مولانا گیلانی ؒ کی ایک گراں قدر تصنیف’’تدوین حدیث‘‘
مولاناابوسحبان روح القدس ندوی
استاذحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء
فتنۂ انکار حدیث کی سرکوبی کے لیے جو دستہ آگے بڑھا اس کے سرخیل سرزمین بہار کے بطل ِ جلیل ، مایۂ ناز مصنف و مورخ ، شیریں بیاں واعظ و مقرر اور خوش الحاں شاعر علامہ سید مناظر احسن گیلانی ( ۱۸۹۲-۱۹۵۶ء) کا نام نامی ہے ، جن کے قلم کی جولانی نے : النبی الخاتم، حضرت ابو ذر غفاری،امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، تذکرۂ شاہ ولی اللہ، سوانح قاسمی، تذکیر سورۃ الکہف، الدین القیم،اسلامی معاشیات، ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت ، مقالات احسانی، تدوین قرآن،تدوین حدیث اورتدوین فقہ جیسی عظیم کتابیں اور ان کے بکھرے ہوے بیسیوں مقالات نے برصغیر کے اسلامی کتب خانوں کو مالامال کردیا ۔
مولانا علی میاں علیہ الرحمہ ’’ پرانے چراغ‘‘ (۱) میں مولانا گیلانی پر اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں :
’’ بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے ، وسعت نظر ، وسعت مطالعہ ، رسوخ فی العلم اور ذکاوت میں ان کی نظیر اس وقت تک ممالک اسلامیہ میں ملنی مشکل ہے- والغیب عند اللہ-تصنیف و تالیف کے لحاظ سے وہ عصر حاضر کے عظیم مصنفین میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں ، انھوں نے اپنی کتابوں میں جو مواد جمع کردیا ہے وہ بیسیوں آدمیوں کو مصنف اور محقق بناسکتا ہے ، اس ایک آدمی نے تن تنہا وہ کام کیاہے جو یورپ میں پورے پورے ادارے اور منظم جماعتیں کرتی ہیں ، ان جیسا آدمی برسوں میں پیدا ہوا تھا اور اب ان جیسا آدمی شاید برسوں میں بھی پیدا نہ ہو ‘‘۔
آثارِ گیلانی پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا علی میاں رقمطراز ہیں :
’’ مولانا کے علمی مقالات کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں یک جا اتنا منتشر مواد جمع فرمادیتے ہیں جو آسانی کے ساتھ کسی ایک کتاب میں نہیں مل سکتا ، دوسرے منقولات کے ساتھ وہ بہت سی ایسی نئی باتیں لکھ دیتے ہیں جن کی طرف عام طورپر ذہن نہیں جاتا ، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا نکتہ رس اور نکتہ آفریں ذہن عطا فرمایا تھا ، قرآن مجید کی وہی آیات اور صحا ح کی وہی احادیث اور تاریخ کے وہی بیانات جو ہم آپ بیسو ں بار پڑھ چکے ہیں مولانا ان سے ایسے حقائق ثابت کردیتے ہیں اور ان سے ایسے عجیب لیکن صحیح نتائج نکالتے کہ حیرت ہوتی ہے ‘‘۔(۲)اس کا بہترین نمونہ ان کی تصنیف ’’ تدوین حدیث‘‘ ہے ۔(۳)
مولانا گیلانی کا عالمانہ امتیاز ان کے ایک لائق شاگرد ڈاکٹرغلام محمد کی زبانی ملاحظہ ہو :
’’ مولانا گیلانی کو اپنے معاصر علمائے دیوبند پر مندرجہ ذیل وجوہ سے تفوق حاصل تھا :
۱۔وہ درسیات کے ماہر معلم ہی نہیں بلکہ ایک ’’ صاحب نظر ‘‘ عالم تھے۔
۲۔وہ تاریخ اور علوم عصریہ سے بھی راست واقفیت رکھتے تھے ۔
۳۔تحقیقات علمی میں ان کی نگاہ دیوبندی اور غیر دیوبندی نقطۂ نظر کی پابندیوں سے آزاد تھی ۔
۴۔انھوں نے خدمت دینی کی جدید راہیں اختیار کیں اور مردانہ وار نکل گئے ، اس سلسلے میں وہ سلف کے اقوال یا طرز عمل کو رفیق طریق بناکر پھر متاخرین کے اختلاف یا معاصرین کے ایراد و اعتراض کی پروا نہ کرتے تھے ۔
۵۔انھوں نے قدیم لٹریچر کو جدید ضروریات کے لیے اس حسن و خوبی سے برتا کہ اس کی وجہ سے اسلامی محققین اور مجتہدین کی دھاک متجددین پر قائم ہوگئی اور یہ ذہنی مرعوبیت کا ایک موثر علاج ثابت ہوا ۔
۶۔وہ ادب کا ستھرا ذوق رکھتے تھے اس لیے وہ جدید زبان اور اسلوب بیان میں عالمانہ مضامین بہ خوبی پیش کرتے رہے بلکہ ادبی حیثیت سے مولانا کی تحریروں پر غائر نظر ڈالی جائے تو بیسیوں عمدہ اور اچھوتی اصطلاحات ملیں گی جو مولانا کے ہاتھوں زبان اردو کو ملی ہیں ۔
۷۔سیاست کے خارزار سے انھوں نے اپنا دامن بچائے رکھا ، مگر ملت کی علمی و دینی ضرورتوں سے کبھی غافل نہیں رہے اور فی زمانہ جس جس محاذ پر علمی مورچوں کے قیام کی ضرورت تھی انھوں نے اپنی ساری جماعت کی طرف سے تنِ تنہا یہ خدمت اس وقت انجام دی جب اورلوگ ادھر سے غافل تھے، چناں چہ تدوین حدیث ، تدوین قرآن اور تدوین فقہ ان کی باخبری اور علمی جہاد کی پایندہ یادگاریں ہیں ۔(۷)
ہمارے پیش نظرمولانا گیلانی کی ’’ تدوین حدیث‘‘ہے جو بہ قول عبدالماجد دریاآبادی :
’’ تدوین حدیث کی مفصل تاریخ یوں بھی اہم علمی ضروریات میں سے تھی اور امت کے اوپر یہ قرض مدت سے چلاآرہا تھا کہ حال میں جو تحریک انکار ِحجیتِ حدیث زور پکڑ گئی ہے ، اس نے اس علمی ضرورت کو ایک اہم دینی ضرورت بھی بنادیا ہے ، الحمدللہ کہ اس موضوع پر قلم فاضل گیلانی نے اٹھایا ‘‘۔(۸)
’’تدوین حدیث‘‘کے مشمولات کو مزید اجاگر کرتے ہوے دریاآبادی لکھتے ہیں:
’’ اس میں حدیث کی شرعی حقیقت، حدیث کی دینی اہمیت و ضرورت ، اس کی تدوین و حفاظت اور اس کے معیارِ رد و قبول کے متعلق جملہ مباحث پر نہایت تحقیقی و تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ، نیز ان شکوک و شبہات کا نہایت اطمینان بخش جواب دیا گیا ہے ، جن کی وجہ سے بعض لوگ حجیتِ حدیث کا انکار کرنے لگے ہیں ‘‘ ۔ (۹)
فاضل گیلانی کے طرزِ نگارش پر ان کے معاصر ادیب و مفسر دریاآبادی لکھتے ہیں :
’’ حسن استنباط ، نکتہ آفرینی ، دقت ِ نظر مولانا کی تحریروں کے خاص جوہر ہیں اور وہ اس کتاب میں بھی اول سے آخر تک نمایا ں ہیں ‘‘۔(۱۰)
اس کتاب کے اہم گوشے کو دریاآبادی نے کس طرح اجاگر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
’’ کتاب تاریخ حدیث پر تو ہے ہی، اس کے علاوہ عقائد وکلام پر بھی ایک اعلیٰ کتاب کا کام دے سکتی ہے ‘‘ ۔(۱۱)
مزید لکھتے ہیں : ’’ کتاب جہاں منکرینِ حدیث کے پیدا کئے ہوے شبہات کے تسکین بخش جواب دیتی ہے اوردلوں میں تسلی پیدا کرتی ہے وہیں دوسری طرف حدیث کے ماننے والوں کے غلو اور خبر آحاد کو اس کے مرتبے سے بڑھ کر رکھنے والوں کی مبالغہ پسندی کی بھی اصلاح کرتی ہے ‘‘ (۱۲)
فاضل گیلانی کی ’’تدوین حدیث ‘‘ علامہ سید سلیمان ندوی کی فاضلانہ تقریظ سے آراستہ ہے ، سید صاحب فتنۂ انکار حدیث کا جائزہ لینے کے بعد رقم طراز ہیں :
’’اس زمانے میں بھی ان بدعتیوں کے مقابلے کے لیےاللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو ہمت،جرأ ت بصیرت اور اہلیت و استعداد بخشی جنہوں نے ان کے ہر نیزے کو اپنے سپر سے روکا ، ان کے ہرحملے کا کلہ بکلہ جواب دیا ، ان کے ہر اعتراض کو دورکیا اور ان کے ہر شبہ کو دفع کیا ‘‘ ۔(۱۳)
سیدصاحب مزید لکھتے ہیں :ـ ’’ اس زمانے میں اس فرض کو ادا کرنے کے لیے جو دستہ آگے بڑھا اس کے ہراول میں ہمارے دوست ، مناظر اسلام ، متکلم ملت ، سلطان القلم مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا نام نامی ہے ، جن کے قلم کی روانی اسلام کی محافظت میں تیغ رانی کا کام دیتی ہے ۔۔‘‘۔(۱۴)
سید صاحب ’’ تدوین حدیث ‘‘ پر اپنا ریویو ان الفاظ میں ختم کرتے ہیں:’’زیرِ نظر مجموعہ بھی موصوف کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے جس میں انھوں نے زمانے کی ذہنیت اور مذاق کا لحاظ رکھ کر علم حدیث کی تعریف ، علم حدیث کی اہمیت ، اس کی تاریخ اوراس کے تحریری سرمایہ کا آغاز و انجام اور اس کی تدوین پر محققانہ مباحث لکھے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے ‘‘۔(۱۵)
تدوین حدیث کے فاضل مولف اپنی کتاب کا آغاز ’’ موضوعِ بحث کی تشریح ‘‘ کے زیر عنوان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ علم حدیث پر بحث کرنے کے لیے ہمیں اپنے سامنے ان چند سوالات کو رکھ لینا چاہیے :
(۱)حدیث کی حقیقت کیا ہے ؟
(۲)اس علم کی تدوین کب ، کس طریقے سے ، کس زمانے میں شروع ہوئی ؟اور ان طریقوں کا اس علم کے وثوق و اعتماد پر کیا اثرمرتب ہوا یا ہوسکتا ہے ؟
(۳)ابتداسے اس وقت تک اس فن کی ممتاز خدمتیں جن بزرگوں نے انجام دیں خود ان کی اور ان کے کارناموں کی تفصیل ۔
(۴)اس فن کے متعلق کن جدید تکمیلی کوششوں کی ضرورت باقی ہے ؟
(۵)حدیث کے بعد فن حدیث کے دوسرے متعلقات یعنی فن اسماء الرجال اور اصول حدیث کی حقیقت ، ان کی تاریخ ، موجودہ حیثیت ، ان میں آیندہ ترقیوں کے امکانات ‘‘۔(۱۶)
مولانا نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ ’’ حدیث نبوی عہد نبوی میں لکھی گئی اور اس کے بہت سارے مجموعے بہت سارے صحابہ کرام کے پاس لکھے ہوئے موجود تھے ، پھر جس طرح ہمارے زمانے میں قرآن کے بہت سارے حافظ پائے جاتے ہیں اور وہ قرآن یاد رکھتے ہیں عہد نبوی اور عہد صحابہ میں آ نحضرت ﷺ کے صحابہ احادیث یاد کرتے اور یاد رکھتے تھے ، مولانا نے سب کے لیے تحریری ثبوت فراہم کرنے کی سعی فرمائی ہے ، عہد نبوی سے لے کر بعد تک محدثین کے حفظ و اتقان کے بہت واقعات جمع کردیے ہیں ۔۔۔۔۔ اور نام بہ نام بتایا ہے کہ اس معاملہ میں صحابہ کی شیفتگی کا کیا عالم تھا‘‘۔(۱۷)
تدوین حدیث کی تالیف کا پس منظر خود مولف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
’’تدریسی اسباق کے ساتھ جو طلبۂ جامعہ ( عثمانیہ حیدرآباد) کے لیے مخصوص ہیں کچھ دنوں سے جامعہ میں توسیعی خطبات کا سلسلہ بھی عام لوگوں کے نفع کے لیے جاری کیا گیا ہے ، ٹاؤن ہال میں خاک سار نے بھی تدوین حدیث پر نائب امیرجامعہ قاضی محمد حسین صاحب کی فرمایش سے ایک خطبہ دیا تھا ، وہی خطبہ مقالے کی صورت میں آج شائع کیا جاتا ہے‘‘ ۔ (۱۸)
اعظم سسٹم پریس گورنمنٹ ایجوکیشنل پرنٹرز ، حیدر آباد دکن سے ۱۳۵۹ ھ میں یہ مقالہ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔
یہ مقالہ مولف کی اجازت سے ماہ نامہ معارف اعظم گڑھ کے تین شمارے اپریل تا جون ۱۹۴۱ء کی زینت کا باعث ہوا۔
پھر جنوری ۱۹۴۸ تا ۱۹۵۱ کے ماہ نامہ برہان دہلی میں اکتیس قسطوں میں ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع ہواتھا، ادارہ مجلس علمی کراچی (پاکستان) نے ۴۸۷ صفحات پر مشتمل علامہ سید سلیمان ندوی کے مقدمہ سے آراستہ ۱۹۵۶ ء میں شائع کیا اور اس کا عکس مکتبۂ تھانوی دیوبند ، سہارن پور نے اکتوبر ۱۹۸۳ ء میں چھاپا،کتابی صورت میں اسے ڈاکٹر غلام محمد نے مرتب کیا ۔
مولف نے اس کتاب کی تالیف میں اپنا قلم ’’ عہد مرتضوی اور تدوین حدیث ‘‘ پر روک کر ’’ صحابیت اور حدیث رسول کے خلاف ناپاک اقدام ‘‘ اور ’’فتنۂ سبائی کے بعد حدیث کی روایت میں احتیاطی اصول ‘‘ پر بھرپور روشنی ڈالی ہے جو لائق مطالعہ ہے۔
کتاب کے نامکمل ہونے کا احساس خود مولف علیہ الرحمہ کو بھی تھا جیسا کہ موصوف نے اپنے ایک دیرینہ شاگرد ڈاکٹرغلام محمد صاحب کو ۲۰ ؍اگست ۱۹۵۵ء کے مکتوب میں لکھا ہے :
’’ اسماء الرجال کے فن پر افسوس کہ نہ لکھ سکا ، ایک محاضرہ اس کے لیے ضروری تھا ، معلومات فراہم شدہ ہیں ، لیکن ترتیب کون دے ؟ بندہ کے لیے تو ان چند سطروں کا لکھنا بھی دشوار ہے ‘‘(۱۹)
نیز تدوین حدیث کے اختتام پر مولف نے ’’ فن جرح و تعدیل ‘‘کے چند سطری تعارف کے بعد لکھا ہے :
’’ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور اسی قسم کے سارے متعلقہ مباحث کے لیے آیندہ باب کا انتظار کرنا چاہیے ‘‘ ۔(۲۰)
جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی کے چانسلر اور بہت سی کتابوں کے مولف ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے علامہ گیلانی کی ’’ تدوین حدیث‘‘ کو سلیس عربی قالب میں ڈھال کردارالقلم کراچی سے عمدہ گٹ اپ کے ساتھ ۲۰۰۵ء شائع کیا ہے ، یہ ترجمہ یکے از مشاہیر و مولفین شام ڈاکٹر بشار عوّاد معروف کے مراجعہ و تعلیق سے آراستہ ہے ، ڈاکٹر بشار نے اپنے مقدمے میں ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی ۱۹۸۰ء میں فیصل ایوارڈیافتہ شہرۂ آفاق تالیف ’’ دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ ‘‘ کو بلا دلیل و برہان مولانا گیلانی کی تدوین حدیث کا چربہ قرار دیا ہے، جو درست نہیں ۔
مولانا گیلانی کی حیات و آثار کے لیے دیکھیں:
(۱)حیات مولانا گیلانی :محمد ظفیر الدین مفتاحی
(۲)مولانا سید مناظر احسن گیلانی ( شخصیت اور سوانح): ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاںپوری
(۳)پرانے چراغ ( حصہ اول) : مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
(۴)مقدمہ مقالات احسانی : ڈاکٹر غلام محمد
(۵)تعارف تدوین حدیث ( شامل درکتاب): سید سلیمان ندوی
اب آئیے تھوڑا وقت مولانا گیلانی کے سوانحی خاکہ کو دیں۔
مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ یکم اکتوبر ۱۸۹۲ء کو اپنے ننھیال موضع استھانواں میں پیدا ہوئے ، خاندان کی دینی ، اخلاقی ، تعلیمی روایات ان کے حصے میں آئی تھیں۔ ان کی ابتدائی فارسی عربی کی تعلیم ان کے چچا کے زیر نگرانی گیلانی میں ہوئی تھی اور بیشتر کتابیں خودانہی نے پڑھائی تھیں۔ تعلیم کا دوسرا دور جو تقریباً آٹھ برس کی مدت پر پھیلا ہوا تھا، ٹونک کے مدرسہ خلیلیہ میں گزرا جہاں خیر آبادی سلسلے کے نام ور عالم مولانا حکیم سید برکا ت احمد علیہ الرحمہ مسند نشیں صدارت تھے۔ مولانا گیلانی حضرت سید برکات احمد کے درس وصحبت میں خانوادۂ خیر آبادی کے معارف سے خوب خوب سیراب ہوئے۔ مدرسہ خلیلیہ میں فلسفہ وحکمت کے جام لنڈھا چکے تو بخت کی فیروزمندی نے انھیں وقت کے سب سے بڑے محدث وفقیہ اورعارف باللہ مولانا محمود حسن کی خدمت میں پہنچادیا جو ایشامیں حدیث وفقہ کی سب سے بڑی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی مسندِ صدارت اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے۔ مولانا حکیم سید برکات احمدکی برکات درس وصحبت نے ان کی ذہنی وفکری صلاحیتوں کو بیدار کرکے انھیں جلابخشی تھی اور طبع کو روشن کردیا تھا۔ حضرت مولانا محمود حسن کے فیضان تعلیم وتربیت ، توجہات سامی اور صرف ہمت نے ان کی فطرت کو سعادت، طبع کو سلامتی ، فکر کو جہت سفر کو منزل، قلب کو گداز اور ایمان کو پختگی بخشی تھی۔ نیز فکر کی تیزی وبراقی کو سعادت سے، خیالات کی بے راہ روی کو سلامتی سے، قلب کی بے چینی اور بے یقینی کو اطمینان سے بد ل کر فکر وعقیدۂ اسلامی اور سیرت حسنہ واعمال صالحہ کا ایک قابل رشک پیکر بنادیاتھا۔اس کا نتیجہ تھا کہ وہ زندگی میں جہاں بھی اور جس حال میں بھی رہے مسلمانوں کے روحانی درد کے درماں کی تلاش اور جسم ملت پر بے دینی کے زخموں کے لیے مرہم کی جستجو ان کا وظیفۂ حیات رہا اور اپنی زبان و قلم دونوں سے مسلمانوں کی تعلیم وتربیت اور اصلاح افکار واعمال کی خدمت کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
مولانا گیلانی رحمۃ اللہ کو وقت کے بڑے بڑے اساتذہ سے تحصیل علمی کی سعادت حاصل ہوئی تھی وہ خود جوہر قابل تھے۔ اور قابل اساتذہ کے فیضان درس اور تربیت نے ان کی ذہنی وفکری صلاحیتوں کو مزید چمکادیاتھا۔
ٹونک میں مولانا گیلانی کا زمانۂ تعلیم ۱۳۲۴ھ سے ۱۳۳۱ھ (۱۹۰۶ء تا ۱۹۱۳ء) تک ہے۔ اسی سال شوال ۱۳۳۱ھ (دسمبر ۱۹۱۳ء) میں وہ دیوبند کے مدرسۂ اسلامیہ (دارالعلوم ) میں داخل ہوگئے ۔
مولانا گیلانی نے شریعت کے اسرار بھی حضرت شیخ الہند کے درس وصحبت میں سیکھے تھے اور طریقت کے ذوق ورموز سے حضرت ہی کی رشدوہدایت میں آشناہوئے تھے۔ حضرت شیخ الہند سے نسبتِ تلمذ پر انھیں فخرتھا۔
دیوبند میں جن دوسرے اساتذہ کے سامنے مولانا گیلانی نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا، ان کا تذکرہ انھوں نے اپنی آپ بیتی ’’احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن‘‘سلسلۂ مضمون میں کیا ہے۔ ان میں حضرت شیخ الہند کے علاوہ مولانا انورشاہ کشمیری (م ۱۹۳۳ء) ، مولانا حافظ محمد احمد (م ۱۹۲۸ء)، مولانا حبیب الرحمن عثمانی (م ۱۹۲۹ء)، مولانا مفتی عزیر الرحمن عثمانی (م۱۹۲۸ء)، مولانا شبیر احمد عثمانی (م ۱۹۴۹ء)، مولانا غلام رسول خان (م ۱۹۱۸ء)، مولانا سید اصغر حسین (م ۱۹۴۵ء) اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (م ۱۹۵۷ء) وغیرہم (رحہم اللہ اجمعین) کے اسمائے گرامی درج ہیں۔
ان کے اساتذہ میں مولانا حمیدالدین فراہی کا اسم گرامی بھی آتا ہے۔ حضرت فراہی کو اللہ تعالیٰ نے علوم ِقرآنی کے خاص ذوق سے بہرہ مند فرمایاتھا۔ مولانا گیلانیؒ نے ان سے حیدر آباد کے زمانہ قیام میں علوم قرآنی میں استفادہ کیا تھا۔
مولانا گیلانی کی عمر تقریباً بائیس برس کی تھی جب وہ تعلیم سے فارغ ہوئے ۔ اس کے بعد انھیں معاش کی فکر ہوئی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے انھوں نے ٹونک کا رخ کیا۔استاذ گرامی سے ملے ،مدرسہ خلیلیہ میں مدرس کی کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ کتب خانے میں فہرست سازی کاکام سپرد ہوا۔ اور پانچ روپے تن خواہ قرارپائی۔ لیکن دو ماہ کے اندر ہی اندر مدرسہ میں مدرس کی جگہ خالی ہوگئی اور انھیں پندرہ روپے ماہانہ پر استاد مقرر کرلیاگیا۔ انہی دنوں ایک ٹیوشن کا انتظام ہوگیا۔ اس طرح تینوں ذرائع سے ۲۵، ۳۰ روپے ماہانہ آمدنی کی طرف سے اطمینان ہوگیا۔
چند ماہ کے بعد ہی مولانانے حیدر آباد کن کے لیے رخت سفر باندھا۔مولانا حیدرآباد پہنچے۔بعض اکابرسے شناسائی پیدا کی۔ لیکن ملازمت کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ حالات کا جائزہ لیا اور وطن لوٹ آئے ۔ مادر علمی کی کشش انھیں دیوبند لے گئی۔ مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے ان کے حالات سن کر دس روپے ماہانہ مقرر کرتے ہوئے کہا سردست’’ القاسم‘‘ و’’الرشید ‘‘میں کچھ مضمون نویسی کرو اور درس وتدریس کا کام کرو۔ انھوں نے کام شروع کردیا۔ ایک ماہ بعد انھیں معین المدرسین مقرر کردیا گیا اور مشاہرہ تیس روپے مقررہوا۔
تعلیمی سال کے اختتام پر مولانا گیلانی وطن تشریف لے گئے،لیکن نئے تعلیمی سال کے آغاز میں انھوں نے مونگیرمیں ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ ستمبر ۱۹۱۶ء میں مولانا نے کلکتہ کا سفر کیا۔ واپسی پر ایک دن کے لیے حیدرآباد میں ٹرین سے اترگئے ۔ اترنے کی وجہ یہ تھی کہ۴؍اکتوبر کو عیدالاضحی (۱۳۳۵ھ) تھی، سوچا تھاکہ نماز پڑھ کر اگلے روز پھر سفر شروع کردیں گے۔
حیدرآباد کی ملازمت کا سارازمانہ مولانا نے عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات میں درس وتدریس میں گزارا تھا۔ لکچرار سے پروفیسر ہوئے۔ آخر میں شعبہ دینیات کے صدرہوگئے تھے۔ اور اسی حیثیت سے ۳۱؍مارچ ۱۹۴۹ء کو ملازمت سے سبک دوش ہوئے ۔ بعد کا زمانہ مولانا نے اپنے وطن گیلانی میں بسر گیا۔ عبادت وریاضت اور مطالعہ وتصنیف میں ان کی زندگی کے آخری ایام بسرہوئے ۔ آبائی زمین کی آمدنی اور پنشن کی رقم اتنی تھی کہ بہ اطمینان گزربسر ہوجاتی تھی۔ اس زمانہ میں مولانا نے تصنیف وتالیف کے بعض اہم کام انجام دیے ۔ ۵؍جون ۱۹۵۶ء کو مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا اور رفیق اعلیٰ سے جاملے۔
مولانا گیلانی نے اپنے پیچھے تصنیفات و تالیفات کا جو یادگار ذخیرہ چھوڑا ہے۔ وہ کیفیت وکمیت ہر دو اعتبار سے نہایت قیمتی ہے۔ انھوں نے معقولات ، منقولات ، تذکرہ وسوانح، تاریخ، تعلیم، اخلاق وغیرہ بے شمار موضوعات پر لکھا ہے ۔
حضرت مولانا گیلانی کی تحریرات ونگارشات کا جو ذخیرہ تصنیفات وتالیفات کی شکل میں مرتب ہوچکا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں: جن تک دستِ شوق کی رسائی ہوئی ہے یا کم ازکم علم میں آچکی ہیں:
۱۔سیرت : النبی الخاتم (صلی اللہ علیہ وسلم) ظہورِ نور یانیامیلادنامہ
۲۔تذکاروسوانح : ابوذر غفاری ، امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ، مجدد الف ثانی ،تذکرہ شاہ ولی اللہ ، سوانح قاسمی( سہ جلد) ، سیرت بانی دارالعلوم ، بابار تن ہندی۔
۳۔تفسیر اور حدیث وفقہ : تدوین قرآن ، تذکیر بسورۃ الکہف ، تدوین حدیث، مقدمہ تدوین فقہ۔
۴۔دین اوراخلاق وتصوف : الدین القیم ، مقالات احسانی، مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ، کائنات روحانی۔
۵۔تعلیم: مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ، میر امجوزہ تعلیمی خاکہ۔
۶۔علوم وافکارِ اسلامی: اسلامی معاشیات ، اسلام اور نظام جاگیرداری وزمین داری
۷۔خودنوشت : احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن۔
۸۔خطوط: مکاتیب گیلانی مرتبہ مولانا منت اللہ رحمانی مطبوعہ، ۱۹۷۲ء مونگیر (بہار)
۹۔دیگر : ہزار سال پہلے ، مضامین گیلانی ، افادات گیلانی (الفرقان کاخاص نمبر)
۱۰۔تراجم : صدرالدین شیرازی کی مشہور کتاب ’’ اسفار اربعہ ‘‘ کا ترجمہ ۔ اس ترجمے کے صفحات کی تعداد ۱۷۵۷ء ہے۔ مولانا اس کے شریک مترجم ہیں ،پورا ترجمہ ان کی کاوش کا نتیجہ نہیں۔ دارالترجمہ حیدر آباد سے شائع ہوا ہے۔ مولانا نے شاہ اسماعیل شہید کی تصنیف ’’ طبقات‘‘ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا جو حیدر آباد اور لاہور سے چھپ چکا ہے۔
(مولانا مناظر احسن گیلانی : حیات و خدمات کے موضوع پر پٹنہ میں دو روزہ قومی کانفرنس منعقد ، ۱،۲؍دسمبر ۲۰۱۸ء زیر اہتمام آئی اوایس نئی دہلی میں پیش کیا گیا)
تذییل: (تکملہ)ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے مولانا گیلانی کی شخصیت اور سوانح پر مشتمل اپنی کتاب (ص ۵۲) پر ان کی ایک کتاب ’’ بابا رتن: ایک ہندوستانی صحابی‘‘ کا ذکر کیا ہے،اوران کا رجحان امام ذہبی کی رائے کی طرف ہے۔
دراصل یہ کتاب گیلانی کا ایک پُراز معلومات مقالہ ہے جو ماہ نامہ ’’ الرشید‘‘ دیوبند میں شائع ہوا، پھر صدیقی بُک ایجنسی دیوبند سے ۶۸ صفحات پر مشتمل ۱۹۷۸ء میں کتابی شکل میں چھپا ،مولانا گیلانی اپنے اس مضمون کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’ محدثین ، علمائے رجال و سیر کا اجتماع منعقد ہوچکا ہے کہ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرن ختم ہوگیا، یہ سب سے آخری صحابی تھے، جن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنے والا عالم فانی میں کوئی باقی نہیں رہا، کہ یکا یک چھٹی صدی ہجری کے آخر اور ساتویں صدی کے اوائل میں (گویا چھ سو برس) کے بعد تمام معمورۂ اسلام اس عجیب حیرت خیز خبر سے گونج اٹھا۔
کہ سرزمین ہند میں ایک ہندی نژدا شخص ’’ رتن ‘‘ نامی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شرفِ صحبت کا مدعی ہے اور اب تک زندہ ہے، عموماً تاجروں ، سیّاحوں اور خصوصاً عام متصوفوں نے اس خبر کو مشرق سے مغرب تک پھیلادیا، حتی کہ یورپ و اندلس تک کے بعض دل داد گانِ احادیث نبوی اُن سے سننے کے لیے بہ ہزار صعوبت ہندوستان پہنچے اور بابا رتن سے ملاقات کی ، حدیثیں سنیں۔
حتی کہ رفتہ رفتہ یہ خبر محدثین نقاد کی مجلسوں تک پہنچی کسی نے اُن کو لاغی ، کذاب، جھوٹا سمجھا اور بعضوں نے تقدس و احترام کیا، بعد کی ساتویں صدی میں جتنے ائمۂ حدیث یا علمائے تاریخ آئے بعضوں نے تغلیط کے لیے اور بعضوں نے توثیق کے لیے اپنی اپنی کتابوں میں اُن کا تذکرہ کیا ‘‘۔پھر مولانا گیلانی ’’ رتن‘‘ کی کہانی کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہیں:
’’ اگر چہ یہ فسانہ پارینہ ہوچکا ہے تاہم تعجب انگیز اور حکایت لذیذ ہے‘‘
بعد ازیں مولانا گیلانی نے ’’ رتن‘‘ کے حالات مورخ صفدی، امام ذہبی اور حافظ ابن حجر کے اقوال و تجزیہ کو قلم بند کرکے اپنی راے یوں ظاہر فرمائی ہے:
’’ رہی خود میری رائے تو ہم خود کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، جس مسئلے میں ایک طرف ذہبی اور دوسری طرف صفدی ہوں تو پھر ہم جیسے بے بضاعتوں کو محاکمہ کا کیا حق ہے ‘‘۔
آگے اپنی محتاط رائے لکھتے ہیں: ’’ بہتر تو یہی تھا کہ ذہبی کی رائے کو ترجیح دی جاتی، جیسا کہ حافظ ابن حجر، قاضی ابن جماعہ کی راے معلوم ہوتی ہے ‘‘۔ انتہی
ابن حجر، ابن جماعہ اور ذہبی نے ’’رتن ‘‘ اور ’’ رتنیات‘‘ کو فسانۂ عجائب شمار کیا ہے۔
دیکھئے : ’’ الاصابہ‘‘ لابن حجر : ۲: ۲۲۵۔۲۳۲ (حرف الراء، القسم الرابع) ابن حجر نے آٹھ صفحے میں صفدی ، ذہبی اور دیگر اہل علم کی راے جمع کردی ہے۔
٭٭٭
حوالہ جات:
(۱)پیش لفظ ’’ حدیث نبوی کے اولین صحیفے ‘‘ از عبدالسلام قدوائی ندوی ، طبع دوم القدس فاؤنڈیشن لکھنؤ ۲۰۰۶ء
(۲)تعمیر حیات : خصوصی اشاعت بہ یادگار عبدالسلام قدوائی ، لکھنؤ جنوری ۱۹۸۰ء
(۳)تعارف تدوین حدیث : از سید سلیمان ندوی ، مکتبہ تھانوی دیوبند، سہارنپور اکتوبر ۱۹۸۳ء
(۴)ص ۹۴ ، نظامی پریس لکھنؤ ۱۹۸۶ء بار سوم
(۵)مصدر سابق ص ۶۶
(۶)مصدر سابق بر حاشیہ
(۷)مقدمہ مقالات احسانی ص ۱۹،۲۰ کراچی ۲۰۰۵ء
(۸)صدق جدید ، لکھنؤ۱۹؍اپریل ۱۹۵۷ء
(۹)مصدر سابق
(۱۰)ایضاً
(۱۱)ایضاً
(۱۲)ایضاً
(۱۳)تعارف تدوین حدیث
(۱۴)مصدر سابق
(۱۵)ایضاً
(۱۶)تدوین حدیث ص ۳
(۱۷)حیات مولانا گیلانی : محمد ظفیرالدین مفتاحی ص ۳۲۹ ، بنارس ۱۹۸۹ء
(۱۸)تدوین حدیث( ابتدائی خاکہ مقالہ کی شکل میں )حیدر آباد دکن ۱۳۵۹ء
(۱۹)تدوین حدیث کراچی اڈیشن اور اس کا عکس سہارن پور اڈیشن
(۲۰)مولانا سید مناظر احسن گیلانی (شخصیت اور سوانح): ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری۔ خدابخش اور ینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ ۔ ۲۰۰۲ء۔