مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ
January 4, 2025مجلس تحقیقات شرعیہ کی علمی خدمات
January 5, 2025
مجلس تحقیقات شرعیہ کی موجودہ گرمیاں
عبادالحق آسامی ندوی
(باحث مجلس تحقیقات شرعیہ،ندوۃ العلماء)
قدیم ادوار میں راسخ العلم علماء کی انفرادی و اجتماعی کوششیں جہاںجدید پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے کافی ہوتی تھیںوہیں کتاب و سنت کی روشنی میں ان کے طےکردہ اصول و مبادی مستقبل کے مسائل کے دریا کو پار کرنے والوں کے لئے پُل ثابت ہوئے ہیں،امام ابو حنیفہ (۱۵۰ھ) ان کے تمام شاگرد، امام مالک (۱۷۹ھ) ، امام شافعی (۲۰۴ھ) اور ان کے ممتاز شاگرد اور امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) جیسے بےشمار قد آور علماء اسی صف میں کھڑے ملیں گے، علماءِ حجاز کے علاوہ بر صغیر ہند و پاک میں مجدد الف ثانی (۱۶۲۴ء) ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۶۲ء) ،شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (۱۸۲۳ء) ، مولانا عبد الحی فرنگی محلی (۱۸۸۶ء) ، مولانا رشید احمد گنگوہی (۱۹۰۵ء) ، مولانا محمد علی مونگیری (۱۹۲۷ء)، مفتی عزیز الرحمن عثمانی (۱۹۲۸ء) ،مولانا ابو المحاسن محمد سجاد (۱۹۴۰ء) ، مولانا اشرف علی تھانوی (۱۹۴۳ء) ،مفتی کفایت اللہ دہلوی (۱۹۵۲ء) ، اور مولانا عبد الصمد رحمانی (۱۹۷۲ء) وغیرہ علماء کی قابلِ قدر کوششیں رہی ہیں۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں اجتماعی اجتہاد و اجتماعی غور و خوض کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی، کیونکہ اس متمدن اور ترقی یافتہ دور میں عوام تو عوام پڑھے لکھے طبقوں میں بھی بےچینی کی وبا پھیل رہی تھی، اور اسلامی تعلیمات کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا ، اجتماعی مسائل کو جلد از جلد حل کرنے اور اسلام پر اعتماد بحال کئے جانے کی حد درجہ ضرورت تھی کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اسلام کا حال بھی عیسائیت اور دیگر ادیان کی طرح ہو جاتا، چنانچہ اس کے لئے منظم طور پر اکیڈمیاں قائم کی گئیں، کمیٹیاں وجود میں آئیں، سب سے پہلے ۱۹۶۱ء میں جامعہ ازہر نے ’’مجلس البحوث الاسلاميۃ‘‘کے نام سے ایک اجتماعی ادارہ قائم کیا جس کی شاندار علمی اور تحقیقی سرگرمیاں ہیں، اس کے بعد یہ خوش قسمتی ندوۃ العلماء کے نصیب میں آئی ’’مجلسِ تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلما‘‘ کا قیام مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی (۱۹۹۹ء) رحمہ اللہ کی کوششوں سے۱۹۶۳ء میں عمل میں آیا جبکہ ’’مباحثِ فقہیہ‘‘۱۹۸۰ء میں، ’’ جدہ فقہ اکیڈمی ‘‘ ۱۹۸۳ء میں،’’اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ‘‘۱۹۸۹ء میں اور ’’مکہ فقہ اکیڈمی‘‘۱۹۹۶ء میں وجود میں آئیں، جن کی خدمات وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
مجلسِ تحقیقات شرعیہ کی خدمات
یوں تو مجلس نے شروع دن سے ہی اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں ، اس کے ناظمِ اول حضرت مولانا محمد تقی امینی صاحب(۱۹۹۱ء) رحمہ اللہ نے روزِ اول سے ہی زور و شور سے کام کا آغاز کر دیا تھا، مسئلۂ انشورنس کا سوال نامہ بھی تیار ہو چکا تھا، ان کے محدود وقت تک بہت ہی سرگرمی سے افتتاحی، تاسیسی اور مشاورتی نشستیں ہوئیں، جن میں بر صغیر ہند و پاک کے ممتاز علماء کی شرکت رہی، لیکن ۱۹۶۴ء میں علی گڑھ میں ان کی منتقلی ہو گئی، ان کی منتقلی کے بعد مجلس کے دوسرے ناظم کے طور پر حضرت مولانا اسحاق سندیلوی صاحب (۱۹۹۵ء) رحمہ اللہ مقرر ہوئے، آپ کے زمانۂ انتظام و انصرام میں بڑی خوبی کے ساتھ انشورنس اور رؤیتِ ہلال جیسے اہم مسائل پر تجاویز پاس ہوئیں اور سرکاری قرضے کے مسئلہ پر اجتماعی غور و خوض کا نظام بھی بن گیا، مگر افسوس وہ بھی ۱۹۷۰ء میں یہاں سے پاکستان منتقل ہو گئے، اس کے بعد مولانا برھان الدین سنبھلی صاحب (۲۰۲۰ء) رحمہ اللہ مجلس کے تیسرے ناظم بنائے گئے، اور کام جاری رہا، لیکن بدقسمتی سے ۱۹۷۱ء میں کسی وجہ سے اجتماعی بحث و تحقیق انفرادی نظام میں تبدیل ہو گئی، اور سارا کام مولانا برہان الدین سنبھلی صاحب رحمہ اللہ کے سپرد ہو گیا، تا دمِ حیات اس سلسلے میں ان کا عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل جاری رہا، پھر لاک ڈاؤن کے بعد ۲۰۲۰ء میں کچھ نئے عزائم اور نئے حوصلوں کے ساتھ مجلس کی تشکیلِ نو ہوئی، دراصل تشکیلِ نو کا خاکہ مولانا برھان الدین سنبھلی رحمہ اللہ کی حیات ہی میں مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب (۲۰۲۳ء) رحمہ اللہ نے اور دیگر ذمہ داروں نے پیش کیا تھا، مجلس نے نئے عزائم کے ساتھ بحث و تحقیق کی دنیا میں ایک بلند پرواز بھرنے کی ٹھانی، تشکیل نو کے بعد سے مجلس اپنے عزائم میں رواں دواں ہے۔
مجلس کی حالیہ سر گرمیاں
مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے متعدد سرگرمیاں جاری ہیں، جن میں فیملی لا لیکچر سیریز، لیگل لٹریسی کورس، سالانہ فقہی سیمینار، علمی و تحقیقی کتابوں کی طباعت اور بحث و تحقیق قابلِ ذکر ہیں:
مسلم فیملی لا لیکچر سیریز :
اس سلسلہ وار پروگرام کامقصد وکلاء حضرات کو اسلام کے عائلی قوانین سے واقف کرانا اور ان کے ذہن و دماغ سے غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے، سالِ رواں اس کے دو پروگرام ہوئے ہیں، ایک علمی مذاکرہ بعنوان ’’نفقۂ مطلقہ : شرعی اور قانونی نقطۂ نظر‘‘ بتاریخ۲۷ جولائی۲۰۲۴ء کو ہوا تھا، یہ اس سلسلے کا ۲۰ واں پروگرام تھا، اس میں مفتی عتیق احمد بستوی صاحب دامت برکاتہم سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ ، پروفیسر نسیم احمد جعفری صاحب ڈین فیکلٹی آف لاء انٹگریل یونیورسٹی اور ہائی کورٹ لکھنؤ کے وکیل ایڈووکیٹ اوصاف احمد خان صاحب نے معلومات افزا مقالات پیش کیا، مفتی ظفر عالم ندوی صاحب استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء نے تمہیدی گفتگو کی، شرکاءِ محفل میں ندوہ کے اساتذہ، طلبہ اور شہر کے وکلاء موجود تھے، اس پروگرام کا اچھا تاثر رہا، بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے مسائل سامنے آئے، ان کی مجبوریوں اور مصیبتوں کو سامنے لایا گیا اور اسلام کے نقطہ نظر سے ان پر بحث کی گئی، اور اس تعلق سے اسلامی قوانین کی حکمتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اور دوسرا پروگرام بعنوان ’’وقف امینڈ مینٹ بل ۲۰۲۴ء‘‘ بتاريخ۳ ستمبر بروز منگل ۲۰۲۴ء کو منعقد ہوا، یہ ۲۱واں پروگرام تھا،اس شاندار اور اہم پروگرام کے میر کارواں مولانا عتیق احمد بستوی صاحب (سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ) تھے،مولانا منور سلطان ندوی (رفیق علمی مجلس تحقیقات شرعیہ) نے نظامت کا کام انجام دیا، مفتی ظفر عالم ندوی صاحب (استاذ دار العلوم ندوہ العلماء) نے “وقف کی شرعی حیثیت: “چند بنیادی باتیں” کے عنوان سے بیش قیمتی محاضرہ پیش کیا،جناب عبدالحفیظ صاحب (ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لکھنؤ) نے”ہندوستان میں وقف قوانین اور وقف ایکٹ ۱۹۹۵” پر روشنی ڈالی اور مفتی ابرار حسن ندوی صاحب (ایل ایل ایم) نے “وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء کی مجوزہ ترميمات کا جائزہ” کے موضوع پر گفتگو کی جبکہ مہمانانِ خصوصی مولانا خالد رشید فرنگی محلی(امام عید گاہ لکھنؤ)، جناب سید محمد شعيب صاحب (سابق سی ای او سنی سنٹرل وقف بورڈ یوپی) اور جناب زفر احمد فاروقی (چیر مین سنی سنٹرل وقف بورڈ یوپی) جیسی اہم شخصیات نے اپنے خیالات پیش کئے،اور موضوع سے متعلق اہم نکات حاضرین کے سامنے آئے، اس پروگرام میں شہر کے وکلاء اور طلبہ کے علاوہ ندوہ کے اساتذہ بھی بڑی تعداد میں شریک تھے،اخیر میں مفتی عتيق احمد صاحب کی صدارتی گفتگو کے بعد پروگرام اختتام کو پہنچا۔
لیگل لٹریسی کورس :
مجلس کے زیر اہتمام ندوہ کے اختصاص کے طلبہ کو دستور ہند سے واقف کرانے کے لیے لیگل لٹریسی کورس چل رہا ہے، اس کورس کا آغاز گزشتہ سال ۲۰۲۳ء میں ہوا، اس کورس کا مقصد طلبہ کو وکیل بنانا نہیں ہے بلکہ طلبۂ مدارس کے اندر قانونی بیداری(Legal awareness) کو فروغ دینا ہے، یہ کورس ہم طالبان علوم نبوت کے لیے بڑا مفید رہا، گزشتہ سال افتتاحی تقریب کے علاوہ حیدر حسن خان ٹونکی ہال میں مجلس کی جانب سے دو پروگرام منعقد کئے گئے: ایک پروگرام یوم آئین ہند کے موقع پر جبکہ دوسرا پروگرام سالانہ امتحان کے قریبی دنوں میںلیگل لٹریسی کورس کے اختتام کی مناسبت سے منعقد ہوا تھا ، آخر الذکر پروگرام میں ناظم ندوۃ العلماء اور انٹگرل یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر سید وسیم اختر صاحب بھی تشریف فرما ہوئےاور ان دونوں حضرات نے اس کامیاب پروگرام سے اچھا تاثر لیا، اور اس کامیاب کورس کے شروع کرنے پر مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا، سالِ رواں بھی یہ کورس جاری ہے۔
فتاویٰ عزیزیہ کی تحقیق :
اسی طرح فتاوی عزیزیہ پر بھی بحث و تحقیق کا کام جاری ہے، دراصل مجلس کی تشکیل نو کے ساتھ اس کے نئے عزائم اور مقاصد میں یہ بھی تھا کہ نئے فارغ التحصیل طلبہ کو تصنیفی تربیت دی جائے اور ان کے اندر فقہی مہارت پیدا کرنے کے لئے ان سے فقہی موضوعات پر علمی وتحقیقی کام لیا جائے ، اس کے لئے مجلس نے ’’تربیت بحث و تحقیق‘‘ کورس کا آغاز کیا، اس میں دو منتخب فضلاء کو کسی کتاب یا موضوع پر بحث و تحقیق کا کام سپرد کیا جاتا ہے، چنانچہ شعبہ نے تحقیق کے لیے گذشتہ سال فتاویٰ عزیزیہ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ) کا انتخاب کیا تھا، اس پر اب بھی کام مسلسل جاری ہے۔
پانچواں فقہی سیمینار :
سالِ گزشتہ ۲۰-۲۱-۲۲/ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو مجلس کا پانچواں سہ روزہ فقہی سیمینار منعقد ہواتھا،اس شاندار سیمینار میں ملک کے نامور علماء کی شرکت رہی، اور تین نئے اور اہم عناوین ’’عوامی مقامات پر نماز‘‘’’ مساجد میں خواتین کی آمد‘‘اور ’’سونے چاندی میں معیار اور ضم نصاب‘‘جیسے مسائل پر تبادلہ خیالات ہوئے، اور متعدداہم تجاویز پاس ہوئی تھیں، ان تینوں موضوعات اور تحریروں کا مجموعہ تین کتابوں کی صورت میں تیار ہے ، جن کی اشاعت ان شاء اللہ تعالیٰ آنے والے سیمینار (جو ۳۰/ نومبر و یکم دسمبر کو ہونے والا ہے)کے موقع پر ہو جائے گی ۔
چھٹا فقہی سیمینار :
۳۰ نومبر و یکم دسمبر۲۰۲۴ء کو ندوہ کے احاطے میں دو روزہ مجلس کا چھٹا فقہی سیمینار منعقد ہونے جا رہا ہے، جس میں’’جانوروں کی مصنوعی افزائش‘‘،’’بیع معدوم کی جدید شکلیں‘‘ اور’’یسر و تیسیر اور عصر حاضر کے تقاضے‘‘جیسے نئے اور اہم عناوین پر اجتماعی بحث و مباحثے اور اجتماعی غور و خوض کے بعد تجاویز پاس کی جائیں گی۔