شریعت کے مقاصد اور مصالح
December 26, 2024وقف کی شرعی حیثیت اور اس کا استبدال
January 4, 2025
فقہاء کے اختلاف میں علم حدیث کے اثرات
مولاناعتیق احمد بستوی
(استاذحدیث وفقہ دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
اللہ تعالی نے اپنے سب سے اعلی و اشرف رسول خاتم النبیین حضرت محمدمصطفے ﷺ پر اپنا آخری اور مکمل صحیفہ ٔ ہدایت قرآن کی شکل میں نازل فرمایا اور تا قیامت قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا: ’’إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون‘‘(سورہ حجر:۹)۔
قرآن کی حفاظت سے مراد محض الفاظ قرآن کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ ، الفاظ قرآن سے آگے بڑھ کر اس کے معانی و مطالب اور اس کے احکام تک وسیع ہے اسی طرح نبی اکرم( فداہ ابی وامی) ﷺ کے اقوال و افعال و تقریرات کا وہ حصہ جس کے بغیر قرآن کے معانی واحکام اور قرآن کی گہرائیوں تک رسائی ممکن نہیں اس کی حفاظت بھی حفاظت قرآن کے دائرہ میں داخل ہے، حفاظت قرآن کا وعدہ در حقیقت پورے اسلام کی حفاظت کا وعدہ ہے، کیوں کہ قرآن ہی کے سرچشمہ سے اسلامی عقائد واحکام، اسلامی اخلاق و معاملات کی نہریں جاری ہوئیں، سنت رسول قرآن کی جامع تفسیر ہے اور علوم اسلامیہ اس کی شیریں پھل، اسی حقیقت کو زبان رسالت نے ان الفاظ میں بیان کیا:
یرث ھذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تاویل الجاہلین وانتحال المبطلین وتحریف الغالین۔(السنن الکبری للبیہقی،کتاب الشہادات،باب الرجل من اہل الفقہ یسال عن الرجل من اہل الحدیث فیقول …حدیث نمبر: ۲۰۹۱۱،ج۱۰،ص:۱۰،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،طبع سوم، ۱۴۲۴ھ،۲۰۰۳ء)
ہر آنے والی نسل سے عادل لوگ اس علم کے حامل ہوںگے جو اس سے غلو کرنے والوں کی تحریف ، باطل پرستوں کی اختراع اور جاہلوں کی تاویل کو دور کریں گے۔
حفاظت قرآن کے پردے میں در اصل اسلام کے تمام شعبوں عقائد، احکام، اخلاق و معاشرت، کی حفاظت کا وعدہ اللہ جل شانہ کی طرف سے کیا گیا ہے یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ نبی اکرمﷺ کا لایا ہوا مذہب مذاہب سابقہ کی طرح تحریف کا شکار نہیں ہوگا اسلام کے خلاف تحریف کی کوششیں اور سازشیں ہمیشہ ناکام ہوتی رہیںگی یہ مذہب تا قیامت اپنی اصلی حالت میں درخشندگی اور تابنا کی ساتھ باقی رہے گا۔ اور گم کردہ راہ انسانوں کے لئے مینارۂ نور اور مشعل ہدایت کا کام دے گا۔
اسلام کے اساسی حصہ میں ائمہ کرام کا اتفاق:
جس طرح اسلامی احکام میں بندوں کی طرف سے اضافہ یا حک و فک تحریف فی الدین شمار ہوتا ہے اسی طرح مدراج احکام میں کسی قسم کی تبدیلی تحریف شمار ہوتی ہے، مدراج احکام سے میری مراد یہ ہے کہ کس حکم شرعی کو فرض مانا جائے، کس کو واجب، کس کو سنت یا مستحب، کس کو قطعی تسلیم کیا جائے کس کو ظنی، غرض یہ کہ اسلام کے مکمل نظام عقائد و اعمال میں کسے کیا حیثیت اور کیا مقام دیا جائے اس کی بنیادیں بھی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے فراہم کر دی گئی ہیں۔شریعت اسلامی کے وہ سارے اجزاء و عناصر جن کی عامۃ الناس کو حاجت تھی اور جن کی حیثیت دین میں اساسی تھی، نبی اکرم ﷺ نے ان کی تبلیغ اس شان سے کی کہ عام مسلمانوں میں وہ خوب شائع و ذائع ہو گئے اور ہر نسل نے بعد والی نسل تک اسے اس طرح پہنچا دیا کہ ان میں تواتر وتوارث کی شان پیدا ہو گئی اور قطعیت پیدا ہو گئی، امام شافعی نے اس کو ’’مانقلہ عامۃ من عامۃ‘‘سے تعبیر کیا ہے اور الرسالہ میں اس کے بارے میں لکھا ہے:
’’وھذا الصنف کلہ من العلم موجوداً نصاً فی کتاب اللہ وموجوداً عاما عند أھل الإسلام وینقلہ عوامھم عن من مضی من عوامھم یحکونہ عن رسول اللہ ﷺ‘‘ (الرسالہ لامام محمد بن ادریس الشافعی؍۳۵۸، تحقیق وشرح احمد محمد شاکر،ناشر مصطفی البابی واولادہ،مصر،طبع اول، ۱۳۵۷) ۔
(اور یہ پوری قسم صراحتاً اللہ کی کتاب میں موجود ہے اور عموماً اہل اسلام کے پاس موجود ہے، عامۃ المسلمین اسے اپنے پیشر و عامۃ المسلمین سے نقل کرتے ہیں، اسی طرح یہ رسول اکرم ﷺ تک پہنچ جاتا ہے) ۔
ضروریات دین اور شریعت اسلامی کا اساسی حصہ ’’نقل العامۃ عن العامۃ‘‘ یا ’’نقل الکافۃ عن الکافۃ‘‘ کی راہ سے ہر نسل تک پہونچتا رہا ہے جسے ہم تو اتر سے بھی موسوم کرتے ہیں، تواتر کا لفظ سن کر فوراً ذہن تو اترا سنادی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور تواتر اسنادی ہی میں تواتر کو منحصر سمجھ لینے کی وجہ سے بعض حضرات دین کے متواتر حصہ کی مقدار بہت قلیل سمجھتے ہیں، علامہ انور شاہ کشمیریؒ(۱۳۵۲ھ۔۱۹۳۳ء) اپنی گراں قیمت کتاب’’ اکفارالملحدین فی ضروریات الدین‘‘ میں اس غلط فہمی کا ازالہ فرماتے ہیں:
’’ثم التواتر قد یکون من حیث الإسناد کحدیث من کذب علی متعمداً۔۔۔۔۔ وقد یکون من حیث الطبقۃ کتواتر القرآن،تواتر علی البسیطۃ شرقا وغربا، تلقاہ الکافۃ عن الکافۃ طبقۃ عن طبقۃ الی حضرۃ الرسالۃ ولا تحتاج الی اسناد یکون عن فلان عن فلان وقد یکون تواتر عمل وتواتر توارث وقد تجتمع أقسام کما فی أشیاء من الوضوکالسواک والمضمضۃ والاستنشاق،ثم ان التواتر یزعمہ بعض الناس قلیلا وھوفی الواقع یفوت الحصرفی شریعتنا ویعجز الانسان أن یفھرسہ ویذھل الانسان عن التفاتہ فاذا التفت الیہ رآہ متواتراً وھذا کالبدیھی کثیرا ما یذھل عنہ ویحفظ النظریّ‘‘۔(اکفار الملحدین فی ضروریات الدین؍۴۰۵ مطبوعہ مجلس علمی ڈابھیل ۱۳۵۰ھ)
(تواتر کبھی سند کے اعتبار سے ہوتا ہے جیسے ’’ من کذب علی متعمدا‘‘ والی حدیث، کبھی تواتر طبقہ ہوتا ہے جیسے قرآن مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں متواتر ہے مسلمانوں کی ہر نسل نے پہلی والی نسل سے قرآن سیکھا ہے، قرآن میں سلسلۂ سند کی ضرورت نہیں ہے کبھی تواتر عمل اور تواتر توارث ہوتا ہے، کبھی تواتر کی متعدد قسمیں جمع ہو جاتی ہیں جیسے وضو کی چند چیزوں مثلاً مسواک، مضمضہ اور استنشاق میں۔
پھر تواتر کو بعض لوگ قلیل سمجھتے ہیں حالانکہ ہماری شریعت میں تواتر سے ثابت شدہ امور بے شمار ہیں، انسان ان کی فہرست نہیں بنا سکتا، انسان ایک چیز کی طرف توجہ نہیں دے پاتا، جب ادھر توجہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز متواتر ہے، متواتر کا حال بدیہی کی طرح ہے، انسان اکثر بدیہی کو بھول جاتا ہے اور نظری کو یاد رکھتا ہے)۔
ضروریات دین اور شریعت اسلامی کے اساسی حصہ میں ائمہ مجتہدین میں کوئی اختلاف نہیں، اہل سنت والجماعت کے تمام مسالک جو ’’ما أنا علیہ وأصحابی‘‘ کے زمرہ میں شامل ہیں شریعت اسلامی کے اس حصہ میں متفق ہیں اس میں اگر اختلاف ہے تو فرق ضالہ ، باطلہ کا جنہیں اہل حق کافریا مبتدع قرار دیتے ہیں۔
ائمہ کرام کے اختلاف کا دائرہ:
شریعت اسلامی کی مذکورہ بالا قسم کے با لمقابل احکام شریعت کی ایک قسم وہ ہے جو ’’خبرالواحد عن الواحد‘‘ ’’نقل الخاصۃ عن الخاصۃ‘‘ کی راہ سے ہم تک پہنچی ہے شریعت کے اس قسم کی حیثیت و اہمیت پہلی قسم کے برابر نہیں ہے ان احکام کا ’’نقل الخاصتہ عن الخاصتہ‘‘ کی رہ سے ہم تک پہنچنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا منشا ہی یہ تھا کہ دین کا یہ حصہ ’’خبرالواحد عن الواحد‘‘ کی راہ سے ہم تک پہنچے تاکہ ان کے احکام کے مطالبہ میں پہلی قسم والی شدت پیدا نہ ہو، اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میںایسا طرز اختیار فرمایا کہ ان میں شہرت و شیوع و تواتر کی شان پیدا نہ ہو سکی اسی طرح خلفاء راشدین نے بھی منشاء رسالت سے واقفیت کی بناء پر دین کے اس حصہ میں رسول اکرم ﷺ کی روش کو اختیار فرمایا، غرض یہ کہ دین کے اس حصہ کا خبر آحاد کی شکل میں منتقل ہونا یہ واقعہ ہوا نہیں بلکہ کیا گیا، شریعت اسلامی کے اسی دوسرے حصہ میں ائمہ مجتہدین کے اختلافات ہیں، یہ اختلافات ائمہ مجتہدین سے شروع نہیں ہوئے بلکہ صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی ان مسائل میں اختلاف تھا فقہاء وتابعین میں بھی وہ اختلاف قائم رہا، ان مسائل میں اختلاف کی نوعیت زیادہ تر افضل، غیر افضل، راحج، مرجوح کی ہے، جواز وعدم جواز صحت و فساد والے اختلافات دس فیصد بھی نہیں ہیں جواز و عدم جواز کا اختلاف شاذ ونادر ہونے کی وجہ سے علامہ ابوبکر جصاص رازی ؒ نے تو اس طرح کے مسائل کے بارے میں کلی طور پر لکھ دیا۔
’’ھم مخیرون فی أن یفعلوا ماشائوا، وإنما الخلاف بین الفقہاء فیہ فی الأفضل منہ‘‘۔ (احکام القرآن للحصاص الرازی۱؍۲۴۸، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت،پہلاایڈیشن ۱۴۱۵ھ ، ۱۹۹۴ء)
(ان کو اس بارے میں اختیار ہے کہ جو چاہیں کریں، فقہاء کا اس کے بارے میں اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ افضل کیا ہے)۔
اس طرح کے اختلافی مسائل میں زیادہ تر صورت حال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے دونوں طرح کے عمل ثابت ہیں اس لئے فقہاء دونوں کو جائز کہتے ہیں، ان میں اختلاف صرف یہ ہے کہ افضل کون سا عمل ہے، صحابہ کرام کی ان اختلافات کے بارے میں مشہور مالکی عالم شاطبیؒ الموافقات میں حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر کا کتنا بلیغ اور حکیمانہ قول نقل کرتے ہیں:
’’لقد نفع اللہ بخلاف أصحاب النبی ﷺ فی أعمالھم لا یعمل العامل بعمل رجل منھم إلا رای أنہ فی سعۃ ورأی أن خیرا منہ قد عملہ‘‘۔(الموافقات للشاطبی ۴؍ ۱۲۵،ناشردار المعرفۃ بیروت)
(اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے اعمال میں اختلاف سے امت مسلمہ کو فائدہ پہونچایا،عمل کرنے والا ان میں سے کسی کے عمل کے مطابق عمل کرتا ہے تو اپنے لئے گنجائش محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھ سے بہتر شخصیت نے یہ عمل کیا تھا)۔
حضرت قاسم بن محمد کا شمار مدینہ کے فقہاء سبعہ میں ہوتا ہے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں بچپن میں یتیم ہو جانے کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ کی زیر تربیت آگئے اور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی آغوش شفقت و سایۂ عاطفت میں ہوش سنبھالا۔
دین کے فروعی حصہ میں امت کا اختلاف رحمت ہے:
جن حضرات کو اللہ تعالی نے قرآن و سنت کا رمز شناس اور مقاصد شریعت کا غواص بنایا انہوں نے ہمیشہ ان اختلافات کو امت کے لئے رحمت تصور کیا اور کسی ایک قول پر مسلمانوں کو مجبور کرنے کی شدید مخالفت کی، معلم العلماء خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے کسی نے تجویز رکھی کے کاش کہ آپ لوگوں کو ایک ہی مسلک پر متفق کر دیتے (لوجمعت الناس علی شئی) تو انہوں نے جواب دیا۔
’’ما یسرنی أنھم لم یختلفوا‘‘ یعنی اگر مسلمان مختلف نہ ہوتے تو یہ بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔ انہوں نے اسی جواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ:
’’ثم کتب إلی الآفاق وإلی الأمصار لیقض کل قوم بما اجتمع علیہ فقہائھم‘‘ (سنن الدارمی ۱؍۴۸۹، باب اختلاف الفقہاء،حدیث نمبر:۶۵۲)۔
(پھر انہوں نے اپنے تمام ممالک محروسہ کے ارباب علم و دانش کے نام فرمان بھیجا کہ ہر ملک کے باشندے اسی کے مطابق فیصلہ کریں جن پر ان کے فقہاء کا اتفاق ہو)۔
غرض یہ کہ مختلف علاقوں اور شہروں کے فقہاء کا جو اختلاف تھا اسے باقی رکھنے کا فرمان جاری کر دیا۔
امام مالکؒ کا واقعہ:
امام مالک علیہ الرحمتہ کا یہ واقعہ ان کے تمام سوانح نگار لکھتے ہیں کہ ایک بار منصور نے حج کیا اور امام مالکؒ سے عرض کیا کہ میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ جو کتابیں آپ نے لکھی ہیں ان کی نقلیں کراؤں اور انہیں مسلمانوں کے ہر ہر شہر میں بھیج کر فرمان جاری کر دوں کہ لوگ صرف انہیں کتابوں کے مطابق عمل کریں، ان سے متجاوز ہو کر کوئی اور طریقہ اختیار نہ کریں، خلیفہ منصور نے امام مالکؒ کے سامنے یہ پیشکش رکھی جو اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کے اعتبار سے اس زمانہ میں دنیا کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا اگر مسائل فقہ اور احکام جزئیہ میں عام مسلمانوں کوکسی مسلک پر متفق کرنا مطلوب شرعی ہوتا یا اسلام میں اس کی گنجائش ہوتی تو امام مالکؒ جیسا اسلام اور مسلمانوں کا بہی خواہ اس زریں موقعہ سے کیوں نہ فائدہ اٹھاتا لیکن امام مالکؒ کا جواب سنئے :
’’یا أمیرالمومنین لا تفعل ھذا فإن الناس قد سبقت إلیھم الأقاویل وسمعوا أحادیث ورووا روایات،وأخذ کل قوم بما سبق إلیھم ودانوا بہ،فدع الناس وما اختار أھل کل بلد لأنفسھم‘‘ ( حجۃ اللہ لبالغۃ للشیخ احمد بن عبدالرحیم المعروف بولی اللہ الدہلوی۱؍ ۴۴ا، ا لطبقۃ الاولی)۔
(امیرالمومنین ایسا نہ کیجئے کیوں کہ لوگوں تک اس سے پہلے اقوال پہنچ چکے ہیں انہوں نے احادیث سنی ہیں، روایات کی ہیں، ہر قوم نے ان اقوال و روایات کو اختیار کر لیا ہے جو ان تک پہلے پہنچیں، لہذا لوگوں کو انہیں اقوال و روایات پر رہنے دیجئے جو ہر شہر والوں نے اپنے لئے پسند کیا ہے)۔
امام مالکؒ کا قول ’’دع الناس وما اختار أھل کل بلد لأنفسھم‘‘ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا ارشاد ’’لیقض کل قوم بما اجتمع علیہ فقہائھم‘‘ اس باب میں قول فیصل ہے، ان دونوں حضرات کے اقوال سے یہ بات بھی سمجھ میںآتی ہے کہ اس طرح کے مسائل خلافیہ میں اپنے مسلک کی وضاحت کرنے اور اپنے دلائل پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اپنے مسلک کو رائج مقبول بنانے کے لئے اس طرح دعوت و تحریک چلانا جس سے مسلمان آبادیوں کا سکون درہم برہم ہو جائے اور معرکۂ حق و باطل کا شبہ ہونے لگے اس کی گنجائش نہیں۔
مجتہدین کے اختلافات فرقہ بندی نہیں ہیں:
خلاصۂ کلام یہ کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان جو مسائل مختلف فیہ ہیں ان میں سے بیشتر وہی ہیں جو صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ تھے، ان مسائل میں اختلاف کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا غیر معمولی علمی فائدہ ہوا، علوم اسلامیہ کو ترقی ہوئی، بحث و تحقیق کے اعلی ترین نمونے سامنے آئے، لیکن غیروں نے فقہی مسالک کے اس اختلاف کو جو امت اسلامیہ کے لئے سراسر رحمت ہے فرقہ بندی کا نام دیا اور سادہ لوح ناواقف مسلمان اس طعنہ سے شرمانے لگے حالانکہ فقہی مسالک کے اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں میں کبھی جنگ و جدال قتل و قتال کی نوبت نہیں آئی بلکہ چاروں ائمہ کی تقلید کرنے والے مسلمان باہم شیر وشکر رہے ان میں ہر طرح کی معاشرتی، علمی، سیاسی روابط ہے تذکرہ وتراجم کی کسی کتاب میں کسی بھی ملک کے ممتاز عالم و محدث کا حال دیکھ لیجئے عموماً اس کے اساتذہ و شیوخ میں ہر مسلک کے لوگ ملیں گے، مولانا گیلانیؒ مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کے افسانے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ اہل سنت میں جو اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی بنیاد پر بطور نام نہاد لوگ مختلف ائمہ کی طرف سے منسوب ہیں، بتا چکا ہوں کہ علما ہو یا عملاً ان کے اختلافات کی وہ نوعیت ہی نہیں ہے جس سے فرقے بنتے اور ٹولیاں تیار ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اسی لئے باہم ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک والوں سے شادی بیاہ کے عام معاشرتی ہی نہیں بلکہ پیری مریدی تک کے تعلقات قائم کرنے سے نہیں جھجھکتے، شروع سے لے کر اس وقت تک کا عام حال یہی رہا ہے، کہیں کہیں شخصی طور پر اگر کسی کے قلم سے یا زبان سے اور وہ بھی علمی مباحثوں یا مناظروں کے وقت کچھ بے احتیاطیاں عمل میں آئی ہیں تو اس کی ذمہ داری ان اختلافات پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اس قسم کی بے احتیاطیاں تو ان لوگوں کے اندر بھی پائی جاتی ہیں جن میں یہ اختلافات نہیں ہیں‘‘علمی ترنگ اور مناظراتی جوش میں بھر کر کیا حنفی عالموں نے اپنے ہی جیسے حنفی عالم پر چوٹ نہیں کی ۔۔۔۔ لیکن یہ بے احتیاطیاں بھی کیا زبان و قلم سے آگے بڑھ کر کبھی تلوار کے قبضوں تک پہنچ گئی ہیں، اسلام تیرہ ساڑھے تیرہ سو سال کی اپنی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اس کی آبادیوں کا دائرہ ایشیا وافریقہ بلکہ یوروپ کے بعض خطوں کو محیط ہے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ حنفیوں کی فوج شافعیوں کے مقابلے میں یا مالکیوں کا رسالہ حنبلیوں کے مقابلہ میں اس لئے صف آرا کبھی کسی زمانہ میں ہوا تھا کہ ان میں ایک کا دوسرے سے مذہبی اختلاف تھا ۔۔۔ رومن کیتھولک اورپروٹسٹنٹ فرقوں میں جوکچھ ہوا وہ تو خیر ایک بڑی بات ہے میں نہیں جانتا کہ اہل سنت کے ان مختلف اماموں کے متبعین میں کبھی کوئی معمولی جھڑپ بھی ہوئی ہو۔ اور تیرہ سو سال کی اس طویل مدت میں ایک دو واقعے اگر کہیں شاذو نادر پیش آئے بھی ہوں تو تحقیق سے معلوم ہوگا کہ جھڑپ کی بنیاد میں درحقیقت کوئی دوسری چیز پوشیدہ تھی‘‘ ( تدوین فقہ مصنفہ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ،ص:۱۳۵۔۱۳۶)۔
فن حدیث اور اختلاف ائمہ:
اختلاف ائمہ کے سلسلہ میں مذکورہ بالا تمہید کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، اختلاف ائمہ کے اسباب کا موضوع بڑا طویل ا لذیل ہے موضوع کے غیر معمولی اہمیت کی بناء پر علماء اعلام نے اس موضوع پر قلم اٹھایااور انصاف و تحقیق کا حق ادا کیا، علامہ شعرانیؒ کی ’’المیزان الکبری ‘‘ ’’ کشف الغمۃ‘‘ علامہ ابن تیمیہؒ کی، ’’ رفع الملام عن الائمۃ الاعلام‘‘ شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کی، ’’ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘‘ اس موضوع کی اہم کتابیں ہیں، دور حاضر کی تصنیفات میں الدکتور مصطفی سعیدالخن کی،’’ اثر الاختلاف فی القواعد الا صولیۃ فی اختلاف الفقہاء‘‘ اور شیخ محمد عوامہ کی ’’اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمۃ‘‘ اس موضوع پر فکر انگیز، اور تحقیقی کتابیں ہیں خصوصاً آخر الذکرکتاب’’ دریا بہ کوزہ‘‘ کا مصداق ہے، زیر نظر مضمون میں شیخ عوامہ کی تصنیف سے پھرپور استفادہ کیا گیا ہے، ہمیں مختصراً اس موضوع پر روشنی ڈالنی ہے کہ ائمہ کے ختلافات میں علم حدیث کے کیا اثرات پڑے، ائمہ مجتہدین کا علم حدیث میں بلند پایہ مقام احادیث و آثار کے ذخیرہ پر ان کی وسیع نظر، رجال حدیث کی توثیق وتضعیف، احادیث کی تصحیح و پرکھ میں ان کا فنکارانہ اور مجتہدانہ مقام، ان موضوعات کو زیر بحث لانا بد یہی کو نظر بنانا ہے، بعض اہل قلم نے مختلف محرکات کی بناء پر امام ابو حنیفہؒ کی حدیث دانی کو تنقید و تنقیص کاموضوع بنایا لیکن اہل تحقیق نے ہمیشہ امام صاحب کی مقام شناسی کا ثبوت دیا اور فن حدیث میں ان کی امامت اور وسعت نظر کا بڑے بلند الفاظ میں اعتراف کیا۔
حدیث رسول کی حجیت پر ائمہ کا اتفاق:
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ائمہ مجتہدین ( جن کی امت کا سواد اعظم تقلید کرتا ہے) علم و تقوی کی بلند ترین مقام پر فائز تھے اور مسائل کی تحقیق و استنباط میں پوری ژرف نگاہی، دیانت داری، تلاش و جستجو سے کام لیتے تھے، یہ سب حضرات قرآن کے بعد احادیث رسول کو احکام شریعت کا سب سے بڑا اور اہم ماخذ و مصدر تصور کرتے تھے ان میں کسی کے بارے میں یہ بد گمانی جائز نہیں کہ حاشاو کلا کسی مسئلہ میں رسول اکرم ﷺ کے قول و فعل پر مطلع ہونے کے بعد اس کی مخالفت کی جرأت کرتے تھے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں۔
یہ بات جان لینی چاہئے کہ امت میں جن ائمہ کو قبولیت عامہ حاصل ہے ان میں سے کوئی بھی عمداً رسول اکرمﷺ کی کسی چھوٹی یا بڑی سنت کی مخالفت نہیں کرتا تھا۔
کیوں کہ وہ سارے ائمہ یقینی طور پر اتباع رسول کے وجوب پر اور اس بات پر متفق تھے کہ کسی بھی شخص کا قول قبول کیا جا سکتا ہے یا چھوڑا جا سکتا ہے سوائے قول رسول اللہﷺ کے، لہذا اگر کسی امام کا کوئی ایسا قول پایا جائے جس کے خلاف حدیث صحیح وارد ہے تو لامحالہ اس امام کے پاس اس حدیث کو ترک کرنے میں کوئی عذر ہوگا، اور کل اعذار تین ہیں۔
۱- ان کا یہ اعتقاد نہ ہوکہ یہ رسول کا فرمان ہے۔
۲- ان کا یہ خیال ہو کہ نبی اکرمؐ نے اس فرمان سے یہ حکم مراد نہیں لیا ہے۔
۳- ان کا یہ خیال ہو کہ یہ حکم منسوخ ہے ( اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاء للشیخ محمد عوامۃ الطبعۃ الثانیہ ۹۱)۔
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
’’إیاکم والقول فی دین اللہ بالرأی وعلیکم باتباع السنۃ فمن خرج عنھا ضل‘‘ (المیزان الکبری الشعرانی۱؍۷۶ الطبعۃ الثانیہ ۱۳۱۸ھ)۔
(تم لوگ دین کے بارے میں کوئی بات رائے سے کہنے سے بچو اور اتباع سنت کو لازم پکڑو کیوں کہ جو شخص سنت سے باہر گیا گمراہ ہوا)۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’أی سماء تظلنی وأی أرض تقلنی إذا رویت عن النبیﷺ حدیثا وقلت بغیرہ‘‘ (اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاء للشیخ محمد عوامۃ الطبقہ الثانیہ ۹۱)۔
(کون آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اور کون زمین میرا بوجھ اٹھائے گی اگر میں نبی اکرم ؐ سے ایک حدیث روایت کروںاور اس کے خلاف مذہب اختیار کروں) ۔
اسی طرح کے اقوال دوسرے ائمہ مجتہدین کے بھی کثرت سے منقول ہیں پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ حضرات سنت رسول کی دیدہ و دانستہ مخالفت کریں۔ اس لئے آئیے جائزہ لیں کہ بسا اوقات بعض اہل علم اور طالب علموں کو ائمہ کے بعض اقوال کے بارے میں مخالف سنت کا جو شبہ ہونے لگتا ہے اس کے اسباب کیا ہیں اور ان کے عذر وتوجیہ کیا ہے۔
اختلافات کے چند اہم اسباب:
علم حدیث کے سلسلے میں ائمہ مجتہدین کے اختلاف کے اسباب کو چند بڑے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں(۱) خبر واحد کے قابل استدلال و حجت شرعی ہونے کے لئے کیا کیا شرطیں اور اوصاف ضروری ہیں اس بارے میں ائمہ مجتہدین کے اصولی اختلافات (۲) فہم حدیث میں ان کا اختلاف(۳) احادیث صحیحہ کے متعارض ہونے کی صورت میں کیا موقف اختیار کیا جائے، قابل استدلال متعارض حدیثوں میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے اسباب کیا ہوں اس سلسلہ میں ائمہ کے اصولی اختلافات (۴) احادیث پر اطلاع اور نظر کے سلسلہ میں ان کا باہمی فرق۔
حدیث کی تصحیح کے اصول میں اختلافات:
اختلاف کے ان چاروں بنیادی اسباب میں پہلا سبب سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اگر اس پر تفصیل سے لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے، ہم یہاں مختصراً چند اشارے کرتے ہیں، اصول حدیث کی کتابوں میں حدیث صحیح میں پانچ شرطیں لگائی گئی ہیں (۱) اتصال سند (۲) عدالت راوی( ۳) راوی کا ضابط ہونا (۴) سند و متن کا شذوذ سے خالی ہونا(۵) سند ومتن کا علل قادحہ سے خالی ہونا۔
اتصال سند کی تفصیل میں خود گروہ محدثین میں شدید اختلاف ہے عنعنہ کی صورت میں امام بخاری وغیرہ کے نزدیک اتصال سند کے لئے ضروری ہے کہ راوی اور اس کے شیخ میں کم از کم ایک بارلقاء ثابت ہو اور امام مسلم نے مقدمہ مسلم میں لقاء کی شرط نہ ہونے پر اجماع کا دعوی کیا اور انہوں نے امکان لقاء کو کافی تصور کیاہے، ذرا غور کیجئے کہ اس اختلاف سے کتنی حدیثوں کے بارے میں اختلاف ہو جائے گا، امام بخاری اور ان کے ہم مسلک حضرات کے نزدیک وہ تمام معنعن حدیثیں دائرہ صحت سے خارج ہو جائیںگی جس کے سلسلۂ سند میں کسی ایک راوی اور اس کے شیخ کے درمیان لقاء ثابت نہ ہو سکا، خواہ اس میں صحت حدیث کی دوسری تمام شرطیں پائی جائیں اور امام مسلم وغیرہ کے نزدیک صرف لقاء کا ثبوت نہ ملنے سے حدیث کے صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ اس میں صحت کی تمام دوسری شرطیںموجود ہیں، اتصال سند ہی کے موضوع سے وابستہ ایک مسئلہ احادیث مرسلہ کا ہے محدثین عموماً احادیث مرسلہ کو ضعیف نا قابل استدلال قرار دیتے ہیں لیکن ائمہ مجتہدین اور فقہاء عام طور پر مراسیل کو حجت قرار دیتے ہیں۔
حدیث مرسل کے بارے میں اختلاف:
مشہور شافعی اصولی وفقیہ علامہ سیف الدین آمدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام ‘‘ میں لکھتے ہیں:
حدیث مرسل کی قبولیت کے بارے میں اختلاف ہے، امام ابو حنیفہؒ امام مالکؒامام احمدؒ (مشہور ترین روایت کے اعتبار سے) اور جمہورمعتزلہ نے مرسل کو قبول کیا ہے احناف میں سے عیسی بن ابان نے اس میں تفصیل کی ہے، انہوں نے صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اور ائمہ حدیث کے مراسل کو قبول کیا ہے،دوسروں کے مراسل کو نہیں، امام شافعی ؒ نے فرمایا ہے کہ اگر مرسل صحابہ کے مراسیل میں سے ہے یا ارسال کرنے والے کے علاوہ کسی نے اسے سند کے ساتھ ذکر کیا ہے یا کسی اور راوی نے بھی اسے مرسل ذکر کیا ہے جس نے پہلے ارسال کرنے والے کے علاوہ دوسرے شائخ سے روایت کی ہے یا اس حدیث مرسل کی تائید کسی صحابی کے قول یا اکثر اہل علم کے مسلک سے ہوتی ہے یا ارسال کرنے والے کے بارے میں بھی معلوم ہے کہ وہ ایسے راویوں سے روایت نہیں کرتا جن میں کوئی علت یعنی جہالت وغیرہ ہو مثلاً ابن المسیبؒ کے مراسیل تو مرسل قبول کر لی جائے گی ورنہ نہیں، امام شافعیؒ کے اکثر شاگردوں نے نیز قاضی ابو بکر اور فقہاء کی ایک جماعت نے امام شافعی ؒ کے مسلک سے اتفاق کیا ہے۔ مختار یہ ہے کہ عادل شخص کے مراسل مطلقاً قابل قبول ہیں۔ اس کی دلیل اجماع اور عقل ہے ( الاحکام فی اصول الأحکام، ج۲، ص:۱۷۷۔ ۱۷۸، للعلامہ الآمدی الشافعی دارالکتب العلمیہ بیروت)۔
ابن جریر طبریؒ کا یہ دعوی تو صحیح نہیں کہ مرسل کے قبول کرنے پر تابعین کا اجماع ہے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ تابعین بلکہ تبع تابعین کے عہد تک مرسل کو قبول کرنے اور اس سے استدلال کرنے کا ارباب علم وفقہ میں عام رواج تھا بعض ارسال کرنے والوں کا حال تو یہ تھا:
’’روی عن الأعمش أنہ قال: قلت لإبراھیم النخعی: إذا حدثنی فأسند فقال: إذا قلت لک حدثنی فلان عن عبد اللہ فھو الذی حدثنی، وإذا قلت لک: حدثنی عبداللہ فقد حدثنی جماعۃ عنہ‘‘۔(الاحکام فی اصول الأحکام،للآمدی،ج۲،ص:۱۲۴،المسالۃ العاشرۃ قبول الخبرالمرسل، المکتب الاسلامی، دمشق ۱۴۰۲ھ)
(اعمش سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے ابراہیم نخعی سے عرض کیا جب آپ مجھ سے حدیث بیان کریں تو پوری سند ذکر فرمائیے انہوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے بیان کروں کے فلاں شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے تنہا اسی شخص سے وہ روایت سنی اور اگر تم سے یہ کہوں کہ یہ عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے( یعنی اپنے شیخ کا ذکر نہ کروں) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے متعدد اصحاب نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے)۔
اس لئے بعض حضرات نے کہہ دیا:
’’من أسند فقد أحالک ومن أرسل فقد تکفل لک‘‘
(جس شخص نے پوری سند ذکر کی اس نے حدیث کی تحقیق تمہارے ذمہ کردی اور جس نے ارسال کیا اس نے تمہارے لئے ذمہ داری قبول کی)۔
ارسال کے مسئلہ میں اس اصولی اختلاف کی بناء پر محدثین کی اصطلاح کے مطابق وہ سیکڑوں حدیثیں ضعیف قرار پاتی ہیں جن میں ارسال پایا جاتا ہے جب کے ائمہ مجتہدین کے نزدیک وہ احادیث قابل استدلال اور حجت ہیں، امام شافعی ؒ ان تمام مراسیل کو مسترد کر دیتے ہیں جن میں مویدات اربعہ یاخمسہ میں سے کوئی ایک موید بھی نہیں پایا جاتا جب کہ دوسرے ائمہ ان سے استدلال کرتے ہیں، علامہ کوثریؒ لکھتے ہیں:
’’من ضعف الحدیث بالإرسال نبذ شطر السنۃ المعمول بھا‘‘(تانیب الخطیب للکوثری، ص: ۱۵۳،دارالسلام،مصر۲۰۲۰ء)۔
جس شخص نے ارسال کی بنیاد پر حدیث کو ضعیف قرار دیا اس نے معمول بہا سنت کا نصف ترک کر دیا۔
عدالت راوی کے بارے میں اختلاف:
صحت حدیث کی دوسری شرط عدالت راوی ہے اس شرط کی تفصیل و تحدید میں اختلاف کا وسیع میدان ہے، عدالت کا مفہوم کیا ہے، کیا عدالت کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ راوی مسلمان ہو اس کے بارے میں جرح ثابت نہ ہو، یا اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی عدالت ظاہرہ ثابت ہو جسے اصطلاح میں مستور کہتے ہیں، یا عدالت ظاہرہ کے ساتھ عدالت باطنہ کا ثبوت بھی ضروری ہے، اگر عدالت باطنہ ضروری ہے تو کیا ایک امام جرح و تعدیل کی تعدیل وتوثیق کافی ہے یادو ائمہ کی طرف سے تعدیل ضروری ہے،عدالت ہی کے مسئلہ سے یہ بحث بھی متعلق ہے کہ کون سے افکار و اعمال عدالت کو ختم کرنے والے ہیں کون سی جرح معتبر ہے کون غیر معتبر، اور فلاں راوی کے بارے میں جرح ثابت ہے کہ نہیں ہے، جرح و تعدیل کرنے والے بھی آخر انسان ہی تھے، انسانی نفسیات اور انسانی کمزوریوں سے پاک نہیں تھے کہیں راوی پر جرح کرنے کا محرک معاصرتی چشمک مسلکی یا نظریاتی اختلاف تو نہیں، یا جرح کی بنیاد نا واقفیت اور غلط اطلاعات تو نہیں ہیں، یا چونکہ انہوں نے خلق القرآن کی ابتلاء میں عام محدثین سے الگ روش اختیار کی اس لئے ان پر تنقید کی گئی، خصوصاً خلق قرآن کے مسئلہ کا فن اسماء الرجال اور جرح و تعدیل پر غیر معمولی اثر پڑا۔
جرح وتعدیل پر فتنہ خلق قرآن کے اثرات:
فتنہ خلق قرآن کی تفصیل کا نہ موقع ہے نہ ضرورت، ۲۱۸ھ سے لے کر ۲۳۲ھ تک اس فتنہ کی شدت رہی، خلق القرآن کے داعیوں نے حکومت وقت کو ہم نوابناکر شمشیر کی نوک پر تمام مسلمانوں خصوصاً فقہاء و محدثین ، ارباب علم کو اس کا قائل کرنا چاہا اور اس سلسلہ میں بے پناہ مظالم کئے، اکثر لوگوں نے جان و مال بچانے کے لئے رخصت کی راہ اپنا کر زبانی ہم نوائی کر دی لیکن ایک جماعت نے عزیمت کی راہ اپنائی جن کے سرخیل امام احمدؒ بن حنبل تھے، ان حضرات نے ہر طرح ظلم و ستم برداشت کئے لیکن اس بات کی اجازت نہ دی کہ اسلام کے عقائد اساسیہ میں ایک اور عقیدہ کا اضافہ کیا جائے، ۲۳۲ھ میں متوکل کے حکم سے یہ فتنہ فرو ہوا، ۲۳۴ھ میں قرآن کو مخلوق کہنے کی ممانعت کا فرمان جاری کر دیا گیا،اور حکومت وقت احمدؒ بن حنبل کے موقف کی مؤید بن گئی، معتزلہ کے اس عمل کا رد عمل بھی اسی شدت سے ہوا، غیر مخلوق کہنے والوں نے زور باندھا اور بعض نے اس حد تک غلو کیا کہ جس کاغذ پر قرآن لکھا گیا اسے بھی مخلوق قرار دینے لگے اور اتفاق نہ کرنے والوں کو مبتدع اور پایۂ اعتبار سے ساقط قرار دینے لگے، جس عالم، محدث، راوی نے بھی اس مسئلہ میں توقف کیا یا اعتدال کی بات کہی اسے متروک اور مبتدع قرار دے دیا گیا ، کبار محدثین تک اس کی زد میں آگئے، امام بخاری یحی بن معین ، علی ابن مدینی، یزید بن ہارون، زہیر بن حرب وغیرہ جلیل القدر ائمہ حدیث بھی اس خطرناک رد عمل سے نہیں بچ سکے، نیشاپور کے علماء وعوام نے محمد بن یحی ذہلی کی سربراہی میں امام ؒ بخاری کا بے مثال استقبال کیا، نیشا پور کے تمام فقہاء و محدثین ان کی مجلس درس میں شریک ہونے لگے، لیکن اللفظ بالقرآن سے متعلق سوال کے جواب میں جب امام بخاری ؒ نے فرمایا ’’أفعالنا مخلوقۃ وألفاظنا من أفعالنا‘‘ (ہمارے افعال مخلوق ہیں ہمارے الفاظ بھی ہمارے افعال میں سے ہیں) تو پورے نیشا پور میں تہلکہ مچ گیا جس کی گونج دور دور سنائی پڑی اس کے بعد نیشا پور میں امام بخاری کے ساتھ جو برتاؤ ہوا وہ تاریخ اسلام کے لئے ایک دھبہ ہے۔
محمد بن یحی الذہلی نے ان الفاظ میں امام بخاری کے بائکاٹ کا اعلان کیا، قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے جس کا خیال یہ ہو کہ میرا قرآن کو پڑھنا، تلفظ کرنا مخلوق ہے وہ بدعتی ہے نہ اس کے ساتھ ہم نشینی کی جائے نہ اس سے بات چیت کی جائے جو شخص اس کے بعد محمد بن اسمعیل بخاری کے پاس جائے اسے تم متہم سمجھو اس کی مجلس میں وہی حاضر ہوگا جو اس کے مسلک پر ہوگا۔
اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ مسلم بن الحجاج اور احمد بن سلمہ کے علاوہ سب تلامذہ نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، امام مسلم نے بھی بعد میں خدا جانے کن اسباب کی بناء پر اپنی الجامع الصحیح میں امام بخاری سے روایت نہیں کی، ذہلی کی مرویات پہلے ہی واپس کر چکے تھے، حافظ ابن حجرؒ نے ’’ہدی الساری لفتح الباری‘‘ میں امام مسلم کے اس طرز عمل کے بارے میں لکھا ہے:
’’قلت وقد أنصف مسلم فلم یحدث فی کتابہ عن ھذا،ولاعن ھذا‘‘ (ہدی الساری، ص: ۴۹۱،المکتبۃ السلفیۃ،مصر)۔
(میں کہتا ہوں کہ امام مسلم نے انصاف سے کام لیا انہوں نے اپنی کتاب میں نہ ذہلی سے روایت کی نہ بخاری سے)۔
غالباً یہ انصاف کی کوئی نئی قسم ہو۔
مسئلہ ذہلی اور ان کے تلامذہ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ محمد بن یحیی ذہلیؒ نے دوسرے محدثین تک ینشا پور کے واقعہ کی اطلاع بھیجی ابن ابی حاتم نے’’ الجرح والتعدیل‘‘ میں بخاری کے حالات کے ذیل میں لکھا ہے۔
ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری ۲۵۰ھ میں رے تشریف لائے ان سے میرے باپ ابو حاتم رازی اور ابوزرعہ رازی نے روایات سنیں پھر جب ان دونوں کے پاس محمد بن یحییٰ نیشاپوری نے لکھا کہ بخاری نے اہل ینشا پور کے سامنے ’’اللفظ بالقرآن مخلوق‘‘ کا نظر یہ ظاہر کیا تو ان دونوں حضرات نے بخاری سے روایت کرنا ترک کر دیا ( الجرح والتعدیل قسم ۲ج۳؍ ۱۹۱، الطبعۃا لاولی ۱۹۵۲ء)۔
’’اللفظ بالقرآن مخلوق‘‘ ہی کے مسئلہ کی وجہ سے عقیلی نے علی بن المدینی جیسے سرتاج محدثین کو کتاب الضعفاء میںذکر کر دیا، حافظ ذہبی کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور میزان الاعتدال میں ان کے نوک قلم سے ان جملوں کی تراوش ہوئی۔
’’أفمالک عقل یا عقیلی؟ أتدری فیمن تتکلم؟وإنما أشتھی أن تعرفنی من ھو الثقہ الثبت الذی ما غلط ولا انفرد بما لا یتابع علیہ‘‘ (میزان الاعتدال ج۳ ؍۱۴۰- ۱۴۱ دارالمعرفۃ بیروت)
(اے عقیلی کیا تیرے پاس عقل نہیں ہے، کیا تجھے معلوم ہے تو کس کے بارے میں کلام کر رہاہے، تم ذرا یہ بتاؤ کہ ایسا کون ثقہ مستند شخص ہے جس سے کبھی غلطی نہ ہوئی ہو اور جس کا ایسا تفرد نہ ہو جس کی متابعت نہ کی جاتی ہو)۔
امام احمد بن حنبل ؒ ہی کے تقریباً ہم رتبہ امام شافعیؒ کے مایہ ناز شاگرد حسین کرابیسیؒ ہیں ان کے حالات میں ابن عبدالبرؒ لکھتے ہیں:
حسین کرابیسی اور احمد بن حنبل ؒ کے درمیان گہری دوستی تھی جب خلق القرآن کے مسئلہ میں حسین کرابیسیؒ نے احمد بن حنبلؒ کی مخالفت کی تویہ دوستی عداوت میں تبدیل ہو گئی اس کے بعد دونوں ایک دوسرے پر طعن کرنے لگے، احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد حنابلہ نے حسین کرابیسی سے روایت کرنا ترک کر دیا انہیں بدعتی قرار دیا اور ان پر طعن کیا اسی طرح خلق قرآن کے مسئلہ میں جو لوگ بھی حسین کرابیسی کے مسلک پر تھے ان سب پر طعن کیا ( قواعد فی علوم الحدیث ، ص:۳۷۰۔۳۷۱، تحقیق عبدالفتاح ابوغدہ مکتب المطبوعات الاسلامیہ بیروت)۔
غرض یہ کہ بڑے بڑے جلیل القدر حفاظ و نقاد حدیث مسئلہ خلق قرآن کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکے، ان بڑوں کی طرف سے دفاع کرنے والے توگروہ محدثین میں مل گئے لیکن سیکڑوں رواۃ حدیث جو زیادہ ناموری اور مقبولیت کے مالک نہیں تھے اب بھی اسی طرح کی جرحوں کی وجہ سے ساقط الاعتبار قرار دئیے جاتے ہیں، جرح و تعدیل کی کتابیں اس طرح کی جرحوں سے معمور ملیں گی۔
’’فلان من الواقفۃ الملعونۃ‘‘ فلان من اللفظیۃ الضالۃ‘‘
’’لا یستشنی فی الإیمان مرجی ضال ’’کان لا یقول: الإیمان قول وفعل فترکناہ‘‘
ابن قتیبہ دینوری کا چشم کشا بیان:
ابن قتیبہ کی پیدائش ۲۱۳ھ اور وفات ۲۷۶ھ میں ہوئی، انہوں نے خلق قرآن کے فتنہ اور اس کے رد عمل کا پورا دور دیکھا انہوں نے اسی موضوع پر’’ الاختلاف فی اللفظ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس کا مطالعہ کرکے اس فتنہ اور اس کے رد عمل کی غیر معمولی شدت اور محدثین کی صفوں میں اس کے مہلک ترین اثرات کا اندازہ ہوتا ہے، موصوف اللفظ بالقرآن کے مسئلہ میں محدثین کے دونوں گروہوں اور راویوں کی شدت اور انتہاپسندی کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
طالب حقیقت جو یائے حق کو دونوں فریقوں کی طرف سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے دونوں فریق اس پر بیجا سختی سے کام لیتے ہیں، اس کی آزمائش کرتے ہیں، اپنے مخالف کے ساتھ انتہائی درشت رویہ اپناتے ہیں، اپنے مخالف کی تکفیر کرتے ہیں، اور مخالف کی تکفیر میں شک کرنے والے کی تکفیر کرتے ہیں، بسا اوقات کوئی شیخ شہر میں وارد ہوتا ہے اور حدیث کی روایت کے لئے بیٹھتا ہے وہ ادب وتمیز سے آراستہ نہیں ہے اس کی وجہ فضیلت صرف یہ ہے کہ اس کی عمر زیادہ ہے اور اس نے ابن عینیہ ، ابو معاویہ، یزید بن ہارون وغیرہ کبار محدثین سے احادیث سنی ہیں، اس شیخ سے احادیث لکھنے سے پہلے یہ لوگ خلق القرآن کے مسئلہ میں اس کی آزمائش کرتے ہیں، سوال کرنے والوں کو حسب منشاء جواب دینے سے قبل اگر غریب نے پس و پیش یا توقف کیا یا کھانسنے یا کھنکھارنے لگا تو اس کی شامت آجاتی، مجبوراً ان کے طعن و تشنیع اور ساقط الاعتبار قرار دئیے جانے کے خوف سے وہ بیچارہ ان کو خوش کرنے والا جواب دیتا لہذا علم کے بغیر کلام کرتا اور بغیر سمجھے جواب دیتا جس مجلس میں وہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی امید میں بیٹھا تھا اس میں اللہ تعالی سے اور دور ہو جاتا۔۔۔۔۔۔اوراگر کسی نو عمر طالب حقیقت یا ادھیڑ طالب علم کو دیکھتے اس کا نظر یہ خلق قرآن کے مسئلہ میں دریافت کرتے اگر اس بیچارے نے یہ کہہ دیا کہ ابھی کسی نتیجہ تک نہیں پہنچاہوں۔۔۔۔۔۔ تو اسے جھٹلاتے، ایذاء پہونچاتے اور کہتے: یہ خبیث ہے اسے ترک کر دو اور اس کے پاس نہ بیٹھو (الاختلاف فی اللفظ والرد علی الجہمیۃ والمشبھۃ ۔للامام ابی محمد عبداللہ بن مسلم قتیبہ الدینوری ۲۶ مکتبہ القدسی القاہرہ۱۳۴۹ھ)۔
چند اور اصولی اختلاف:
محدثین کی اصطلاح میں صحت حدیث کی تیسری شرط حدیث کے ہر راوی کا تام الضبط ہونا ہے۔ عام محدثین ضبط کی دونوں قسموں یعنی ضبط صدر اور ضبط کتاب کا اعتبار کرتے ہیں، لیکن امام ابو حنیفہؒ اس بارے میں ایک شدید شرط لگاتے ہیں کہ حدیث کے حجت ہونے لئے ضروری ہے کہ راوی نے تحمل( سننے) سے لے کر کرادأ( بیان) کے وقت تک اس حدیث کو یاد رکھا ہو، اس پوری مدت میں اسے حدیث کا نسیان پیش نہ آیا ہو (شرح مسند ابی حنیفہ لملاعلی قاریؒ،ص:۷ دارالکتب العلمۃ بیروت ۱۴۰۵ھ)۔یہ شرط لگا دینے کی وجہ سے بہت سی احادیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں دوسرے ائمہ و محدثین سے ان کا اختلاف لازمی ہے۔
اسی طرح صحت حدیث کی بقیہ شرطوں کے بارے میں بھی ائمہ اور محدثین میں اختلاف ہیں، بہت سی علل کو محدثین صحت حدیث میں قادح قرار دیتے ہیں حالانکہ فقہاء ان علل کو قادح تصور نہیں کرتے، اصول حدیث کی کتابوں میں مذکور صحت حدیث کی شرطوں سے قطع نظرائمہ احناف نے خبر واحد کے قابل استدلال ہونے کے لئے چند مزید شرطیں لگائی ہیں، مولانا ظفراحمد ؒ تھانوی نے ان پر تفصیلی کلام کرنے کے (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:۱۲۶، تحقیق عبدالفتاح ابوعذہ مکتب المطبوعات الاسلامیہ بیروت) بعد ان کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا ہے :
’’مذکورہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حدیث کی صحت کے لئے راوی کے عادل اور ضابط ہونے کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ صدراول میں اس سے اعراض نہ کیا گیا ہو نہ وہ حدیث صدر اول میں متروک العمل رہی ہو، نہ ہی وہ حدیث عموم بلوی والے مسئلے میں خبر شاذ ہو بلکہ وہ حدیث ظاہر اور مروج ہو، ہمارے حنفی اصولیوں نے ہمیں ان شرطوں کے بارے میں دلیل پیش کرنے سے بے نیاز کر دیا ہے کیوں کہ وہ لوگ اپنی کتابوں میں اس بحث سے فارغ ہو چکے ہیں‘‘۔
اوپر ذکر کردہ صحت حدیث کی پانچوںشرطیں حدیث مقبول کی چار قسموں میں سے صحیح لذاتہ میں ضروری ہیں حدیث مقبول کی باقی تین قسموں صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ، حسن لغیرہ کو جمہور محدثین بھی قابل استدلال اور حجت شرعی قرار دیتے ہیں اور فضائل اعمال کے علاوہ احکام شرعیہ میں بھی ان سے استدلال درست قرار دیتے ہیں، ہاں حدیث ضعیف کی حجیت کے بارے میں اختلاف ہے، جمہور علماء و فقہاء امت چند شرطوں کے ساتھ فضائل اعمال و مستحبات کا اثبات درست قرار دیتے ہیں، احکام شرعیہ یعنی حلال و حرام وغیرہ کے مسائل میں حدیث ضعیف کا قابل استدلال ہونا مختلف فیہ ہے، ائمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ ؒ ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ احادیث ضعیفہ سے احکام شرعیہ میں بھی استدلال کرتے ہیں ، اور قیاس جو ایک متفق علیہ مصدر تشریعی ہے اس پر حدیث ضعیف کو ترجیح دیتے ہیں، محدثین میں سے ابو داؤد نسائی، ابن ابی حاتم کا بھی یہی مسلک ہے، لیکن یہ لوگ حدیث ضعیف کے قابل استدلال ہونے کے لئے دو شرطیں لگاتے ہیں (۱) اس کا ضعف بہت شدید نہ ہو(۲) اس مسئلہ میں حدیث ضعیف کے سوا کسی کوئی اور حدیث نہ پائی جائے۔
احکام شریعت میں احادیث ضعیفہ ایک دوسرے طریقے سے بھی کام آتی ہیں،( اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاء،ص:۱۲۸،ا لطبقہ الثانیہ بحوالہ تحفۃ المودود لابن قیم والمجموع للنووی) اگر حدیث صحیح میں کوئی ایسا لفظ استعمال ہوا ہو جس کے دو یا چند معانی ہیں، اور سیاق و سباق سے کسی ایک معنی کی تعیین یا ترجیح ممکن نہیں ہے اور ایک حدیث ضعیف سے ایک معنی کی ترجیح ہوتی ہے تو اس معنی کو مراد لیا جائے گا جس کو حدیث ضعیف متعین کر رہی ہے، انہیں مختلف وجوہ کی بنا پر ہمارے فقہاء و محدثین کی نظر میں احادیث ضعیفہ کی بھی بڑی قدرت و قیمت رہی ہے، اس لئے دور حاضر میں جو لوگ دین کی خدمت کے عنوان سے احادیث ضعیفہ اور احادیث موضوعہ دونوں کو ایک ہی پلڑے میں تول کر سب کو ایک ساتھ دریا برد کرنا چاہتے ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں۔
ائمہ مجتہدین کے اختلافات کا دوسرابنیادی سبب فہم حدیث میں ان کا اختلاف ہے، بے شمار موقع پر ایسا ہوتا ہے کہ دو مجتہد ایک خبر واحد کی صحت و حجیت پر متفق ہوتے ہیں لیکن حدیث کا مفہوم متعین کرنے میں ان میں اختلاف ہوتا ہے، کتب حدیث وفقہ کے مطالعہ کے دوران ہم لوگوں کے سامنے اس کی بے شمار مثالیںآتی رہتی ہیں، اس لئے اس سبب پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
متعارض احادیث کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا جائے؟
متعارض احادیث کے باب میں کیا موقف اختیار کیا جائے، اس بارے میں بھی ائمہ کرام کا اختلاف بے شمار مسائل میں اختلاف کا سبب ہے، علامہ کشمیری لکھتے ہیں:
’’اعلم أن الحدیثین إذا کان بینھما تعارض فحکمہ عندنا أن یحمل أولا علی النسخ فیجعل أحدھما ناسخا والآخر منسوخا ثم ینزل إلی الترجیح فإن لم یظھر وجہ ترجیح أحدھما علی الآخر یصار إلی التطبیق فإن أمکن فبھا وإلا إلی التساقط، ھذا ھو الترتیب عندنا کما فی التحریر وعند الشافعیۃ یبدا أولا بالتطبیق ثم بالنسخ ثم بالترجیح ثم بالتساقط‘‘ (فیض الباری للعلامہ محمد انور الکشمیری ۱؍۵۲، ربانی بکڈپودہلی)۔
(دو حدیثوں میں تعارض کی صورت میں ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ پہلے اسے نسخ پر محمول کریںگے، ایک کو ناسخ دوسری حدیث کو منسوخ قرار دیا جائے گا، اگر اس کا امکان نہ ہو تو ترجیح کا راستہ اختیار کیا جائے گا، اگر کسی ایک کے لئے بھی وجہ ترجیح نہ ہو تو تطبیق کی کوشش کی جائے گی، اگر تطبیق ممکن نہ ہوئی تو دونوں کو ساقط قرار دیا جائے گا، ہمارے نزدیک یہی ترتیب ہے جیسا کہ صاحب التحریر نے لکھا ہے شافعیہ کے نزدیک ترتیب یہ ہے (۱) تطبیق (۲) نسخ (۳) ترجیح (۴) تساقط)۔
احادیث میں ناسخ و منسوخ کی معرفت بڑاضروری اور مشکل فن ہے، حازمی نے ’’الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار‘‘ میں سند کے ساتھ زہری کا یہ قول نقل کیا ہے،
’’أعیی الفقھاء وأعجزھم أن یعرفوا ناسخ حدیث رسول اللہ ﷺ من منسوخہ‘‘ ( الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار ۳-۲ الطبعۃ الاولی)۔
احادیث رسول میں ناسخ و منسوخ کی تمیز نے فقہاء کو عاجز و درماندہ کر دیا ہے، حازمی ہی نے یہ روایت نقل کی ہے۔
’’مرّ عليٌ علی قاص فقال تعرف الناسخ من المنسوخ، قال: لا، قال: ھلکت وأھلکت‘‘ (حوالہ بالا ۴) ۔
(حضرت علی ؓ کا ایک واعظ کے پاس سے گزر ہوا، تو آپ نے واعظ سے پوچھا، تم ناسخ و منسوخ میں تمیز کر لیتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: تم خود بھی ہلاک ہوئے دوسروں کوبھی ہلاک کیا)۔
ترجیح کے اسباب:
بعض احادیث کو بعض پر ترجیح دینے کا عمل مختلف ائمہ کے یہاں مختلف اصولوں پر مبنی ہے۔ امام شافعیؒ عموماً اصح اسناد کو اختیار کرتے ہیں، امام مالکؒ کے نزدیک سب سے بڑا مرجح عمل اہل مدینہ اور فقہاء سعبہ کا مسلک ہے، امام ابو حنیفہؒ قرآن و حدیث و سنت مشہورہ سے مستنبط دینی اصول اور صحابہ کرام خصوصاً خلفاء راشدین کے فتوی وعمل سے مطابقت کو زبردست مرجح تصور کرتے ہیں، علماء امت نے ایک حدیث کی دوسری حدیث پر ترجیح کے بہت سے اسباب لکھے ہیں، ابوبکر محمد بن موسی حازمی نے الاعتبار میں ترجیح کے پچاس اسباب ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’وثم وجوہ کثیرۃ أضربنا عن ذکرھا کیلا یطول بہ ھذا المختصر‘‘ (کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار للحافظ ابی بکر محمد بن موسی الحازمی،۱۲۳، الطبعۃ الاولی ۱۳۴۶ھ)۔
حافظ عراتی نے ’’ التقیید والایضاح‘‘ میں حازمی کے ذکرکردہ وجوہ کو نقل کرنے کے بعد مزید وجوہ ترجیح تحریر فرمائے اور ان کی تعداد ایک سو دس تک پہنچانے کے بعد لکھا ’’ثم وجوہ أخری للترجیح وفی بعضھا نظر‘‘ (التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للعراتی ،ص:۲۵۰، دارالحدیث للطباعۃ والنشروالتوزیع بیروت) ۔
حافظ عراقی نے لکھا:
’’کون الحدیث المروی فی الصحیحین راجحا علی حدیث آخر غیر مروی فیھما‘‘ (حوالہ بالا۲۵۰)صحیحین میں روایت کردہ حدیث کا غیر صحیحین کی روایت پرترجیح حاصل ہونا۔
ذرا غور کیجئے کہ حدیث کا صحیحین میں ہونا سو سے زائد اسباب میں سے محض ایک سبب ہے، جس کا حازمی نے تو ذکر نہیں کیا اور عراقی نے بھی اسے ۱۰۲ نمبر پر ذکر کیا ، لیکن اس دور کے بعض مدعیان علم و تحقیق سارے اسباب سے غافل ہو کر صرف اسی ایک سبب کو لے کر بے محاباراحج و مرجوح کا فیصلہ کرتے رہتے ہیں، یہ طرز کہاں تک تحقیق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
اختلاف ائمہ کا چوتھا سبب:
اختلاف ائمہ کا چوتھا سبب فن حدیث میں ان کی وسعت نظر اور ذخیرہ روایات کا تفاوت ہے، کسی بڑے سے بڑے امام یا محدث کے بارے میں یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے پورے ذخیرہ احادیث کا مکمل احاطہ کر لیا تھا اور کوئی حدیث اس کے دائرہ مرویات سے باہر نہیں تھی، سیدنا الامام الشافعیؒ الرسالۃ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’لا نعلم رجلا جمع السنن فلم یذھب منھا علیہ شئی، فإذا جمع علم عامۃ أھل العلم بھا أتی علی السنن، وإذا فرق علم کل واحد منھم: ذھب علیہ الشییٔ منھا، ثم کان ماذھب علیہ منھا موجودا عند غیرہ وھم فی العلم طبقات: منھم الجامع لأکثرہ وإن ذھب علیہ بعضہ ومنھم الجامع لأقل مما جمع غیرہ‘‘ ( الرسالۃ الامام الشافعی ۴۲- ۴۳ شرح و تحقیق احمد محمد شاکر)۔
( ہم کسی ایسے شخص کونہیں جانتے جس نے تمام احادیث کو اس طرح جمع کر لیا ہو کہ کوئی حدیث اس کے دائرہ علم سے باہر نہ ہو، جب حدیث کے جاننے والوں کا علم جمع کیا جائے گا تو تمام حدیثیں اس مجموعہ میں آجائیںگی، اور جب ہر ایک کا علم الگ کر دیا جائے گاتو ہر ایک کے ذخیرہ میں کچھ نہ کچھ حدیثوں کی کمی رہ جائیگی، پھر جو حدیثیں ایک محدث کے ذخیرۂ روایات میں نہیں وہ (اسی طبقہ کے) کسی دوسرے محدث کے یہاں ضرور مل جائیں گی، محدثین اپنے علم کے اعتبار سے کئی طبقات پر ہیں، کچھ وہ ہیں جو اکثر احادیث کے جامع ہیں، کچھ ہی حدیثیں ان کے دائرہ علم سے باہر ہیں، کچھ وہ ہیں جن کا ذخیرۂ روایات پہلے سے کم ہے)
غرض یہ کہ کسی بڑے سے بڑے امام کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ انہیں ہر ہر حدیث کی اطلاع تھی اور تمام احادیث صحیحہ صحیح سندوں کے ساتھ ان تک پہونچ گئی تھیں بالکل خلاف واقعہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ائمہ متبوعین پر قلت حدیث کا الزام عائد کیا جائے اور جہاں بھی ہم کوئی حدیث ایسی دیکھیں جس کے خلاف کسی امام کا مسلک ہو تو تحقیق کی زحمت کئے بغیریہ فیصلہ صادر کریںکہ اس امام کو اس حدیث کا علم نہیں تھا، واقعہ یہ ہے کہ ائمہ متبوعین کی ذخیرہ حدیث پر بڑی وسیع و عمیق نظر تھی، خصوصاً احادیث احکام پر اور ان حضرات نے تقریباً احادیث احکام کے پورے ذخیرہ کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنے اور اجتہاد و استنباط میں اس سے کام لینے کی انتہائی کامیاب کوشش کی، امام ابو حنیفہؒ جن کے بارے میں قلت حدیث کا الزام بار بار دہرایا جاتا ہے ان کے حالات میں شیخ عبدالقادر قرشی نے لکھا ہے:
’’عن محمد بن سماعۃ أن أباحنیفۃ رحمہ اللہ ذکر فی تصانیفہ نیفا وسبعین ألف حدیث‘‘ (الجواہر المضئیۃ للشیخ عبدالقادر القرشی۲ ؍۴۷۴)۔
محمد بن سماعہ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث ذکر کی ہیں۔
علامہ صالحی شافعیؒ نے’’ عقود الجمان‘‘ میں ابن حجر مکیؒ نے’’ الخیرات الحسان‘‘ میں زرنجری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امام محمدؒ کے تلمیذ امام ابو حفض کبیر کے حکم سے امام ابو حنیفہ ؒ کے مشائخ کا شمار کیا گیا تو چار ہزار تابعین تک ان کی تعداد پہونچی ، صالحی نے کتاب کے ۳۲ صفحات میں (۴۶؍۷۸) امام صاحب کے بعض مشائخ کا نام لکھا ہے (عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ النعمان لمحمد بن یوسف الصالحی الدمشقی ۶۴؍۷۸)۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ائمہ متبوعین کے لئے احادیث کا جمع کرنا اور اسے پرکھنا بعد والوں کے مقابلہ میںزیادہ آسان تھا، کیوں کہ ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان واسطے بہت کم تھے مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے شیوخ تابعین تھے اس لئے ان کے اور نبی اکرم ﷺ( فداہ ابی ؤامی) کے درمیان صرف دو یا تین واسطے پڑتے ہیں، صحابہ کرام توسب عدول ہی ہیں، تابعین میں بھی خیر ہی غالب تھا، تابعین میں ایسے راوی بہت کم ملیں گے جن پر کذب وغیرہ کی جرح ہو، تابعین کے بارے میں جرحیں عموماً سوء حفظ یا اختلاط وغیرہ کی ہوتی ہیں، امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ کے مقابلہ میں امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ وغیرہ کے لئے احادیث کا یاد کرنا اور اسے پرکھنا زیادہ آسان تھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بڑی پتہ کی بات لکھی ہے:
’’بل الذین کانوا قبل جمع ھذہ الدواوین کانوا أعلم بالسنۃ من المتأخرین بکثیر لأن کثیرا مما بلغھم وصح عندھم، قد لا یبلغنا إلا عن مجھول، أو بإسناد منقطع أولا یبلغنا بالکلیۃ فکانت دواوینھم صدورھم التی تحوی أضعاف ما فی الدواوین، وھذا أمر لا یشک فیہ من علم القضیۃ‘‘ ( رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ،ص:۲۴۔۲۵)۔
(بلکہ جو لوگ کتب حدیث کی تدوین سے قبل تھے وہ متاخرین کے مقابلے میں حدیث سے بہت زیادہ باخبر تھے کیوں کہ بہت سی وہ حدیثیں جو ان تک صحیح سند کے ساتھ پہونچیں ہم تک کسی مجہول راوی کے واسطہ سے پہنچتی ہیں یا منقطع سند کے ساتھ پہونچتی ہیں یا سرے سے پہنچتی ہی نہیں ہیں، ان کی کتابیں ان کے وہی سینے تھے جو کتب حدیث کی روایات کے مقابلے میں کئی گناروایات محفوظ کئے ہوئے تھے، یہ ایسا معاملہ ہے جس میں کوئی با خبر آدمی شک نہیں کرسکتا) ۔
پھر بھی ایسی مثالیں ملیں گی کہ امام کو ایک مسئلہ میں حدیث نہیں پہونچی اور انہوں نے قیاس سے حکم شرعی کا استنباط کیا، جب ان تک وہ حدیث پہنچی تو انہوں نے رجوع کر لیا اور حدیث کے مطابق فتوی دیا، یا امام کو آخرزندگی تک وہ حدیث نہیں پہونچی تو ان کے تلامذہ اور مدونین مذہب نے امام کے قول کو ترک کر کے حدیث کو اختیار کیا، فقہ حنفی میں اس کی متعدد مثالیں ملیں گی، مثلاً امام صاحب کا مسلک تھا کہ وقف صرف دو صورتوں میں لازم ہو جاتا ہے (۱) وصیت کے طور پر وقف کیا ہو(۲) قاضی نے لزوم وقف کا فیصلہ کر دیا ہو، عام حالات میں امام صاحب کے نزدیک وقف لازم نہیں ہوتا بلکہ واقف اس سے رجوع کر سکتا ہے،امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ بھی اس قول پر تھے لیکن امام صاحب کی وفات کے بعد امام ابو یوسف بغداد تشریف لائے وقف کے لازم ہونے کے بارے میں ان کے سامنے ایک حدیث پیش کی گئی تو انہوں نے فوراً رجوع کر لیا اور فرمایا:
’’ھذا مما لا یسع خلافہ ولو تناھی ھذا إلی أبی حنیفۃ لقال بہ ولما خالفہ‘‘ (النکت الطریفۃ،ص:۴۰۔۴۱، للکوثری الطبعۃ الاولی ۱۳۶۵ھ)۔
(یہ ایسی ( صحیح و صریح) حدیث ہے جس کے خلاف جانا ممکن نہیں، اگر یہ روایت امام ابوحنیفہ تک پہنچتی تو وہ بھی اسی کو اختیار کر لیتے اور اس کے خلاف نہ جاتے۔)
اس مسئلہ میں صاحبین ہی کے قول پر فتوی ہے، حدیث نہ پہنچنے کی وجہ سے بعض مسائل میں جو غلطی ائمہ کرام سے ہوئی ان کی شاگردوں اوراس مسلک کے فقہاء محدثین نے ان پر استدراک کیا اور اس کی تلافی کی۔
حاصل بحث:
حاصل بحث یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین کے اختلافات دین کے غیر اساسی حصہ میں ہیں، یہ اختلافات امت میں فرقہ بندی کا باعث نہیں بلکہ امت کے لئے سراسر رحمت ہیں، ان اختلافات کی بنا پر امت کو کشادگی اور سہولت حاصل ہوئی، سارے ائمہ مجتہدین حدیث نبوی کی حجیت پر متفق ہیں اور اسے کتاب اللہ کے بعد دوسرا ماخذ تشریع تسلیم کرتے ہیں، ان کے اختلافات پر فن حدیث کے غیر معمولی اثرات پڑے، احادیث کی تصحیح وتضعیف کے سلسلے میں ان کے اصولی اختلافات، فہم حدیث میں ان کا تفاوت، جرح و تعدیل کے سلسلے میں ان کے مختلف نقطہ ہائے نظر، ذخیرۂ احادیث پر اطلاع کے سلسلے میں ان کا تفاوت یہ تمام اموران اختلافات پر اثر انداز ہوئے۔ کسی امام کے بارے میں یہ بات سوچی بھی نہیں جا سکتی کہ انہوں نے کسی حدیث کو صحیح اور قابل عمل سمجھنے کے باوجود اس کی مخالفت کی، جو لوگ ایسی بدگمانی کرتے ہیں وہ اپنی بے خبری یا بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔