اعجاز قرآنی کی حقیقت اوراقسام
مولاناڈاکٹرمحمد علی ندوی
استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسان کو ایمان، عبادت، اخلاق اور کامیابی کا راہ دکھانا ہے، لہٰذا ضروری تھا کہ اس کی حقانیت سب کے سامنے واضح ہو، اور حجت تام ہو، چنانچہ قرآن کریم خود ہی معجزہ کی شکل میں سامنے آیا، بلکہ اس کے اعجاز کے کئی پہلو ہیں، جن میں ایک نمایاں پہلو ’’اعجازِ علمی‘‘(Scientific Miracles)بھی ہے۔قرآن میں کائنات،فلکیات (Astronomy) ،حیاتیات (Biology)،طب(Medicine)،علوم طبیعہ(Natural Sciences) اور فطری قوانین کے ایسے اشارات ملتے ہیں جنہیں اُس وقت کے انسان پورے طور پرسمجھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جدید سائنس نے صدیوں بعد ان کی تصدیق کی۔ یہی پہلو قرآن کے ’’سائنسی اعجاز‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور جب اللہ ہی کائنات کا خالق ہے، اور قرآن اللہ ہی کا کلام ہے، تو یہ ناممکن ہے کہ قرآن اُن کائناتی وسائنسی حقائق کے خلاف ہو جو قرآن کے نزول کے بعد دریافت ہوئے۔
ایمان محض تقلید یا اندھی تسلیم پر نہیں قائم ہوتا بلکہ خدا کی توفیق شامل حال رہتی ہے، اور طلب صادق ہوتی ہے تو دلائل (چاہے وہ شرعی ہوں یا عقلی وسائنسی )بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ اس وقت سائنس وہ زبان ہے جسے آج کی نئی نسل بخوبی سمجھتی ہے۔ اس لئے ہمیں ان کے سامنے وہ سائنسی دلائل پیش کرنے چاہئے جو قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض حقائق کو یورپ کے سائنس دانوں نے خود دریافت کیا اور یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اسلام نے ان کا ذکر چودہ صدی پہلے کر دیا تھا۔ اور اب بھی قرآن و سنت میں ایسی سائنسی نشانیاں باقی ہیں جن کے راز آج کی سائنس نہیں کھول پائی، اور وہ وقت ضرور آئے گا جب سائنس ان کو بھی دریافت کرے گی، ان شاء اللہ۔ (۱ )
دورِ حاضر کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ علوم کی برق رفتار ترقی اور کائنات کے اسرار و رموز کی کھوج کے لمبے سفر سے ایک نئے سفر پر روانہ ہوچکا، سائنسی انقلاب کے مختلف مراحل (صنعتی، الکٹرونک، ڈیجیٹل، آن لائن، وغیرہ) سے گزر کر اے آئی کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے، جو پچھلے مراحل سے زیادہ پر خطر ہے۔
اسلئے اس زمانے میں ایمان سے محروم ایک تعداد اسلام قبول کرنے اور دل کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے، شکوک وشبھات رفع کرنے کے لیے؛ اللہ کی قدرت،اس کی مخلوقات اوراس کے خالق ومدبر ہونے میں غور کے ساتھ سائنسی دلائل کی محتاج ہے؛ کیونکہ سائنسی علوم کی برق رفتار ترقی نے انسان کو حیران کر دیا ہے اور کمزور ایمان رکھنے والوں کے عقائد کو متزلزل کر دیا ہے۔
جب انسان کائنات کے حقائق کو دریافت کرتا ہے، اللہ کی مخلوقات کے بھید کھولتا ہے، تو علل ومعلولات اور اسباب ومسببات سے حقیقی ’’مُسبّب الاسباب‘‘اور ’’مدبّر الامور‘‘ کائنات کا نظام چلانے والے رب کی طرف اسکی رسائی ہوتی ہے۔ یہ تحقیق و جستجو انسان کو صرف مادی و سائنسی ترقی کے منازل تک محدود نہیں رکھتی، بلکہ اس کے ایمان کو تازگی اور یقین کو پختگی بھی عطا کرتی ہے۔
ليکن یہی انسان اگر ایمان کے نور اور عقلی شعور سے کام نہ لے، خواہشِ نفس کے غلبہ میں آجائے اور اپنے جہل کا اعتراف نہ کرے تو وہ علّت و معلول اور اسباب و نتائج کی لمبی کڑی میں گم ہوکر ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے،اپنے مشاہدات اور اخذ کی ہوئی باتوں پر بھروسہ کرلیتا ہے، وہ کائنات کے وجود اور تصرفات کو انہی علل و اسباب کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور ان اسباب کے خالق کو اور اس ہستی کو بھول جاتا ہے جس نے اُسے اور اس پورے جہاں کو عدم سے وجود بخشا۔ وہ ان غیبی حقائق کو جھٹلا دیتا ہے جن کا اسے علم نہیں، اور صرف انہی مشہود حقیقتوں پر ایمان لاتا ہے جو اس کے تجربہ میں آچکی ہیں، حالانکہ اگر ایک صدی یا دو صدی پہلے کوئی شخص اُسے یہی حقائق بتاتا تو وہ انکار کردیتا اور جھٹلادیتا۔ حقیقت میں یہ انسان کتنا جاہل اور کتنا ناشکرا ہے! :
﴿قُتِلَ الإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ، فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ﴾ [عبس: 17-22]
خدا تعالیٰ فرماتا ہے: لعنت ہے انسان پر! وہ کتنا ناشکرا ہے! اس [کے رب] نے اسے کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفہ سے اس کو پیدا کیا اور اس کا تناسب بنایا۔ پھر اس کے لیے [دنیا میں آنے کا] راستہ آسان کر دیا۔ پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا، پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔“
حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی محتاج ہے، اُسے اُس ذات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے جو کائنات اور اسباب کا خالق ہے۔ وہ گمراہ ہے، جسے راہ دکھانے والے کی حاجت ہے۔ وہ پیاسا ہے، جسے آسمانی سیرابی درکار ہے۔ وہ اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، جسے نبوت و ہدایت کی روشنی کی ضرورت ہے۔ وہ مردہ ہے، جسے وحی کی روح درکار ہے۔
یہی قرآنِ پاک کے سائنسی معجزہ (اعجازِ علمی) کا مقصد ہے، کہ وہ انسان کو اس کے خالق سے جوڑ دے، اور اُس فکری بگاڑ کا مقابلہ کرے جو سب سے بڑی خرابی ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ایک مسلمان اسے دعوتِ حق کے لیے استعمال کرے، لوگوں کو اللہ اور اُس کے دینِ حق کی طرف بلائے، خشک دلوں میں ایمان کے بیج بوئے اور مُردہ روحوں میں حیات بخش آبشاریں رواں کرے۔
انسانوں کو انبیاء اور معجزات کی حاجت وضرورت:
انسان خواہ کتنا ہی عقل مند کیوں نہ ہو، اس کی عقل محدود ہے، اس کی نگاہ قاصر ہے، اور اس کا علم ناقص اور ادھورا ہے۔ اس لئے وہ اپنی سوجھ بوجھ کے بل پر ایسی کامل راہِ حیات نہیں ڈھونڈ سکتا جو رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہو، وہ خود ہدایت اور رب چاہی زندگی گزارنے کا وہ کامل طریقہ نہیں پاسکتا جس میں کامیابی مضمر ہے، اور جس سے اس کی انفرادي واجتماعی، جسمانی وروحانی، دنیاوی واخروی زندگی سنور جائے اور اس کی نجات و سعادتِ ابدی یقینی ہو جائے۔
اسی لیے انس وجن کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے پاس ایک رسول بھیجے، جو اپنی زبان سے انہیں اللہ کا پیغام سنائے، بتائے کہ اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے، ان کے لیے کس طرزِ حیات کو پسند کرتا ہے، اور ایمان، عبادات، معاملات اور نظامِ حیات کے کون سے اصول ان کے لیے ہدایت اور فلاح کے ضامن ہیں۔
اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا﴾ (النحل: 36)
پس جو ایمان لائے اور رسول کی پیروی کی وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے، اور جنہوں نے انکار کیا ان پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (الإسراء: 15)، اور فرمایا: ﴿رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء: 165)
لیکن ایک طرف انسان کی سرشت میں عناد و تکبر ہے، تو دوسری طرف بعض جھوٹے مدعیِ نبوت بھی اٹھتے رہے ہیں؛اس لیے حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ اپنے سچے انبیاء کو ایسے معجزات عطا کرے جو انسانی طاقت سے ماورا ہوں،تاکہ یہ روشن دلیل بن جائیں کہ یہ نبی سچا ہے، اس کا دعویٰ جھوٹ نہیں بلکہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ومؤیَّد ہے۔ یوں سچّا نبی جھوٹے مدعی سے الگ پہچانا جائے۔
معجزات کا قوم کے حالات اور مہارت کے موافق ہونا
پھر اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو ایسا معجزہ عطا کیا جو ان کی قوم کے فن اور مہارت کے عین مطابق ہو، تاکہ وہ آسانی سے اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں کہ یہ کسی بشر کا کرشمہ نہیں بلکہ رب کی قدرت کا نشان ہے، اس طرح معجزہ کا اثر ان کے دلوں کو زیادہ گہرائی سے چھو سکے:
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم جادوگری میں یدِ طولیٰ رکھتی تھی، تو ان کا معجزہ عصا تھا، جو ان کے جادو کے سارے کرشمے نگل گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماہر جادوگر بھی سجدے میں گر گئے اور مان گئے کہ یہ انسانی کمال نہیں بلکہ خدائی نشان ہے۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم طب اور علاج کے فن میں مشہور تھی، تو اللہ نے انہیں ایسے معجزات عطا کیے جو تمام اطباء کے فہم سے بالاتر تھے: پیدائشی اندھوں کو بینا کر دینا، کوڑھیوں کو شفا دینا، اور مردوں کو زندہ کرنا؛ یہ سب اللہ کے حکم سے۔
یوں ہر نبی کے معجزات قوم کے فن کے عین مطابق تھے، وہ درخشاں نشانیاں تھیں جن میں نہ کوئی ابہام رہا نہ دھندلاہٹ، بلکہ ایسی روشن حقیقتیں جو ہر منصف مزاج کو جھکا دیتی تھیں۔ تاکہ ان پر حجت پوری ہو اور حق کھل کر سامنے آجائے۔
معجزات کی حقیقت: انبیاء کے معجزات محض حیران کن مظاہر نہیں تھے بلکہ نبوت کی صداقت کی روشن دلیلیں تھیں۔ یہ نشانیاں ایسی واضح اور بے غبار تھیں کہ سچائی کے متلاشی ان کے سامنے بے ساختہ جھک جاتے۔ جادوگر موسیٰؑ کے سامنے سجدے میں گر گئے، فصحائے عرب قرآن کی فصاحت کے آگے سرِتسلیم خم کر گئے، اور آج کے سائنسدان قرآن کے بیان کردہ حقائق پر جھکنے پر مجبور ہو گئے۔
یوں معجزہ ہر دور میں نبی کی سچائی کی وہ بجلی ہے جو دلوں کے اندھیروں کو چیر کر روشنی پھیلا دیتی ہے۔
سابقہ انبیاء کے معجزات اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں فرق:
نبی اکرم ﷺ کو بھی، سابقہ انبیاء علیہم السلام کی طرح، بے شمار معجزاتِ حسی عطا ہوئے: جیسے چاند کا شق ہونا، آپ کی مبارک انگلیوں سے پانی کا چشمے کی طرح بہنا، کنکریوں کا تسبیح کرنا، کھجور کے تنے کا آپ کے فراق میں سسکنا، اور اس طرح کے سیکڑوں معجزات۔ مگر چونکہ آپ ﷺ کی رسالت سابقہ رسالتوں کے برعکس عالمگیر اور خاتم تھی، اس لیے مناسب تھا کہ آپ کو ایسا معجزہ عطا ہو جو اس شانِ رسالت کے لائق ہو۔
-
عالمگیر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے، خواہ عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وما أرسلناك إلا كافة للناس بشيراً ونذيراً﴾ [سبأ: 28]
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ہرنبی کو اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا، اور مجھے تمام انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘(بخاری: 335، مسلم: 521)
-
اور خاتم ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت قیامت تک باقی ہے، اور آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ارشادِ باری ہے: