وقف کی شرعی حیثیت اور اس کا استبدال
January 4, 2025اجتہاد و تقلید کے درمیان نقطۂ اعتدال
January 4, 2025
فسخ نکاح کے چند اسباب اور کچھ جدید شکلیں
مولانا رحمت اللہ ندوی
(استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم ندوۃالعلماء ،لکھنؤ )
نکاح انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ اور زندگی کو خوش گوار اور پر سکون بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسی لئے اسلام نے نکاح کرنے پر زور دیا ہے اور اس کی تاکید کی ہے،اور تجرد و تنہائی کی زندگی گزارنے سے منع کیا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے یہاں تک فرمادیا ہے کہ “جو قدرت کے باوجود نکاح سے بےرغبتی اختیار کرے وہ ہم سے نہیں ہے، اور ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”کیو ں کہ تجرداور تنہائی کی زندگی کے دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے کئی مفاسد ہیں ۔
نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں تا حیات نباہ کرنے کا عہد وپیمان ہوتا ہے، بلا کسی معقول وجہ یا کسی معمولی وجہ اور بات پر اس رشتہ کو توڑ دینا ،نہ ہی مناسب ہے اور نہ ہی اس کی اجازت اور گنجائش ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کی زندگی میں مختلف موڑ آتے ہیں اور وہ سرد و گرم حالات کا شکار ہوتا ہے اور نہ معلوم کیسے کیسے مراحل سے گزرتا ہے ؟ اسی لیے اسلام نے یہ آپشن بھی رکھا ہے کہ زوجین کے لئے ایسا وقت آجائے کہ ایک ساتھ گزارہ ممکن نہ ہو تو وہ ایک دوسرے سے علاحدگی اختیار کر لیں۔
اس علاحدگی کی ایک صورت طلاق ہے جس میں شوہر خود مختار ہوتا ہے، دوسری صورت خلع کی ہے، یہ زوجین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے اور بیوی اس کے لئے کچھ معاوضہ دے کر شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کرتی ہے، ایک تیسری شکل فسخ و تفریق ہے، جو بیوی کے مطالبہ پر قاضی شریعت اس وقت انجام دیتا ہے جب کہ شوہر بیوی کا حق زوجیت ادا نہ کرتا ہو، یا اس پر ظلم وزیادتی کرتا ہو،یا جنسی تعلق میں کمزور یا ناکام ہو، یا شوہر کسی ایسی بیماری یا عیب میں مبتلا ہو جس کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل اور باعث اذیت ہو۔
شریعت نے طلاق، خلع اور فسخ کے جو طریقے بتائے ہیں، وہ ساری شکلیں مشکل حالات اور مجبوری کی صورت میں اختیار کی جائیں گی۔ طلاق یا خلع واقع ہونے کے لئے شرعا شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ لیکن بعض مخصوص حالات میں قاضی شرعی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی زوجین میں تفریق کر سکتا ہے، کیونکہ نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں جو نکاح کے مصالح اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءا ان کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ، اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزور عدالت انہیں وصول کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً بیوی کا نان و نفقہ اور حقوق زوجیت و غیرہ۔
اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہواور اس کی وجہ سے بیوی علاحدگی کا مطالبہ کرہی ہو تو عورت کو طلاق دے دے ، ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی کے درمیان تفریق کر سکتا ہے،کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے، بیوی خود تفریق نہیں کر سکتی۔
وہ اسباب جن کی بنا پر قاضی شرعی میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے، وہ یہ ہیں :
(۱) شوہرپاگل یا مجنون ہے ۔ (۲) شوہر نان و نفقہ ادانہ کرتاہو۔ (۳) شوہر نامرد ہو۔ (۴) شوہر مفقود الخبر یعنی لاپتہ ہو۔ (۵) شوہر غائب غیر مفقود ہو، اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ (۶)شوہر بیوی کو سخت مارپیٹ کرتا ہو۔
مذکورہ بالا اسباب میں سے کسی بھی سبب کی موجودگی میں اگر عورت مسلم جج کی عدالت یا موجودہ دار القضاء یا شرعی پنچایت میں دعوی دائر کرکے گواہوں سے اپنا مدعا ثابت کر ديتی ہے اور قاضی حسب شرائط نکاح فسخ کر دیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہوگی۔
لیکن زوجین میں تفریق کے لئے قضاء قاضی شرط ہے۔
مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ مزید یہ اسباب بھی تفریق کے اسباب میں سے ہیں:
(۱) غیر کفو میں نکاح (۲) مہر کے اندر غیر معمولی کمی (۳)خیار بلوغ (۴)شوہر کا جذام، برص یا اس جیسے کسی موذی مرض میں مبتلا ہونا (۵) شوہر کا ادائیگیٔ نفقہ سے عاجز ہونا (۶) زوجين میں شقاق کا پایا جانا (۷) مرد کا اپنی حالت کے بارے میں عورت کو دھوکے میں ڈال کر نکاح کرنا(۸)تفریق بسبب حرمت مصاہرت (۹)تفریق بسبب فساد نکاح ( تفصیل کے لئے دیکھیں:اسلامی قانون متعلق مسلم پرسنل لاء ۲۲۱ دفعہ۷۳)
شوہر کا حقوق زوجیت ادا نہ کرنا
دفعہ ۷۳ :
ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے.کیوں کہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے، حقوق زوجیت ادانہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا ظلم ہےاور رفع ظلم قاضی کا فریضہ ہے، نیز صورت مذکورہ میں عورت کا معصیت میں مبتلا ہونا بھی ممکن ہے ، قاضی کا فریضہ ہے کہ ایسے امکانات کو بند کر دے ، اس لئے اگر عورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے تو قاضی تحقیق حال کے بعد لازمی طور پر رفع ظلم کرےگااورمعصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیدا کرے گا، مذہب مالکی میں بھی ترک مجامعت وجہ تفریق ہے۔( مجموعہ قوانین اسلامی : ۱۹۲ ۔۱۹۳،شائع کردہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ)
شوہر کا وطی پر قادر نہ ہونا
دفعہ (۷۴)
وطی پر قادر نہ ہونے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں مثلًا شوہر مقطوع الذکر ہے، یاآلہء تناسل اتناچھوٹا ہےکہ اس کے باعث وہ صحبت پرقادر نہیں ہے، یاآلہء تناسل موجود ہے لیکن کسی مرض کے باعث عورت سے جماع پر قادر نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں عورت کو قاضی کے ذریعہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہوگا، پہلی اور دوسری صورت میں قاضی فورا نکاح ختم کردے گا، اور تیسری صورت میں ایک قمری سال تک علاج کی مہلت دے گا، علاج کے بعد بھی جماع پر قادر نہ ہو سکا تو عورت کے مطالبہ پر فورا قاضی نکاح فسخ کر دے گا۔ ( مجموعہ قوانین اسلامی ص ۱۹۳)
” لَوْ وجدتْ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا مَجْبُوبًا خَيَّرَهَا الْقَاضِي لِلْحَالِ وَلَا يُؤَجِّلُ ،كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَيَلْحَقُ بِالْمَجْبُوبِ مَنْ كَانَ ذَكَرُهُ صَغِيرًا جِدًّا كَالزِّرِّ.” (الفتاوى العالمكيرية، باب العنين ج ١ ص ۵۲۵ -الدر المختار ۲ / ۲۸۱)
” ولو وجدته عنينا….(أو خصيا ) لاينتشر ذكره…. (أجل سنة)…. (قمرية) …. (فإن وطئ مرة)فبها(وإلا بانت بالتفريق)من القاضي إن أبى طلاقها…. (بطلبها )(الدر المختار :۲/ ۲۱۸- ۲۲۰)
مجموعہ قوانین اسلام کے دفعہ ۱۲۲، “تفریق بسبب نامردی” کی عبارت یوں ہے :
۱-جس عورت کا نکاح شرع اسلام کےبموجب منعقد ہوا ہو بریں بنا عدالت سے تنسیخ کا حکم حاصل کر سکتی ہے کہ اس کا شوہر بوقت نکاح نامرد تھا، نیز یہ کہ اس کی وہ حالت برقرار ہے۔
۲-شوہر کی درخواست پر عدالت پر لازم ہوگا کہ بر بنا نامردی تنسیخ نکاح کا حکم جاری کرنے سے قبل شوہر کو ایک سال کی مہلت دے تا کہ شوہر اس ایک سال کی مدت میں عدالت کو مطمئن کر سکے کہ وہ نامرد نہیں رہا، اگر شوہر اس مدت میں عدالت کو مطمئن کر سکا تو عدالت نامردی کی بنا پر تنسیخ نکاح کا حکم دینے کی مجاز نہ ہوگی۔ (مجموعہ قوانین اسلام ج ۶۳۰/۲)
نامرد کی تعریف
” فقہی اصطلاح میں نامرد (عنین) اس شخص کو کہتے ہیں جو عضو تناسل رکھنے کے باوجود عورت سے جماع کرنے پر قادر نہ ہو،خواہ یہ حالت پیدائش سے ہو یاکسی مرض کے سبب پیدا ہوئی ہو یاکمزوری یا بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے پیدا ہوئی ہو۔
اگر کوئی ایسا شخص جو بعض عورتوں سے جماع کرنے پر قادر ہے مگر بعض عورتوں سے جماع کرنے پر قادر نہیں تو وہ شخص ان بعض عورتوں کے حق میں جن سے جماع کرنے پر قادر نہیں ہے نامرد سمجھا جائے گا،یا جس مرد کو عورت کی مخالطت سے قبل ہی انزال ہو جاتا ہو نامرد سمجھا جائے گا، ایسے مرد کی زوجہ کو جو اس سے جماع پر قادر نہ ہو،شریعت نے بذریعہ عدالت طلب تفریق کا اختیار دیا ہے اوریہ اختیار زوجہ کے مطالبہ کی تاخیر سے خواہ کتنا عرصہ گزر جائے، باطل نہیں ہوتا۔”
(مجموعہ قانون اسلامی۲/۶۳۱-۶۳- بحوالہ فتاوی عالمگیری۲/۱۵۵- رد المحتار:۲/۶۸۱- الحیلۃ الناجزۃبہ تحقیق وتسہیل جدید: ۷۸-۷۹)
” العنين : هُوَ الَّذِي لَا يَصِلُ إلَى النِّسَاءِ مَعَ قِيَامِ الْآلَةِ، فَإِنْ كَانَ يَصِلُ إلَى الثَّيِّبِ دُونَ الْأَبْكَارِ أَوْ إلَى بَعْضِ النِّسَاءِ دُونَ الْبَعْضِ، وَذَلِكَ لِمَرَضٍ بِهِ أَوْ لِضَعْفٍ فِي خَلْقِهِ أَوْ لِكِبَرِ سِنِّهِ أَوْ سِحْرٍ فَهُوَ عِنِّينٌ فِي حَقِّ مَنْ لَا يَصِلُ إلَيْهَا كَذَا فِي النِّهَايَةِ.”(العالمكيرية:۱/ ۲۲-الباب الثاني عشر من الطلاق)
وفي رد المحتار:”اى مع وجود الآلة سواء كانت تقوم أو لا.”(ردالمحتار:۲/ ۵۹۳-باب العنين)
جبکہ” رد المحتار” میں” المعراج” کے حوالہ سے یہ بھی ہے:
“إذَا أَوْلَجَ الْحَشَفَةَ فَقَطْ فَلَيْسَ بِعِنِّينٍ وَإِنْ كَانَ مَقْطُوعَهَا فَلَا بُدَّ مِنْ إيلَاجِ بَقِيَّةِ الذَّكَرِ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَيَنْبَغِي الِاكْتِفَاءُ بِقَدْرِهَا مِنْ مَقْطُوعِهَا،( الحيلة الناجزة :۸۷)
نامردی کی صورت میں تفریق کی شرطیں
واضح رہے کہ عنين کی بیوی کو اپنے شوہر سے علاحدگی کا اختیار مندرجہ ذیل چند شرائط کے ساتھ ہے:
(۱) نکاح سے پہلے عورت کو اس شخص کے عنین ہونے کا علم نہ ہو ،اگر اس وقت علم تھا پھر بھی نکاح کر لیا تو اب تفریق کاحق نہ ہوگا۔
(۲)نکاح کے بعد ایک مرتبہ بھی اس عورت سے جماع نہ کیا ہو، اگر ایک مرتبہ جماع کرچکا ہو تو پھرعنین ہوگیا ہو تو عورت کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں ہوگا ۔
(۳)جب سے عورت کو شوہر کے عنین ہونے کی خبر ہوئی ہے اس وقت سے عورت نے اس کے ساتھ رہنے پر رضا مندی کی صراحت نہ کی ہو، مثلا یہ نہ کہا ہو کہ جیسا بھی ہے اب تو میں اس کے ساتھ بسر کروں گی، کیونکہ اگر وہ اپنی رضا کی تصریح کر چکی ہو تو پھر اس کومطالبہ تفریق کا حق نہیں رہتا، لیکن محض سکوت سے اس جگہ رضا نہ سمجھی جائے گی۔
(۴)جس وقت سال بھر کی مدت گزر جانے کے بعد قاضی عورت کو اختیار دے تو عورت اسی مجلس میں تفریق اختیار کر لے، اگر اس مجلس میں اس نے اپنے خاوند کے ساتھ رہنا پسند کر لیا یا اس قدرسکوت کیا کہ مجلس برخاست یا تبدیل ہو گئی تو اب کسی طرح تفریق نہیں ہو سکتی۔
(۵)عنین کو سال بھر کی مہلت دینا، سال گزرنے پر عورت کو اختیار رہنا اور خاوند کا طلاق دینے سے انکار کرنا تو تفریق کر دینا وغیرہ امور قاضی کے فیصلے کے محتاج ہیں، قاضی کے فیصلے کے بغیر از خود عورت کو تفریق کا اختیار نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں :الحیلۃالناجزۃ:۸۳ تا ۸۶)
تفریق بسبب ظلم و ضرر
” زوجہ اپنے شوہر کے ظلم و ضرر کے سبب بذریعہ عدالت تفریق طلب کرنے کی مجاز ہے .” (مجموعہ قوانین اسلام:۲ /دفعہ۱۲۸)
دفعہ ۱۲۹
’’ شوہر کے ظلم کے سبب عدالت زوجین میں جو تفریق کرائے گی وہ بمنزلہ ایک طلاق بائن کےہوگی‘‘ ۔ (ایضا)
واضح رہے کہ شوہر کی طرف سے بیوی پر ظلم و زیادتی نیز شقاق یعنی ایک دوسرے سے نفرت، عداوت اور دشمنی کی بنیاد پر فسخ نکاح احناف کے نزدیک نہیں ہے، لیکن ضرورت و حاجت کے پیش نظر احناف نے امام مالک کا قول اختیار کر لیا ہے، موجودہ دارالقضاؤں کا عمل اسی پر ہے۔
” شقاق” کا مفہوم یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات آخری درجہ میں خراب ہوجائیں، ان کے درمیان نفرت پیدا ہو جائے اور وہ یہ سمجھیں کہ اب ان کا ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے زندگی گزارپانا مشکل ہے ،خواہ یہ نفرت بیوی کو تکلیف دہ مار پیٹ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو یا بیوی کے نشوز یا دونوں خاندانوں میں دشمنی یا دیگر وجوہات سے پیدا ہوئی ہو۔
یہ بھی واضح رہے کہ ایک فریق کی طرف سے بھی تنفر ہو تو شقاق متحقق ہو جائے گا، اس لیے کہ ایک فریق نفرت کرےگا،دوسرا نہ کرے تب بھی وہ الگ گوشہ اختیار کرنے والا قرار دیا جائے گا ۔(اسلامی عائلی قوانین: ۱۷۶- ۱۷۷)
شوہر کا کسی موذی مرض میں مبتلا ہونا
اگر شوہر جذام ، برص یا ان جیسے کسی موذی مرض میں نکاح کے بعد مبتلا ہوا تو عورت کی درخواست پر قاضی تحقیق حال اور ثبوت شرعی کے بعد شوہر کو ایک قمری سال علاج کی مہلت دے گا، اس کے بعد بھی اگر افاقہ نہ ہوا اور بيوی پھر تفریق کا مطالبہ کرے تو قاضی تفریق کر دے گا۔
تشریح :
اگر شوہر نکاح کے پہلے سے ان امراض میں مبتلا تھا اور عورت کو بھی پہلے سے اس کا علم تھا، اس کے باوجود عورت نے نکاح کیا تو اب اسے مطالبہ تفریق کا حق حاصل نہ ہوگا ۔ (مجموعہ قوانین اسلامي : ۱۹۴- دفعہ۷۵ )
” مجموعہ قوانین اسلام”ج۲/۶۱۰ – دفعہ۱۲۱ یوں ہے: ” شوہر میں ایسے تناسلی یا متعدی مرض یا عیب کی بناء پر جو اتصال جنسی میں مانع ہو یا شوہر کی طرف سے زوجہ کی طبیعت میں ایسا تنفر پیدا کرنے کا موجب ہو جو باہمی معاشرت کو نا ممکن بنا دے، زوجہ کو حق ہوگا کہ بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حکم حاصل کرلے۔ مگر لازم ہوگا جہاں تک ممکن ہو مجموعہ ٔہذا کے احکام مندرجہ باب ہذا کا اطلاق کیا جائے گا۔” (مجموعہ قوانین اسلام ۲/۶۱۰)
مجنون کی بیوی کا حکم
مجنون کی بیوی کے لیے خیار فسخ کچھ شرائط کے ساتھ ہیں اور جنون کی دونوں صورتوں میں فسخ کا اختیار ہے، خواہ عقد نکاح کے وقت جنون موجود ہو اور بے خبری میں نکاح ہوجائے یا عقد کے وقت جنون نہیں تھا مگر نکاح کے بعد لاحق ہو گیا ہو ،خواہ ہم بستری سے پہلے ہو گیا ہو یا بعد میں ہو گیا ہو، البتہ پہلی صورت میں امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اختیار ہوگا اور مالکیہ کے نزدیک بھی ،جب کہ دوسری صورت عقد نکاح کے بعد پیدا ہونے والے جنون میں صرف مالکیہ کے نزدیک اختیار ہوگا۔
اس لیے مجنون کی بیوی کو خیار فسخ حاصل ہونے کے لیے درج ذیل شرطیں ہیں:
۱- عورت کی طرف سے رضامندی نہ پائی جائے، اگر نکاح سے پہلے جنون کا پتہ تھا اور اس کے باوجود نکاح کیا گیا تو خیار فسخ حاصل نہیں ہوتا اور اگر نکاح کے بعد جنون ہوا ہو تو یہ شرط ہے کہ جنون کی خبر ہونے کے بعد اس کے نکاح میں رہنے پر رضامندی ظاہر نہ کی ہو، اگر ایک مرتبہ بھی رضامندی ظاہرکرچکی، تو خیار فسخ باطل ہوگیا۔
۲- جنون کا پتہ لگنے کے بعد اپنے اختیار سے عورت نے جماع یا دواعئ جماع کا موقع نہ دیا ہو، البتہ اگر مجنون نے جبر و اکراہ سے ہم بستری وغیرہ کر لی تو اس سے خیار ساقط نہیں ہوتا۔ (الحیلۃ الناجزۃ: ۲۹۷-۲۹۸)
مفقود الخبر کی بیوی کا حکم
مفقود الخبر سے مراد ایسا لاپتہ شخص ہے، جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر چکا ہے، لاپتہ شخص کی بیوی کا حکم یہ ہے کہ وہ دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے اور بذریعہ شہادت شرعیہ ثابت کر ے کہ میرا نکاح فلاں شخص سے ہوا تھا، اس کے بعد گواہوں سے اس کا لاپتہ ہونا ثابت کرے،اس کے بعد قاضی کی ذمہ داری ہوگی کہ خود لاپتہ شخص کی تفتیش و تلاش کرے اور جب پتہ ملنے سے مایوس ہو جائے تو عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم کرے پھر اگر ان چار سال کے اندر بھی لاپتہ شخص کا پتہ نہ چلے تو لاپتہ شخص کو اس کی مدت کے ختم ہونے پر مردہ تصور کیا جائے گا اور ان چار سال کے ختم ہونے کے بعد چار ماہ دس دن عورت کو عدت وفات گزار کر دوسری جگہ نکاح کا اختیار ہوگا ۔
لاپتہ شخص کی بیوی کے لیے یہ چار سال کے مزید انتظار کا حکم اس صورت میں ہے جبکہ عورت اتنی مدت صبر و تحمل اور عفت کے ساتھ گزار سکے، لیکن یہ صورت ممکن نہ ہو ،یعنی عورت کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اس نے ایک عرصہ دراز تک لاپتہ شخص کا انتظار کرنے کے بعد مجبور ہو کر اس حالت میں درخواست دی ہو تو اس صورت میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ چار سال کی میعاد میں تخفیف کر دی جائے، کیونکہ جب عورت کے ابتلا کا اندیشہ ہو تو فقہاء کے نزدیک کم از کم ایک سال صبر کرنے کے بعد تفریق جائز ہے. (الحيلۃ الناجزۃ ۳۰۰ /۳۰۸)اسلامی عائلی قوانين ۱۶۷- مجموعہ قوانين اسلامی ۱۹۵- دفعہ: ۷۷)
غائب غیر مفقود شخص کا حکم
ایسا شوہر جو بالکل لاپتہ نہ ہو لیکن اس کا کوئی متعین پتہ بھی نہ ہو، کبھی یہاں اور کبھی وہاں ہونے کو سنا جاتا ہو، لیکن بیوی کے پاس نہ آتا ہو اور نہ بیوی کو اپنے پاس بلاتا ہو، نہ اس کے خرچ وغیرہ کا خیال رکھتا ہو، نہ بیوی کو طلاق دے کر آزاد کرتا ہو بلکہ معلقہ بنا کر ایسی تنگی اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ہو کہ بیوی کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے سنگ دل وظالم شوہر کو “غائب غیر مفقود” کہا جاتا ہے، ایسےغائب شخص کی بیوی کو حق ہے کہ اپنے شوہر سے رہائی حاصل کرنے کے لیے دارالقضاء میں درخواست دے، درخواست دیتے وقت ان امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:
۱- بیوی گواہوں کے ذریعے غائب غیر مفقود شوہر کے ساتھ اپنا نکاح ثابت کرے ۔
۲- یہ بھی ثابت کرے کہ وہ نفقہ دے کر نہیں گیا ہے ۔
۳- اور یہ بھی کہ اس نے نفقہ معاف نہیں کیا ہے ۔
نکاح اور وجوب نفقہ کے ثابت ہونے کے بعد قاضی اس غائب غیر مفقود شخص کے پاس حکم بھیجے گا اور ضابطے کی کارروائی سے گزرنے کے بعد عورت کے مطالبہ تفریق پر نکاح فسخ کرے گا ۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: اسلامی عائلی قوانین ۱۶۳-۱۶۵-الحیلۃ الناجزہ ۳۰۰ تا ۳۰۸- مجموعہ قوانین اسلامی ۱۹۷-دفعہ:۷۸)
فسخ نکاح کےبعض جدید اسباب اور تطبیقات
۱-فالج لقوہ وغیرہ ۔
ازدواجی زندگی میں جائز طریقے سے خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے، اس لیے ہر وہ مرض جو مانعِ جماع ہو موجب تفریق ہوسکتا ہے، اگر شوہر کو فالج ہو جائے یااس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے جو مردانہ قوت پر اثر انداز ہو تو اس کی تین صورتیں ہوں گی:
۱- فالج زدہ یا ایکسیڈنٹ سے متاثر شوہر کے ساتھ اگر بیوی رہنا چاہے تو تفریق کی نوبت نہیں آئے گی، وفادار بیوی کو ایسا ہی کرنا چاہیے، شوہر نے اپنی صحت کے زمانے میں اس کا خیال رکھا ہے تو بیماری کے زمانے میں بیوی کو شوہر کا خیال رکھنا چاہیے ،اگر بیوی ساتھ رہنا چاہے تو کوئی جدا نہیں کر سکتا ۔
۲- اگر بیوی ساتھ رہنا چاہتی ہے تو پھر دیکھا جائے گا کہ فالج کس حد تک پہنچا ہوا ہے، اگر وہ مانع جماع نہیں ہے بلکہ فالج وغیرہ کے باوجود شوہر جماع پر قادر ہے تو ایسی صورت میں بیوی کو فسخ نکاح کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا اور اسے معمولی بیماریوں پر قیاس کیا جائے گا، اگر وہ فسخ نکاح کامطالبہ کرتی ہے تو اس کا مطالبہ رد کر دیا جائے گا ۔
۳- لیکن اگر فالج کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ وہ جماع پر قادر نہیں اور نہ صحت یابی کے روشن امکانات ہیں تو بیوی کو تفریق کا مطالبہ اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے دوسرے نکاح کی خواہش کرنے کا حق ہے، ایسی صورت میں پہلے تو شوہر سے طلاق لینے کی کوشش کی جائے گی، اگرطلاق دے دے تو بہتر ہے، ورنہ قاضی اس کی بیوی کی مجبوری سمجھ کر خلع کا مطالبہ کرے ،اگر وہ خلع قبول کر لے تو ٹھیک ہے،خلع سے بیوی بائنہ ہو کر جدا ہوجائے گی ، ورنہ قاضی فورا فسخ کر دے گا ،فوری فسخ نکاح کو مجبوب کے مسئلے پر قیاس کیا جائے گا، مجبوب اور وطی پر غیر قادر شوہر کے بیان میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔
اگر فالج زدہ شخص کی صحت کی امید اور توقع ہو تو عنین کی طرح علاج معالجے کا موقع اور مہلت دی جائے گی اور فالج کے ماہر ڈاکٹروں کے مشورے سے مدت متعین کی جائےگی، عنین کی طرح ایک سال کی مہلت کافی نہ ہوگی ۔ لیکن یہ بھی خیال رہے عموما فالج وغیرہ میں وقت زیادہ لگتا ہے ،علاج لمبا چلتا ہے، اور فائدہ بہت سست روی کے ساتھ ہوتا ہے، بسا اوقات شفاء کا سلسلہ ٹھہر جاتا ہے ،ایسی صورت میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عورت کو کتنا انتظار کرنا پڑسکتا ہے یا کتنا صبر اور جبر کرنا پڑےگا۔ اس لئے یہ معاملہ عورت کی قوّتِ برداشت اور تحمل کے امتحان سے بھی وابستہ ہے ، اورموجودہ پر فتن اور بے حیائی اور فحاشی کا ماحول سب کے علم ونظر کے سامنے ہے ۔
ایسی بیماری جس سے حقِ زوجیت کی ادائیگی نہ ہو سکے۔
کبھی شوہر ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے جس میں جماع کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور بیماری لا علاج ہوتی ہے، موذی يا متعدی ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ ہو اور اپنی عفت وعصمت کے تحفظ کیلئے تفریق چاہتی ہو تو شوہر کو طلاق یا خلع پر آمادہ کرنے کے بعد اگر کوشش کامیاب نہ ہو سکے تو عورت قاضی سے فسخ اور تفریق کا مطالبہ کر سکتی ہے ،اور قاضی مجبوب کی طرح یہاں بھی فوراً تفریق کر دے گا۔
” قال محمدؒ: إن كان بالزوج عيب لا يملك الوصول إلى زوجته فالمرأة مخيرة بعد ذلك. ينظر إن كان العيب كالجنون الحادث والبرص ونحوهما فهو والعنة سواء، فينتظر حولا، وإن كان الجنون أصليا أو به مرض لا يرجي برؤه فهو والجب سواء ،وهى بالخيار ، إن شاءت رضيت بالمقام معه وإن شاءت رفعت الأمر إلى الحاكم حتى يفرق بينهما.”(الحيلة الناجزة۹۰/ نقلا عن الفتاوی الحمادية: ۷۶)
“مجموعہ قوانین اسلام ” میں ہے:” ہر وہ مرض جو مانع جماع ہو موجب تفریق ہو سکتا ہے۔” (مجموعہ قوانین اسلام۲/۶۲۲)
شوہر کی ایسی بیماری جو باعث نفرت ہو
اگر شوہر ایسی بیماری میں مبتلا ہو جو عورت کے لیے باعث نفرت ہو جیسے برص،جذام، یا ایسی کوئی بیماری جس سے قوت جماع ختم تو نہ ہو، لیکن تنفر کا سبب ہو، یا جنسی آسودگی اور قربت حاصل نہ ہوسکے تو امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک عورت تفریق کا مطالبہ کر سکتی ہے، یہی مسلک راجح ہے،ایڈز اور علاج ٹی بی اور کینسر وغیرہ متعدی اور مہلک بیماریوں میں بھی بیوی کے مطالبہ پر تفر یق کر دی جائے گی ۔
عمر قیدکی سزا یافتہ شوہر
کسی جرم میں عمر قید کی سزا یافتہ شوہر جس کی رہائی کی ساری کوششیں ناکام ہو جائیں اور اس کی بیوی اپنی عفت و عصمت پر خطرہ اور اندیشہ محسوس کرے تو اس کی بیوی کو تفریق کا مطالبہ کرنے کا حق ہوگا۔ پہلے شوہر سے طلاق دینے یا بصورت دیگر خلع دینے کا مطالبہ کیا جائے گا،جب طلاق اور خلع میں کامیابی نہ مل سکے تو عدم ادائے نان و نفقہ ،عدم وطی اور عفت و آبرو کی حفاظت وغیرہ کو علت اور بنیاد بنا کر دارالقضاء یامحکمہ شرعیہ کے ذریعے فسخ نکاح کر دیا جائے گا،اگر اتفاق سے شوہر قید سے رہا ہو کر آ جائے تو بیوی نے اگر دوسرا نکاح نہیں کیا تھا تو دوبارہ اس سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے اگر وہ دوسرا نکاح کر چکی ہو تو وہ نکاح باقی رہے گا، کیونکہ سابق شوہر سے نکاح فسخ ہو چکا ہے اور فسخ نکاح طلاق بائن کے حکم میں ہوتا ہے۔
اگر شوہر سے رابطہ ناممکن ہو تو فسخ نکاح کا فیصلہ پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے اس لیے کہ اگر وہ واپس آجائے توخواہ عورت کے دوسرے نکاح کے بعد آئے یا دوسرے شوہر کے دخول کے بعد آئے دونوں سورتوں میں بیوی پہلے شوہر ہی کی ہوگی۔(الحیلۃ الناجزۃ)