ساتویں فقہی سیمینار کی تجاویز
October 1, 2025
وقف ترمیمی قانون آئین ہند سے متصادم اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے لئے خطرہ
عتیق احمد بستوی
وقف کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلے کی تفہیم اور لائحہ عمل ‘‘کے عنوان سے ندوہ میں مذاکرہ کا انعقاد
ندوۃ العلماء کے علمی و تحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے ’’ وقف کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلے کی تفہیم اور لائحہ عمل‘‘کے عنوان سے علامہ حیدر حسن ٹونکی ہال میں مذاکرہ کا انعقاد ہوا،جس کی صدارت مجلس کے سکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی نے کی ، جبکہ پروفیسر نسیم احمد جعفری (صدر شعبہ قانون انٹگرل یونیورسٹی) اور ایڈوکیٹ آفتاب احمد صدیقی (ہائی کورٹ، لکھنؤ) نے اس موضوع پرتفصلی لیکچرس پیش کئے۔
مولانا عتیق احمد بستوی نے صدارتی خطاب میں وقف ترمیمی قانون اور حالیہ عبوری فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ قانون صریح طور پر آئین کے خلاف ہے،اس مسئلہ میں ایک طرف بیداری مغزی اورعزم وحوصلہ کے ساتھ قانونی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف ادھربھی توجہ دیناضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کی طرف سے وقف جائیدادوں کے بارے میں جوزیادتی ہورہی ہے وہ اب نہ ہو،وقف کے کرایہ دارپوراکرایہ اداکریں۔
مولانانے کہاکہ اسلامی قانون کے اعتبار سے وقف کے لئے مسلمان ہوناضروری نہیں ہے،اور یہ بات صرف اسلام میں ہی نہیں ہے، دنیامیں کہیں یہ شرط نہیں ہے کہ ایک مذہب کاماننے والا دوسرے مذہب کے لئے عطیہ نہیں دے سکتاہے،بلکہ ہرمذہب کے ماننے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا عطیہ اپنے مذہبی اور رفاہی کاموں کے لئے قبول کریں،پھرہمارے ملک کی یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلم بھائیوں کےمذہبی اداروں کے لئے اور غیرمسلم بھائیوں نے مسلمانوں کے مذہبی اداروں کے لئے تعاون کیا ہے، مذہبی رواداری یہاں کی مٹی میں ہے،اوریہی سیکولر ملک کی شناخت ہے،وقف ترمیمی قانون ۲۰۲۵کے ذریعہ نہ صرف ملک میں پائی جانے والے مذہبی رواداری ختم ہوگی بلکہ مختلف قوموں کے درمیان دوری بڑھنے کا امکان ہے۔
مولانانے مزید کہا کہ ملک کے دستورنے مسلمانوں کو جوحقوق دئے ہیں اسی کے مطابق عمل درآمدہوناچاہئے،جہاںحقوق سلب کئے جاتے ہیں وہیں سے ظلم کا دروازہ کھلتاہے،کسی بھی کمیونیٹی کے ساتھ ظلم ہومسلمان اس کو پسند نہیں کرتا۔
مولانانے غیر رجسٹرڈ وقف کی جائدادوں، مساجد، مدارس، خانقاہوں اور قبرستانوں کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، اس لئے ہمیں اپنے اوقاف کی حفاظت کے لئے فکر مندی کی ضرورت ہے، ورنہ بعد میں ہمیں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑیگا۔
پروفیسر نسیم احمد جعفری (صدر شعبہ قانون انٹگرل یونیورسٹی) نے اس موقع پر اپنا تفصیلی لیکچر پیش کرتے ہوئے اس فیصلے کی قانونی باریکیوں پر روشنی ڈالی اور سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلہ کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا،انہوں نے کہاکہ مسلمانوں سے متعلق معاملات میں سب سے زیادہ قانون سازی وقف کے مسئلہ میں ہوئی ہے،وقف سے متعلق نئے قوانین کے ذریعہ مسلمانوں میں جوبیداری آئی ہے وہ بہت اہم ہے،یہ بیداری وقف کے استعمال کے سلسلہ میں بھی ہونی چاہئے۔
مہمان خصوصی ایڈوکیٹ آفتاب احمد صدیقی (ہائی کورٹ، لکھنؤ) نے سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلہ پر تفصیلی گفتگو کی،اوراس قانون کے اندر کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک آئین دیا گیا، اور اس کے اندر ہمارے حقوق کی آزادی سے متعلق مختلف دفعات ہیں،ان دفعات میں چھیڑ چھاڑ کی بالکل گنجائش نہیں ہے، اگر کوئی حکومت اس کے خلاف قانون بناتی ہے توملک کے شہریوں کو کورٹ میں چیلنج کر نے کااختیاربھی دیاگیاہے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ وقف ترمیمی قانون ۲۰۲۵ فنڈامینٹل رائٹس ،رائٹ ٹوپراپرٹی اور آئین کے مختلف دفعات کے خلاف ورزی کرتا ہے، اگر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ کاگہرائی سے تجزیہ کریں توایسامحسوس ہوتاہے کہ کورٹ بھی سرکار کی حمایت اور تائید کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے غیر رجسٹرڈ اوقاف کے حوالے سے کہا کہ ہمیں ان کی حفاظت کے لئے مستعد ہونے کی ضرورت ہے، اور اس سلسلے میںوکلاء کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے، اس لئے ہمیں چاہیے کہ اس قانون کو پڑھیں، سمجھیں، امت کی صحیح رہنمائی کریں اور اوقاف کی حفاظت میں ہم سے جو بھی خدمت ہو سکتی ہے اس میں بالکل دریغ نہ کریں۔
مقررین کے خطاب کے بعد وکلاء کی طرف سے سوالات بھی کئی گیے، جن کا مقررین نے اطمینان بخش جواب دیا۔
مولانا منور سلطان ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے مجلس کی سرگرمیوں کاتعارف کرایا،انہوں نے کہاکہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے وقف کے موضوع متعددپروگرام ہوچکے ہیں،جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ مسئلہ کتنااہم اور حساس ہے۔
ڈاکٹر محمد علی ندوی (استاد دار العلوم ندوۃ العلماء) کی تلاوت سے جلسہ کاآغازاورصدرجلسہ کی دعاپراختتام ہوا،اس موقع پر وکلاء کے ساتھ دار العلوم کے اساتذہ،اختصاص کے طلباءخاص طور پر شریک رہے،مجلس کے معاونین اور ریسرچ اسکالرس نے مہمانوں کااستقبال کیا۔