مجلس تحقیقات شرعیہ کے علمی وتحقیقی ترجمان ’سہ ماہی تحیققات شرعیہ ‘ کے دوسرے شمارہ کی رسم اجرا
May 12, 2025
یونیفارم سول کوڈ تضادات کامجموعہ ہے،اور یہ ملک کے لئے مفیدنہیں ہے
عتیق احمد بستوی
مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیر اہتمام ’’اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ 2024 :قانونی و آئینی تجزیہ ‘‘کے عنوان سے مذاکرہ کا انعقاد
ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے’’ اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ 2024 :قانونی و آئینی تجزیہ‘‘ کے عنوان سے علامہ حیدر حسن ٹونکی ہال میں مجلس مذاکرہ کاانعقاد عمل میں آیا،پروگرام کی صدارت مجلس کے سکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی نے کی،جبکہ پروفیسر نسیم احمد جعفری ڈین فیکلٹی آف لاء انٹگرل یونیورسیٹی نے تفصیلی لکچرپیش کیا۔
مولاناعتیق احمد بستوی نے صدارتی خطاب میں کہا: دستور میں مسلمان اور دیگراقلیتوں کو بہت سے تحفظات حاصل ہیں، یونیفارم سول کوڈلانے سے ان دفعات کو ختم کرنایاان میں تبدیلی کرنالازم آئے گا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں،مولانانے مزیدکہاکہ اتراکھنڈ میں لاگوہونے والایونیفارم سول کوڈ تضادات کا مجموعہ ہے،اور یہ ملک کے لئے کسی بھی طرح مفید نہیں ہے،اس کے نیتجہ میں مسلمان اور ملک کی دیگراقلیتوں کے حقوق جو دستورمیں دئے گئے ہیں،وہ متاثرہوں گے۔مولانانے کہاکہ یونیفارم سول کوڈ لانے کا مقصد صرف ایک خاص کمیونٹی کو پریشان کرنا ہے، یہ قانون آئین ہندکی دفعہ ۲۵ سے صریح متصادم ہے جو دستور میںدئے گئے بنیادی حقوق کااہم حصہ ہے،صوبہ اتراکھنڈ میں نافذ کیا جانے والا یہ قانون شرعی نقطہ نظرسے قابل قبول نہیں ہے،اس میں مسلمانوں کے دستوری حقوق کی پامالی ہے،اور یہ قانون شریعہ اپلیکشن ایکٹ ۱۹۳۷ء اور دوسرے مرکزی قوانین سے متصادم بھی ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر نسیم احمد جعفری (ڈین فیکلٹی آف لاء انٹگرل یونیورسٹی لکھنؤ) نے اتراکھنڈ کے اس قانون کا تفصیلی جائزہ پیش کیا،انہوں نے کہا کہ آئین بناتے وقت ہی یہ بات آئی تھی کہ یونیفارم سول کوڈہوناچاہئے،کچھ ایسے مسائل ہیں جن پر قانون سازی کااختیارمرکزکوہے،کچھ مسائل پرقانون بنانے کااختیار صوبائی حکومت کوہے،اور کچھ مسائل وموضوعات ایسے ہیں جن پرقانون سازی کااختیارمرکزاور صوبائی حکومت دونوں کوہے،نکاح،طلاق ،وراثت جیسے معاشرتی معاملات پر قانون سازی کااختیاردونوں کوہے، اس لئے یہ کہنا کہ ریاستی حکومت یونیفارم سول کوڈ کاقانون نہیں بنا سکتی یہ بات اصولی طورپردرست نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ قانون میں یہ بات بھی لکھی ہے کہ اگر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے بنائے ہوئے قانون میں تصادم ہوتا ہے تو مرکزکے بنائے ہوئے قانون کو ترجیح حاصل ہوگی۔
انہوں نے یونیفارم سول کوڈ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ہندوستان میں تقریبا تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے زیادہ تر قوانین پہلے ہی سے یکساں ہیں،صرف وہ قوانین جن کاتعلق معاشرتی معاملات سے ہے،وہ الگ ہیں،ایسی صورت میں اگر ان مسائل کوبھی یکساں کردیاجائے توپرسنل لاء کاوجودہی ختم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہاکہ اتراکھنڈ کے یونیفارم سول کوڈ میںنکاح ،طلاق،بچہ کوگودلینے،نفقہ،وراثت جیسے کچھ مسائل ہیں،مثلا نکاح وطلاق کے لئے رجسٹریشن لازمی قراردیاگیاہے،بیک وقت ایک سے زائد شادی ممنوع ہے،میراث میں لڑکااور لڑکی دونوں کو برابرحصہ ملے گا،چچازادسے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،زبانی طلاق کااعتبارنہیں ہوگا،اورطلاق کے لئے وجہ بتاناہوگا،اس طرح کے اور بھی کچھ مسائل ہیں۔
انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے کہاکہ یونیفارم سول کوڈکاقانون دستورکے مختلف دفعات سے ٹکراتاہے،اسی بنیاد پر اس قانون کو چیلنج بھی کیاگیاہے،اس قانون کابڑانقصان یہ ہوگاکہ ملک کی اقلیتوں کے حقوق ختم ہوجائیں گے۔
پروگرام کاآغازمحمد حمزہ کی تلاوت سے ہوا،مولانامنورسلطان ندوی نے نظامت کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں بننے والے نئے قوانین کا گہرائی سے جائزہ لیناملک کے باشعورلوگوں کی ذمہ داری ہے،مجلس تحقیقات شرعیہ کی کوشش ہے کہ اس طرح کے قانونی موضوعات پر علماء اور قانون داں ایک ساتھ بیٹھیں،اور قانون کی باریکیوں پرغورکریں،مجلس کے باحثین اور معاونین نے مہمانوں کااستقبال کیا،صدرجلسہ کی دعاپرپروگرام کااختتام ہوا،اس پروگرام میں وکلاء اور دارالعلوم کے اساتذہ اور اختصاص کے طلبہ شریک ہوئے۔