معاصر اجتہاد
January 4, 2025مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ
January 4, 2025
عہد نبوی میں ابلاغ کے ذرائع
مولانامنورسلطان ندوی
(رفیق علمی مجلس تحقیقات شرعیہ،ندوۃ العلماء، لکھنؤ)
اپنے خیالات دوسروں تک پہونچانے کو ابلاغ کہاجاتاہے،انگریزی زبان میں ابلاغ کے لئے communicationکالفظ استعمال کیاجاتاہے،یہ اصلا لاطینی لفظ ہے،جس کا معنی ہے خیالات میںہم آہنگی پیدا کرنا ۔ (تعلقات عامہ،از مہدی حسن،مکتبہ کارواں لاہور)
اردومیں ابلاغ کا لفظ عربی سے آیاہے،ابلاغ لفظ بلغ سے بناہے،عربی میںبلغ کے معنی پہونچنااور ابلغ کے معنی پہونچانے کے آتے ہیں،اسی سے تبلیغ کا لفظ بھی بناہے،قرآن کریم میںبلّغ کا لفظ کثرت سے استعمال ہواہے:
یا أیہاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ۔ (المائدہ: ۶۷)
اے پیغمبر!جوکتاب آپ کے رب کی طرف سے آپ پراتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہونچاتے رہیے،اگرآپ نے یہ نہیں کیاتوآپ نے پیغمبری کاحق ادا نہیں کیا۔
الذین یبلغون رسلت اللہ ویخشونہ ولا یخشون احد ا الا اللہ وکفی باللہ حسیبا۔ (احزاب: ۳۹)
پیغمبر وہ لوگ ہیں جواللہ کا پیغام پہونچاتے ہیں،اور اسی سے ڈرتے ہیں،اور اللہ کے سوا کسی کاخوف نہیں کرتے،اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے۔
أبلغلکم رسلت ربی وانالکم ناصح امین۔(اعراف:۶۸)
میں اپنے پروردگار کے پیغامات کو تم تک پہونچاتاہوں،اور میں تمہارا ایسا خیر خواہ اور امانت دار ہوں۔
وماعلیناالا البلاغ المبین۔(یسین:۱۷)
اور ہماری تو صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ واضح طور پر اللہ کا پیغام پہونچادیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کے ابلاغ کا ذکر اس طرح کیاگیا:
قال رب انی دعوت قومی لیلا ونہارا،فلم یزدہم دعائی الا فرارا،وانی کلما دعوتہم لتغفرلہم جعلوا اصابعہم فی آذانہم واستغشوا ثیابہم واصروا واستکبروا استکبارا، ثم انی دعوتہم جہارا ثم انی اعلنت لہم واسررت لہم اسرارا فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفارا۔ (نوح:۵۔۱۰)
نوح نے عرض کیا : اے میرے پروردگار میں اپنی قوم کو دن ورات دین حق کی طرف بلاتا رہا،تو وہ میرے بلانے پر اور زیادہ بھاگتے ہی رہے،میں نے جب جب ان کو بلایا تاکہ آپ ان کو بخش دیں تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں،اپنے کپڑے اوڑھ لئے ،اڑ گئے اور بڑے غرور کرنے لگے،پھر بھی میں ان کو کھلے طور پر بلاتا رہا،اعلانیہ بھی سمجھایا اور پوشیدہ طور پر بھی ،میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو وہ بڑے بخشنے والے ہیں۔
قرآن مجید میں اس مقصد کے لئے دعوت،انذار،تبشیراوردیگر الفاظ بھی آئے ہیں:
یاأیہا النبی انا أرسلنک شاہداومبشرا ونذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا مبینا۔ (احزاب: ۴۵۔۴۶)
اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا،خوشخبری دینے والا،ڈرانے والا،اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔
عربی میں ذرائع ابلاغ کی مخصوص شکل کو اعلام کہاجاتاہے،اعلام کے لفظ میں وسعت اور گہرائی دونوںبہت زیادہ ہے،کیونکہ اس میں انذاراورتبلیغ کے معانی بھی پائے جاتے ہیں،علامہ زبیدی لکھتے ہیں:
وأصل الانذار الاعلام، والنذیرالمنذر،وہوالمحذر فعیل بمعنی مفعل…المعلم الذی یعرف القوم بما یکون قد دہمہم من عدو او غیرہ وہوالمخوف ایضا ونذر جمع نذیر بضمتین۔ (تاج العروس من جواہرالقاموس، ج۱۴، ص:۲۰۰)
انذار اصلا اعلام ہی کی ایک شکل ہے،اور نذیر منذر کو کہاجاتاہے،یعنی باخبر کرنے والا،جس طرح فعیل مفعل کا معنی دیتاہے،اور معلم وہ ہے جو قوم کو دشمن وغیرہ سے آگاہ کرتاہے،اسی کو مخوف بھی کہاجاتاہے۔
اور ابن سیدہ لکھتے ہیں:
والاعلام التبلیغ ،یقال بلغت القوم بلاغا ای اوصلتہم بالشیٔ المطلوب،والبلاغ ما بلغک ای وصلک واعلمت کآذنت۔(المخصص ج۱،ص:۲۵۸،لابن سیدہ ابی الحسن علی بن اسماعیل النحوی اللغوی الاندلسی، ط:داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۹۶ء)
اعلام کے معنی تبلیغ کے ہیں،جیسے کہاجاتاہے: بلغت القوم بلاغا یعنی میں نے شئی مطلوب کو ان تک پہونچادیا،اور بلاغ یعنی جو تم تک بات پہونچے،اور اعلمت کے معنی ہیں تم نے بات پہونچائی۔
اعلام کی اصطلاحی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
ہو کل قول او فعل قصد بہ حمل حقائق او مشاعر او عواطف او افکار او تجارب قولیۃ او سلوکیۃ شخصیۃ او جماعیۃ الی فرد او جماعۃ او جمہور بغیۃ التاثیر،سواء اکان الحمل مباشرا بواسطۃ وسیلۃ اصطلح علی انہا وسیلۃ اعلام قدیما او حدیثا۔(مفاہیم اعلامیۃ من القرآن الکریم،ص:۱۷،۱۸،سید محمد ساداتی الشنقیطی،ط: دارعالم الکتب، الریاض، ۱۹۸۶ء)
ہر وہ قول وفعل جس کا مقصود حقائق یااحساسات وجذبات یاافکار وتجربات یاشخصی اور اجتماعی معلومات کو تاثیر کی غرض سے فرد یاجماعت یا قوم تک پہونچانا،یہ پہونچانے کا یہ عمل براہ راست ہو یاکسی ایسے وسیلے سے ہو جو قدیم یاجدید وسیلہ کے طور پر اصطلاحا مستعمل ہو۔
محمددلشاد کنورلکھتے ہیں:
ابلاغ اس علم یاہنر کانام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کوئی اطلاع دے ،کوئی خیال،رویہ یاجذبہ کسی دوسرے شخص میں منتقل کرتا ہے۔ (ابلاغ عامہ اور دور جدید، ص:۱۳ از محمددلشاد کنور،اکیڈمک پریس، لاہور، ۱۹۶۸ء)
بعثت سے قبل عہد جاہلیت کے چندمعروف ابلاغی وسائل
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت اور اس سے قبل زمانہ جاہلیت میں ابلاغ کے متعدد ذرائع متعارف تھے،یہ ذرائع اس دورکی علمی وتہذیبی ترقی کے تناظر میں نہایت موثرتھے،رسول اللہ ﷺ نے زمانہ جاہلیت میں مروج ابلاغی ذرائع کااستعمال فرمایا،ساتھ ہی آپ کے دور میںنئے ابلاغی وسائل بھی وجود میں آئے،ان ذرائع نے آپ کے پیغام کو عام انسانوں تک پہونچانے میں زبردست کرداراداکیا۔
عہد جاہلیت کے ابلاغی وسائل کو دوحصوں میں بانٹاجاسکتاہے،خارجی وسائل،اور داخلی وسائل (یعنی وہ وسائل جو اندرون جزیرہ عرب معروف ومروج تھے)
خارجی وسائل میں سے سب سے اہم وسیلہ تجارت تھی ،اس دور میں تجارت جہاں معاش کا بڑا ذریعہ تھی وہیں ابلاغ کا بھی بہترین ذریعہ تھی،تجارت کے ذریعہ جہاں لوگ مادی اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے وہیں ایک علاقے کی خبریں اور وہاں کے تمدنی جلووںکوبھی منتقل کرتے تھے،یورپی تجاراور جزیرہ عرب کے تجارکایہی حال تھا،عام طورپرسمجھاجاتاہے کہ جزیرہ عرب دیگرممالک سے بالکل کٹاہواتھا،مگر احمد امین کے بقول یہ خیال غلط ہے، عرب اپنے گرد کے ممالک سے مادی اور علمی دونوں لحاظ سے باخبرتھے،اور ان سے جڑے ہوئے تھے۔ (فجرالاسلام، ۳۲)زمانہ جاہلیت میں ابلاغ کے داخلی وسائل درج ذیل تھے:
۱۔شاعری
۲۔خطابت
۳۔آوازلگانا
آوازلگانے کا طریقہ مختلف شکلوں میں مروج تھا،مثلا پہاڑ کی چوٹیوں پر آگ جلانا،ڈھول بجانا،شہروں اور دیہاتوں میں آواز لگاکرکسی بات کااعلان کرنا۔
۴۔عید
ہردور میں عید کی اہمیت رہی ہے،عربوں میں مختلف عیدیں منائی جاتی تھیں،مثلا عید الشباب کسی قبیلہ کے مفاخر کو بیان کرنے کابہترین ذریعہ سمجھاجاتاتھا۔
۵۔بازار
علامہ آلوسی نے اپنی کتاب بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب ‘‘میں عرب کے بازاروں کاتفصیلی ذکر کیاہے،جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بازاریں صرف اشیاء کی خریدوفروخت کا ذریعہ نہیں تھیں بلکہ فکری اور ادبی سرمایہ کوپیش کرنے کابہترین مرکزتھیں،یہاں تک کہ بازارمیں ہی قبائل کے آپسی جھگڑوں کے فیصلے ہوتے،وہیں جنگوں کا اعلان ہوتا،خطبااور شعرااپنے فنی جوہربھی یہیں دکھاتے تھے۔(الاعلام فی صدر الاسلام، از عبداللطیف حمزہ،ص:۳۰)
عرب میںبہت سے بازارمعروف تھے،چندبازاروں کے نام اس طرح ہیں:سوق دومۃ الجندل، سوق المشقر،سوق ہجر،سوق عکاظ،سوق ذی المجاز،المربدوغیرہ
۶۔ندوات(خصوصی مجالس)
بازارکے بعد سب سے اہم ذریعہ الندوہ تھی،جہاں روساء اور صاحب رائے افراد جمع ہوتے اور باہم تبادلہ خیال کرتے تھے،سیرت میں دارالندوۃ کی شہرت اسی بنیاد پر ہے۔
۷۔پہاڑکی چوٹیوں پر آگ جلانا
جب کسی قبیلہ پرحملہ ہوتایاکسی اہم بات کی خبردینی ہوتی توپہاڑکی چوٹیوں پرآگ جلائی جاتی تھی۔
۸۔نذیرعریان
زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھاکہ جب کسی قبیلہ یاقوم کوکسی خطرہ سے آگاہ کرنا ہوتاتوکپڑے اتارکراس بات کااعلان کرتے،احادیث میں اس کا تذکرہ موجود ہے،رسول اللہ ﷺ نے اپنے آپ کو نذیرعریان کے مشابہ قراردیا۔(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب شفقتہ ﷺ علی امتہ ومبالغتہ فی تحذیرہم مما یضرہم،حدیث نمبر:۲۲۸۳)
عہدرسالت کے ابلاغی وسائل
رسول اللہ ﷺ کے دورمیں جوابلاغی وسائل مروج تھے ان کااستعمال فرمایا،ساتھ ہی متعدد ایسے وسائل کااضافہ فرمایاجن سے عرب ناآشناتھے،رسول اللہ ﷺنے زمانہ جاہلیت کے جن ذرائع کااستعمال فرمایاان میں شاعری،خطابت،بازاروغیرہ قابل ذکر ہیں۔
زمانہ جاہلیت میںشاعری کونمایاں مقام حاصل تھا،عہداسلام میںشاعری کووہ مقام توحاصل نہیں رہا،البتہ اس کے بالمقابل خطابت کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی،کیونکہ خطابت میں لوگوں کو مطمئن کرنے کی صلاحیت زیادہ تھی،رسول اللہ ﷺ نے بازاراور ندوات کوبھی استعمال فرمایا،کیونکہ یہ دونوں انسانی زندگی سے زیادہ ہم آہنگ تھے۔
انفرادی ملاقات کے ذریعہ ابلاغ
ذرائع ابلاغ کی تمام شکلوں میں سب سے زیادہ اہمیت رابطہ کی ہوتی ہے،ابلاغ کامحورہی فردکے ذہن وماغ تک رسائی ہے،اسی بنیاد پرتعلقات عامہ اوررابطہ عامہ کوغیرمعمولی حیثیت حاصل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اللہ کاپیغام لوگوں تک پہونچانے کے لئے سب سے پہلے جو طریقہ اختیار فرمایاوہ براہ راست لوگوں سے ملاقات کاتھا،اس وقت تک علانیہ دعوت کاحکم نازل نہیں ہواتھا،آپ ﷺ انفرادی طور پر لوگوں سے ملتے اورانہیں اسلام کے بارے میں بتاتے،احمدحسن زیات لکھتے ہیں:
نبی اکرم ﷺ نے پیغام کے لئے جوذرائع استعمال کئے ان میں سب سے پہلے تولوگوں کو براہ راست دعوت دی،یہ دعوت توپہلے پہل خفیہ طور پر دی جاتی رہی،اورجب اعلانیہ طور پر دعوت کاحکم ملا تب بھی دیگر ذرائع استعمال کرنے کے بجائے براہ راست دعوت کواپنائے رکھا ،مثلا مکہ مکرمہ جوعرب کامرکزی مقام تھااوراسے مذہبی، سیاسی، اورمعاشرتی لحاظ سے مرکزیت حاصل تھی،بیت اللہ کااحترام لوگوں کے دلوں میں نقش تھا،اس گھرکے زائرین اور حج کرنے والے دور دراز کے علاقوں سے چلے آتے،قریش کی سیادت اور برتری کواکثر لوگ تسلیم کرتے تھے،عرب کی بڑی کاروباری منڈیاں مکے کے گرد ونواح میں تھیں،ان منڈیوں میں تاجروں کے علاوہ دیگراہل فن بھی آتے اوراپنی مہارت کامظاہرہ کرتے،چنانچہ یہ منڈیاںشعراء اور خطباء کی نشرگاہیں بننے لگیں۔ (تاریخ الادب العربی،از احمدحسن زیات،اردوترجمہ تاریخ ادب عربی،از عبدالرحمن طاہر،ط:غلام علی اینڈ سنز،کراچی،ص:۶۱)
رسول اللہ ﷺ انفرادی طورپرلوگوں سے ملتے اورانہیں دین کی دعوت پیش کرتے ،وہیں اجتماعی طورپربھی لوگوں سے آپ ﷺ نے ملاقات کی،عقبہ اولی اور عقبہ ثانیہ اس کے مظاہرہیں،سیرت کی کتابوں میں بیعت عقبہ اولی اور بیعت عقبہ ثانیہ کے عنوان سے اس کی تفصیلات موجودہیں۔
اجتماعی رابطہ کی ایک شکل خطابت بھی ہے،رسول اللہ ﷺ نے اس کابھرپوراستعمال فرمایا،اس کی تفصیلات آئندہ آرہی ہیں۔
قرآنی قصے
قرآن کریم میں عام لوگوں تک پیغام پہونچانے کے لئے قصوں کااسلوب اختیارکیاگیاہے،کیونکہ قصے اور کہانیاں دلوں میں جلدنفوزکرتی ہیں،خود رسول اللہ ﷺکوحکم دیاگیاکہ لوگوں کے سامنے قصے بیان کریں:
فاقص القصص لعلہم یتفکرون۔(اعراف:۱۷۶)
لہذا تم یہ واقعات ان کو سناتے رہوتاکہ یہ کچھ سوچیں۔
نحن نقص علیک احسن القصص۔(یوسف:۳)
اے پیغمبر ہم آپ کو ایک بہترین واقعہ سنارہے ہیں۔
اسی طرح ابنیاء کے قصوں کے بارے میں بتایاگیا:
لقد کان فی قصصہم عبرۃ لاولی الابصار۔(یوسف:۱۱۱)
یقینا ان کے واقعات میں عقل وہوش رکھنے والوں کے لئے بڑاعبرت کاسامان ہے۔
قرآنی قصوں کے ساتھ غیرقرآنی قصوں کابھی استعمال ہواہے،احادیث میں متعدد واقعات اور تمثیلات کا ذکر ہے۔
خطاب کے ذریعہ ابلاغ
خطبہ اور تقریرکے ذریعہ اپنی بات دوسروں کو پہونچانے کاطریقہ ابتدائے آفرینش سے جاری رہاہے،یہ طریقہ ہمیشہ انسانی معاشرہ کاسب سے موثر وسیلہ ابلاغ سمجھا جاتا ہے، خطابت میں زبان دانی اصل ہے،اور عربوں کواپنی زبان پرنازتھا، فصاحت وبلاغت ان کے گھرکی لونڈی تھی،اس بناء پر عربوں میں خطابت کابڑا زور تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے خطابت کے وسیلہ کو بڑے موثرطریقہ پر استعمال فرمایا،آپ ﷺ ہرہفتہ خطبہ دیتے،عیدکے موقع پر خطبہ دیتے،وفود روانہ کرتے توخطبہ دیتے،حج کے موقعہ پرجبل رحمت پر آپ نے خود خطبہ دیا، ان تمام خطبات کے چشمے قرآنی کے معانی سے ابلتے تھے۔(مع اللہ ،از محمدغزالی،ص:۳۰۶)
بالکل ابتدائی دور میں جب آیت قرآنی’ وانذرعشیرتک الاقربین‘ نازل ہوئی توآپ نے قبیلہ بنوہاشم اور بنوعبدالمطلب کوکھانے پر مدعوکیا،آپ ﷺ نے کھاناکھلایا،پھران کے سامنے دعوت اسلام پیش کی، ابولہب نے سختی سے انکار کیا،اوربرابھلابھی کہا،اس موقع پر ایک کم سن لیکن بلند حوصلہ نوجوان حضرت علی نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ کے مشن کے ساتھ بھرپورمدد کاعہد کیا۔(پیام سیرت،ص:۱۰۶)
بیعت عقبہ اولی،عقبہ ثانیہ اور مدینہ میں مختلف مواقع پر آپ نے اجتماعی خطاب کا طریقہ اختیار فرمایا، احادیث میں اجتماعی وعظ وتذکیرکی بے شمار مثالیں موجودہیں،خاص طور پر فتح مکہ اورحجۃ الوداع کے خطبات میںحقائق ومعانی کے سمندر پوشیدہ ہیں۔
سیرت میںفتح مکہ کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے،یہ ابلاغ وترسیل کابھی بہترین مظہرتھا،بڑی تعداد میں صحابہ کوبراہ راست رسول اللہ ﷺ کودیکھنے اور سننے کاموقعہ ملا،ڈاکٹرمحمدعجاج الخطیب فتح مکہ کے خطبہ کے ابلاغی پہلوپرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومما لا شک فیہ ان ہذا اللقاء العظیم بین المسلمین جمیعا ورسولہم ﷺاتاح لہم فرصۃ واسعۃ امام کثیر ممن جائوا من مختلف البلاد، فتیسر لہم سماع کثیر عن الاسلام واحکامہ ،واتیح لہم ان یسألوہ ویستفتوہ فی کل مایحتاجون الیہ من امور دینہم، کما اتاحت ہذہ الفرصۃ اللقاء بین جمیع المسلمین من مختلف انحاء الجزیرۃ، والاطمینان علی احوالہم وامورہم، ومثل ہذہ اللقاء ات تسہل تناقل الدعوۃ وامورہا وبیان احکامہا وکل ما یتعلق بہا…انہ لون من ألوان الاعلام فرید، یجمع بین المسموع والمنظور، تتجاوب معہ النفوس فتنزع الی العمل والتطبیق۔(اضواء علی الاعلام فی صدر الاسلام،ص:۵۵،ازدکتور محمد عجاج الخطیب،موسسۃ الرسالۃ،بیروت،طبع دوم ۱۹۸۷ء)
یقینا تمام مسلمانوں کی رسول اللہ ﷺ سے اس عظیم ملاقات سے مختلف علاقے سے آئے ہوئے لوگوں کواسلام اور اس کے بنیادی احکام سے واقف ہونے کا وسیع تر موقع فراہم کیا،انہیں یہ موقع ملا کہ وہ اپنے دین سے متعلق جو کچھ معلومات چاہیں وہ پوچھ لیں،اسی طرح اس اجتماع سے تمام جزیرہ کے مسلمانوں کے لئے باہم ملنے اور ایک دوسرے کے احوال سے واقف ہونے کا فائدہ حاصل ہوا،اور اس طرح کی ملاقاتوں سے دعوت ،امور دعوت اور اس کے احکام کا نشر آسان ہوجاتاہے…ملاقات اعلام کی ایک منفرد شکل ہے کہ جس سے بیک وقت دیکھنے اور سننے دونوں کا فائدہ حاصل ہوجاتاہے،ساتھ ہی یہ دلوںکے ملاپ کاباعث اور عمل کا محرک بھی ہے۔
صفاپہاڑی کااستعمال
جب علانیہ دعوت کی اجازت ملی تورسول اللہ ﷺ سب سے پہلے جس وسیلۂ ابلاغ کااستعمال کیاوہ صفاپہاڑی پر چڑھ کر لوگوں کوخطاب کرناتھا،مکہ کاقدیم دستوریہ تھا کہ جب کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آتاتولوگ صفاکی پہاڑی پر چڑھ کراس کی اطلاع دیتے،رسول اللہ ﷺ نے بھی اس طریقہ کواختیارفرمایا،احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیلات درج ہیں،سیرت کی معتبرکتابوں کے مطابق صفاپہاڑی پر بعض بت بھی نصب تھے، اس کے باجود رسول اللہ ﷺ نے اس قدیم طریقہ سے فائدہ اٹھایا۔
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی اس واقعہ کونقل کرنے کے بعد اس سے امت کوحاصل ہونے والے سبق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آپ ﷺ کے اس طریقۂ دعوت سے ہمیں دوباتیں معلوم ہوتی ہیں، ایک یہ کہ ہرزمانہ وعہد میں جو جائز جدیدذرائع ابلا غ ہوں ، دعوت دین کے لئے ان کااستعمال کرناچاہیے،رسول اللہ ﷺ نے اس اہم کام کے لئے کوئی ایک ہی طریقہ متعین نہیں فرمایا، ہرعہد، ہر زمانہ اور ہرعلاقہ کے مزاج ومذاق اور ذرائع ابلاغ کی ایجاد کے لحاظ سے مختلف وسائل سے دعوت الی اللہ کاکام لیاجائے،البتہ یہ ضروری ہے کہ ان وسائل کا استعمال شرعاجائزہو۔(پیام سیرت،ص:۱۰۸،ازمولاناخالدسیف اللہ رحمانی،علامہ سیدسلیمان ندوی ریسرچ سنٹر، لکھنؤ )
مسجداور منبر
اسلام میں مساجد کوجواہمیت حاصل ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسجد اجتماعیت کابہترین مظہرہے، مسجد کی حیثیت ایسے مرکزکی ہے جہاں سے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کافریضہ انجام پاتاہے،بایںطور کسی بات کو عام لوگوں تک پہونچانے کے لئے اس سے بہترجگہ نہیں ہوسکتی،رسول اللہ ﷺ کے دورمیں مسجدابلاغ سے سب سے بہتراور سب سے موثر وسیلہ کے طورپر استعمال ہوئی ہے،عہدنبوی میں مساجد میں انجام پانے والی سرگرمیوں پر غورکرنے سے متعدد ابلاغی پہلوئوں کی وضاحت ہوتی ہے ۔
ہرنمازسے قبل اذان،نماز کے لئے جماعت،جمعہ کی نمازکی امتیازی حیثیت،مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کی مجالس ابلاغ کے موثراسالیب ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کایہ معمول تھاکہ صبح کی نمازکے بعدمسجد میں حلقوں کی شکل میں بیٹھ جاتے،قرآن پڑھتے،فرائض اور سنن کوسیکھتے۔(مجمع الزوائد)
عیدگاہ
اسلام میں عیدکی نماز کی خاص اہمیت ہے،یہ بھی مسلمانوں کی اجتماعیت کابہترین مظہرہے،رسول اللہ ﷺ نے عیدین کی نماز کے لئے عیدگاہ جانے کا حکم فرمایاہے،عیدگاہ میں علاقے کے مسلمانوں کا جمع ہونا،نمازسے قبل دینی رہنمائی،نمازبعد خطبہ یہ بھی ابلاغ کاموثروسیلہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے عیدگاہ کودینی ودعوتی مقصد کے ساتھ مسلمانوں کی اجتماعی مصالح کے لئے بھی استعمال فرمایاہے،راوی بیان کرتے ہیں:
کان رسول اللہ ﷺ یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی، فاول شئی یبدا بہ الصلاۃ ثم ینصر،فیقوم مقابل الناس، والناس جلوس علی صفوفہم، فیعظہم ویوصیہم ویامرہم، فان کان یرید ان یقطع بعثا قطعہ او یامر بشئی امربہ، ثم ینصرف ۔(صحیح البخاری،کتاب ابواب العیدین،باب الخروج الی المصلی بغیر منبر،حدیث نمبر:۹۵۶)
نبی کریم ﷺ عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ ﷺ نماز پڑھاتے،نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے ،تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے،آپ ﷺ انہیں وعظ ونصیحت فرماتے،اچھی باتوں کا حکم دیتے،اگر جہاد کے لئے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے،کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تووہ حکم دیتے،اس کے بعد شہر واپس تشریف لاتے۔
شاعری کااستعمال
عربوں کواپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا،شعروشاعری کاخوب چرچا تھا،مختلف قبائل اپنی بڑائی بیان کرنے اور دوسروں کونیچادیکھانے کے لئے شاعری کرتے تھے،شاعری اس وقت کاسب سے موثر ہتھیار سمجھا جاتاتھا،رسول اللہ ﷺ نے اس کی اہمیت وقبول کرتے ہوئے صحابہ کواس کا بہترین استعمال سکھایا،رسول اللہ ﷺ کایہ قول معروف ہے ،آپ ﷺنے شاعری کے بارے میں فرمایا:
ان من الشعر لحکمۃ۔(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب مایجوزمن الشعر والرجز والحداء ومایکرہ منہ،حدیث نمبر:۵۷۹۳)
بے شک کچھ اشعار حکمت ودانائی پر مشتمل ہوتے ہیں۔
مشرکین مکہ نے اشعارکے ذریعہ رسول اللہ ﷺ پر یلغارشروع کی تورسول اللہ ﷺ نے صحابہ کوترغیب دی کہ وہ اپنے فن کے ذریعہ اس کامقابلہ کریں،چنانچہ صحابہ نے نہ صرف مشرکین مکہ کے حملوں کاجواب دیابلکہ رسول اللہ ﷺ کازبردست دفاع کیا،اوراس سے آگے بڑھ کر اسلام کاتعارف کرایااوراسلامی اقدار کاموثر طریقہ پیش کیا،صحابہ نے اس میدان میں جوجوہردکھائے وہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں،اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ،حضرت کعب بن مالک،حضرت حسان بن ثابت قابل ذکر ہیں۔
ابن سیرین کہتے ہیں:
کان حسان وکعب یعارضان المشرکین بمثل قولہم بالوقائع والایام والمآثر، وکان ابن رواحہ یعیرہم بالکفر وینسبہم الیہ، فلما اسلموا وفقہوا کان اشد علیہم۔(سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص: ۲۳۳)
حضرت حسان ؓ اور حضرت کعب ؓ جنگی واقعات، جنگی کارناموں اورخدمات کے ذریعہ مشرکین مکہ کے اشعار کا مقابلہ کیا کرتے تھے،اور حضرت رواحہ ؓ کفر کے سلسلہ میں ان کو عار دلاتے تھے،اور کفر کی نسبت ان کی جانب کرتے تھے،لیکن جب مشرکین مکہ مشرف بہ اسلام ہوگئے اور ان کے اندر شعور پیدا ہوگیا تو یہ اشعار ان پر بہت زیادہ شاق گزرنے لگے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ عمرۃ القضاء کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے توعبداللہ بن رواحہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
خلوا بنی الکفار عن سبیلہ الیوم نصربکم علی تنزیلہ
ضربا یزیل الہام عن مقیلہ ویذہل الخیل عن خلیلہ
یہ منظر دیکھ کرحضرت عمرنے حضرت عبداللہ بن رواحہ کوٹوکتے ہوئے کہاکہ تم رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور حرم کے اندر اشعار پڑھتے ہو،یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خل عنہ یاعمر! فلہی اسرع فیہم من نضح النبل۔(سنن الترمذی،کتاب الادب،باب ماجاء فی انشاد الشعر،حدیث نمبر:۲۸۴۷)
انہیں کہنے دو عمر! یہ اشعار ان پر (کفار ومشرکین) تیر برسانے سے بھی زیادہ زور اثر ہیں۔
حضرت حسان کی شان میں رسالت مآب کی زبان سے نکلاہوایہ جملہ نہ صرف شاعری کو قابل استناد قرار دیتا ہے بلکہ اسلام کے دفاع کے لئے اس فن کے استعمال پر مہر ثبت کرتا ہے ،آپ نے فرمایا:
یاحسان! اجب عن رسول اللہ ﷺ اللہ ایدہ بروح القدس۔(صحیح البخاری،کتاب الادب، باب ہجاء المشرکین،حدیث نمبر۶۱۵۲،صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب فضائل حسان بن ثابت ،حدیث نمبر:۶۵۳۹)
اے حسان!اللہ کے رسول کادفاع کرو،حضرت جبرئیل تمہاری مدد کریں گے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ منبررسول پر کھڑے ہوکر رسول اللہ ﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھتے اور آپ ﷺ کادفاع کرتے۔
تجارتی میلوں کااستعمال
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت جزیزۃ العرب میں مختلف بازار ہواکرتے تھے،یہ بازار تجارتی اور تہذیبی دونوں اعتبارسے بڑی اہمیت کے حامل تھے،ان بازاروں میں جہاں تجارتی سامان کی خریدوفروخت ہوتی وہیں افکارواحوال کی ترسیل ہوتی،ادبی سرگرمیاں انجام پاتیں تھیں،قبائل کے مسائل بھی وہیں حل ہوتے تھے،اور خطباء اور شعراء اپنے اپنے فن کامظاہرہ کرتے تھے،اس طرح کے بازاروں میں سوق دومۃ الجندل،سوق مشقر،سوق ہجر،سوق عکاظ، سوق مجنہ،سوق ذوالمجاز،سوق المربد قابل ذکر ہیں،رسول اللہ ﷺ نے ان بازاروں کواپنی دعوت کی ترسیل کے لئے استعمال فرمایا۔
ڈاکٹرعبداللطیف حمزہ لکھتے ہیں:
ووقف رسول اللہ ﷺ بعد مبعثہ بثلاث سنوات فی عکاظ یدعو الناس الی الخیر والہدی والسعادۃ والایمان، وقد لزمہ منذ قیامہ بالدعوۃ حزن عمیق علی قومہ الذین کفروا بنعمۃ اللہ، فعزم لیقصدن المواسم ولیاتین فیہا القبائل، کل قبیلۃ بمنزلہا وکل جماعۃ فی حیہم، یعرض علیہم ہذا الدین قائم فی عکاظ، یقول:یاایہاالناس! قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا وتنجحوا۔(الاعلام فی صدر الاسلام،از ڈاکٹرعبداللطیف حمزہ،ص:۳۳،دارالفکر العربی، قاہرہ)
رسول اللہ ﷺ اپنی بعثت کے بعد مسلسل تین سال تک عکاظ کے میلے میں لوگوں کو خیر ،ہدایت ، سعادت اور ایمان کی دعوت دیتے رہے،آپ ﷺ کو دعوت کے روز اول سے ہی اپنی قوم کے کفار کی بڑی فکر دامنگیر تھی،چنانچہ آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ آپ حج کے موسم میں ہر قبیلہ اور ہر جماعت کے لوگوں کے پاس ضرور جائیں،اور ان کے سامنے دین کی دعوت پیش کریں،اور عکاظ کے میلے میں یہ اعلان کریں کہ اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہہ لو،کامیاب وکامران ہوجائو گے۔
مختلف علاقوں میں دعاۃاوروفودبھیجنا
ابن اسحق بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ اور تبوک سے فارغ ہوئے توعرب کے ہرعلاقے میں اپنانمائدہ بھیجا،یہ نوہجری کی بات ہے،اور اس مناسبت سے اس سال کو سنۃ الوفود بھی کہا جاتا ہے۔ (سیرت ابن ہشام،ج۴،ص:۵۵۹)
رسول اللہ ﷺ نے متعدد صحابہ کومختلف علاقوں میں داعی بناکر بھیجا،تاکہ وہ ان علاقوں میں اسلام کی دعوت پہونچائیں،ابتدائی دور میں حضرت مصعب بن عمیر کومدینہ بھیجا، بئر معونہ کاواقعہ سیرت کی کتابوں میں معروف ہے،جہاں سترداعی صحابہ شہید ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کودعوتی مشن پر روانہ فرمایاتھا،حضر ت معاذ کویمن،ابوموسی اشعری اور علی بن ابی طالب کویمن،اور دیگرصحابہ کودوسرے شہروں میں دعوت کے لئے بھیجا۔
رسول اللہ ﷺ نے جن صحابہ کو سفار ت کے لئے منتخب فرمایاان کے اندرسفارت کے اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے،ان کے اندر جہاں ایمانی قوت پوری طرح موجود تھی وہیں ان میں مواصلات کی مہارت بھی پائی جاتی تھی،تاکہ موثر انداز اور اطمینان بخش اندازمیں اپنی بات پہونچاسکیں۔(مہارا ت الاتصال، ص: ۷۹)
ڈاکٹر محمدعجاج الخطیب لکھتے ہیں ان سفراء کے اندر وہ تمام صفات موجود تھے جوذرائع ابلاغ سے متعلق افرادمیں ہونی چاہیے:
وقد کانت رسلہ وبعوثہ ﷺ وولاتہ خیر من یحمل الرسالۃ ویودی الامانۃ ویقوم بالدور الاعلامی المناسب لذلک کلہ، ویجمع خصائص الاعلام الاسلامی التی اسلفناذکرہا من امانۃ النقل وصدق الحدیث والنزاہۃ والموضوعیۃ۔(اضواء علی الاعلام فی صدر الاسلام،از ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب،ص:۴۸)
رسول اللہ ﷺ کے تمام سفراء اور گورنر پیغام رسانی اور امانت کی ادائیگی کے لئے سب سے موزوں تھے،اور ان تمام معاملات میں ان حضرات نے اعلام کے کردار کو بحسن وخوبی انجام دیا،یہ حضرات اعلام کی تمام صفات سے متصف تھے،یعنی امانت داری،سچائی،تقوی وطہارت اور علمی لیاقت ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
ان سفراء کے صفات کاتذکرتے ہوئے ڈاکٹرمختار الوکیل لکھتے ہیں:
وقد کان جمیع السفراء من الشباب الذین یتحلون بالسجایا الکریمۃ والخصال الشریفۃ وجمال الصورۃ ونقاء السریرۃ فضلا عن توقد الذکاء واللماحیۃ الشفافۃ والبدیۃ الحاضرۃ والحجۃ الباہرۃ۔(سفراء النبی وکتابہ ورسائلہ ، دکتور مختارالوکیل،ص:۵۰)
تمام سفراء ایسے نوجوان تھے جو اعلی اخلاق وعادات،خوبصورت،اور خوب سیرت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہانت ،برجستگی،حاضر جوابی،اور مضبوط دلائل کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
مکالمہ(حوار) کے ذریعہ ابلاغ
مختلف افرادکے درمیان مکالمہ ابلاغ کااہم ترین ذریعہ سمجھاجاتاہے،دوسرے فرد کو مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کایہ ایماندانہ ذریعہ ہے،مکالمہ کی صورت میں دوسرا فریق جہاں توجہ سے بات سنتاہے وہیں ان کی ذہنی ونفسیاتی الجھن بھی دور ہوجاتی ہے،اس طرح دعوت کامقصد آسانی سے حاصل ہوجاتاہے،مکالمہ کے فوائد کاذکرکرتے ہوئے راشدعلی عیسی لکھتے ہیں:
اذا ساد الحوار القائم علی احترام رای الآخر سادت المودۃ مع اختلاف الرای ،ذلک ان الحوار یعطی للنفس فرصۃ بث ہمومہا والکشف عن اشکالیاتہا ومکامنہا المعتمۃ ویفید من ذلک الکشف کل من المتحاورین معا۔ (مہارات الاتصال،راشدعلی عیسی،ص:۴۹)
جب ایک دوسرے کی رائے کے احترام کے ساتھ تبادلہ خیال ہوگا تو اختلاف رائے باوجود محبت ہوگی،اس کی وجہ یہ ہے کہ تبادلہ خیال ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے،اشکالات دور کرنے،اور رموز واسرار کو واضح کرنے کاموقع فراہم کرتاہے،اور اس تبادلہ خیال سے مجلس کے ہر شریک ہو فائدہ پہونچتاہے۔
عام لوگوں سے رابطہ قائم کرنے اور صحابہ سے تعلق استوار رکھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے متعددمواقع پر اس مکالمے کے طریقہ کو اختیار فرمایا، احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس کے بے شمار نمونے موجود ہیں،ان نمونوں سے کامیاب مکالمہ کے اصول وآداب آسانی کے ساتھ مستنبط کئے جاسکتے ہیں، ابوالولید عتبہ بن ربیعہ سے مکالمہ ،ثمامہ بن اثال کے ساتھ مکالمہ،سہیل بن عمرو سے مکالمہ،اس کے بہترین نمونے ہیں۔
حج کے لئے آنے والے وفودسے ملاقات
رسول اللہ ﷺ نے حج کے لئے آنے والے وفودسے ملتے،مکی دورمیںان سے خفیہ ملاقاتیں ہوتیں،کسی بھی تحریک ودعوت کے لئے ابتدائی مرحلہ میں یہ بہترین طریقہ ہوتاہے کہ اپنی دعوت کے لئے فضاکوسازگار کیا جائے، رسول اللہ ﷺ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا،اور اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے۔
مدنی دورمیں جزیرہ عرب کے ہرگوشے سے وفود کی آمد ہوئی،آپ ﷺ ان کااستقبال کرتے،ان کا اکرام کرتے،انہیں دین کی باتیں سمجھاتے،انہی وفود میں ایک وفد ضمام بن ثعلبہ کا تھا،رسول اللہ ﷺ سے دین کی باتیں سیکھ کر جب یہ لوگ اپنے قبیلہ پہونچے توانہیں دین کی دعوت دی،اور اس طرح پورا قبیلہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا،اسی طرح وفدعبدالقیس،وفد بنی حنیفہ اور دیگر وفود کاتذکرہ ملتاہے۔
حجۃ الوداع
ابلاغی نظریہ سے دیکھاجائے توحج بہت بڑااور موثر ابلاغی وسیلہ کی شکل میں نظرآئے گا،اور رسول اللہ کا حج جسے حجۃ الوداع کے نام سے جاناہے،وہ اس حوالے سے ایک عدیم المثال ابلاغی کردارہے جس کے اثرات اس دورمیں اور اس کے بعد بھی محسوس کئے گئے،اس موقع پر موجود جم غفیر کے سامنے دین کی حقانیت کو پیش کرنے کا بہترین موقع تھاجسے رسول اللہ ﷺ نے استعمال فرمایا۔ڈاکٹرمحمد عجاج خطیب اس موقع کی ابلاغی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
لقد کان لاجتماع المسلمین فی موسم الحج بہذا العدد الجم الغفیر اثر اعلامی کبیر فی بیان احکام الشریعہ عامۃ، واحکام الحج خاصۃ، ونشر ذلک کلہ فی الجزیرۃ العربیۃ ثم نقلہ بعد ذلک خارج الجزیرۃ العربیۃ، بل الی مختلف الآفاق حین انطلق ائمۃ الصحابہ والتابعین ومن جاء بعدہم یخرجون الناس من الظلمات الی النور ومن الجاہلیۃ الی الاسلام،لقدکان حج الرسول مناسبۃ اعلامیۃ عظیمۃ، بلغ فیہ الرسول ﷺ الامانۃ وادی الرسالۃ، وشارک فی ہذہ المناسبۃ مشارکۃ عملیۃ جماہیر المسلمین بنقل ما سمعوہ ورائوہ وفعلوہ الی اہلیہم وذویہم ومن ورائہم۔(اضواء علی الاعلام فی صدرالاسلام،ص:۶۰)
حج کے موقع پر مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع شریعت کے احکام کی نشرواشاعت میں اور خاص طور پر حج کے احکام کی تبلیغ میں بہت زیادہ ابلاغی اثر رکھتا تھا، ساتھ ہی یہ اجتماع جزیرہ عرب کے اندرون ،جزیرہ عرب کے باہر بلکہ آفاق عالم میں احکام شریعت کی نشرواشاعت کا اہم وسیلہ تھا،خصوصا جب صحابہ کرام،تابعین عظام اور اسلاف امت لوگوں کو تاریکی سے نور کی طرف اور جہالت سے اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے نکل پڑے،رسول اللہ ﷺ کا حج بھی بہت بڑا ابلاغی وسیلہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ نے امت تک امانت پہونچادی،اور رسالت کا حق ادا کردیا،اس موقع پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس طور سے عملی طور پر شریک ہوئی کہ جو سنا،دیکھا اور عمل کیا انہیں اپنے اہل وعیال ،اعزہ واقارب اور آئندہ آنے والی نسلوں تک بعینہ منتقل کردیا۔
خطوط کے ذریعے ابلاغ
عہد رسالت میں جزیرہ عرب کے اطراف میںبہت سی ریاستیں تھیں،رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کے نام دعوت اسلام کے خطوط ارسال فرمائے،یہ خطوط جہاںعرب کے قریب موجودحکمراں جیسے قیصروکسری اور نجاشی کے نام تھے وہیں شاہ چین کے نام بھی دعوتی مکتوب بھیجا،آپ کی ان کوششوں سے جزیرۃ العرب کے متعددقبائل نے اسلام قبول کیا،حبش کے بادشاہ نجاشی بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔
فعن انس ان نبی اللہ ﷺ کتب الی کسری والی قیصر والی النجاشی والی کل جبار یدعوہم الی اللہ تعالی، ولیس بالنجاشی الذی صلی علیہ النبی ﷺ ۔(صحیح مسلم ، کتاب الجہاد والسیر،باب کتب النبی ﷺ الی ملوک الکفار یدعوہم الی اللہ عزوجل ،حدیث نمبر:۴۷۰۹)
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسری،قیصر،نجاشی،اور سارے سرکش ومتکبر بادشاہوں کو اللہ کی طرف سے دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھ کر بھیجے،اس نجاشی سے وہ نجاشی مراد نہیں ہے کہ جن کے انتقال پر رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی۔
اس سلسلہ میں آٹھ خطوط کاتذکرہ سیرت کی عام کتابوں میں موجود ہے جواس طرح ہے:
۱۔اصحمہ نجاشی (شاہ حبش)،سفیر:حضر ت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ
۲۔ہرقل(قیصر روم)،سفیر:حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ
۳۔خسروپرویز(کسری عجم)،سفیر:حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ
۴۔جریح بن متی مقوقس (عزیزمصر)سفیر:حضرت حاطب بن بلتعہ رضی اللہ عنہ
۵۔حارث بن ابی شمرغسانی(شاہ دمشق)،سفیر:حضرت شجاع بن وہب اسدی رضی اللہ عنہ
۶۔ہوزہ بن علی حنفی(والی یمامہ)سفیر؛حضرت سلیط بن عمرو عامری رضی اللہ عنہ
۷۔جیفر ،عبد(شاہان عمان)سفیر:حضرت عمروعاص سہمی رضی اللہ عنہ
۸۔منذربن ساوی العبدی(ملک بحرین)سفیر:علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ
(سیرۃ النبی، ابن ہشام،ج۴،ص:۲۷۸)
بعض مورخین کے نزدیک ان خطوط کی تعداد ۲۵۰کے قریب ہے۔(ان خطوط کی تفصیلات کے لئے دیکھئے:نقوش رسول نمبر،لاہور،ادارہ فروغ اردو،ج۲،ص:۲۶۶)
عہد رسالت میں میڈیاوار
عہدرسالت میں مذکورہ بالاشکلوں کے علاوہ بھی ابلاغ کے متعدکردارہمیں نظرآتے ہیں،بلکہ ابلاغ کے ساتھ پروپیگنڈہ اور پروپیگنڈوں کاجواب بھی بہت نمایاں شکل میں نظر آتا ہے میڈیاوارکے بارے میںلیاقت علی خان لکھتے ہیں:
میڈیا وار کے نام سے جوتذکرہ گرم ہے یہ کوئی نئی جنگ نہیں ہے، انسانی معاشرہ کی اس سے پرانی شناسائی ہے،میسر وسائل کی مدد سے ہردور میں اس جنگ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیاہے،میڈیا وار ہر اس وسیلے کوکہاجاتاہے جس کی مدد سے اپنے نظریات دوسروں تک منتقل کی جاسکیں،قبائلی دور میں یہ جنگ شعروشاعری اور فصاحت و بلاغت کے زور پر لڑی جاتی تھی،اوراس میں اہم کردار شعر کاہوتاتھا۔ (اسلام کاقانون صحافت،ص:۱۱۲،ازلیاقت علی خان نیازی،ط:بک ٹاک لاہور ۲۰۰۸ء)
عہدنبوی کے میڈیاوارکی مزید وضاحت کرتے ہوئے محمدانور لکھتے ہیں:
مدح وتعریف اور مذمت وہجو کلام عرب کے معروف اصناف سخن ہیں،جنہیں دور قدیم کی میڈیا وار کاسب سے اہم عنصر قرار دیاجاسکتا ہے، پیغمبر اعظم ﷺ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کونظرانداز نہیں کیابلکہ میڈیا وار کے چیلنج کوقبول کرتے ہوئے اپنے دور کے محدود وسائل کو استعمال میں لا کرموقع محل کے اعتبار سے بھرپور انداز میں دشمن اسلام کے خلاف یہ ہتھیار استعمال فرمایاہے۔(عالم اسلام پر یہود ونصاری کے ذرائع ابلاغ کی یلغار،ص:۶۲، ازمحمد انور بن اختر،ط:ادارہ اشاعت اسلامی کراچی،۲۰۰۳ء)
سیرت نبوی کے مطالعہ سے ابلاغ کی اہمیت ،اورعہد نبوی میںذرائع ابلاغ کے غیر معمولی کردار کا اندازہ ہوتاہے وہیںابلاغی پروپیگنڈہ،اوران پروپیگنڈوں کاجواب،اورنفسیاتی جنگ کی تدابیر کے متعدد نمونے بھی سامنے آتے ہیں،عہدنبوی کے کامیاب ترین ابلاغی کرداروں کی تفصیلات سے یہ پیغام ملتاہے کہ مسلمانوں کے ابلاغی وسائل کو اختیارکرنے کے سلسلہ میں زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے،دین کی حقانیت کو پوری دنیاتک پہونچانے کے لئے،اسلامی تعلیمات سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے اور مسلمانوں کی اجتماعی شبیہ کو بہتر بنانے کے لئے ذرائع ابلاغ کواستعمال کرنامسلمانوں کااہم ترین فریضہ ہے،اسی طرح اسلامی تعلیمات میں ایسی بے شمارہدایات موجود ہیں جن کی روشنی میں ہردورکے میڈیاکے لئے رہنمااصول وضع کئے جاسکتے ہیں،بلکہ ان خطوط پر میڈیائی ذرائع کی تشکیل کی جاسکتی ہیں،اوراس کے عملی نمونے پیش کئے جاسکتے ہیں –