مذہبی آزادی کے حدود : دستور ہند کی روشنی میں
September 30, 2024تفویض طلاق کا مسئلہ
September 30, 2024
مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کے تحت’ وصیت کے شرعی اور قانونی پہلو‘پرمذاکرہ کاانعقاد
مولاناعتیق احمدبستوی،مولاناڈاکٹرنصراللہ ندوی اوردیگرعلماء اور وکلاء کااظہارخیال
ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے ہرماہ مسلم فیملی لالکچرسیریزکے تحت کسی شرعی اور قانونی موضوع پر علمی مذاکرہ کاانعقادہوتاہے،اسی سلسلہ کابارہواں مذاکرہ ’وصیت :شرعی اورقانونی نقطہ نظر‘کے موضوع پرمولاناحیدرحسن خان ٹونکی لکچرہال منعقد ہوا،جس میں علماء اور وکلاء شریک ہوئے۔
مجلس تحقیقات شرعیہ کے سکریٹری اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سینئراستاذحدیث فقہ مولاناعتیق احمدبستوی صاحب نے تمہیدی گفتگوکرتے کہاکہ وصیت اسلامی شریعت کااہم حصہ ہے،قرآن اور احادیث دونوں میں اس کاذکرموجودہے،شریعت اپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ءمیں مسلم پرسنل لاء کے تحت جومسائل آتے ہیں ان میں ایک وصیت بھی ہے،وصیت ابتدائے اسلام میں فرض تھی،لیکن میراث کاحکم نازل ہونے کے بعد وصیت کرناجائزاورپسندیدہ عمل ہے،شریعت نے انسان کے مفادمیں یہ بات رکھی کہ اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی زیادہ کارخیرنہ کرسکاتوعمر کے آخری مرحلہ میں وصیت کے ذریعہ اس کارخیرکوانجام دے دے۔ مولانابستوی نے مسلم سماج کے لئے وصیت کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے خاص طورپرعلماء اور ائمہ سے درخواست کی کہ وہ عام مسلمانوں کاوصیت کرنے کامزاج بنائیں ،مولانانے مزیدکہاکہ میراث کانظام اگرایمانداری سے نافذ کیاجائے تو مسلم خاندانوں میں ہونے والے بہت سے مسائل ختم ہوجائیں گے،مگرافسوس کہ عمومامسلم معاشرہ میں شرعی نظام کے مطابق میراث کی تقسیم نہیں ہوتی،خاص طورپرلڑکیوں اور عورتوں کووراثت میں حصہ نہیں دیاجاتا،اس تناظرمیں اگرشرعی نظام کے مطابق وصیت کی جائے تونہ صرف یہ کہ عورتوں کومیراث میں ان کاحصہ مل پائے گابلکہ وراثت کی تقسیم سے متعلق بہت سے جھگڑے بھی ختم ہوجائیں گے۔
مولاناڈاکٹرنصراللہ ندوی استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء ورفیق مجلس تحقیقات شرعیہ نے وصیت کی شرعی حیثیت کے موضوع پر تفصیلی مقالہ پیش کیا،انہوں نے بتایاکہ شریعت میں وصیت کی بڑی اہمیت ہے، کارخیرمیں انسان سے جوکوتاہی ہوجاتی ہے ،اس کی تلافی کے لئے وصیت بہترین عمل ہے،انہوں نے بتایاکہ وصیت کی مختلف قسمیں ہیں،کبھی وصیت کرناواجب ہوتاہے،کبھی مستحب ہوتاہے،کبھی،مباح،کبھی مکروہ توکبھی حرام،اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اگرکسی کے پاس کوئی امانت ہے یانامعلوم شخص کاقرض ہے یااس کے ذمہ کچھ فرائض باقی ہیں تواس کی وصیت کرنافرض ہے،غیروارث رشتہ داروں،ضرورت مندوں اور رفاہی کاموں کے لئے وصیت کرنامستحب ہے،اجنبی شخص کے حق میں وصیت کرنامباح ہے،اصحاب فسق وفجوراور معصیت کے شوقین لوگوں کے لئے وصیت کرنامکروہ ہے،اور معصیت کے کاموں کے لئے وصیت کرناحرام ہے۔
الغرض انہوں نے وصیت کے موضوع پر تمام اہم پہلوئوں کی وضاحت کی،خاص طور پروصیت کے اسلامی تصور،وصیت کے شرائط وارکان کودلائل کی روشنی میں واضح کیا،انہوں نے کہاکہ وصیت ایک تہائی مال میں نافذہوتی ہے،ایسی وصیت جس کامقصد وارثین کونقصان پہونچاناہوشریعت میں جائزنہیں ہے،انہوںنے وراثت کے قوانین کاجائزہ لیتے ہوئے اس بات کابھی ذکرکیاکہ جن ملکوں میں پرسنل لاء نافذ نہیں ہے ،وہاں وصیت کے ذریعہ سے وراثت کی تقسیم کوشریعت کے مطابق انجام دیاجاسکتاہے۔
مقالہ کے بعد سوال وجواب کاسیشن ہواجس میں شرکاء نے بھرپورحصہ لیا،اور خاص طور پر وکلاء نے وصیت سے متعلق قانونی پہلوئوںاوراس بارے میں پائی جانے والی دشواریوں کاذکرکیا،شرکاء کااحساس تھاکہ مسلمانوںمیں وصیت کرنے کاماحول بنانے کی ضرورت ہے،میراث کے نظام میں جوکمی پائی جاتی ہے اس کمی کو وصیت کے ذریعہ پوراکرنے پر غورکیاجاناچاہیے،وکلاء نے اس بات پربھی زوردیاکہ وصیت کرنے کے بعد اس کورجسٹرڈ بھی کروائیں، کیونکہ موجودہ قانون میں جووصیت رجسٹرڈ نہ ہووہ معتبرنہیں ہوتی ہے،پروگرام کاآغاز مولانا ظفرالدین ندوی(استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء ) کی تلاوت وترجمہ سے ہوا، مولانارحمت اللہ ندوی(استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء ورفیق مجلس تحقیقات شرعیہ)نے نظامت کے فرائض انجام دئے، جبکہ مولانامنورسلطان ندوی اورمولاناعطاء الرحمن ندوی(رفقاء مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء) نے مہمانوں کاستقبال کیا،پروگرام میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نوجوان اساتذہ اورسیشن کورٹ،فیملی کورٹ اور ہائی کورٹ لکھنؤمیں پرکٹس کرنے والے وکلاء کی ایک تعدادشریک ہوئی۔
(رپورٹ:مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ)