مجلس کے پہلے ناظم مولاناتقی امینی کے علی گڑھ جانے کے بعد دوسری مشاورتی نشست منعقدہ ۱۵ستمبر۱۹۶۴ء میں مجلس کی ذمہ داری دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سینئراستاذ مولانااسحق سندیلوی ندوی کے سپرد کی گئی،مولاناسندیلوی صاحب نے مجلس کے تخییل کوعملی صورت دینے کی بڑی کامیاب کوشش کی، ملک کے نامورعلماء کوایک پلیٹ فارم پرجمع کرکے مذکورہ تین اہم ترین مسائل پراجتماعی غوروفکرکانظام بنانا مولاناسندیلوی کی کوششوں کاثمرہ ہے،مولانانے اپنی علمی وعملی کوششوں سے نہ صرف نئے مسائل پرغوروفکرکرنے کے رجحان کو نئے بال وپرعطاکئے بلکہ انہوں نے ندوۃ العلماء اوربطورخاص مجلس تحقیقات شرعیہ کوعلمی وفقہی دنیامیں ایک شناخت عطاکی،لیکن افسوس کہ ۱۹۷۰ء میں مولاناکے کراچی پاکستان تشریف لے جانے کی وجہ سے علم وفقہ کے اس کارواں کی رفتارسست پڑگئی ،ان کے بعد مولانامحمدبرہان الدین سنبھلی صاحب مجلس کے تیسرے ناظم مقررہوئے،مولانانے دارالعلوم میں تدریسی خدمات کے ساتھ اس ذمہ داری کوبھی سنبھالا،آپ کے دورمیں مجلس کی ایک مشاورتی نشست ہوئی،اس کے بعدمجلس کے طریقہ کارمیںبڑی تبدیلی آئی، اور مجلس کی سرگرمیوں کارخ اجتماعی غوروفکرسے انفرادی تحقیق میں تبدیل ہوگیا۔