تفسیر ابن جریر طبری : ایک جامع تعارف
December 25, 2024شریعت کے مقاصد اور مصالح
December 26, 2024
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على خاتم الأنبياء والمرسلين، محمد بن عبد ألله الأمين، وعلى آله و أصحابه أجمعين، أما بعد!
علم و تحقیق، تصنیف و تالیف ابتدا ہی سے ندوۃ العلماء کے خمیر میں شامل رہا، اس کے بانیان حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ، علامہ شبلی نعمانیؒ،مولانانواب حبیب الرحمن شیروانیؒ، حضرت مولانا عبدالحی حسنیؒ، حضرت مولانا عبدالحق حقانیؒ وغیرہ اپنے عہد کے بلند پایہ اہل تحقیق اور اصحاب فکر، ربانی علماء تھے، جنہوں نے ہمیشہ قرطاس و قلم سے اپنا مضبوط رشتہ رکھا،اور علم و تحقیق کی دنیا میں گراں قدر تصنیفات اپنی یادگار چھوڑیں، جن سے انشاءاللہ ہمیشہ استفادہ کیا جائے گا اور ان کی تصنیفات اور رسائل امت مسلمہ کی رہبری کرتی رہیں گے۔
آخری صدیوں میں(انیسویں، بیسویں صدی) علم اور دین کی خدمات کا ایک نیا اور مفید طریقہ یہ سامنے آیا کہ علمی، تحقیقی، اصلاحی اور دعوتی موضوعات پر رسائل و جرائد اور میگزین شائع کیے جائیں، جن کے اشاعت کی ایک متعین مدت ہو مثلاً ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی وغیرہ، یہ رسائل اور میگزین مختلف مقاصد کے لیے شائع کئے جاتے ہیں، کچھ رسائل و جرائد علمی و تحقیقی ہوتے ہیں، کچھ دعوتی و اصلاحی، بعض تاریخی و ادبی بھی ہوتے ہیں، تحریک ندوۃ العلماء جو ملت اسلامیہ کی ہمہ جہت خدمات انجام دینا چاہتی تھی، وہ اس اہم میدان کو کیسے نظر انداز کر سکتی تھی، چنانچہ ندوۃ العلماء کے بانیان نے ’’الندوہ‘‘کے نام سے ایک ماہانامہ جاری کیا، جس کی ادارت علامہ شبلی نعمانی اور مولانا نواب حبیب الرحمن شروانی فرما رہے تھے، بہت جلد اس ماہ نامہ رسالہ نے غیر منقسم ہندوستان میں شہرت حاصل کر لی، اور بر صغیر کے علماء و مشائخ اور اہل دانش کا طبقہ اس کے تازہ شمارے کے انتظار میں رہا کرتا تھا،’’الندوہ‘‘ اسلامی علوم و فنون کا بہترین میگزین تھا، تفسیر، حديث، فقہ، سیرت و تاریخ اور کلامی مباحث پر اس میں معیاری مضامین شائع ہوتے تھے، علامہ شبلی اور نواب حبیب الرحمن شروانی کے معیار تحقیق اور خصوصی توجہات نے ماہنامہ کو بلند کی چوٹی تک پہنچایا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالسلام ندوی وغیرہ علامہ شبلی کے مایہ نازشاگردوں نے الندوہ ہی میںتصنیف وتحقیق کی تربیت پائی،اور ان کے نام علمی دنیا میں معروف ہوئے، تقریبا سات سال (۱۹۰۵ ء تا۱۹۱۲ء)تک یہ ماہنامہ بڑی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا رہا، اور برصغیر کے علمی دنیا میں اس نے اپنا مقام بنا لیا، اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ ماہ نامہ’’الندوہ‘‘ندوۃ العلماء لکھنو ماہ نامہ ’’معارف‘‘ دار المصنفین اعظم گڑھ کا پیش روتھا، علامہ شبلی نعمانی کے جانشین اور ان کے عظیم شاگرد علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے رفقاء کار کے ساتھ الندوہ کے بند ہونے سے پیدا ہونے والے خلا کو ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے ذریعے سے پر کرنے کی کوشش کی ،جس کا آغاز ۱۹۱۶ میں ہوا۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا رشتہ دار العلوم ندوۃ العلماء سے برابر استوار رہا،وہ پونہ کالج سے ملازمت ترک کر کے اپنے استاذ گرامی علامہ شبلی نعمانی کی طلب پر دارالمصنفین اعظم گڑھ آئے تھے، واقعہ یہ ہے کہ علامہ سید سلیمان ندوی اور ان کے رفقاء نے اپنے استاذ گرامی کے تیار کردہ خاکہ میں رنگ بھرا، اور علامہ شبلی نے جس دار المصنفین کا خواب دیکھا تھا اسے شرمندہ تعبیر کیا، علامہ سید سلیمان ندوی اپنے استاذ کے وفادار اور لائق ترین شاگرد تھے،ان کے مزاج میں اعتدال اور ٹھہراؤ تھا، اس لیے علامہ شبلی کے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے علیحدگی اور یکسوئی کے باوجود سید صاحب کا اپنے مادر علمی سے رابطہ برابر استوار رہا، اور علامہ شبلی نعمانی کے علاوہ جن دوسرے اساتذہ سے انہوں نے اکتساب علم کیا تھا ان کے بھی وہ ہمیشہ شکر گزار اور قدردان رہے، ندوۃ العلماء کے اراکین اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ داروں نے انہیں ہمیشہ عزت و احترام کا مقام دیا، اور رفتہ رفتہ وہ سید الطائفہ بن گئے، طویل مدت تک معتمد تعلیم کے عہدہ پر فائز رہے، اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کی تعلیمی اور تربیتی نظام کی رہنمائی فرماتے رہے، دارالعلوم ندوۃ العلماء اور دارالمصنفین اعظم گڑھ میں کبھی دوئی کا احساس نہیں پیدا ہوا، بلکہ دونوں ادارے ایک ہی چشمہ فیض کی شاخیں محسوس ہوتے تھے، دارالمصنفین اعظم گڑھ کو ندوۃ العلماء کا تصنیفی و تحقیقی بازو سمجھا جاتا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی کے بعد شاہ معین الدین ندوی دارالمصنفین کے سربراہ مقرر ہوئے، اور دارالمصنفین کے رفقاء عام طور پر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فضلا ہوا کرتے تھے، شاہ معین الدین ندوی کی وفات کے بعد سید صباح الدین عبدالرحمن دار المصنفین کے سربراہ ہوئے، ان کے دور میں بھی یہی صورتحال برقرار رہی۔
ماہنامہ الندوہ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ندوۃ العلماء سے اردو زبان میں پھر کوئی خالص علمی اور تحقیقی مجلہ جاری نہیں ہوا، ہاں ۱۹۶۳ء میں پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ جاری ہوا، جو الحمد للہ اس وقت سے برابر شائع ہو رہا ہے، اور اس کی اچھی اشاعت ہے، لیکن تعمیر حیات پر دعوتی، اصلاحی اور فکری رنگ غالب ہے، تعمیر حیات کی اپنی جگہ بڑی افادیت ہے لیکن اس سے وہ خلا پر نہیں ہوا جو الندوہ کے بند ہونے سے ہوا تھا۔
عربی صحافت کے میدان میں ندوۃ العلماء سے۱۹۳۲ میں مجلہ’’الضياء‘‘کی اشاعت شروع ہوئی، ’’الضياء ‘‘ نے عرب ممالک میں بھی اچھا مقام پیدا کر لیا، اس میں بہت فکر انگیز اور دعوتی مضامین شائع ہوتے تھے، لیکن الضياءمختلف اسباب کی بنا ء پر۱۹۳۵ءمیں بند ہو گیا، اور۱۹۵۵ میں’’البعث الاسلامی‘‘ ندوۃ العلماء کے افق پر طلوع ہوا، الحمدللہ اس وقت سے ہر ماہ پابندی کے ساتھ نکل رہا ہے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے فکر و پیغام کو اور ان کی دعوت کو بلاد عربیہ تک پہنچانے میں البعث الاسلامی کا خاص حصہ رہا ہے، حضرت مولانا محمد الحسنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن الاعظمی دامت برکاتہم کی محنتوں اور جگر سوزیوں کی وجہ سے البعث الاسلامی نے اپنا معیار و اعتبار قائم کیا، اور حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن الاعظمی صاحب اپنے امراض و اعذار کے باوجود اپنے معاونین کی مدد سے آج بھی البعث الاسلامی کی روشنی اور تابانی باقی رکھے ہوئے ہیں، پندرہ روزہ عربی جریدہ “الرائد” بھی ندوۃ العلماء لکھنو کے ذمہ داروں اور بزرگوں کا ایک مفید قدم ہے، جس نے ہندوستان کی عربی صحافت میں نئے نقوش چھوڑے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی اور سرپرستی میں حضرت مولانا سید محمد واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے الرائد کو اپنے خون جگر سے سینچا، اور اسے نوجوانوں کی فکری اور ادبی تربیت کا بہترین پلیٹ فارم بنا دیا۔
عربی صحافت کے میدان میںندوۃ العلماء اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کی یہ قابل رشک حصولیابیاں اپنی جگہ پر، لیکن الندوہ کے بند ہونے سے علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا اس کی تلافی نہیں ہو سکی۔
۱۹۶۳میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس دور کے ممتاز ترین علماء اور فقہاء کے ساتھ دور حاضر کے نئے پیچیدہ مسائل کا شرعی حل تلاش کرنے کے لیے مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنو کی بنیاد رکھی، حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ اس کے صدر منتخب ہوئے، اور مجلس کے پہلے ناظم مشہور صاحب تصانیف عالم حضرت مولانا تقی امینی رحمۃ اللہ علیہ بنائے گئے، جو فقہی موضوعات پر برابر لکھتے تھے ،اور ان کی بعض تصنیفات بھی شائع ہو چکی تھیں، ان کے دور نظامت میں مجلس تحقیقات شرعیہ کی ایک ہی نشست ہوسکی، جس میں مجلس کے اغراض و مقاصد طے کیے گئے، اس کی خاکہ سازی ہوئی، اور مسائل پر غور و خوض کرنے کے لیے منہج پر تبادلۂ خیالات ہوئے، لیکن جلد ہی وہ شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر علی گڑھ منتقل ہو گئے،ان کے جانے کے بعد ۱۹۶۴ میں صدر مجلس نے اہم ارکان سے مشورہ کر کے حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ کو مجلس کا ناظم نامزد فرمایا، ان کے دور نظامت میں مجلس خاصی فعال رہی، اس کے کئی اجلاس منعقد ہوئے، اور انشورنس اور رویت ہلال وغیرہ اہم موضوعات پر مجلس نے فیصلے کیے، لیکن ۱۹۷۰ میں ان کے پاکستان منتقل ہو جانے کی وجہ سے یہ عہدہ پھر خالی ہو گیا، حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ اس کام کی اہمیت کے پیش نظر مجلس تحقیقات شرعیہ کے لیے بڑے فکرمند تھے، اور انہوں نے۱۹۷۱ میں حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی ؒ کو مجلس کا ناظم مقرر فرمایا، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی نے مجلس کو متحرک کرنے کی کوشش کی، اور پوری تیاری کے ساتھ سرکاری سودی قرضوں کے موضوع پر مجلس کی میٹنگ بلائی، جس میں چوٹی کے ممتاز علماء اور فقہاء شامل ہوئے، لیکن موضوع پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ، اور اسے آئندہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا، اس کے بعد خدا جانے کے کیا اسباب ہوئے کہ مجلس تحقیقات شرعیہ قائم تو رہی اور حضرت مولانا برہان الدین صاحب اس کے تحت علمی اور فقہی موضوعات پر آنے والے سوالات کے جوابات تحریر فرماتے رہے، بعض رسائل اور کتابیں بھی شائع کیں، لیکن نئے فقہی مسائل پر اجتماعی غور و خوض کا کام(جو مجلس تحقیقات شرعیہ کا بنیادی کام تھا) موقوف رہا، دسمبر ۱۹۹۹ میں حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے وفات کا سانحہ پیش آیا، اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ کو ندوۃ العلماء کی نظامت کی ذمہ داری سونپی گئی، اس کے بعد بھی مجلس تحقیقات شرعیہ کی وہی صورتحال رہی جو پہلے تھی۔
حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی کی وفات ۲۰۲۰ءمیں ہوئی، وفات سے چند سال پہلے سے وہ معذور ہو چکے تھے، فالج سے کافی متاثر تھے، حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ناظم ندوۃ العلماء تھے، ان کے ذہن پر اس فکر کا غلبہ ہوا کہ مجلس تحقیقات شرعیہ کا احیائے نو کیا جائے، اور اس کےتحت خاص طور سے نئے پیچیدہ مسائل کا شرعی حل اجتماعی غور و خوض کے ذریعے انجام دیا جائے جو اس مجلس کا بنیادی مقصد تھا، انہوں نے ۳صفر۱۴۱۴ھ مطابق ۳اکتوبر ۲۰۱۹ کو دفتر نظامت سے حکم نامہ جاری فرمایا اور احقر کو ناظم مجلس تحقیقات شرعیہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مامور فرمایا، حضرت مولانا رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت کے مطابق مولانا سید حمزہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ سے تبادلہ خیال کر کے مجلس کا نیا نظام بنایا گیا، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید محمد حمزہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے مشورے سے مجلس تحقیقات شرعیہ کے مقاصد میں توسیع کی گئی اور درج ذیل ۱۰ مقاصد طے کیے گئے،جو درج ذیل ہیں:
۱۔دورحاضر کے پیداکردہ نئے مسائل نیزوہ قدیم احکام ومسائل جوبدلے ہوئے عالمی یاملکی حالات میں از سر نوغوروخوض کے محتاج ہیں، ان پراجتماعی غوروخوض اورشرعی فیصلہ کی کوشش کرنااورامت مسلمہ کوان فیصلوں سے واقف کرانا۔
۲۔دورحاضرمیں جن مسائل اورسوالات پرسنجیدہ بحث وتحقیق کی ضرورت ہے، ان کی فہرست سازی کرنااوران مسائل وسوالات پرمحقق علماء وفقہاء اورباصلاحیت وحوصلہ مند فضلائے مدارس وجامعات سے کتابیں اورمضامین لکھوانااورانہیں مختلف زبانوں میں شائع کرانے کی کوشش کرنا۔
۳۔اسلام کی جن تعلیمات کے بارے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں یا اعتراضات کئے جاتے ہیں، ان موضوعات پراطمینان بخش لٹریچرتیارکرنااورپرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے ذریعہ اسے پھیلانے اورعام کرنے کی کوشش کرنا۔
۴۔پوری دنیااورخصوصاعالم عربی اورعالم اسلامی میں فقہ اورشریعت کے بارے میں جوتحقیقی ادارے یافقہ اکیڈمیاں ہیں ،ان کے سیمیناروں، کانفرنسوں اورتحقیقی کاموں سے واقف رہنے اوران سے علمی رابطہ رکھنے کی کوشش کرنااورہندوستان کے ممتازفقہاء وعلماء کو ان سے واقف کرانے کی کوشش کرنا۔
۵۔اسلام کے عائلی قوانین (نکاح ،طلاق،وراثت وغیرہ)کے بارے میں ایسی کتابیں اورمضامین تیارکراناجن میں ان قوانین کی بھرپوروضاحت ہو،ان پرکئے جانے والے اعتراضات وشبہات کے اطمینان بخش جوابات ہوں،اوردوسرے عائلی قوانین سے ان کاموازنہ بھی کیاگیاہو۔
۶۔ہندوستان کی اعلی عدالتوں (سپریم کورٹ اورہائی کورٹ)کے مسلم پرسنل لاکے بارے میں دئے گئے مخالف شریعت فیصلوں کاقانونی اورشرعی جائزہ تیارکرانا اوراسے شائع کرانے کی کوشش کرنا۔
۷۔دارالافتاء ندوۃ العلماء میں آنے والے اہم او رتحقیق طلب سوالات ومسائل کا تحقیقی جواب تیارکرنا۔
۸۔دارالعلوم ندوۃ کے طلبہ میں فقہی ذوق ومزاج کوپروان چڑھانے کے لئے اہم فقہی موضوعات پرمحاضرات، مقابلے،مذاکرے منعقدکرانا۔
۹۔دارالعلوم ندوۃ العلماء کے کم از کم دوہونہارفضلاء جن کی فقہ وافتاء میں اچھی صلاحیت ہو،انہیں معقول اسکالرشب کے ساتھ تصنیفی تربیت کے لئے منتخب کرنا،اوران سے فقہی موضوعات پرعلمی وتحقیقی کام لیناتاکہ مستقبل میں وہ فقہی وشرعی موضوعات پر بہتر سے بہترکام کرسکیں۔
۱۰۔مذکورہ بالامقاصدکوبروکارلانے کے لئے مختلف اقدامات کرنا،پروگرام بنانا، سیمینار اورکانفرنسیں منعقدکرانا، اسٹڈی گروپ تشکیل دینا،ورکشاپ منعقدکرنا،وغیرہ۔
الحمدللہ مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء احیاء نو کے بعد اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، دو فقہی سیمینار ہو چکے ہیں، انشاءاللہ تیسرا بھی ہونے والا ہے، مسلم فیملی لا کے موضوعات پر وکلا اور علماء کا ماہانہ پروگرام جاری ہے، آخری جماعتوں کے طلباء کے لیے لیگل لٹریسی پروگرام ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ ہو رہا ہے، اس مختصر مدت میں مجلس اپنی خاصی کتابیں شائع کر چکی ہے۔
مجلس تحقیقات شرعیہ کے مقاصد میں مجلس کے سرپرستان اور ارکان مشاورت کے مشورے سے جو توسیع کی گئی ہے اس کا ایک اہم تقاضہ یہ بھی ہے کہ کم از کم ایک سہ ماہی علمی و تحقیقی مجلہ مجلس سے شائع ہوا کرے، اس مجلہ کا دائرہ وہی ہوگا جومجلس کے لئے طے کردہ دس مقاصد کے ذیل میں آتا ہو، اس کا غالب رنگ تو شرعی و فقہی تحقیقات کا ہوگا، لیکن دوسرے علوم اسلامیہ (تفسیر، حدیث، کلام وغیرہ) پر بھی اچھے معیاری مضامین وقتا فوقتاً شائع کئے جائیں گے، اور کوشش کی جائے گی کہ چند صفحات ملک و بیرون ملک کی علمی خبروں ،پروگراموں اور علوم اسلامیہ پر ہونے والے تحقیقی اور تصنیفی کاموں کے بارے میں بھی ہوں، اگراس مجلہ کو ملک و بیرون ملک کے اصحاب علم و تحقیق علماء اور متخصصین کا سرگرم تعاون رہا تو انشاءاللہ تعالی تین مہینے پر پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہے گا، فی الحال تو ذمہ داروں کا یہی فیصلہ ہے کہ اسے ای – مجلہ کی شکل میں جاری کیا جائے، لیکن تحقیقات شرعیہ کا یہ پہلا شمارہ جو مجلس تحقیقات شرعیہ کے چھٹے فقہی سیمینار ۳۰/ نومبر ویکم دسمبر۲۰۲۴ کے موقع پر شائع ہونے جا رہا ہے اس کی کچھ محدود کاپیاں شرکائے سیمینار کومطبوعہ شکل میں پیش جائیں گی، اگر آئندہ اہل علم کا تقاضا ہوا اور وسائل میں گنجائش ہوئی تو انشاءاللہ مجلہ تحقیقات شرعیہ ای – مجلہ ہونے کے ساتھ کتابی مجلہ بھی ہو جائے گا، اللہ تعالی اسے قبولیت سے نوازے، قبول فرمائے اورامت مسلمہ کے لیے نافع بنائے۔
عتیق احمد بستوی
سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ،ندوۃ العلماء