معاوضہ انشورنس برائے ڈاکٹرز: شرعی نقطہ نظر
( doctors indemnity insurance)
ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی
ڈاکٹروں کے معاوضہ انشورنس، نیز ڈاکٹروں کا انشورنس جو اس مقصد کے لیے ہو کہ اگر کوئی مریض یا اس کے تیمار دار ان کو جانی یا مالی نقصان پہنچادیں تو اس کی بھرپائی ہوسکے-اس کے بارے میں شرعی حکم متعین کرنے سے پہلے اس شکل کی درج ذیل تفصیلات کوسامنے رکھناضروری ہے:
ڈاکٹروں کے معاوضہ انشورنس کی خصوصیات
ڈاکٹروں کا معاوضہ انشورنس (doctors indemnity insurance)، جسے پیشہ ورانہ معاوضہ برائے ڈاکٹرز و طبی پریکٹیشنرز انشورنس (professional indemnity for doctors and medical practitioners insurance) بھی کہتے ہیں، اس کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
1- یہ غلطیوں، کوتاہیوں، یا طبی غفلت سے مربوط مریض کی جسمانی چوٹ، یا موت کے نتیجے میں ہونے والے دعوے کے سلسلے میں مالی تحفظ (coverage) فراہم کرتا ہے-
2- قانونی نوٹس کے جواب میں ہونے والے اخراجات کے لیے مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
3- صارفین کی عدالت سمیت قانون کی عدالت میں اپنے دفاع سے وابستہ اخراجات کے لیے مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
4- عدالتی فیصلوں سے پیدا ہونے والے تصفیہ کے اخراجات کے لیے مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
5- رازداری کی غیر ارادی خلاف ورزی کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
6- توہین اور بہتان سمیت ہتک عزت کے دعوے کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
7- ملازمیں کی دھوکہ دہی یا بے ایمانی کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
8- دستاویزات اور ڈیٹا (data) کے نقصان کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
9- دانشورانہ سرمایہ اور کاپی رائٹ (copyright) کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم کرتا ہے-
10- ڈاکٹروں کے لیے پیشہ ورانہ معاوضہ انشورنس (professional indemnity insurance for doctors) درج ذیل خطرات کے لیے مالی تحفظ (coverage) فراہم نہیں کرتا ہے:
(الف) پلاسٹک سرجری (plastic surgery)، وزن میں کمی، جینیاتی نقصان اور ایڈز (AIDS) کے طبی علاج کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے-
(ب) جرمانہ، تادیبی اور مجرمانہ حرکتوں اور مثالی نقصانات کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے-
(ج) جان بوجھ کر کئے گیے عمل، جان بوجھ کر عدم تعمیل اور جان بوجھ کر غفلت کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے-
(د) منشیات (narcotics) یا الکوحل (alcohol) یعنی نشہ آور اشیاء کے زیر اثر دواؤں کی مشق کے سلسلے میں مالی تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے-
شرعی احکام:1- اصولی اعتبار سے انشورنس کی ساری قسمیں ناجائز ہیں؛ کیونکہ ان میں درج ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں:
(الف) جوا، کہ امر موہوم کو مال حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے- اور قمار و جوا اسلامی شریعت میں قطعی طور سے حرام ہے-
جوا کی حرمت منصوص ہے- فرمان باری تعالیٰ ہے:
يا أيها الذين آمنوا إنما الخمر و الميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون. (5/ مائدہ: 90)-
(اے ایمان والو! شراب، جوا، بھینٹ چڑھانے کے استھان اور پانسہ گیری کے تیر (یعنی قسمت معلوم کرنے کے تمام طریقے) گندی چیزیں ہیں، شیطانی اعمال سے ہیں، لہٰذا ان سے بچو، ممکن ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ)
نیز تمام اہل علم و فقہ کا اس پر اتفاق ہے کہ امر موہوم کو مال حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا، قمار و جوا میں داخل ہے- مشہور فقیہ و مفسر اور اصولی علامہ جصاص رازی، ابو بکر احمد بن علی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- (370ھ/980ء) رقمطراز ہیں:
"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار، و أن المخاطرة من القمار”. (جصاص رازي، احکام القرآن 2/11، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1405ھ، تحقیق: محمد صادق قمحاوی، ع.أ.:5)-
(اہل علم کے درمیان قمار و جوا کی حرمت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور یہ کہ امر موہوم کو مال حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا بھی قمار و جوا میں شامل ہے)-
معاوضہ انشورنس برائے ڈاکٹرز میں بھی امر موہوم یعنی حادثہ پیش آنے کو مال حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے- اس لیے اس میں قمار پایا جاتا ہے-(اور "غرر” اور "جہالت فاحشہ” دونوں اسلامی شریعت میں ممنوع ہیں)-
حضرت ابو ہریرہ-رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اکرم-صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے:”نهى رسول الله-صلى الله تعالى عليه وسلم- عن بيع الحصاة، و عن بيع الغرر”. ( صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع الحصاة، والبيع الذي فيه غرر، حدیث نمبر 1513، سنن ابی داود، کتاب البیوع، باب في بيع الغرر، حدیث نمبر 3376)
( رسول کریم-صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے کنکری پھینک کر خرید وفروخت کرنے اور غرر پر مشتمل بیع و معاملہ کرنے سے منع فرمایا)-
"غرر” ایسے امر کو کہتے ہیں، جس کا انجام معلوم نہ ہو- علی بن محمد بن علی جرجانی مشہور بہ شریف رضی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- (و: 816ھ/1413ء) تحریر فرماتے ہیں:
” الغرر ما يكون مجهول العاقبة، لا يدرى أ يكون ام لا”. ( جرجانی، التعریفات، ص: 208)
( "غرر” ایسے معاملہ کو کہتے ہیں، جس کا انجام معلوم نہ ہو، یہ پتہ نہ ہو کہ وہ وجود میں آئے گا یا نہیں)-
حدیث بالا کی تشریح کرتے ہوئے مایہ ناز محدث و فقیہ امام ابو زکریا، محی الدین یحییٰ بن شرف نووی شافعی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ-( و: 676ھ/ 1277ء) قلمبند فرماتے ہیں:
"و أما النھي عن بيع الغرر فهو أصل عظيم من أصول كتاب البيوع… و يدخل فيه مسائل كثيرة غير منحصرة كبيع الآبق، و المعدوم، والمجهول، وما لا يقدر على تسليمه، وما لم يتم ملك البائع عليه، و بيع السمك في الماء الكثير، و اللبن في الضرع، و بيع الحمل في البطن، و بيع بعض الصبرة مبهما، و بيع ثوب من أثواب، و شاة من شياه، و نظائر ذلك، وكل هذا بيعه باطل؛ لأنه غرر من غير حاجة”.( نووى، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 10/156)
(بہر حال "غرر پر مبنی بیع” کی ممانعت تو یہ کتاب البیوع کے اصولوں میں سے ایک عظیم اصول ہے… اس میں بے شمار مسائل داخل ہیں، جیسے: بھگوڑے غلام، معدوم شے، مجہول چیز کی بیع، نیز اس چیز کی بیع جس کو حوالہ کرنے کی قدرت نہ ہو، اور جس چیز پر فروخت کنندہ کی ملکیت کامل نہ ہو، زیادہ پانی میں مچھلی کی بیع، تھن میں دودھ کی بیع، پیٹ میں حمل کی بیع، ڈھیر کے بعض حصہ کی مبہم طور پر بیع، کپڑوں میں سے کسی ( مبہم) کپڑے اور بکریوں میں سے کسی (مبہم) بکری کی فروختگی اور اس سے ملتے جلتے دیگر مسائل، ان ساری چیزوں کی بیع باطل ہے، اس لیے کہ اس میں بلا ضرورت غرر ہے)-معاوضہ انشورنس برائے ڈاکٹرز میں بھی بے یقینی کی کیفیت ہے کہ حادثہ پیش آئے گا یا نہیں، یہ معلوم نہیں ہے، اس لیے اس میں غرر فاحش ہے- نیز کتنی قسطوں کے بعد حادثہ پیش آئےگا، یہ بھی پتہ نہیں ہے، لہٰذا اس میں جہالت فاحشہ بھی ہے
(ب) سود، کہ مدت کی مہلت کے بدلہ زائد رقم ادا کی جاتی ہے- اور سود شریعت میں سخت حرام ہے- اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ( و أحل الله البيع و حرم الربا). (2/ بقرہ: 275)- ( حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال قرار دیا ہے، اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے)-ایک حدیث میں ہے جو حضرت ابو ہریرہ – رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے مروی ہے کہ نبی کریم – صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے سات ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک سود خوری کو قرار دیا، چنانچہ ارشاد فرمایا:
"اجتنبوا السبع الموبقات. قالوا: يا رسول الله! و ما هن؟ قال: الشرك بالله، والسحر، و قتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، و أكل الربا، و أكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، و قذف المحصنات المؤمنات الغافلات”. (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2766)
(سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو- صحابہ کرام – رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین- نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ نبی کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے جواب دیا: 1- اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، 2- جادو، 3- کسی جان کو ناحق قتل کرنا، 4- سود کھانا، 5- یتیم کا مال کھانا، 6- جنگ کے میدان سے راہ فرار اختیار کرنا، 7- بھولی بھالی پاکدامن مومنہ خواتین پر تہمت لگانا)-
3- غرر ( بے یقینی کی کیفیت)، یعنی معلوم نہیں کہ جس حادثہ یا خطرہ کے لیے انشورنس پالیسی لی گئی ہے، وہ پیش آئے گا، یا نہیں-
4- جہالت فاحشہ، یعنی حد سے بڑھی ہوئی ناواقفیت، چنانچہ معلوم نہیں کہ کتنی قسطوں کی ادائیگی کے بعد حادثہ پیش آئے گا، ہوسکتا ہے کہ دو تین قسطوں کے بعد ہی حادثہ پیش آجائے، اور ممکن ہے کہ ساری قسطوں کی ادائیگی کے بعد بھی خطرہ پیش نہ آئے-اور ” غرر” اور "جہالت فاحشہ” دونوں اسلامی شریعت میں ممنوع ہیں-نیز ڈاکٹروں کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے؛ کیونکہ ان کی آمدنی اتنی ہوتی ہے کہ اس طرح کے خطرات پیش آنے کی صورت میں وہ خود اپنی آمدنی سے ان کی تلافی کر سکتے ہیں-لہٰذا اصولی اعتبار سے معاوضہ انشورنس برائے ڈاکٹرز (doctors indemnity insurance) حرام ہے-
2- ڈاکٹروں کے لیے یہ بھی ناجائز ہے کہ مریض یا اس کے تیمار دار ان کو جانی یا مالی نقصان پہنچادیں، تو اس کی بھرپائی کا انشورنس کرائیں؛ کیونکہ اکثر ریاستوں میں اس طرح کی توڑ و پھوڑ کو قانوناً جرم قرار دیا گیا، اور ضائع کردہ اشیاء کے معاوضہ کو لازم قرار دیا گیا ہے- اگر کسی صوبہ میں یہ قانون نہ بھی ہو، تو اس طرح کے واقعات کا پیش آنا شاذ و نادر ہے، اور شاذ و نادر چیزوں کا شریعت میں اعتبار نہیں ہے- نیز ڈاکٹروں کی اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ اس طرح کے انشورنس کی ان کو ضرورت نہیں ہے-
3- اگر کسی ملک میں "ڈاکٹروں کے لیے پیشہ ورانہ معاوضہ انشورنس” (professional indemnity insurance for doctors) قانونی طور پر لازم ہو، تو ایسی صورت میں انشورنس کرانے والے ڈاکٹر کو گناہ نہیں ہوگا؛ کیونکہ وہ قانوناً مجبور ہے- لیکن اگر انشورنس کرائے گئے خطرات پیش آگئے، اور ڈاکٹر کی مالی حالت بہتر ہے، وہ خود اپنے مال سے معاوضہ ادا کر سکتا ہے، تو پھر اس صورت میں کمپنی نے اس کی طرف سے اس کی جمع کردہ رقم سے جو زائد رقم ادا کی ہے، اس زائد رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر فقراء و مساکین کو صدقہ کرنا لازم ہے- شرعی متبادل:ڈاکٹرز حضرات اور میڈیکل پریکٹیشنرز (medical practitioners) یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی تنخواہ سے ایک یا دو فیصد رقم تبرع کے طور پر ” تکافل فنڈ” میں جمع کریں، اور اس طرح کے خطرات پیش آنے کی صورت میں اس فنڈ سے رقم ادا کریں- اگر خطرات پیش نہ آئیں، تو جمع کردہ تناسب سے رقم باہم تقسیم کرلیں، یا مستقبل کے لیے محفوظ کرلیں، یا کسی دینی ادارہ کو بہ طور تعاون دے دیں۔