مجلس تحقیقات شرعیہ کی موجودہ گرمیاں
January 4, 2025طلبہ میڈیشن کے میدان میں آگے آئیں
January 5, 2025
مجلس تحقیقات شرعیہ کی علمی خدمات
محمدمرغوب الرحمٰن ندوی
(باحث مجلس تحقیقات شرعیہ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ)
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے۱۹۶۳میں اپنے چند بلند پایہ معاصرین کے مشورے کے بعد مجلس تحقیقات شرعیہ، ندوۃ العلماء کی داغ بیل ڈالی، اس وقت اس ادارے کا بنیادی مقصد نئے مسائل پر شرعی نقطہ ٔ نظر سے اجتماعی غور و خوض کے بعد کسی حتمی فیصلے تک پہنچنا یا کم از کم نئے پیش آمدہ مسائل میں فقہ اسلامی کی مسلمہ ا وروسیع حدود کی پابندی کرتے ہوئے غور و فکر کے بعد آسانیاں پیدا کرنا تھا، بعد میں اس کے مقاصد میں توسیع ہوئی، ان میں ایک اہم مقصد علمی و تحقیقی کتابوں کی طباعت و اشاعت ہے، اس مقصد کے مدنظر اب تک مجلس کی مطبوعات کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے،اس وقت برائے تعارف مجلس کی مطبوعات میرے پیش نظر ہیں، مجلس کی مطبوعات کئی نوعیتوں کی ہیں ـــان میں اکثر مطبوعات مجلس کے تحت ہونے والی سرگرمیوں پر مشتمل ہے ،کچھ مطبوعات مجلس کی تاریخ اور اس کے علمی منہج سے متعلق ہے اور چند مطبوعات مجلس کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونے کی بنا پر مجلس سے تصحیح و نظر ثانی کے بعددوبارہ شائع کی گئی ہیں۔سب سے پہلے مجلس کے تحت ہونے والی سرگرمیوں پر مشتمل مطبوعات کا تعارف پیش خدمت ہے:
* انشورنس (مجموعہ مقالات مجلس تحقیقات شرعیہ: ۱۹۶۵)
ملک کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے مسلمان جن نازک اور خطرناک حالات سے گزر رہے تھے ، ان میں سے ایک مسلمانوں کی جان و مال وغیرہ کے تحفظ کا مسئلہ تھا، علماء ،اصحاب افتاء اور اہل فکر و دانش اس سلسلے میں فکر مند اور بے چین تھے ،اس لیے مجلس نے ۱۹۶۵میں انشورنس کے موضوع پر اجتماعی مذاکرہ کے ذریعے ایک قول فیصل تک پہنچنے کا ارادہ کیا ،تاکہ مسلم عوام اس سے واقف ہو کر عمل کر سکیں ،مجلس نے اس موضوع پر سوال نامہ تیار کر کے علمائے کرام اور اصحاب افتاء کی خدمت میں بھیجا، متعدد حضرات نے مقالات اور مکتوبات کی شکل میں اپنے جوابات اور اپنے موقف کا اظہار کیا، پھر ۱۵/ ۱۶ستمبر ۱۹۶۵ کو مجلس نے اجلاس بلایا ،آئی ہوئی تحریروں اور فتاوی کی روشنی میں موضوع پر تبادلۂ خیال کے بعد مجلس نے ضرورت شدیدہ کی بنا پر انشورنس کرانے کی تجویز پاس کی ۔
یہ کتاب انھیں مقالات و مکتوبات، فتاوی اور تجویز کا مجموعہ ہے، جسے استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء مفتی مسعود حسن حسنی ندوی (استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء )کی ترتیب و تحقیق کے بعد مجلس نے شائع کیا ہے۔کتاب کے شروع میں سابق ناظم ندوۃالعلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ کا مقدمہ ہے ،پھر مولانا عتیق احمد بستوی (سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ) کا پیش لفظ اور عرض مرتب ہے، بعد ازاں مجلس کے ناظم اول مولانا تقی امینی ؒ کی مختصر مگر معلومات افزاتحریرــــ’’ مسئلہ بیمہ :تاریخ و تعارف‘‘ کے عنوان سے شامل کتاب ہے۔ کتاب کے آخر میں افادۂ عام کے لیے ادارہ مباحث فقہیہ اور اسلامی فقہ اکیڈمی، انڈیا کے متعدد فیصلے انشورنس اور میڈیکل انشورنس سے متعلق درج ہیں ۔
* رویت ہلال اور اختلاف مطالع ( مجموعہ مقالات مجلس تحقیقات شرعیہ: ۱۹۶۷)
ہر سال تین مرتبہ مسلمانوں کے سامنے ایک مسئلہ آتا تھا اور وہ تھا رویت ہلال کا مسئلہ، بعض اوقات تو اس سلسلے میں لوگوں کو پریشانی نہیں ہوتی تھی لیکن بعض مرتبہ اس سلسلے میں اختلاف و افتراق ہنگامے کا باعث ہو جاتا تھا ،بلکہ بعض اوقات تو باہمی نزاع کی شکل اختیار کر لیتا تھا، ایک شہر اور ایک گاؤں میں دو عیدیں ہو جاتی تھیں، بعض مرتبہ ایک گھر میں چند افراد آج عید منا رہے ہیں اور بقیہ کل، یہ صورتحال مسلمانوں کے لیے فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مضر تھی ،اس لیے مجلس کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس مسئلہ کا واضح طور پر ایسا فیصلہ سامنے آ جائے جو شرعی نقطۂ نگاہ سے حق وصواب ہو،مجلس نے حضرات علماء اور ارباب افتاء کی خدمت میں موضوع سے متعلق سوال نامہ ارسال کیا،۱۹۶۷ میں اس موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا اور تجاویز منظور کیں۔
زیر نظر رسالہ انھیںجید علماء اور ماہر فقہاکی گراں قدر تحریروںکا مجموعہ ہے،جو انھوں نےسیمینار کے لیے تحریر فرمایا تھا ،اس مجموعے میں موضوع سے متعلق سوال نامہ اور تجاویز بھی ہیں، اس رسالے کی ترتیب وتحقیق استاذ دارالعلوم ندوۃا لعلماءلکھنؤڈاکٹر محمد نصر اللہ ندوی (رفیق علمی مجلس تحقیقات شرعیہ)نے کی ہے۔ رسالہ کے مقدمے اور پیش لفظ کے بعد عرض مرتب ہے، جس سے رویت ہلال اور اختلاف مطالع کےموضوع پر بنیادی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔
رسالے کی ایک خاص بات جو مجھے نظر آئی اور پسند آئی وہ یہ ہے کہ موضوع سے متعلق جن حضرات کی تحریریں ہیں ، مرتب نے ان کا اختصار کے ساتھ عمدہ انداز میں تعارف پیش کیا ہے، جس سے اہل علم و قلم فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،مگر فاضل مرتب نے تعارف میں مصادر و مراجع کا ذکر نہیں کیا ہے، اگر وہ بھی زینت قرطاس فرماتے تو شائقین سیرت و سوانح کے لیے زیادہ مفید اور باعث تسکین ہوتا ۔
* سرکاری قرضے (مجموعہ مقالات مجلس تحقیقات شرعیہ: ۱۹۷۱،۲۰۲۲)
ضرورت مند افراد کو سود کے بغیر قرض فراہم کرنا بہت بڑا کار ثواب ہے ،اسلام میں اس کی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور ضرورت مندوں کو قرض دینے پر بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے،موجودہ دور میں قرض دینے کا عمل موقوف سا ہو گیا ہے۔شاذونادر ہی ایسے لوگوں ہیں جن کے پاس زائد سرمایہ ہوتا ہے اور وہ ضرورت مندوں کو سود کی شرط کے بغیر قرض فراہم کرتے ہیں ،مسلمانوں کو اس کار خیر کی طرف ترغیب دینا اور اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ ضرورت مند افراد سود ی قرضےحاصل کرنے پر مجبور نہ ہوں، اور سودی قرضے حاصل کرکے اپنی جان و مال، عزت و آبرو اور دین و ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ اگر سود کے بغیر قرض ہو تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر قرض میں (سرکاری ہو یا غیر سرکاری)سود شامل ہے، تو اس پر جواز اور عدم جواز کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
مسئلے کی اسی نزاکت و حساسیت کے مد نظر مجلس تحقیقات شرعیہ نے سودی قرضے پر ۱۹۷۱ میں اجتماع منعقد کیا تھا، اس موقع پر جاری کردہ سوال نامے کے جواب میں اس وقت کے ممتاز علماء اور ارباب افتاء نے جوابات تحریر فرمائے تھے ، لیکن کسی وجہ سے اس مجلس میں فیصلہ نہ ہو سکا اور موخر ہو گیا ،۲۳، ۲۴ /نومبر ۲۰۲۲کے سیمینار میں۱۹۷۱ کے فقہی اجتماع میں آنے والی فتاوی اور تحریروں نیز ان تجاویز کو پیش نظر رکھا گیا ، جو مذکورہ اجتماع میں شرکاء کے درمیان زیر بحث آئیں تھیں،۲۰۲۲ کے فقہی سیمینار کے موقع پر اس موضوع سے متعلق جو نئے مقالات اور تحریریں موصول ہوئیں ان پر بھی غوروخوض کیا گیا، اس کے علاوہ ۱۹۷۱ سے لے کر۲۰۲۲ تک سرکاری سودی قرضوں اور بینکوں کے سودی قرضوں کے بارے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ، ان پر بھی فقہی سیمینار میں غور کیا گیا، ان سب کی روشنی میں تفصیلی غور و فکراور تبادلۂ خیال کے بعد شرکائے سیمینار اس تجویز پر متفق ہوئے کہ ضرورت شدیدہ کہ وقت بقدر ضرورت سودی قرضہ لینے کی گنجائش ہے۔
یہ کتاب سودی قرضے سے متعلق۱۹۷۱ اور۲۰۲۲ کے مقالات و تحریری آراء کا مجموعہ ہے، جس کی ترتیب و تحقیق کا کام استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مفتی رحمت اللہ ندوی (رفیق علمی مجلس تحقیقات شرعیہ )نے انجام دیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ مجموعۂ مقالات۲/ حصوں پرمنقسم ہے، پہلے حصے کے ابتدا میں حرف چند طبع جدیداز مرتب، مقدمہ از حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ،پیش لفظ ازجناب مولانا عتیق احمد بستوی اور پھر عرض مرتب ہے۔ اس کے بعد۱۹۷۱ کے مقتدر علماء اور بالغ نظر فقہاء کی تحریریں ومقالات ہیں، اسی طرح سودی قرضے سے متعلق آل انڈیا اسلامک فقہ اکیڈمی اور ادارہ مباحث فقہیہ کی تجاویز اور فیصلے ہیں، نیز تجویز متعلق منتقلی قبر حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ بھی شامل کتاب ہے، جو۱۹۷۱ کے فقہی اجتماع میں پاس ہوئی تھی۔ حصہ دوم۲۰۲۲ کے فقہی سیمینار کے موقع پر سودی قرض سے متعلق موصول ہونے والے چند مقالات اور تحریروں پر مشتمل ہے۔کتاب کے آخر میں مجلس کی جانب سے پاس کردہ تجویز ہے۔ مرتب نے ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ۱۹۷۱ کی تحریروں کے محررین کا مختصر سوانحی خاکہ مع مصادرو مراجع کے ذکر کیا ہے، جو یقینا قارئین کے لیے مفید ہوگا۔
مذکورہ تینوں مجموعہ ٔمقالات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مقالات کی تبیض و تحقیق اور ترتیب و تعلیق کا دشوار ترین کام تینوں فاضل مرتبین و محققین نے سعی پیہم اور جہدِ مسلسل کے ساتھ انجام دیا ہے،کیوں کہ ۲۰۲۲کے مقالات کے علاوہ بقیہ مقالات پر پانچ دہائی کا عرصہ گزر چکا تھا،جس وجہ سے وہ بہت ہی بوسیدہ حالت میں تھے ،لہذا اس پر جہاں ایک طرف مرتبین اپنی جانفشانی و جانکاہی کی بنا پر مبارکباد کے مستحق ہیں، وہیں دوسری طرف مجلس بھی لائق تحسین وستائش ہے کہ اس نے ان گراں قدر علمی و فقہی مقالات کی طباعت و اشاعت کا فیصلہ کیا اور اس علمی و فقہی امانت کوجو فائلوں میں دب کر ناقابل استفادہ ہو رہی تھی،کتابی شکل میں شائع کر کے ضائع ہونے سے بچا لیا اور اہل علم کے حوالے کر دیا۔
* کرونا سے متعلق اہم مباحث (مجموعہ مقالات فقہی سیمینار مجلس تحقیقات شرعیہ: نومبر ۲۰۲۲ )
کرونا وائرس جیسی قیامت خیز اور ہلاکت انگیز وبا کی نظر پوری تاریخ عالم اور تاریخ انسانی میں نہیں ملتی، جو عالمی وباء کی شکل اختیار کر گئی ہو اور جس نے بے شمار افراد کو لقمۂ اجل بنایا ہو۔ کرونا نے تمام شعبہائے زندگی کو بری طرح متاثر کیا اور لوگوں کو نئے نئے زاویہ سے سوچنے پر مجبور کیا ،اس وبا کی وجہ سے بہت سے نئے اور اہم شرعی مسائل پیدا ہوئے، بلکہ اس تعلق سے علماء اور فقہا کے سامنے مسائل کا انبار جمع ہو گیا، لوگ کرونا سے پیدا شدہ نئے مسائل و سوالات دریافت کرنے لگے ،ایسے ناگفتہ بہ حالات کا تقاضا سمجھ کر مجلس نے کرونا کے مسائل پر سیمینار کرنے کا فیصلہ کیا اور’’ کرونا سے پیدا ہونے والے چند اہم سوالات اور مسائل ‘‘کے عنوان سے سوال نامہ تیار کر کے ملک اور بیرون ملک کےمنتخب علماء اور چیدہ ارباب افتاء کی خدمت میں بھیجا، بہت سے علماء اور اصحاب افتاء نے تحقیق و مطالعے کے بعد ارسال کردہ سوال نامے کے جوابات تحریر کیے اور حالات معتدل ہونے پر۲۳، ۲۴/ نومبر ۲۰۲۲ کے فقہی سیمینار میں مقالات و فتاوی اور شرکاء کے باہمی تبادلہ خیال کے بعد اتفاق رائے سے اس موضوع پر اہم تجاویز منظور کی گئیں۔
۶۲۰ صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب انھیں مقالات و تجاویز کا مجموعہ ہے، اس کے مرتب مفتی رحمت اللہ ندوی صاحب ہیں، پانچ ابواب پر منقسم یہ مجموعہ بہت ہی مرتب انداز میں محنت کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ مجموعے کا آغاز ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی کے مختصر مقدمے سے ہوتا ہے، اس کے بعدسکریٹری مجلس جناب مولانا عتیق احمد بستوی کا پیش لفظ ہے، پھر عرض مرتب ہے، جس سے کرونا وائرس کی بنیادی معلومات اور تاریخ معلوم ہوجاتی ہے، یہ اردو مقالات کا مجموعہ ہے، کرونا کے موضوع پر مجلس کو دو عربی مقالے بھی موصول ہوئے تھے، ان میں ایک مقالہ فلسطین کے مفتی عام اور مسجد اقصی کے خطیب شیخ محمد احمد کا ہےاور دوسرا استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء ڈاکٹر محمد علی شفیق ندوی( رفیق علمی مجلس تحقیقات شرعیہ) کا۔
ان دونوں مقالوں کو ایک الگ کتابی شکل میں ’’جائحۃ کورونا: قضایا وحلول ‘‘کے نام سے شائع کیا گیاہے،اسے بھی مفتی رحمت اللہ صاحب ندوی نے مرتب کیا ہے، دونوں مجموعے محاور کے اعتبار سے مرتب کیے گئے ہیں ،اس وجہ سے قارئین کے لیے ان دونوں مجموعوں سے استفادہ آسان ہے۔ آئندہ خدا نہ کرے ایسے حالات پیش آئیں ۔ان دونوں مجموعوںسے ایسی مہلک اور خطرناک صورتحال میں بہت مدد ملے گی،ان شاءاللہ ۔
* اسلامی عائلی قوانین (مجموعہ مقالات مسلم فیملی لالکچر سیریز )
مجلس تحقیقات شرعیہ جن کاموں کو انجام دے رہی ہے ان میں سے ایک اہم کام ’’مسلم فیملی لا لکچر سیریز‘‘ ہے، مجلس کو اس کام کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ طبقہ علماء میں اس بات کا احساس پایا جاتا تھاکہ مسلم پرسنل لاءسے متعلق ہندوستان میں رائج قوانین کے بارے میں ہماری واقفیت بہت کم ہے اور موجودہ قوانین کی اصطلاحات سے ناواقف ہونے کی بنیاد پر وکلا اور ججز کے ساتھ افہام و تفہیم میں دشواری پیش آتی ہے۔اسی طرح مجلس نے یہ بھی محسوس کیا کہ عصری تعلیم یافتہ افراد ،خصوصا وکلا اور قانون سے وابستہ افراد کو اسلامی شریعت کے مقاصد ،شرعی احکام کے مصالح اور اس کی حکمتوں سے واقف کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، کیوں کہ یہی افراد عدالتوں میں اسلامی شریعت کی ترجمانی ووکالت کرتے ہیں ،جب کہ اسلامی شریعت سے متعلق ان کی معلومات بہت ناقص ہوتی ہے۔
لہذا اگر اسلام کے عائلی قوانین اور مسلم پرسنل لاءکے موضوعات پر ایسی مشترکہ نشستیں ہوں، جس میں وکلا اور ماہر ین قانون کے ساتھ علماء اور فقہاء کی بھی شرکت ہو اور دونوں طبقوں کے درمیان تبادلۂ خیال اورافادہ واستفادہ کا موقع فراہم ہو تو ایسی نشستیں دونوں طبقوں کے لیے حددرجہ مفید ہوں گی اور دور حاضر میں اسلامی شریعت کی تفہیم میں مددگار ثابت ہوں گی ۔
اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے مجلس نے’’ مسلم فیملی لا لکچر سیریز ‘‘کا آغاز ۶دسمبر ۲۰۲۰ کو کیا، جو تاحال جاری ہے، اب تک ان میں نکاح،طلاق،خلع، فسخ،حضانت،نفقہ،نسب،ہبہ، وصیت اور میراث جیسے اہم موضوعات پر لکچرز ہوئے ہیں ،لکچرز عام طور سے مقالہ کی شکل میں ہی ہوتے ہیں ، مجلس کے رفیق علمی مفتی منور سلطان ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے ان مقالات کو ’’اسلامی عائلی قوانین ‘‘کے نام سے بڑی تندہی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جمع کیا ہے،جو ۳۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔
بلا شبہ یہ مجموعہ قانون اسلامی خصوصا مسلم پرسنل لا اور مسلم فیملی لا سے شغف رکھنے والے حضرات کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا، اور اسلامی عائلی قوانین کی توضیح و تشریح اور ان کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوںاور شبہات کے ازالے میں معاون ہوگا۔
مجلس سے ایک گزارش ہے کہ اس مجموعے کو ہندی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی منتقل کرایا جائے ، تاکہ اس کی افادیت کا دائرہ وسیع ہو، اس کوشش کا اظہار مجلس کےسکریٹری جناب مفتی عتیق احمدبستوی صاحب نے کتاب کے پیش لفظ میں کیا ہے، اللہ کرے اس پر عمل درآمد ہو جائے۔
* علامہ سید سلیمان ندویؒ کے چند فقہی مقالات
یہ سچ ہے کہ ندوۃ العلماءکے گل سرسبد ،علامہ شبلی نعمانی کے مایہ ناز شاگرد رشید ،ان کے سچے علمی جانشین اور سرزمین ہند بالخصوص ندوہ کے قابل فخر سپوت سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی نے فقہ کے موضوع پر باقاعدہ کوئی تصنیف نہیں فرمائی ہے ،لیکن فقہی موضوعات پر منتشر جو قیمتی ذخیرہ اور فقہی سرمایہ ان کا متروکہ تھا، اسے ایک کتابی شکل میں بہت ریاضت اور عقیدت کے ساتھ مفتی رحمت اللہ ندوی صاحب نے جمع کرکے بالعموم علمی دنیااور بالخصوص فقہی دنیا پر بڑا احسان کیا ہے ،جس پر وہ تشکر کے اہل ہیں ۔
بقول پروفیسر خلیق احمد نظامی:
’’مولانا سید سلیمان ندوی مسائل فقہ میں مجتہدانہ نظر رکھتے تھے، وہ عصری رجحانات پر غور و فکر کرتے تھے اور مسائل پر رائے قائم کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔‘‘اسی وجہ جب آپ اس کتاب میں سید صاحب کے فقہی مضامین و مقالات پڑھیں گے،تو آپ کو سید صاحب کی فقہی بصیرت و مہارت ،اس سے گہری واقفیت ،قوت استنباط، فقہا کے دلائل کا وسیع مطالعہ اور فقہ اسلامی پر ان کے عبورکا بھرپور اندازہ ہوگا۔
کتاب کے صفحہ ۲۲۲ -۲۲۵ /پر’’عورتوں کے حقوق اور خصائص ‘‘کے عنوان سے سید صاحب کی ایک تحریر ہے ،اس میں ’’الرجال قوامون علی النساء ‘‘آیت قرآنی کے اثر کا ذکر سید صاحب کے گہربار قلم سے کچھ اس طرح ہے :
’’اسی کا اثر ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بیرون خانہ کی زحمت سے بچایاہے اور نفقہ کے فرض کا بار مرد کے دوش و بازو پر ڈالا ہے، تاکہ یہ نازک پھول صرصر حوادث سےپژمردہ نہ ہواور یہ لطیف شیشہ مشکلات روزگار کی ٹھوکروں سے چور نہ ہو، اس لیے اگر ایک معتدبہ زمانے تک شوہر اپنے اس فرض سے غافل رہے، تو عورت کو حق پہنچتا ہےکہ وہ عدالت شرعی میں جا کر اپنے وجود کو اس مشئوم ہستی سے علیحدہ کرالے اور پھر وہ کسی سعید ہستی سے اپنا پیمان محبت باندھے ۔‘‘ (صفحہ ۲۲۳-۲۲۴)
سید صاحب کی چند فقہی آراء اور تحقیقی مسائل کا اندازہ حسب ذیل عناوین سے لگایا جا سکتا ہےــ:
(۱) طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی (۲) اردو میں خطبہ جمعہ کا جواز (۳) نابالغ کا نکاح درست، لیکن بلا کسی سبب کے مناسب نہیں (۴) لاؤڈ سپیکر پر نماز کا جواز (۵) ریڈیو اور فون پر رویت ہلال کا اعلان (۶) جمع بین الصلاتین (۷) مصارف زکوۃ اور تملیک وغیرہ ۔
مجلس کے تحت ہونے والی سرگرمیوں پر مشتمل مطبوعات کے تعارف کے بعداب ہم مجلس تحقیقات شرعیہ کی تاریخ اور اس کے علمی منہج پر روشنی ڈالنے والے دو رسالے کا تعارف پیش کرتے ہیں:
* مجلس تحقیقات شرعیہ ،ندوۃ العلماء، مختصر تاریخ اور سرگرمیاں
یہ رسالہ مجلس کے بہت سے پہلوؤں پر گفتگو کرتا ہے، مجلس کے قیام کا پس منظر ،اس کے مقاصد اور طریقۂ کار، مسائل کی پہلی فہرست، مجلس تحقیقات شرعیہ کا استقبال، مجلس کے فیصلے پر اہل علم کا تاثر ،مجلس کی کوششیں نئے انداز میں، تحقیقات شرعیہ کے احیا ءکی ضرورت، مقاصد میں توسیع، مشاورتی کمیٹی اورمجلس کے علمی معاونین وغیرہ سے متعلق یہ رسالہ معلومات فراہم کرتا ہے، اسی طرح مجلس کے قیام کے روز اول سے۲۰۱۹تک کی سرگرمیوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ صفحہ :۶۲/سے ۲۰۲۰تا۲۰۲۲کی سرگرمیوں کا ذکر بھی رسالے کا حصہ ہے ۔مفتی منور سلطان ندوی صاحب نے بڑے سلیقے اور قرینے کے ساتھ اس رسالے کی تالیف کا کام انجام دیا ہے۔
یہ مختصر رسالہ قارئین کو مجلس کی تاریخ ،مقاصد، طریقہ کار اور سرگرمیوں سے مکمل طور پر واقف کراتا ہے، مجلس کے قدر دانوں کی جانب سےمؤلف اس کی تالیف پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
* مجلس تحقیقات شرعیہ کا علمی منہج
یہ کتابچہ دو مقالوں پر مشتمل ہے :
(۱) مسلم ممالک میں پرسنل لا اور جدید تمدن کے پیدا کیے ہوئے قابل غور مسائل از حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒ
(۲) تدوین فقہ کی تاریخ اور موجودہ حالات کا جائزہ از مولانا محمد تقی امینیؒ
یہ دونوں چشم کشا اور رہنما مقالے مجلس کے پہلے اجلاس میں ملک کے منتخب ترین علماء اور اصحاب افتاء کے سامنے پیش فرمائے گئے تھے، جو بنظر تحسین دیکھے گئے تھے، یہ دونوں مقالے مجلس کے مقاصد، علمی و فکری منہج اور نئے پیش آمدہ مسائل پر اجتماعی غور و فکر کی اہمیت و ضرورت اور طریقۂ کار پر واضح انداز میں روشنی ڈالتے ہیں ۔دونوں فکر انگیز مقالے کے بارے میں کتابچے کے پیش لفظ میں جناب مولانا عتیق احمد بستوی رقمطراز ہیں:
’’ان دونوں مقالات کو ہم مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کی علمی و فکری اساس قرار دے سکتے ہیں، دونوں بزرگوں نے بڑی بلند نظری،دقیقہ رسی اور دور اندیشی کے ساتھ حالات کا تجزیہ پیش کیا ….اور ایسی بنیاد فراہم کر دی جن پر قائم رہتے ہوئے تحقیق و اجتہاد کے اس عمل کو بہتر سے بہتر طریقے پر انجام دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص: ۵)
اسی معنویت کےپیش نظر مولانا منور سلطان ندوی صاحب نےماہ نامہ الفرقان ،لکھنو اور پندرہ روزہ تعمیر حیات لکھنو کی قدیم فائلوں سے ان دونوں مقالوں کو حاصل کرکے انہیںمرتب کیا ،تاکہ اہل علم ان سے مستفید ہو سکیں اور مجلس کے علمی و فکری منہج سے واقف ہو سکیں۔
اب ان کتابوں اور رسالوں کا مختصر تعارف قلم بند کیا جا رہا ہے ،جو مجلس کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونے کی بنا پر تصحیح و نظر ثانی کے بعدمجلس کی جانب سے دوبارہ شائع کیے گئے ہیں :
* ہندوستان میں نفاذ شریعت
شریعت مسلمانوں کو اللہ کی جانب سے عطا کردہ وہ بہترین نظام زندگی ہے کہ جس کے مطابق زندگی گزار کر مسلمان اس دنیا میں کامیاب ہوسکتا ہے اور آخرت میں سرخ رو ہو سکتا ہے، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے تعلق سے شریعت کی رہنمائیاں موجود نہ ہوں، اس سے بہتر کوئی نظام زندگی نہیںہو سکتا، یہ عین انسانی فطرت کے موافق ہے ،بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان حتی المقدور شریعت کے مطابق زندگی گزاریں ۔تحفظ شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مسلمان خود شریعت پر عمل پیرا ہو جائیںتو شریعت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ،حکومت وغیرہ کے ذریعے تحفظ شریعت کا کوئی خاص مسئلہ نہ رہے گا، لیکن مسلمان خود شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیں تو اللہ کے سوا کوئی شریعت کا تحفظ نہیں کر سکتا۔
’’ہندوستان میں نفاذ شریعت ‘‘مولانا عتیق احمد بستوی کی فکر انگیز تصنیف ہے۔ مولانا ملک کے نامور فقیہ، مستند محقق اور فاضل مصنف ہیں، آپ کی زبان میں متانت و روانی اور فکر میں پختگی و سلامتی پائی جاتی ہے، مولانا کی تحقیقات، تحریریں اور کتابیں ممتاز مقام رکھتی ہیں، موصوف متعدد بلند پایہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ تصنیف لطیف ہندوستان میں احکام شریعت کے نفاذ پر ایک تحقیقی اور دستاویزی حیثیت رکھتی ہے ،اس کتاب میں ۱۷ /مرکزی عناوین اور پونےدوسو کے قریب ذیلی عناوین کے ذریعے فاضل مصنف نے بڑے دلنشین اور قابل فہم انداز میں یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ ہندوستان میں نفاذ شریعت کیوں کر ہو؟ اس کے مراحل کیا ہوں؟ اس کا تحفظ کیسے ہو؟ اس سلسلے میں جدوجہد کے میدان کیا ہیں اور اس کا طریقہ کار کیا ہے ؟
یہ کتاب مولانا موصوف کے ان قیمتی مضامین کا مجموعہ ہے، جو اسلام کے عائلی قوانین ،اسلامی شریعت کی تشریح اور مدافعت میں لکھے گئے ہیں، ان میں متعدد مضامین ہندوستان کی عدالت عالیہ اور مختلف ذیلی عدالتوں کے بعض فیصلوں کے جائزے اور تنقید پر مشتمل ہے ۔ ۳۲۸ صفحات کی یہ کتاب اپنے موضوع پر کامیاب ترین پیشکش ہے۔
* اجتہاد اورکار اجتہاد
جناب مولانا عتیق احمد بستوی صاحب کی یہ تصنیف بہت علمی وفکری ہے،جو اصول فقہ کے چند اہم مباحث پر مشتمل ہے۔ اصول فقہ پر مولانا کی گہری اور اچھی نظر ہے۔ یہ کتاب فاضل مصنف کے مقالات کا مجموعہ ہے، ان میں سے بعض مقالات اسلامک فقہ اکیڈمی ،انڈیا کے سیمیناروں کے لیے تحریر کیے گئے ہیں، بعض سہ ماہی بحث ونظر،پٹنہ کے لیے لکھے گئے ہیں اور بعض مقالات کسی اور مناسبت سے سپردقلم کیے گئے ہیں۔
کتاب کے ذیلی عناوین سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوگا، عناوین درج ذیل ہیں:
(۱)اجتہاداورکاراجتہاد(۲)ضرورت وحاجت (۳)عرف وعادت(۴) فقہی نظریہ سازی- تعارف اور جائزہ(۵)مقاصد شریعت -تعارف وتطبیق(۶)مقاصد شریعت-عہدبہ عہد تاریخی جائزہ(۷) فقہائے احناف کے طبقات(۸)دیانت وقضا۔
یہ کتاب فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)کی قیمتی تقریظ وتعارف سے مزین ہے، جس نے کتاب کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔
* اسلام کا نظام میراث
اسلام کا نظام میراث کتابچہ مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے اس لیے تیار کیا ہے تاکہ اسلام کے قانون میراث پر کئے جانے والے بعض اعتراضات کے جوابات دیے جا سکیں اور میراث میں عورتوں (بیوی، لڑکی، ماں) کے حصوں کو اجاگر کیا جا سکے، کیوں کہ عام طور پر مسلم معاشرے میں عورتوں کو حق میراث سے محروم کردیا جاتا ہے اور اسلام کے عادلانہ قانون میراث پر اعتراض کیا جاتا ہے ،اس کے علاوہ بھی مولانا بستوی صاحب نے میراث سے متعلق چند پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔
اس کتابچہ کے متعدد ایڈیشن مسلم پرسنل لا کی جانب سے شائع کیے گئے ہیں،جو یقینا مسلم معاشرہ کے لیے مفید ہے،مجلس تحقیقات شرعیہ نے بھی اس کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے۔
* عائلی تنازعات کا شرعی حل اور شوہر کو حق طلاق کیوں؟
کتابچہ کے مقدمہ میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒلکھتے ہیں :
’’دور حاضر میں اسلام کے جن قوانین پر بکثرت اعتراضات کیےگئے ہیں اور ان کے حوالہ سے اسلام کو بدنام کرنے کی ہر پیمانہ پر کوششیں ہوئی ہیں، ان میں ایک طلاق کا مسئلہ ہے، شوہر کو حق طلاق کا اختیار دیے جانے کو مغربی مفکرین نے عورتوں کے حق میں ظلم اور حق تلفی قراردیا ہے، جب کہ اسلام کا قانون طلاق سارے انسانوں خصوصًا عورتوں کے لیے سراپا رحمت ہے، بشرطیکہ اس کا استعمال کتاب وسنت کے مطابق کیا جائے۔‘‘(ص:۵-۶)
مذکورہ باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے یہ کتابچہ تالیف فرمایا ہے، تاکہ قانون طلاق کی معنویت کو خالص عقلی انداز میں سمجھایا جا سکے اورقانون طلاق کے بارے میں کیےجانے والے اعتراضات کا سنجیدہ علمی اوراطمینان بخش جواب دیا جا سکے۔مجلس کی اشاعت سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کتابچے کے کئی ایڈیشن شائع کیے اور معہد الشریعہ لکھنؤ نے بھی ایک ایڈیشن شائع کیا۔
دعا کرتے ہیں کہ مؤلف کی یہ کاوشیںبارگاہ خدا وندی میں قبول ہو اور علمی ودینی حلقوں کے لیے کارآمد وبارآور ہو۔
* نظریۃ تقدیم الأقوی
’’نظریۃ تقدیم الأقوی‘‘بلاشبہ اپنے موضوع پر پہلی اور فقہی نظریہ سازی کی فن پر ہندوستان میں پہلی عربی کتاب ہے۔ یہ کتاب علماء وفقہاء کو ایک وسیع اور عظیم فقہی نظریہ ،ان کی بنیادوں اور بہت سے گوشوں سے آشنا کراتی ہے،جو نظریہ بہت سے فقہی قواعد وکلیات کی اساس ہے اور جو مختلف علوم وفنون اور میدانوں پر محیط ہے۔ڈاکٹر محمد علی شفیق ندوی صاحب نے اس عظیم نظریہ کے مطالعہ وتحقیق اور اس کی پیش کش کے میدان میںپہل کی ہے۔
یہ کتاب بڑی عرق ریزی وجگرکاوی سے تصنیف کی گئی ہے اور اس کی تصنیف میں ۳۰۰کے قریب قدیم وجدید کتب سے استفادہ کیا گیا ہے،اس کتاب کی تصنیف پر ہم مصنف کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، کیوں کہ یہ علماء اورفقہاء کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔
* اسلام میں طلاق کا عادلانہ نظام اوراس کی حکمت وبرکت قرآن وسنت کی روشنی میں
مصنف کتابچہ کے پیش لفظ میں کتابچہ کے پس منظر کو حوالۂ قرطاس کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس تحریر کو لکھنے کا سبب ہمارے ملک کی وہ ہنگامی وبگڑتی صورت حال ہے جس میں طلاق کے نام سے اسلام اورمسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی ،بلکہ جس کے ذریعہ شریعت اسلامی(مسلم پرسنل لا) کونشانہ بنانے کی راہ ہموار کی گئی اور ملک کے پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کی بنا پر طلاق کے سلسلہ میںوہ بل منظور کرالیا،جس کی زد شریعت اسلام پر پڑتی ہے۔‘‘(ص:۱۱)
واقعی مصنف نے بہت سادہ ،عام فہم اور مؤثر انداز میں ۳۸عناوین کے ذریعے اسلام میں طلاق کے عادلانہ وحکیمانہ نظام اور اس کی حکمت وبرکت کو قرآن سنت کی روشنی میں پیش کرنے کی کامیاب کاوش کی ہے،اوربتایا ہے کہ اسلام کا قانون طلاق زحمت نہیں رحمت ہے،جس طرح نکاح انسانی ضرورت ہے، اسی طرح بعض خاص حالات میں طلاق انسانی ضرورت ہے۔
درج ذیل چند عناوین سے کتابچہ کی افادیت کا پتہ چلتا ہے:
(۱)دور جاہلیت میں طلاق کی ظالمانہ صورتیں(۲)دوسرے مذاہب میں طلاق کی صورتیں اور اس کے خطرناک نتائج(۳) اسلام میں طلاق کی اجازت کب اور کیوں؟(۴)اسلامی طلاق میں اعتدال اور حکمتیں (۵)عالمی تناظر میں طلاق-ایک جائزہ(۶)دنیا میں سب سے زیادہ طلاق والے ممالک
یہ کتاب قانون طلاق کی معنویت،اہمیت،افادیت،ضرورت اور اس کی معقولیت نیز طلاق کے بارے میں حقائق کو واضح کرنے میں بڑی ممد ومعاون ثابت ہوگی۔