تجاویز دو روزہ فقہی سمینار
December 10, 2024
مجلس تحقیقات شرعیہ ،ندوۃ العلماء، لکھنو کادو روزہ فقہی سیمینار
محمد مرغوب الرحمٰن ندوی
(باحث :مجلس تحقیقات شرعیہ ، ندوۃا لعلماء ،لکھنؤ )
انیسویں اور بیسویں صدی میں صنعتی انقلابات کے نتیجے میں زندگی کے مختلف میدانوں میں بے شمار نئے پیچیدہ مسائل نے جنم لیا، معاشیات کی نئی نئی شکلیں ظہورپذیر ہوئیں، صنعت و حرفت کے میدان میں ہزاروں نئی مصنوعات وجود میں آئیں، سائنسی ترقیات کے نتیجے میں انسانوں نے فضاؤں اور سمندروں کو مسخر کیا، ستاروں پر کمند ڈالی، ان غیر معمولی تغیرات نے ہزاروں نئے مسائل پیدا کیے، جن پر شرعی اصولوں کی روشنی میں غور کرنا اور حکم شرعی طے کرنا ضروری ہو گیا، اس مرحلے میں طبقہ علماء میں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ ان نئے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بابصیرت علماء اور فقہاء کے اجتماعی غور و خوض اور اجتماعی استنباط و اجتہاد کی حد درجہ ضرورت ہے۔
اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ نے۱۹۶۳ءمیں اپنے چند بلند پایہ اکابرین و معاصرین کے مشورے کے بعد مجلس تحقیقات شرعیہ قائم فرمایا، جس کی تاسیس کا اصل مقصد یہی تھا کہ عالمی اور ملکی سطح پر اقتصادی انقلابات اور تمدنی و سماجی تبدیلیوں کے پس منظر میں پیش آنے والے نئے مسائل اور وہ قدیم مسائل جو ازسر نو غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں، ان کے حل کی جانب ایک سنجیدہ اور ٹھوس قدم اٹھایا جائے، چنانچہ مجلس کی دعوت پر ملک کے چوٹی کے علماء جمع ہوئے اور اجتماعی شکل میں مسائل پر غور و خوض کا ایک سلسلہ شروع ہوا، یہ تجربہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے، مجلس کے قیام کے بعد ابتدائی چند سالوں (۱۹۶۳ء- ۱۹۷۱ء ) میں تین موضوعات: انشورنس، رویت ہلال وغیرہ پر باتفاق آراء جامع تجاویز منظور کی گئیں، یہ مسائل اس وقت کے لحاظ سے جہاں نہایت اہم تھے وہیں ملک کے علماء و فقہا اور خواص امت کی فوری رہنمائی کے طالب بھی تھے۔کسی وجہ سے ۱۹۷۱ءکے بعد یہ اجتماعی ادارہ انفرادی شکل اختیار کر گیا، اس لیے اس کے بعد سے ۲۰۲۲ءتک اجتماعی غور و خوض کے لیے کوئی اجلاس منعقد نہ ہو سکا۔ بحیثیت ناظم مولانا برہان الدین سنبھلیؒ تن تنہا اس ادارے کے تحت علمی اور تحقیقی کام تاحیات کرتے رہے، نئے موضوعات پر مضامین اور کتابیں لکھتے رہے۔
۲۰۲۰ءمیں مجلس تحقیقات شریعہ کا دوبارہ احیا ہوا،اور اس کے تحت متعدد علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پھر سے اجتماعی غورو خوض کے لیے سالانہ فقہی سیمینار کا سنہرا سلسلہ شروع کیا گیا،۲۳/ ۲۴نومبر۲۰۲۲ءکا دو روزہ فقہی سیمینار اس سنہرےسلسلے کی پہلی کڑی تھا، جس میں کرونا کے پیدا کردہ مسائل اور سرکاری قرضوں کی حلت و حرمت جیسے اہم موضوعات پر تجاویز منظور کی گئیں اور ۲۰تا ۲۲/ اکتوبر ۲۰۲۳ءکا سہ روزہ فقہی سیمینار اس کا دوسرا کامیاب سلسلہ تھا، جس میں نصاب زکوۃ کا معیار اور ضم نصاب، مساجد میں خواتین کی آمد اور عوامی مقامات پر نماز پڑھنے کے سلسلے میں متوازن و معتدل تجاویز منظور ہوئیں، اس کامیاب سلسلہ کی تیسری کڑی دو روزہ چھٹا فقہی سیمینار ہے، جو۳۰ /نومبر ویکم دسمبر ۲۰۲۴ ء بروز سنیچر اور اتوار دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے عالی شان علامہ حیدر حسن خان ٹونکی ہال میں منعقد ہوا، و یسے تو ہال میں موجود اعلی قسم کی کرسیاں، عمدہ انداز کی میزیں، دیواروںمیں سجے ہوئےروشن فانوس ، چھت میں نصب فروزاںقندیلیںاور وہاں کی تزئین و آرائش وغیرہ ہال کی رونق کے لیے کافی ہے، لیکن ہال میں جلوہ افروز ملک و بیرون ملک سے تشریف لائے آسمان فقہ و شریعت کے درخشاں ستاروں نے ہال کی رونق کو دوبالا کر رکھا تھا، جن میں مولانا رحمت اللہ کشمیری، مفتی حبیب اللہ قاسمی (اعظم گڑھ)، مفتی احمد یعقوب دیولوی (گجرات)،مولانا فضل الرحیم مجددی (جے پور)، مفتی نذیر احمد کشمیری، مفتی اختر امام عادل قاسمی (سمستی پور، بہار)، ڈاکٹر محمد اقبال مسعود ندوی (کناڈا)، ڈاکٹر سعید الرحمن فیضی ندوی (کناڈا)، مولانا ولی اللہ ندوی (امریکہ)، مولانا عمر صوبیدار (کناڈا)، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (دہلی)، مولانا بدر احمد مجیبی ندوی (پھلواری شریف پٹنہ)، مفتی محمد ذاکر نعمانی (جے پور)، ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی (حیدرآباد)، مفتی محمد عثمان بستوی (جونپور)، قاضی مشتاق ندوی (بھوپال)، مفتی ثناء الہدی قاسمی (پٹنہ)، مولانا عتیق احمد بستوی، مفتی محمد زید مظاہری ندوی، مفتی محمد ظفر عالم ندوی، مفتی محمد مستقیم ندوی، مفتی محمد مسعود حسن حسنی ندوی اور مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی (حیدرآباد) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
اس سیمینار کے تین موضوعات تھے: ۱- یسر تیسیر اور عصر حاضر کے تقاضے ۲- جانوروں کی مصنوعی افزائش ۳- بیع معدوم کی جدید شکلیں، بظاہر تو یہ سیمینار ۳۰ نومبر کی صبح ساڑھے نو بجے شروع ہوا اور یکم دسمبر کو دو بجے دن میں ختم ہو گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سیمینار کی تیاری ماہ اپریل۲۰۲۴ سے ہی شروع ہو گئی تھی، اسی ماہ مذکورہ بالا موضوعات غور و فکر کے بعد طے کیے گئے، ان تینوں موضوعات پر سوال نامہ تیار کیا گیا اور مجلس کی جانب سے ملک کے چیدہ علماء اور چنندہ ارباب فقہ و فتاوی کی خدمت میں ارسال کیا گیا، تین ماہ میں علماء و فقہاء کی جانب سے مجلس کو مقالات و جوابات موصول ہوئے، اول الذکر موضوع پر ۱۷/ مقالے، ثانی الذکر پر ۳۰/ اور ثالث الذکر پر۳۲/ مقالے آئے، پھر مجلس ان مقالات کی تلخیص اور عرض مسئلہ کی تیاری میں مصروف ہوگئی۔ سیمینار کے مدعوین و مندوبین کی فہرست تیار کرکے ماہ اگست میں ان کے خدمت میں سیمینار کا دعوت نامہ بھیجا گیا۔ ماہ نومبر کے پہلے ہفتہ سے ہی مجلس کے معاونین اور رفقاء نے سیمینار کو کامیاب بنانے کے لیے شبانہ روز انتھک محنتیں اور کوششیں کیں، تب جا کر الحمدللہ یہ دو روزہ فقہی سیمینار کامیاب اورہو پایا اور پانچ نشستوں میں مذکورہ بالا تینوں موضوعات پر طویل علمی بحث و مناقشے اور غور و خوص کے بعد اہم تجاویز منظور ہوئیں۔ نشستوں کی مختصر تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
افتتاحی نشست
اس سیمینار کی افتتاحی نشست مورخہ ۳۰/نومبر ۲۰۲۴کی صبح ساڑھے نو بجے ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا بلال عبدالحی حسنی ندوی کی صدارت میں منعقد ہوئی ،نشست کا آغاز قاری محمد ریاض مظاہری (صدر :شعبہ تجوید و قرات، دارالعلوم ندوۃ العلماء) کی روح پرور تلاوت سے ہوا۔کلیم الدین اور ان کے رفقاء نے ترانہ ندوہ پیش کیا ۔ پھرمجلس تحقیقات شرعیہ کے سکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی نے شرکائے سیمینار کا استقبال کیا اور اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا ’’نئے مسائل میں اجتماعی اجتہاد کا سلسلہ قدیم دور سے چلا ا ٓرہا ہے ،یہ بہت نازک ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ دارانہ عمل وہی خدا ترس اور زمانہ شناس علماء و فقہاء انجام دے سکتےہیں ،جو شرعی دلائل پر گہری اور وسیع نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اجتہاد واستنباط کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ نئے مسائل کے پیش آنے کی رفتار بہت تیز ہے ،اس کے لیے متعدد اداروں کی ضرورت ہے ،جو اجتماعیت کے ساتھ اس فریضے کو انجام دے سکیں۔‘‘ان کا کلیدی خطبہ کتابچہ کی شکل میں تھا، جو سامعین کے درمیان تقسیم کیا گیا، اس نشست میں چند مہمانان کرام نے بھی اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا :
مولانا محمد زکریا سنبھلی( عمید: کلیۃ الشریعہ واصول الدین ،دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ’’ یہ امت آخری امت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں ،اس کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا ۔قران آخری کتاب ہے ، اب کوئی نیا دین نہیں آئے گا ۔یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ روز بدلتے ہوئے حالات میں اصول شریعت پر غور کریں اور نئے مسائل کا حل پیش کریں ۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ اجتہاد کے لیے بحث و تحقیق اور فہم وفراست کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف علماء ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالدسیف اللہ رحمانی سیمینار کے مدعوخصوصی تھے ، لیکن اپنی علالت کی وجہ سے شریک سیمینارنہ ہو سکے، ان کا وقیع تحریری پیغام ان کے فرزندارجمند مفتی عمرعابدین قاسمی مدنی (نائب ناظم: المعہد العالی الاسلامی ،حیدرآباد) نے پڑھ کر سنایا، جو شرکائے سیمینار کے لیے باعث مسرت و شادمانی ہوا۔ مولانا رحمانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ’’ علمی مسائل میں اجتماعی روش پسندیدہ عمل ہے، عہد صحابہ میں بھی اس کا معمول تھا، فقہائے کرام نے اس روش کو اپنایا ،ہندوستان میں اس کا آغاز مولانا علی میاں ندویؒ نے مجلس تحقیقات شرعیہ کے قیام کے ذریعے کیا ۔‘‘
ڈاکٹرمحمد اقبال مسعود ندوی ( چیرمین :کناڈین کونسل آف امامس ، کناڈا)نے اپنے تاثراتی خطاب میں سیمینار میں شرکت پر خوشی کے اظہار کے بعد کہا کہ’’ ہم نے ندوۃ العلماء سے فقہی توسع اور اعتدال سیکھا۔ آج احیاء فقہ اور عملی زندگی میں اس کی تطبیق کی ضرورت ہے۔‘‘مزید کہا کہ’’ امت کو اسلام سے جوڑنا اور دین پر اس کا اعتماد بحال رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر سعید الرحمن فیضی ندوی (صدر:الندوہ اسلامک ایجوکیشنل سینٹر ، کناڈا)نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ’’ یہ میرے لیے عزت و شرف کی بات ہے کہ مجھے اس سیمینار میں شرکت کا موقع مل رہا ہے ۔‘‘ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ’’ مجلس تحقیقات شرعیہ کی کاوش خوش آئند ہے ، اس سے نئے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی ،یہ ندوۃالعلماء کی فکر کا مظہر ہے۔‘‘ مولانا رحمت اللہ کشمیری (ناظم: دار العلوم رحیمیہ ، بانڈی پورہ ،کشمیر ) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ میں اس سیمینار کے انعقاد پر ندوۃالعلماء کے ذمہ داروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ فقہی اداروں کے درمیان تعاون اور ربط و تعلق ضروری ہے۔‘‘ قاضی مشتاق ندوی (بھوپال )نےاپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ آج ایسے اداروں کی سخت ضرورت ہے، جو نئے مسائل کو حل کر سکیں۔‘‘نیزکہا کہ ’’عصرحاضر میں علماء اور عوام کے درمیان بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، اس طرح کے سیمیناروں کے ذریعے ان شاءاللہ یہ خلا پورا ہوگا ۔‘‘کناڈاسے تشریف لائے مہمان ڈاکٹر عمر صوبیدار نے بھی انگریزی میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ۔
افتتاحی نشست کے صدر نشیںناظم ندوۃ العلماء مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی نے اپنےبصیرت افروز صدارتی خطاب میں کہا کہ’’ آج کی دنیا تغیر پذیر ہے، حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ،علماء کے سامنے نئے نئے چیلنجز آرہے ہیں ،ایسے میں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدیدتقاضوں کو سمجھیں اور امت کے سامنے نئےمسائل کا حل پیش کریں ۔‘‘انہوں نے علماء پر زور دیا کہ وہ عوام کے سامنے دین کو آسان انداز میں پیش کریں۔ نیزکہا کہ’’ کتاب و سنت دین کی بنیاد ہیں ،جن میں دین کے اصول وضابطے بیان کیے گئے ہیں ،جو قیامت تک آنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘ مزید کہا کہ ’’آج نئی نسل کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں اور ان کو دین سے بیزار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنا علمائےکرام کی ذمہ داری ہے۔‘‘ آپ نے کہا کہ’’ نئے مسائل میں اجتہاد کرتے وقت اعتدال اور توازن ضروری ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس امت کو درمیانی امت بنایا ہے، اور یاد رکھیں کہ اجتہاد میں اصل کتاب و سنت ، منہج سلف اور فہم سلف ہے، اوران سے انحراف بے راہ روی اور گمراہی ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ’’ ندوۃ العلماء کی فکر اعتدال وتوازن کا نمونہ ہے۔‘‘
افتتاحی نشست کی نظامت کافریضہ استاذ فقہ و حدیث دار العلوم ندوۃالعلماءمفتی محمد ظفر عالم ندوی نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ مولانا منور سلطان ندوی (استاذ:دار العلوم ندوۃ العلماء)نے مجلس تحقیقات شرعیہ کی یک سالہ کارکردگی کی مختصراور جامع رپورٹ پیش کی، اس رپورٹ نے سامعین کے سامنے مجلس کی سرگرمیوں اور دیگر گوشوں کو اجاگر کیا، یہ رپورٹ یقینا سامعین با تمکین کے لیے معلومات افزاتھی۔ صدر محترم کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا ۔
مجلس تحقیقات شریعہ کا ایک اہم کام علمی و تحقیقی سرمایہ کی اشاعت ہے، گزشتہ چار سالوں میں دو درجن کے قریب یہاں سے کتابیں شائع ہو چکی ہیں، اسی کے تحت امسال مندرجہ ذیل تین مجموعۂ مقالات منظر عام پر آئے اور ان کی رسم اجرا صدر عالی قدر کے بدست اس نشست میں ہوئی:
نصاب زکوۃ کا معیار اور ضم نصاب
مساجد میں خواتین کی آمد: شرعی احکام و مسائل
عوامی مقامات پر نماز کا مسئلہ
مجلس کے تین رفقائے علمی نے ان مجموعوں کو مرتب کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تینوں مجموعۂ مقالات سال گزشتہ کے فقہی سیمینار کے موضوعات کی تحریروں پرمشتمل ہیں۔ ان تین مجموعوں کے علاوہ درج ذیل کتب کی بھی رسم اجرا عمل میں آئی:
ہوا کے دوش پر از مولانا عتیق احمد بستوی
مفتی عبداللطیف رحمانی – احوال و آثار از مولانا فیصل احمد ندوی
مسلمانوں کی ذلت و پستی کے حقیقی اسباب اور ان کا علاج از مفتی زید مظاہری ندوی
دو علمی اور روحانی اسفار از مفتی محمد اشرف قاسمی
مسلم شریف کی خصوصیات از مولانا خالد غازی پوری ندوی
مجلس کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس شعبہ کی جانب سے ایک علمی اور تحقیقی مجلہ کی اشاعت ہو، اسی مقصد کے حصول کے لیے ایک سہ ماہی مجلے کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا، شعبے کے نام کی مناسبت سے مجلے کا نام تحقیقات شرعیہ طے پایا اور اس کے پہلے شمارے کا اجرا اسی افتتاحی نشست میں صدر گرامی قدر کے بدست ہوا، یہ مجلہ ای میگزین کی شکل میں شائع ہوگا، مجلس کی ویب سائٹ پر اس مجلے کو دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
دوسری نشست
افتتاحی نشست کے بعد چائے کا مختصر وقفہ ہوا اور پھر دوسری نشست -جو پہلی موضوعاتی نشست تھی- مولانا رحمت اللہ کشمیری کی زیر صدارت ہوئی ، اس نشست کا موضوع تھا:’’ جانوروں کی مصنوعی افزائش‘‘۔غالبا موضوع کی جدت و ندرت نے شرکاء کو نشیط و چست رکھا، جب کہ سیمینار کے شرکاء ملک کے دور دراز خطوں اور علاقوں سے لمبا سفر کر کے تشریف لائے تھے اور پھر افتتاحی نشست کا دورانیہ بھی ڈھائی گھنٹے کا ہوچکا تھا، باوجود اس کے افتتاحی نشست کے بعد شرکاء کے چہروں پر کسی قسم کی کوئی شکن نہ تھی، جسموں میں کوئی تھکن نہ تھی اور سب ہشاش و بشاش ہوکر اپنی اپنی کرسیوں پر ہمہ تن گوش اس نشست کے لیے بیٹھے تھے۔ مولانا رحمت اللہ ندوی(استاذ: دار العلوم ندوۃ العلماء) نے نشست کی بہت عمدہ نظامت کی اور شان نبی میں سید ابو الحسن علی (متعلم: دار العلوم ندوۃالعلماء) نےشیریں لہجے اور دلکش آواز میں نذرانۂ عقیدت پیش کرکے سامعین کے دلوں کو مسحور کردیا۔جب کہ ڈاکٹرمحمد فہیم اختر ندوی(سابق صدر:شعبۂ اسلامیات،مولانا آزادنیشنل اردویونیورسٹی،حیدر آباد) نے اس موضوع پر عرض مسئلہ پیش کیا ، یہ عرض مسئلہ ان کی محنت و مہارت کا عکاس تھا، جسے شرکاء نےبہ نظر تحسین دیکھا۔ بعد ازاں شرکاء کے مابین اس جدید موضوع پر علمی مناقشہ ہوا۔ بطورمہمان خصوصی ڈاکٹر سعید الرحمن فیضی ندوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اس پہلو پر توجہ دیں کہ لوگوں کو ایسی غذا نہ ملے جو ان کے لیے مضر ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ اس مسئلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔‘‘اس نشست کے صدرمولانا رحمت اللہ کشمیری نے اپنے قیمتی خطاب میں کہا کہ’’ جانوروں کی مصنوعی افزائش عصر حاضر کا ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے ،جو فقہائے کرام کی توجہ کا طالب ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس میدان میں آگے آئیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کے لیے ایسی غذا کا انتظام کریں، جو صحت کے لیے مفید اور ناپاک آمیزش سے خالی ہو۔‘‘
تیسری نشست
مغرب بعد کا وقت ہے، نماز مغرب ختم ہو چکی ہے، مندوبین سیمینار کا قافلہ ہال کی طرف رواں دواں ہے، نومبر کی آخری تاریخ ہے، ہوا میں ہلکی سی خنکی بھی ہے، لیکن تیسری اور چوتھی نشست کے موضوعات نے شرکاء کے اندر جیسے گرمی اور سنجیدگی پیدا کر رکھی تھی، تیسری نشست کا موضوع بحث تھا: بیع معدوم کی جدید شکلیں، اس نشست کی صدارت مولانا اختر امام عاد ل قاسمی(ناظم:جامعہ ربانی منورا شریف، سمستی پور ) نے کی۔ استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا ظفر الدین ندوی کی دلنشیں تلاوت سے نشست کی ابتدا ہوئی، منیر احمد کشمیری نے نعت نبی پیش کی۔ نشست کی نظامت کے فرائض خوبصورت انداز میں ڈاکٹر محمدنصر اللہ ندوی نے انجام دیے۔ مفتی راشد حسین ندوی (مہتمم :مدرسہ ضیاء العلوم، رائے بریلی ) نے مذکورہ موضوع پر عرض مسئلہ پیش کیا، پھر علماء وفقہا کے مابین اس پرسنجیدگی کے ساتھ مذاکرہ ہوا۔ مولانا اختر امام عادل قاسمی نے اپنی چشم کشا اور رہنما صدارتی گفتگو میں کہا کہ ’’بیع معدوم اصلاً ناجائز ہے ،لیکن موجودہ حالات میں ضرورت کے پیش نظر فقہا ءنے توسع سے کام لیتے ہوئے بہت سی ایسی بیوع کو جائز قرار دیا ہے جن میں مبیع کا وجود فی الحال نہیں ہوتا ہے، تاکہ امت کو حرج اور پریشانی نہ ہو۔‘‘
چوتھی نشست
تیسری نشست کے معاً بعد سیمینار کی چوتھی نشست -جو آخری موضوعاتی نشست تھی- ’’یسروتیسیراور عصر حاضر کے تقاضے ‘‘کے موضوع پر ہوئی، ڈاکٹر محمد اقبال مسعود ندوی اس نشست کے صدر رہے۔نظامت کے فرائض مولانا منور سلطان ندوی (استاذ :دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) نےسلیقہ مندی کے ساتھ انجام دیے اور مفتی محمد ظفر عالم ندوی نے مذکورہ بالا موضوع پر عرض مسئلہ پیش کیا ،بعدازاں مندوبین اور مدعووین علماء وفقہاء کے درمیان اس پر بحث و مباحثہ ہوا، یہ بحث و مباحثہ بڑا علمی اور دلچسپ رہا، اچھے ماحول میں ہوا، شرکاء ایک دوسرے کی آراء کا احترام کر رہے تھے اور آداب اختلاف کا خیال رکھ رہے تھے، پھر نشست کی کاروائی آگے بڑھی۔ ڈاکٹرمحمد اقبال مسعود ندوی نےگراںقدر صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ تیسیرنام ہے دو حلال چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرنے کا جو آسان ہو ۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’غیر مسلم ملکوں میں بہت سے ضروری مسائل بھی لوگوں کو معلوم نہیں ہوتے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں توسع پیدا کیا جائے اور آسانی کی راہیں تلاش کی جائیں ،تاکہ امت دشواری میں مبتلا نہ ہو۔‘‘
اختتامی نشست
سیمینار کی اختتامی نشست یکم دسمبر۲۰۲۴ء ساڑھےگیارہ تا دو بجے دن مولانا فضل الرحیم مجددی (جنرل سکریٹری :آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ )کی صدارت میں منعقد ہوئی ،یہ نشست تجاویز کی خواندگی و منظوری پر مشتمل تھی۔ نشست کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی نے انجام دیا، نشست کا آغاز استاذ دارلعلوم ندوۃ العلماء مولانا محمد علی شفیق ندوی کی پرسوز تلاوت سے ہوا ۔مولانا عمیر صدیقی (امریکہ )نے منظوم کلام پیش کیا ۔ڈاکٹرمحمد فہیم اختر ندوی نے تجاویز پڑھ کر سنایا ،جن کو علمائے کرام نے بحث ومباحثے کے بعد منظور کیا، اس نشست میں متعدد مندوبین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا :
مفتی ثناء الہدی قاسمی(نائب ناظم: امارت شرعیہ،بہار) نے کہا کہ’’ اس طرح کے پروگرام نئی نسل کو بحث وتحقیق کے آداب سکھانے میں معاون ہوتے ہیں اور علماء کے اندر غور و فکر کا جذبہ بیدار کرتے ہیں۔‘‘ مولانا بدر احمد مجیبی ندوی (استاذ:المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء،امارت شرعیہ، پٹنہ)نے کہا کہ ’’اس طرح کے سیمینار کا انعقاد خوشی ومسرت کا باعث ہے ۔مجلس تحقیقات شرعیہ اہم اور ضروری خدمات انجام دے رہی ہے۔‘‘مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (سکریٹری: جماعت اسلامی، ہند)نے کہا کہ ’’مجلس کا کارنامہ غیر معمولی ہے، اس نے مختصر عرصے میں جو علمی ذخیرہ تیار کیا ہے وہ نہایت قابل قدر ہے اور علم وتحقیق کے خزانے میں گراںقدر اضافہ ہے۔ ‘‘مفتی حبیب اللہ قاسمی (بانی ومہتمم :جامعہ اسلامیہ دار العلوم مہذب پور، سنجر پور، اعظم گڑھ)نے کہا کہ ’’علماء کو چاہیے کہ وہ تسہیل کے رجحانات تلاش کریں اور اختلاف رائے کو برداشت کریں۔‘‘ امریکہ سے تشریف لائے ڈاکٹر ولی اللہ ندوی نے عربی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ مجلس تحقیقات شرعیہ کے سیمینار کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہوگی جو امریکہ جیسے غیر مسلم ممالک میں پیش آتے ہیں۔‘‘
سیمینار کے اختتام پر مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی نے کہا کہ’’ اس طرح کی مجالس وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘‘انہوں نے ذاتی طور سے تمام مندوبین اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ مولانا فضل الرحیم مجددی نے اپنےپیغام آفریں صدارتی خطاب میں کہا کہ’’ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، یہ دین فطرت ہے اور اللہ کا نازل کردہ آخری دین ہے جو ہر زمانہ میں قیادت کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور انسانی مسائل کا اطمینان بخش حل پیش کرتا ہے ، اس کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے جو شریعت کا سرچشمہ ہیں، کتاب وسنت میں جو اصول بیان کئے گئے ہیں ،وہ مستحکم اور لا زوال ہیں ، ان کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے ۔‘‘انہوںنے کہا کہ’’ مجلس تحقیقات شرعیہ کی بنیاد مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ نے ہندوستان میں اس وقت رکھی، جب اس میدان میں ہر طرف سناٹا تھا ، مجلس نے نئے مسائل کے حل کے سلسلہ میں جو کارنامہ انجام دیا ہے ، وہ قابل ستائش ہے ، اس کے لئے ندوۃ العلماء کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں ،جن کی توجہ سے مجلس کا کارواں رواں دواں ہے ،اورجدیدطبقہ کو اسلامی تعلیمات سے واقف کرا رہا ہے ۔‘‘
اخیر میں مولانا فہیم اختر ندوی نے مندوبین کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے اپنے کلمات تشکر میں سیمینار کے کامیاب انعقاد پر ندوۃ العلماء کے ذمہ داران بالخصوص ناظم ندوۃ العلماء، ناظر عام ندوۃ العلماء ،مجلس کے سکریٹری اور اس کے معاونین کو مبارکباد پیش کی اور مندوبین کی طرف سے منتظمین کا شکریہ ادا کیا،نیزندوہ میں مہمانوں کے لیے کیے گئےقیام وطعام کے نظم پر شکر اور قدر کا اظہار کیا۔مولانامحمد کمال اختر ندوی(استاذتفسیر ومشیر ناظر عام ندوۃ العلماء)نے بھی تمام مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔ صدر ذی وقار کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا، اس موقع پر دو کتابوں کی رسم اجرا ہوئی: ۱۔جنہیں میں نے دیکھا از ڈاکٹر سعید الرحمن فیضی ندوی۲۔ اشعار العرب: جمع و ترتیب از مفتی حکیم احمد حسن خان ٹونکیؒ، ترجمہ و تخریج از عبید اللہ ندوی
تمام نشستوں میں شرکائے سیمینار نے اپنے مطالعات ،مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں سیمینار کو کامیاب بنانے کے لیے مفید خیالات و آراء کا اظہار کیا، اور سیمینار کے روح رواں مولانا عتیق احمد بستوی نے نہایت حکمت و بصیرت کے ساتھ سیمینار کی نگرانی کی، اور سیمینار کے مذاکرات و مناقشات کو منظم و بامقصد بنایا۔
مجموعی طور پر شرکاء کا یہ تاثر تھا کہ مجلس تحقیقات شریعہ کی کاوشیں لائق تحسین اور قابل ستائش ہیں، مجلس جن موضوعات کو اپنا موضوع بحث بنا رہی ہے وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، وہ موضوعات فوری توجہ کے طالب ہیں اور امت ان موضوعات پر رہنمائی کی منتظر ہے۔
یہ سیمینار ایک کامیاب اور بامقصد علمی و فکری اجتماع ثابت ہوا، جس کے ذریعے امت کی رہنمائی کا سامان فراہم ہوا اس طور پر کہ مذکورہ بالا تینوں موضوعات پر شرعی نقطہ نگاہ سے حق و صواب اور قابل عمل تجاویز امت کے سامنے آئیں۔
اس سیمینار میں جہاں ایک طرف امت و ملت کی رہنمائی کے لیے اہل علم و دانش کی ایک انجمن مجتمع تھی تو وہیں دوسری جانب بغرض استفادہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبۂ تدریب افتاء اور شعبۂ اختصاص فی الفقہ کے طلبہ بھی موجود تھے۔