انشورنس کی حقیقت اور معاصراجتہادی کاوشیں

انشورنس کی حقیقت اور معاصراجتہادی کاوشیں

مولانامنورسلطان ندوی

 استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء،رفیق علمی مجلس تحقیقات شرعیہ

بیمہ یاانشورنس کے لفظی معنی یقین دہائی کے ہیں،اردودائرہ معارف اسلامیہ لاہورمیں انشورنس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :

انشورنس فریقین کے درمیان ایک معاہدہ کانام ہے جس میں ایک فریق (انشورنس کمپنی )دوسرے فریق (انشورنس کرانے والا)کے نامعلوم نقصان (حادثہ)کے واقع ہونے پرایک مقررہ رقم اداکرنے کاذمہ لیتاہے،اوراس کے بدلے دوسرا فریق ایک مقررہ رقم (پریمییم)اقساط کی شکل میں اس وقت تک اداکرنے کاعہد کرتاہے جب تک کہ وہ نامعلوم نقصان واقع نہ ہوجائے۔(۱)

اگرمعاہدہ کے اختتام تک نامعلوم نقصان یاحادثہ نہیںہواتوانشورنس کمپنی انشورنس کرنے والے شخص کواقساط کی صورت میں جمع کروائی گئی رقم سودکے اضافہ کے ساتھ واپس کرتی ہے۔

Black Law Dictionaryمیں بیمہ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

’’انشورنس ایک ایسامعاملہ ہے جس کے تحت ایک فریق(بیمہ کرنے والی کمپنی) ایک مخصوص معاوضہ (پریمیم)کے بدلے دوسرے فریق (بیمہ کرانے والے)کویہ ضمانت دیتاہے کہ معاہدہ میںبیان کردہ خطرات پیش آنے کی صورت میں کمپنی مخصوص خطرہ،یانقصان کاازالہ کرے گی۔(۲)

مصرکے معروف قانون داں ڈاکٹرعبدالرزاق سنہوری نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے:

التأمين عقد يلتزم المؤمن بمقتضاه أن يؤدي إلى المؤمن له أو إلى المستفيد الذي اشترط التأمين لصالحه مبلغًا من المال، أو إيرادًا مرتبًا، أو أي عوض مالي آخر، في حالة وقوع الحادث أو تحقق الخطر المبين في العقد، وذلك مقابل قسط أو أي دفعة مالية أخرى يؤديها المؤمن له للمؤمن۔ (۳)

انشورنس ایسا عقد ہے جس میں بیمہ کرنے والا (المؤمن) اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ بیمہ دار (المؤمن لہ)یا اس کے حق میں بیمہ لینے والے کو، ایک مخصوص رقم، متعین آمدنی یا مالی معاوضہ اس وقت ادا کرے جب عقد میں مذکورہ حادثہ یا خطرہ واقع ہو جائے، اور یہ سب بیمہ دار کی طرف سے ادا کردہ قسط یا دیگر مالی ادائیگی کے عوض ہوتا ہے۔

ڈاکٹرسنہوری نے انشورنس کی تعریف کے ضمن میں تین بنیادوں کاذکرکیاہے:

۱۔خطرہ(Risk)                     وہ ممکنہ واقعہ،حادثہ جس سے نقصان ہوسکتاہے

۲۔قسط(Premium)              وہ رقم جوانشورنس کرانے والااداکرتاہے۔

۳۔معاوضہ(Compensation)  وہ رقم یافائدہ جوکمپنی انشورنس کرانے والے کواداکرتی ہے۔ (۴)

انشورنش اپنے متعارف معنی اورمفہوم کے اعتبارسے ایک نیاعقدہے،چودہویں صدی عیسوی میں اٹلی میں بعض لوگوں نے بحری جہازوں یااس میں سوار مسافروں کودرپیش خطرات کی ذمہ داری قبول کی،یہ بحری انشورنش کی شکل تھی،اس کے بعدآگ کاانشورنش سامنے آیا،اس کے بعدزندگی کا انشورنس ، اس کے بعدانشورنس کاعموم ہوا،اوراس کی شکلیں بڑھتی گئیں یہاں تک کہ پوری زندگی کوشامل ہوگئی،اب صورت حال یہ ہے کہ انشورنس کی کمپنی انسان کولاحق ہرطرح کے خطرہ کاانشورنس کرتے ہیں،جانوں کا،مال کااورذمہ داریوںکابھی،بلکہ بعض حکومتیں اپنے رعایاپربعض انشورنس کولازم کرچکی ہیں۔

 انشورنس کی بنیادیں

انشورنس کی بنیاددرج ذیل اصولوں پر ہے:

۱۔خطرہ( Risk)اورعدم تیقن( Uncertainty)،انسانی زندگی کاحصہ ہیں،زندگی میں کب غیرمتوقع نقصان پہونچ جائے،یاایساحادثہ پیش آجائے جس سے نقصان یاپریشانی ہو۔

۲۔کاروباری خطرہ   ایساخطرہ یانقصان جس کاسامنا کاروبارسے وابستہ افراد کو ہوتاہے۔

۳۔قانون اعدادکثیر (Law of Large Numbers )اسے قانون اغلیبت بھی کہتے ہیں،اس کامعنی  ہےکسی واقعہ کے باربارتجربات سے آئندہ اس واقعہ کے دوبارہ رونماہونے کی توعیت کااندازہ لگانا۔اس کی مثال: ایک آدمی ایک خاص ہدف پرنشانہ لگاکربندوق سے گولی چلاتاہے ،ممکن ہے گوہدف پر لگے اورممکن ہے نہ لگے،لیکن اگروہی آدمی اسی ہدف پر،اسی بندوق سے انہی حالات میں باربارگولی چلائے اوریہ تجربہ ہزارباردہرائے تومعلوم کیا جاسکتا ہے کہ گولی کے ہدف پرلگنے کی اضافی نسبت کیاہے۔(۶)

۴۔قانون اوسط(Law of Averages)اس کامعنی یہ ہے کہ افرادکے کثیرالتعدادگروہ میں افرادکی بعض مشترک خصوصیات کی اوسط مقدارایک متعین سطح پرقائم رہتی ہے، جیسے کسی متعین علاقہ میں بسنے والےلاکھوں افرادکے قدکی اونچائی کااوسط متعین کیاجاسکتاہے۔(۷)

۵۔نقصان کی تقسیم(Distribution on losses)  ایک فرد کو ہونے والے نقصان کو اتنے حصوں میں تقسیم کردیاجائے کہ سب کے لئے اس کوبرداشت کرناآسان ہوجائے۔

انشورنس کامقصد

مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب انشورنس کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

انشورنس کابنیادی مقصدیہ ہے کہ جوخطرات افراداوراشخاص کے لئے قابل برداشت نہ ہوں،ان کواس قدرتقسیم کردیاجائے کہ وہ لوگوں کے لئے قابل برداشت ہوجائے،مثلا کسی گاڑی سے اکسیڈینٹ ہوجائے اورڈرائیورکودس لاکھ ہرجانہ دیناپڑے توشایدوہ اسے زندگی بھرادانہ کرسکے،لیکن اگرایک لاکھ افرادڈرائیونگ پیشہ سے جڑے ہوئے ہوں اورایک معاہدہ کے تحت ایسے موقع پرہرڈرائیوردس روپیہ اداکرے تواتنی رقم کااداکرناکسی کے لئے بھی بار خاطر نہ ہوگا۔(۸)

فنی اعتبارسے انشورنس کی قسمیں

انشورنس کی دوقسمیں ہیں:اول لائف انشورنس،دوم جنرل انشورنس

لائف انشورنس صرف انسانی زندگی سے متعلق ہوتی ہے،جبکہ جنرل انشورنس میں باقی تمام قسمیں شامل ہوتی ہیں،جنرل انشورنس کی بہت سی شکلیں ہوتی ہیں،اس کی تین بڑی قسمیں اس طرح ہیں:

۱۔Fire(آگ)،آگ اوردیگرتمام طرح کے ناگہانی نقصانات،سیلاب،زلزلہ،جہازکے گرنے،گاڑی کے ٹکرانے وغیرہ سے پہونچنے والے نقصانات

۲۔Marine(سمندری جہاز)اس میں پانی جہاز،اورجہازمیں رکھے جانے والے سامان،اورراستوں کے درمیان کے تحفظ کاانشورنس شامل ہیں۔

۳۔Miscellaneous(متفرق)اس میں مذکورہ بالادونوں قسموں کے علاوہ تمام قسموں کے انشورنس شامل ہیں،موٹرانشورنس ،چوری سے تحفظ کاانشورنس،حادثات ،ہیلتھ انشورنس وغیرہ بھی اسی میں شامل ہیں۔

انشورنس کے عناصر

مذکورہ تعریف کی روشنی میں درج ذیل عناصرہیں:

۱۔بیمہ کرنے والا:Insurer،یہ کمپنی یاادارہ ہوتاہے،جواس بیمہ پالیسی کامالک ہوتاہے،اسے عربی میں ’موتمن ‘کہتے ہیں۔

۲۔بیمہ دارInsuredوہ شخص جوبیمہ کراتاہے،عربی میں اسے موتمن لہ کہتے ہیں۔

۳۔بیمہ شدہ وہ شئی جس جس کی خاطربیمہ کرایاجاتاہے،جیسے اثاثہ وغیرہ،عربی میں اسے موتمن علیہ کہتے ہیں۔

۴۔قسطPremiumوہ رقم جوبیمہ داربیمہ کمپنی کوبیمہ کے عوض اداکرتاہے۔

۵۔بیمہ کی رقمsum insuredوہ متعین رقم جوبیمہ دارکونقصان کی شکل میں ملتی ہے۔

۶۔خطرہ Riskجس کی وجہ سے بیمہ کرایاجاتاہے،جب وہ واقع ہوجائے توکمپنی Sum insuredاداکرتی ہے۔

عقد کی خصوصیات

۱۔یہ عقودتراضی میں سے ہے،اس میں ایجاب وقبول ہوتاہے

۲۔عقدملزم،دونوں جانب سے لازم ہوتاہے۔

۳۔عقداحتمالی،دونوں میں سے ہرایک فریق کوکتنانفع ہوگا،یہ یقینی نہیں ہوتاہے۔

۴۔عقدمستمر،یہ عقدفوراختم نہیں ہوجاتابلکہ ایک مدت تک باقی رہتاہے۔

۵۔عقداذعان:یک طرفہ شرائط ہوتے ہیں۔

۶۔عقدمعاوضہ،دونوں کومال حاصل ہوتاہے۔

۷۔عقدمسمی،صورت اور احکام متعین ہوتے ہیں۔

موضوعات اعتبارسے انشورنس کی قسمیں

۱۔باعتبارشکل:

الف۔باہمی تعاون پرمبنی انشورنس، التامین التعاونیMutual Insurance/

ب:تجارتی انشورنس،تامین بقسط ثابتCommercial Insurance

باہمی تعاون پرمبنی انشورنس

ایک طرح کے خطرات سے دوچارکچھ افرادمل کرکچھ روپیہ یاایک متعین مقدارمیں روپیہ جمع کرتے ہیں،تاکہ ان میں سے کسی کوکوئی خطرہ لاحق ہو تواس کی بھرپائی کے لئے اسے دیاجائے،اگرخطرہ بڑاہے اورزیادہ روپیہ کی ضرورت ہے ،موجودرقم کم پڑرہی ہے توآپس میںدوبارہ جمع کرلیتے ہیں، اور اگر ضرورت میں صرف کرنے کے بعدروپیہ بچ جائے تواسی تناسب سے رقم تقسیم کرلیتے ہیں،اس طرح کی جماعت کامقصدنفع کمانانہیں ہوتابلکہ نقصان کی تلافی کرنا ہوتاہے،گویایہ مصیبت کودورکرنے کیلئے باہم تعاون جمع کرتے ہیں۔

ب۔تجارتی انشورنس

جب مطلق انشورنس کہاجائے تویہی شکل مرادہوتی ہے،چندلوگ مل کرایک کمپنی بناتے ہیں،انشورنس کرانے والے اس کمپنی کوایک متعین مقدارمیں رقم اداکرتے ہیں،کمپنی طے شدہ پالیسی کے مطابق نقصان کی بھرپائی کرتی ہے،کمپنی کامقصدنفع کماناہوتاہے،چنانچہ کمپنی کوجو نفع ہوتاہے وہ اس کے شرکاء نفع آپس میں بانٹتے ہیں،اس صورت میں انشورنس کرانے والے اورکرنے والے دونوں الگ الگ افرادہوتے ہیں،بلکہ کرنے والی ہمیشہ کمپنی ہوتی ہے۔

سرکاری انشورنس

اس سے مرادوہ سہولتیں ہیں جوحکومت اپنے ملازمین کوفراہم کرتی ہیں،جیسے پنشن،ملازمت میں رہتے ہوئے انتقال کی صورت میں بیوہ کووظیفہ،یہ انشورنس جبری ہوتی ہے،حکومت ملازمین کی تنخواہ سے ایک حصہ کاٹ لیتی ہے، اور پھر حادثہ ہونے کی صورت میں اضافہ کے ساتھ واپس کرتی ہے۔

موضوع کے لحاظ سے انشورنس کی قسمیں

۱۔تامین الاضرار(نقصانات)

۲۔تامین الاشخاص(انسانی فردسے متعلق ہرطرح کی انشورنش)

تامین الاضرارکی دوشکلیں ہیں:

الف۔تامین الاموال(اموال کاانشورنس)جیسے آگ لگنے سے نقصان،چوری سے نقصان

ب۔تامین من المسئولیۃ(ذمہ داریوں کاانشورنس)،جیسے دوسروں کونقصان پہونچنے کی صورت میں جوعوض دینالازم آتاہے اس سے ضمان،مثلاگاڑیوں کے اکسیڈنٹ کی صورت میں معاوضہ

۲۔تامین الاشخاص کی دوبنیادی قسمیں ہیں:

الف۔تامین علی الحیاۃ

ب۔تامین علی الحوادث الجسمانیۃ(ایک محدودمدت کے اندرمفلوج ہوجائے یاکام کے قابل نہ رہے)

۳۔انشورنس کی تیسری تقسیم

۱۔خاص افرادکاکسی متعین نقصان کے لئے انشورنس کرانا

۲۔خاص افرادکی ایک جماعت جنہیں اپنے عمل کے دوران خطرہ لاحق ہوجس کی وجہ سے وہ کام کرنے کے قابل نہ رہیں،مثلامرض،بڑھاپا،بے روزگاری،وغیرہ،اس میں فرداورحکومت دونوں ایک متعین رقم جمع کرتے ہیں۔

۴۔انشورنس کی چوتھی تقسیم

۱۔اجباری انشورنس،حکومت اپنی رعایاکے لئے کسی طرح کے انشورنس کولازم کردے جیسے گاڑیوں کاانشورنس

۲۔اختیاری،جوکراناچاہے کراسکتاہے،کراناضروری نہیں ہے۔

تجارتی انشورنس کی شکلیں

انشورنس کی تین بڑی قسمیں ہیں:

۱۔بیمہ زندگیLife Insurance

۲۔بیمہ املاکGoods Insurance/Insurance Property(گھر،دوکان وغیرہ کے تحفظ کے لئے،آگ سے تحفظ،چوری سے تحفظ)

۳۔ذمہ داریوں کابیمہThird Party Insurance/Libility Insurance(ہیلتھ انشورنس، اعضاء کابیمہ،قیمتی کاغذات اوراسناد کابیمہ،گاڑی انشورنس)

مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی انہی تین صورتوں کو بیان کیاہے،ساتھ ہی انہوں نے انشورنس کے طریقہ کار کے لحاظ سے اس کی مزیدتین قسمیں کی ہیں:

۱۔گروپ انشورنس (التامین الاجتماعی)

۲۔تعاونی انشورنس(التامین التعاونی)

۳۔تجارتی انشورنس(التامین التجاری)(۹)

زندگی کابیمہLife Insurance

اس کاحاصل یہ ہے کہ بیمہ کمپنی، بیمہ کرانے والے سے معاہدہ کرتی ہے کہ اگربیمہ کرانے والاایک مخصوص مدت کے اندرمرگیاتواس کویااس کے نامزدکردہ فرد(Nominee)کوایک مخصوص رقم دی جائے گی،اوراگراس مدت کے گزرجانے کے بعداس شخص کاانتقال ہواتوبیمہ کرانے والے نے جورقم جمع کی تھی وہ رقم اضافہ کے ساتھ واپس ہوگی،اس اضافہ کوBonusکہاجاتاہے،زندگی کے بیمہ کی بہت سی نوعتیں ہوتی ہیں۔

۲۔اموال کابیمہGoods Insurance

اس قسم میں مختلف اشیاء کابیمہ کرایاجاتاہے کہ اگروہ تباہ ہوجائے،یااس میں نقصان ہوجائے توایک مخصوص رقم بیمہ کرانے والے کوملے گی،جیسے عمارت یادوکان کابیمہ کرایاکہ اگرعمارت یادوکان میں آگ لگ لگی توبیمہ کمپنی اسے اتنے پیسہ دے گی جودوکان یاعمات کی قیمت کے برابرہوگی،اوراگرجزوی نقصان ہواہے تواس کی تلافی کی جائے گی، اسی طرح گاڑی کاانشورنس ہوتاہے کہ اگروہ چوری ہوجائے یاآگ لگ کرتباہ ہوجائے توبیمہ کمپنی والے اس کی قیمت دے گی،ان صورتوں میں عموماحادثہ پیش نہ آنے کی صورت میں جمع شدہ رقم واپس نہیں ملتی ہے،اورحادثہ رونماہونے کی صورت میں طے شدہ پالیسی کے مطابق رقم ملتی ہے،اس رقم کوClaimکہاجاتاہے۔

۳۔ذمہ داری کابیمہThird Party Insurance

ایسی ذمہ داریاں جومستقبل میں آسکتی ہیں،ان سے نمٹنے کے لئے بیمہ کرایاجاتاہے،جیسے گاڑی سے اگر دوسرے شخص یادوسری گاڑی کانقصان ہوگیاتوکمپنی اس ذمہ داری کوپواکرے گی،ایسی صورت میں گاڑی کوپہونچنے والے نقصان کی تلافی بیمہ کمپنی کے ذمہ ہوگی،اس صورت میں بھی بیمہ کرانے والے جوپریمم اداکرتے ہیں وہ حادثہ پیش نہ آنے کی صورت میں واپس نہیں ملتاہے۔

انشورنس کے مسئلہ پراجتہادی کاوشیں

۱۔اسلامی فقہ میں سب سے پہلے علامہ شامی نے درمختارکے حاشیہ میں اس مسئلہ کو ذکرکیاہے،علامہ ابن عابدین کی سن وفات ۱۲۵۲ھ؁ ہے، (۱۰)اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب مجموعۃ الرسائل میں بھی سوکرہ کے نام سے اس مسئلہ کوبیان کیاہے،علامہ شامی نے بحری انشورنس کاذکرکیاہے،کیونکہ اس وقت وہی مروج تھا۔

۲۔ مصرکے مفتی الدیارالمصریہ محمدبخیت مطیعی نے احکام السوکرہ کے نام سے رسالہ لکھااوراسے ناجائزوحرام قرار دیا۔یہ رسالہ ۱۹۰۶؁ میں شائع ہواہے۔(۱۱)

۳۔۱۹۲۵ء؁ میں مفتی الدیارالمصریہ عبدالرحمن قراعہ نے انشورنس کوقماراورجواپرمشتمل ہونے کی بنیادپرحرام قراردیا۔(۱۲)

۱۹۶۱؁ میں جامع دمشق کے زیراہتمام ’’موتمراسبوع الفقہ الاسلامی ‘‘میں یہ مسئلہ زیربحث آیا۔(۱۳)

۱۹۶۵ء؁ میں مصرمیںموتمرعلماء المسلمین کی دوسری کانفرنس میں یہ مسئلہ زیربحث آیا،جس میں تعاونی انشورنس کے جوازپراتفاق ہوا،اور تجارتی انشورنس پر مزیدتحقیق کے لئے کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی۔(۱۴)

۱۹۶۵ء؁ میں ندوۃ العلماء کی مجلس تحقیقات شرعیہ نے اس موضوع پرغورکیا،جس میں ملک کے ممتازعلماء شریک ہوئے،پاکستان سے مفتی شفیع صاحب اورمفتی ولی حسن نے اس کاجواب لکھا،مجلس نے عمومی حالات میں انشورنس کے عدم جوازاورہندوستان کے خاص حالات میں جوازکافیصلہ کیا۔

۱۹۷۲ء؁ میں ملیشیاکی نیشنل فتاوی کمیٹی نے انشورنس کی حرمت کافتوی دیا۔

۱۹۷۲؁ میں مصر میں موتمر علماء المسلمین السابع میں دوبارہ یہ موضوع زیربحث آیا،مسئلہ پراختلاف باقی ہے۔

۱۹۷۶؁ میں جامعۃ الملک عبدالعزیز کے زیراہتمام الموتمرالعالمی الاول للاقتصادالاسلامی کاانعقادعمل میں آیا، جس میں انشورنس کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ (۱۵)

۱۹۷۸ء؁میں مجمع الفقہ الاسلامی ،مکہ مکرمہ نے تعاونی انشورنس اور اجتماعی انشورنس کے جوازاور تجارتی انشورنس کی حرمت کی قراردادمنظورکیا۔(۱۶)

۱۹۸۶؁ میں انٹرنیشنل جدہ فقہ اکیڈمی نے اس موضوع پرغورکیا،شرکاء نے تجارتی انشورنس کو ناجائزاور تعاونی انشورنس کوجائزقراردیا۔

۱۹۹۷ء؁ میں اسلامک فقہ اکیڈمی نے اس کوموضوع بنایا۔

جامعہ دارالعلوم کراچی میں انشورنس پرمتعددمجلسیں ہوئیں،خاص طور پر مرکزالاقتصاد الاسلامی کے زیراہتمام ۲۰۰۲؁ میں عالمی کانفرنس منعقد ہوئی،جس میں تجارتی انشور نس اور اس کے متبادل کے طور پر نظام تکافل غورکیاگیا۔

باہمی تعاون پرمبنی انشورنس

انشورنس کی یہ شکل جائزہے،ہیئۃ کبار العلماء سعودی عرب کامتفقہ فتوی اورمکہ فقہ اکیڈمی کافیصلہ یہی ہے ۔(۱۷)

مولاناخالدسیف اللہ رحمانی اس کی مزیدوضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

انشورنس کی پہلی صورت جوباہمی تعاون پرمبنی ہے،تمام ہی اہل علم کے نزدیک جائزہے،اس میں نفع کمانانہیں ہوتاہے،بلکہ افرادواشخاص کاایک گروہ طے شدہ خطرہ پیش آنے کی صورت میں مصیبت زدہ شخص کی مددکرتاہے،اس لئے اس کے ناجائزہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے،اس میں ایک گونہ غررضرورپایاجاتاہے،کہ نہ معلوم اس اعانت کافائدہ کسے پہونچے ،تاہم یہ اس لئے مضرنہیں کہ غرران معاملات میں ممنوع ہے جن میں دونوں طرف سے عوض کاتبادلہ ہو، تبرعات میں غررسے کوئی نقصان نہیں،اورانشورنس کی یہ قسم اسی قبیل سے ہے۔(۱۸)

سرکاری انشورنس

یہ مراعات دراصل حکومت کی جانب سے ہوتی ہیں،جیسے پنشن،پراویڈنٹ فنڈ،وغیرہ،حکومت اپنے ملازمین سے جبرایہ رقم وصول کرتی ہے،انشورنش کی یہ قسم جائزہے،اورحکومت کی جانب سے ملنے والاامدادتبرع کہلائے گا۔

مجمع البحوث الاسلامیہ قاہرہ کی کانفرنس میں ان دونوں شکلوں کے بارے میں اس طرح فیصلہ ہوا:

الف:کوآپریٹیوسوسائٹیاں انشورنس کاجونظام چلاتی ہیں جس میں تمام پالیسی ہولڈراس لئے شریک ہوتے ہیں کہ سوسائٹی کے ارکان کوجوخدمت اور مدد مطلوب ہوگی اس کے لئے رقم اداکریں گے،یہ جائزاورمشروع ہے،اوریہ نیکی پرتعاون کے زمرہ میں آتاہے۔

ب:سرکاری پنشن کانظام اورحکومت کی طرف سے اس طرح کے دوسرے اجتماعی کفالت کے نظام ہیں،جن پر بعض ملکوں میں عمل کیاجاتاہے،نیزاجتماعی انشورنس کانظام جس پربعض دوسرے ملکوں میں عمل ہے،یہ سبھی جائز ہے۔ (۱۹)

تجارتی انشورنس

اس کے بارے میںتین رائیں ہیں:مطلق حرام،مطلق جائز،بعض شکلیں جائزاوربعض ناجائز

الف۔مطلق حرام کے قائلین

عموماعلماء انشورنس کی تمام شکلوں کی حرمت کے قائل ہیں،سوائے اجباری انشورنس کے۔

 دلائل:

۱۔انشورنس کی یہ شکل قمار(جوا)اورغرر(دھوکہ)پرمشتمل ہوتی ہے،خطرہ واقع ہوگایانہیں ہوگا،یہ احتمال ہمیشہ باقی رہتاہے،قمارکوقرآن مجیدمیں میسرسے تعبیرکیاگیاہے:

ان الخمروالمیسر والانصاب والازلٰم رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔(۲۰)

۲۔اس میں غررپایاجاتاہے،غرررکی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

أن یکون مستورالحالۃ۔(۲۱)

موہوم اشیاء کی بیع،جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہوکہ وہ چیزہوگی یانہیں،حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے:

 نہی عن بیع الغرر۔(۲۲)

۳۔انشورنس کی بنیادرہان اورمجازفہ پرقائم ہے،علماء قانون کہتے ہیں عقدالتامین یقوم علی المجازفۃ۔

۴۔یہ سودی نظام پرقائم ہے۔

۵۔ابتداء اورغایت کے اعتبارسے یہ امن کی بیع ہے،جبکہ یہ امن کاقیام حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔

۷۔یہ ربوالفضل ہے۔

۸۔اس میں ربوالنسیئہ بھی ہے۔(۲۳)

مطلق جوازکے قائلین

پہلے اس رائے کے قائلین بہت کم تھے،لیکن اب ایسے لوگوں کی تعدادبہت ہے،ان میں سرفہرست درج ذیل افرادہیں:

۱۔پروفیسرمصطفی احمدزررقاء،استاذکلیۃ الحقوق ،جامعہ دمشق،مہرجان ابن تیمیہ کے موقع پراسبوع الفقہ الاسلامی میں ایک مقالہ پیش کیا،یہ مقالہ کتابی صورت میں عقدالتامین وموقف الشریعہ الاسلامیہ منہ کے نام سے ہے۔

۲۔پروفیسرعلی الخفیف،استاذالشریعۃ الاسلامیۃ کلیۃ الحقوق جامعہ قاہرہ،مقالہ پیش لجنۃ الخبراء

۳۔ڈاکٹرمحمدسلام مدکور،استاذالشریعۃ الاسلامیۃ کلیۃ الحقوق جامعہ قاہرہ،مقالہ طبع مجلۃ العربی

۴۔پروفیسرمحمدبن حسن حجوی ثعلبی،پروفیسرالعلوم العالیہ قرویین،کتاب الفکرالسامی

۵۔ڈاکٹریوسف موسی،پروفیسرکلیۃ الحقوق،جامعہ قاہرہ

۶۔شیخ عبدالرحمن عیسی،مدیرتفتیش العلوم الدینیہ والوثنیہ ازہر

۷۔شیخ طیب حسن نجار،رکن جماعۃ کبارالعلماء

۸۔شیخ عیسوی احمدعیسوی،پروفیسرشریعہ اسلامی،کلیۃ الحقوق جامعہ عین شمس

۹۔ڈاکٹرمحمدالبہی،رکن مجمع البحوث ووزیرالاوقاف

۱۰۔شیخ عبداللہ صیام،ازہری عالم۔(۲۴)

۱۱۔ہندوستان میں بطورخاص مشہورماہرمعاشیات پروفیسرنجات صدیقی انشورنس کاایک انسانی ضرورت قراردیتے ہیں۔(۲۵)

جوازکے قائلین کے دلائل

۱۔یہ جدیدقسم کاعقدہے،اس کے بارے میں شرع میں کوئی نص موجودنہیں ہے،اس لئے شرعی اصول’’الاصل فی الاشیاءالاباحۃ‘‘ کے مطابق یہ جائزہوگا۔

۲۔عقدالموالاۃ،حدیث میں عقدموالات کی اجازت ہے،اسلام میں داخل ہونے والاجس کے ہاتھ پراسلام قبول کرتاہے،اس سے ولاء کارشتہ قائم ہوجاتاہے،اوربعض صورتوں میں اسے وراثت میں بھی حصہ ملتاہے۔

۳۔ضمان خطرالطریق پرقیاس،اگرکسی نے راہ گیرکوراستہ بتاتے ہوئے کہاکہ فلاں راستہ سے جائو،اگراس راستہ میں کوئی خطرہ ہوا،تمہاراسامان لوٹ لیاگیاتومیں ضامن ہوں گا،شریعت میں مذکورہ شخص کوضامن ماناگیاہے۔

۴۔قاعدہ التزام اوروعدہ ملزم۔امام مالک کے یہاں اس طرح کاوعدہ لازم ہوتاہے،مثلاکوئی کہے تم شادی کرومہرمیں دوں گا،تومہراس پرلازم ہوگا۔

۵۔یہ مصالح پرمبنی ہے،اس سے امان حاصل ہوگا،انشورنس کامقصودممکنہ خطرات سے تحفظ اورجانی ومالی نقصان کی صورت میں باہمی تعاون ہے۔

۶۔اسلام کانظام عاقلہ پرقیاس کیاجاسکتاہے۔

۷۔کفالت کانظام اس کی ایک نظیرہوسکتی ہے۔

۸۔اجتماعی انشورنس جائزہے

بعض شکلیںجائزاوربعض ناجائز

علامہ امام ابوزہرہ،شیخ عبدالوہاب خلاف،پروفیسراحمدسنوسی،شیخ الشرباضی،محمداحمدفرج سنہوری،شیخ محمدمبروک وغیرہ انشورنس کی بعض صورتوں کے جواز کے قائل ہیں اوربعض کے نہیں،ان کی آراء میں جزوی فرق بھی پایاجاتاہے۔

علماء قانون میں سرفہرست دکتورسنہوری انشورنس کے جوازکے قائل ہیں۔

انشورنس کے بارے فقہی اکیڈمیوں کے فیصلے

۱۹۶۵ء میںمجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کے پہلے فقہی اجتماع میں یہ موضوع زیربحث آیا،اس مجلس کا فیصلہ اس طرح ہے:

مجلس یہ رائے رکھتی ہے کہ اگرچہ سب شکلوں کے لئے ربوااورقمارلازم ہے اورایک کلمہ گوکے لئے ہرحال میں اسلامی اصول پرقائم رہنے کی کوشش واجب ہے،لیکن جان ومال کے تحفظ وبقاء کاجومقام شریعت اسلامیہ میں ہے،مجلس اسے بھی وزن دیتی ہے،نیزمجلس اس صورت حال سے بھی صرف نظرنہیں کرسکتی کہ موجودہ دورمیں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی راستوں سے انشورنس انسانی زندگی میں اس طرح دخیل ہوگیاہے کہ اجتماعی کاروباری زندگی میں طرح طرح کی دشواریاں آتی ہیں ،اورجان ومال کے تحفظ کے لئے بھی بعض حالات میں ا سے مفرممکن نہیں ہوتا،اس لئے ضرورت شدیدہ کے پیش نظر(جان یااہل وعیال کے ناقابل برداشت نقصان کااندیشہ ہو)اگرکوئی شخص اپنی زندگی یااپنی جائیدادکابیمہ کرائے تومذکورہ بالاائمہ کرام کے قول کی بناء پرشرعااس کی گنجائش ہے۔ (۲۶)

۱۹۷۸؁ مطابق ۱۳۹۷ھ؁ میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے پہلے سیمنارمیں درج ذیل فیصلہ ہوا:

ہرپہلوپرغوروفکراورتبادلہ خیال کے بعد اکیڈمی نے شیخ زرقاء کے علاوہ تمام شرکاء کی متفقہ رائے سے درج ذیل بنیادوں پرفیصلہ کیاکہ تجارتی بیمہ کی تمام صورتیں حرام ہیں،خواہ جان کابیمہ ہو،یاسامان تجارت کا،یاکسی اورچیزکا۔ (۲۷)

دسمبر ۱۹۸۵ء؁ میں انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ میں انشورنس کے بارے میں درج ذیل فیصلہ ہوا:

اول:متعین قسط (پریمیم)والا تجارتی انشورنس جوتجارتی کمپنیوں میں رائج ہے،عقودوفاسدکرنے والے بڑے غررپرمشتمل ہے،اس لئے وہ شرعاحرام ہے۔

دوم:اس کامتبادل عقدجس میں اسلامی اصول ومعاملات کالحاظ کیاجاتاہے،تعاونی انشورنس ہے،جوتعاون واحسان کی بنیادپرقائم ہوتاہے،اسی طرح وہ ری انشورنس بھی ہے جوتعاونی (میچول)انشورنس کی بنیادپرقائم ہوتا ہے ۔ (۲۸)

۱۹۹۲ء؁ میں اسلامی فقہ اکیڈمی کے پانچویں سیمنارمیں انشورنس کے مسئلہ پرغورہوا،اکیڈمی کافیصلہ اس طرح ہے:

مروجہ انشورنس گرچہ شریعت میں ناجائزہے،کیونکہ وہ ربوا،قمار،غررجیسے شرعی طورپرممنوع معاملات پرمشتمل ہے،لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں جبکہ مسلمانوں کی جان ومال،صنعت وتجارت وغیرہ کوفسادات کی وجہ سے ہرآن خطرہ لاحق رہتاہے،اس کے پیش نظر الضرورات تبیح المحظورات ،رفع ضرر،دفع حرج،اورتحفظ جان ومال کی شرعا اہمیت کی بناء پرہندوستان کے موجودہ حالات میں جان ومال کابیمہ کرانے کی شرعا اجازت ہے۔(۲۹)

مارچ ۱۹۹۷ء؁ ادارہ کے چھٹے اجتماع میں اس موضوع پرغورہوا،اس کافیصلہ اس طرح ہے:

مسلمانوں کے جان ومال کاحقیقی محافظ اللہ ہے،بیمہ پالیسی ربوااورقمارکامرکب ہے،اوران دونوں چیزوں کی حرمت منصوص ہے،لہذاخواہ جان کابیمہ ہویااملاک کا،بہترصورت حرام اورناجائزہے،اگرچہ جان کے بیمہ کی حرمت اموال کے بیمہ کے زیادہ سخت ہے،البتہ اگرقانونی مجبوری یاشدیدضرورت ہوتومبتلابہ ان صورتوں میں ارباب افتاء سے رجوع کرنے کے بعدعمل کرے۔(۳۰)

اسی طرح مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپورنے بھی اپنے ابتدائی اجتماعات میں ہی اس موضوع کواجتماعی غورو فکر کے لئے منتخب کیا،مجلس کی تجویزاس طرح ہے:

بیمہ زندگی عقدقرض بشرط ربامشتمل برعقدقمارہے۔

عقدقرض رباکی وجہ سے عقدفاسداورعقدقماربھی عقدفاسدہے۔

موجودہ حالات میں حکومت ہندکی لائف انشورنس کمپنی کے ساتھ عقودفاسدہ بشرط نفع مسلم مباح ہیں۔

ایسے ملازم کے لئے بیمہ زندگی جائزہے جس کی تنخواہ سے پریمیم کی رقم مستاجرخودوضع کرکے جمع کرنے کاضامن ہو۔

انجن سے چلنے والی گاڑیوں کاجبری انشورنس حکومت کی طرف سے ایک جبری ٹیکس ہے،اس کااداکرنے والا معذور ہے،گنہ گارنہیں۔

ریل گاڑی اورہوائی جہازکے ٹکٹوں میں جوجبری انشورنس کی رقم دینی پڑتی ہے وہ بھی ٹیکس کے قبیل سے ہے، بوجہ جبراس میں بھی گناہ نہیں ہے۔

جوپوسٹ آفس اورریلوے وغیرہ کے ذریعہ مال کوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کااختیاری یاجبری انشورنس ہوتاہے مثلاپارسل،وی پی،رجسٹری،منی آڈر،بیمہ،تویہ صورتیں اجارہ حفظ وحمل کی ہیں،جوجائزہیں۔

دکانات ،مکانات،اورذرائع نقل وحمل مثلاٹرک،بس،موٹرسائیکل،ٹیکسی،وغیرہ کااختیاری بیمہ ناجائزہے،اس لئے کہ یہ قمارکے معنی میں ہے،جس میں نفع موہوم اورضیاع مال اغلب واکثرہے۔

انسانی اعضاء وصفات کابیمہ بھی جائزنہیں،کہ یہ بھی قمارہے،جس میں نفع موہوم اورضیاع مال اغلب۔(۳۱)

میڈیکل انشورنس

میڈیکل انشورنس کے بارے میں بھی کئی فقہی اکیڈمیوں میں غورہواہے،تفصیل اس طرح ہے:

ہندوستان میں سب سے پہلے ۲۰۰۶ء؁ میںاسلامک فقہ اکیڈمی انڈیانے اس موضوع پرغورکیا،فیصلہ اس طرح ہے:

الف:میڈیکل انشورنس،انشورنس کے تمام شعبوں کی طرح بلاشبہ مختلف قسم کے ناجائزامورپرمشتمل ہے،لہذا عام حالات مین میڈیکل انشورنس ناجائزہے،اوراس کے حکم میں سرکاری اورغیرسرکاری اداروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ب:اگرقانونی مجبوری کے تحت میڈیکل انشورنس لازمی ہوتواس کی گنجائش ہے،لیکن جمع کردہ رقم سے زائد جو علاج میں خرچ ہو،صاحب استطاعت کے لئے اس کے بقدربلانیت ثواب صدقہ کرناواجب ہے۔(۳۲)

ادارہ مباحث فقہیہ کے بارہویں فقہی اجتماع منعقدہ ۴تا۶مئی ۲۰۱۶؁ میں بمقام دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر میں طبی انشورنس پرغوروخوض کیاہے، سمینارکافیصلہ اس طرح ہے:

۱۔آج کل رائج میڈیکل انشورنس کی شکلیں دیگرانشورنس کی طرح قمارکے دائرہ میں آتی ہیںاورناجائزہیں۔

۲۔قانونی مجبوری کی صورت میں میڈیکل انشورنس کرانے کی گنجائش ہے،اور زائد رقم کے بارے میں مبتلا بہ شخص ارباب افتاسے رجوع کرے۔

۳۔ملازمین کے لئے غیراختیاری انشورنس جس میں انشورنس کی رقم ان کی تنخواہوں سے کمپنی ازخودکاٹ لیتی ہے، یاوہ اپنے پاس سے جمع کراتی ہے تواس طرح کی انشورنس کی پالیسی سے ملازمین کوفائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔ (۳۳)

ادارہ مباحث فقہیہ کے سترہویں سیمینارمنعقدہ حج بھون بنگلورکرناٹک میںطبی انشورنس پردوبارہ غوروخوض کیا گیا، اور طویل مناقشہ کے بعد تجویزمنظور کیا گیا،سیمینارکے شرکاء کی جانب سے منظورشدہ تجاویزمیں کہاگیاکہ موجودہ ملکی وبین الاقوامی حالات کے تناظر میں کسی بھی ناقابل تحمل مصارف بیماری میں مبتلا ہونے کے اندیشہ سے اگر ضرورت مند لوگ میڈیکل انشورنس کی پالیسی سے استفادہ کریں تواس کی گنجائش ہے،میڈیکل انشورنس کراتے وقت یہ بہتر ہے کہ کمپنی سے یہ معاہدہ کرلیاجائے سالانہ پریمیم جمع کرنے کے عوض میں کمپنی سال میں کم از کم ایک مرتبہ میڈیکل چیک اپ ضرور کرائے گی،توایسے میں ہیلتھ انشورنس کی پالیسی سے بھی استفادہ کی اجازت ہے۔

ڈاک انشورنسPostal Insurance

ڈاک انشورنس جائزہے،ضروری کاغذات اورسندات کوبھیجنے میں بھی انشورنس کانظام ہے،یہ صورت بھی جائزہے،فقہاء کی تصریحات کے مطابق امین سامان کی حفاظت کی اجرت لے تووہ اس کاضامن ہوگا،اورضائع ہونے کی صورت میں اسے تاوان اداکرناہوگا،مولاناخالدسیف اللہ رحمانی اورمولانامفتی محمد شفیع صاحب نے اس کوجائزقراردیاہے۔(۳۴)

حادثات کاانشورنسAccidental Insurance

انشورنس کی ایک شکل ذمہ داریوں کاانشورنس ہے،جیسے گاڑیوں سے ٹکرکی صورت میں دوسرے کوادائیگی کرنی پڑتی ہے،مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب نے اسے جائزقراردیاہے،مولانانے اسے قتل خطا پر قیاس کیاہے۔ (۳۵)

لازمی انشورنس

سرکاری قوانین کے تحت وہ تمام صورتیں جن میں انشورنس لازمی ہے ،وہ جائزہے،کیونکہ اس میں انشورنس کرانے والے کادخل نہیں ہوتاہے۔

متبادل

انشورنس کامتبادل تکافل شرعی یااسلامی انشورنس ہے ۔

تجزیہ

۱۔انشورنس جدیدمالیاتی معاملات میں سے ایک ہے۔

۲۔سماجی،سیاسی،معاشی حالات کی بناء پراس مسئلہ میں علماء کی آراء میں فرق پایاجاتاہے۔

۳۔تعاونی انشورنس کے جائزہونے پرتمام فقہاء اور تمام فقہی اکیڈمیوں کااتفاق ہے۔

۴۔تجارتی انشورنس کے بارے میں فقہی اکیڈمیوں کی رائے عدم جوازکی ہے۔

۵۔چندفقہاء اور ماہرین معاشیات تجارتی انشورنس کے جائزہونے کے قائل ہیں۔

۶۔اسلامی نظام تکافل کو انشورنس کے متبادل کے طور پر فروغ دیاجاناچاہئے۔

حواشی:

۱۔اردودائرہ معارف اسلامیہ،۱۴:۴۵۶،زیراہتمام دانش گاہ پنجاب ،لاہور

۲۔Blacks Law Dictionary ,6th Edition

۳۔الوسيط فی شرح القانون المدنی،الجزء السابع، جلد دوم،دارالنہضۃ العربیۃ

۴۔حوالہ سابق

۵۔انشورنس اسلامی معیشت میں،ص:۵۰،مصنف:ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی،ناشر:مرکزی مکتبہ اسلامی ،نئی دہلی

۶۔انشورنس اسلامی معیشت میں،ص:۱۶

۷۔انشورنس اسلامی معیشت میں،ص:۱۶

۸۔جدیدمالیاتی ادارے،فقہ اسلامی کی روشنی میں،ص:۱۰۱،مصنف:مولاناخالدسیف اللہ رحمانی،ناشر:کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ۲۰۱۴؁

۹۔تفصیل کے لئے دیکھئے:اسلام اور جدید معیشت وتجارت،ص:۹۸،مصنف :مفتی محمد تقی عثمانی ،ناشر:مکتبہ معارف القرآن، کراچی

۱۰۔حاشیہ ابن عابدین،ج۴،ص:۱۷۰

۱۱۔مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی، ج۲، ص: ۳۸۳ ،مضمون: التامین اعادۃ التامین،مضمون نگار:الشیخ رجب التمیمی،انشورنس ایک مطالعہ ،شیخ مصطفی احمد زرقاء، ص:۳۰

۱۲۔مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی، ج۲، ص: ۴۰۸ ،مضمون: عقود التامین واعادۃ التامین فی الفقہ الاسلامی،مضمون نگار:الدکتورمحمد عبداللطیف الفرفور

۱۳۔انشورنس ایک شرعی مطالعہ،ص:۷،مصنف:ڈاکٹرمصطفی احمد زرقاء،مترجم:احمدالیاس نعمانی

۱۴۔مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی، ج۲، ص: ۳۷۷

۱۵۔انشورنس ایک شرعی مطالعہ،ص:۹،مصنف:ڈاکٹرمصطفی احمد زرقاء،مترجم:احمدالیاس نعمانی

۱۶۔مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی، ج۲، ص: ۳۷۷ ،مضمون :التامین واعادۃ التامین،دکتوروہبہ الزحیلی

۱۷۔تفصیل کے لئے دیکھئےاسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے،ص:۴۰،ابحاث ہیئۃ کبارالعلماء،ج۴،ص:۴۲

۱۸۔قاموس الفقہ،ج۲،ص:۳۹۶،مصنف:مولاناخالدسیف اللہ رحمانی

۱۹۔الاسلام والتامین،بحوالہ قاموس الفقہ،ج۲،ص:۳۹۶

۲۰۔سورہ مائدہ:۹۰

۲۱۔المبسوط ،ج۱۳،ص:۱۹۴

۲۲۔سنن ابی دائود،باب فی الغرر،حدیث نمبر:۳۳۷۶

۲۳۔مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے:مکہ فقہ اکیڈمی کے فقہی فیصلے،ص:۴۰۔۴۸،جدیدمالیاتی ادارے،مصنف: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، ص: ۱۰۵

۲۴۔مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے:مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی،مضمون:عقودالتامین واعادۃ التامین فی الفقہ الاسلامی،مضمون نگار: الدکتور محمد عبداللطیف الفرفور، ج۲،ص:۴۰۹

۲۵۔دیکھئے انشورنس اسلامی معیشت میں

۲۶۔مجلس تحقیقات شرعیہ کے اہم فیصلے،ص:۱۵،ناشر:مجلس تحقیقات شرعیہ،ندوۃ العلماء لکھنؤ،طبع دوم: اکتوبر ۲۰۲۲؁

۲۷۔اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے،ص:۴۰،مترجم:مفتی ڈاکٹرفہیم اخترندوی،طبع دوم ۲۰۰۴، ناشر ایفا پبلیکشنز،نئی دہلی

۲۸۔انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی،جدہ کے شرعی فیصلے،ص:۸۸،مترجم:مفتی ڈاکٹرفہیم اخترندوی،طبع دوم ۲۰۱۲؁، ناشر: ایفا پبلیکیشنز،نئی دہلی

۲۹۔نئے مسائل اورفقہ اکیڈمی کے فیصلے،ص:۲۲۸،ناشر:اسلامک فقہ اکیڈمی،سن طباعت مئی ۲۰۱۷؁

۳۰۔فقہی اجتماعات کے اہم فقہی تجاویز،ص:۴۹،مرتب:معزالدین احمد،ناشرادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماء ہند، نئی دہلی

۳۱۔مجلس کے شرعی فیصلے،ص:۱۲۳

۳۲۔میڈیکل انشورنس شریعت اسلامی کی نظرمیں،ص:۱۵

۳۳۔فقہی اجتماعات کے اہم فقہی تجاویز،ص:۱۲۴

۳۴۔قاموس الفقہ حوالہ سابق،جواہرالفقہ،ج۲،ص:۱۸۲

۳۵۔قاموس الفقہ ،ج۲،ص:۴۰۴

Tags

Share this post: