سیدنا الامام محمد بن ادریس الشافعیؒ
اور ان کی کتاب ’’الرسالۃ‘‘
مولاناعتیق احمد بستوی
استاذحدیث وفقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء
امام شافعی تاریخ اسلام کی چند مشہور ترین شخصیتوں میں سے ہیں، تمام علوم اسلامیہ میں انہوں نے زندہ جاوید اور تابندہ نقوش چھوڑے، مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہر دور میں ان کے فقہی مسلک کی پیرو رہی، ان کی تقلید نہ کرنے والے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے اجتہادات وآراء کو بڑا وزن دیتے ہیں، ذیل کی سطروں میں ان کی حیات و خدمات کا مختصر تعارف کرایا جاتا ہے، اس کے بعد علم اصول فقہ کے میدان میں ان کے کام اور مقام پر کچھ تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
نام و نسب اور ابتدائی حالات
امام شافعی کا نام محمد، والد کا نام ادریس ہے، سلسلۂ نسب اس طرح ہے: محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبدمناف، دسویں پشت (عبد مناف) میں ان کا سلسلۂ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے، عبدمناف کے چار لڑکے تھے: (۱)مطلب (۲)ہاشم (۳)عبدشمس (۴)نوفل، اس سلسلۂ نسب کے اعتبار سے امام شافعی قریشی اور مطلبی ہیں۔
امام شافعی کے پردادا کے باپ کا نام شافع ہے، اسی نسبت سے انہیں شافعی کہا جاتا ہے، اس نسبت سے انہیں اس قدر شہرت ملی کہ اصل نام پس منظر میں چلا گیا، بعض تذکرہ نگاروں نے امام شافعی کے قریشی النسب ہونے کا انکار کیا ہے، ان کے نزدیک امام شافعی کے جد ثالث شافع، ابولہب کے آزاد کردہ غلام تھے، اس لئے وہ نسباً قریشی نہیں بلکہ ولائً قریشی تھے، لیکن مشہور روایات کے اعتبار سے امام موصوف نسباً قریشی اور مطلبی ہیں۔
۱۵۰ھ میں امام ابوحنیفہؒ کی وفات ہوئی، یہی امام شافعی کا سن ولادت ہے، بلکہ بعض تذکرہ نگاروں کے بیان کے مطابق جس رات میں امام ابوحنیفہؒ کی وفات ہوئی اسی رات امام شافعیؒ کی پیدائش ہوئی۔
ان کی جائے پیدائش کے بارے میں تین روایتیں ہیں، اکثر راویوں کے بیان کے مطابق ان کی پیدائش ملک شام کے مقام ’’غزۃ‘‘ میں ہوئی، دوسری روایت میں ان کی جائے پیدائش عسقلان ہے، جو ’’غزۃ‘‘ سے تین فرسخ کی مسافت پر واقع ہے، یہ دونوں مقامات شام میں واقع ہیں، تیسری روایت کے مطابق ان کی پیدائش یمن میں ہوئی، ان میں سے پہلی روایت راجح ہے۔
راجح روایت کے اعتبار سے ان کی والدہ قبیلۂ ازد کی خاتون تھیں، امام شافعی کے مشہور تذکرہ نگار امام فخرالدین رازیؒ نے ان کی والدہ کے قریشی ہونے کو شاذ روایت اور مخالف اجماع قرار دیا ہے۔
امام شافعی کی پیدائش ایک عالی نسب لیکن غریب گھرانے میں ہوئی، ان کے والد کا ان کی کمسنی میں انتقال ہوگیا، ان کی والدہ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں شام میں دوسرے قبائل کے درمیان بود و باش اور رہائش سے بچے کی نسل اور نسبی خصوصیات ضائع نہ ہوجائے، اس لئے وہ امام شافعی کو بچپن ہی میں لے کر مکہ مکرمہ آگئیں ،تاکہ قریش کے درمیان رہائش سے نسلی خصوصیات میں ترقی ہو۔
تعلیم و تربیت
امام شافعی کو اللہ تعالیٰ نے خارق عادت ذہانت اور حافظہ سے مالامال کیا۔ انہوں نے بہت مختصر مدت میں قرآن کریم حفظ کرلیا، اس کے بعد محدثین کی خدمت میں حاضر ہوکر احادیث کی تحصیل میں مشغول ہوگئے، چند برسوں میں انہوں نے احادیث نبویہ کا بڑا ذخیرہ یاد کرلیا۔ امام شافعیؒ نے عربی زبان و ادب میں کمال پیدا کرنا چاہا تو چند سال قبیلہ ’’ہذیل‘‘ میں گزارنے کا فیصلہ کیا، اس وقت عالم اسلام کا رقبہ وسیع ہوچکا تھا، مختلف عجمی قومیں اسلام قبول کرچکی تھیں، بلاد اسلامیہ میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی، عجمیوں کے اختلاط سے عربی زبان میں بگاڑ پید اہوگیا تھا، بہت سے غیر عربی الفاظ و اسالیب عربی زبان میں داخل ہورہے تھے، خصوصًا شہر میں رہنے والے عربوں کی زبان عجمی الفاظ و اسالیب اور عجمی خیالات و تعبیرات سے زیادہ متاثر ہورہی تھی، اس تاثیر و تاثر سے عرب کے وہی قبائل محفوظ تھے جو شہروں کی رونقوں اور ہنگاموں سے دور، عرب کے ریگستانوں اور صحرائوں میں زندگی گذار رہے تھے۔
اس سلسلے میں قبیلۂ ہذیل بہت ممتاز تھا، اس کی بود و باش قدیم عرب قبائل کے طرز پر تھی، اس لئے ان میں عربی خصوصیات پورے طور پر باقی تھیں۔ زبان کی فصاحت و بلاغت میں یہ قبیلہ بہت ممتاز تھا، امام شافعی نے عربی زبان و ادب میں کمال پیدا کرنے اور عربی خصوصیات حاصل کرنے کے لئے چند سال قبیلۂ ہذیل میں گذارے، ابن کثیر کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے بادیہ میں دس سال گذارے، اس طویل مدت میں ہذیل کی زبان سیکھتے، ان کے اشعار و اخبار یاد کرتے، عربوں کی عادات و روایات سیکھتے۔ انہوں نے زبان وادب کے علاوہ تیراندازی میں بڑی مہارت پیدا کرلی، دس سال کے بعد جب مکہ واپس ہوئے تو قبیلۂ ہذیل کے اشعار و اخبار اوراسالیب کے سب سے بڑے ماہر تھے، اصمعی جیسے امام ادب ولغت نے ان سے ہذیل کے اشعار کی تصحیح کی۔
امام شافعی نے مکہ کے فقہاء اور محدثین سے تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھا، مکہ مکرمہ اس وقت ایک اہم علمی مرکز تھا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ صحابہ کرام میں خصوصی مقام رکھتے تھے، کم عمری کے باوجود علمی فضل و کمال کی وجہ سے اکابر صحابہ میں ان کا شمار تھا، تفسیر قرآن میں خصوصی امتیاز کی وجہ سے انہیں ’’ترجمان القرآن‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، احادیث نبویہ پر ان کی وسیع نظر تھی، تفقہ و اجتہاد میں ان کا مقام معروف تھا، عربی زبان و ادب کے ماہر اور اداشناس تھے، حضرت ابن عباس کی مسند درس مکہ مکرمہ میں بچھی ہوئی تھی، امام شافعی کے دور طالب علمی میں حضرت ابن عباسؓ کے شاگردوں کے شاگرد مکہ مکرمہ کی علمی مجلسوں کی رونق تھے، امام شافعی نے ان حضرات سے مختلف علوم سیکھے، ان میں کمال پیدا کیا، امام شافعی کے مکی شیوخ میں سے چند یہ ہیں: (۱)سفیان بن عیینہ (۲)مسلم بن خالد زنجی (۳)سعید بن سالم القداح (۴)دائود بن عبدالرحمن العطار (۵)عبدالحمید بن عبدالعزیز۔
شیوخ مکہ سے امام شافعی علم حاصل کرکے، حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ میں اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے استاذ مسلم بن خالد زنجی نے انہیں فتویٰ دینے کی اجازت دے دی، لیکن امام شافعی کی اولوالعزمی اور ہمت مردانہ نے اتنے علم پر قناعت کو مناسب نہیں سمجھا، اس وقت پورے عالم اسلام میں عالم مدینہ امام مالک کے علم و فضل اور ان کی تصنیف مؤطا کا شہرہ تھا، امام شافعی نے مدینہ منورہ جاکر امام مالک کی شاگردی اختیار کرنے کا ارادہ کیا، لیکن مدینہ منورہ جانے سے قبل مؤطا امام مالک حاصل کرکے اس کا مطالعہ کیا اور اس کی روایتیں یاد کیں۔
امام مالک نے پہلی ہی ملاقات میں امام شافعی کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا، ان کے تابناک مستقل کی پیشین گوئی کی، قیمتی نصیحتیں کیں، امام مالک کی خصوصی توجہات اور عنایات سے امام شافعی نے بہت مختصر مدت میں ان سے مؤطا پڑھ لی، اس کے بعد ۱۷۹ھ تک امام مالک کی خدمت میں رہ کر اجتہاد و تفقہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ ۱۷۹ھ میں امام مالک کا انتقال ہوگیا جب کہ امام شافعی کی عمر ۱۹؍سال ہوچکی تھی، مدینہ منورہ کے زمانۂ قیام میں انہوں نے امام مالک کے علاوہ درج ذیل شیوخ سے بھی علم حاصل کیا: (۱)ابراہیم بن سعد انصاری (۲)عبدالعزیز بن محمد داردردی (۳)ابراہیم بن ابی یحییٰ (۴)محمد بن ابی سعید ابن ابی فدیک (۵)عبداللہ بن نافع الصائغ۔
سرکاری ملازمت اور بغداد آمد
امام مالکؒ کی وفات کے بعد امام شافعیؒ نے اپنی معاشی مجبوریوں سے سرکاری ملازمت کی راہ اپنائی، یمن میں ان کا تقرر ہوا، انہوں نے اپنی ولایت میں عدل وانصاف قائم کیا، ظالموں کا ہاتھ پکڑا، مظلوموں کی دستگیری کی، ان کے کچھ مخالفین پیدا ہوگئے، انہوں نے سازش کرکے خلیفہ ہارون روشید کے دربار میں شکایت بھیجی کہ کچھ علوی آپ کے خلاف سازشیں کررہے ہیں، محمد بن ادریس شافعی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔
ہارون رشید نے نوعلویوں کو جن کے خلاف شکایت تھی اور امام شافعی کو دارالخلافۃ بغداد طلب کرلیا، علویوں کو بغاوت کے شبہ میں قتل کردیا گیا، امام شافعی اپنی قوت استدلال اور امام محمدؒ کی سفارش سے رہائی پاگئے۔ یہ واقعہ ۱۸۴ھ میں پیش آیا۔ امام شافعی کی بغداد آمد ملزم کی حیثیت سے ہوئی تھی لیکن یہی آمد امام محمد بن الحسن شیبانی سے تلمذ و استفادہ کا ذریعہ ثابت ہوئی، امام شافعی کی بغداد آمد سے پہلے ہی امام ابویوسف کا انتقال ہوچکا تھا، امام محمد ان کی جگہ پر قاضی القضاۃ مقرر ہوئے تھے، عراق کے فقہی دبستان کے سرخیل بھی وہی تھے۔
امام محمد سے تلمذ
امام شافعی نے دارالخلافت بغداد کی حاضری کو غنیمت سمجھتے ہوئے بغداد کے مشائخ اور علماء سے کسب فیض کیا، انہوں نے خاص طور سے امام محمد بن الحسن سے بہت زیادہ استفادہ کیا، امام محمدؒ نے بھی ان کے ساتھ خصوصی توجہ و عنایت کا معاملہ فرمایا، اسی لئے امام محمد کے علم و فضل، اخلاق و مروت اور معلمانہ جانفشانی کے بارے میں امام شافعی سے بلند الفاظ کثرت سے منقول ہیں۔
حرم مکی میں درس و تدریس
بغداد میں امام محمد اور وہاں کے دوسرے محدثین و فقہاء سے تحصیل علم کے بعد امام شافعی مکہ مکرمہ تشریف لائے اور حرم مکی میں ان کا درس ہونے لگا، بہت جلد امام شافعی کے حلقۂ درس کی غیرمعمولی شہرت ہوگئی، دوردراز سے راویان حدیث اور طالبان تفقہ واجتہاد ان کے حلقۂ درس میں شرکت کرنے لگے۔
انہوں نے ایک نئے دبستان فقہ و اجتہاد کی بنیاد ڈالی جس میں مختلف فقہی دبستانوں کی خصوصیات اور خوبیاں سمٹ آئیں۔ اللہ نے انہیں عالم اسلام کے مختلف فقہی دبستانوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور ان کا موازنہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا، مدینہ اور عراق کے اجتہادی مکاتب فکر کے علاوہ انہوں نے امام اوزاعیؒ کے شاگرد عمر بن ابی سلمہ سے فقیہ شام امام اوزاعی کے اجتہادات وآراء کی واقفیت بہم پہنچائی، اور فقیہ مصر لیث بن سعد کے فقہی مسلک کا مطالعہ ان کے شاگرد یحییٰ بن حسان کی مدد سے کیا۔
امام شافعی نے مختلف فقہی دبستانوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنی خداداد ذہانت، عبقریت، طباعی اور نکتہ رسی کے ذریعہ ایک نیا فقہی دبستان ترتیب دیا، نصوص کتاب و سنت سے استنباط مسائل کے اصول و آداب مقرر کئے، خبر واحد کی حجیت اور شرائط صحت پر فیصلہ کن گفتگو کی، اجماع اور قیاس پر اصولی بحثیں کیں۔
دوبارہ بغداد تشریف آوری
مکہ مکرمہ میں تقریباً نو سال درس دینے کے بعد امام شافعی دوبارہ بغداد ۱۹۵ھ میں تشریف لائے، اس وقت ان کی مجتہدانہ شہرت پورے عالم اسلام میں پہنچ چکی تھی، ان کی طرف محدثین، فقہاء اور طالبان علوم کا بے پناہ رجوع ہوا، حضرت عبدالرحمن بن مہدی کی فرمائش پر انہوں نے کتاب ’’الرسالۃ‘‘ تصنیف کی جو اصول فقہ کی سب سے پہلی تصنیف قرار دی جاتی ہے، امام رازی کے بیان کے مطابق مصر جانے کے بعد انہوں نے الرسالۃ کی تصنیف دوبارہ کی، بغداد میں دو سال قیام فرمانے کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئے۔ ۱۹۸ھ میں تیسری بار بغداد تشریف لائے لیکن چند ہی ماہ بغداد میں قیام کرنے کے بعد مصر کا سفر اختیار کیا، ۱۹۹ھ میں مصر پہنچے، اس کے بعد وفات تک مصر ہی میں قیام فرمایا، رجب ۲۰۴ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا، اور ۵۴ سال کی عمر میں پیوند خاک ہوگئے۔
مستقل فقہی مذہب کی تشکیل
امام شافعی نے اپنے مستقل فقہی مذہب کی تشکیل اس وقت شروع کی، جب ۱۹۵ھ میں دوبارہ بغداد تشریف لائے، بغداد میں ان کا مستقل فقہی دبستان وجود میں آیا، ان کے بغدادی تلامذہ نے ان کے اجتہادات و آراء کی اشاعت کی، ۱۹۹ھ میں مصر تشریف لے جانے کے بعد انہوں نے اپنی فقہی آراء پر نظر ثانی کی، بہت سے مسائل میں ان کی تحقیق اور رائے تبدیل ہوگئی، فقہ شافعی میں امام شافعی کی دور بغداد کی آراء و اجتہادات، مذہب قدیم کے نام سے، اور دور مصر کے اجتہادات، مذہب جدید کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
امام شافعی کے تلامذہ اور تصنیفات
امام شافعی کے نامور ترین شاگردوںمیں امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ کے نام آتے ہیں، لیکن ان دونوں حضرات کا مستقل فقہی دبستان وجود میں آیا، امام شافعی کے نامور تلامذہ کو ہم تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
(۱) مکی دور کے تلامذہ: امام شافعی نے بغداد میں پہلی مرتبہ قیام کے بعد مکہ مکرمہ تشریف لاکر تقریباً ۹ سال حرم مکی میں درس دیا، امام شافعی کے اس دور کے تلامذہ میں ابوبکر حمیدی (متوفی ۲۱۹ھ)، ابواسحاق ابراہیم بن محمد مطلبی (متوفی ۲۳۷ھ)، ابوبکر محمد بن ادریس، ابوالولید موسیٰ ابن ابی الجارود وغیرہ کے نام آتے ہیں۔
(۲) بغدادی دور کے تلامذہ: امام شافعی کے دوبارہ بغداد تشریف لانے کے بعد مصر تشریف لے جانے سے پہلے ان سے جن حضرات نے استفادہ کیا ان میں سے چند نمایاں نام یہ ہیں: ابوعلی الحسن الصباح الزعفرانی (متوفی ۲۶۰ھ)، ابوعلی حسین بن علی کرابیسی (متوفی ۲۵۶ھ)، ابوثور کلبی (متوفی ۲۴۰ھ)، ابوعبدالرحمن احمد بن محمد بن یحییٰ اشعری۔
(۳) مصری دور کے تلامذہ: امام شافعی کی زندگی کا آخری دور مصر میں گذرا، قیام مصر کے دوران ان سے استفادہ کرنے والے چند نامور تلامذہ کے نام یہ ہیں:
حرملہ بن یحییٰ بن حرملہ(متوفی ۲۶۶ھ)، ابویعقوب یوسف بن یحییٰ بویطی (متوفی ۲۳۱ھ)، ابوابراہیم اسماعیل بن یحییٰ مزنی (متوفی ۲۶۴ھ)، محمد بن عبداللہ بن عبدالحکیم (متوفی ۲۵۸ھ)، ربیع بن سلیمان بن عبدالجبار بن کامل مرادی (متوفی ۲۷۰ھ)۔
تصنیفات
امام شافعی کی تصنیفات میں کتاب ’’الرسالۃ‘‘ اصول فقہ کے بنیادی مباحث پر مشتمل ہے، امام شافعی نے عراق کے زمانۂ قیام میں فقہ و فروع پر جو کتابیں تصنیف کیں ان کا مجموعہ ’’الحجۃ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی روایت زعفرانی اور کرابیسی نے کی، زعفرانی نے امام شافعی سے جن کتابوں کی روایت کی ان کے مجموعہ کو ابن ندیم نے ’’المبسوط‘‘ کے نام سے ذکر کیا، اس لئے بعض تذکرہ نگاروں کی رائے میں ’’الحجۃ‘‘ اور ’’المبسوط‘‘ ایک ہی کتاب کے دو نام ہیں، اسی مجموعۂ کتب میں امام شافعی نے مصر پہنچنے کے بعد کچھ تبدیلیاں اور حذف و اضافے کئے، اس کے بعد یہی کتاب ’’کتاب الام‘‘ کے نام سے معروف ہوئی، ’’کتاب الأم‘‘ ایک کتاب نہیں بلکہ امام شافعی کی اکثر تالیفات کا مجموعہ ہے، علامہ سیوطی نے زمانۂ مصر کی تصنیفات میں ’’کتاب الأم‘‘ کے علاوہ ’’الامالی الکبریٰ‘‘، ’’الاملاء الصغیر‘‘ کا نام لیا ہے، ابوالحسین آبری کی روایت کے مطابق امام شافعی کی ایک تصنیف ’’کتاب السنن‘‘ بھی ہے، ان کی تصنیفات میں ’’احکام القرآن‘‘ اور ’’اختلاف الحدیث‘‘ وغیرہ بھی ہیں، امام صاحب کی بیشتر تصنیفات ’’کتاب الأم‘‘ میں شامل ہیں جو بار بار شائع ہوچکی ہے۔
امام شافعی کی کتاب ’’الرسالۃ‘‘
الرسالۃ امام شافعی کی مشہور ترین کتاب ہے، بہت سے تذکرہ نگاروں نے الرسالۃ کو اصول فقہ کی سب سے پہلی تصنیف قرار دیا ہے، لیکن یہ بات محل نظر ہے، کیوںکہ کتب طبقات و تراجم میں اصول فقہ پر امام ابویوسف اور امام محمد کی بعض کتابوں کا ذکر آتا ہے، اس لئے یہ بات قطعیت کے ساتھ تو نہیں کہی جاسکتی کہ الرسالۃ اصول فقہ کی سب سے پہلی کتاب ہے، لیکن یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ اسلامیات کے دستیاب لٹریچر میں الرسالۃ اصول فقہ پر اولین کتاب ہے۔
الرسالۃ حضرت عبدالرحمن بن مہدی (متوفی جمادیٰ الآخرۃ۱۹۸ ھ) کی فرمائش پر لکھی گئی، امام شافعیؒ کے متعدد تذکرہ نگاروں نے یہ بات لکھی ہے کہ عبدالرحمن بن مہدی نے امام شافعی کو ایک خط میں لکھا کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کریں جس میں معانی قرآن کا بیان ہو، احادیث کے قبول ہونے کی شرطیں ہوں، اجماع کی حجیت کا بیان ہو، قرآن و سنت کے ناسخ و منسوخ کی وضاحت ہو۔ حضرت عبدالرحمن بن مہدی کی اس فرمائش پر علی بن مدینی کی مزید تحریک سے امام شافعی نے اصولی مباحث پر مشتمل یہ کتاب تصنیف کی۔
امام شافعی نے ’’الرسالۃ‘‘ کی تصنیف دو بار کی، یا یہ کہئے کہ ایک بار اس کتاب کی تصنیف مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اس پر نظرثانی کی اور اس میں خاصا حک و فک کیا، تذکرہ نگاروں کا اس بات پر تواتفاق ہے کہ الرسالۃ پر آخری نظر ثانی اور حذف و اضافہ کا کام مصر کے زمانۂ قیام میں انجام دیا گیا، اس اصلاح شدہ نسخہ کو ’’الرسالۃ الجدیدۃ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور الرسالۃ کا یہی نسخہ دستیاب ہے، لیکن الرسالۃ کی پہلی تصنیف و تدوین مکہ مکرمہ میں انجام پائی یا بغداد میں اس کے بارے میں تذکرہ نگاروں کی رائیں مختلف ہیں۔
الرسالۃ اصول فقہ کی اولین کتاب ہے، یا زیادہ محتاط الفاظ میں اصول فقہ کی اولین کتابوں میں سے ہے، اس لئے اس میں اصول فقہ کے تمام مسائل و مباحث کا احتواء نہیں کیا جاسکا ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ اصول فقہ کے بہت سے بنیادی مباحث اس کتاب میں بڑی وضاحت سے آگئے ہیں، اسی طرح یہ کتاب اصول حدیث کے بڑے قیمتی مباحث پر بھی مشتمل ہے، اس لئے الرسالۃ کو علم اصول حدیث کا بھی خشت اول کہہ سکتے ہیں۔
الرسالۃ کے بارے میں یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس میں خیالات اور مضامین امام شافعی کے ہیں، لیکن ان خیالات و مضامین کو الفاظ کا جامہ ان کے کسی شاگرد نے پہنایا ہے۔ الرسالۃ کو امام شافعی کی تصنیف قرار دیا جائے یا امالی، بہرحال اس میں معانی اور الفاظ دونوں امام شافعی کے ہیں، اس لئے ادب و بلاغت کے اعتبار سے اس کتاب کی بڑی قدر و قیمت ہے، امام شافعی کی لغت و ادب میں امامت کبار ائمۂ لغت و ادب نے بھی تسلیم کی ہے، اصمعی، ثعلب، جاحظ، ابن ہشام ان کی ادبی عظمت کے بیان میں رطب اللسان ہیں، اس لئے الرسالۃ عربی کے قدیم ترین نثری ادب کا عظیم تر شاہکار ہے۔
الرسالۃ اسلامیات کے ذخیرہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب نے اصولی مباحث پر بحث و مناقشہ اور تصنیف و تالیف کے رجحان کو پروان چڑھایا، بہت سے چوٹی کے علماء نے الرسالۃ کی شرح لکھی، بعض اہل تحقیق نے اس کتاب کے مباحث و مسائل پر تنقیدی اور تجزیاتی نظر ڈالی اور مختلف اصولی مباحث میں اپنا اختلافی نقطۂ نظر اجاگر کیا، الرسالہ کے مشہور شارحین میں امام ابوبکر محمد بن عبداللہ صیوفی (متوفی ۳۳۰ھ)، امام ابوالولید نیساپوری (متوفی ۳۴۹ھ)،قفال کبیر شاشی محمد بن علی بن اسماعیل (متوفی ۳۶۵ھ)، امام ابوبکر جوزقی نیشاپوری (متوفی ۳۸۸ھ)، امام ابومحمد جوینی (متوفی ۴۳۸ھ) کے نام آتے ہیں۔
الرسالۃ کے ایڈیشن
الرسالۃ کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، ہمارے پیش نظر الرسالۃ کا وہ شاندار ایڈیشن ہے جو شیخ احمد محمد شاکر کی تحقیق و شرح کے ساتھ شائع ہوا ہے، الرسالہ کے زیرنظر ایڈیشن کا تعارف کرانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قدیم اشاعتوں کا مختصراً تذکرہ کردیا جائے۔
(۱) الرسالۃ کا سب سے پہلا ایڈیشن ۱۳۱۲ھ میں یوسف صالح محمد الجزمادی کی تصحیح کے ساتھ المطبعۃ العلمیۃ مصر سے شائع ہوا۔
(۲) دوسرا ایڈیشن ۱۳۱۵ھ میں المطبعۃ الشرقیہ مصر سے شائع ہوا۔
(۳) تیسرا ایڈیشن ۱۳۲۱ھ میں مطبعۃ بولاق مصر سے شائع ہوا۔
شیخ محموداحمد شاکر کے بیان کے مطابق یہ تینوں ایڈیشن اغلاط سے پُر تھے، اس لئے الرسالۃ کے ایک مصحح اور محقق ایڈیشن کی ضرورت محسوس ہوئی۔
شیخ احمد محمد شاکر نے اپنی تحقیق و تصحیح میں مذکورہ بالا تینوں اشاعتوں کو پیش نظر رکھا ہے، اور ان کے اغلاط کی نشاندہی کی ہے، شیخ کی تحقیق و تصحیح کی اصل بنیادالرسالۃ کے دو مخطوطات پر ہے، ان میں سے ایک مخطوطہ امام شافعی کے مشہور شاگرد اور ان کی کتابوں کے راوی ربیع بن سلیمان کے قلم سے ہے۔
تحقیق متن کی صحت و استناد کے لئے شیخ احمد محمد شاکر کا نام کافی ہے، انہوں نے بڑی عرق ریزی اور جگر کاوی سے الرسالۃ کا یہ محقق نسخہ تیار کیا ہے، جابجا قیمتی شرح و تعلیق سے کتاب سے استفادہ آسان بنا دیا ہے، اور اس کی افادیت دوچند کردی ہے، پوری کتاب کی پیراگرافنگ کردینے کی وجہ سے قارئین کے لئے فہم کتاب میں بڑی سہولت ہوگئی ہے۔
الرسالۃ کے مضامین کا تعارف
اصل کتاب سے پہلے محقق کے قلم سے امام شافعی اور ان کی کتاب الرسالۃ کے بارے میں فاضلانہ مقدمہ ہے، اور دونوں مخطوطات کا تفصیلی تعارف ہے۔
امام شافعیؒ اور ان کی کتاب الرسالۃ کا تعارف گیارہ صفحات (۵ تا ۱۵) میں کرایا گیا ہے، اس ضمن میں ڈاکٹر زکی مبارک کے اس دعویٰ کی پرزور تردید کی گئی ہے کہ کتاب الام امام شافعی کی تصنیف نہیں ہے (ص۹ تا ۱۰)۔
الرسالۃ کے جن دو مخطوطات کو بنیاد بناکر تحقیق کا کام انجام دیا گیا وہ دونوں دارالکتب المصریۃ کی ملکیت ہیں، ان دونوں نسخوں کا مفصل تعارف کرایا گیا ہے (ص۱۷ تا ۲۹)۔ ربیع بن سلیمان (تلمیذ امام شافعی) کے تحریر کردہ نسخہ کے ساتھ بہت سے مشاہیر محدثین و فقہاء کے سماعات اور توقیعات ہیں، اسی طرح نسخہ ابن جماع میں بھی چند سماعات ہیں، ان سب کو محقق نے پوری تحقیق اور احتیاط سے نقل کردیا ہے (ص۳۰ تا ۸۴) سماعات میں جن حضرات کے نام آئے ہیں، ان کے ناموں کی فہرست آٹھ صفحات (ص۸۵ تا ۹۲) میں ہے، اس کے بعد بارہ صفحات میں مخطوطات کے مختلف اوراق کے فوٹو ہیں۔
مقدمہ اور تعارف مخطوطات وغیرہ کے بعد اصل کتاب شروع ہوئی ہے۔ کتاب کے صفحات کی نمبرنگ علیحدہ سے کی گئی ہے، مقدمہ وغیرہ کو اس میں شامل نہیں کیا گیاہے، ٹائٹل وغیرہ کے بعد صفحہ (۷) سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے۔ امام شافعی نے حمد و صلوٰۃ کے دوران بعثت محمدی کے وقت پائے جانے والے دو انسانی طبقوں (اہل کتاب اور مشرکین) کا ذکر کیا ہے (ص۸ تا ۱۶)۔
اس کے بعد امام شافعیؒ نے قرآن کریم کے مرتبہ اور مقام کا بیان کیا ہے (ص۱۷ تا ۲۰)۔ ان ابتدائی مباحث کے بعد امام شافعی نے بیان قرآنی کے بارے میں ایک باب قائم کیا ہے اور بیان کے مختلف اقسام پر مثالوںکے ساتھ روشنی ڈالی ہے (ص ۲۱ تا ۵۳)، بیان کی حقیقت اور اقسام پر امام شافعی کی یہ بحث عربی لغت و ادب کے طلبہ کے لئے بھی بڑی فکرانگیز ہے، اس ضمن میں امام شافعیؒ نے اس نقطۂ نظر کی بھی مفصل تردید کی ہے کہ قرآن کریم میں کچھ عجمی الفاظ بھی ہیں (ص۴۱ تا ۴۸)، اس کے بعد چند ابواب بیان قرآنی اور قرآن کے مختلف اسالیب بیان کے بارے میں ہیں (ص۵۳ تا ۷۲)۔
اس کے بعد امام شافعی نے سنت رسول کی حجیت اور دین میں اس کے مقام پر مبسوط کلام کیا ہے، اس ضمن میں یہ ابواب قائم کئے ہیں (۱)اس بات کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے نبیؐ کے طریقے کی اتباع لازم قرار دی ہے (ص۷۳ تا ۷۹)، (۲)اس بات کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کی فرضیت بیان کرنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی فرضیت بھی بیان کی ہے اور علیحدہ بھی اطاعت رسول کی فرضیت بیان فرمائی ہے (ص۷۹ تا ۸۲)، (۳)اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطاعت رسول کا حکم (ص۸۲ تا ۸۵)، (۴)اس بات کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات پر واضح فرمایا ہے کہ خود رسول کے لئے وحی الٰہی کی اتباع ضروری ہے، اور اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ نبی اکرمؐ احکام الٰہی کے پابند ہیں (۸۵ تا ۱۰۵)۔ اس باب میں امام شافعیؒ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ احادیث رسول کا ایک حصہ اگر قرآنی احکام کی تفصیل وتشریح کرتا ہے تو دوسرا حصہ ایسے احکام اور تعلیمات پر مشتمل ہے جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، امام شافعی نے سنت رسول کی مستقل تشریعی حیثیت پر بہت مدلل کلام کیا ہے اور سنت کو مستقل دلیل شرعی نہ ماننے والوں پر حجت قائم کی ہے، اس سلسلے میںامام شافعیؒ کی ذکر کردہ ایک حدیث کے متن اور سند پر شیخ احمد محمد شاکر نے بڑا محققانہ کلام کیا ہے (ص۹۳ تا ۱۰۳)۔
اس ذیل میں امام شافعیؒ نے ناسخ و منسوخ کی بحث چھیڑی ہے اور اپنا یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ قرآن کا نسخ قرآن ہی سے ہوسکتا ہے اور سنت کا نسخ سنت ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں احادیث سے ناسخ منسوخ آیات قرآنی کی شناخت ضرور ہوتی ہے (ص۱۰۶ تا ۱۱۷)۔
نسخ کی بحث کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے امام شافعیؒ نے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں جن میں ناسخ و منسوخ آیات کی شناخت احادیث سے ہوتی ہے، اور احادیث سے احکام قرآن کے بہت سے پہلوئوں کی وضاحت ہوتی ہے (ص۱۱۷ تا ۱۴۶)، اس کے بعد ایسے بہت سے احکام و فرائض کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اجمالی ذکر قرآن کریم میں ہے اور احادیث نے ان احکام و فرائض کے بہت سے پہلوئوں کی وضاحت کی ہے (ص۱۴۷ تا ۲۰۳)، صفحہ (۲۰۳) پر ربیع بن سلیمان کے نسخہ کے اعتبار سے الرسالہ کا جزء اول ختم ہوجاتا ہے۔
صفحہ (۲۰۵) سے الرسالہ کا جزء ثانی شروع ہوتا ہے، (ص۲۱۰) تک بحث کا سرا جزء اول کے آخر سے مربوط ہے، اس کے بعد امام شافعی نے ’’علل احادیث‘‘ کے بارے میں ایک طویل باب قائم کرکے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ احادیث میں اختلاف کے متعدد اسباب ہوتے ہیں، ان میں سے بعض اسباب پر امام صاحب نے سیر حاصل گفتگو کی ہے، انہوں نے حدیث میں غلطی کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے، ان کی یہ طویل بحث محدثین کے لئے بھی چشم کشا ہے (ص۲۱۰ تا ۳۴۲)، اس کے بعد امام شافعیؒ نے اللہ اور رسول کی نہی کے اقسام و احکام پر مختصر گفتگو کی ہے (ص۳۴۳ تا ۳۵۵)۔
علم کے بارے میں ایک باب قائم کرکے امام شافعیؒ نے واضح کیا ہے کہ علم دین کی دو قسمیں ہیں: (۱) علم عام جس سے ناواقف ہونا کسی عاقل بالغ مسلمان کے لئے جائز نہیں، علم کی یہ قسم کامل طور پر پوری صراحت کے ساتھ قرآن پاک میں موجود ہے، اس کی تفصیلات سے عام طور پر جمہور مسلمین واقف ہیں، اس علم کو مسلمانوں کی ہر نسل پہلی نسل سے سیکھتی چلی آئی ہے، اس کے نقل کرنے اور اس کے واجب ہونے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں، اس علم عام میں نقل اور تاویل کسی راہ سے غلطی کا امکان نہیں۔
(۲) علم دین کی دوسری قسم فرائض کے ان فروع اور دوسرے احکام پر مشتمل ہے جن کے بارے میں کتاب اللہ کی کوئی نص موجود نہیں ہے، نہ ہی ان میں سے اکثر کے بارے میں اخبار خاصہ کے علاوہ کوئی منصوص سنت آئی ہے، خبر خاصہ سے خبر واحد مراد ہے جس کے نقل کرنے والے حد تواتر سے کم ہوتے ہیں (ص۳۵۷ تا ۳۶۹)، اس باب کے ذریعہ امام شافعیؒ نے دراصل اگلے دو اہم ترین مباحث کی تمہید قائم کی ہے، یہ دونوں مباحث خبر واحد کے بارے میں ہیں۔
خبر واحد کے باب میں انہوں نے خبر واحد کی تعریف اور اس کی شرطیں ذکر کی ہیں، شہادت اور روایت کا فرق واضح کیا ہے، خبر واحد کن امور میں قبول کی جائے گی اور کن میں نہیں ان کی وضاحت کی ہے، خبر واحد کی حجیت ثابت کرنے کے ساتھ خبر واحد کی حجیت کا انکار کرنے والوں کے شبہات کا استدلالی انداز میں پوری قوت سے رد کیا ہے (ص۳۶۹ تا ۴۷۱)، اس پوری بحث کو پڑھنے کے بعد اخبار آحاد کے بارے میں امام شافعیؒ کا نقطۂ نظر پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے، یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس دور میں خبر واحد کے بارے میں اہل علم میں کیا کیا نقطہ ہائے نظر رائج تھے۔
باب اجماع میں امام شافعیؒ نے اجماع کی حقیقت اور حجیت پر بحث کی ہے (ص۴۷۱ تا ۴۷۶)، اس کے بعد قیاس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے قیاس کے معنی، ماہیت، ضرورت اور قیاس کے اقسام پر بحث کی ہے، واضح کیا ہے کہ قیاس کرنا کس کے لئے درست ہے اور کس کے لئے درست نہیں (ص۴۷۶ تا ۴۸۶)۔
امام شافعیؒ کے نزدیک قیاس اور اجتہاد ہم معنی ہیں، انہوں نے باب القیاس کے بعد باب الاجتہاد قائم کیا ہے لیکن دونوں ابواب کے مباحث تقریباً مشترک ہیں۔ اجتہاد کا باب (ص۴۸۷) سے شروع ہوکر (ص۵۰۳) پر ختم ہوتا ہے، امام شافعیؒ نے باب الاستحسان کے تحت استحسان کی پرزور تردید کی ہے، بہ ظاہر استحسان کا باب (ص۵۵۹) تک چلا گیا ہے، لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ باب قیاس، باب اجتہاد، باب استحسان تینوں کی زیادہ تر بحثیں قیاس سے تعلق رکھتی ہیں، کیوںکہ قیاس اور اجتہاد دونوں امام شافعی کے نزدیک ہم معنی ہیں اور استحسان بھی منفی انداز سے قیاس ہی سے مربوط ہے، قیاس کی زیادہ تر فنی بحثیںباب الاستحسان ہی میں آتی ہیں۔
اس کے بعد اہل علم کے اختلاف کے بارے میں ایک باب قائم کرکے مصنف نے واضح کیا ہے کہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں: (۱)اختلاف حرام (۲)اختلاف جائز۔ اختلاف حرام وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یا زبان نبوت سے حجت قائم کردی ہے، اور اختلاف جائز ان مسائل میں اختلاف کا نام ہے جو قابل تاویل ہیں اور قیاس سے ان کا علم ہوتا ہے، انہوں نے مذکورہ دونوں قسموں پر استدلال کیا ہے، اختلاف جائز کی بعض مثالیں دی ہیں، اس کے بعض اسباب ذکر کئے ہیں، نمونہ کے طور پر چند ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں فقہاء صحابہ کے درمیان اختلاف تھا، مثلاً عدت، ایلا، میراث وغیرہ (ص۵۶۰ تا ۵۹۶)۔
اس باب کے آخر میں امام شافعیؒ نے اقوال صحابہ کے بارے میں اپنا مسلک واضح کیا ہے، اس کے بعد ادلۂ شرعیہ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کا خلاصہ تحریر کیا ہے (ص۵۹۸ تا ۶۰۱) اس طرح (ص۶۰۱) پر الرسالہ ختم ہوجاتی ہے۔
کتاب ختم ہونے کے بعد ۶ صفحات (ص۶۰۳ تا ۶۰۸) میں استدراک ہے، دو صفحات (۶۰۹ تا ۶۱۰) میں مراجع کی فہرست ہے، لیکن یہ صرف مراجع کا تتمہ ہے، محقق نے ذکر کیا ہے کہ مراجع کی کامل فہرست میری شرح ترمذی کے مقدمہ جزء اول میں (ص۹۷ تا ۱۰۳) تک میں درج ہے، کتاب کی افادیت کو بڑھانے اور اس سے استفادہ آسان بنانے کے لئے مختلف پہلوئوں سے کتاب کی فہرستیں بنائی گئی، وہ فہرستیں یہ ہیں:
(۱) آیات قرآنی کی فہرست، ص۶۱۲ تا ۶۲۰
(۲) ابواب کتاب کی فہرست، ص۶۲۱ تا ۶۲۳
(۳) اشخاص وغیرہ کی فہرست، ص۶۲۴ تا ۶۴۶
(۴) مقامات کی فہرست، ص۶۴۷ تا ۶۴۸
(۵) اشیاء کی فہرست (حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ)، ص ۶۴۹ تا ۶۵۴
(۶) ان مفرد الفاظ کی فہرست جن کی تشریح اصل کتاب یا اس کی شرح میں کی گئی ہے، ص۶۵۵ تا ۶۵۸
(۷) فوائد لغویہ کی فہرست، ص۶۵۹ تا ۶۶۲
(۸) اصول فقہ، اصول حدیث، حدیث و فقہ کے موضوعات و مسائل کی فہرست، ص۶۶۳ تا ۶۷۰
اصل کتاب کے صفحات ۶۰۱ ہیں، لیکن کتاب سے قبل مقدمہ وغیرہ ۱۰۴ صفحات پر مشتمل ہیں، اور کتاب کے آخرمیں فہارس وغیرہ ۷۰ صفحات کی ہیں، اس طرح مجموعی صفحات ۷۷۵ بن جاتے ہیں۔
کتاب پر شیخ احمد محمد شاکر کا تحقیق و شرح کا کام معیاری اور مثالی ہے لیکن اسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ کتاب میں نہ کہیں ناشر کا نام درج ہے نہ سن اشاعت، ہاں محقق کے مقدمہ سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مرحوم سید مصطفی البابی الحلبی کے صاحبزادگان کی فرمائش اور مالی سرپرستی سے تین سال میں اس کتاب کی تحقیق و شرح کا کام انجام دیا ہے، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کا ناشر ’’مکتبۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ‘‘ ہے۔
مصادر و مراجع
(۱) ذہبی (۷۴۸ھ) سیراعلام النبلاء، ج۱۰ ص۵ تا ۹۹، نواں ایڈیشن، بیروت
(۲) ذہبی (۷۴۸ھ) تذکرۃ الحفاظ، ج۱ ص۳۶۱ تا ۳۶۳، طبع اول، حیدرآباد
(۳) بیہقی (۴۵۸ھ)، مناقب الشافعی دو جلدیں، طبع اول، ۱۹۷۱ء، قاہرہ
(۴) جمال الدین اسنوی (۷۲۲ھ)، طبقات الشافعیہ،ج۱/ ص ۱۱تا۱۴، طبع اول ۱۹۷۱ء، بغداد
(۵) تاج الدین سبکی (۷۷۱ھ)، طبقات الشافعیہ الکبریٰ،جلد اول، طبع اول۱۹۷۰ء (تحقیق) قاہرہ، محمود محمدطناحی
(۶) ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) توالی التاسیس بمحالی ابن ادریس طبع اول بولاق قاہرہ
(۷)ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) تہذیب التہذیب ج۹/ص ۲۵ تا ۳۱ طبع اول، ۱۹۹۳ء قاہرہ دارالکتاب الاسلامی
(۸) ابوحاتم رازی (۳۲۷ھ) کتاب الجرح والتعدیل ج۷/ص ۲۰۱ تا ۲۰۴ طبع اول، ۱۹۵۲ء حیدرآباد
(۹) خطیب بغدادی(م۴۶۳ھ)، تاریخ بغداد، ج۲ ص ۵۶ تا ۷۳ دارالکتاب العربی بیروت
(۱۰)ابن خلکان (۶۸۱ھ)، وفیات الاعیان، ج ۴/ص۱۶۳ تا ۱۶۹ دار منادر،بیروت، تحقیق ڈاکٹر احسان عباس
(۱۱) ابونعیم اصفہانی (۴۳۰ھ)، حلیۃ الاولیاء جز۹، ص ۶۱ تا۱۶۳ طبع سوم ۱۹۸۰ء بیروت، دارالکتاب العربی
(۱۲)یاقوت حموی (۶۲۶ھ)، معجم الادباء، جزء ۷/ ص ۲۸۱ تا ۳۲۷ طبع سوم۱۹۸۰ء قاہرہ، دارالفکر
(۱۳) ابوزہرہ، الشافعی، طبع سوم، دارالفکر قاہرہ
(۱۴) عبدالغنی الدقر، الامام الشافعی، طبع اول، دارالقلم، بیروت
(۱۵) عبدالحلیم الخبری، الامام الشافعی، تیسرا ایڈیشن، قاہرہ دارالمعارف۔