابن حجر عسقلانی کابھی مکمل ترجمہ کیاتھا،مگر وہ اب تک شائع نہیں ہوا، سناہے کہ اس کامکمل مسودہ محفوظ ہے۔

(۴۸) مقدمہ ترجمہ فتاویٰ ہندیہ ص:۱۴۲[نول کشور ،لکھنؤ:۱۹۳۲ء]

Tags

Share this post: