عہد نبوی میں ابلاغ کے ذرائع
January 4, 2025مجلس تحقیقات شرعیہ کی موجودہ گرمیاں
January 4, 2025
مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ
ایک معروضی مطالعہ
مولاناڈاکٹرمحمد اعظم ندوی
(استاذ :المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحبؒ (۱۹۰۸۔۲۰۰۲) نے تالیف وتصنیف کے میدان میں نئی نئی جہتیں نکالی ہیں، وہ پامال راہوں پر کم چلے ہیں، ان کے قلم تحقیق رقم سے نادر موضوعات پر بیش قیمت اور ٹھوس علمی کام منظر عام پر آتے رہے، اور اللہ تعالی نے ان کو با فیض بنایا، ان کے بہت سے کاموں نے مرجع کی حیثیت حاصل کی، چنانچہ ان کی تحقیقات کو کسی تعارفی مقدمہ یا تقریظ کی ضرورت نہیں پڑی، ان کا کام خود بولتا ہے، اور ذوق تحقیق رکھنے والے طالب علموں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں، شاید یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے، انہیں نوادرات علمی میں ایک کتاب ’’مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ للعہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ‘‘ ہے، جس میں ۶۳۶ دستاویزات ہیں،اگرچہ نمبر شمار کے اعتبار سے کتاب میں ۳۷۳ ہی ہے، لیکن کئی دستاویزات میں ایسا ہوا ہے کہ بعد کے ایڈیشن میں سابقہ نمبر کو باقی رکھتے ہوئے الف،ب،ج لکھ کرکسی اضافی فائدہ کی بنیاد پر مکرر یا تین چار طریقہ سے بھی ایک ہی تحریر کو نقل گیاہے، اس طرح ان کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے، یہ دستاویزات درج ذیل ۷ موضوعات سے متعلق ہیں:
۱۔معاہدات یا معاہدات کی تجدید
۲دعوت اسلام۔
۳۔عمال کے تقررات اور ان کے فرائض ۔
۴۔اراضیات اور ان کی اجناس وغیرہ کے بخشش نامے۔
۵۔صلح وامان اور وصیت۔
۶۔چند خاص لوگوں کے حق میں کچھ مخصوص معاملات میں گنجائش پر مشتمل تحریریں۔
۷۔متفرقات جن میں بعض وہ خطوط بھی ہیں جو مکاتیب نبوی کے جواب میں آئے۔
کتاب کے ایڈیشن
میرے زیر نظر کتاب کے اصل عربی نسخہ کا چھٹا ایڈیشن ہے، جس کا سن طباعت ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۹۸۷ء ہے، اور یہ درمیانی سائز کے ۷۵۷ صفحات پر مشتمل ہے، یہ دار النفائس ، بیروت، لبنان سے چھپا ہے، اس سے پہلے بھی اس کے دوایڈیشن ، طبع چہارم۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۰ء میں اور طبع پنجم ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۹۸۵ء میں اسی کتاب گھر سے شائع ہوئے ہیں، اور اس کے بعد اس کا ساتواں ایڈیشن بھی یہیں سے ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ہے ، اور اس پر پہلی بار بین الاقوامی معیاری کتابی عدد) ISBN ( بھی لکھا گیاہے، اور وہ یہ ہے:) ISBN 9953-18-038-5 (، جبکہ یہ پہلی بار عربی زبان میں لجنۃ التالیف والترجمہ،قاہرہ، مصر سے ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۱۴ء میں شائع ہوا، اور دوسری بار بھی ۱۳۷۶ھ مطابق ۱۹۵۶ء میں یہیں سے چھپا، تیسرا ایڈیشن دار الارشاد، بیروت سے ۱۳۸۷ھ مطابق ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا، پھر مسلسل چار ایڈیشن دار النفائس سے آچکے ہیں جیسا کہ ابھی ذکر آیا۔
فرانسیسی اور اردو ترجمے
ان دستاویزات کا فرانسیسی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود شائع کیا، جس کے ساتھ ان کی تاریخی حیثیت پر سیرحاصل بحث کی،جس کا عنوان تھا: Documents sur la diplomatic musulmane a l`epoque du Prophete des khalifes orthodoxes ، جس پر انہیں۱۳۵۳-۵۴ھ مطابق ۱۹۳۵ء میں یونیورسٹی آف پیرس سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی، جو اسی سال Maisonneuve پیرس سے شائع ہوئی (مجموعۃ الوثائق:ص۲۶) ، عربی میں تو اس کا اصل مسودہ تھا ہی، اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ’’ آنحضرت ﷺ کے فرامین، معاہدات، مکاتیب اور خلفاء راشدین کے احکام : سیاسی وثیقہ جات از عہد نبوی تا بہ خلافت راشدہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، جس کے مترجم مولانا ابو یحیی امام خاں نوشہروی ہیں، مترجم کے مقدمہ پر ۱۲ ؍اپریل ۱۹۶۰ء کی تاریخ درج ہے، شاید پہلی بار اسی سال چھپی ہو، میں نے اس کا دوسرا ایڈیشن دیکھا ہے جو حکومت پنجاب کے محکمۂ اطلاعات کے تعاون سے ۲۰۰۵ء میں مجلس ترقی ادب لاہور سے۳۳۰ صفحات میں شائع ہوا ہے۔
کتاب کے مندرجات
طبع ششم پہ پانچ مقدمات خود ڈاکٹر صاحب کے قلم سے موجود ہیں، چھٹے ایڈیشن کا کوئی اضافی مقدمہ نہیں،تیسرے مقدمہ پر رجب ۱۳۸۷ھ کی تاریخ درج ہے، چوتھے پر۵ ذی الحجہ ۱۴۰۱ھ، پانچویں پر یوم میلاد النبی ۱۴۰۵ھ کی تاریخیں درج ہیں، یہ تینوں مقدمے پیرس میں لکھے گئے ہیں، پہلے اور دوسرے مقدمات پر تاریخیں موجود نہیں ہیں، البتہ پہلے مقدمہ پر نام کے ساتھ مقام جامعہ عثمانیہ حیدرآباد، دکن کا ذکر ہے۔
ان مقدمات کے بعد ایک صفحہ میں کتاب میں استعمال ہونے والے رموز واشارات کی وضاحت کی گئی ہے، جیسے ’’بث‘‘ سے مراد ابن اثیر کی ’’اسد الغابۃ‘‘، ’’بج‘‘سے مراد ابن حجر کی ’’الاصابۃ‘‘ ، ’’طب‘‘ سے ’’تاریخ طبری‘‘ ، ’’قلقش‘‘ سے ’’ قلقشندی‘‘، ’’س‘‘ سے’’ سطر‘‘، ’’ص‘‘ سے ’’صفحہ اور ’’انظر‘‘سے جدید تحقیقات کی طرف اشارہ وغیرہ۔ اس کے بعد تین صفحات میں عربی مجموعہ اور اس کے فرانسیسی ترجمہ میں دستاویزات کے نمبرات میں جو فرق ہے اس کی فہرست دی گئی ہے۔
کتاب میں چار ابواب ہیں، جو ’’القسم‘‘ کے عنوان سے ہیں، پہلی قسم میں وہ دستاویزات ہیں جو ہجرت سے پہلے کی ہیں، جو کتاب کے بارہ صفحات پر مشتمل ہیں، سب سے پہلے خط کا عنوان ’’الی النجاشی فی شان مھاجری الحبشہ‘‘ ہے، یعنی مہاجرین حبشہ کے سلسلہ میں نجاشی کو لکھا گیا مکتوب نبوی ہے، اس کے علاوہ اور۸ ؍ دستاویزات ہیں،گویا ان کی مجموعی تعداد ۹ ہے، جن میں وہ تحریر بھی ہے جو قریش نے بنو ہاشم کے بائیکاٹ کے لیے لکھی تھی، اور بیعت عقبۂ اولی، ثانیہ اورثالثہ کے مواقع سے رسول اللہ ﷺ کی دی گئی زبانی ہدایات کو بھی دستاویزی شکل میں لکھ دیا گیا ہے، چونکہ یہ بھی ایک طرح کا معاہدہ اور آئندہ قائم ہونے والی اسلامی حکومت کی تیاری سے متعلق تھیں۔
دوسری قسم ہجرت کے بعد کی دستاویزات سے متعلق ہے، جس میں۳۶۸دستاویزات ہیں، جن میں میثاق مدینہ کے علاوہ ارتداد سے متعلق تحریریں،یہود مدینہ، روم وایران ، ان کی ذیلی حکومتو ں اور مختلف عرب قبائل سے ہونے والے معاہدات کی دستاویزات یا ان سے متعلق مکاتیب نبوی شامل ہیں، قابل ذکر ہے کہ اس باب میں خطبۂ حجۃ الوداع کو دستاویزی شکل میں پیش کردیا گیا ہے چونکہ وہ بھی انسانی حقوق کا چارٹر کہلاتا ہے، اورد فعہ وار ان کا معرض تحریر میں آنا ضروری تھا، گویا اپنی اصل کے اعتبار سے وہ خطبہ ہے تحریر نہیں۔
تیسری قسم خلافت راشدہ سے متعلق ہے، جس میں صفحہ ۳۶۹ سے۵۴۴ تک خلفاء راشدین کے خطوط، فرامین اور دیگر دستاویزات کے علاوہ حضرت معاویہؓ کا بھی ایک خط ہے جو انہوں نے امیر شام کی حیثیت سے قیصر روم کو صفین کے زمانہ میں تحریر فرمایا تھا، اسی طرح خلفاء راشدین سے مراسلت کے ضمن میں دیگر صحابۂ کرامؓ کے خطوط بھی اس باب میں نقل کئے گئے ہیں، ان دستاویزات کی مجموعی تعداد۲۳۳ ہے۔
چوتھی قسم مختلف ضمیموں پر مشتمل ہے، جن میں حضرت معاذ بن جبلؓ کے فرزند کے انتقال پر حضوراکرم ﷺ کی ایک تعزیتی تحریر کے علاوہ یہود ونصاری اور مجوسیوں کے ساتھ کئے گئے ان نبوی معاہدات کا ذکر ہے جن کی نسبت حضورﷺ کی طرف مصنف کے نزدیک یقینی نہیں، تاہم چونکہ ان کی نسبت ذات نبوی کی طرف کی جاتی ہے اس لیے ان پر تنقید وتبصرہ اور ان کے جعلی ہونے کی صراحت کے لیے ’’ذکر ما نسب الی النبیﷺ ۔۔‘‘ کے عنوان سے ذکر کردیا گیا ہے، (مجموعۃ الوثائق:ص۲۸) پہلا ضمیمہ حضرت سلمان فارسی ؓکے مجوسی رشتہ داروں کو حضور اکرم ﷺ کے لکھے گئے ایک عہد نامہ سے متعلق ہے، دوسرا ضمیمہ یہودیوں اور تیسرا عیسائیوں سے معاہدات پر مشتمل ہے، جو نبی آخر الزماں کی طرف سے منسوب ہے، ایک عہد نامہ آرمینیا کے عیسائیوں کے لیے بھی ترکی ترجمہ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، اور کاتب حضرت معاویہؓ ہیں، اس پر ڈاکٹر صاحب نے یہ تنقید کی ہے کہ آرمینیا ۲ھ میں فتح بھی نہیں ہوا تھا، اور دوسری تحریروں کو بھی موضوع بتایا ہے، ان ضمیموں کی تعداد۱۰ ہے۔
اس کے بعد شرح الفاظ کے عنوان سے ص ۵۷۹ سے ۶۴۴تک کتاب میں وارد ہونے والے کم وبیش۵۰۰ الفاظ کی فرہنگ دی گئی ہے، جن میں بیشتر ابن منظور کی ’’لسان العرب‘‘ سے منقول ہیں، جیسا کہ مصنف نے خود صراحت کردی ہے (مجموعۃ الوثائق:ص۵۷۹)۔
اس کے بعد تذکرۃ المصادر کے عنوان سے Bibliography دی گئی ہے،اس میں نمبر شمار موجود نہیں، ویسے تقریبا ۳۰۰ سے زائد مراجع کا ذکر آیا ہے، پھر اشخاص ومقامات وغیرہ کا اشاریہ ہے ، پھر انساب کی بھی فہرست ہے جس میں صحابۂ کرامؓ اور بعض دیگر شخصیات کے قبائل کا تذکرہ ہے، پھر ایک اور ملحق (ضمیمہ) دیا گیا ہے جس میں چوتھے ایڈیشن کو بنیاد بناکر پانچویں ایڈیشن میں جو تصحیحات، اضافے اور استدراکات کئے گئے ہیں ان کو نقل کیا گیا ہے،اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ کتاب کے اصل متن کو چھیڑے بغیر صفحہ اور سطر نمبر دے کر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ مندرجات میں کہاں کیا اضافہ یا تصحیح کرکے پڑھنا ہے،، اس میں ضمنا۲۶ دستاویزات کا اور اضافہ ہوگیا ہے۔
فہرست کتاب کے اخیر میں کتاب میں آنے والے نقشوں کی بھی فہرست ہے، جن کی تعداد ۹ہے، اور ایک ورق کو کتاب کی پشت کے اندرونی حصہ سے ملحق کیا گیا جس میںعرب عاربہ (قحطانی یمنی) اور عرب مستعربہ (عدنانی حجازی) دونوں سے متعلق قبائل کا شجرہ دیا گیا ہے۔نجاشی، ہرقل، مقوقس،کسری اور منذر بن ساوی اسی طرح جلندی کے دو بیٹے شاہ عمان جیفر اوراس کے بھائی عبدکے نام مکاتیب نبوی کی اصل کاپی کے فوٹو مختلف النوع ذرائع سے حاصل کرکے ان کے فوٹو ثبت کئے ہیں ،جو کتاب میں ان کے متعلقہ مقامات پر دیکھے جاسکتے ہیں،اور اس میں مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔
اس تالیف کا محرک:
پہلے ایڈیشن کے مقدمہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب کی تالیف کا اصل محرک مؤلف کا یہ ایقان تھا کہ عہد نبوی دنیا کی سیاسی، مذہبی اور اقتصادی تاریخ میں انتہائی دور رس نتائج کا حامل رہا ہے، اور یہ ممکن نہیں کہ کسی عہد کے سیاسی حالات کما حقہ سمجھے جاسکیں جب تک کہ اس دور کی سرکاری دستاویزات کا مطالعہ نہ کیا جائے، اسلام سے پہلے عربوں کی کوئی منظم حکومت نہ تھی، جبکہ اسلام نے بڑی تیز رفتاری سے دور دراز علاقوں کو اپنے زیر نگیں کرلیا، اور یہ کام وہ بھی منظم طور پر بین قومی تعلقات کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور ایسے وسیع تعلقات بغیر خط وکتابت اور معاہدات وغیرہ کے نہیں ہوتے، اور اس کی واقعاتی شہادت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس صندوق بھر عہد ناموں کے نسخے تھے، جو ۸۲ھ میں جماجم کی جنگ کے موقع سے خاکستر ہوگئے، اور جو بچے وہ زمانہ کی دستبرد اور تاتاریوں کی یورش کی نذر ہوگئے، اس لیے مقوقس، منذر بن ساوی اور نجاشی کو لکھے گئے مکاتیب نبوی کو چھوڑ کر جن کی اصل کی دریافت مستشرقین نے کی ہے حضور اکرم ﷺ کے اور خطوط کی اصل نہیں ملتی، لیکن حدیث وتاریخ کے راویوں نے ان کے تذکرے اپنے واسطوں سے ہمارے لیے محفوظ کردیے ہیں،اس لیے ان کا جمع کرنا اور ان کے صحت وسقم پر بحث کرنا ایک اہم کام ہے (مجموعۃ الوثائق: ص۲۴)۔
مصادر ومراجع
مؤلف کے مراجع میں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ۳۰۰ سے زیادہ کتابیں ، رسائل اور دستاویزات ہیں، جن میں عربی، اردو،فارسی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی، ولندیزی(Dutch) ۹ ؍زبانوں سے استفادہ کیا گیا ہے،ان میں سے اکثر زبانوں کی مطبوعات ومخطوطات دونوں سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ تاہم مؤلف نے نبوی دستاویزات کے لیے سب سے زیادہ اعتماد ’’طبقات ابن سعد‘‘ پر کیا ہے،جبکہ خلفاء راشدین کی دستاویزات کے لیے بلاذری کی ’’فتوح البلدان‘‘ سے زیادہ مراجعت کی ہے، اسی طرح ابو عبید قاسم بن سلّام کی مشہور کتاب ’’کتاب الاموال‘‘ ،امام ابویوسف کی’’ کتاب الخراج‘‘ اور ’’سیرت ابن ہشام‘‘ بھی اس کتاب کے بنیادی مراجع میں شامل ہیں۔شیخ ابن طولون کی’’ اعلام السائلین عن کتب سید المرسلین ‘‘،عبد المنعم خاں کی ’’رسالات نبویۃ‘‘ اور عبد الجلیل نعمانی کی ’’فرمان نبوت‘‘ کو بھی مؤلف نے اپنے اہم مراجع میں شمار کیاہے،کئی مراجع کا تذکرہ مراجع کی فہرست میں نہیں آسکا ہے، جیسے حافظ ابن حجر کی’’ المطالب العالیہ‘‘، جبکہ متعلقہ مقام پر اس کاذکر ہے۔
قابل ذکر ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے علاوہ مستشرقین اور دیگر مصنفین سے بھی خوب استفادہ کیا ہے،حتی کہ انہوں نے مجوسیوں سے متعلق نبی ﷺ سے منسوب ایک مکتوب مشہور مجوسی شخصیت جمشید جی جیجی بھائی نیت(Sir Jamshedji Jeejiboy Knight) سے بھی نقل کیا ہے، اگرچہ اس کے استناد پر تنقید کی ہے۔
کتاب کا منہج اور معیار صحت
یہ کتاب اگرچہ اپنے موضوع پر اساسی مرجع کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، لیکن کتاب میں بہت سی ضروری تحریریں نہیں آسکی ہیں، جیسے خلفاء راشدین کے زمانہ کی فتوحات سے متعلق دستاویزات کا استیعاب نہیں ہوسکا ہے، اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے بجائے اس کے کہ دستاویزات کی صحت کے لئے محدثین کے طریقہ پر ان کے راویوں کی عدالت وضبط اور اتصال سند کو بنیاد بنائیں ،انہوں نے اسلوب کو بنیاد بنایا ہے کہ اگر صنعت وتکلف سے آزاد ہے تو صحیح ہونے کا مکان ہے، تکلف وصنعت ہے تو بعدکی ایجاد ہے، جبکہ انہوں نے بعض دستاویزات ابن درید کی ’’الاشتقاق‘‘،ابن سیدہ کی ’’المحکم‘‘ اور ابن منظور کی ’’ لسان العرب ‘‘ وغیرہ سے بھی نقل کردی ہیں، اور اہل علم ان کے درجۂ صحت سے واقف ہیں۔
بعض نمایاں خصوصیات
۱۔ہ کتاب علم وثائق (Diplomatics) میں گرانقدر اضافہ ہے جس میں تاریخی دستاویزات کی جمع وترتیب اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے، عہد رسالت یا ابتدائی مسلم عہدحکمرانی کی دستاویزات سے متعلق اس کتاب سے پہلے اور بھی کتابیں آئی ہیں، جیساکہ خود اس کتاب کے مراجع سے بھی ظاہر ہے، اور بعد میں بھی کافی کام ہوا ، لائبریری سائنس کے ماہر ڈاکٹر محمد ماہر حمادہ اس موضوع پر استناد کا درجہ رکھتے ہیں،انہوں نے ’’الوثائق السیاسیۃ والاداریۃ‘‘ کے عنوان سےاس موضوع پر۶ یا ۷ کتابیں لکھی ہیں، عہد اموی،عباسی، مملوک سلطنت ، فاطمی اور ایوبی دور،دور اندلس وشمالی افریقہ کی سیاسی دستاویزات کا احاطہ کیاہے، اور دور حکومت کی مناسبت سے اس نام کے ساتھ ایک لاحقہ لگایا ہے، جیسے عصر اموی کے لیے ’’الوثائق السیاسیۃ والاداریۃ العائدۃ للعصر الاموی‘‘اور عہد عباسی کے لیے ’الوثائق السیاسیۃ والاداریۃ العائدۃ للعصر العباسی‘‘ وغیرہ، اور یہ کتابیں مؤسسۃ الرسالہ،بیروت سے شائع ہوئی ہیں۔
اسی طرح قاضی اور مؤرخ شیخ محمد بن علی اکوع حوالی (۱۳۲۱-۱۴۱۹ھ) نے ’’الوثائق السیاسیۃ الیمنیۃ من قبیل الاسلام الی ۳۳۲ھ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں حضور اکرم ﷺ کے ۱۸۰ خطوط جمع کئے ہیں جو آپ نے یمن کے حکمرانوں اور قبائلی سرداروں کے نام تحریر فرمائے ہیں، ان کے علاوہ خلافت راشدہ، عہد اموی اور عہد عباسی اور ماقبل اسلام کے بھی سینکڑوں دستاویزات اس میں شامل ہیں جویمن کے حکمرانوں کو مختلف حکومتوں کی جانب سے لکھے گئے،۳۱۷ صفحات کی یہ ضخیم کتاب دار الحریۃ للطباعہ،بغداد سے ۱۹۷۶ء میں چھپی ہے،اور یہ کتاب بھی ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے مراجع میں شامل ہے، لیکن مراجع اور ان کی زبانوں کی کثرت نیز دستاویزات کے تنوع کے اعتبار سے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کا کام سب پر حاوی ہے۔
۲۔اس کتاب میںزبان وبیان اور اسلوب بھی ڈاکٹر صاحب کا بہت کچھ اپنا ایجاد کردہ ہے، عربی زبان عجمی اثرات سے محفوظ نہیں، اردو زبان کے لیے وہ ’’اللغۃ الہندوستانیۃ‘‘، فرانسیسی زبان کے لیے ’’اللغۃ الفرنساویۃ‘‘ (ص:۳۷) اور انگریزی زبان کے لیے ’’اللغۃ الافرنجیۃ‘‘(ص:۳۷) لکھتے ہیں جبکہ بالترتیب ان کے لیے’’اللغۃ الاردیۃ‘‘ ،’’اللغۃ الفرنسیۃ‘‘ اور ’’اللغۃ الانجلیزیۃ‘‘ لکھا جاتا ہے، عیسوی کے لیے ــ’’میلادیۃ‘‘ لکھا جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب ’’مسیحیۃ‘‘ لکھتے ہیں۔
۳۔ایسی اہم کتاب کی تالیف اور اس کے لیے بے نظیرقربانیوں اور جانفشانیوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب کے انداز میں کہیں تعلّی یا دعوی کا شائبہ نہیں ملتا، اس کے برعکس ہر ایڈیشن میں سابقہ غلطیوں کاا عتراف، اور ارباب فکر ونظر سے اغلاط کی تصحیح کی درخواست کرتے ہیں، مثلا انہوں نے کوہ سلع مدینہ منورہ سے غزوۂ خندق کے زمانہ میں حضرت علی ؓ کے دست مبارک کی کندہ کی ہوئی ایک تحریرکا فوٹو نقل کیا تھا(ص:۳۲) اور دستاویز نمبر ۳۰۳ میں کوہ سلع سے ہی حضرت عمرؓ کے خط خاص میں لکھا ہوا ان کے نام کا فوٹو نقل کیا ہے، جس کی بیان کردہ سابقہ تفصیلات کی صحت سے تیسرے ایڈیشن کے حاشیہ میں معذرت کا اظہار کیا ہے (ص:۳۵)۔
۴۔اور کتاب کی تالیف میں جن لوگوں سے بھی مدد ملی ہے اس کا کھلے دل سے اعتراف اور احسان شناسی کا اظہار کیا ہے، جیسے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب’’کُتّاب النبیﷺ‘‘ سے استفادہ کی صراحت اور مصنف کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں، ترکی محقق جناب احسان ثریا صیرما کا بھی خوب شکریہ ادا کرتے ہیں، صرف ایک خط پر روسی مصنف علی کولیسنیکوف کے بھی شکر گذار ہوتے ہیں(ص:۱۱)۔
اس کتاب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی،اسلامی سیاست وحکومت اور اسلام کے بین الاقوامی تعلقات وغیرہ پر جتنی تحقیقی کتابیں عالم عرب یا یورپ وغیرہ میں لکھی جارہی ہیں ان میں اس کا حوالہ ضرور ملتا ہے، یہ اس کے عند اللہ اور عند الناس مقبولیت کی ایک واضح دلیل ہے۔