قاضی عیاضؒ اور ان کی کتاب ’’الشفاء‘‘

قاضی عیاضؒ اور ان کی کتاب ’’الشفاء‘‘
                                                                                                  مولانا محمد علاء الدین ندوی
                                                                                        (عمیدکلیۃ اللغۃ وآدابہا،دارالعلوم ندوۃ العلماء )
مصنف کے مختصر حالات زندگی
مشہور محدث، فقیہ،قاضی،سیرت نگاراورادیب وشاعرعیاض بن موسی بن عیاض بن محمدبن عبداللہ بن موسی بن عیاض یحصبی،سبتی ۵/شعبان۴۷۶ھ مطابق ۲۸/دسمبر۱۰۸۳ء کو سبتہ ( ceuta) میں پیدا ہوے اور اپنے وطن سے دور مراکش میں رجب ۵۴۴ھ مطابق دسمبر ۱۱۴۹ء میں وفات پائی، آپ نے براہ راست جن اہل علم و فضل اور مشائخ کبارسے استفادہ کیا اور مدتوں جن کی خدمت میں زانوے تلمذ تہہ کیا ان کی تعداد دس بارہ سے کم نہیں ، یہ اپنے وقت کے نامور اہل فن، با کمال ہستیاں ، چیدہ علماء اور مشائخ علم و عمل تھے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ بقول مصنف ’ازہار الریاض‘ شارح ’الشفا ’: اگر ہم قاضی عیاض کے شیوخ کا تذکرہ کرنے لگیں تو چند صفحات کافی نہ ہوں گے کہ ان کی تعداد لگ بھگ سو تک پہونچتی ہے (۱)متعدد ایسے شیوخ بھی ہیں جن سے آپ نے براہ راست استفادہ تو نہیں کیا مگر انہوں نے اجازت مرحمت فرمائی ۔ ایک طویل مدت تک آپ اپنے شہر سبتہ میں قضاء کے منصب پر فائز رہے ، اس دور میں آپ کی شخصیت ، سیرت اور کارناموں کا خوب خوب شہرہ ہوا ، پھر آپ کو سبتہ سے غرناطہ بلایا گیا اور وہاں بھی قضاء کا منصب سونپا گیا ، جو زیادہ دنوں تک برقرار نہ رہ سکا ۔
قاضی عیاض کے صاحبزادے ابو عبد اللہ اپنے والد بزرگوار کے اوصاف و کمالات کااظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ میرے والد کی پرورش بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ ماحول میں ہوئی تھی ، وہ آسودہ حال تھے ، قول و فعل کے پکے تھے ، وہ شرافت، فہم و دانش اور قابلیت اور مہارت کے جوہر سے متصف تھے ،علم کے بڑے خواہاں ، حریص اور اس کے لئے کوشاں رہتے تھے ، علماء و مشائخ کی مجالس میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، ان کے ساتھ کثرت سے نششت و برخاست رکھتے تھے ،قرآن کریم کے حافظ تھے ، حسن قرا ء ت و تجوید ، تفسیرو حدیث اور علوم شریعت میں ید طولی رکھتے تھے ، اپنے زمانے کے نامور محدث تھے ، اصولی ، متکلم اور فقیہ تھے ، ادب و زبان پہ گہری نظر تھی اور تاریخ گویا ازبر ،ظریف ملنسار ،مرنجا مرنج،صابر وشاکر حلیم و بردبار،خوش معاملہ،سخی و فیاض،محنت کے دھنی،اور حق کے سپاہی تھے‘‘۔(۲)
علامہ ملاحیؒؒؒ فرماتے ہیں:
’’قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ علم کے دریا،اور دینداری و حلم وبردباری کے پہاڑ تھے،قرات سبعہ کے ماہر تھے،علم حدیث میں نمایاں مقام حاصل تھا،فکر و رائے کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے،اصول و علم و کلام کی سربراہی کر رہے تھے،اسماء الرجال ازبر تھا،علم نحو میں مکمل دسترس حاصل تھا،انہوں نے زبان کے نوک پلک درست کئے،فقہائے عصر، علمائے دوراں،اورنامور ادباء کی سرپرستی فرمائی اور ان کے علوم و فنون کی پاسداری کی‘‘۔(۳)
علامہ مقریؒ فرماتے ہیں:
’’قاضی عیاض سنت کا بڑا اہتمام کرتے تھے،عالم با عمل تھے، اللہ سے ڈرنے والے اور عاجزی و زاری کرنے والے تھے،حق کا اعلان ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے ،اللہ کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہ کرتے،ضبط احادیث کا بڑا اہتمام تھا،ان کی کتاب ’’المشارق‘‘ اس کی عمدہ دلیل ہے،وہ بڑے حاضر دماغ ،بیدار مغزاور بلا کے ذہین تھے،مختلف علوم و فنون کے مواج سمندر میں قدم رکھا اور شناوری کا خوب خوب جوہر دکھایا، وہ بڑے خوش خط تھے،خط مغربی میں مہارت رکھتے تھے،بڑے دقیقہ سنج،نکتہ رس اور فکر رسا کے مالک تھے،ان کی تصنیفات ان کے کمالات کی دلیل ہیں‘‘۔
فقہ مالکی میں تو انہیں کمال تامہ،اور ید طولی حاصل تھا،’’المدونۃ الکبری‘‘ کے مشکل الفاظ کے حل،ان کے اعراب اور روایت و رواۃ کی تعیین میں انہیں پر اعتماد کیا گیا ہے‘۔(۴)
تالیفات و تصنیفات
آپ کا شمار کثیر التصانیف اہل علم میں ہوتا ہے ، صرف صحیح مسلم کی شرح آپ نے ۱۹ جلدوں میں فرمائی ہے ، چند تصانیف حسب ذیل ہیں :
۱  –  المستنبطۃ فی شرح کلمات مشکلۃ و ألفاظ مغلطۃ مما وقع کتاب المدونۃ، اس کا دوسرا نام التنبیہات بھی ہے .
۲  –  القنیۃ ، آپ کے شیوخ کے حالات پر ہے ۔
۳  –  ترتیب المدارک و تقریب المسالک لمعرفۃ  أعلام مذھب مالک
۴  –  الالماع فی ضبط الروایۃو تقیید السماع
۵  –  اکمال المعلم فی شرح مسلم ( انتیس جلدوں میں)۔
۶  –  الاعلام بقواعد الاسلام
۷  –  بغیۃ الرائد کما تضمن حدیث أم زرع من الفوائد
 ۸  –  المقاصد الحسان فیما یلزم الانسان
بعض کتابوں کاذکر ان کی بیاض میں ملا جو تشنۂ تکمیل رہیں۔
۹  –  نظم البرھان علی صحۃ جزم الأذان
 ۱۰  –  الفنون الستۃ فی أخبار سبتۃ
۱۱  –  غنیۃ الکاتب، وبغیۃ الطالب فی الصدور والترسیل     
۱۲  –  تاریخ المرابطین       
۱۳  –  الجامع للتاریخ          
۱۴  –  أجوبۃ القرطبین (۵)
الشفا کی اہمیت
ان تصانیف میں سب سے مہتم بالشان اور شہرہ آفاق کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ہے،جو سیرت کی چند مایہ ناز کتابوں میں سے ہے ،یہ کتاب رسول اللہ ﷺ کے مناقب وفضائل اور آپ کے حقوق وفرائض پر مشتمل ہے ،مصنف کے طرز تصنیف،ابواب وفصول کی تفصیل اور کثرت سے روایات وواقعات کے پیش کرنے کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب ان تمام گوشوں کو اپنی جلو میں سموئے ہوئے ہے جو رسول اللہ ﷺ کے کمالات وفضائل اور شمائل وخصائل سے متعلق ہیں اور جن سے آپ ﷺ کی سیرت جلوہ گر ہوتی ہے ۔
مصنف نے مشکوٰۃ نبوت کی لو کو جلوہ آرا کرنے کے لئے آیات قرانیہ اور احادیث نبویہ پر انحصار کیا ہے ،جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کے ثبوت و شواہد مفسرین ،محدثین ، فقہاء اور متکلمین کے آراء واقوال سے دے دئے ہیں ،اس کتاب میں انہوں نے علمی اور تحقیقی روش اپنائی ہے جو ان کے عصر کے لحاظ سے اگر بڑی نرالی نہیںتو کم یاب بات ضرور تھی، ہر موضوع کے لئے الگ الگ ابواب باندھے ہیں،پھر ان موضوعات کو مختلف عنوانوں میں تقسیم کیا ہے ،ہر عنوان کے تحت وہ قرانی آیتیں، احادیث نبویہ ،صحابہ اور تابعین کے اقوال پیش کرتے ہیں ،اور ہر بات سند کے ساتھ کہتے ہیں ۔
علامہ مقریؒ ’ ازہار الریاض‘ میں فرماتے ہیں:
’’ مشرق سے لے کر مغرب تک اس کتاب کی دھوم مچ گئی ،عوام وخواص،عرب وعجم سبھی اس پر وارفتہ ہیں ،اس کتاب کو پیش کرکے مصنف نے اللہ کی قربت حاصل کرلی ،اس کی خصوصیات ناقابل شمار ہیں ،رسول اللہ ﷺ کے ظاہری جمال اور باطنی کمال کو نمایاں کرتے ہوئے ،یا اعجاز قرآنی پہ گہر افشانی کرتے ہوئے ،مصنف کی شیرنی بیانی ،قلم کی روانی، زبان کی پختگی ، ادب کی چاشنی اور شگفتہ تحریر کو پڑھ کر سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عطیۂ ربانی اور رحمت خدا وندی ہے جو باد بہاری بن کر ان کے چمن حیات پر چلی ہے‘ ‘(۶)۔
شیخ ابو الحسین ؒعبید اللہ احمد بن عبد المجید الازدی الرُندی جو اپنے وقت کے بڑے عابد وزاہد تھے فرماتے ہیں:
’’ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ اس کتاب کے مصنف کو بہترین بدلہ عطا کرے ، انہوں نے علم کے باوقا ر میدان میں قدم رکھا اور بہت آگے نکل گئے، انہوں نے زمانے کی گردن میں علوم ومعارف کی حسین لڑی پہنائی اور حقائق واسرار کی موتیاں لٹائیں، انہوں نے شفا کے جام سے ہر مومن صادق کے قلب ونگاہ کو مخمور کردیا ،ایک مسلمان جب ان کی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے انوار اس کے قلب وباطن کو منور کردیتے ہیں اور جب وہ اس کے معارف وحقائق کے چمنستان میں محو خرام ہوتا ہے تو نسیم سحری کے جھونکوں کا کیف محسوس کرتا ہے اور اس کے ریاض دل کے گل وسوسن خندہ ہو اٹھتے ہیں ،مصنف کے اس کارہائے نمایاں کی توصیف وتقریظ بیان کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا ہے :
کتـاب الشفاء شفاء القلوب                             قــد ائتلفت شمس برہانہ
اذاطـالع المومن مضـمونہ                              رسا فی الہدی أصل ایمانہ
ومال بروض التقی ناشقا                                روائــح أزہــار أفــــنانــہ
(۱)کتاب شفا امراض قلوب کے لئے باعث شفا ہے ،اس کی دلیل وبرہان کا سورج درخشندہ ہے۔
(۲)جب مسلمان اس کے مضامین کا مطالعہ کرتا ہے تو ارض ہدایت میں اس کے شجر ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں ۔
(۳)وہ اس کے مطالعہ سے گویا باغ تقوی میں چہل قدمی کرتا ہے جس کے گلہائے رنگا رنگ کی خوشبوئوں سے وہ معطر ہوتا ہے‘(۷ ) ۔
شیخ حافظ امام ابو عبداللہ محمد بن سعد تلمسانیؒ فرماتے ہیں :
’’قاضی ابو الفضل کی تالیفات اس بات کی دلیل ہیں کہ خداکی بارگاہ میں ان کا بڑا رتبہ ہے ،مشرق سے لے کر مغرب تک مسلمانوں کو ان کی تصانیف سے استفادہ کرتے ہوئے جو بھی دیکھے گا تو وہ یہی کہے گا کہ یہ خدا سے قربت ولایت کے اسرار ہیں ،ان کی یہ کتاب (شفاء)جبیں حسن پر دمکتے ہوئے لعل اور ارمغان سعادت ہے ،اس کی تعریف میں کسی باکمال نے کہا ہے :
أنس الوحید ودیمۃ الأنداء                   ونسیم عرف الروضۃ الغناء
وہ تنہائیوں کا انیس وہمدم ہے ،وہ بارش کی ہلکی ہلکی پھوار ہے اور بلندیوں میں واقع گھنے باغات سے آتی ہوئی باد صبا کی مشک باری ہے‘‘(۸)
ملا علی قاریؒ رقم طرازہیں :
’کتاب شفا درشمائل وخصائل مصطفی جامع ترین تصنیف ہے، جس میں اجمالا موضوع کا حق ادا کردیا گیا ہے ،یہ بلند پایہ تصنیف مسلمانوں کے ہر طبقہ میں مقبول اور پسندیدہ رہی ہے ‘( ۹)
مرزا محمد باقر موسویؒ المولود ۱۲۲۶ھ لکھتے ہیں :
’’ہمارے اصحاب یعنی فرقہ ٔ امامیہ کے لوگوں نے بھی اس کے بکثرت اقتباسات نقل کئے ہیں ،درحقیقت اس میں بے شمار فوائد،بلند تحقیقات اور رسول اللہ کی ولادت سے وفات تک کے حالات وواقعات کے متعلق حدیثیں شامل ہیں، مصنف نے اس میں اکابر شیوخ سے روایتیں نقل کی ہیں‘‘( ۱۰)
علامہ سید سلیمان ندویؒ اس کی خصوصیت واہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ کتابیں جو آنحضرت ﷺ کے صرف اخلاق وعادات اور فضائل ومعمولات زندگی پر لکھی گئی ہیں، ان میں سب سی پہلی اور سب سے مشہور کتاب امام ترمذی ؒ المتوفی ۲۷۹ھ کی کتاب الشمائل ہے ،جس کی بڑے بڑے علماء نے بیسیوں شرحیں لکھی ہیں اور سب سے ضخیم اور بڑی کتاب اس فن کی ’’کتاب الشفاء فی حقوق المصطفی‘‘ قاضی عیاض کی ہے اور اس کی شرح نسیم الریاض شہاب خفاجی کی (۱۱)
رسول اللہ ﷺ کے اخلاق طاہرہ اور اوصاف عالیہ اور آداب فاضلہ کے بیان وتفصیل سے احادیث کی تمام کتابیں معمور ہیں، خصوصیت کے ساتھ قاضی عیاض اندلسی کی کتاب الشفاء اس پہلو سے بہترین کتاب ہے ،ایک یورپین مستشرق نے فرانس میں مجھ سے کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کے اصلی محاسن سے واقف کرانے کے لئے یہ کافی ہے کہ قاضی عیاض کی شفاء کا یورپین زبان میں ترجمہ کردیا جائے ۔(۱۲)
تاہم یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان اپنے کام کو کتنا ہی بلند معیار تک پہنچا دے ، اس کا کام خامیوں اور کمیوں سے عاری نہیں ہوسکتا ، چنانچہ متعدد اہل علم نے قاضی صاحب کی زیر نظر کتاب پر بھی تنقیدی نظر ڈالی ہے اور اسکی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے ۔
ہمارے پیش نظر اس وقت عبدہ علی کوشک کامحقق نسخہ ہے ،جسے’’دبی کی قرآن کریم کی بین الاقوامی انعامی کمیٹی ‘‘ نے انعام کے لئے منتخب کیا اور ۲۰۱۳ءمیں اسے شائع کیا ،محقق نے اپنے مقدمہ میں کتاب کی قدر قیمت اور اس کے حسن وقبح پر محققانہ نظر ڈالی ہے ، کتاب کی مدح  وستائش پر متعدد اکابر امت کے اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
اس کتاب میں جو امور قابل گرفت ہیں ، وہ تین طرح کے ہیں :
اولا :عصمت انبیاء علیہم السلام کی بابت غلو اور مبالغہ سے کام لیا گیا ہے ۔
ثانیا :کتاب میں واہی اور من گڑھت احادیث بھرے پڑے ہیں۔
ثالثا :کتاب میں دور ازکار تاویلات اور تفسیریں ہیں ۔
پہلی قابل گرفت بات کی بابت ابن تیمیہ کا حوالہ دیا گیا ہے ،کہ انہوں نے مجموع الفتاوی (ج۴، ص:۳۱۹) میں اس کتاب کی بابت اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس مغربی عالم نے غلو سے کام لیا ہے ‘‘۔
اس بات کی تردید حافظ عبدالحی الکتانی نے فہرس الفہارس میںکرتے ہوئے فرمایا :
شنیع ترین بات جو ابن تیمیہ سے نقل کی گئی ہے ، وہ یہ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا ’’غلاھذا المغربی ‘‘ اس مغربی نے غلو سے کام لیا ہے۔ (۱۳ )
دوسری بات حافظ علامہ ابو عبد اللہ شمس الدین الذھبی نے فرمائی ہے ۔
شیخ کی تصنیفات بہت عمدہ ہیں،ان میں سب سے مہتم بالشان اور قابل عزوشرف کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفی‘‘ہے،بشرطیکہ مصنف نے اپنی کتاب کو من گڑھت روایتوں سے بھرنہ دیاہوتا، امام صاحب کے کام میں فن حدیث میں تحقیقی وتنقیدی ذوق کی کمی کے باعث یہ پیش آیا،اللہ ان کی نیک نیتی کا انہیں بدلہ دے اور ان کی کتاب سے لوگوں کوفائدہ ہو۔(۱۴)
تیسری بات بھی امام ذہبی نے فرمائی ہے کہ قاضی عیاض دور ازکار تاویلات کام لیتے ہیں ۔
ملاحظہ ہو (۱۵ )
شروحات
اس کتاب کی مختلف شروحات لکھی گئی ہیں ۔
(۱)نسیم الریاض فی شرح الشفا للقاضی عیاض از علامہ شہاب الدین احمد بن محمد الخفاجی المصری، جو چار جلدو ں میں قاہرہ میں اور استنبول میں چھپ چکی ہے ۔
(۲) شرح الملا علی قاری از علی بن محمد سلطان البردی الحنفی المعروف بالقاری، یہ دو بڑی جلدوں میں آستانہ اور بولاق میں چھپی ہے ۔
(۳)المدد الفیاض از شیخ حسن العدوی الحمزاوی یہ دو جلدوں میں چھپ چکی ہے ۔
(۴)  المنہل الأصفا فی شرح ماتمس الحاجۃ الیہ من ألفاظ الشفاء از ابو عبداللہ محمد بن شریف الحسنی التلمسانی ۔
(۵) الاصطفاء لبیان معانی الشفاء از شیخ شمس الدین محمد بن محمد الدلجی الشافعی ۔
(۶) مزیل الخفا لألفاظ الشفاء از علامہ تقی الدین احمد بن محمد الشمنی التمیمی (مخطوطہ)
(۷)المقتفی فی حل ألفاظ الشفاء از علامہ برہان الدین ابراہیم الحلبی (مخطوطہ )
(۸) مناہل الصفا فی تخریج أحادیث الشفاء از علامہ جلال الدین سیوطی، یہ شرح نہیں بلکہ شفاء کی احادیث کی تخریج ہے ،جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے ۔اس پر شیخ تقی الدین ابو العباس احمد ابن محمد الشمنی کا حاشیہ ہے ۔
اس کتاب کی اہمیت اور اس کی عظمت کا اندازہ ان بکثرت پائے جانے والے مخطوطہ نسخوں سے ہوتا ہے جو دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجودہیں ،صرف ازہر کی لائبریری میں اس کے ۴۹ اور دار الکتب کی لائبریری میں ۴۲ مخطوطہ نسخے موجود ہیں (۱۶)
شفا کے منظر عام پر آنے کا محرک
شفا کے مقدمہ سے انداز ہوتا ہے کہ قاضی عیاض نے کسی سائل کے اصرار یا لوگوں کے عمومی تقاضے پر یہ کتاب تصنیف فرمائی ہے،ان کا مقدمہ ہر چند کہ مسجع ومقفع اسلوب میں ہے اور یہ اس عہد کے اسلوب کی غمازی کرتا ہے، جب زبان میں صنعت وتکلف کی گرم بازاری شروع ہوگئی تھی، تاہم مصنف کا مقدمہ از دل خیزد بردل ریزد کے مصداق ہے ، ان کی زبان کی تاثیر اور محبت رسول کی مشکباری ہر پڑھنے والا محسوس کرے گا ،ہم وقت کی تنگی کے باعث صرف اس حصے کا ترجمہ پیش کرتے ہیں جس سے اس محرک کا اندازہ ہوتا ہے جس نے مصنف سے عشق و وارفتگی میں ڈوبی ہوئی ایسی محبت شناس کتاب لکھوائی ،فرماتے ہیں :
’ ’تم نے بارہا سوال اور اصرار کیا کہ ایک ایسی کتاب منظرعام پر آنی چاہئے جو فضائل مصطفی اور شمائل نبویہ پر مشتمل ہو، اس میں یہ بتایا گیا ہو کہ آپ ؐ کی تعظیم وتوقیر کے احکام کیا ہیں ،آپ کی جلالت شان اور سیرت مبارکہ پر کیڑے نکالنے یا گستاخی کرنے والوں کے بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے ؟یہ ساری باتیں قرآن اور سنت ،سلف صالحین اور ائمہ امت کے اقوال وآراء کی روشنی میں پیش کی جائیں تاکہ ہر طرح کے اشکالات رفع ہوجائیں اور عظمت وحقوق مصطفی کی تصویر ہو بہو ہویدا ہوجائے ۔
خدا تمہیں عزت وسرفرازی بخشے تم نے مجھ پر عظیم ذمہ داری عائد کر دی ہے ، یہ مطالبہ کرکے تم نے مجھ کو سخت ذہنی کشاکش میں مبتلا کردیا ہے ،تم نے میرے قدم دشوار گذار راہوں میں ڈال دئے ہیں ،تمہاری اس خواہش اور مطالبہ کے سنتے ہی میرا دل ہیبت زدہ ہوگیا، کیونکہ تصنیف ایسے امور کا متقاضی ہے کہ ہر بات اصول کی روشنی میں کہی جائے ،اور ابواب وفصول کے انداز میں ترتیب دی جائے ،حقائق علمیہ کے سمند ر میں غواصی کی جائے ،غموض وابہام اور شکوک و شبہات کا پردہ چاک کیا جائے ،اور یہ بتایا جائے کہ حقو ق مصطفی کیا ہیں ؟اس مسیحائے انسانیت کی شان میں کن امور کا انتساب ضروری یا جائز یا ناجائز ہے ،نبی ،رسول ،رسالت ،نبوت،محبت،خلت اور ان کے خصائص اور فرق مراتب کو سمجھایا جائے، لیکن یہ وہ بیابان لامتناہی ہے جس میں قطا جیسا ذہین و ہشیار پرندہ بھی راستہ بھٹک جاتا ہے، اس ریگستان میں سفر کرتے ہوئے ماہر وتجربہ کار صحرا ء نشیں بھی پیچ وتاب کھاتا ہے ،یہ وہ راہ پر خطر ہے جس میں خرد مندان زمانہ بھی لغز ش کھائے بغیر نہیں رہتے ،اگر ان کے ساتھ گہرا علم ،پختہ فکراور بصیرت کی شمع فروزاں نہ ہو ،اور یہ وہ شاہراہ ہے کہ اگر توفیق الٰہی یاوری نہ کرے تو بھٹک جانا بہت آسان ہے ۔
ٰؒلیکن جب میں نے اپنے لئے اور تمہارے لئے اس ’سوال و جواب‘ میں اُس اجر و ثواب پہ نظر ڈالی جو آپ کی عظمت کے بیان ،شخصیت کے تعارف  و توصیف ،آپ کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف و کمالات کے اظہار میںاللہ نے فرمائی ہے اوریہ اوصاف و کمالات آپ کی ذات گرامی کے سوا کبھی کسی دوسرے انسان میں دیکھے نہ گئے ،پھر یہ کہ آپ کے حقوق کی بجاآوری جو ہر حق سے بڑھ کر ہے،جو تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے اورانہی مناقب اور محاسن کو دیکھ کر صداقت نبوت پر اہل کتاب کا یقین و اعتماد پختہ ہوتا ہے اور اہل ایمان کا ایمان جلا پاتا ہے ،علاوہ ازیں خدا نے عہد ومیثاق لے رکھا ہے کہ وہ حکمت و دانائیوں کی تبلیغ و توضیح کریں گے اور کتمان علم کے مرتکب نہ ہوں گے،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:جس نے کسی سے کوئی علم دریافت کیا،پھر اس نے کتمان علم سے کام لیا تو اللہ تعالی قیامت میں اسے آگ کا لگام پہنائے گا(۱۷) تو میں نے تمہاری اس دعوت پر لبیک کہا ،اورسیرت مصطفی کے حقوق و فرائض بیان کرنے اورنکات و لطائف سے پردہ اٹھانے اور حتی الوسع اس کا حق ادا کرنے کا تہیہ کر لیا،اور انتہائی عجلت میں یہ کتاب مرتب کرڈالی ،کیونکہ ہر انسان کے ساتھ جسم وجان اور اہل وعیال کی مشغولیتیں لگی ہوئی ہیں ،ذمہ داریاں بھی اس پر آن پڑتی ہیں ،جو ابتلاء وآزمائش کے سوا کچھ نہیںہوتیں‘‘۔(۱۸)
 الشفا کا تعارف
الشفا کا جو نسخہ میرے پیش نظر ہے وہ ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۹۸۴ء بیروت کا چھپا ہوا ہے اور دو جلدوں پر مشتمل ہے ،یہ ایک محقق نسخہ ہے جس کی تحقیق علی محمد بجاوی نے کی ہے ،اس کے کل صفحات ۱۱۱۶ہیں، مگر پرانا مطبوعہ نسخہ ایک ہی جلد میں چھپا ہے، اس کے کل صفحات تقریبا۵۰۰ہیں۔
مصنف نے اپنی کتاب کو چار حصوں ،بارہ ابواب اور ایک سو بیالیس فصلوں پر تقسیم کیا ہے ،اپنی کتاب کے تیسرے حصے کوجو عصمت انبیاء پہ دقیق علمی مباحث پر مشتمل ہے پوری کتاب کا لب لباب اور نچوڑ قرار دیاہے ،جبکہ حصۂ اول اور دوم اور انکے ابواب وفصول کو تمہید اور اصول قراردیا ہے،اور مابعد کے مباحث کے لئے فیصلہ کن دلائل وبراہین خیال کیا ہے ۔
۱۹۸۶ء میں راقم نے خود اس شہرہ ٔآفاق کتاب کی تلخیص، تنقیح اور ترجما نی کا کام انجام دیا ہے جوالحمدللہ جولائی ۲۰۲۵؁ میں زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے ،اس نے اس کو چار کے بجائے پانچ حصوں میںاور ۱۲ کے بجائے ۱۵ ابواب میں تقسیم کردیا ہے،مصنف نے صرف فصل قائم کرکے اپنے حاصل مطالعہ ،اپنے علمی نکات ،اپنے سوز و درداور عشق ووارفتگی کو زندہ اسلوب اور تواناتحریر میںپیش کیا ہے ،مگر راقم مترجم نے فصل کی جگہ فحوائے کلام کی روشنی میں جلی سرخیاںاور ذیلی عناوین قائم کر دئے ہیں ،کتاب کی قدر وقیمت کا صحیح اندازہ ہو سکے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے چنیدہ موضوعات کی ایک جھلک پیش کر دی جائے۔
حصہ اول
باب اول : رسالتماب کی مدح وستائش اور محاسن وفضائل کاذکر
اس باب میں دس ذیلی عناوین ہیں، مثلا
(۱)فخر شرافت ونازش رحمت  (۲)مشکوۃ نبوت ہر جہاں میں ضو فگن ہے
باب دوم:  ظاہری وباطنی کمالات  ۔ اس باب کے تحت ۲۷ ذیلی عنوانات ہیںمثلا؛ظاہری وباطنی کمالات-رسول اللہﷺ کی جامعیت وکاملیت-اخلاق کا سرچشمہ – انبیاء کے ظاہری کمالات
باب سوم: دونوں جہاں میں آپ کی فضیلت  –   اس باب کے تحت ۲۰ ذیلی عناوین قائم کئے گئے ہیںمثلا:          امی لقب کا کوئی مماثل نہیں-
اسرا ومعراج-آخرت میں آپ کی فضیلت-لیس کمثلہ شئی
حصہ دوم
باب اول: معجزات پہ چند بحثیں
اس باب کے تحت ۱۸ عناوین قائم ہوئے ہیںمثلا:دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی-  قران کریم کے اعجاز کے چند پہلو-اعجاز کے دیگر وجوہ
باب دوم:  معجزات رسول کی چند مثالیںا س  باب میں ۱۸ عناوین پر گفتگو ہوئی ہے
باب سوم: معجزات کی چند دوسری شکلیں -اس کے تحت ۱۲ عناوین قائم کر کے معجزات کی وہ شکلیں دکھائی گئی ہیںجن کی طرف لوگوں کا ذہن عموما نہیں جاتا، مثلا حساب ، خط و تحریر، غیر عربی زبانوں سے واقفیت وغیرہ
حصہ سوم
باب اول:ایمان بالرسول  –  اس باب کے تحت ۱۲ عناوین قائم کرکے اطاعت رسول ،محبت رسول پہ سیر حاصل بحث کی گئی ہے
باب دوم : ادب گہ مصطفی –   اس باب میں۶ عناوین کے تحت تعظیم وتوقیر رسول پہ فاضلانہ ،مشفقانہ اور عاشقانہ گفتگو ہوئی ہے
باب سوم: درود سلام کی فرضیت و فضیلت   –   اس ضمن میں ۱۲ عناوین قائم ہوئے ہیں اور درود وسلام کی فضیلت کے علاوہ روضہ اطہر کی زیارت ،مسجد نبوی اور خانۂ کعبہ کے فضائل پہ قلم کی جولانی اور موج عشق ومستی کی طغیانی دکھائی گئی ہے۔
حصہ چہارم
باب اول: آپ پیکر خاکی میں یکتا تھے – کتاب کی معرکۃ الآرابحث اسی حصہ میں آئی ہے، اس باب کے تحت ۱۷ ذیلی عناوین ملیں گے۔
مثلا:عصمت انبیاء قبل از نبوت -عصمت نبی اقوال وافعال میں -حدیث سہو کی توجیہ
باب دوم:  اقوال واعمال میں سہو ونسیان کا حکم-اس کے تحت ۶ عناوین ملیں گے
باب سوم: انسانی عوارض انبیاء پر بھی لاحق ہوتے ہیں ،مثلا:نبی پر جادو کا اثر-تعریض وتوریہ-انبیاء کو امراض میںمبتلا کرنے کی حکمت
حصہ پنجم
باب اول: رسالتماب کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا حکم –  اس کے تحت ۹ عناوین پر سیر حاصل بحث ملے گی
باب دوم:  شاتم رسول کے احکامات -اس کے تحت ۶ عناوین نظر آئیں گے
باب سوم: اس کے تحت ۸ عناوین قائم ہوئے ہیں
کتاب سے چند شاہکار نمونے
ظاہر ی و باطنی کمالات
قواے نفس کو ضبط و اعتدال کی راہ پر لگایا جاے اور انحراف و کجروی سے بچایا جاے تو حسن اخلاق کی جلوہ گری ہوتی ہے ، صاحب خلق قرآن کے اخلاق حسنہ اعتدال و کمال کے اسی نہج پر استوار ہوے تھے ، اسی لیے اپ کی توصیف میں فرمایا گیا ، انک لعلی خلق عظیم ، اخلاق فاضلہ اور کمالات عالیہ جبلی اور پیدائشی طور پر ودیعت ہوتے ہیں ، لطف الہی اور عنایت ربانی ان کی (ہمہ وقت) دست گیر ہوتی ہے ۔ قاضی عیاض اخلاق کے ظاہری و باطنی کمالات پہ اپنی محققانہ گفتگو میں فرماتے ہیں:
’’اللہ نے آپ کو ظاہری جمال ،باطنی کمال اور دینی اور دنیاوی خوبیوں سے بدرجہ اتم سرفراز فرمایا تھا، لہذا رسول کائنات سے عشق ومحبت رکھنے والوں اور آپ کے جملہ صفات وکمالات کی تابش سے زندگی کو سنوارنے والوں کو جاننا چاہئے کہ انسانوں میں عظمت وکمال دو طرح کے ہوتے ہیں ۔
ایک دنیوی یا ضروری کمال جو انسانی فطرت اور ضروریات زندگی کا ناگزیر حصہ ہے ۔دوسرا دینی یا کسبی کمال جس سے اگر کوئی شخص متصف ہوتا ہے تو لائق ستائش اور باعث عز وشرف سمجھا جاتا ہے ۔اور خدا کی قربت اور اجر وثواب کا مستحق بن جاتا ہے۔ایک اور حیثیت سے دیکھئے تو عظمت وکمال کی ان دو قسموں کی دونوں شکلیں سامنے آتی ہیں :
(۱) بعض لوگوں کے اندر صرف پہلی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے ۔ (۲) اور بعض لوگوں میں دونوں خصوصیتیں دیکھی جاتی ہیں ۔(۱۹)
افضل کون حبیب یا خلیل
حضور اکرم ﷺ کی فضیلت بحیثیت حبیب اللہ اور خلیل اللہ مسلم ہے ،اس کی تائید متعدد روایات سے ہوئی ہیں،مگر مسلمانوں میں عام طور سے اس بات کو شہرت حاصل ہوگئی ہے کہ آپ ﷺ حبیب خدا ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ ۔قاضی عیاض بتاتے ہیں کہ محبت میں غرض وابستہ ہوتی ہے جبکہ خلت ہر غرض سے بیگانہ ہوتی ہے، پھر اپنی نکتہ رسی اور بصیرت افروزی سے ثابت کرتے ہیں کہ محبت کا مرتبہ خلت کے مقام سے بڑھا ہوا ہے فرماتے ہیں:
’علما ء اور اہل دین کا اس امر میں اختلاف ہے کہ کس کی شان زیادہ ارفع واعلیٰ ہے ،حبیب کی یا خلیل کی ؟ ایک گروہ کاکہنا ہے کہ دونوں برابر ہیں ،جو حبیب ہوگا وہ یقینا خلیل ہوگا اور خلیل وہی ہوسکتا ہے جو محبوب ہو ،لیکن اللہ نے حضرت ابراہیم کو خلیل کا لقب دیا ہے اور حضرت محمد ﷺ کو حبیب بنایا ہے ، دوسرے گروہ کہنا ہے کہ خلیل کی شان حبیب کی شان سے بلند تر ہے، کیونکہ آپ نے حضرت ابوبکر کے لئے خلیل کا لفظ اور اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ اور ان کے دونوں فرزند حسین وحسین اور اسامہ کے لئے محبت کا لفظاستعمال فرمایا ،بعضوں کا خیال بالکل اس کے برعکس ہے یعنی حبیب کا مقام خلیل سے بلند تر ہے کہ آنحضرت ﷺ حبیب خدا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ سید الثقلین کی فضیلت حضرت ابراہیمؑ سے بڑھی ہوئی ہے۔ (۲۰)۔
شبہات کا ازالہ
مصنف عصمت انبیاء کے باب میں مختلف زایوں سے گفتگو کرتے ہیں اورکسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑتے ،ساتھ ہی ساتھ شبہات کے ایک ایک کانٹے چن چن کر نکالتے ہیں اور محققین ،مفسرین اورمحدثین کی تاویلات کی روشنی میںقاری کو جادۂ حق پہ لاکھڑا کرتے ہیں ،عصمت انبیاء کے باب میں متعدد شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے وعصی آدم ربہ فغوی اور استغفار انبیاء پہ یوں اظہار خیال فرماتے ہیں :
’’انبیاء علیم السلام اپنی رفعت وبزرگی ،اپنی علو شان، معرفت الہی ،سنت اللہ کے ادراک اور خداکی حاکمیت وقہاریت کے علم وعرفان کے جس مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ رب العزۃ والجلال کے خوف سے کانپتے رہتے ہیں ،ان پر لرزہ اور کپکی طاری رہتی ہے ،جن گناہوں کے ارتکاب سے دوسروں کی گرفت نہیں ہوتی ان کی گرفت معمولی لغزشوں سے کر ڈالی جاتی ہے ۔اس لئے یہ حضرات اپنے تصرفات زندگی میں مباح امور سے بھی مجتنب اور خائف رہتے ہیں ،ان کے عقاب وعتاب اور اوراپنے مآل کار سے ڈرتے رہتے ہیں ، ان کے صادر ہوجانے سے عذاب الہی کا اندیشہ محسوس کرتے ہیں ۔اس لئے ان مباح امور تک کو تاویل یا سہو ونسیان کے طور پر اختیار کرنے یا دنیاوی معاملات ( کے مباحات ) میں کثرت اور وزیادتی کی خواہش پر بھی فورا ان کو متنبہ کر دیا جاتا ہے اور ان کے مقام ومنصب کی بلندیوں کو دیکھتے ہوئے (ان مباحات کو ) گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ان کے کمال طاعت کے لحاظ سے معصیت سمجھا جاتا ہے ، حالانکہ یہ عام انسانوں کے ذنوب ومعاصی کے مماثل نہ تھے، کیونکہ ذنب حد درجہ خسیس، رذیل اور حقیر شئی کو کہتے ہیں ۔ذنب کل شئی کا مطلب ہر چیز کا آخری حصہ۔ اذناب الناس ارذال الناس کو کہتے ہیں ،گویا یہ امور جن کو ہم ان کے حق میں ذنوب ومعاصی خیال کر رہے ہیں، ان کے افعال و اعمال کے خانوں کے آخری درجہ کے اعمال ہیں ،بالفاظ دیگر ان کی طہارت ونزاہت ،ان کی باطنی صفائی وتزکیہ ٔ نفس ،ان کا تقوی اور خوف خدا،  ان کے اعمال صالحہ اور ان کے اخلاق فاضلہ ،ان کا ذکر لسانی اورذکر قلبی ،ان کی خشیت اورتضرع الی اللہ اور جلوت وخلوت میںاللہ کی عظمت و کبریائی میں استغراق کے لحاظ سے یہ ’’لغزشیں‘‘ کم تر درجے کے اعمال ہیں ۔ (۲۱)
کتاب پر مختصر تبصرہ
مصنف اپنی تصنیف کے اختتام پر تحریر فرماتے ہیں :
’’یہاں ہماری گزارشات پوری ہوتی ہیں ،جو عزم ومقصد لے کر ہم چلے تھے وہ پایہ تکمیل کوپہونچتا ہے، جن شرائط اور خطوط پر چلنے کا ہم نے وعدہ کیا تھا اسی روش پر راہ سفر پر گامزن رہے ہیں، مجھے توقع ہے کہ کتاب کے ہر حصہ میں طالبان علم کے لئے تشنگی کا سامان اور اس کے ہر ہر باب میں رہ روان عشق کے لئے جادہ ومنزل کا پتہ ہے ۔
ہم نے اس کتاب میں اپنی نکتہ سنجی و دقیقہ رسی سے ایسی گل آفرینیاں کی ہیں جن کی مثالیں گزشتہ تصانیف میں نہیں ملتیں ،ہم نے تحقیق وجستجو کے ایسے آب زلال سے سقائی کی ہے، جہاں تک کسی کا گزر نہیں ہوسکا ،میری خواہش تھی کے اگر اس موضوع پر مجھ سے پہلے کوئی اپنے اشہب قلم کے جوہر کو دکھا چکا ہوتا یا کوئی منارۂ علم وفن اپنے نوک قلم یا موئے زبان سے میری تشنگی علم مٹاتا تو میں دوسروں کو سیراب کرنے کے بجائے خود اس کے دریائے علم میں شناوری کرتا ۔(۲۲)
مصنف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں بھی اس طرح کی باتیں کہیں ہیں کہ تصنیف ایسے امور کی متقاضی ہے کہ ہر بات اصول کی روشنی میں کہی جائے اور حقائق علمیہ کے سمندر میں غواصی کی جائے، مگر مصنف کے اپنے اس دعوے کے باوجود روایت اور درایت میںوہ اصولوں کی پاسداری نہیں کرسکے ،ہمیں ایک بلند پایہ محدث اور انتیس جلدوں میں جامع مسلم کے شارح ( اکمال المعلم فی شرح مسلم ) سے توقع تھی کہ سیرت کے معیاری فن کے اصولوں کی رعایت ملحوظ رکھیں گے، جس کی مثال ہمیں علامہ شبلی کی’’ سیرت النبی ‘‘ میں نظر آتی ہے ،مگر نقد روایت کے جو اصول محدثین نے قائم کئے ہیں اور جن کی رعایت یقیناحدیث کے باب میں مصنف نے بھی ملحوظ رکھی ہوگی، اپنی سیرت شفا میں وہ ایسا نہ کر سکے ،ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ سیرت رسول کا مستند تر مواد قرآن کے بعد حدیث ہی ہے، اگر چہ حدیث کی روایت سیرت کی روایتوں سے بلند تر ہے، مگر سیرت کا معیاری فن اس باب میں انہی اصولوں کی رعایت کا تقاضا کرتا ہے جو حدیث کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔
مصنف نے یقینا اولین ماخذ کے طور پر جابجا قرآن کریم سے ثبوت وشواہد پیش کرنے کا التزام کیا ہے، مگر تفسیر کے معاملے میں ضعیف تفسیری اقوال کثر ت کے ساتھ نقل کرتے چلے گئے ہیں اور مشہور اور راجح اقوال کو نظر انداز کرکے مرجوح اور مجروح اقوال بلا کسی محاکمہ کے ذکر کردئے ہیں ،شاذ قراتوں کی اساس پر تفسیری نکات بھی خوب بیان کئے ہیں ،مصنف ہر باب اور فصل میں کثرت کے ساتھ احادیث نقل کرتے ہیں ،مگر صحیح اور قوی احادیث کے ساتھ ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی نقل کرنے سے نہیں ہچکچاتے اگرچہ ان ضعیف روایتوںکی حیثیت شواہد کی ہوتی ہے،چنانچہ مولانا ضیاء الدین اصلاحی رقم طراز ہیں :
’’انہوں نے بعض جگہ ضعیف حدیثیں نقل کی ہیں مگر ان کی تائید وتوثیق کے لئے صحیح اور مشہور حدیثیں بھی نقل کردی ہیں اس طرح ضعیف حدیثوں کی حیثیت محدثین کے اصول کے مطابق شواہد ومتابعات کی ہوگئی ہے‘‘( ۲۳ )۔
تکرار کے بوجھ اور طول بیانی کی گرانی سے بھی کتاب خالی نہیں ہے ،بلکہ کشف الظنون کے مصنف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ :
’’یہ کتاب رطب ویابس کا مجموعہ ہے جس میں صحت کا التزام نہیں کیا گیا ہے ‘‘(۲۴ )۔
 کتاب کے بعض مسامحات کو نظر انداز کردیا جائے تو یہ ایک مایہ ناز ،ایمان افروز ،روح پرور،محبت سے لبریز اور کامیاب تصنیف کا نمونہ ہے ،اس کی تقریظ میں اہل صدق وصفا نے جی کھول کر گلہائے عقیدت لٹائے ہیں،مصنف کی کتاب حقیقت میں ایک ایسا علمی خزانہ اور خوبصورت کشکول ہے جس میں قرانی آیات، احادیث رسول ،فقہی مسائل ،کلامی بحثیں ،آثار صحابہ ،اقوال علماء اور روایات وواقعات، زبان وقواعد اور شعر وادب کا ذوق سب کچھ نظر آتا ہے ۔
دراصل مصنف نے شفا کے نام سے محبت رسول کی ایک پھلواری لگائی ہے ،جس میں انہوں نے اپنے محبوب کے شمائل و خصائل،آداب و اطوار،افعال و اقوال اور رفتار و گفتارکے گلاب و سوسن،جوہی و رات کی رانی،اور چمپاوچنبیلی کے پودے لگائے ہیں اور عاشقان رسول ؐکو ان کی خوشبوؤں سے مشام جاں کو معطر کرنے کی دعوت دی ہے، مقصود صرف یہ ہے کہ حبیب خدا کی ہر ادا،ہر اقدام ،ہر شیوہ اور ہر عمل کے نقش پا پر وہ چل پڑیں۔ شفا محبت مصطفی کے بحر ذخار سے اٹھتی ہوئی چند موجیں ہیں جن سے پیاسے دلوں کو سیراب کرنا مقصود ہے،یہ تصنیف دراصل آفتاب رسالتؐ کے لامحدود انوار و تجلیات کی چند کرنیں ہیں جن سے ایمان کے سارے طبق کو روشن ہونا چاہئے۔
قاضی عیاضؒ نے چاہا ہے کہ جمال مصطفی،کمال مصطفی اور حقوق مصطفی کی آگہی عطا کر کے سرد دلوں میںمحبت رسول کی چنگاری پیدا کر دیں،پھر اس چنگاری کو تپش سوزاں بنا کر ایمان و عبودیت میں ایسی حرارت پیدا کر دیںجس سے قلب روشن ،نگاہ پاکیزہ اور عزم و یقین تازہ و توانا ہو جائے۔زندگی کو کامیاب بنانے کا راز عبدیت میں پنہاں ہے اور یہی محبت رسولؐ کا مقام اعلی ہے،بار الہا:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے
حواشی
(۱) ازہار الریاض فی اخبار القاضی عیاض ،از ابوالعباس احمد بن محمد احمد مقری (۹۸۶۔۱۰۴۱ھ)، ۳/۱۰۷،یہ کتاب پانچ جلدوں میں قاہرہ سے ۱۹۳۹؁ میں شائع ہوئی ہے، ماخوذ از مقدمۂ شفا ۱/۱۳،از محقق :علی محمد بجاوی ،مطبع :دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۹۸۴ھ
(۲) مقدمۂ الشفاء بتعریف المصطفی ۱/۹
(۳) ایضا  ۱/۱۰
(۴) ایضا  ۱/۱۱
(۵) مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کشف الظنون۱/۴۹۹،از حاجی خلیفہ مقلب بہ کاتب چلپی(متوفی ۱۰۶۸ھ) طبع:استنبول
(۶) مقدمۂ کتاب  ۱/۳ -۴
(۷)ایضا ۱/۴
(۸) ایضا ۱/۵
(۹) ایضا ۱/۵
(۱۰)روضات الجنات ص ۵۱۶،الحیدریہ،طہران ،طبع ۱۳۹۰ھ،بحوالہ’’ کاروان ادب‘‘ جنوری – مارچ ۱۹۹۵ء، ص ۸۳،رابطہ ادب اسلامی،ندوۃ العلماء لکھنؤ
(۱۱) خطبات مدراس ،ص ۶۹،از علامہ سید سلیمان ندوی ؒ،طبع:نازپبلیشنگ ہائوس دہلی
(۱۲)ایضا ص ۷۸
(۱۳)فہرس الفہارس/ ۲۷۷
(۱۴)سیراعلام النبلاء،ج۲۰،ص:۲۱۶
(۱۵)الشفا بتعریف حقوق المصطفی تحقیق عبدہ علی کشک ،طبع دبی امارات ص ۱۳ و ۱۴
(۱۶) ملاحظہ ہو کشف الظنون  ۱/۴۹۹-۵۰۰، نیز مقدمۂ الشفاء  ۱/۶
(۱۷)من کتم علما الجمہ اللہ یوم القیامۃ بلجام من نار، سنن ترمذی :۲۶۴۹
(۱۸) مقدمۂ الشفا از مؤلف  ۱/۴ -۸
(۱۹) الشفا  ۱ /۷۷-۷۸
(۲۰)  ایضا  ۱/۷۹-۸۱
(۲۱) ایضا  ۱/۲۸۴-۲۸۷
(۲۲)ایضا  ۱ /۳۴۹-۳۵۵
(۲۳) سہ ما ہی رسالہ کاروان ادب جنوری – مارچ ۱۹۹۵ء  ص۱۰۱
(۲۴) کشف الظنون  ۱/۴۹۹

Tags

Share this post: