دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ ۔ایک تجزیاتی مطالعہ

دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ ۔ایک تجزیاتی مطالعہ

مولاناسلمان نسیم ندوی

 استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

ساتویں صدی ہجری میں عالم اسلام کوجس عالم گیراورعالم آشوب حادثہ کاسامناکرناپڑا، جوایک طوفان کی طرح اٹھا اوردیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم پرپھیل گیا، جس حادثہ نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی،اور پورے عالمِ اسلام پر َمورومَلَخ کی طرح چھا گیا، تاریخ میں اس سانحہ کو’’تاتاری حملہ‘‘ کے نام سے جاناجاتاہے، اس حملہ کی ہولناکی نے تومؤرخین کے قلم کوبھی ششدراور مبہوت کردیاتھالیکن عروج وزوال اور فتح وشکست کے تمام تر اصولوں، اندازوں اورقیاس آرائیوں کوغلط ثابت کرتے ہوئے کچھ ہی عرصہ میں مسلمانوں کی یہ فاتح تاتاری قوم اسلام کی مفتوح بن گئی،جہاں یہ واقعہ انسانی اور سیاسی تاریخ کا  ایک عجوبہ ہے وہیںاسلام کی حیرت انگیز قوت تسخیرکانمونہ بھی ہے، تاتاریوں کے قبول اسلام کے باوجود ا س تلخ حقیقت کاانکار ممکن نہیں کہ عالم اسلام پرتاتاریوں کے حملے عالم اسلام کووہ نقصان پہنچاچکے تھے، کہ عالم اسلام کی زندگی کا ہرشعبہ اضمحلال وافسردگی، یاس وجمود کی ایک عجیب کیفیت سے دوچار تھا، اور محسوس ہوتا تھا کہ شاید عالم اسلام کو صدیوںسنبھالا نہیں مل سکے گا، اس وقت عالم اسلام کو ضرورت تھی ایک ایسی تازہ دم، عالی حوصلہ، اورمجاہد سیرت قوم کی جوگرتے ہوئے عالم اسلامی کوسنبھال سکے،اسی وقت آٹھویں صدی میں بشری اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ربانی فیصلہ کاظہور ہوتا ہے، تاریخ کے اسٹیج پرایک قوم نمودارہوتی ہے، جو اپنے جذبۂ حریت، جنگی صلاحیت ولیاقت اوربین الاقوامی قیادت کے لئےاپنی جغرافیائی فوقیت کی بنیاد پر’’تلک الأیام نداولہا بین الناس‘‘کے ضابطۂ الٰہی کی عملی تصویر بن جاتی ہے، تاریخ میں اس قوم کو’عثمانی ترک‘ اوران کی سلطنت کو’دولت عثمانیہ‘ یا ’خلافت عثمانیہ‘ کے نام سے جاناجاتاہے۔

’دولتِ عثمانیہ‘ کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک وقت میں عثمانی سلاطین تین براعظم یورپ، ایشیاء اورافریقہ میں حکومت کرتے تھے، اسلامی مشرق ایران سے مراکش تک ان کے زیر فرمان تھا، ایشیائے کوچک کو وہ زیر کر چکے تھے، یورپ میں آگے بڑھتے ہوئے وہ ویانا کی دیواروں تک پہنچ چکے تھے، عثمانی سلاطین کے دبدبہ کایہ عالم تھا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی(علیہ الرحمۃ) کے بقول’’محمد فاتح کے انتقال پر پاپائے اعظم نے جشن مسرت منانے کاحکم دیا، اورفرمان صادر کیا کہ تین روز تک مسلسل شکرانہ کی نمازیں پڑھی جائیں‘‘ ، سلطنت عثمانیہ کی وسعت کایہ عالم تھا کہ پطرس اعظمpeter the great   کے معتمدنے ایک مرتبہ قسطنطنیہ سے قیصر کولکھا تھا کہ عثمانی سلطان بحراسود کواپنا گھر سمجھتے ہیں جس میں کسی غیر کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔

’خلافت عثمانیہ‘ کی یہی وہ عظمت ووسعت تھی جو’تیرِنیم کش‘  اور’خنجرِ دودَم‘ کی طرح یورپ کے سینہ میں پیوست تھا،اورانسانوں کا وہ طبقہ جس کوکبھی بھی مسلمانوںکا ایک چشمِ عَشوہ طراز بھی برداشت نہیں ہوا، وہ اسلام کی طرف منسوب کسی ایسی حکومت، سلطنت یاخلافت کو کیسے ہضم کرسکتاتھا، چنانچہ اس سلطنت کوتباہ کرنے کے لئے سازشوں کے جال بنےگئے، پروپیگنڈوں کا بازار گرم کیاگیا، بہلایاگیا پھسلایاگیا،کسی کو حدود وثغور تو کسی کوسیم وزر کے خواب دکھائے گئے، اورپھرزوال دولت عثمانیہ اورالغائے خلافت کا وہ حادثۂ جانکاہ پیش آیا کہ اگرابن کثیرجیسا مؤرخ زندہ ہوتا تووہ اس حادثہ کے غم میں تاتاری حادثہ کوبھول جاتا،مفکر اسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے الغائے خلافت پرجن الفاظ میں ماتم کیا ہے، ان میں پوری داستان آگئی ہے، مولانا لکھتے ہیں:

 ’’لیکن بالآخر جو منصب جلیل وفات رسولﷺ کے بعد سے کسی نہ کسی شکل میں اس وقت تک چلاآرہاتھا، اور عثمانیوں نے اپنی ساری کمزوریوں، اوربہت سی قابل گرفت باتوں کے باوجود‘ اس کی شان وشوکت قائم رکھی تھی، اور یورپ کے دل پر اس کی دھاک بٹھارکھی تھی، اورجوحرمین شریفین کی پاسبان ومحافظ تھی،۳؍مارچ ۱۹۲۴؁ء میں اس کاکمال اتاترک(جس کاہندوستانی مسلمان اپنی ناواقفیت کی بناء پرعرصہ تک کلمہ پڑھتے رہے)کے ہاتھوں بیک گردش ِقلم وجنبش ِلب خاتمہ ہوگیا، اگر پوچھا جائے کہ عالم اسلام کے لئے آخری صدیوںکی طویل تاریخ میں منحوس ترین دن کون تھا؟ توایک باخبراورحقیقت پسند مؤرخ اس کے سوا کوئی جواب نہیں دے سکتا کہ وہ مارچ۱۹۲۴؁ء کی تاریخ تھی، جب قسطنطنیہ کی مجلس وطنی نے الغائے خلافت کافیصلہ کیا، اور مقامات مقدسہ ہی نہیں، مسلمانوں کی عزت وآبرو کاوہ مضبوط حصار ٹوٹ گیا جس کوترکوں نے اپنی قربانیوں، فوجی طاقت‘ اور خلافت کے مقدس نام سے تعمیر کیاتھا۔‘‘(کاروان زندگی، ج۱، ص:۱۷، ناشر مکتبہ اسلام لکھنؤ،طبع ششم،۲۰۱۹؁)

’دولت عثمانیہ‘ کازوال اور ’خلافت عثمانیہ‘ کاالغاء نہ تو گریک، نہ رومن، اور نہ ہی پرشین امپائر کے زوال کی طرح تھا،نہ امویوں ، عباسیوں اورفاطمیوں کی بساط کے الٹنے اورلپٹنے کی طرح تھا، اس زوال اوراس الغاء کے پس پردہ دشمنوں نےمسلمانوں پرچوطرفہ حملہ کیا تھا؛ بھائیوں کوبھائیوں کے خلاف کھڑاکیا گیا تھا، سیاسی قوت نہ صرف چھین لی گئی تھی بلکہ پابہ زنجیرکردی گئ تھی،تصورخلافت پراپنوںکے ہاتھوں خط نسخ پھیردیاگیاتھا، اورپروپیگنڈوں کی قوت نے عثمانی سلطنت کے کلاہ امتیاز کو پیشانی کابدنماداغ بنادیا تھا، انہی اسباب کی وجہ سے چشمِ گریاں اورروحِ بریاں رکھنے والی اسلام کی مخلص ہستیوں کی ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ عثمانی سلطنت کی حقیقی تاریخ  اوراس کا اصل چہرہ سامنے آئے، بیسویں صدی میںشوکت اسلام کی بازیافت کے لئے ایک سوختہ جان، جسکے دل میں ہمیشہ اک آگ شعلہ فشاں تھی، مفکراسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی (رحمۃ اللہ علیہ )تھے، جنہوںنے اپنی علمی وتصنیفی زندگی میںتاریخ کے بہت سے مفروضوں کوبے نقاب کیا تھا، وہ خلافت عثمانیہ کی’مسخ شدہ‘ تاریخ کوکیسے برداشت کرسکتے تھے؟چنانچہ انہوں نے عثمانی سلطنت کے حقائق کوبھی اجاگر کرنے کافیصلہ کیا، اوراس کے لئےان کی نظرجوہرشناس اقلیم قلم وقرطاس کی بساط پرایک نووارد لیکن جواں عزم اورجواں سال پرپڑی جن کوآج علمی دنیا مولانا ومفتی عتیق احمد بستوی کے نام نامی سے جانتی ہے، مفکراسلامؒ نے ۱۹۸۰؁ء میں یہ عظیم منصوبہ ان کے سپرد کیا تھا،۴۲؍سال کے طویل عرصے کی عرق ریزی اور ژرف نگاہی کے بعد یہ علمی اور تاریخی کتاب تین جلدوں اور سترہ سو اڑتالیس صفحات میں آپ کے سامنے ہے۔

 یہ کتاب صرف واقعات کی کھتونی نہیں ہے بلکہ یہ ایک فرض کی تکمیل ہے، ایک قرض کی ادئیگی ہے، الزامات کا جائزہ ہے، ژولیدہ حوادث اوراس کے اسباب کا تجزیہ ہے، دشمن عیار کی نقاب کشائی ہے تودوست کی غفلت کامحاسبہ بھی ہے، تاریخ عثمانی سے متعلق متعدد نایاب دستاویز کامجموعہ ہے، عثمانی سلطنت کی دوست اور دشمن ، خفیہ وعیاں تحریکات پرمبصرانہ تبصرہ ہے،یہ کتاب عثمانی تاریخ کاماضی بھی ہے، حال بھی ہے، اوراس کا مستقبل بھی ہے، یہ کتاب دراصل اسی طرزتاریخ نویسی اورتاریخ نگاری کاامتداد ہے جس کے معلم اول علامہ شبلیؒ تھے، اور جس کے حسن کودبستان شبلی نے دوبالا کیاتھا، اور جس کی روح کومولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ نے گرمایا تھا۔ یہ کتاب جب اہل علم اور اہل ذوق کے نظروں سے گزرے گی، توتجزیے ہونگے، تبصرے اور محاکمے ہونگے، اور یہی اس کتاب کواصل خراج عقیدت ہوگی۔

یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ دولت عثمانیہ پرپہلی مستند کتاب دارالمصنفین سے۱۹۳۹؁ء میں دو جلدوں میں منظرعام پر آئی تھی، جس سے خود مصنف کتاب نے استفادہ کیا، اب یہ دوسرا معیاری کام مکمل پچاسی سال کے بعد مجلس تحقیقات ونشریات اسلام سے شائع ہورہی ہے۔

کتاب کی تین جلدیں ہیں جس کی مجموعی ضخامت 1749 صفحات ہیں؛ عمومی طور پریہ کتاب دولت عثمانیہ کے عروج وزوال، سلطان عبد الحمید ثانی کے دور خلافت اور ان کے کارناموں کی تفصیل، خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے کا سانحہ، انجمن اتحاد وترقی اور مصطفی کمال پاشا کے دور حکومت کے اہم واقعات، ترکی میں اسلامی بیداری کے حوصلہ افزا اقدامات و حالات، سلطان عبد الحمید ثانی کی دو ڈائریاں، نیز موجودہ صدر تر کی رجب طیب اردوگان کے اقدامات کی دقیق تفصیل فراہم کرتی ہے، ذیل میں کتاب کے مضامین کاسرسری تذکرہ پیش خدمت ہے تاکہ قاری کو کتاب کے مشتملات کااندازہ ہوسکے۔

پہلی جلد : پہلی جلد میں فاضل مصنف نے اولا قاضی عدیل عباسی کی "تحریک خلافت” پر تبصرہ کیا ہے، بعد ازاں مسئلہ فلسطین اور سلطان عبدالحمید ثانی، سلاطین عثمانی اور خلافت ، تاریخ دولت عثمانیہ کے عروج وزوال ، دور اصلاحات کا مختصر جائزہ اور اصلاحات کی ناکامی کے اسباب، خلافت عثمانیہ کے خلاف صفویوں کی سازشیں، جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔

 دوسری جلد مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے :سلطان عبدالحمید ثانی کا دور خلافت، روس اور دولت عثمانیہ کی جنگ، تونس پر فرانس کا غاصبانہ تسلط ، مصر اور دولت عثمانیہ ، ارمنی مسئلہ اور سلطان عبدالحمید ثانی ، سلطان عبدالحمید اور نظام جاسوسی، مطبوعات پر سنسر ،(سلطان عبدالحمید ثانی) قتل یا معزولی کی سازشیں ، سلطان عبدالحمید ثانی کے مظالم کے افسانے، دستوری حکومت کا قیام اور سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی، سلطان عبدالحمید ثانی اور تحریک اتحاد اسلامی ، دور حمیدی کی تعلیمی ترقیاں ، دور حمیدی کی فوجی ترقیاں ، سلطان عبدالحمید ثانی کے دور میں زراعتی ترقیاں ، ریلوے لائنوں کی تعمیر ، مختلف ترقیاتی کام۔ چند اسلام دشمن تحریکات ؛فری میسن ، ماسونیت ، صہیونیت ایک انسانیت دشمن تحریک، حکماء صہیون کے پروٹوکولس ، یہود دونمہ کی تاریخ اور کردار ، ترک قومیت کی تحریک ایک جائزہ، عرب قومیت کی تحریک ایک جائزہ ، جیل میں سلطان عبد الحمید ثانی کی زندگی اور ان کی وفات، سلطان کی صاحبزادی عائشہ کی کتاب، دولت عثمانیہ سلطان عبد الحمید ثانی کے بعد۔

تیسری جلد کے مضامین حسب ذیل ہیں :

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ، انجمن اتحاد و ترقی اور مصطفی کمال کا دور اقتدار ، خاتمہ خلافت کے بعد ترکی میں اسلامی بیداری، سلطان عبد الحمید ثانی کی سیاسی ڈائری۱۹۰۸-۱۸۹۱ ۔ ڈائری نمبر (1) : پہلی فصل : دولت عثمانیہ کی داخلی سیاست سے متعلق ، دوسری فصل: خارجہ سیاست، تیسری فصل : اسلامی شخصیت، چوتھی فصل : اصلاحات کی سیاست، پانچویں فصل : شخصیت ،ڈائری نمبر (2) : عالم اسلام کے المناک حالات کا تجزیہ اور چند مشورے ۔

اس کتاب میں تاریخ کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن تحریکات کابھی تفصیلی تذکرکیاگیاہے،اور یہ کتاب کااہم ترین حصہ ہے،مصنف کتاب خود تحریر فرماتے ہیں:

کتاب کا ایک اہم حصہ ان اسلام دشمن تحریکات کے تعارف پر مشتمل ہے، جنھیں اسلام دشمن طاقتوں نے عالم اسلام کو تہہ وبالا کرنے کے لیے برپا کیا تھا ،اور جن میں دانستہ نادانستہ بہت سے مسلمان پرجوش نوجوان اہل علم وفکر اور دانشور استعمال کرلیے گئے تھے، ان تحریکات کے جاذبِ نظر نعروں اور اہداف سے دھوکہ کھاکر سادہ لوح مسلمانوں کی ایک تعداد اس میں شریک ہوگئی تھی، خلیفہ عبدالحمید ثانی کا دور خلافت اور اس سے پہلے اور بعد کے ادوار پر ان تحریکات نے بڑے اثرات ڈالے تھے، اسی لیے ان تحریکات کا کتاب میں حوالوں کے ساتھ بھرپور تعارف کرایا گیا، اور ان کے اصل اہداف ومقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ان تحریکات کا جائزہ محض دورحمیدی تک محدود نہیں ہے، بلکہ سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی کے بعد اتحاد وترقی کے دور حکومت میں اور مصطفی کمال پاشا وغیرہ کے ادوار میں جو اثرات ونتائج ان تحریکات کے مرتب ہوئے، ان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اور عالمی سیاست پر ان تحریکات کے جو گہرے اثرات پڑے ہیں ضمناً ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔(کتاب ہذا، ص:۵۳۔۵۴)

ملک کے نامورعالم اور فقیہ مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب نے اس تحقیقی کاوش کی پذیرائی جس طرح کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، مولانافرماتے ہیں:

 ملک کے موجودہ اصحابِ قلم اور صاحبِ نظر مصنفین میں برادر گرامی حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب زیدت مکار مہم کا نام بہت نمایاں ہے، وہ اپنے کسی بھی تحقیقی کام میں چھلکوں پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ مغز تک پہنچتے ہیں، ظاہری سطح سے گزر نہیں جاتے، بلکہ غواصی کرکے سچائی سے لعل وگوہر ڈھونڈ کر نکالتے ہیں، اس وقت ان کی جو کتاب سامنے ہے، وہ ان کے اسی ذوق و مزاج کا عکس جمیل ہے، لیکن مولانا موصوف نے اس کتاب کے مسودہ کا ایک قابل لحاظ حصہ مجھے دیا تو میں ایک ہی مجلس میں اس کو حرف بہ حرف پڑھ گیا اور اس میں مبالغہ نہیں کہ پڑھتے ہوئے کئی بار آنکھیں اشک بار ہوئیں، یہ آنسو اپنے کسی عزیز کی مصیبت پر نہیں تھے، بلکہ ملتِ اسلامیہ پر آنے والی ایک عظیم اور دور رس مصیبت پر تھے اور ملت کی محسن ناسازشی بلکہ محسن کشی کے جو واقعات ہم پڑھتے آئے ہیں، اندازہ ہوا یہ کہ اس میں ایک المناک اضافہ ہے۔

مصنف نے اس کتاب کی تالیف پر طویل وقت صرف کیا ہے اور اس کام میں ان کو کئی بزرگوں کی دعائیں حاصل رہی ہیں، عام طور پر وہ فقہی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن اس کتاب میں انہوں نے ایک تاریخی اور فکری موضوع کو وسیع مطالعہ اور گہرے غور و فکر کے ساتھ پیش کیا ہے، میرا خیال ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں جو خلافت عثمانیہ پر افتادکا زمانہ تھا۔ اس موضوع کی جتنی اہمیت تھی، آج اکیسویں صدی میں بھی عالم اسلام کے لئے اس کی اہمیت اس طرح باقی ہے، حالات اب بھی کچھ مختلف نہیں ہیں، کیونکہ غور کیا جائے تو مسلمانوں کی پسپائی اور ہزیمت کے اسباب میں سے دو نہایت اہم سبب ہیں: ایک مسلمانوں کا باہمی اختلاف ، دوسرے مسلمانوں کے اور عالم اسلام کے دشمنوں اور کھلے ہوئے مخالفوں کے ساتھ مسلمانوں کے ایک طبقہ کی دوستی اور قربت۔(کتاب ہذا،ص:۶۶۔۶۷)

ناظم ندوۃ العلماء مولاناسیدبلال عبدالحی حسنی ندوی دامت برکاتہم اس کتاب کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں:

پیش نظر کتاب استاذ گرامی مولانا مفتی عتیق احمد صاحب بستوی کی شاہکار تصنیف ہے۔ اس کو ان کی تصنیفی زندگی کا حاصل کہا جاسکتا ہے، اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے خوبصورت ایام کو لگایا ہے، دنیا مولانا کو فقیہ کی حیثیت سے جانتی ہے، یقینا یہ مولانا کا امتیاز ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب سے جو حقیقت میں مولانا کی پہلی تصنیف تھی، مولانا کا تاریخی ذوق تحقیق اور نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ اگر مولانا کی فقہ اکیڈمی کے کاموں میں مشغولیت نہ ہوتی تو شاید وہ ایک بڑے مؤرخ کی حیثیت سے دنیا میں پہچانے جاتے۔

کتاب میں دولت عثمانیہ کی پوری تاریخ بھی ہے، خلفاء کا تذکرہ بھی ہے، مگر کتاب کا اصل موضوع سلطان عبد الحمید کے بارے میں ان حقائق کو پیش کرنا ہے جن کو اب تک بہت مسخ کرکے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں جن اسلام دشمن تحریکات نے بھرپور حصہ لیا، کتاب میں ان کا بھی اچھا تعارف آگیا ہے۔ ہندوستان میں برپا ہونے والی تحریک خلافت کے سلسلہ میں بھی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور اس پر مستقل مضمون شامل کتاب کیا گیا ہے جو شاید اس کتاب کی تصنیف کا سبب بنا۔

حاصل یہ ہے کہ یہ کتاب خلافت عثمانیہ کی بھرپور تاریخ بھی ہے اور موجودہ دنیائے اسلام کے لیے بڑاسبق بھی ہے، جس سے آئندہ کی دنیا میں بہت کچھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔(کتاب ہذا، ص: ۷۶۔ ۷۷)

دارالمصنفین اعظم گڑھ کے رفیق مولاناعمیرالصدیق ندوی صاحب اس کتاب کے بارے میں اپناتاثراس طرح نقل کرتے ہیں:

 اسی کتاب میں کچھ مقامات ایسے بھی آئے جہاں کچھ دیر کے لیے رک کر اور ٹھہر کر نگاہ کو کچھ ایسے نشانات پر مرکوز کرنا ضروری تھا جن کی سچائیاں کچھ اور بیان کا مطالبہ کر رہی تھیں، مولانا بستوی نے تحقیق کے نتائج کو بڑے سلیقے اور اس سے زیادہ عدل وانصاف کی اپنی فقہانہ شان سے بیان کردیا۔

ایک اور باب دراصل ماضی اور حال کے اتصال کی ضرورت کے لحاظ سے ہے،اکیسویں صدی میں اندلس وترکی کے سلسلۂ تاریخ کی تیسری سب سے اہم کڑی قضیۂ فلسطین ہے، ترکی کی خلافت، سلطان عبدالحمید کی تدبیر وحکمت، عرب قومیت اور یورپی استعمار کی گھناؤنی سیاست، فلسطین کے تجزیے میں ناگزیر موضوعاتِ تحلیل وتجزیہ ہیں، مولانا بستوی نے اس بحث کو جس دیدہ ریزی سے اور اس سے زیادہ مطالعہ وتجزیے کی اصابت سے پیش کیا ہے، اس کا اثر ہے کہ ان کے قلم میں یہ جرأت آگئی کہ وہ یہ کہہ سکے کہ: ’’تاریخ نویسی کی بدترین مثال وہ کتابیں اور مقالات ہیں جو اکثر یورپی مؤرخین اور ان کے مغرب زدہ شاگردوں نے سلطنت عثمانیہ کے بارے میں مرتب کی ہیں‘‘(کتاب ہذا،ص: ۸۲۔ ۸۳)

ابتداء میں بحیثیت ناشرمولاناجعفرمسعود حسنی ندوی ؒ کی تحریرہے،جس میں انہوں نے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا تفصیلی تذکرہ کیاہے،اس کے بعداس کتاب کی خصوصیات کوبیان کیا،مولانالکھتے ہیں:

’’یہ کتاب مصنف کے طویل مطالعہ وتحقیق اور غوروخوض کانچوڑ ہے، مولانا نے اس سلسلہ کے قدیم وجدید عربی واردو مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے دولت عثمانیہ کے قیام سے لے کراس کے دورِعروج وزوال کی تاریخ شگفتہ اسلوب میں پیش کردی ہے، کتاب کا اصل موضوع سلطان عبد الحمید کا دورخلافت ہے، اس دور کے اہم واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، پھر ان واقعات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور مختلف میدانوں میں سلطان عبد الحمید ثانی کے کارناموں کو تفصیل وتحقیق کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے، اسی طرح کتاب کا ایک اہم حصہ ان اسلام دشمن تحریکات کے تعارف پر مشتمل ہے، جنھیں مغربی طاقتوں نے عالم اسلام کو تہہ وبالا کرنے کے لیے برپا کیا تھا اور جن میں دانستہ نادانستہ مسلمان پرجوش نوجوان اہل علم وفکر اور دانشور بھی استعمال کرلیے گئے تھے، کتاب میں مصنف نے عربی مصادر سے اہم اور مفید حصوں کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے، خاص طور پر ترکی کی تاریخ پر عربی زبان میں ایک اہم کتاب ’’تاریخ الدولۃ العلیۃ العثمانیۃ‘‘ از ڈاکٹر محمد فرید بک ، میںڈاکٹر احسان حقی کے جو تحقیقی ضمیمے ہیں، ان میں سے چند ضمیموں کا ترجمہ کرکے شامل کیا ہے اور کتاب کے آخری حصہ میں سلطان عبد الحمید کی دوڈائریاں بھی شامل کی ہیں جو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں اور عبد الحمید ثانی کے بارے میں پھیلائے گئے پروپیگنڈہ اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہیں۔‘‘(کتاب ہذا،ص:۲۷۔۲۷)

ابتداء میں علامہ شبلی نعمانی،مولاناابوالکلام آزاد،امیرشکیب ارسلان،اورمولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کے اقتباسات نقل کئے گئےہیں،یہ تحریریںموضوع کی مناسبت سے نہایت اہم ہیں۔

یہ کتاب ’’مجلس تحقیقات ونشریاتِ اسلام‘‘کی جانب سے شائع ہوئی ہے،اس ادارہ کاقیام ۱۹۵۹؁ء میں مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی(رحمۃ اللہ علیہ) کی صدارت میں عمل میں آیاتھا، اور جس کامقصد روز اول سے یہ رہا کہ مسلمانوں کااسلام پراعتماد بحال کیا جائے، ان کی بے اطمینانی اورشک وتذبذب کودورکیا جائے، اورغیر مسلم تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر محکم استدلال، جدیداسلوب تحریراوردعوتی جذبہ سے پیش کیا جائے، ابھی تک مجلس سے مختلف زبانوں میں چار سو سے زائد کتابیں شائع ہوکر مقبول عام وخاص ہوچکی ہیں۔

Tags

Share this post: