مصنف زندان’’امام شمس الائمہ سرخسی‘‘

مصنف زندان’’امام شمس الائمہ سرخسی‘‘

مولاناعتیق احمد بستوی

 استاذحدیث وفقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

پانچویں صدی ہجری عالم اسلام کے لئے سیاسی زوال وانتشار کی صدی ہے، اس صدی میں مسلمانوں کی ملی و سیاسی وحدت پارہ پارہ ہوئی، عالم اسلام کے اکثر خطوں میں خود مختار حکمرانوں نے سر اٹھایا اور اپنی اپنی حکومت قائم کر لی، ان علاقائی حکمرانوں میں باہم آویزش اور جنگ رہتی، مسلمانوں کی بہترین توانائیاں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں صرف ہونے لگیں، عباسی خلافت کا دائرہ اثر محدود سے محدودتر ہو گیا، لیکن اس سب کے باوجود یہ صدی علوم وفنون کے میدان میں کامرانیوں کی صدی ہے، علم و تحقیق کے ہر میدان میں انتہائی قد آور شخصیتیں پیدا ہوئیں، ان کی دیدہ وری اور نکتہ سنجی سے گلستان علم میں بہار آگئی، اس صدی میں عالم اسلام کا قریہ قریہ ارباب فضل و کمال سے معمور تھا، حکمرانوں کی سر پرستی اور علم پروری کی وجہ سے عالم اسلام کا ہر خطہ علماء، فضلاء، مفسرین، محدثین، فقہاء، ادباء شعراء، مصنفین و محققین کی جولان گاہ تھا، اندلس اور بلاد مغرب سے لے کر خراسان و ماوراء النہر تک پورا عالم اسلام ایک علمی وحدت تھا، طالبان علوم کے قافلے عالم اسلام کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر سفر کرتے تھے، علماء اور اصحاب فضل و کمال کے سفر و قیام پر کوئی قدغن نہیں تھی، ہر ملک ان کا استقبال کرتا اور ہر حکمراں ان کی آمد و قیام کو اپنے لئے باعث شرف و عزت سمجھتا۔

خراسان اور ماوراء النہر کا علاقہ اس دور میں پورے علمی شباب و بہار پر تھا، بخارا و سمرقند اور نیشا پور تو بڑے شہر تھے ان کی علمی بہار اور علمی ماحول کا کیا کہنا،اس وقت صورت حال یہ تھی کہ چھوٹے چھوٹے قصبات اور بڑے بڑے قریوں میں بھی ارباب فضل و کمال کی بساط علم و تدریس بچھی ہوئی تھی، ہر جگہ علمی بحث و مناظرہ کا بازار گرم تھا، ہر علم وفن میں تحقیق و تصنیف کا سلسلہ جاری تھا، ہر جگہ ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا تھا جس کا اوڑھنا بچھونا جس کی غذا و دوا علم و تحقیق تھا۔

اسی علم پرور دور اور ماحول میں خراسان کے ایک قدیم اور عظیم شہر ’’سرخس‘‘ میں شمس الائمہ سرخسی کی پیدائش ہوئی، یاقوت حموی کے بیان کے مطابق سرخس بڑا اور کشادہ شہر ہے نیشا پور اور مرو کے بالکل درمیان میں واقع ہے، سرخس سے نیشا پور اور مرو دونوں کی دوری ۶ مرحلہ ہے، اس کی قدامت کا یہ حال ہے کہ کیکاؤس بادشاہ کے زمانہ میں سرخس نامی شخص نے اس شہر کو آباد کیا،بعد میں اسکندر رومی نے اس شہر کو وسعت و ترقی دی۔

سرخس کا تلفظ دو طرح کیا جاتا ہے (۱) سین اور راء دونوں پر زبر، خاء ساکن ’’سَرَخْس‘‘ (۲) سین پر زبر، راء ساکن، خاء پر زبر’’ سَرْ خَسْ‘‘ یا قوت حموی نے دونوں تلفظ لکھنے کے بعد دوسرے تلفظ کو زیادہ کثیر الاستعمال قرار دیا ہے، صاحب قاموس نے پہلا تلفظ درج کیا ہے، اکثر حضرات نے پہلے تلفظ کو زیادہ معروف و مروج قرار دیا ہے، ابن صلاح کا بیان ہے کہ جب میں سرخس پہنچا تو وہاں کے شیخ و مفتی کو یہ فرماتے سنا کہ سر خس سین اور راء کے زبر کے ساتھ فارسی ہے اور’’سَرْخَس‘‘ (را کے سکون کے ساتھ) عربی ہے۔

شمس الائمہ سرخسی کا نام محمد، والد کا نام احمد اور دادا کا نام ابو سہل ہے، کنیت ابو بکر نسبت سرخسی اور لقب شمس الائمہ ہے، ڈاکٹر علی احمد نے سرخسی کا نام اور سلسلہ نسب اس طرح لکھا ہے ’’محمد بن ابی بکر بن احمد بن ابی سہل‘‘ اور اس کے لئے دو حوالے دیے ہیں: (۱)النافع الکبیر مولانا عبدالحی فرنگی محلی(۲) غایۃ البیان و نادرۃ الزمان شرح ہدایہ، امیر کا تب الاتقانی، ہم نے النافع الکبیر کی طرف رجوع کیا تو اس میں وہی نام نسب پایا جو اکثر تذکرہ نگار درج کرتے ہیں،اس کے اعتبار سے سرخسی کے باپ کا نام احمد اور دادا کا نام ابوسہل ہے، ابو بکر خود سرخسی کی کنیت ہے، امیر کا تب الاتقانی کی کتاب مخطوطہ ہے، جو فی الحال میری دسترس سے باہر ہے، معلوم نہیں کہ سلسلۂ نسب میں ابوبکر کا اضافہ ڈاکٹر علی احمد ندوی کے قلم کی لغزش ہے یا واقعی امیر کا تب الاتقانی نے اسی طرح سلسلہ نسب درج کیا ہے، امیر کا تب الاتقانی نے اگر واقعی اسی طرح درج کیا ہے جیسا ڈاکٹر ندوی نے سپرد قلم کیا تو بھی تنہا امیر کا تب الاتقانی کے لکھ دینے سے اسے درست اور مستند قرار نہیں دیا جا سکتا جب کہ دوسرے تمام مؤرخ اور تذکرہ نگار اس سے اختلاف کرتے ہیں۔

تمیمی نے اپنی طبقات میں ابن مکتوم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں نے بعض معتمد لوگوں کے قلم سے سرخسی کا نام و نسب اس طرح لکھا ہوا دیکھا شمس الائمہ ابو بکر محمد بن احمد بن ابو بکر سہل سرخسی، ابن مکتوم کی اس روایت کو اگر درست قرار دیا جائے تو علامہ سرخسی کے دادا کا نام ابو سہل کے بجائے سہل ٹھہرتا ہے اور ابو بکر ان کی کنیت کے ساتھ ان کے دادا کی کنیت بھی قرار پاتی ہے، شاید اسی روایت کو اختیار کرتے ہوئے ڈاکٹر صلاح الدین منجد نے شرح السیر الکبیر کے مقدمہ تحقیق میں علامہ سرخسی کے دادا کا نام سہل تحریر کیا ہے لیکن کسی قوی دلیل کے بغیر سلسلۂ نسب کی مشہور روایت کو چھوڑ کر شاذ روایت کو اختیار کرنا علم و تحقیق کے معیار پر درست نہیں ہے۔

شمس الائمہ سرخسی کے ابتدائی حالات پردۂ خفا میں ہیں، ان کے خاندانی ماحول، والدین واجداد، ابتدائی تعلیم وتربیت کے بارے میں ہماری معلومات صفر کے برابر ہیں، تاریخ، تذکرہ و تراجم کے متداول اور دستیاب کتابیں ان پہلوؤں پر بالکل روشنی نہیں ڈالتیں، اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے سن وفات کے بارے میں بھی تذکرہ نگاروں میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے جیسا کہ اس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔

ظاہر ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت ان کے وطن مالوف سرخس میں ہوئی ہوگی جو اس دور میں خاصا پر رونق شہر تھا اور اہل فضل و کمال سے معمور تھا لیکن کتب تذکرہ و تراجم میں ان کے ابتدائی اساتذہ کا بالکل ذکر نہیں، بلکہ ان کے صرف ایک استاذ کا ذکر ملتا ہے اور وہ ہیں شمس الائمہ شیخ عبدالعزیز بن احمد بن نصر بن صالح حلوانی (۴۴۸ ؁ھ)، شرح السیر الکبیر کے آغاز میں امام سرخسی نے شمس الائمہ حلوانی کے علاوہ دو دوسرے مشائخ سے بھی السیر الکبیر روایت کرنے کا ذکر کیا اس سے ان کے دو مزید اساتذہ کی نشاندہی ہوتی ہے، ان دونوں حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں (۱) قاضی ابوالحسن علی بن حسین سغدی (۲) شیخ ابو حفص عمر بن منصور البزار۔

تذکرہ نگاروں کے بیان کے مطابق علامہ سرخسی کے اصل شیخ و استاذ جن کے دامن علم و فضل سے علامہ سرخسی نے اپنے کو مستقل طور پر وابستہ کر لیا شمس الائمہ عبد العزیز بن احمد حلوانی ہیں، ان کی مسند درس سرخس میں نہیں بلکہ بخارا میں بچھی ہوئی تھی، بخارا اس علاقہ کا سب سے بڑا علمی مرکز تھا، سرخس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امام سرخسی نے بخارا کا رخ کیا اور وہاں مستقل طور سے شمس الائمہ حلوانی کے حلقہ درس سے وابستہ ہو گئے، برسہا برس ان سے کسب فیض کرتے رہے اوروہاں سے بدر کامل بن کر نکلے لیکن تاریخ و تذکرہ کے صفحات اس بارے میں بالکل خاموش ہیں کہ امام سرخسی بخارا کب پہنچے اور کتنے سال امام حلوانی کے درس میں شامل رہے، ذیل میں شمس الائمہ حلوانی کا مختصر تذکرہ قلم بند کیا جاتا ہے۔

علامہ سرخسی کے اساتذہ

(۱) شمس الائمہ حلوانی

علامہ ذہبی نے حلوانی کا نام و نسب، لقب و کنیت اس طرح درج کیا ہے ’’شیخ، امام، علامہ، رئیس الحنفیۃ، شمس الائمۃ الاکبر، ابومحمد عبدالعزیز بن احمد بن نصر بن صالح بخاری، حلوانی،امام حلوانی کے نام و نسب کے بارے میں تمام تذکرہ نگار متفق ہیں، آپ کا وطن مالوف بخارا تھا، وہیں پیدائش ہوئی، والد ماجد شیخ احمد بن نصر معاشی لحاظ سے کمزور تھے، حلوہ بیچ کر گزر بسر کرتے تھے، اسی پیشہ کی نسبت سے آپ کو حلوانی یا حلوائی کہا جاتا ہے، یہ بات غلط ہے کہ حلو ان کوئی مقام ہے، جس کی طرف نسبت کر کے آپ کو حلوانی کہا جاتا ہے، شیخ برہان الدین زرنوجی کی تعلیم المتعلم میں ہے کہ شمس الائمہ حلوانی کے والد غریب شخص تھے، حلوہ فروخت کرتے تھے، فقہاء کی خدمت میں حلوہ پیش کر کے اپنے بیٹے کے لئے دعا کی درخواست کرتے تھے، ان کی سخاوت، حسن عقیدت اور تضرع الی اللہ کی برکت سے ان کے صاحبزادے کو مقام بلند ملا۔

شیخ عبدالعزیز حلوانی کی تمام تر تعلیم بخارا میں ہوئی، بخارا اس وقت علم اور علماء کا مرکز تھا، ہر علم وفن کے نامور اساتذہ وہاں موجود تھے، فقہ میں ان کے خصوصی استاذ شیخ قاضی ابو علی حسین بن خضر نسفی تھے جو اپنے دور کے بڑے بافیض صاحب درس عالم وفقیہ تھے، امام حلوانی نے فقہ کے ساتھ حدیث میں بھی کمال پیدا کیا، ذہبی نے ان کے اساتذہ حدیث میں متعین طور پر شیخ عبداللہ بن الحسین الکتاب، ابو سہل احمد بن محمد بن مکی انماطی، حافظ محمد بن احمد غنجار کا ذکر کیا ہے، حافظ ابومحمد عبد العزیز بن محمدنخشبی نے اپنی معجم الشیوخ میں امام حلوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اساتذہ حدیث میں شیخ ابو اسحاق رازی، شیخ اسماعیل بن محمدالزاہد، شیخ عبداللہ بن محمد کلا بازی کا ذکر کیا ہے اور امام حلوانی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مختلف علوم کے ماہر ہیں، حدیث اور اہل حدیث کی تعظیم کرتے ہیں، دراصل وہ صاحب حدیث ہیں، اہل کوفہ کے مذہب پر فتوی دیتے ہیں۔

تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ امام حلوانی اپنے دور میں سربراہ احناف اور امام اہل الرای تھے، ابن کمال پاشا نے انھیں فقہاء کے طبقہ سوم (مجتہدین فی المسائل) میں شمار کیا ہے لیکن ذخیرۃ العقبیٰ کے مصنف اخی چلپی یوسف جنید بن تو قانی رومی نے انھیں مجتہدقرار دیا ہے۔

شمس الائمہ حلوانی نے وطن مالوف بخارا میں اپنی مسند درس بچھائی، اور بہت جلد مرجعیت اور مرکزیت حاصل کر لی،ان کے حلقہ درس سے ایسے ایسے باکمال علماء اٹھے جنھوں نے امامت کا مقام حاصل کیا اور اپنے استاذ کا نام روشن کیا، شمس الائمہ حلوائی کے چند تلامذہ کے نام یہ ہیں:

 (۱) شمس الائمہ سرخسی (۲) فخر الاسلام علی بن محمد بن الحسین بزدوی (۳) صدر الاسلام ابوالیسر محمد بن محمد بزدوی (۴) قاضی جمال الدین ابو نصر احمد بن عبد الرحمن (۵) شمس الائمہ ابو بکر محمد بن علی زرنجری۔

درس و تدریس کے ذریعہ افراد سازی کے علاوہ انھوں نے تصنیفات بھی چھوڑیں لیکن امام حلوانی کی تصنیفات اب نایاب ہیں، ان کی دو تصنیفات المبسوط اور کتاب النوادر ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ (پیرس) کے بیان کے مطابق حلوانی کی ایک یادگار پیرس کی لائبریری میں موجود ہے، وہ ہے ’’ اشراط الساعۃ‘‘ علامات قیامت کے موضوع پر امام حلوانی نے درس دیے، ان دروس کو سرخسی نے ’’اشراط الساعۃ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں مرتب کر دیا (اشراط الساعۃ مخطوطہ پیرس، مجموعہ عربی، عدد:۰۰ ۲۸)

امام حلوانی کے سن وفات کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، ملا علی قاری نے ان کی وفات۴۴۸؁ھ درج کی ہے، سمعانی نے شک کے ساتھ ۴۴۸؁ھ یا۴۴۹؁ھ تحریر کی ہے، حافظ عبد العزیز بن محمد نخشبی نے ۴۵۲ھ؁ تحریر کیا ہے، ذہبی نے ابوالعلا الفرضی کے حوالہ سے ۴۵۶؁ھ کوسن وفات قرار دیا ہے، اتنی مشہور شخصیت کے سن وفات میں اس قدر اختلاف حیرت انگیز ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شخصیات کے احوال و وفیات کو قلمبند کرنے کا جو اہتمام چاہئے تھا، اس میں کافی کمی پائی جاتی تھی اور ہے، بعض تذکرہ نگاروں کا بیان ہے کہ انہیں آخری عمر میں بخارا سے جلا وطن کر کے ’’کشن‘‘ بھیج دیا گیا تھا اور و ہیں وفات ہوئی اور دوسری روایت یہ ہے کہ بخارا ہی میں وفات ہوئی، تدفین بخارا کے ایک محلہ ’’کلا باز‘‘ میں عمل میں آئی۔

(۲) شیخ الاسلام رکن الاسلام قاضی علی بن الحسین بن محمد سغدی

شمس الائمہ سرخسی کے دوسرے استاذ شیخ الاسلام قاضی علی بن حسین سغدی ہیں، موصوف بہت بڑے عالم فاضل اور مناظر وفقیہ تھے، سمرقند کے اطراف میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے سُغد میں پیدائش ہوئی، بخارا میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ رہا، وہیں رہائش اختیار کر لی، منصب قضا وافتاء پر فائز ہوئے، نت نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کی بڑی قدرت تھی، اپنے دور میں فقہاء احناف کے سربراہ ہوئے، ان کے فتاوی پر بڑا اعتماد تھا، ۴۶۱  ؁ھ میں وفات ہوئی، شیخ عبدالقادر قرشی نے لکھا ہے کہ شمس الائمہ سرخسی نے ان سے السیر الکبیر روایت کی، صلاح الدین منجد کی ایڈٹ کی ہوئی شرح السیر الکبیر کے آغاز میں علامہ سرخسی کی دوسری سند قاضی علی بن حسین سغدی کے واسطہ سے ہے شرح السیر الکبیر کے بعض مقامات (۱:۱۰۳) میں امام سرخسی نے قاضی سغدی کی بعض آراء نقل بھی کی ہیں، خدا جانے مولا نا عبد الحی فرنگی محلی کو کہاں سے غلط فہمی ہوئی، انھوں نے تحریر فرما دیا کہ قاضی سغدی نے شمس الائمہ سرخسی سے شرح السیر الکبیر کی روایت کی اور ان سے فقہ سیکھی ان کی تصنیفات میں سے’’ النتف فی الفتاوی‘‘ دستیاب ہے، باقی کتا بیں نایاب ہیں، انھوں نے السیر الکبیر اور الجامع الکبیر کی شرحیں لکھیں، ۴۶۱؁ھ میں اس عالم فانی سے رخصت ہوئے۔

(۳) حافظ ابو حفص عمر بن منصور البزار بخاری

امام سرخسی کے تیسرے استاذ مشہور حافظ حدیث، محدث ماوراء النہر ابو حفص عمر بن منصور بزار متوفی ۴۶۱؁ھ ہیں، سرخسی نے ان سے بھی السیر الکبیر کی روایت کی اور آغاز کتاب میں ان کی سند بھی درج کی ہے، ان کا نام و نسب یہ ہے: عمر بن منصور بن احمد بن محمد بن منصور، ذہبی نے انھیں ’’امام، حافظ، عالم، محدث ماوراء النہر‘‘ کے القاب سے یاد کیا ہے، ان کے مشائخ میں سے ابو علی اسماعیل بن حاجب کشانی، ابونصر احمد بن محمد ملاحمی، ابوالفضل احمد بن علی سلیمانی، ابونصر احمد بن محمد بن حسن کلا بازی، ابراہیم بن محمد بن یز داد رازی کے نام ذکر کیے ہیں، اور ان کے شاگردوں میں سے حافظ عبدالعزیزنخشبی، محمد بن علی بن سعید مطہری محمد بن عبد اللہ خکتی کے اسماء تحریر کیے ہیں، سمعانی نے لکھا ہے کہ ان کی وفات۶۰ ۴ ؁ھ کے بعد ہوئی، ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں انھیں ۴۶۴ھ ؁کے وفات پانے والوں میں شمار کیا ہے۔

حافظ ابو حفص عمر بن منصور البز از بخاری کا اصل موضوع اگر چہ حدیث تھا لیکن فقہ میں بھی انھیں کافی درک تھا، شمس الائمہ سرخسی کا ان سے السیرالکبیر کی روایت کرنا ان کے فقیہانہ مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔

آغازتدریس

شمس الائمہ سرخسی نے تعلیم کی تکمیل کر کے مسند درس کب سنبھالی، اس کے بارے میں قطعیت سے کوئی بات کہنا مشکل ہے، لیکن تذکرہ نگاروں کے انداز بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے استاذ شمس الائمہ حلوانی کی حیات ہی میں تدریس کا مشغلہ شروع کر دیا تھا، ان کو تدریس و تصنیف سے ایسی دلچسپی تھی کہ طویل ترین ایام اسیری میں بھی یہ دونوں مشغلے نہیں چھوٹے، ہر طرح کی مشقتیں جھیل کر تدریس و تصنیف کا سلسلہ جاری رہا۔

شمس الائمہ سرخسی بڑے حق گو تھے، حق کے معاملہ میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں کرتے تھے، مسائل لکھنے اور بتانے میں حکام کی چشم و ابرو کا خیال نہیں کرتے تھے، منکرات پر نکیر ان کا شیوہ تھا، کسی معاملہ میں انھوں نے سلطان وقت کو نصیحت کی، جو اس کو سخت ناگوار ہوئی، اس نے برہم ہو کر انھیں اوز جند کی جیل میں قید کر دیا، یہ کہنا مشکل ہے کہ انھیں بخارا سے قید کر کے اوز جند کی جیل میں بھیجا گیا، یا وہ خود اوزجند منتقل ہو گئے تھے جب خاقان کو اس سے برہمی ہوئی تو اس نے اوز جند کے جیل خانہ میں قید کر ادیا، بہ ظاہر پہلی صورت زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ وہ شمس الائمہ حلوانی کے سب سے مشہور اور مقبول شاگردو ہی تھے، استاذ کی علمی جانشینی انھیں کے ہاتھ آئی، حتی کہ اپنے استاذ کا لقب (شمس الائمہ) بھی زبان خلق نے انھیں کو دے دیا، اس لئے اغلب یہی ہے کہ انھوں نے استاذ کی وفات کے بعد بخارا میں ان کی مسند درس آباد کی ہوگی۔

شمس الائمہ سرخسی کی اسیری اور ایام اسیری کا ذکر کرنے سے پہلے ہم ’’جغرافیہ خلافت مشرقی ‘‘کے حوالہ سے اس شہر کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جس کی جیل میں علامہ سرخسی کی زندگی کا بڑا حصہ گزرا۔

’’اوش‘‘ کے آگے اوزکند صوبہ فرغانہ کا سب سے زیادہ مشرقی شہر واقع ہے، اسے وسعت میں اوش سے دو ثلث بتایا گیا ہے، اوز کند بھی ایک زرخیز علاقہ میں واقع ہے، اس میں ایک قلعہ تھا اور اندر والے شہر کی فصیل خوب مضبوط تھی، اس کے باہر ایک بستی تھی جس کے بازاروں میں ترک سودا گردوں کی آمد و رفت اکثر رہا کرتی تھی، بیرونی بستی کے گرد ایک فصیل تھی، جس میں چار دروازے تھے، ان میں سے ایک دروازہ کے سامنے سے دریا گزرتا تھا بستی کے بازار میں جامع مسجد تھی۔(جغرافیہ خلافت مشرقی: ۷۴۲،۷۴۳)

اوز کند یا اوز جند میں شمس الائمہ سرخسی کو کیوں اسیر کیا گیا، اس کے بارے میںصرف اتنی اجمالی بات قدیم تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ انھوں نے خاقان (سلطان، حکمران) کے سامنے بہ طور خیر خواہی کلمہ حق کہہ دیا تھا جو اسے ناگوار ہوا اور اس نے جیل میں ڈال دیا لیکن وہ کلمہ حق کیا تھا اور کس معاملہ میں کہا گیا تھا اس سے تذکرہ و تراجم کی کتا بیں خاموش ہیں، اسی طرح اس خاقان کا نام بھی نہیں لکھا گیا جس نے یہ بد بختانہ اقدام کیا تھا۔

کسی مشہور اور صاحب درس عالم وفقیہ کو جس کے ہزاروں شاگرد اور ارادت مندہوں کم از کم ۲ ا؍سال قید میں رکھنا اور قید بھی اتنی سخت کہ کنویں میں ڈال دیا گیا ہو، یہ سنگین تر اقدام شخصی معاملہ میں حاکم کی مرضی کے خلاف کسی فتوی دینے یا کوئی نصیحت آمیز بات کہہ دینے کی وجہ سے نہیں ہو سکتا، اس لئے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی یہ قیاس آرائی بالکل معقول اور قرین قیاس معلوم ہوتی ہے،کہ اس زمانے میں محاصل شرعی کے علاوہ نئے نئے ٹیکس لگ رہے تھے۔ المبسوط (۱۰:۱۲) میں خود السرخسی نے ان میں سے اکثر ٹیکسوں کو ظالمانہ  قرار دیا ہے۔ ممکن ہے عدم ادائیگی محاصل کی تحریک کی قیادت کے الزام میں انہیں قیدوجلاوطن کیا گیا ہو۔

بخارا، اوز جند و غیرہ کے علاقہ میں اس وقت قراخانیوں کی حکومت تھی قراخانیوں کی حکومت کے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں، اس لئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس وقت بخارا اور اوز جند ایک ہی حکمراں کے زیرنگیں تھے یا دونوں کے الگ حکمراں تھے؟ اور کس خاقان نے سرخسی کو قید کیا لیکن اتنی بات معلوم ہے کہ اس دور میں فقہاء اور حکمرانوں کے درمیان کشمکش تھی، قراخانیوں کی ظالمانہ کاروائیوں اور ظالمانہ ٹیکسوں کی وجہ سے اصحاب دین و علم ان سے ناراض تھے، فقہاء نے قراخانیوں کے مظالم اور اس علاقہ کی طوائف الملوکی سے نجات حاصل کرنے کے لئے سلجوقی حکمراں ملک شاہ کو وہ علاقہ فتح کرنے کی دعوت دی، چنانچہ اس نے یہ سارا علاقہ فتح کر لیا، اوز جند پر ملک شاہ نے ۴۸۳؁ھ میں قبضہ کیا، اس پس منظر میں علامہ سرخسی کی طویل اسیری کے راز کو سمجھا جاسکتا ہے، اس خیال کی کچھ تائید المبسوط جلد :۲۷ کی ایک عبارت سے ہوتی ہے،اس کے آخر میں امام سرخسی رقم طراز ہیں:

انتھیٰ شرح الصفار من الفروع من الاستحسان الی البیوع بالموثر من المعانی مع الخبر المسموع باملاء الملتمس لرفع الباطل الموضوع  المنفی لاجلہ المحصور الممنوع عن الاھل والولد والکتاب المجموع الطالب للفرج بالدعاء والخشوع فی ظلم اللیالی بالبکاء والدموع۔۔۔۔۔(المبسوط:۲۷/۱۲۴)

اس عبارت سے چند اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں:

 (۱) شمس الائمہ سرخسی کے بارے میں خاقان کے یہاں کچھ بے بنیاد سنگین شکایات پہنچائی گئی تھیں جس کی وجہ سے خاقان نے انھیں قید میں ڈالا، اس طوائف الملوکی کے زمانہ میں شاید ایسی کوئی بات پہنچائی گئی ہو کہ سرخسی کا آپ کے مخالف حکمرانوں سے گہرا تعلق ہے یا وہ آپ کے خلاف بغاوت کے جذبات بھڑکا رہے ہیں، سرخسی نے اس طرح کے کسی الزام کو’’ باطل موضوع‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے، امام سرخسی چوں کہ حق بات کہنے میں بیباک تھے، خاقان کے سامنے بھی بر ملا کلمہ حق کہتے تھے ان کی یہ حق گوئی بھی ان کے خلاف خاقان کا ذہن تیار کرنے میں معاون بنی۔

 (۲)سرخسی کے مذکورہ بالا عبارت میں اپنے لئے محصور (قیدی) سے پہلے المنفی کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کا معنی ہے (جلا وطن کیا ہوا شخص) اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ وہ اوز جند میں قید ہونے سے پہلے وہاں آکر آباد نہیں ہو گئے تھے بلکہ انھیں بخارا سے جلا وطن کر کے اوز جند کی جیل میں لا کر قید کر دیا گیا تھا اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے اس زمانہ میں بخارا اور اوز جند ایک ہی خاقان کے زیر فرمان تھے، اوز جند اس مملکت کا ایک سرحدی قصبہ تھا، وہاں قید کرنے کا مقصد سرخسی کو ان کے حلقہ اثر سے دور کرنا تھا ۔

(۳)تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اسیری سے پہلے ہی وہ صاحب اولا د تھے، قید کی مشقتوں کے علاوہ انھیں اپنے بال بچوں اور ذخیرہ کتب سے دوری کا بھی بڑا ملال تھا۔

المبسوط کے مقدمہ میں مختصر حاکم شہید کی شرح لکھنے کے محرکات بیان کرتے ہوئے سرخسی فرماتے ہیں:

قد انضم الی ذلک سوال بعض الخواص من اصحابی زمن حبسی حین ساعدونی لانسی ان املیٰ علیھم ذلک فاجبتھم۔ (المبسوط: ۱/۴)

اس عبارت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بخارا سے امام سرخسی کی جلا وطنی اور اوز جند میں اسیری کا فیصلہ ہوا تو ان کے کچھ مخصوص شاگردان کی وحشت اور تنہائی کے احساس کو کم کرنے کے لیے اوز جند آگئے، اور انھیں سرخسی سے علمی استفادہ کی اجازت مل گئی فضل اللہ عمری کے بیان کے مطابق استفادہ کی صورت یہ تھی کہ امام سرخسی کنویں میں قید تھے، کنویں کی منڈیر پر شاگرد اکٹھا ہو جاتے تھے امام سرخسی محض حافظہ اور ذہن سے کسی کتاب یا نوٹس کی طرف مراجعت کیے بغیر کسی اہم فقہی کتاب (الکافی للحاکم الشہید، السیر الکبیر للإمام محمد) کی شرح املاء کراتے، شاگردا سے نوٹ کرتے۔

اوزجند کے طویل زمانہ اسارت میں قید کی مشقتوں کو برداشت کرتے ہوئے ہمارے اس عظیم فقیہ نے وہ علمی وتحقیقی کارنامے انجام دیے جن پر بجاطور پر امت مسلمہ کو ناز ہے، عظیم فقہی انسائیکلو پیڈیا ’’المبسوط (جو تیس جلدوں میں شائع ہوئی) اسلام کے بین الاقوامی قانون پر بے نظیر کتاب ’’شرح السیر الکبیر‘‘ (جو پانچ جلدوں میں شائع ہوئی) اصول فقہ کی عظیم کتاب اصول السرخسی (دوجلدیں) اسی دور اسیری کی یادگاریں ہیں، ہمارے اسلاف کا یہی علمی انہماک اور اولوالعزمی اخلاف کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہے، مصائب کا طوفان اور جیل کی سلاخیں ان کے عزائم کو سرد اور حوصلوں کو پست نہیں کر سکیں، حسرت موہانی نے تو مشق سخن اور چکی کی مشقت کو جمع کر کے طبیعت کی طرفگی کی داد چاہی ہے اور امام سرخسی نے تو یہ کر دکھایا کہ جیل کے تاریک کنویں یا ویران گوشے میں وطن اور اہل و عیال سے دوری و مہجوری کا زخم سینہ پر لئے ہوئے کتابوں یا نوٹس کی طرف مراجعت کئے بغیر محض اپنے حافظہ اور ذہانت سے اسلامی قانون کے دقیق موضوع پر پورا کتب خانہ تیار کر دیا، اس سے امام سرخسی کے غیر معمولی حافظہ،تبحر، استحضار علم اور علمی فنائیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ایک بار امام سرخسی کے حلقہ درس میں کسی نے ان سے عرض کیا: امام شافعی کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ انھیں تین سو کاپیاں (کراس) یاد تھیں، یہ سن کر امام سرخسی نے فرمایا کہ امام شافعی کو تو میری یاد کی ہوئی کاپیوں کی زکوۃ کے بہ قدریاد تھا، ان کے اس ارشاد کی روشنی میں ان کے محفوظات کا حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ انھیں بارہ ہزار کاپیاں(۱۲۰۰۰) یاد ہیں، اس روایت میں پہلے مرحلہ میں مبالغہ محسوس ہوتا ہے لیکن سرخسی کی المبسوط اور شرح السیر الکبیر پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اس دعوی کی تصدیق کرنی پڑتی ہے، یادداشت سے ایسی کتابیں وہی شخص لکھوا سکتا ہے جس نے علوم کا سمندر پی لیا ہو اور اس کا علم کتابوں میں نہیں بلکہ اس کے سینے میں محفوظ اور مستحضر ہو۔

شمس الائمہ سرخسی کی اسیری کا زمانہ کافی طویل ہوا، اس لئے وہ دور اسیری میں المبسوط، اصول السرخی، شرح السیرالکبیر جیسی ضخیم اور عظیم کتابیں لکھا سکے، شرح السیر الکبیر کے آخر میں درج تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ربیع الاول ۴۸۰ ؁ ھ کے آغاز میں امام سرخسی کو اوز جند کی جیل سے رہائی ملی اور المبسوط کی ایک عبارت (جلد ۲۷/۱۲۴) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ۴۶۶ ؁ھ میں المبسوط املاء کرانے میں مشغول تھے، اس طرح کم از کم ۲۱ رسال ان کا جیل میں رہنا یقینی ہوا، جمادی الآخرہ ۴۷۴ھ میں وہ المبسوط کی آخری جلد مکمل کر رہے تھے (۳۰/۲۸۷) اس طرح المبسوط کی تکمیل میں دس سال سے زائد عرصہ صرف ہوا، اتنی بڑی کتاب کے لئے یہ کوئی بہت زیادہ مدت نہیں ہوئی۔ المبسوط مکمل کرنے کے بعد سرخسی نے اور جند کی جیل کے ایک گوشے میں شوال ۴۷۹ ؁ھ میں اصول فقہ پر اپنی معرکۃ الآراء کتاب املاء کرانی شروع کی (اصول السرخسی (۱/۹) اس کتاب کی تکمیل جیل ہی میں ہوئی، شرح السیر الکبیر کی املائی تصنیف کا آغاز اسیری کے بالکل آخری زمانہ میں ہوا جیسا کہ شرح السیر الکبیر کے بعض مخطوطات کے آخری صفحہ کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے، کتاب الشروط تک پہنچے تھے کہ رہائی کا پروانہ ملا، ربیع الاول ۴۸۰ ؁ھ کے آغاز میں بروز اتوار اوز جند سے نکلے، ۱۰؍ ربیع الآخر ۴۸۰ ؁ ھ کو مرغینان پہنچے،امام سیف الدین ابوابراہیم اسحاق بن اسماعیل کے دولت کدہ میں قیام کیا،امام سیف الدین اور دوسرے علماء کی خواہش پر شرح السیر الکبیر کی تکمیل کا ارادہ فرمایا، امام سیف الدین کے مکان ہی میں۲۴ ربیع الآخر ۴۸۰ ؁ھ کو کتاب الشروط سے آغاز کیا اور۳ جمادی الاولی ۴۸۰ ؁ھ کو کتاب مکمل فرمائی۔

اوز جند کی جیل سے رہائی کے بعد امام سرخسی کا مرغینان جا کر قیام کرنا اور وہاں شرح السیر الکبیر کی تکمیل کرنا تو کتب تراجم میں مذکور ہے، اس کے علاوہ ان کی دوسری تصنیفی و تدریسی سرگرمیوں کا سراغ نہیں لگتا، اکثر تذکروں کے مطابق ۴۸۳ ؁ھ میں ان کی وفات ہوئی، یعنی رہائی کے بعد کل تین سال زندہ رہے، قرشی نے ۴۹۰ ؁ھ کے اندران کی وفات لکھی ہے اور مقریزی نے ۵۰۰ ؁ھ کے آس پاس وفات تحریر کی ہے، ملا علی قاری نے۴۳۸ ؁ھ سن وفات درج کی ہے، جو یقینا غلط ہے، ان کے قلم سے یہاں لغزش ہوئی ہے، راجح قول یہی ہے کہ۴۸۳ ؁ ھ میں وفات ہوئی۔

تصنیفات

شمس الائمہ سرخسی کی تین تصنیفات شائع ہو چکی ہیں:

 (۱) المبسوط (۳۰ جلدیں) (۲) شرح السیر الکبیر (پانچ جلدیں) (۳) اصول السرخسی (۲ جلدیں)

 یہ کتا بیں امام سرخسی کا تعارف کرانے اور ان کا علمی مرتبہ متعین کرنے کے لئے کافی ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ کے بیان کے مطابق سرخی کا ’’أشراط الساعۃ ‘‘ نام کا ایک مخطوطہ پیرس میں موجود ہے، یہ علامات قیامت پر سرخسی کے استاذ امام حلوانی کے لکچرس ہیں جنھیں سرخسی نے کتابی صورت میں مرتب کیا، ان کے علاوہ سرخسی کی درج ذیل تصنیفات ہیں:

(۱) شرح الجامع الصغیر (۲) شرح الجامع الکبیر (۳) شرح الزیادات (۴) شرح زیادات الزیادات (۵) شرح ادب القاضی للخصاف (۶) شرح کتاب النفقات للخصاف (۷) الفوائد الفقہیۃ (۸) کتاب الحیض

 یہ کتابیں شائع نہیں ہوئی ہیں، ان میں بعض کے نسخے بعض مکتبات میں پائے جاتے ہیں۔

سرخسی کا علمی مقام

سرخسی کا علمی مقام محتاج بیان نہیں، ان کی علمی قدرومنزلت ان کی بلند پایہ تصنیفات سے ہویدا ہے، ابن کمال پاشا نے انھیں فقہاء کے طبقہ سوم (مجتہدین فی المسائل) میں شمار کیا ہے، ابن کمال پاشا کے بیان کے مطابق طبقہ سوم کے فقہاء اصول و فروع میں اپنے امام کی مخالفت نہیں کرتے لیکن نئے پیش آمدہ مسائل میں اپنے امام کے بیان کردہ اصول اجتہاد کی روشنی میں اجتہاد و استنباط کرتے ہیں۔

شمس الائمہ حلوانی کی وفات کے بعد امام سرخسی اپنے استاذ کی مسند علم و تدریس کے وارث ہوئے تھے حتی کہ امام حلوانی کا لقب (شمس الائمہ) بھی زبان خلق نے انھیں دے دیا، اس لقب سے وہ اتنے مشہور ہو گئے کہ فقہاء احناف جب شمس الائمہ کا لقب کسی سابقہ بالا حقہ کے بغیر استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد امام سرخسی ہی ہوتے ہیں۔

تذکرہ نگاروں نے انھیں بہت بلند القاب سے یاد کیا ہے، عبد القادر قرشی نے ان کو اس طرح یاد کیا ہے:

 أحد الفحول الأئمۃ الکبار أصحاب الفنون، کان إماماً، علامۃ، حجۃ، متکلماً، فقیہاً، أصولیاً، مناظراً.

شہاب الدین بن فضل اللہ عمری لکھتے ہیں:

کان إماماً فاضلاً، متکلماً، فقیہا، أصولیاً، مناظراً یتوقد ذکاء۔

مولانا عبد الحی فرنگی الفوائد البہیۃ میں رقم طراز ہیں:

کان اماما علامۃ حجۃ متکلما مناظرا اصولیاً مجتہداً۔

تلامذہ

امام سرخسی بہت با فیض اور باکمال مدرس تھے، ان کی تصنیفات بھی دراصل ان کے درسی امالی ہیں، ان کے حلقہ درس سے بڑے بڑے علماء، فقہاء اور اصحاب کمال تیار ہوئے، ان کے شاگردوں کی گرویدگی اور وفاداری کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایام اسیری میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، ان کی وحشت اور تنہائی کو کم کرنے کے لئے خاقان کے عتاب اور اس کی خشمگیں نگاہ سے بے پروا ہو کر جیل میں بھی ان کی خدمت میں حاضر رہے اور ان کے درسی امالی کو قلمبند کر کے آئندہ نسلوں کے لئے گراں قدر علمی تحفہ چھوڑا۔

امام سرخسی کے چند ممتاز شاگردوں کے نام یہ ہیں:

(۱) برہان الائمۃ عبدالعزیز بن عمر بن مازہ                      (۲) شیخ محمود بن عبدالعزیز اوز جندی

(۳) رکن الدین مسعود بن الحسن                             (۴) شیخ عثمان بن علی بن محمد بیکندی

Tags

Share this post: