عورتوں کو انصاف دلانا صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے۔مولانا عتیق احمد بستوی
مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام عورتوں کے حقوق پر سپوزیم کا انعقاد
مولانا محمد مستقیم ندوی اور ڈاکٹر وحید عالم کا اظہار خیال
عورتوں کو انصاف دلانا اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے، مگر ہمیشہ اسے مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، مسلم خواتین پر ظلم و زیادتی کے واقعات دکھایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عام خواتین کے مقابلہ میں مسلمانوں کے یہاں اس طرح کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں، ان خیالات کا اظہار مولانا عتیق احمد بستوی نے مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں کیا، ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے ہر ماہ مسلم فیملی لاء لکچر سیریز کا انعقاد ہوتا ہے، اس سیریزکا آٹھواں لکچر ندوہ کے عباسیہ ہال میں عورتوں کے حقوق کے موضوع پر منعقد ہوا،جس میں مولانا محمد مستقیم ندوی قاضی دارالقضاء ندوۃ العلماء نے شوہر کے غائب ہونے اور نفقہ نہ ادا کرنے کی صورت میں فسخ نکاح کے موضوع پر جبکہ پروفیسر وحید عالم نے گھریلو تشدد کے موضوع پر لکچرز پیش کئے، مولاناعتیق احمد بستوی سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ نے پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں عورتوں کے حقوق کی بات اس وقت شروع ہوئی جب یورپ وامریکہ میں اس بارے میں خاموشی تھی،۱۹۳۹ء کا ایکٹ عورتوں کو تحفظ فراہم کے سلسلہ میں بہت اہم ہے، ملک کے علماء اور قانون دانوں نے بڑا جامع ایکٹ پاس کروایا، اس ایکٹ میں وہ تمام اسباب موجود ہیں جن کی بنیاد پر بیوی کو اپنے شوہرسے نکاح ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، عورتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق کئی قوانین بنائے گئے، مگر ان سب کی بنیاد یہی ایکٹ ہے، مولانا نے مزید کہا کہ عورتوں کے حقوق کے نام پر بہت کچھ کیا جاتا ہے، مگرصورت حال یہ ہے کہ جتنے قوانین بن رہے ہیں اتنا ہی عورتوں پر ظلم بڑھ رہا ہے، مسلمانوں میں ظلم کے واقعی اور غیر واقعی اعداد وشمارسبھوں کے پاس ہوتے ہیں، مگر ملک کی عام خواتین پر ظلم سے متعلق اعداد وشمارکیا ہیں، ہندوؤں میں طلاق کی شرح کیا ہے، ہندو خواتین کے لئے طلاق لینا کتنا مشکل ہے، ان مسائل پرعموما اعداد شمارپیش نہیں کئے جاتے، مولانانے کہا کہ مسلمانوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں اپنے مسائل کیسے اٹھانا چاہیے، مسائل میں ان کی ترجیح کیا ہوگی، بس مسلمان ایک گیند کی طرح ہوگئے ہیں، جو بھی چاہے انہیں اچھال دیتا ہے۔
شیعہ کالج آف لاء کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وحید عالم نے ڈومسٹک وائلنس ایکٹ پر اپنا لکچر پیش کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو تشدد سے متعلق ایکٹ کا مقصد عورتوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ان پر ہونے والے گھریلو تشدد کو روکنا ہے، مگراس قانون کا استعمال زیادہ ترغلط ہوتا ہے، اور اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مردوں کو تحفظ فراہم کی ضرورت ہے، انہوں نے اس ایکٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ میں ذہنی، جسمانی، جذباتی، جنسی، معاشی ہرطرح کا تشدد شامل ہے، عورتوں پر زیادتی صرف سسرال میں ہی نہیں ہوتی، اسی لئے اس ایکٹ میں سسرال کے ساتھ خونی رشتہ اور قریبی رشتہ کے افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے، انہوں نے کہا عورت پر ظلم ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے، مگرجھوٹے مقدمات میں پھنسانا صحیح نہیں ہے، عموما جھوٹے مقدمات کی وجہ سے گھریلو زندگی تباہ ہوجاتی ہے، اس معاملہ میں جھوٹے مقدمات کی کثرت کی وجہ سے سپریم کورٹ کو گائیڈ لائن جاری کرنا پڑا تھا،مولانا محمد مستقیم ندوی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن عورتیں کے شوہرغائب ہوجائیں یا وہ نفقہ نہ ادا کریں ایسی عورتوں کو دارالقضاء سے رابطہ کرنا چاہیے، اور قاضی کے سامنے اپنے مسائل رکھنے چاہیے، مولانا نے اس موضوع کی شرعی اورفنی حیثیت واضح کرتے ہوئے شرعی حل بھی بیان کیا۔ مولانا منورسلطان ندوی نے استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلم فیملی لکچرسیریز کا مقصد علماء اور قانون دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے، مجلس تحقیقات شرعیہ اس جانب مسلسل کوشش کررہی ہے، مولانا ڈاکٹر محمد علی ندوی نے تلاوت کی جبکہ مولانا رحمت اللہ ندوی نے نظامت کے فرائض بحسن وخوبی انجام دئے، مولانانصراللہ ندوی اور مولانا عطاء الرحمن ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا، اس پروگرام میں وکلاء اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نوجوان اساتذہ شریک ہوئے۔