اداریہ
December 26, 2024فقہاء کے اختلاف میں علم حدیث کے اثرات
December 26, 2024
شریعت کے مقاصد اور مصالح
حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی ؒ
(سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
فقہی اختلاف کیوں؟
فقہ اسلامی کے سلسلہ میں سبھی یہ جانتے ہیں کہ وہ مختلف مذاہب پر مشتمل ہے جس کے مابین اختلافات ہیں، ایسا کیوں ہے، شریعت اسلامی جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اللہ رب العزت کی دی ہوئی ہے، جس نے انسان کو پیدا کیا ، انسان کی خصوصیات اس نے متعین فرمائی، انسان کی ضروریات بھی اس کی متعین کی ہوئی ہیں، تو وہ جانتا ہے کہ انسان کی کیا ضروریات ہیں ، اور اس کی طاقت اور صلاحیت کتنی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے جو شریعت انسان کو عطا فرمائی اس میں انسان کی ضروریات و خصوصیات کی رعایت رکھی ، اس لئے کہ وہ دین فطرت ہے، دین فطرت کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے تقاضوں کی اور فطرت کی جو دشواریاں ہیں ان کی رعایت کی گئی ہیں ، ورنہ وہ دین فطرت نہیں ہو سکتا، تو شریعت جو اللہ تعالی نے مقرر فرمائی اور وہ قیامت تک کے لئے ہے، اور وہ حضور اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہے، اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں ، آپ کی شریعت آخری شریعت ہے، جو قیامت تک چلے گی ، تو اس شریعت میں اختلاف کیسے، اور اگر اختلاف ہے تو اس میں کوئی مصلحت ہوگی ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت ہے، اس میں عیب نہیں ہو سکتا، یہ اختلاف کیوں ہے؟
در اصل یہ اختلاف حقیقت میں فطرت کے مطابق ہے، اس لئے کہ انسان مزاجوں کے اعتبار سے، اپنے مقام کے اعتبار سے اور اپنے دیگر حالات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے فرق رکھتا ہے، انسان کی خصوصیات میں فرق ہوتا ہے، اس کے مزاج میں، اس کی برداشت میں فرق ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا، سمجھئے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک انعام ہے کہ اس نے جو شریعت ہم کو دی ہے اس میں انسانوں کے حالات وضروریات کے لحاظ سے گنجائش رکھی ہے، آپ دیکھئے کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں ، ان کو اس میں اختیار حاصل تھا کہ اس حکم پر جس طرح عمل کرنا ان کے لئے آسان تھا کر لیتے لیکن انہوں نے بار بار سوال سے اپنے عمل کا دائرہ تنگ کر لیا، یہ گائے کیسی ہو ، رنگ کیسا ہو، وہ جتنا پوچھ سکتے تھے پوچھتے چلے گئے، ان کے پوچھنے پر اللہ تعالی نے دیکھا کہ وہ اپنے اوپر پابندی بڑھانا چاہ رہے ہیں، لہذا پابندیاں بڑھا دیں کہ اس طرح کرو، اس طرح کرو، پھر وہ دشواری میں پڑ گئے ، ان کووہ گائے تلاش کرنا ایک بڑی مصیبت کا باعث بن گیا، بڑی مشکل سے وہ گائے ملی ، اسی لئے شریعت میں کہا گیا ـ:لا تسئلوا عن أشياء إن تبدلکم تسؤکم اس لئے یہ ہدایت دی گئی کہ تم کو جو بتا دیا گیا ہے، اس سے تم اخذ کر لو، پوچھ پوچھ کر تم اپنے کو تنگی میں مبتلا مت کرو تو میں یہ سمجھتا ہوں، آسانی پیدا کرنے کے لئے اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ،اور وہ اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گنجائش کو قائم رکھا، چنانچہ مختلف معاملات میں یہ جو مختلف آراء قائم ہوئی ہیں، مختلف مذاہب بنے ہیں، یہ انسانی ضرورت اور انسانی دشواریوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
مختلف مسالک میں علاقوں کی مناسبت
میں نے اپنے بعض مضامین میں اس سلسلہ میں عرض کیا کہ آپ دیکھئے جو مذاہب دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہیں، تو وہ مذاہب ( مذاہب سے مراد فقہی مذاہب ہیں) آپ دیکھئے کہ ان میں اپنے اپنے علاقوں سے مناسبت ہے، یہ خاص بات ہے ، مثلا پانی ہی کو لے لیجئے ، جن علاقوں میں پانی کی بہتات ہے، وہاں عام طور سے آپ کو فقہ حنفی کے ماننے والے ملیں گے، اور جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں آپ کو فقہ مالکی کے ماننے والے ملیں گے، اور دونوں میں آپ دیکھئے کہ پانی کے سلسلہ میں دونوں کے مسلک الگ الگ کیا ہیں، اگر ہم اپنے علاقہ کے لحاظ سے فقہ مالکی کودیکھیں تو فقہ مالکی کا وہ مسلک عجیب سا معلوم ہوگا، وہاں پانی کے معاملہ میں بڑا توسع ہے، جو لوگ مغرب میں گئے ہوں گے، الجزائر یا مراکش تو معلوم ہوگا کہ ان علاقوں میں پانی کے حصول میں کمی ہے۔
فقہ مالکی میں طہارت سے متعلق مسائل کے مصالح
میں اپنا واقعہ بتاتا ہوں کہ میں الجزائر گیا ہوا تھا، انہوں نے ایک شہر میں فنکشن رکھا تھا، عصر کے وقت میں وہاں پر گیا۔ میں نے نماز نہیں پڑھی تھی اور استنجاء کی بھی ضرورت تھی ، میں نے کہا: مجھے وضو کرنا ہے، تو وہ مجھے ایک جگہ لے گئے ، استنجاء خانہ میں نل لگا ہوا تھا اور اس کے نیچے بالٹی رکھی ہوئی تھی ، اور کچھ نہیں تھا، بالٹی میں پانی بھرا تھا، اب ایک تو یہ کہ بالکل استنجاء خانہ کے سامنے پانی سے بھری بالٹی رکھی ہوئی تھی، اور ہم لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں چھینٹیں بھی جاسکتی ہیں، پھر پانی نکالنے کی کوئی چیز نہیں تھی ، کوئی مگ، یا کوئی گلاس نہیں تھا، تو مجھے یاد آیا کہ حدیث شریف میں آتا ہے: پانی کو الچ الچ کر آپ ﷺ نے وضو فرمایا، پہلے اس کو ٹیڑھا کر کے اپنا دایاں ہاتھ دھولیا ، اور پھر اسی سے الچ الچ کر پانی کو استعمال کر لیا، مجھے خیال آیا کہ ان کے یہاں اسی پر عمل ہوتا ہے، میں نے اس پر عمل کیا اور عمل ہو گیا، وہاں سے نکل کر باہر آیا اور کہا کہ مجھے وضو کرنا ہے تو ایک بالٹی بھر کر انہوں نے رکھ دی، کوئی مگ نہیں ، کوئی اور دوسری چیز نہیں، تو میں نے سوچا کہ اس پر عمل کرنا پڑے گا، چنانچہ میں نے وہی کیا کہ پہلے ہاتھ کو دھویا ٹیڑھا کر کے اور پھر وضو کیا، یہ تو میرے ساتھ پیش آیا لیکن ان کی زندگی میں یہ چیز داخل ہے، اس طرح پانی کم بھی صرف ہوتا ہوگا۔
ایک سفر میں حضرت مولانا ( سید ابوالحسن علی ندوی ) کے ساتھ گیا، مولانا کو طہارت وغیرہ کا بڑا لحاظ ہوتا تھا، مولانا نے کہا کہ یہاں غسل خانہ میں کوئی چیز نہیں ہے، کیسے پانی استعمال کریں، کہیں سے لوٹا لایا جائے یا کوئی اور چیز ، تو میزبان بہت پریشان ہوئے ، کہاں سے لائیں ، آخر بڑی مشکل سے ایک بڑی سی چائے دانی لاکر دی ، وہ رکھی گئی اور اس سے لوٹے کا کام لیا گیا، تو یوں کہنے کو تو میں اور آپ ان پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن نہیں ، آپ دیکھئے ان کو کہ انہوں نے حدیث شریف سے اس کا استنباط کیا اور وہ استنباط صحیح ہے، کہ حضرت محمد جب تھوڑے پانی میں کام چلا لیتے ہیں، غسل فرما لیتے ہیں تو ہم کون بڑے پاک صاف آدمی ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے لیکن ہم نہیں کرتے ، بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے ، ایک لگن میں پانی رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ تم غسل کر لوتو اس کا منھ دیکھنے لگیں گے جو یہ کہے گا، لیکن حدیث شریف میں آتا ہے، اور آپ ﷺ ہی نہیں، بلکہ حضرت عائشہ بھی غسل کر لیتی تھیں، تو آپ دیکھئے ہمارے یہاں پانی کی بہتات ہے، آسانی ہے، لہذا طہارت کے معاملہ میں غلو پیدا ہو گیا، اور وہ مسلک ہم کو زیادہ موافق معلوم ہوا، جس میں پانی کے استعمال میں طہارت کی زیادتی اختیار کی گئی ، لیکن ان کو پانی کے حصول میں وہاں دشواری ہوئی تو ان لوگوں کو وہ مسلک زیادہ موافق معلوم ہوا، جس میں پانی کی طہارت میں زیادہ توسیع ہوا۔
مذاہب کے درمیان اختلاف رحمت ہے
لہذا یہ جو مذاہب کے درمیان اختلاف ہے در حقیقت یہ رحمت ہے، ورنہ اگر ہر معاملہ میں کوئی ایک پہلو متعین یا کوئی ایک چیزسب کے لئے لازمی قراردے دی گئی ہوتی تو کیا ہوتا آپ سوچئے ، آدمی کر تو لیتا، لیکن مشکل پیش آتی ، اسی طرح آپ دیکھئے کہ فقہ شافعی ہے، زیادہ تر ساحلی علاقہ میں اس مسلک کو رائج دیکھیں گے، جہاں سمندر کی چیزیں استعمال کرنے کی آسانی ہے، اور فقہ شافعی میں سمندر کی چیزوں کے استعمال میں توسع ہے، جو فقہ حنفی میں نہیں ہے، اگر یہ مسلک وہاں نافذ کر دیا جائے اور ان کا مسلک ہمارے یہاں نافذ کر دیا جائے تو عجیب سا معاملہ ہوتا ، آسانی کم ہوتی اور “الدین یسر” کے مطابق نہ ہوتا اور یہ مسلک بنے کیسے! اگر گنجائش نہ ہوتی تو یہ نہیں بن سکتے تھے ، حقیقت یہ ہے کہ سہولت اللہ تعالی کی طرف سے اس کے رسول ﷺ کے ذریعہ سے دی گئی ہے، دراصل اللہ تعالی کی طرف سے یہ گنجائش دی گئی ہے اور جو منع کیا گیا ہے کہ “لا تسئلوا عن أشياء إن تبدلکم تسؤکم میں اس سے بھی اشارہ ملتا ہے، پوچھ کر آپ اپنے لئے تنگی کیوں پیدا کریں، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو مخفی رکھا ہے جس چیز کو چھوڑ دیا ہے ہماری سمجھ پر، اس کو متعین کر کے اپنے لئے دشواری کیوں پیدا کریں، ہم اس سے فائدہ اٹھائیں ، اس لئے شریعت میں بہت سی چیزیں انسان کی سمجھ پر چھوڑی گئی ہیں، اور بہت سی چیزوں کے متعلق واضح حکم ہے، صراحت کے ساتھ حکم ہے، اور بہت سی چیزوں کو انسان کی سمجھ پر چھوڑا گیا ہے، اور وہ چیزیں وہ ہیں جو انسان کی سمجھ کے اس دائرہ میں آتی ہیں جو شریعت سے ٹکراتی نہیں ہیں، کہ جو ایسے احکام ہیں ان احکام کی فضا میں، ان کی روشنی میں انسان کی سمجھ اس طرف جائے گی جس کو شریعت چاہتی ہے۔
شریعت میں انسانی مصالح کی رعایت
جہاں تک مقاصد کا مسئلہ ہے، تو آدمی مقاصد سے واقف ہے تو غلط راہ پر جاہی نہیں سکتا، مقصد خود متعین کر دے گا کہ آپ اس راہ پر چلیے ، اس راہ سے آپ ہٹ نہیں سکتے ، مجبور ہیں ، اس تناظر میں یہ سیمینار بہت اہمیت رکھتا ہے، جب تک ہم مقاصد شریعت سے واقف نہیں ہوں گے، ہم شریعت کا پوری طرح تعین نہیں کر سکتے ، ہم غلطی میں مبتلا ہو جائیں گے ، ہمارے پاس جو نصوص ہیں اگر ان نصوص کے صرف ظاہر کو ہم دیکھ کر اور اسی کے دائرہ میں رہ کر فیصلہ کریں گے تو مختلف ایسے پہلو ملیں گے جہاں ہمیں دشواری ہو جائے گی ، وہاں وہ نصوص منطبق ہوتے نہیں معلوم ہوں گے، اب مثلاً آپ دیکھئے مسلکوں میں فرق ہے، رفع یدین کا ، آمین بالجہر کا ، اور سب حدیث شریف سے ہی اخذ کرتے ہیں، چاروں مسلک حدیث شریف سے ہی اخذ کرتے ہیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضور ﷺ کا حکم ہو اور واضح نہ ہو، ایسا نہیں ہو سکتا مصلحت بعض احکام میں گنجائش کی ہوتی ہوگی ، جب دونوں چیزیں حضور پاک ﷺ کی حیات طیبہ میں ملتی ہوں تو مسئلہ اس کی تطبیق کا ہے، اس کی تطبیق کیسے کی جائے، یہ انسان کی دینی فہم پر چھوڑا گیا ہے، انسان کی ایک دینی فہم ہے، ایک دنیاوی فہم ہے، انسان اپنی ضرورت کے لحاظ سے، اپنی مصلحت کے لحاظ سے اپنا ذہن چلاتا ہے، اور دین کے معاملہ میں دین کو سامنے رکھ کر ، دین کے مقاصد و مصالح کو سامنے رکھ کر اور دین کے مزاج کو سامنے رکھ کر اس کا ذہن چلتا ہے، آپ دینی ذہن اختیار کریں تو وہ آپ کو اسی راہ پر لے چلے گا جو صحیح راہ ہے، تو یہ جو اختلاف ہے اگر مقاصد متعین ہیں تو یہ اختلاف انسان کے لئے نعمت کا باعث ہے، اور اس میں ایک مسلک حق کے لوگ دوسرے مسلک حق کے لوگوں کو روک نہیں سکتے ، اس لئے کہ وہ مسلک اس کے ماننے والوں کی دینی سمجھ کے لحاظ سے شریعت کے مقصد کے زیادہ مطابق اور حالات کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہوسکتاہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اس کے اندر گنجائش رکھی گئی ہے اس گنجائش کے مطابق وہ اختلاف بے مقصد نہیں، کیوں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دین جو قیامت تک کے لئے آیا ہےاور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے، اس کے اندر خلل ہو، خلل ہو ہی نہیں سکتا، جو ہمیں خلل نظر آرہا ہے، وہ گنجائش ہے جس کو ہماری مصلحت سے رکھا گیا ہے، اس میں اختلاف کا جو موقع رکھا گیا ہے وہ اس لئے کہ اس موقع سے ہم فائدہ اٹھا سکیں ، ہمارے حالات بدل سکتے ہیں ، ہماری ضروریات بدل سکتی ہیں، ماحول کے ساتھ اور زمانہ کے ساتھ ہماری ضروریات بدل جاتی ہیں، اور آپ دیکھئے بعض چیزوں کی صراحت آئی ہے، مثلاً مرض میں وضو اور طہارت کا حکم بدل جاتا ہے، اسی طرح سفر میں قصر کی اجازت مل جاتی ہے، یہ تو ایسا ہے کہ اس کا حکم واضح طریقہ سے آگیا، لیکن یہ فرق کیوں ہے، اس لئے کہ مسافر کو دشواری ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دشواری کا حل بتادیا، اور اسی طرح مریض کے لئے پانی کا استعمال مرض کو بڑھا دیتا ہے، اس لئے اللہ تعالی نے اس کے لئے سہولت رکھ دی ، اور اسی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ دے دیا کہ دیکھو اللہ تعالی تمہاری راحت ، تمہاری استطاعت کا لحاظ رکھتا ہے، اور اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ مذہب فطرت کے مطابق ہے، اس میں رعایت رکھی گئی ہے، انسان کی مشکلات کی، انسانوں کی ضروریات کی رعایت رکھی گئی ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ رعایت رکھی ہے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جو فرق ہے سمجھنے کا اس میں اس رعایت کی وجہ سے ہے، اور اللہ تعالی کی طرف سے خود اس بات کی اجازت ہے کہ جو چیز ہمارے لئے زیادہ موافق ہے اور شریعت میں اس کی گنجائش ہے، اس میں ہمیں نص مل رہا ہے، تو ہم اس سے فائدہ اٹھائیں ، تو ان سب چیزوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام وہ دین ہے جس میں انسان کی ساری ضروریات اور اس کی مشکلات کا حل رکھا گیا ہے اور یہ کہ یہ مشکلات اور یہ ضروریات صرف ایک ہی زمانہ کیلئے نہیں ہے، بلکہ قیامت تک کیلئے ہے۔
نصوص میں وسعت اور تنوع
آپ دیکھئے کہ جب اسلام آیا تو اسلام سب سے پہلے عربوں کے پاس آیا جو جاہل قوم تھی ، جہالت تھی ان میں ، نہ وہ علوم سے واقف تھے ، نہ ان میں تمدن تھا ، دیہاتی زندگی ان کی تھی لیکن اللہ تعالی نے جو دین عطا فرمایا، جو احکام عطا فرمائے اس حالت میں کہ وہ امی تھے ، لیکن احکام کے اندر اتنی گنجائش تھی کہ تمدن آنے پر تمدن کی ضرورت پوری کی ، تمدن کی ضرورت اس نے کیسے پوری کی ، وہ انسان کی دینی فہم کے ذریعہ سے، عہد عباسی میں جب تمدن پوری طرح چھا گیا وہ تمدن کہاں سے آیا ؟ اس کے کچھ حصے تو ایران سے آئے، کچھ حصے یونان سے آئے ، یونان، ایران، ہندوستان ، قرب و جوار کے جو متمدن علاقے تھے، کچھ چیزیں وہاں سے آئیں، تو عربوں کا جو تمدن بنا وہ ان ساری چیزوں کے استفادہ سے بنا، اور خود عربوں کا جو مزاج تھا اس نے مدد کی، یہ دین کے احکام جو مسلمانوں کو دیے گئے تھے امی ہونے کے زمانہ میں دیے گئے تھے، وہ عہد عباسی میں آکر ایسا وسیع اور ایسا جامع دین کی حیثیت سے سامنے آیا کہ وہ دین انسان کے تمدن کی ساری ضرورتوں کو بخوبی پورا کر سکا اور برابر پورا کرتا رہا۔ ان کی سیاست کی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا، ان کی مالیات کی ضروریات کو پورا کرتا تھا لیکن یہ کیسے ہو سکا، یہ ان علماء کی محنتوں سے ہوا، جنہوں نے اپنے دینی فہم کو استعمال کیا۔
عباسی دور میں فقہاء کے اجتہادات
امام ابو یوسف کا زمانہ جو ہے وہ انتہائی تمدن کا زمانہ ہے اور تمدن کے مسائل اتنے پیچیدہ اور متنوع ہوتے ہیں کہ وہ ایک امی کے بس کے نہیں ہوتے لیکن ان حضرات نے ان علمائے کرام نے ، ان مجتہدین نے دین کی اس طرح تشریح کی ، اس طرح استنباط کیا کہ زندگی کی ساری ضرورت اس سے پوری ہوتی تھی ، اور انہوں نے ہر سوال کا جواب متعین کر دیا، اور ایسا جواب جو شافی تھا، آپ یہ سمجھئے کہ امام ابو یوسف حنفی تھے اور انہوں نے جو استنباطات کئے ان میں حنفی فقہ کا رنگ تھا، لیکن آج بھی وہ ممالک جہاں فقہ شافعی ہے یا دوسری فقہ ہے وہاں بھی تمدنی مسائل میں استفادہ حنفی مسائل سے کیا جاتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ حنفیہ کے ائمہ نے جو اجتہاد کیا وہ تمدن کے زمانہ کا اجتہاد تھا، تمدن کے جو تقاضے تھے ، تمدن کی جو ذمہ داریاں تھیں وہ انہوں نے پورا کیا تھا، تو آج دوسرے مسلک والوں کو ان مسائل میں اس سے استفادہ کرنا پڑتا ہے، امام ابو یوسف، امام محمد وغیرہ کی محنتوں سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے، تو اللہ تعالی نے وہ دین عطا فرمایا ، وہ شریعت عطا فرمائی جو اس وقت سے لے کر قیامت تک انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے، اور انسانوں کے اس تنوع کا لحاظ بھی اس میں رکھا گیا ہے جو زندگی کا تنوع ہے، کہیں پر برفیلے میدانوں میں انسان رہتا ہے، کہیں ریگستانوں میں انسان رہتا ہے، کہیں تمدن کی حالت میں ہے تو کہیں جہالت کی حالت میں ہے اور بدوی زندگی گزار رہا ہے، ہر جگہ شریعت اسلامی منطبق ہوتی ہے، اس میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ، ایسی شریعت اللہ تعالی نے ہمیں عطا فرمائی، جو استنباطات ہوئے ہیں فقہ کے یہ عہد عباسی میں مکمل ہو چکے تھے، اور اس کے بعد مسلمانوں کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ، سب سے بڑی تبدیلی وہی تھی کہ مسلمان اپنے جزیرۃ العرب کے صحرائی علاقہ سے نکل کر اور پھر متمدن زندگی میں آگئے تھے، اور یورپ جہالت میں مبتلا تھا ، ایران بھی پیچھے پڑ گیا اور یونان بھی پیچھے چلا گیا ، اور عربوں کے پاس جو تمدن تھا اور جو ان کے قوانین تھے، جو ان کی زندگی تھی وہ پوری دنیا سے اعلی معیاری زندگی تھی، اور متنوع تھی، اور شریعت نے ان ساری ضرورتوں کو پورا کیا ، وہ شریعت جو ان حضرت نے طے کر دی تھی ۔ اپنے مختلف مسلکوں کے اعتبار سے آپ دیکھئے کہ دوسری تیسری صدی ہجری میں چاروں مسالک مقرر ہو گئے تھے، چاروں جو مذاہب اربعہ ہیں، یہ سب دوسری تیسری صدی کے اندر کے ہیں اور شریعت اپنے اس تنوع کے ساتھ دوسری صدی میں زندگی کے تمام پہلوؤں کے لحاظ سے قابل عمل ثابت ہوئی تھی ، بعد میں کچھ جزئیات آتی رہیں لیکن انسانی زندگی میں کوئی بڑا انقلاب نہیں آیا۔
تمدنی انقلاب اور اجتہاد
اس وقت کے بعد آج عصر جدید میں جب یورپ کا تمدن سامنے آیا اور یورپ نے ترقی کی اور سائنس نے غیر معمولی ترقی کا مظاہرہ کیا تو اب کچھ مسئلے کھڑے ہوئے ، اس لئے کہ زندگی ایک نئے ڈھنگ پر آئی ، جس سے اب کچھ مسائل کھڑے ہو گئے لیکن اس سے قبل ہمارے اسلاف کو کسی بڑی سوچ کی ضرورت نہیں پڑی ، بس دوسری ، تیسری صدی کے اندر جو کچھ غیر معمولی محنت کرنی پڑی وہ تو محنت کی ، اس کے بعد فرعی اور معمولی چیزیں تھیں جس کو علماء دیکھتے رہے اور جو سوال اٹھتے تھے جواب دیتے رہے، کوئی غیر معمولی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں پیش آئی تھی، لیکن یہ جو موجودہ تمدن ہے اور موجودہ ترقی ہے سائنس کی ترقی ، اس نے مسائل کھڑے کئے۔
گلاسگو میں شفق کا مسئلہ
مثلاً ایک یہ مسئلہ ہے، آج سے پچیس سال پہلے مجھے ایک مرتبہ یورپ جانے کا اتفاق ہوا، انگلستان، وہ گرمیوں کا زمانہ تھا، جس میں رات بہت چھوٹی ہوتی ہے تو وہاں گلاسگو جا کر معلوم ہوا کہ یہاں ایک بڑا مسئلہ چل رہا ہے، وہ یہ کہ شفق ڈوبتی نہیں ختم نہیں ہوتی حتی کہ فجر ہو جاتی ہے، یعنی شفق ہی فجر ہو جاتی ہے، لیکن کب ہوتی ہے، لہذا کب سے اس کو فجر سمجھا جائے اور کب تک اسے شفق سمجھا جائے ، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہو گیا ، وہاں کئی گروہ بن گئے ، اہل فقہ کے گروہ ،معلوم ہوا کہ فجر کی نماز یہاں جہاں ہم لوگ ٹھہرے تھے ایک جماعت آکر بارہ ساڑھے بارہ بجے رات میں فجر کی نماز پڑھتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم نصف نصف تقسیم کر لیتے ہیں، نصف اول رات شفق میں اور نصف ثانی کو فجر میں شمار کرتے ہیں، اور دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ نہیں، جو معتدل علاقہ ہیں ان کا لحاظ کرتے ہوئے ہم ڈیڑھ گھنٹے کا وقت فجر کو دیتے ہیں اور ڈیڑھ گھنٹے کا وقت ہم کو شفق دیتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد عشاء ختم ہوجاتی ہے، یعنی ڈیڑھ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دونوں کو دیا جائے گا ، فجر ہو یا شفق ہو، سوا گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ، شوافع کے یہاں غالباً سوا گھنٹہ اور احناف کے یہاں ڈیڑھ گھنٹے کے قریب ہوتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم ڈیڑھ گھنٹہ شفق کے لئے رکھتے ہیں اور ڈیڑھ گھنٹہ فجر کے لئے رکھتے ہیں، اور یہی ڈیڑھ گھنٹہ یا سوا گھنٹہ کی مدت دونوں کے لئے شروع سے چلتی رہی ہے اور کوئی انقلابی صورت حال پیش نہیں آئی۔
نصوص پر گہری نظر
لیکن موجودہ تمدن میں انقلابی صورت حال پیدا ہوگئی ، اس وقت ہم کو اس طرح نئی باتوں میں اجتہاد کرنے کی ضرورت پڑے گی اور اسی ہمت، اسی صلاحیت کا ثبوت دینا پڑے گا عہد اول نے جس صلاحیت کا ثبوت دیا، یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر گہری علمی سوچ کے ہم اس میں رائے قائم کر لیں نہیں، بلکہ اسی واقفیت، اسی ذہانت، نصوص پر وہی گہری نظر رکھتے ہوئے ہمیں کام کرنا ہوگا، جب جا کر ہم ان مسائل کا جواب دے سکیں گے جو مسائل اس وقت اٹھ رہے ہیں، اور اگر ہم ان کا جواب نہیں دیں گے تو ہماری شریعت پر شبہ کیا جانے لگے گا، شریعت کو ناقص سمجھا جانے لگے گا، جو شریعت امی عربوں کو دی گئی تھی ، اگر وہ اجتہاد نہ کرتے محنت نہ کرتے تو دنیا کہتی کہ اسلام امیوں کا مذہب ہے، دوسرے لوگ اس پر عمل کر ہی نہیں سکتے ، اس لئے کہ ان میں جو تمدن آگیا تھا اور عربوں کا بن گیا تھا، جو دنیا میں سب سے زیادہ فائق تھا ، اس تمدن کے جو تقاضے تھے اگر اس کا جواب ہماری شریعت نہیں دے سکی ہوتی تو صاف سمجھا جاتا کہ یہ شریعت جزیرۃ العرب کے لئے اور ان پڑھ لوگوں کے لئے ہے، دنیا کے دوسرے حصوں کے لئے نہیں ہے لیکن ہمارے اسلاف نے یہ پوزیشن نہیں بننے دی ، اپنے کو اس میں کھپایا اور ایسے جوابات اس کے مرتب کئے اور ایسے استنباطات کئے کہ جس پر سب مطمئن ہوئے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا، آج ہم کو اسی طرح کی محنت کی ضرورت ہے۔
اجتہاد کے اصول و شرائط کا لحاظ
چونکہ اب ایسے افراد نہیں ہوتے جو کہ اتنا استیعاب رکھتے ہوں، جو اتنے حاوی ہوں ان ساری چیزوں پر ، ان سارے گوشوں پر کہ جن کی ضرورت پڑتی ہے اجتہاد اور استنباط کے لئے، اس لئے بہتر طریقہ یہی ہے جو ماشاء اللہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ اکیڈمیاں ہوں، مجالس ہوں، جن میں ضروری صلاحیتوں کے علماء جمع ہوں، وہ علماء جو شریعت کے متنوع گوشوں کی ممتاز صلاحیت رکھتے ہوں، عام صلاحیت والوں کو میں نہیں کہہ رہا ہوں، ان علماء کو کہہ رہا ہوں جو اجتہاد کی اور استنباط کی اچھی صلاحیتیں رکھتے ہوں ، ان میں تنوع ہو سکتا ہے، اور ان کے علم کے مدارج ہو سکتے ہیں، لیکن اگر پوری جماعت بیٹھے گی تو ایک دوسرے کے مطالعہ سے، ایک دوسرے کی واقفیت سے فائدہ اٹھائے گی ، اور جو مذاکرہ ہوگا اس مذاکرہ سے صحیح حل نکل سکے گا جو بہتر سے بہتر حل ہوگا اور ظاہر ہےکہ اسی دائرہ میں نکالنا ہوگا جو نصوص کا دائرہ ہے اور پھر نصوص کے بعد اجتہاد کا دائرہ ہے، ہمارے اسلاف نے جو اجتہاد کیا ہے اور جو انہوں نے طریقہ اختیار کیا ہے، جو اصول مقرر کئے ہیں اجتہاد کے لئے اور استنباط کے لئے ان اصولوں کی بنیاد پر کرنا ہوگا ، ہم اپنی طرف سے کوئی چیز ایجاد نہیں کریں گے، ہمیں اسی لائن پر چلنا ہوگا، اسی دائرہ کے اندر رہ کر کرنا ہوگا۔
دین کی خاص سمجھ ’’وعی‘‘ کا استعمال
لیکن اس میں ہم اپنی پوری ذہانت استعمال کریں گے، وہ ذہانت جسے دینی ذہانت کہنا چاہیے ، اور وہ اللہ تعالی ان کو عطا فرماتا ہے جو اللہ تعالی کے کلام اور اس کے نبی کے کلام کے ساتھ تعلق و اشتغال رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ وہ پیدا کر دیتا ہے، وہ ایک سمجھ ہوتی ہے، اس کو ہم سمجھ ہی کے لفظ سے ادا کرسکتے ہیں، ایک وعی ہوتی ہے جو نظر کو صحیح جگہ پہنچا دیتی ہے، جیسے آدمی کا ایک ادراک ہوتا ہے کہ جو رہنمائی کر دیتا ہے کہ فلاں بات تو نہیں ہو سکتی ، دین کا جو مزاج ہے اس کے لحاظ سے یہ چیز مطابقت نہیں رکھتی ،فقیہ شخص یہ کس بنیاد پر کہتا ہے، یہ اس سمجھ کی وجہ سے کہتا ہے جو اللہ تعالی عطا فرماتا ہے، جس طرح دنیا کی ایک سمجھ ہوتی ہے اسی طرح دین کی بھی ایک سمجھ ہوتی ہے کہ فورا آدمی بھانپ لیتا ہے کہ یہ بات دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ یہ شریعت اسلامی کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ہے، تو اس سے آدمی کی حفاظت ہو جاتی ہے گویا کہ ایک احاطہ میں آگیا جس کی وجہ سے وہ خطرے سے بچ جاتا ہے، غلط کام نہیں کر سکتا ۔
شریعت کے مقاصد سے واقفیت
یہ کام اکیڈمیوں کے ذریعہ سے، ایسی مجالس کے ذریعہ سے زیادہ بہتر طریقہ سے ہوتا ہے تا کہ اگر ایک آدمی سے کوئی بھول ہو رہی ہو گی تو دوسرا آدمی اس کو متنبہ کردے گا کہ آپ کو اس کے سمجھنے میں غلطی ہورہی ہے، اس نص کا تقاضا یہ ہے، اور ہمارےبڑوں نے جو استنباط کیا تھا اس کا تقاضا یہ ہے، اس کی یہ روح ہے اور اس ضرورت کے لئے شریعت کے مقاصد کو جاننا ضروری ہے، اگر ہم مقاصد کو نہیں جانتے اور ان وجوہ و اسباب کو نہیں جانتے اور سمجھتے جو شریعت کے اندر رکھے گئے ہیں تو پھر ہم کوئی بڑا کام نہیں کر سکیں گے اور کسی اچھے فیصلے تک ہم نہیں پہنچ سکیں گے، مقاصد تو بہرحال سامنے رہنے چاہئیں اور اس پر بڑا کام بھی ہوا ہے اور ہو رہا ہے، اور یہ سیمینار اسی پر ہے، اللہ تعالی نے صاف صاف فرمادیا ہےکہ اللہ تمہارے لئے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور اللہ تعالی تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا، اس سے صاف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی کمزوریوں کا ، انسان کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا ہے اور جو شریعت دی ہے اس میں اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ انسان جہاں پر کمزور پڑتا ہے، جہاں پر اس کی ضرورت کا تقاضہ خاص ہوتا ہے وہاں اللہ تعالی نے گنجائش دی ہے، اور وہ گنجائش اس بعض نصوص کے سمجھنے کے اختلاف میں ہے، جن چیزوں کے سمجھنے میں اختلاف کی گنجائش ہے تو وہ حقیقت میں اختلاف نہیں ہے، بلکہ اس میں ہمارے لئے ایک گنجائش دی گئی ہے، کہ ہم اپنے کو دیکھیں ، اپنی صلاحیتوں کو ٹٹولیں اور اس کے مطابق کام کریں، اور ہمارے جو فقہ کے ائمہ ہیں انہوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا اور اس کی وجہ سے انہوں نے بالکل ایسی واضح تفصیل شریعت کی دے دی ہے کہ ہم گزشتہ صدیوں میں برابر آسانی کے ساتھ عمل کرتے چلے آئے ، ہمیں کوئی پریشانی و دشواری نہیں ہوئی ، البتہ ہم کو اب غیر معمولی قدم اٹھانے کی ضرورت پڑے گی لیکن احتیاط کے ساتھ اور اس سرمایہ کو سامنے رکھتے ہوئے جو ہمارے پاس نصوص کا اور اجتہادات کا ہے، دونوں کو سامنے رکھنا پڑے گا ، نصوص جو ہیں پھر اجتہادات ، دونوں کو دیکھ کر کرنا ہوگا ، پھر خود اللہ تعالیٰ ہم کو وہ سمجھ عطا فر مادے گا کہ ہم جو فیصلہ کریں گے وہ صحیح فیصلہ ہوگا یہ سمجھ اللہ تعالی کی طرف سے مدد ہو گی