اسلامی علوم وفنون کی تاریخ گواہ ہے کہ ہردورمیں مسلمانوں میں ایسے علماء پیداہوئے ہیں جنہوں نے اپنے دورکے تقاضوں کومحسوس کرتے ہوئے اس وقت کے جدید مسائل پر مسلمانوں کی دینی رہنمائی کافریضہ انجام دیا،تاریخ اسلام میں علمی وفکری بنیادوں پر جتنے مسائل ابھرتے رہے اورمعاشی وتمدنی تبدیلیوں اورسائنس کی ترقی کے نتیجہ میں جتنے جدید مسائل سامنے آتے رہے ہردورکے علماء نے ان مسائل میں مسلمانوں کی دینی رہنمائی فرما ئی۔
بیسویں صدی جدیدمعاشی وتمدنی تبدیلیوں،صنعتی انقلاب،سائنسی علوم وافکار اور مختلف طرح کی علمی وفکری آویزشوں کی آماج گاہ رہی ہے، پوری دنیا بیک وقت مختلف النوع تبدیلوں بلکہ انقلابات سے دوچار ہوئی ہے، ایسے وقت میں نباض علماء ، دور اندیش مفکرین اوربصیرت مند مصنفین نے وقت کے تقاضوں کومحسوس کرتے ہوئے تمدنی و معاشرتی تبدیلیوں کونہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کی وجہ سے معاشرہ و سماج میں آنے والی تبدیلیوں اور جدید پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے پوری طرح کمر بستہ ہوگئے
مولانامحمدتقی امینی صاحبؒ نے مجلس کے قیام کے پہلے دن سے ہی مجلس کی سرگرمیوں کاآغازکردیا،سب سے پہلے مجلس کے منتخب اراکین کومجلس کے قیام اوررکنیت کوقبول کرنے کے بارے میں اطلاع دی گئی
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی نے مجلس تحقیقات شرعیہ کی ذمہ داری مولانا محمدتقی امینی صاحب کے سپردکی ،جووسیع النظرعالم دین ہونے کے ساتھ تحقیقی ذوق کے حامل بھی تھے
مجلس تحقیقات شرعیہ کے لئے پورے ملک سے ممتازعلماء اوراصحاب افتاء کواراکین منتخب کیاگیا،جس میں مختلف دبستان علم وفکرکی نمائندگی واضح طورپردیکھی جاسکتی ہے
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کی تجویزکے بعدحضرت مولاناؒ کی دعوت پر یکم ستمبر۱۹۶۱ء کودارالعلوم ندوۃ العلماء میں ملک کے منتخب اہل فکرعلماء کاایک مشاورتی جلسہ ہوا
شرعی اورفقہی حیثیت سے ان مسائل پرغورکرنااورحتی الوسع کسی اجتماعی فیصلہ تک پہونچناجوزمانہ کے نئے حالات اورایجادات نے پیداکئے ہیں،اوران کا واضح حکم ہماری فقہ میں موجودنہیں ہے
مجلس کے موجودہ سکریٹری مولاناعتیق احمدبستوی صاحب نے عصری مسائل کے لئے قائم فقہی اکیڈمیوں کے کاموں اورموجودہ حالات کے تقاضوں کوسامنے رکھ کرمجلس کے مقاصدمیں قدرے توسیع کی