:دارالعلوم کے درج ذیل اساتذہ نگراں کمیٹی میں شامل ہیں
۔مولانامفتی محمدظفرعالم ندوی  (استاذفقہ ومفتی دارالافتاء)
۔مولانامفتی محمد مستقیم ندوی   (استاذفقہ وقاضی دارالقضاء)
۔مولانامفتی محمدزیدمظاہری ندوی (استاذحدیث وفقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء)
۔مولانامفتی مسعودحسن حسنی ندوی (استاذفقہ ومفتی دارالافتاء)
 

مولانا محمد ظفر عالم ندوی

نام: محمد ظفر عالم ندوی بن ماسٹر محمد تمیز الدین بہار کے ضلع پورنیہ میں۳؍نومبر ۱۹۶۶ء کو بسہاری  نامی گائوں کے ایک معروف دینی خاندان میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ فیض العلوم منجھیلی، پورنیہ میں ہوئی ،مولانا محمد طاہر ندویؒ سے عربی زبان و ادب اور نحو و صرف کی تعلیم حاصل کی ،پھر بہار کے مشہور تعلیمی ادارہ مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں ثانوی اور عالیہ درجات کی تعلیم حاصل کی۔جہاں مدرسہ کے مہتمم حضرت مولانا شمس الہدیٰؒ سرپرستی میں تعلیمی مراحل طے کئے، خلیفہ مجاز امیر شریعت رابع حضرت مولانا شاہ منت اللہ رحمانیؒنے بڑی محبت وتوجہ کے ساتھ تعلیم و تربیت میں سرپرستی فرمائی۔ آپ نے اس مدرسہ میں چار سال ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۳ء قیام کیا اور بڑے اہم اور مستند علماء سے خوب استفادہ کیا۔ بالخصوص مولانا قاسم سوپولویؒ، تلمیذ علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مولانا شمس الہدیٰؒ اور مولانا محمد قاسم مظفر پوری جیسے فاضل اساتذہ سے کسب فیض کیا، مولانا مظفرپوری قاضی شریعت بہار واڑیسہ کی خصوصی توجہ رہی اور ان سے حدیث، عربی شعر و ادب، نحو، عقائد اور منطق و فلسفہ کی متداول کتابوں کے علاوہ فن فقہ کی بہت ساری کتابیں پڑھیں، ان کی نگرانی میں فقہ کی اہم کتاب بالخصوص المغنی لابن قدامہ اور فتاوی ابن تیمیہ کا مطالعہ کیا۔ اس دوران وقتاً فوقتاً حضرت قاضی مجاہد الالسلام قاسمیؒ سے بھی علمی و فقہی استفادہ کرتے رہے۔
مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ سے مولوی یعنی مشکوٰۃ شریف تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد مرحوم کی خواہش اور خاندان کی روایت کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۹۸۴ء میںعالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا اور یہاںعالیہ ثانیہ شریعہ میں داخلہ لے کر پوری محنت و لگن اور دلجمعی کے ساتھ تعلیم کاآغاز کیا۔ اور اس دانشتگاہ میں آپ کو کھل کر چمنستان کے علم کے مختلف پھولوں سے عطر کشید کرنے کا موقع ملا اور عا لمیت اور فضیلت تک کے مراحل طے کئے، اور تقریباً ۱۹۸۹ءتک اس کے گل بوٹوں سے اپنی جیب و دامن کو بھرتے رہے۔
اس طویل مدت میں آپ نے مختلف ماہر اساتذہ بالخصوص مولانا ابوالعرفان خان ندوی، مولانا ضیاء الحسن ندوی ؒ سابق شیخ الحدیث، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی،مفتی ظہور ندویؒ، مولانا ناصر علی ندوی، ڈاکٹر مولانا سعیدالرحمن اعظمی ندوی مدظلہ العالی، مولانا سید محمد واضح رشیدحسنی ندوی مدظلہ العالی اور مولانا برہان الدین سنبھلی جیسے اساطین علم سے اکتساب فیض کیا۔ اس عرصہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ سے براہ راست علمی و فکری بھرپوراستفادہ کیا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کے اندر علمی ذوق اور تحقیق و جستجو کی صفت پیدا ہو چکی تھی اورعلم کے بحر عمیق سے صدف ریزی کے لطف سے آشنا ہو چکے تھے، چنانچہ فضیلت حدیث سے فراغت کے بعد ۱۹۸۹ء؁ میں اپنے مربی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے مشورہ سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کے پاس حیدرآباد حاضر ہوئے، جہاں انہوں اور ان کے رفیق محترم مولانا محمد رضوان القاسمی علیہ الرحمۃ نے حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کے مشورہ سے نوجوان فضلاء کی جدید پیش آمدہ مسائل کی تربیت و تدریب کے لئے ایک اسکیم بنائی تھی اور دارالعلوم سبیل السلام میں ایک شعبہ کا آغاز کرنا چاہا تھا، بحیثیت طالب علم وہاں داخل ہوئے اور دو سال قیام کرکے مولانا رحمانی مدظلہٗ سے اختصاص فی الفقہ میں استفادہ کیا۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریس و افتاء کی ذمہ داری

۱۹۹۱ءمیںدارالعلوم سبیل السلام سے فراغت کے بعد اپنے مربی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہٗ کے مشورہ اور توجہ سے مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کی وسیع علمی فضاء میںخدمت کا موقع ملا، اور تدریس وافتاء کی ذمہ دای سپرد ہوئی، جسے ما شاء اللہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
علمی ذوق اور وفتاویٰ نویسی شروع ہی سے آپ کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، اسی لئے آپ نے تحقیق و تالیف کی جولان گاہ۔ اسی موضوع کو بنایا، ایک طویل عرصہ تک ماہنامہ ’’بانگ درا‘‘ لکھنؤ میں فقہی سوال و جواب کا کالم لکھا، جس کا مجموعہ اب فتاویٰ حراء کے نام سے غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے، اس وقت ایک دہائی زائد عرصہ سے’’تعمیر حیات‘‘ میں فقہی سوال وجواب کا یہ کالم مسلسل لکھ رہے ہیں، جو اختصار، استناد اور سہل زبان کی وجہ سے مقبول عام ہے۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا میں ۱۹۹۰ءسے مسلسل شرکت کرتے رہے ہیں اور جدید پیش آمدہ مسائل پر مقالات بھی لکھتے رہے ہیں جو تقریباً پچاس کے قریب ہیں ان میں سے ایک تعداد مجلہ فقہ اسلامی کی زینت بنی ہوئی ہے، ان مقالات کا مجموعہ جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔
ان علمی اور فقہی سرگرمیوں کے علاوہ کلیہ الشریعۃ و اصول الدین دارالعلوم ندوۃ العلماء میںتدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، ساتھ ہی دارالافتاء کی بھی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، کئی ہزار فتاویٰ آپ کے قلم سے جاری ہو چکے ہیں، جن میں معتدبہ تعداد جدید پیش آمدہ مسائل کے جوابات پر مشتمل ہیں۔ آپ کی ایک اہم کتاب ’’اسلام کا نظام وقف‘‘ہے جو مجلس صحافت ونشریات ندوۃ العلماء سے طبع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ علمی تحقیقی کاوشوں کا بڑا حصہ اب تک غیر مطبوعہ شکل میں ہے، جن میں چند یہ ہیں۔
علامہ عینی اور ان کی کتاب عمدۃ القاری
حکم الازدواج فی الاسلام
کتاب العشر والزکوٰۃ
سماجی مسائل عصر حاضر کے تناظر میں
امام طبری حیات اور کارنامے
شاہ ولی اللہ اور ان کے نظریات و کارنامے
کتاب اللہ سے اخذ واستنباط کے اصول اور طریقے
فتاویٰ حراء

ان کاوشوں کے علاوہ اور بھی تحریر میں مختلف موضوعات سے متعلق مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ خدا کرے موصوف کی یہ کاوشیں عنداللہ و عندالناس مقبول ہوں اور علم و تحقیق کا سفر تاحیات جارہی رہے۔ اورخود آپ اور آپ کے والدین اور اساتذہ کے لئے یہ توشہ آخرت بنے۔ آمین ثم آمین۔

مفتی محمد مستقیم بن محمد حنیف ندوی

مفتی محمد مستقیم بن محمد حنیف ندوی ۱۱؍ جولائی ۱۹۶۸ء کو دوگھرا گائوں (جالہ) ضلع دربھنگہ، بہار میں پیدا ہوئے، ابتدائی و ثانوی تعلیم گائوں ہی کے مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ میں حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لکھنؤ کے لئے رخت سفر باندھا، اور عالمی شہرت یافتہ دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں طرح اقامت ڈال دی، اور وہاں زیر تعلیم رہ کر ۱۹۸۷ء میں عا لمیت اور ۱۹۸۹ء میں فضیلت سے فراغت حاصل کی، اس سے قبل ۱۹۸۱ء میں جامعہ دینیات اردو دیوبند سے فاضل اور ۱۹۸۵ء میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ،پٹنہ سے فوقانیہ تا فاضل (فارسی) کا امتحان دیا اور سند یافتہ ہوئے۔ جبکہ ۱۹۹۶ء میں یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن، لکھنؤ سے عالم اور ۲۰۱۵ء میں فاضل نیز ۱۹۹۴ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی۔اے۔ اور ۱۹۹۶ء میں اردو سے ایم۔اے۔ کیا۔
فی الحال عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں فقہ اسلامی کے استاذکی حیثیت سے علمی خدمات میں مصروف ہیں ،مزید ندوۃ العلماء کی مرکزی دارالقضاء اترپردیس، لکھنؤکے قاضی کونسل کے رکن اور دارالافتاء ندوۃ العلماء کے معاون مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ دارالقضاء فرنگی محل ، لکھنؤ، دارالقضاء جامعہ ام المؤمنین میمونہ اسلامیۃ للبنات، فیض اللہ گنج، لکھنؤ کے قاضی شریعت کے منصب پر فائز ہیں اور دارالقضاء ،بلیا اور اسی طرح دارالقضاء قنوج کے مشرف کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں۔
تدریس، فتوی نویسی اور کار قضاء کی انجام دہی پوری مستعدی کے ساتھ دیتے ہیں اور تحریر فتویٰ کے علاوہ زبانی مسائل میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ علم الفرائض میں بڑی مہارت ہے اور اس فن میں ان کی براعت کا اعتراف اکابر اہلِ علم اور ارباب فقہ و افتاء کو بھی ہے۔

مفتی محمد زید مظاہری ندوی

مختصر تعارف
نام: محمد زید
والد ماجد : حکیم مختار احمد صاحب
تاریخ پیدائش: ۱۶ فروری ۱۹۶۳ء بروز دوشنبه
آبائی وطن: قصبہ امرودہا ، ضلع ، کانپور ، یوپی
موجودہ وطن: دوبگا ، ہردوئی روڈ ، لکھنو (یوپی)
ابتدائی تعلیم : ۱۹۶۷ء گھر اور مکتب ( ناظرہ قرآن پاک و دینیات)
حفظ و قرآت کی تکمیل : ۱۹۷۱ء مدرسہ عربیہ حیات العلوم قصبہ خانپور ، اور یا ضلع اٹا وہ (یوپی)
عالمیت: ۱۹۷۲ء جامعہ عربیہ ہتھور اضلع بانده (یوپی ) ( از ابتداء تا مشکوۃ شریف ، بیضاوی شریف، ہدایہ رابع وغیرہ ) تا ۱۹۷۹ء
دوره حدیث شریف: ۱۹۸۰ء جامعہ مظاہر علوم سہارنپور ( صحاح ستہ ) بخاری شریف کا افتتاح از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ
تکمیل افتاء: ۱۹۸۲ء جامعہ مظاہر علوم سہارنپور (حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی وغیرہ سے افتاء کی کتابیں پڑھیں اور مشق کی )
تکمیل عربی ادب : ۱۹۸۳ء دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں عربی ادب میں داخلہ لیا اور دو سالہ کورس مکمل کیا۔
تکمیل قرأت سبعہ: ۱۹۸۵ء میں جامعہ عربیہ ہتھور اضلع باندہ میں قرآت سبعہ کی تکمیل کی۔
فتوی نویسی: ۱۹۸۵ء ہی سے اپنے اساتذہ کی ماتحتی وزیر نگرانی جامعہ عربیہ ہتھورا میں تدریس کے ساتھ فتوی نویسی کا بھی مشغلہ رہا جو۱۹۹۹ء تک جاری رہا، اس مدت میں سینکڑوں استفتاء کے جوابات اور فقہی مقالے لکھے۔
تدریس: ۱۹۸۵ء میں جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ میں شعبہ حفظ میں تقر ر ہوا اور ایک سال درجہ حفظ میں خدمت انجام دی۔ ۱۹۸۷ء میں شعبۂ عالمیت میں منتقل ہوئے اور ابتدائی کتابوں سے لے کر موقوف علیہ تک کی کتابیں زیر درس رہیں۔ ۲۰۰۰ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کے مشورہ و ایماء سے شعبہ تدریس میں تقرر ہوا، جو سلسلہ الحمد للہ اب تک جاری ہے، فی الوقت کتب حدیث ترمذی و مسلم شریف وغیرہ زیر درس ہیں۔
پہلی تصنیف: ۱۹۸۳ء میں ارکان ا الدین نامی پہلی کتاب جو تقریباً ۱۳۰ صفحات پر مشتمل ہے، تصنیف کی جو غیر مطبوعہ ہے۔
تصنیفی کام کا میدان: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے علوم و معارف اور ان کی اصلاحی و دعوتی اور تجدیدی کاوشیں جوان کی تصنیفات و تالیفات ، فتاوی ، ملفوظات و مواعظ میں منتشر ہیں ، ان کی فن اور موضوع و ارجدید اسلوب کے مطابق ترتیب و تجدید اور تبلیغ ، اس سلسلہ کی سب سے پہلی شائع ہونے والی کتاب العلم والعلماء“ ہے اس کے علاوہ سو سے زائد کتابیں مرتب ہو چکی ہیں ، اکثر مطبوعہ ہیں، مزید سلسلہ جاری ہے۔
تصنیف و تالیف کا دوسرا میدان مولانا صدیق احمد صاحب باندویؒ کے علمی و اصلاحی افادات کی جمع و ترتیب ہے،جس میں درس قرآن و درس بخاری اور اصلاحی ملفوظات و ارشادات بھی شامل ہیں۔
مجموعی تصانیف کی تعداد ۱۵۰ تک پہنچ چکی ہے ۔

مفتی سید مسعود حسن حسنی ندوی

مولانا مفتی سید مسعود حسن حسنی ندوی؍ابن سید حسن حسنی مرحوم ۱۳۹۵ھ؍مارچ ۱۹۷۵ء میں مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی سابق ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے مکان واقع گوئن روڈ، لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے مسعود حسن نام رکھا اور چار سال کی عمر میں رسم بسم اللہ ادا کرائی، اور سات سال کی عمر میں ناظرہ قرآن اپنی دعا سے مکمل کرایا، مکتب کی تعلیم مرکز والی مسجد کے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مکتب میں شروع کی اور ثانویہ کی تعلیم رائے بریلی کے مدرسہ ضیاء العلوم میں مکمل کی پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کلیۃ الشریعہ سے عا لمیت ۱۴۱۵ھ ۱۹۹۵ء میں اور فضیلت فقہ مین کلیہ الشریعہ سے ۱۴۱۷؍۱۹۹۷ء میں کیا، ۱۴۱۸ھ؍۱۹۹۸ء میں تدریب افتاء اور ۱۴۱۹ھ؍۱۹۹۹ء میں المعہد العالی للدعوۃ الفکر الاسلامی سے تربیت حاصل کی، پھر المعہد العالی للقضاء والافتاء سے بحیثیت معین مفتی اور پھر مفتی کی حیثیت سے وابستگی حاصل کی اور کچھ اسباقِ فقہ تدریس کے لئے بھی سپرد کئے گئے، قدوری، اصول الشاشی، سراجی فی المیراث ہدایہ اولین وغیرہ اور تدریب افتاء کے طلبہ کی تمرین فتاوہ کی نگرانی بھی کرتے ہیں، تعمیر حیات میں نو مسلموں کے ایمان کے واقعات کا مؤثر سلسلہ ۱۹۹۶ تا ۱۹۹۸ ء تک جاری رکھا، مگر یہ کتابی صورت میں طبع نہ ہو سکا، حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ کا اصول فقہ کا رسالہ زیر تحقیق ہے۔
۲۰۰۸ء میں معہد الاعداد الأئمہ والدعاۃ مکہ مکرمہ میں ایک سالہ تدریبی کورس میں شرکت کی اور اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے بعض مذاکرات علمی میں بھی شرکت کی جس میں جامعہ سید احمد شہید اکیڈمی کا فقہی سمینار اور جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ کا سمینار کاص طور پر قابل ذکر ہے۔

 ؒمولاناحفظ الرحمن ندوی

نام:حفظ الرحمن
والد ماجد : عبدالرحمن صاحب
تاریخ پیدائش:۱۹۵۵
آبائی وطن:مبارک پور،ضلع سہرسہ،بہار
تعلیم :ابتدائی تعلیم اورتکمیل حفظ گائوں کے مدرسہ اسلامیہ محمودیہ میں ہوئی،اس کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر پہونچے جہاں ۱۹۴۷تک ثانوی تعلیم حاصل کی،اس کے بعد گائوں کے مولوی حصیر الدین ؒ سے درس نظامی کے مطابق ثانوی درجات کی اکثرکتابیں پڑھیں،پھر مشکوۃ کے درجہ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا،اور غالبا ۱۹۸۰ میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کلکتہ میں ٹائمزآف انڈیا میں سب ایڈیٹرکے طورپر انتخاب ہوا،اسی طرح روزنامہ اقرا سے بطورمدیروابستہ ہوئے،تقریبادوسال بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا،اور یہاں اختصاص فی الادب العربی میں داخلہ لیا۔
اساتذہ: مولاناکے اساتذہ میں مولاناحصیرالدین قاسمیؒ،مولانافضل الرحمن رحمانیؒ،مولاناانظرشاہ کشمیریؒ،حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسن ندویؒ،مولاناسید محمدرابع حسنی ندویؒ،مولاناڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی،اورمولاناسیدمحمد واضح رشید حسنی ندویؒ شامل ہیں۔
تدریس :اختصاص کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ؒ مدرسہ فلاح المسلمین تندوا رائے بریلی میں استاذ ہوئے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریسی ذمہ داری : مدرسہ فلاح المسلمین میں دوسال پڑھایا،اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریس کے لئے بلائے گئے،یہاں تدریس کے ساتھ عربی اخبار الرائد سے وابستہ ہوئے۔
امتیازات وخصوصیات :مولانا لسانیات کے ماہر تھے،خاص طور پر ہندی،انگلش،سنسکرت،فرنچ اور عبرانی میں مہارت حاصل تھی۔
ترجمہ نگاری ان کا خاص میدان تھا،زبان او رقلم دونوں میں بڑی مہارت حاصل تھی۔
علمی اور دعوتی میدان کے لئے افراد سازی مولاناکاسب سے پسندیدہ موضوع تھا،اس کے لئے مستقل سوچتے اور منصوبہ بندی کرتے تھے،بڑی تعداد میں طلبہ مولاناسے فیضیاب ہوتے رہے۔
زندگی کے آخری لمحات تک دارالعلوم ندوۃ العلماء سے وابستہ رہے،اور طلبہ کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہونچاتے رہے۔