نفقہ کے قانونی اور شرعی پہلو
September 30, 2024نکاح کی شرعی اور قانونی حیثیت
September 30, 2024
یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کامسئلہ نہیں تمام قوموں کامسئلہ ہے۔جسٹس ایس ایم حسیب
مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام ’یونیفارم سول کوڈ :قانونی حیثیت اور سماجی اثرات‘کے موضوع پر مذاکرہ،مولاناعتیق احمدبستوی ،پروفیسرنسیم احمدجعفری اور دیگراہل علم کااظہارخیال
یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کامسئلہ نہیں ہے،یہ حکومت کامسئلہ ہے،ملک کی اقلیت تودور یہاں کی اکثریت بھی اس کے لئے تیارنہیں ہے،اس لئے اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیںہے،البتہ مسلمان سونے والی قوم نہیں ہے،اس لئے اسے ہرچیزسے واقف رہناچاہئے،ان خیالات کا اظہار ریٹائرڈجج جناب ایس ایم حسیب نے ندوۃ العلماء میں منعقدہونے والے ایک سمپوزم میں کیا،ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے مسلم فیملی لالکچرسیریزکے تحت پندرہواں مذاکرہ ’یونیفارم سول کوڈ :قانونی حیثیت اور سماجی اثرات ‘کے موضوع پرمنعقدہوا،اس پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے ریٹائرڈ جج جسٹس ایس ایم حسیب نے کورٹ کے مختلف فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کورٹ کامانناہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل نہیں کیاجاسکتاہے،اوراس بنیادی ڈھانچہ میں پارلیامنٹری فورم آف گورمنٹ ،فنڈامنٹل رائٹس (بنیادی حقوق)،اور پاورکی تقسیم شامل ہیں،بنیادی ڈھانچہ کو بدلنانہ حکومت کے اختیارمیں ہے اور نہ ہی پارلیامنٹ کے اختیارمیں ،انہوں نے قانون اور شریعت کے موضوع پر ہونے والے اس سلسلہ وارپروگرام کو سراہتے ہوئے اسے وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔
مولاناعتیق احمدبستوی نے موضوع پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ یونیفارم سول کوڈکامسئلہ صرف مسلمانوں کامسئلہ نہیں ہے،یہ تمام قوموں کا مسئلہ ہے،اس ملک کے دستور نے ملک کے تمام باشندوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کاحق دیاہے،دستورکی دفعہ ۲۵ میں اس کی صراحت موجودہے،ملک کے ۸۵ فیصد قوانین تمام شہریوں پریکساں طورپر نافذ ہیں،صرف پرسنل لاء کے مسائل جوقوانین کادس فیصد بھی نہیں ہے ان میں ہرمذہب کے لوگ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کررہے ہیں،اس آزادی کوختم کرکے یونیفارم سول کوڈ کوتھوپنے کی کوشش ملک کے شہریوں خصوصا مذہبی اقلیتوں میں حددرجہ بے چینی پیداکرے گی،یہ بات ہمیں بھی سمجھناچاہیے اور دوسروں کوبھی بتاناچاہئے،پرسنل لا سے متعلق مسائل پوری تفصیل کے ساتھ قرآن وحدیث میں موجود ہیں، شریعت اللہ کابنایاہواقانون ہے،اسے مسلمانوں نے نہیں بنایاہے ،اس لئے شریعت کوبدلنے کااختیارکسی کو نہیں ہے،اگر شریعت میں تبدیلی کی بات کی جائے تویہ مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگی،لیکن مسلمانوں کو حکمت عملی کے ساتھ اپنی بات رکھنی چاہیے۔
انٹگرل یونیورسیٹی کے شعبہ قانون کے صدرپروفیسرنسیم احمدجعفری نے یونیفارم سول کوڈکی قانونی حیثیت پرتفصیلی لکچرپیش کیا،انہوںنے کہاکہ یونیفام سول کوڈ اورکامن سول کوڈ میں بڑافرق ہے،اس فرق کو ملحوظ رکھناچاہیے،انہوں نے مزیدکہا کہ قوانین کابڑاحصہ اورخاص طور پرکرمنل لاء ملک کے تمام شہریوں کے یکساں ہے،پرسنل لاء مختلف قوموں میں الگ الگ ہیں،انہوں نے مزیدکہاکہ دستورکے مطابق مذہبی آزادی باقی رکھنے کے لئے اگر پرسنل لاکی حد تک ہرقوم اپنی مذہبی تعلیمات یامذہبی روایات پر عمل کررہی ہے تواس سے ملک کے اتحاد وسالمیت پر کوئی برااثرنہیں پڑے گا،بلکہ اس رنگارنگی اور تنوع سے ملک کااتحاد اور مضبوط ہوگا۔
ایڈوکیٹ ریحان انصاری (کورٹ منیجربارہ بنکی)نے کہاکہ اگریونیفارم آئے توکیوں آئے گااس کے اسباب پر بھی غورکرناچاہیے،انہوں نے کہاکہ آج فیملی کورٹ میں سب سے زیادہ مسائل مسلمانوں کے ہوتے ہیں،معاشرتی خرابیوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں،ہم خود دوسروں کے حقوق نہیں اداکرتے ،مسلم عورتیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کرکورٹ پہونچ رہی ہیں،اس لئے ہمیں پہلے اپنے گھروں کی اصلاح کرنی چاہیے۔لاء کے ریسرچ اسکالرمحمدابرارایوبی ندوی نے مختلف فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اصل مقصد مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی شناخت کو ختم کرناہے،اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،مسلمانوں کویہ بات ذہن میں رکھ کر اپنے لئے کچھ سوچناچاہئے۔مولانامنورسلطان ندوی رفیق مجلس تحقیقات شرعیہ نے مسلم فیملی لالکچرسیریزکاتعارف کراتے ہوئے کہاکہ اس پروگرام کا مقصد شریعت اور قانون سے متعلق مسائل اور ایشوزپرکھلے ماحول میں تبادلہ خیال کرناہے،علماء اورقانون داںحضرات کاایک پلیٹ فارم پرجمع ہونااورکسی مسئلہ پرباہم تبادلہ خیال کرناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے،مولاناظفرالدین ندوی کی تلاوت وترجمہ سے پروگرام کاآغازہوااورناظم جلسہ کے شکریہ پرپروگرام کااختتام ہوا،اس مذاکرہ میں وکلاء کے ساتھ دارالعلوم کے نوجوان اساتذہ اور لکھنوکے اہل علم شریک ہوئے۔