اجتہاد و تقلید کے درمیان نقطۂ اعتدال
January 4, 2025عہد نبوی میں ابلاغ کے ذرائع
January 4, 2025
معاصر اجتہاد
عمل ، تقاضے اور مشکلات
مولاناڈاکٹرمحمد فہیم اختر ندوی
(پروفیسر شعبہ اسلامیات ،مولاناآزاداردونیشنل یونیورسیٹی،حیدرآباد)
۱۔اجتہاد کا تصور
’اجتہاد ‘ ملت اسلامیہ کی زندگی کا ایک لازمی عنصر ہے ، یہ جتنا ضروی ہے ، اتنا ہی اہم بھی ہے ۔ اور مزاج شریعت سے آشنا کوئی بھی شخص شاید ہی اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کی جرأت کرسکے ۔ صحابی رسول حضرت معاذ بن جبلؓ کے ساتھ نبوی مکالمہ کی گونج ہمیشہ کانوں میں گونجتی رہے گی، جس میں زبان رسالت مآب ﷺ سے استفسار ہوتا ہے کہ زندگی کے نت نئے مسائل میں جب قرآن اور سنت رسول ﷺمیں واضح حکم نہ ملے تو شرعی رہنمائی کی دریافت کا تیسرا اختیار کیا ہوگا؟ اور فقہی امتیاز سے ممتاز صحابی رسول ؓبرملا فرماتے ہیں کہ : ’’ اجتہد رایی و لاآلو‘‘ (۱)۔ ( تب میں اپنی عقل وفہم کا استعمال کرتے ہوئے اجتہاد کروں گا اور اس میں ذرہ برابر کوتاہی نہ کروں گا)۔
یہ مکالمہ جہاں اپنے اندر کئی صراحتیںرکھتا ہے ، وہیں اس بات کی جانب اشارہ بھی کہ روز مرہ زندگی میں قدم قدم پر ایسے مسائل کا سامنا ہوگا،جن میں اجتہاد کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا ۔ اور فقہاء ومجتہدین نے اسی اشارہ کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے زندگی کی اہم حقیقت کو نمایاں کیا کہ : ’’ النصوص متناھیۃ والحوادث غیر متناھیۃ ‘‘۔ (یعنی احکام وہدایات تو محدود ہیں اور پیش آنے والے واقعات لا محدود ہیں) ۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ Text اور کتاب کے صفحات تو ہمیشہ محدود ہی رہیں گے، لیکن زندگی کے مسائل اس وقت تک نو بہ نو پیدا ہوتے رہیں گے جب تک روئے ارضی پر حیات انسانی باقی ہے ۔
۲۔اجتہاد کا عملی منظر نامہ
عملی تنا ظر کی طرف آئیے تو اسلام کی آمد کے جشن بہار سے لے کر آج کے پر پیچ لمحات حیات تک کون سا ایسا دور ہے جو اجتہاد کی عملی کاوشوں سے خالی رہا ہو ، شاید کوئی نہیں ۔ اگر ہم ڈیڑھ ہزار برس کے اس پورے تاریخی دورانیے کو چند موٹے اور بڑے حصوںمیں تقسیم کرنا چاہیں تو صاف طور پر یہ تین ادوار میں منقسم ہوسکتے ہیں ۔
تحرک کا دور
ایک وہ زریںدور جو اسلام کے تحرک اور ا س کے امتداد کا زمانہ ہے ، جس میں اجتہاد کا غلغلہ ہے۔ مسائل پیدا بھی ہورہے ہیں۔ او راجتہاد کی محفلوں میں حل بھی ہورہے ہیں ۔ دونوں کی برق رفتاری تقریبا یکساں ہے ، بلکہ شاید حل کی رفتار مسائل کی پیداوار سے کچھ زیادہ ہی تیز تر ہے ، جبھی تو موجودہ مسئلوںسے نمٹ لینے کے بعد مفروضہ مسائل پر طبع آزمائی ہورہی ہے ۔ نئے مسئلے نہیں مل رہے ہیں تو ذہنی کاوشوں سے مسئلوں کی تصوراتی دنیا میں جولانی کی جارہی ہے ۔ اور اس طرح ’ فقہ تقدیری ‘ کا پورا سرمایہ وجود میں آرہا ہے۔ یہ آئیڈیل زمانہ اپنے مختلف اور متنوع نمونوں کے ساتھ تین اور چار صدیوں تک دراز رہا ہے۔
نرم رفتار اجتہاد
دوسرا دور اس کے بعد سے اٹھارہویں صدی عیسوی کی ابتداء تک ایک ایسا زمانہ ہے جسے نرم رفتار اجتہاد یا خال خال اجتہاد کا زمانہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ دور گو بڑا طویل ہے ، اور اجتہادی ہمہ ہمی کی سابقہ مثالیں اس میں ناپید ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ زمانہ اجتہاد سے یکسر خالی ہے ۔ اس دور میں اجتہاد کے وجود اور جمود کے تعلق سے نظریاتی گفتگو تو بہت ہوئی ہے اور مختلف نتائج پیش کئے جاتے رہے ہیں ۔ لیکن واقعاتی سطح پر مجتہدین کی وہ لمبی قطار کس کی نگاہوں سے اوجھل ہوسکتی ہے ، جو چوتھی صدی کے بعد اسی مزعومہ ’ جمود ‘ اور ’رکود‘ کے دور میں ظاہر ہوئی ہے ۔ امام الحرمین عبد الملک بن عبد اللہ جوینی (متوفی ۴۷۸ھ)، امام غزالی (متوفی۵۰۵ھ)،امام رافعی (متوفی ۵۵۷ھ)، امام برہان الدین مرغینانی (متوفی۵۹۳ ھ)، امام عزالدین بن عبد السلام (متوفی۶۶۰ھ)،امام ابن دقیق العید (شاگرد ابن عبد السلام )، امام ابن سید الناس (متوفی ۷۳۴ھ)، امام تقی الدین ابن تیمیہ (متوفی۷۲۸ ھ)، امام ابن القیم (متوفی ۷۵۱ھ)، امام زین الدین عراقی (متوفی ۸۰۶ھ)، امام ابن حجر عسقلانی (متوفی۸۵۲ھ)، امام سیوطی (متوفی۹۱۱ ھ)، امام کمال الدین ابن الھمام (متوفی ۹۶۱ھ)،اور امام شاہ ولی اللہ بن عبد الرحیم دہلوی(متوفی ۱۱۷۶ھ) وغیرہ اجتہاد کی طلائی زنجیر کی چند کڑیاں ہیں ، اور یہ تو چند زبان زد عام اور ممتاز نام ہیں ۔ ورنہ اس دور کی فضائے بسیط بھی علمی کہکشاؤں سے جگمگارہی ہے ۔ اگر فرق ہے تو یہ کہ اب زمانہ کے تقاضے اور ہیں اور اس دور کا اجتہاد اپنے تقاضوں کا تابع ہے ، اور کیوں نہ ہو کہ اجتہاد تو کسی بھی دور میں وہی مطلوب ہے جو اس دور کے تقاضوںکو پورا کررہا ہو (۲)۔ کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تقریباسات صدیوں پر محیط اس طولانی زمانہ کے کسی حصہ میں مسلمانوں کے سامنے نو پیش مسائل کے انبار کھڑے ہوگئے ہوں اور وہ زمانہ ایسے علماء سے محروم ہو جو ان مسائل کا شرعی حل بتائیں؟اگر ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس زمانے میں زندگی اپنی رفتار پر پوری قوت کے ساتھ بریک لگا چکی تھی ۔ اورنتیجۃ کوئی نئی صبح اپنے ساتھ نیا مسئلہ نہیں لاتی تھی ۔
جب یہ دونوں باتیں ناپید ہیں تو کھلی حقیقت یہی تو بنتی ہے کہ مسائل جیسے اور جتنے بھی سامنے آتے تھے ، وقت کے اہل علم ان کے شرعی حل پیش کرتے تھے ۔ اب اس عمل پر اصطلاحات کا پیراہن ڈال کر ہم جوچاہیں تقسیم کریں ، اور کہیں کہ اجتہاد مطلق نہیں تھا، اجتہاد فی الشرع نہیں پایا گیا، یا اجتہاد فی المذھب پایا گیا ، یا اقوال مذہب پر تخریج یا مختلف رایوں میں ترجیح کا عمل پایا گیا۔ نام ہم جو بھی چاہیں دیں ، اور اصطلاحات کی جو درجہ بندی مناسب حال ہو وہ کریں۔ لیکن اتنی بات تو ضرور تھی کہ وہ اپنے وقت کے تقاضوں کو پورا کررہے تھے اور پیش آنے والے مسئلوںکی گرہیں کھول رہے تھے ۔ اور اجتہاد کی جو تعریف اہل اصول کرتے ہیں وہ اپنے وسیع مفہوم میں اس عمل پر ضرور منطبق ہوتی ہے (۳)۔ کیونکہ مسئلہ کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے وہ اپنی پوری کوشش صرف کر رہے تھے۔ اور صحابی رسول حضرت معاذ بن جبلؓنے مکالمہ نبوی میں اسی رویے کا اظہار کیا تھا کہ ’’ میں اپنی رائے سے اجتہاد یعنی پوری کوشش کروں گا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا‘‘۔
دور جدیدمیں اجتہاد
موجودہ دور جو اجتہاد کی تاریخ کا تیسرا حصہ ہے ، اس کی تین صدیوں کے احوال کافی کچھ دیدہ اور بہت کچھ اپنی تفصیلات کے ساتھ شنیدہ ہیں ، یہ نئے مسئلوں اور الجھے سوالوں کی ایک ایسی موج ہے جو آگے بڑھتی جارہی ہے ، اوپر چڑھتی جارہی ہے اور پھیلتی بھی جارہی ہے ۔ ایک موج سے کئی موجیں نکلی پڑرہی ہیں اور مسائل کے دریاکا دامن اپنی کشادگی بڑھاتا جارہا ہے ۔
اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب نے جو مسائل پیدا کئے ان پر علماء عظام نے بڑھ کر داد تحقیق دی، کرنسی نوٹ ، بنک کا چیک اور انٹرسٹ ، جدید اوزان ، زمینوں کی صورت اور کارخانو ںکی مصنوعات پرگفتگو جاری تھی کہ انیسویں صدی نے معاش و معاشرت اور علاج و آمدورفت کے میدانوں میں تیزی سے ترقی کے اتنے زینے طے کئے کہ نئے نئے معاملات ، نئے نئے سوالات اور نئی نئی مشکلات بڑی تعداد میں سامنے آگئیں۔ ماہرین شریعت نے ان پر غور و خوض کئے ، اور ان کے حل پیش کرتے گئے۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ بیسویں صدی نے نئے مسائل کے دہانے کھول دئے ۔یہ مسائل صرف ترقیات کا نتیجہ نہیں تھے ، بلکہ ان پر تیزی سے در آنے والی تبدیلیوں کا انعکاس بھی پڑرہا تھا ۔ اور یہ تبدیلیاں مثبت اور منفی دونوں رنگ و آہنگ لئے تھیں۔ اس دور کے مسائل زندگی کے چند میدانو ںتک محدود نہیں تھے، بلکہ ہر جگہ ظاہر ہورہے تھے ۔ اور بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے تو مسائل ان گنت ہوگئے ۔ اب ترقیات اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ فساد و بگاڑ بھی عام ہوگیا، اور سماجی و اخلاقی انارکی پھیل گئی ، جس نے ہمدردانہ مشکلات کو بھی پے چیدہ بنادیا ۔ اورحد سے بڑھی مادیت اور نفع پرستی کے رجحان نے مسائل کے منفی پہلو کو اس کے مثبت اور مفید پہلو پر غالب کردیا۔او ران سب کے ساتھ حلال و حرام کی حدوں یا آسمانی اخلاقیات کی قیدوں سے آزاد تحقیقات و تجربات نے طبی اور سائنسی میدانوں میں ایسے نتائج برپا کئے جس نے کئی مفروضات کو حقائق میں بدل دیا اور شرعی و اخلاقی سوالات پیدا کئے ۔
یہ آخری دور پچھلے دونوں زمانوں سے بہت کچھ مختلف ہے ۔ اس دور میں اجتہاد کے تقاضے بھی بدلے اور اجتہاد کی راہ میں مشکلات بھی آئیں ۔ یہ دور ابھی جاری ہے ، مسائل و مشکلات کی جدت اور الجھاوے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ اور اجتہاد کے تقاضے اور راہ اجتہاد کی مشکلات بھی ہنوز باقی ہیں۔
۳۔معاصر اجتہاد پر نظر
معاصر اجتہاد پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کا منظر نامہ کچھ مخصوص طور پر سامنے آتاہے ۔ ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ مسائل کی تیز رفتاری کے ساتھ اجتہاد کی بزم آرائی بھی تیز ہوئی ہے ۔ انفرادی کوششیں اپنی جگہ پر بدستور جاری ہیں ، لیکن اجتماعی اجتہاد کے بہت ہی باوقار اور مستند ادارے پے بہ پے قائم ہوئے ہیں ،یہ ملک کے اندر بھی ہیں اور بیرون ملک بھی ۔ سرزمین اسلام سعودی عرب میں بھی ہیں اور ایشیا و یورپ او رامریکہ کے دور دراز ممالک میں بھی ۔ ان میں سے کئی اداروں کی خدمات اور اجتہادی سرگرمیاں بہت ہی قابل قدر ہیں۔ اور انھوں نے معاصر اجتہاد کی روشن مثال قائم کی ہے (۴)۔ لیکن یہاں پر چند نکات ایسے ضرور سامنے آتے ہیں جن پر غور و خوض کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔
منہجی اختلاف
او ل یہ کہ اجتہاد کا عمل کچھ اصول اور ضوابط کا تابع رہتا ہے ، ان اصول اور ضوابط کی تعیین اہل علم نے کی ہے ، ان میں کچھ متفقہ ہیں اور کچھ علاحدہ علاحدہ ۔ اوران ہی اصولوں کی بنا پر تاریخ کے مختلف حصوں میں مختلف فقہی مسالک وجود میں آئے ہیں(۵)۔ سب کا مقصد ایک ہی رہا کہ درپیش مسئلہ کا وہ حکم معلوم کرنے کی کوشش کی جائے جو اللہ اور اس کے رسول اکی مرضی کے مطابق ہو ۔ مقصد ایک تھا ، لیکن نہج مختلف تھے ، اس لئے بیشتر اوقات نتائج بھی مختلف آئے ۔ یہ صورت مسئلہ آج بھی برقرار ہے ۔
اس سے دو موقعوں پر دشواری کا سامنا ہوتا ہے ۔ایک ان نشستوں میں جہاں مسائل کی کثرت جدت اور پے چیدگی نے مختلف نہج سے جڑے اہل علم کو اجتہاد کی ایک محفل میں جمع کردیا ہے۔ وہاں اجتہادی عمل کے دوران ان کے ذریعے اپنے اپنے اصولی اور منہجی فرق کی پابندی کسی یکساں نتیجہ تک پہنچنے میں باعث دشواری بنتی ہے ۔
دوسرے اس موقع پر جب ایک گاؤں کہی جانے والی آج کی سمٹی ہوئی دنیا میں ایک منہج فکر کی نشست کا فیصلہ اور نتیجہ دوسرے منہج فکر کے نتیجہ سے ایک ہی مسئلہ میں جدا جدا ہوکر سامنے آتا ہے۔ ایسے موقع پر عالمی گاؤں کی آبادی میں الجھن پیدا ہونے لگتی ہے ۔ اور منہجی اختلاف کی تفصیلات سے نا آشنا اکثریت کے ذہنوں میں مختلف قسم کے رد عمل کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں ۔
یہ نکتہ اہل علم و نظرکے غور کرنے کا ہے ۔ اس سلسلہ کے غور و فکر میں متفقہ اصولوں پر نظر اور مقصد پر اصرارکسی مثبت اتفاق تک پہنچانے میں معاون بن سکتا ہے۔
فکر ونظر کی حدیں
اجتہاد کے معاصر عمل میں ایک قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ سماج کی دشواریوں اور انفرادی یا اجتماعی الجھنوں کے موضوعات پر غور کرتے وقت بسا اوقات فکر و نظر کی حدیں ان اجتہادات اور فقہی عبارات تک محدود ہونے لگتی ہیں جو شریعت کے بنیادی مصادر یعنی قرآن و حدیث سے استدلال کا وقیع نتیجہ ہیں ۔ اس رویے کے تحت انجام پانے والے غور و فکر کے نتائج کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں کہ وہ فقہی اقتباسات اور وقیع اجتہادات کے چوکھٹے میں فٹ تو رہتے ہیں ، لیکن سماج کی وہ دشواری کا فی حد تک برقرار رہ جاتی ہے جس کوحل کرنے کے لئے بزم اجتہاد سجائی گئی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اجتہاد کا مرحلہ تب ہی آتا ہے، جب درپیش دشواری کا جواب نصوص کے اندر موجود نہ ہو ۔ پھر نصوص کی روشنی میں غور کرتے ہوئے دشواری کا حل نکالا جائے ۔ لہذا اجتہاد موجود حکم کا تذکرہ نہیں ہے ، بلکہ غیر موجود حکم کی تلاش و جستجو ہے ۔ اور اسی عمل کی وجہ سے شریعت کے ان احکام کا عظیم ذخیرہ وجود میں آیا ہے جو منصوص نہیں ، مستنبط ہیں ، اور فتاوی یا اجتہادات کہلاتے ہیں۔ اس قابل فخر ذخیرہ میں ہمیں ایسی مثالیں بکثرت ملتی ہیں کہ سماج کی دشواری غور و فکر کے ایک نتیجہ سے حل نہیں ہوئی،یا اس حل سے نتیجہ برعکس مرتب ہونے لگا تو غور و فکر کو تبدیل کردیا گیا، اور ایسا حکم دیا گیا جس سے دشواری حل ہوجائے۔کیونکہ شریعت زندگی کے لئے ہے اور اجتہاد زندگی کے مسائل اور دشواریوں کو رضائے الہی کے مطابق اور شریعت کی رحمتوں کے سایہ میں حل کرنے کے لئے ہے۔
شکل اور مقصد
تیسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ شریعت کے احکام و اوامر ظاہری شکل کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مقاصد اور اہداف بھی رکھتے ہیں۔ یہ تو ضرور ہے کہ کچھ ابواب ایسے ہیں جہاں صرف مقصد مطلوب نہیں بلکہ شکل پربھی شریعت کو اصرار ہے ۔ عبادات ، حدود اور محرمات و مواریث وغیرہ کے ابواب میں بیشتر جگہوں پر ظاہری شکلیات اور لفظی پابندیوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن معاشی روابط وعقود ، سماجی تعلقات و امور اور عرفی و رواجی اشیا ء میں مقصد کو بڑی حد تک شکل پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ یہ نکتہ اجتہاد کی تاریخ میں ہمیشہ ملحوظ رہا ہے۔ اور بنیادی مصادر شریعت کے ساتھ ثانوی مصادر شریعت کا اضافہ اور ان میں ائمہ عظام کے درمیان اختلاف دراصل اسی نکتہ کی رعایت اور تکمیل کے باعث ہوتا رہا ہے ۔ اہل علم آگاہ ہیں کہ استحسان کو تسلیم کرنے والے اور اس کا انکار کرنے والے دونوں گروہ مجتہدین کا مقصود نظر ایک ہی ہے (۶)۔ اسی مقصود کے لئے کہیں استصلاح اور مصالح مرسلہ کا استعمال ہوا ہے، تو کہیں قیاس کی گرم بازاری پائی گئی ہے ۔ موجودہ تبدیلیوں کے دور میں معاشی و سماجی اور عرفی امور کے مسائل میں اس نکتہ کی رعایت سے ہی اجتہاد کے نتائج مسئلہ کا حل بن کر سامنے آسکیں گے۔
۴۔دو قابل غور پہلو
یہ تین نکات جو اوپر پیش کئے گئے ، معاصر اجتہاد میں ان کی حیثیت دشواریوں اور مشکلات کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ وہ چیلنجز ہیں جن سے رو برو ہونے کی ضرورت ہے ۔ لیکن یہاں پر دو مزید پہلوؤں کی نشاندہی ضروی محسوس ہوتی ہے ، اوروہ بھی معاصر اجتہاد کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں۔
اختصاصی عمل
سابقہ سطور میں اس احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتہاد عمل کی دنیا میں جاری وساری رہا ہے ، یہ اسلامی تاریخ کے اس درمیانی طویل دورانیے میں بھی پوری طرح پایا جاتا رہا ہے، جو بہت سے اہل دانش کی زبان و قلم پر جمود کا دور کہا جاتا ہے۔ اجتہاد در اصل زندگی کے لئے ہے ، اور زندگی جب رواں دواں ہے تو اجتہاد بھی اس کے دوش بدوش چلتا اور بڑھتا رہے گا۔ لیکن آج کئی موقعوں پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ علماء نے اجتہاد کے لئے ایسی شرائط لگائی ہیں جن کی موجودگی بے حد دشوار ہے ۔ اور اس کی وجہ سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوجاتا ہے ۔ اجتہاد کے تقدس، اس کی رفعت اور نزاکت بھری اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتے ہوئے یہ حقیقت تو ماننی ہی پڑتی ہے کہ ہر بعد کے زمانے میں علمی قابلیت کی وہ عمومی رونق گھٹ جاتی ہے جو سابق میں موجود تھی ۔ او راسی لئے ہم نے سطور بالا میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ہر دور میں اجتہاد اپنے اسی معیار کے مطابق پایا گیا ہے ، جو اس وقت کے حالات کا تقاضا تھا۔ اور اجتہاد کی جن شرائط کا تفصیل سے تذکرہ فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں ملتا ہے ، وہ اس وقت کے مطلوبہ درجہ میں ہی سہی عمل اجتہاد سے جڑے لوگوں میں پایا گیا ہے۔ لیکن ہم یہاں یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اجتہاد لازما ایک اختصاصی عمل ہے ۔ ایک قانونی مرحلہ ہے ، یہ ایک ایسی ذہنی کاوش ہے جس کا ایک سرا الہی تقدس سے مربوط ہے اور دوسرا سرا زندگی کی حقیقتوں سے جڑتا ہے۔ اور یہ دو طرفہ تعلق اس ذہنی کاوش کو محض مشینی عمل کی سطح سے اوپر بہت اوپر اٹھا کر قلب و عمل کی پاکیزگی اور فکرو مقصد کی تقدس آمیز بلندی تک لے جاتا ہے۔پس اجتہاد میں اس ماحول کی فراہمی ضروری ہوگی ۔
یہ صحیح ہے کہ علوم و فنون کے کتنے ہی رازہائے سربستہ اب واشگاف ہوگئے ہیں ، علمی خزینوں کے دفینے اب انگلیوں کی دسترس میں آگئے ہیں ، اور متعلقہ معلومات کی تلاش، تجزیہ اور تحقیق کا عمل بہت کچھ سہل ہوگیا ہے۔ لیکن کیا یہ کہنا درست ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا فرد جو قرآن وحدیث کی زبان اور اس کے معانی کی نزاکتوں سے ناواقف ہو ، جو شریعت کے قانونی مزاج سے نا آشنا ہو اور جو خدا ترسی کے اوصاف سے عاری ہو، محض تکنیکی معلومات کا سہارا لے کر اجتہاد کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے؟ راقم کا جواب قطعا نفی میں ہے۔
نص جزئی پر نظر
دوسرا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جب ہم اجتہاد کے عمل میں لفظیت اور مقصدیت کی بات کرتے ہوئے مقصد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اجتہا دکے ذریعہ احکام اس طرح طے کئے جائیں کہ مقاصد شرع کی رعایت ہو اور مسائل کا حل سامنے آئے ۔ تو اس موقع پر کئی حلقوں میں یہ نکتہ قابل تشویش بنتا ہے کہ مقاصد کے ڈھیلے ڈھالے لباس میں کہیں شذوذ آراء کے فروغ اور واضح نصوص جزئیہ کی خلاف ورزی کی نوبت تو نہیں آرہی ہے ؟ در اصل یہ بہت نزاکت بھرا مرحلہ ہے ، مقاصد شرع کی بے حد اہمیت ہے ، اور اجتہاد میں اس سے صرف نظر حکم کو روح سے خالی بنا سکتا ہے۔ اور وہ مقصد ہی فوت ہو جا سکتا ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول ا نے حکم دیا ہے ، اور جس کی جانب توجہ قرآن کی آیات میں بار بار دلائی گئی ہے ، اور رسول اللہ ا کی شرع سازی میں متعدد مواقع پر جس کی واضح مثالیں ملتی ہیں ۔ لیکن دوسری جانب احادیث نبویہ کا ذخیرہ اور واضح نصوص کی رہنمائی اسلامی شریعت کا وہ سرمایہ ہے جس سے وابستگی کو ہی رسول اکرم ا نے صلاح و فلاح کی ضمانت قرار دیا ہے(۷)۔ حتی کہ آپ انے ان مواقع سےبھی آگاہ فرمایا ہے جب یہ کہا جانے لگے گا کہ حدیث کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ، صرف قرآن ہمارے لئے کافی ہے(۸)۔ کیونکہ الفاظ قرآنی کے مفاہیم کی تشریح اور تعیین حدیث نبوی ا سے ہی ہوتی ہے۔ اور حدیث کا بیشتر حصہ جزئی نصوص اور اخبار آحاد پر مشتمل ہے۔ تیسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ بعض نصوص خود ہی عرف یا وقتی اسباب پر مبنی ہوتی ہیں اور عرف کی تبدیلی کی صورت میں وہ حکم گو کہ نص میں موجود ہے ، اپنے مقصد کے پیش نظر نئے عرف کے مطابق تبدیل ہوجاتا ہے(۹)۔ پس نص جزئی کی رعایت ، نص کی نوعیت پر نظر او رمقصد شرع کا لحاظ یہ تین جانبی وہ دائرہ ہے جس میں رہ کر معاصر اجتہاد کو اپنا عمل انجام دینا ہے۔
٭٭٭
حوالہ جات :
۱۔ سنن ابی داؤد شریف ، کتاب الاقضیہ۔
۲۔شاطبی نے لکھا ہے کہ اجتہاد کی دو قسمیں ہیں : اول وہ قسم جو اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک دنیا باقی ہے ۔ یہ وہ اجتہاد ہے جو تحقیق مناط سے تعلق رکھتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکم تو اپنے دلیل کی وجہ سے ثابت ہے ، لیکن واقعہ پر اس کی تطبیق کے لئے غور و خوض جاری رہے گا۔ (الموافقات فی اصول الشریعہ ۴؍۵۳، المکتبۃ العصریۃ ، بیروت )
۳۔ماضی قریب کے مشہور فقیہ علامہ ابو زھرۃ نے لکھا ہے کہ مجتہد کے تین درجات ہیں: مجتہد فی الشرع ، مجتہد منتسب، اور مجتہد مذہب۔ اس کے بعد تخریج اور ترجیح کا درجہ ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر درجہ کے اندر ایک نوعیت کا اجتہاد انجام پاتاہے۔ ( اصول الفقہ ، صفحہ ۳۹۵، دار الفکر العربی ۱۹۵۸ء)
۴۔دور حاضر میں قائم ہونے والے اجتماعی اجتہاد کے مشہور اداروں میں سے چند کے نام یہ ہیں : مجمع البحوث الاسلامیہ مصر (قیام ۱۹۶۱ء) ،ا لمجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ(قیام ۱۹۷۸ء)، مجمع الفقہ الدولی جدہ ( قیام ۱۹۸۱ء)، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا( قیام ۱۹۸۹ء) مجلس تحقیقات شرعیہ ، ندوہ لکھنؤ(قیام ۱۹۶۳ء)، ادارہ مباحث فقہیہ دہلی (قیام۱۹۷۰ء) اور المجلس الاوروبی للافتاء والبحوث، آئر لینڈ(قیام ۱۹۹۷ء)۔
۵۔تفصیل کے لئے دیکھئے :شاہ ولی اللہ دہلوی ، حجۃ اللہ البالغہ ، صفحہ ۱۴۵، فیصل پبلیکشنز ، دیوبند
۶۔استحسان کے تعلق سے فقہاء کے اختلاف کو کئی محققین نے محض لفظی قرار دیا ہے ۔ مشہور اصولی عالم ابن حاجب (متوفی۲۴۶ھ)نے لکھا ہے:ایسا استحسان پایا ہی نہیں جاتا جس میں اختلاف ہو۔(حاشیہ الفصول فی الاصول للرازی ، تحقیق :عجیل نشمی ( وزارت اوقاف کویت ۱۹۹۴ء)
۷۔حدیث شریف میں ہے : میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں ، تم جب تک انہیں پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ا کی سنت۔ (مشکاۃ المصابیح ، بیروت ۱۹۸۵ء۔)
۸۔حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کے پاس میری حدیث پہنچے ، اور وہ تکیہ سے ٹیک لگائے یہ جواب دے کہ ہمارے تمہارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ کتاب اللہ کا حلال ہمارے لئے حلال ہے اور اس کا حرام حرام ہے ۔ تو سن لوکہ جو رسول اللہ ا نے حرام کیا ہے وہ بھی کتاب اللہ کی طرح حرام ہے۔( ترمذی شریف،باب العلم، حدیث نمبر ۲۵۸۸)
۹۔ علامہ قرافی نے لکھا ہے : شریعت کے وہ تمام مسائل جو رواج و عادت کے تابع ہیں،ان میں رواج کے بدل جانے کے وقت احکام بھی بدل کر نئے رواج کے مطابق ہوجائیں گے۔(الاحکام فی تمییز الفتاوی من الاحکام ص: ۶۷)