عورتوں کو انصاف دلانا صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے۔
February 14, 2022تجاویز بابت سرکاری اور غیر سرکاری سودی قرضے
December 2, 2022
مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے ’یونیفارم سول کوڈ :
قانونی پہلواور سماجی اثرات‘کے موضوع پر مذاکرہ
پروفیسروحیدعالم ،سینئرایڈوکیٹ مشتاق احمدصدیقی اور مولاناعتیق احمدبستوی کا اظہارخیال
یکساں سول کوڈ کا قانون بننے سے ہندوستانی سماج میں بہت سی دشواریاں پیدا ہوں گی،ملک کے جن صوبوں میں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہے وہاں اس قانون کی وجہ سے انتشاربہت ہے،ان خیالات کا اظہار سابق ڈسٹرکٹ جج مشیرعباسی نے ندوۃ العلماء کے شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام منعقدہونے والے ایک مذاکرہ میں کیا،مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے ہرماہ وکلاء کے لئے مسلم فیملی لا لکچرسیریز کے عنوان سے کسی اہم موضوع پر پروگرام کاانعقادہوتاہے،جس میں شہرکے وکلاء اور علماء ایک ساتھ بیٹھ کرباہم تبادلہ خیال کرتے ہیں،اس سلسلہ کا دسواں پروگرام ’یونیفارم سول کوڈ:قانونی پہلواور سماجی اثرات ‘کے عنوان سے منعقدکیا گیا جس میں شیعہ لاء کالج کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹروحیدعالم اور ہائی کورٹ کے سینئرایڈوکیٹ مشتاق احمدصدیقی خصوصی مقررکی حیثیت سے شریک ہوئے،مذاکرہ کی صدارت کرتے ہوئے مشیرعباسی سابق ضلع جج نے کہاکہ قانون سازی مستقل ایک عمل ہے، اس کا ایک قانونی پروسیجرہوتا ہے، یونیفارم سول کوڈ جیسے مسائل میں مذہبی ماہرین کی کمیٹی سے مشورہ لئے بغیراوران تمام طبقات کو اعتماد میں لئے بغیر جواس سے متاثر ہوں گے یہ قانون نہیں بنایاجا سکتا،اس لئے ہمیں قانون سازی کے عمل سے پہلے اس لئے تیاررہناہوگا،انہوں نے اس سلسلہ وارپروگرام کی ستائش کرتے ہوئے وکلاء اور علماء کے درمیان قانونی بیداری کوضروری قراردیا،مجلس تحقیقات شرعیہ کے سکریٹری مولاناعتیق احمدبستوی نے یونیفارم سول کوڈ کے مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایاکہ دستور کی دفعہ ۴۴جس میں یونیفارم سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے ،دستور کی بنیادی حقوق کی متعدد دفعات خصوصا دفعہ ۲۵(جومذہبی آزادی سے متعلق ہے)سے متصادم ہے،لہذا اگر بنیادی حقوق کی دفعات پر عمل کرنا ہے تو دفعہ ۴۴ پر عمل نہیں کیاجاسکتا،یونیفارم سول کوڈ پورے ملک کا مسئلہ ہے،صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے،پھربھی اگر زورزبردستی سے اس طرح کا کوئی قانون بنتا ہے تو ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے،مسلمان اگرطے کرلیں کہ وہ شریعت پر عمل کریں گے تو کوئی قانون انہیں روک نہیں سکتا،مولانانے کہا کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ لانے کا مقصد ملک میں اتحاد پیدا کرناہے، لیکن جب کوئی قانون جبریہ طریقہ پر لایاجائے گا تو اس سے اتحادکو کیسے تقویت حاصل ہوگی، مولانانے مزیدکہا کہ وکلاء اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی قانون کی افادیت اور سماج کے لئے ان کی نافعیت کو علمی اور تحقیقی بنیادوں پر ثابت کریں، اسلامی قانون اور دوسرے قوانین کاموازنہ کرکے سنجیدہ اور ٹھوس تحقیقات پیش کرناہم سب کی ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹروحیدعالم اسسٹنٹ پروفیسرشیعہ کالج آف لاء نے یونیفارم سول کوڈ کے قانونی اور دستوری پہلوؤںپر تفصیلی گفتگو کی،انہوں نے یونیفارم سول کوڈ کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے اس قانون کی تائیدمیں پیش کئے جانے والے دلائل کو بھی بیان کیا،انہوں نے کہاکہ مسلم عورتوں کوظلم سے بچانے کے لئے یونیفارم سول کوڈ کولانے کی بات کہی جارہی ہے،حالانکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے،مسلم عورتوں پر ظلم کے واقعات دوسری قوموں کے مقابلہ میں بہت کم ہیں،ایک سے زائد شادی کی شرح بھی بہت کم ہے،انہوں نے مزیدکہا کہ یونیفارم سول کوڈ قانون کے ان تمام دفعات سے متصادم ہے جن میں ملک کے مختلف اقوام کو مذہبی آزادی اور تہذیبی تشخص کوباقی رکھنے کے حقوق دئے گئے ہیں۔
سینئرایڈوکیٹ مشتاق احمدصدیقی نے اپنے طویل تجربات کی روشنی میں کہاکہ یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کرنے کی بجائے اس جانب توجہ دینا زیادہ ضروری ہے کہ اس قانون سے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،انہوں نے کہا اس قانون سے ہندوستانی معاشرہ میں انتشاراور تفریق زیادہ بڑھے گی،اور اس قانون سے اکثریتی فرقہ بھی متاثرہوگا،دوسری اقوام بھی متاثرہوں گی،اس پس منظرمیں ان پہلوؤں کو اجاگرکرنے کی ضرورت ہے جہاں اکثریتی فرقہ کے لوگ اس سے متاثرہوں گے،انہوں نے مزیدکہا کہ یونیفارم سول کوڈ سے وحدت پیداہونے کے بجائے انتشارکوفروغ ملے گا ۔
مولانامنورسلطان ندوی نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ پیش آنے والے مسائل کے بارے میں باہم تبادلہ خیال کرناسماج کے دانشورطبقہ کی ذمہ داری ہے،مسائل کاتجزیہ اور دوسروں کے نظریات کوسمجھے بغیرکوئی رائے نہیں قائم کی جاسکتی،اس حوالہ سے علماء اور قانون داں حضرات کے ماہانہ اجتماع کا نظام انتہائی مفید او رضروری ہے،مہمان مقررین کی گفتگو کے بعدسوال وجواب کاسیشن بھی ہوا،جس میں شرکاء نے باہم تبادلہ خیال کیا، مولاناظفرالدین ندوی کی تلاوت سے پروگرام کا آغازہوا،مولاناعطاءالرحمن ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا،اس پروگرام میں وکلاء او رعلماء کی ایک بڑی تعدادشریک ہوئی۔