صحیح بخاری: چند نمایاں خصوصیات
مولانا بلال عبدالحی حسنی ندوی
ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ
کتاب اللہ کے بعد دنیا میں جس کتاب کو سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ یہی ’’صحیح بخاری‘‘ ہے، جس کو ’’أصح الکتب بعد کتاب اﷲ‘‘کہا گیا، اور اس کے مصنف کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب ملا، یہ وہ کتاب ہے جس کی صحت پر علماء متفق ہیں، امام صاحب موصوف نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے اس کا انتخاب کیا ہے، مگر یہ بات بھی واضح کردی:
’’لم أخرج فی ھذا الکتاب الا صحیحا وما ترکت فی الصحیح أکثر‘‘(۱)
( میں نے اس کتاب میں صرف صحیح روایات لی ہیں، اور جو صحیح روایات چھوڑی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں)
سبب تالیف
کتاب کی تالیف کا واقعہ خود امام صاحب کی زبانی سنئے وہ فرماتے ہیں:
ہم اسحاق بن راہویہ کی مجلس میں تھے، ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ کاش تم میں سے کوئی ایسی محقق کتاب تیار کردیتا جس میں اللہ کے رسولﷺ کی صحیح، ثابت شدہ سنتوں کو بیان کردیتا، امام صاحب فرماتے ہیں بس یہ بات میرے دل کو لگ گئی اور میں نے اس کتا ب کی تصنیف کا کام شروع کردیا۔ (۲)
اس سلسلہ کا ایک خواب بھی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام صاحب کے حوالہ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
میں نے خواب دیکھا کہ میں اللہ کے رسولﷺکے سامنے کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک پنکھا ہے جس سے میں آپﷺ کے اوپر سے مکھیاں اڑا رہا ہوں، میں نے بعض تعبیر دینے والوں سے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ تم اللہ کے رسولﷺ کی طرف منسوب غلط باتوں کو دفع کروگے۔(۳)
تصنیف کتاب، امام صاحب کا اہتمام
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب کی تصنیف اور احادیث کے انتخاب میں فنی دیدہ وری کے ساتھ غایت درجہ ادب و احترام کا اہتمام فرمایا، وہ خود فرماتے ہیں:
ما صنفت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذلک وصلیت رکعتین۔(۴)
(کتاب صحیح میں جب میں کوئی حدیث لکھتا تو اس سے پہلے غسل کرتا اور دو رکعتیں ادا کرتا)
مزید فرماتے ہیں:
صنفت کتاب الجامع فی المسجد الحرام و ما أدخلت فیہ حدیثا حتی استسخرت اﷲ تعالیٰ وصلیت رکعتین و تیقنت صحتہ۔ (۵)
(میں نے اپنی کتاب جامع مسجد حرام میں لکھی اور کوئی بھی حدیث میں اس میں لکھتا تھا تو اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا، دو رکعت نماز ادا کرتا اور جب اس کی صحت کا یقین ہوجاتا تو میں اس کو کتاب میں درج کرتا)
حدیث کے علاوہ تراجم ابواب لکھتے وقت بھی ان کے اہتمام کا حال یہ تھا کہ اس کے لیے بھی نماز ادا فرماتے اور یہ بھی منقول ہے کہ یہ سب تراجم امام صاحب نے مسجد نبوی میں ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر تحریر فرمائے ہیں۔
چھ لاکھ حدیثوں میں سے یہ کل سات ہزار سے کچھ زائد روایات کا انتخاب ہے، جو سولہ سال کی مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
امام صاحب نے کتاب مکمل ہونے کے بعد اپنے اساتذہ حضرت یحی بن معین، حضرت علی بن المدینی اور حضرت امام احمد بن حنبل کی خدمت میں پیش کی اور ان سب حضرات نے اس کی تحسین فرمائی۔
امام صاحب فرماتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گا، اور برکت عطا فرمائے گا۔ (۶)
اللہ تعالیٰ نےامام صاحب کی امید کو کس طرح پورا فرمایا اس کو ہر وہ شخص جانتا ہے جس کو ذرا بھی علم حدیث سے شغف ہے۔
خصوصیات و امتیازات
اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے، اس کے ساتھ یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ یہ کتاب مختلف علوم و فنون کی جامع ہے، امام صاحب نے ان تمام تصنیفات سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جو ان سے پہلے تصنیف کی جا چکی تھیں، اور اپنے حسن ذوق سے ایک ایسا انتخاب امت کے سامنے پیش کردیا جس کی اصحیت پر پوری امت متفق ہے، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ امام بخاری دو سو سال کے بعد نمودار ہوئے اور ان سے پیشتر علماء علوم دینیہ میں مختلف فنون کے اندر تصنیفیں کرچکے تھے، چنانچہ امام مالک اور سفیان ثوری نے فقہ میں تصنیف کی تھی، اور ابن جریج نے تفسیر میں اور ابو عبید نے غریب قرآن میں اور محمد بن اسحاق اور موسی بن عقبہ نے سیر میں اور عبد اللہ بن مبارک نے زہد و ومواعظ میں اور کسائی نے بدء الخلق اور قصص انبیاء میں اور یحی بن معین نے صحابہ و تابعین کے حالات میں نیز متعدد علماء کے فن رؤیا، ادب، طب، شمائل، اصول حدیث، اصول فقہ اور رد مبتدعین مثلاً: رد جہمیہ پر رسائل موجود تھے، امام بخاری نے ان تمام مدونہ علوم پر غور کیا اور جزئیات وکلیات کی تنقید کی پھر ان علوم کا ایک حصہ کہ جس کو انہوں نے بصراحت یا بدلالت ان صحیح حدیثوں میں پایا کہ جو بخاری کی شرط پر صحیح تھیں، اسے اپنی کتاب میں درج کیا تاکہ ان علوم کی بنیادی چیزوں کے متعلق مسلمانوں کے ہاتھ میں ایسی حجت قاطع موجود رہے کہ جس میں تشکیک کا دخل نہ ہو۔ (۷)
اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی اصحیت ہے، امام صاحب نے احادیث کے انتخاب کے لیے جو اصول و ضوابط طے فرمائے وہ اتنے مضبوط و مستحکم ہیں کہ ان کے بعد کسی کمزور روایت کے کتاب کے اندر آجانے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، انہوں نے چھ لاکھ احادیث میں سے یہ انتخاب پیش کیا ہے اور ایک ایک حدیث کے اندراج میں جو اہتمام فرمایا اس کا ذکر پہلے گذر چکا، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو جو مقولیت و شہرت حاصل ہوئی وہ کتاب اللہ کے بعد کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔
ایک بڑے محدث امام ابو زید مرزوی فرماتے ہیں:
میں مختلف کتابیں پڑھاتا تھا، ایک روز میں نے اللہ کے رسولﷺ کو خواب میں دیکھا آپ فرمارہے ہیں کہ ابوزید! تم میری کتاب کب پڑھاؤگے؟ میں نے دریافت کیا اللہ کے رسول! آپ کی کتاب کون سی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جامع محمد بن اسماعیل۔ (۸)
تراجم ابواب
صحیح بخاری کی تین ایسی خصوصیتیں ہیں جن میں کوئی اس کا ہمسر نہیں، ایک اصحیت کتاب، دوسری جامعیت اور تیسری خصوصیت تراجم ابواب کی ہے، اس کو امام صاحب نے مستقل ایک فن بنادیا ہے، اسی لیے یہ بات مشہور ہے کہ ’’فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘ (امام بخاری کا تفقہ اور فہم ان کے تراجم ابواب میں ہے) یہ تراجم علوم و فنون کا خزانہ ہیں۔
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
فن حدیث سے اشتغال رکھنے والوں کے نزدیک خواہ وہ درس و تدریس سے متعلق ہوں یا تصنیف و تالیف اور شرح و تحقیق میں مشغول ہوں، یہ بات طے شدہ ہے کہ اس کتاب میں سب سے زیادہ دقیق بحث ابواب و تراجم کی ہے، اور اس میں بڑی وسعتیں اور گہرائیاں ہیں، حتی کہ علماء و محدثین میں یہ مشہور ہے کہ بخاریؒ کا تفقہ تراجم بخاری سے ظاہر ہے، اور یہ اس کتاب کا ایسا شعار بن گئے ہیں کہ ان سے یہ کتاب دوسری کتب صحاح میں (ان کی قدر و قیمت کے اعتراف کے ساتھ) ممتاز ہے، اور اس طرح سے یہ علماء کی ذہانت، ان کی علمی حِس، غور و فکر میں گہرائی، فہم کتاب پر غور، حل مشکلات اور مصنف کتاب کے اغراض و مقاصد تک رسائی کا ایک ایسا پیمانہ بن گئے ہیں کہ جب تک کہ کوئی مصنف یا مدرس اس سلسلہ کی اہم معلومات نہ رکھتا ہو، اور اس کے پاس کچھ ایسی توجیہات یا کہا جاسکتا ہے کہ ایسی چابی نہ ہو جس کے ذریعہ وہ اس کے مقفل ابواب کو کھول سکے، اور اس کی گہرائیوں میں جاسکے، اس وقت تک اس کی علمی مہارت، تدریسی تفوق و امتیاز، شروح و حواشی اور اقوال ائمہ و محدثین پر عبور اور تدریس پر اس کی مزاولت و ممارست کی گواہی نہیں دی جاسکتی ہے، اس لیے علماء نے ہر زمانہ میں اس کا خاص اہتمام کیا اور اس میدان میں اپنی توانائیاں اور تمام تر علمی صلاحیتیں نچوڑ کر رکھ دیں، کوئی ایسا ادیب یا لغوی ہمارے علم میں نہیں کہ جس نے کسی شعر کی گہرائی تک جانے کے لیے، اس کی حقیقت تک رسائی کے لیے اور شاعر کے مطالب و مفاہیم کے سمجھنے کے لیے اتنی خامہ فرسائی کی ہو، جتنی صحیح بخاری کے شراح اور اس کا درس دینے والوں نے مؤلف کتاب کے مقاصد و مطالب کو سمجھنے کے لیے کی۔
علمی تاریخوں سے طویل اشتغال کے باوجود ہم علماء و حکماء کی کسی کتاب کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس فن کے ماہرین نے اس قدر اس پر اپنی توجہ دی ہو، اس کی باریکیوں میں گئے ہوں، اس کی مشکلات کو حل کیا ہو، حتی کہ بال کی کھال نکالی ہو، جتنا محدثین نے صحیح بخاری کے ساتھ کیا، اور یہ صرف مصنف کتاب کے اخلاص، فن حدیث کے لیے یکسو ہوجانے، اس کے لیے جہد مسلسل کرنے اور اپنے آپ کو فنا کردینے کا نتیجہ تھا، ان ابواب و تراجم میں غموض کی وجہ سے مصنف کتاب کے مختلف النوع اور عمیق اغراض و مقاصد، ان کی ذہانت و ذکاوت، فہم حدیث میں ان کا تعمق و وسعت اور کتاب کو زیادہ سے زیادہ جتنا ممکن ہوسکے مفید بنانے کی خواہش و کوشش ہے، ان کی مثال اس شہد کی مکھی کی ہے جو پھول کے آخری قطرہ کو بھی چوس لیتی ہے، پھر لوگوں کے لیے اس کو صاف و شفاف شہد میں تبدیل کر دیتی ہے۔ (۹)
تراجم ابواب کی شرح وترجمانی کے لیے ائمہ و علماء نے مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، علماء متقدمین کے علاوہ ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا نام اس سلسلہ میں نمایاں ہے، جن کی کتاب ’’رسالۃ شرح تراجم البخاری‘‘ مشہور ہے، ان کے علاوہ اخیر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی کتاب’’الأبواب والتراجم لصحیح البخاری‘‘ اس موضوع پر منفرد کتاب ہے۔
ائمہ کا اعتراف و تحسین
صحیح بخاری پر جتنا کام ہوا اور ہر دور میں علماء نے جس طرح اس کی خدمت کی اور اعتراف و تحسین کے کلمات کہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے، ذیل میں چند اہم ائمہ کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں۔
شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جہاں تک اس کتاب کی تصنیف کا تعلق ہے تو یقیناً یہ تمام تالیف کردہ کتابوں میں صحیح ترین کتاب ہے اور ہر دور میں علماء نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے، وہ مختلف فنون کے اعتبار سے بھی اتنی حسین اور کتابوں سے فائق ہے، اور صحاح میں اس کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو کسی کو حاصل نہیں، اس کی خوبی اور اہمیت کی گواہی بڑے بڑے ائمہ اور فضلاء نے دی ہے تو اس کے فوائد شمار سے باہر ہیں اور لامحدود ہیں۔ (۱۰)
امام ذہبی تحریر فرماتے ہیں:
جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو وہ اسلام کی کتابوں میں کتاب اللہ کے بعد سب سے اہم اور افضل ہے اور وہ اس دور میں لوگوں کے لیے سند کے اعتبار سے سب سے بلند ہے۔(۱۱)
امام نسائی فرماتے ہیں کہ:
ان کتابوں میں سب سے بہتر بخاری کی کتاب ہے۔(۱۲)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
وأجمع على قبوله وصحة ما فيه أهل الإسلام۔(۱۳)
صحیح بخاری کی مقبولیت و صحت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ کے الفاظ یہ ہیں:
فليس تحت أديم السماء كتاب أصح من البخاري ومسلم بعد القرآن۔(۱۴)
قرآن مجید کے بعد آسمان تلے بخاری و مسلم سے زیادہ صحیح اور کوئی کتاب نہیں۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:
أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ۔(۱۵)
محدثین کا اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو بھی روایات ہیں وہ متصل ہیں، مرفوع ہیں اور قطعی طور پر صحیح ہیں، اور ان دونوں کتابوں کی سند ان کے مصنفین تک تواتر سے ثابت ہے، اور جو بھی ان کی اصحیت کو کم کرے تو وہ مبتدع ہے اور مسلمانوں کے راستہ سے ہٹا ہوا ہے۔
تلقی بالقبول
کتاب کی اہمیت، ضرورت، افادیت کے پیش نظر علماء نے ہمیشہ ہر لحاظ سے اس کتاب کے ساتھ اہتمام کیا، درس کے اعتبار سے، شروح و حواشی کے اعتبار سے، یہاں تک کہ یہ اہتمام بھی رہا کہ مصیبتوں اور آفات کے وقت ختم بخاری کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ فضل کا معاملہ فرماتا تھا، اس سلسلہ کے متعدد واقعات موجود ہیں۔
شروح وحواشی
صحیح بخاری کی جتنی شرحیں لکھی گئیں تھیں اس میں کوئی کتاب اس کی شریک نہیں ہے، عزیز گرامی مولوی اسامہ امین ندوی سلمہ نے اس کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا، اور شمار کی کوشش کی تو متعلقات بخاری کی تعداد سات سو سے تجاوز کرگئی جس میں صرف شروح کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔
ان تمام شروحات میں جن دو شرحوں کو قبول عام حاصل ہوا ان میں سرفہرست حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’فتح الباری‘‘ ہے اور دوسری ممتاز ترین شرح علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’عمدۃ القاری‘‘ ہے، دونوں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں، فنی لحاظ سے حافظ صاحب کی شرح ممتاز ہے، اور حل لغات اور حسن ترتیب کے لحاظ سے ’’عمدۃ القاری‘‘ لاجواب ہے۔
حواشی:
(۱)ہدی الساری لمقدمۃ فتح الباری،ص:۹
(۲)ہدی الساری لمقدمۃ فتح الباری،، ص: ۹
(۳)فتح الباری،مقدمہ،ج۱،ص:۷،احمد بن علی بن حجرالعسقلانی،طبع:دارالمعرفۃ،بیروت،۱۳۷۹
(۴)ھدی الساری لمقدمۃ فتح الباری،، ص: ۶۸۳
(۵)ھدی الساری لمقدمۃ فتح الباری،، ص: ۶۸۳
(۶)عمدۃ القاری، ۱؍۵
(۷)مکتوبات شاہ ولی اللہ، ص: ۱۷۰، ماخوذ از: ابن ماجہ اور علم حدیث: ۲۱۲
(۸)فتح الباری،ج۱،ص:۴۸۹
(۹)مطالعہ حدیث کے اصول و مبادی: ۳۷-۳۹
(۱۰)ارشادالساری شرح صحیح البخاری،مقدمہ،ص:۲
(۱۱)تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام،شمس الدین الذہبی،ج۶،ص:۱۴۰،ط:دارالغرب الاسلامی ، بیروت،۲۰۰۳
(۱۲)فتح الباری ،ج۱،ص:۱۰
(۱۳)ارشادالساری،ج۱،ص:۲۹
(۱۴)مجموع الفتاوی ،علامہ ابن تیمیہ،ج۱۸،ص:۷۴،طبع:مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف،المدینۃ المنورۃ،۲۰۰۴
(۱۵)حجۃ اللہ البالغۃ،الشاہ ولی اللہ الدہلوی،ج۱،ص:۲۳۱،طبع:دارالجیل ،بیروت،لبنان،۲۰۰۵