فسخ نکاح کے چند اسباب اور کچھ جدید شکلیں
January 4, 2025معاصر اجتہاد
January 4, 2025
اجتہاد و تقلید کے درمیان نقطۂ اعتدال
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ
(سابق ناظم ندوۃ العلماء)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒکے ان وہبی کمالات اور تجدیدی امتیازات میں سے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کوخاص طور پر نواز اتھا ، وہ متوازن و معتدل مسلک اور وہ نقطۂ اعتدال ہے، جو انہوں نے اجتہاد و تقلید کے درمیان اختیار کیا، اور جو ان کی طبع سلیم ، ذوق صحیح اور حقیقت پسندی کا بہترین مظہر ہے، ایک طرف وہ لوگ تھے، جو ہر مسلمان کو خواہ عامی ہو یا خاص براہ راست کتاب وسنت پر عمل کرنے اور ہر معاملہ میں وہیں سے احکام حاصل کرنے کا مکلف قرار دیتے تھے، اور تقلید کی مطلق حرمت کے قائل تھے، اگر ان کے کلام میں اس کی صراحت نہیں ملتی تو ان کے طرز عمل اور ان کی تحریروں سے قدرتی طور پر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے، اس گروہ میں متقد مین میں علامہ ابن حزم ؒپیش پیش نظر آتے ہیں، لیکن یہ بالکل ایک غیر عملی بات ہے اور اس کا ہر مسلمان کو مکلف قرار دینا تکلیف مالا يطاق ہے۔
دوسری طرف وہ گروہ تھا جو تقلید کواسی طرح ہر مسلمان پر واجب قرار دیتا تھا، اور اس کے تارک کو سخت فقہی احکام’ ’فاسق‘ ‘اور ’’ضال‘‘سے یاد کرتا تھا جیسا کہ پہلا گروہ مقلدین اور کسی خاص مذہب فقہی کے متبعین کو، یہ گروہ اس حقیقت کو بھول جاتا تھا کہ تقلید عوام کو نفسانیت اور خودرائی سے بچانے ،مسلم معاشرہ کو انتشار اور فوضویت(انار کی) سے محفوظ رکھنے ، دینی زندگی میں وحدت و نظم پیدا کرنے ، اور احکام شریعت پر بسہولت عمل کرنے کا موقع دینے کی ایک انتظامی تدبیر ہے، لیکن انہوں نے اس انتظامی عمل کو تشریعی عمل کا درجہ دے دیا، اور اس پر اس شدت سے اصرار کیا جس نے اس کو ایک مذہب فقہی اور مسئلہ اجتہادی کے بجائے منصوص اور قطعی عمل اور مستقل دین کا درجہ دےدیا۔
شاہ صاحبؒ نے اس بارے میں جو مسلک اختیار کیا ، اور اس کی جو تعبیر کی وہ روح شریعت سے قریب تر، قرن اول کے عمل سے زیادہ ہم آہنگ ، فطرت انسانی سے زیادہ مطابق اور عملی زندگی سے سازگار ہے۔ اس سلسلہ میں شاہ صاحبؒ چوتھی صدی ہجری سے پیشتر کے طرز عمل کا ذکر کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی دینی زندگی میں عبادات و معاملات میں جو نئے نئے مسائل و مشکلات پیش آتے تھے ، ان کو وہ کس طرح حل کرتے تھے، اور اس سلسلہ میں وہ کیا راستہ اختیار کرتے تھے ،’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے باب ’’حكاية حال الناس قبل المأة الرابعة وبعدها‘‘(چوتھی صدی ہجری سے پیشتر اور اس کے بعد کے لوگوں کا مسائل دینی کی تحقیق و عمل کے بارے میں کیا طرز عمل تھا ؟ ) میں تحریر فرماتےہیں :
’’معلوم ہونا چاہئے کہ چوتھی صدی سے قبل کے لوگ کسی ایک معین مذہب ( فقہی ) کی پابندی اور اس کی مکمل تقلید پر اجماع کیے ہوئے نہیں تھے، ابو طالب مکی (اپنی مشہور کتاب )’’ قوت القلوب ‘‘میں لکھتے ہیں: کہ تصنیفی انداز کی کتابیں ( اور فقہی مسائل کے مجموعے ) اس زمانہ کے بعد کی باتیں ہیں ، لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کا کہنا کسی ایک مذہب پر فتوی دینا، اس کے قول کو دستور العمل بنالینا اور اس کو نقل کرنا اور اسی مذہب کے اصولوں اوربنیادوں پر تفقہ کا پہلی اور دوسری صدی میں وجود نہیں تھا۔
میں اس میں اضافہ کر کے کہتا ہوں کہ دو ابتدائی صدیوں کے بعد تخریج کا کسی قدر سلسلہ شروع ہوا، لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ چوتھی صدی کے لوگ ایک ہی مذہب کے دائرہ میں رہ کر تقلید خالص کے پابند اور اسی کے مطابق مسائل واحکام میں تفقہ اور اسی مذہب کے تحقیقات و اجتہادات کی نقل و روایت کے عاد ی نہیں تھے، جیسا کہ تتبع سے معلوم ہوتا ہے۔
امت اور ( مسلم معاشرہ میں) دو طبقے تھے ایک علماء کا ایک عوام کا ۔ عوام کا تو قصہ یہ ہے کہ وہ ان اجماعی مسائل میں جن میں مسلمانوں یا جمہور مجتہدین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ صرف صاحب شرع (ﷺ) کی تقلید کرتے تھے، وہ وضوء،غسل کرنے اور نماز و زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ اور اسی طرح کی عبادات و فرائض ، اپنے والدین یا اپنے شہر کے استادوں ، عالموں سے اخذ کرتے تھے، اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے، اور اگر کوئی نئی بات پیش آتی تو اس کے بارے میں کسی مفتی سے بھی جس تک ان کی رسائی ہوتی تھی، کسی خاص مذہب کے تعین کے بغیر رجوع کر لیتے تھے، اور اس سے مسئلہ پوچھ لیتے تھے، جہاں تک خواص کا تعلق ہے، ان کا معاملہ یہ تھا کہ جن کا فن حدیث تھا، وہ حدیث سے اشتغال رکھتے تھے، ان کو احادیث نبویہ ﷺاور آثار صحابہ کا اتنا ذخیرہ مل جاتا تھا، کہ اس کی موجودگی میں ان کو اس مسئلہ میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ، ان کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی حدیث جو درجۂ شہرت، استفاضہ یا صحت کو پہنچی ہوتی تھی ، یا صحیح حدیث ہوتی تھی ، موجود تھی ، جس پر فقہاء اور علمائے کبار میں کسی نہ کسی نے عمل کیا ہوتا تھا، اور کسی کے پاس اس کو ترک کرنے کا کوئی معقول عذر نہیں ہوتا تھا، یا جمہور صحابہؓ اور تابعین کے پے در پے ایک دوسرے کی تائید کرنے والے اقوال ان کے پاس ہوتے تھے، جن سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی ، اگر ان میں سے کسی کو مسئلہ میں کوئی ایسی چیز نہ ملتی جس سے اس کا قلب مطمئن ہوتا ، نقول کے تعارض یا ترجیح کے اسباب کے عدم وضاحت کی وجہ سے یا کسی اور معقول سبب سے تو پھر وہ اپنے پیشر و فقہاء اور علماء کے کلام کی طرف رجوع کرتا تھا، اگر اس کے بارے میں اس کو دوقول ملتے تو ان میں سے وہ اس کو اختیار کر لیتا جو زیادہ قوی اور مدلل ہوتا ، چاہے یہ قول علمائے مدینہ کا ہوتا، یا علمائے کوفہ کا، جو تخریج (اجتہاد واستنباط ) کی اہلیت رکھتے تھے ، وہ ایسے مسئلہ میں جس میں ان کو کوئی صراحت نہیں ملتی تھی ،تخریج واجتہاد سے کام لیتے تھے، یہ لوگ اپنے اساتذہ یا اہل گروہ کی طرف منسوب کیے جاتے تھے، مثلاً کہا جاتا تھا کہ فلاں شافعی ہے، فلاں حنفی ، علمائے حدیث میں بھی جو کسی مذہب سے زیادہ اتفاق کرتا تھا ، اس کی طرف منسوب ہو جاتا تھا، مثلاً نسائی اور بیہقی کی نسبت امام شافعی کی طرف کی جاتی تھی ، اس زمانہ میں قضاء وافتاء پر اسی کا تقرر کیا جاتا تھا، جس میں اجتہاد کی صلاحیت ہوتی تھی، فقیہ بھی وہی کہلاتا جو مجتہد ہوتا ، پھر ان صدیوں کے بعد دوسری طرح کے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے چپ وراست کا راستہ اختیار کیا۔‘‘ ( حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۵۲- ۱۵۳)
تقلید کی جائز اور فطری شکل
شاہ صاحب ؒغایت انصاف اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایسے شخص کو تقلید کے بارے میں معذور سمجھتے ہیں جو کسی مذہب فقہی یا معین امام کا مقلد تو ضرور ہے لیکن اس کی نیت محض صاحب شریعت کی پیروی اور اتباع نبوی ﷺہے، لیکن وہ اپنے اندر اس کی اہلیت نہیں پاتا کہ وہ حکم شرعی اور جو چیز کتاب وسنت سے ثابت ہے اس تک براہ راست پہنچ جائے ، اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، مثلاً وہ عامی شخص ہے، یا اس کے پاس براہ راست تحقیق کرنے کیلئے وقت و فرصت نہیں ، یا ایسے وسائل ( علم وتحقیق ) حاصل نہیں جن سے وہ نصوص کا خود پتہ چلا لے، یا ان سے مسئلہ استنباط کرلے ، شاہ صاحبؒ علامہ ابن حزمؒ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہ تقلید حرام ہے اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے علاوہ کسی کےقول کو بلا دلیل قبول کرلے، تحریر فرماتے ہیں :
’’ابن حزم ؒکے قول کا مصداق وہ شخص نہیں جو رسول اللہ ﷺکے قول کے علاوہ کسی کو اپنے لئے واجب الاطاعت نہیں سمجھتا ، وہ حلال اسی کو گردانتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺنے حلال کیا اور حرام اسی کو مانتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا، لیکن چونکہ اس کو براہ راست آں حضرت ﷺ (کے اقوال واحوال) کا علم حاصل نہیں، اور وہ آپ کے مختلف اقوال میں تطبیق دینے کی صلاحیت اور آپ کے کلام سے مسائل استنباط کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ، وہ کسی خدا ترس عالم کا دامن پکڑ لیتا ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ صحیح بات کہتا ہے، اور اگر مسئلہ بیان کرتا ہے تو اس میں وہ محض سنت نبویﷺ کا پیرو اور ترجمان ہوتا ہے، جیسے ہی اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ خیال صحیح نہیں تھا ، اسی وقت وہ بغیر کسی بحث و اصرار کے اس کا دامن چھوڑ دیتا ہے، بھلا ایسے آدمی کو کوئی کیسے مطعون کرے گا ، اور اس کو سنت و شریعت کامخالف قرار دے گا ؟
سب کو معلوم ہے کہ استفتاء اور افتاء کا سلسلہ عہد نبوی ﷺسےلے کر برابر چلتا رہا ہے، اور ان دونوں میں کیا فرق ہے کہ ایک آدمی ہمیشہ ایک سے فتوی لیتا ہے، یا کبھی ایک سے فتوی لیتا ہے کبھی دوسرے سے، ایسی حالت میں کہ اس کا ذہن صاف ہے، اس کی نیت سلیم ہے، اور وہ صرف اتباع شریعت چاہتا ہے،یہ بات کیسے جائز نہیں؟ جبکہ کسی فقیہ کے بارے میں ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اللہ نے اس پر آسمان سے فقہ اتاری ، اور ہم پر اس کی اطاعت فرض کی ہے، اور یہ کہ وہ معصوم ہے تو اگر ہم نے ان فقہاء اور ائمہ میں سے کسی کی اقتداء کی تو محض اس بناء پر کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا عالم ہے، اس کا قول (فتوی) دو حالتوں میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں ، یا وہ کتاب وسنت کے صریح حکم پر مبنی ہے، یا وہ استنباط کے اصولوں میں سے کسی اصول کے مطابق اس سے مستنبط کیا ہوا ہے، یا اس نے قرائن سے یہ سمجھ لیا ہے کہ حکم فلاں علت کے ساتھ وابستہ ہے ( اور وہ علت یہاں پائی جاتی ہے ) اور اس کا قلب اس بات پر مطمئن ہو گیا ہے، اس بناء پر اس نے غیر منصوص کو منصوص پر قیاس کیا، گویا وہ زبان حال سے کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جہاں یہ علت پائی جائے ، وہاں حکم یہ ہوگا ، اور یہ قیاسی مسئلہ اس عموم اور کلیہ میں شامل ہے، اس طرح اس حکم کی نسبت بھی آں حضرت کی طرف کی جاسکتی ہے، لیکن ظنی طریقہ پر، اگر صورت حال یہ نہ ہوتی تو کوئی صاحب ایمان کسی مجتہد کی تقلید نہ کرتا، اگر ہمیں رسول معصوم ﷺ جن کی طاعت کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیا ہے کوئی حدیث قابل وثوق سند سے پہنچے جو اس مجتہد یا امام کے فتوے اور قول کے خلاف ہو، اور ہم اس حدیث کو چھوڑ دیں اور اس ظنی طریقہ کی پیروی کریں، تو ہم سے بڑھ کر ناروا طریقہ اختیار کرنے والا کون ہوگا ، اور کل ہمارا خدا کےسامنے کیا عذر ہو گا ؟‘‘ ( حجۃ اللہ البالغۃ ص۱۵۵- ۱۵۶)
مذاہب اربعہ کی خصوصیت
اس منصفانہ اور محققانہ تجزیہ کے بعد شاہ صاحب ان چار فقہی مذاہب (حنفی ،مالکی ، شافعی ،حنبلی) کے بارے میں جن پر عالم اسلام میں عام طور پر عمل کیا جارہا ہے، اپنے رسالہ’’عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد‘‘ میں جو ’’بہ قامت کہتر بقیمت بہتر ‘‘کا مصداق ہے تحریر فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو کہ ان مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں بڑی مصلحت ہے، اور ان چاروں کو بالکل نظر انداز کر دینے میں بڑا مفسدہ ہے، اس کے کئی وجوہ و اسباب ہیں، ایک یہ کہ امت کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ شریعت کے معلوم کرنے کے بارے میں وہ سلف متقدمین پر اعتماد کرے ، تابعین نے اس بارے میں صحابہؓ پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر وعلی ہذا القیاس ہر دور کے علماء نے اپنے پیشروؤں پر اعتماد کیا ، عقل سے بھی اس کا مستحسن ہونا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ شریعت کے علم کا ذریعہ نقل اور استنباط ہے، اور نقل جب ہی ممکن ہے، جب ہر طبقہ اپنے اس پہلے طبقہ سے جو اس سے متصل ہے اخذ کرے، استنباط میں بھی یہ ضروری ہے کہ متقدین کے مذاہب معلوم ہوں تا کہ ان کے اقوال کے دائرہ سے خارج ہو کر خرق اجماع نہ ہو جائے ، اس لیے ان اقوال کے جاننے اور سابقین سے مدد لینے کی ضرورت ہے،دوسرے علوم وفنون اور ہنروں اور پیشوں کا بھی یہی حال ہے، صَرف، نحو، طب ، شاعری ، لوہاری تجاری ، رنگ ریزی ، سب اسی وقت حاصل ہوتے ہیں ، جب ان کے استادوں اور ان کے ساتھ اشتغال رکھنے والوں کی صحبت اختیار کی جائے، اس کے بغیر مہارت حاصل ہو جائے ایسا بہت کم پیش آتا ہے، اگر چہ عقلاً ایساممکن ہے لیکن واقعۃً ہوتا نہیں۔
جب یہ بات متعین ہوگئی کہ سلف کے اقوال و تحقیقات پر اعتماد ضروری ہے، تو پھر یہ ضروری ہو گیا کہ جن اقوال پر اعتماد کیا جا رہا ہے، وہ سند صحیح سے مروی، مشہور کتابوں میں مدون ہوں، اور ان پر ایسا کام ہوا ہو کہ اس میں راجح اور مرجوح اور عام و خاص کا امتیاز آسان ہو، جہاں اطلاق پایا جاتا ہے، وہاں یہ پتہ چل سکے کہ اس میں مقید کیا ہے؟ مختلف اقوام میں تطبیق دی جا چکی ہو، اور احکام کے علل پر روشنی ڈالی جا چکی ہو، نہیں تو ایسے مذاہب واجتہادات پر اعتماد صیح نہیں ہوگا، ان پچھلے ادوار میں کوئی مذہب ( فقہی ) بھی ایسا نہیں ہے، جس میں یہ صفات پائے جاتے ہوں، اور یہ شرطیںپوری ہوتی ہوں سوائے ان مذاہب اربعہ کے ۔‘‘(عقد الجيد ص۳۴-۳۸)
اس طرح شاہ صاحب نے اجتہاد و تقلید کے درمیان وہ نقطۂ اعتدال اختیار کیا ہے، جو مقاصد شریعت ، فطرت انسانی اور واقعات کی دنیا سے پورے طور پر مطابق ہے، انہوں نے تقلید کے ساتھ یہ شرط لگا دی ہے کہ اس بارے میں ذہن صاف اور نیت درست ہو کہ مقصود صاحب شریعت ﷺ کا اتباع اور کتاب وسنت کی پیروی ہے اور یہ اس اعتماد پر ہے کہ ہم جس کو واسطہ بنارہے ہیں، وہ کتاب وسنت کا عالم اور شریعت اسلامی کا محض نمائندہ اور ترجمان ہے، نیز یہ کہ ذہن اس کیلئے تیار رہے، (خواہ اس کا موقع مدتوں میں آئے ) کہ جب اس بات کا یقین پیدا ہو جائے گا کہ صورت حال اس سے مختلف ہے، اور سنت سے ثابت حکم دوسرا ہے تو ایک صاحب ایمان کو دوسری شکل کے اختیار کرنے میں کبھی تامل نہ ہوگا۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً(سوره نساء:۶۵)
( ترجمہ ) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے ۔
ہر زمانہ میں اجتہاد کی ضرورت
مذاہب اربعہ کی خصوصیات اور فقہائے محدثین کی خدمات اور ان کی عظمت کا پورا اعتراف کرتے ہوئے اور اس فقہی وحدیثی ذخیرہ کو بیش قیمت اور قابل استفادہ قرار دیتے ہوئے اور اس سے بے نیازی واستغناء کو مضر و محرومی کا سبب مانتے ہوئے شاہ صاحب اس کے قائل ہیں کہ اجتہاد (اپنی شرطوں اور ضروری احتیاطوں کے ساتھ ) ہر دور کی ضرورت ، حیات انسانی اور تمدن و معاشرت کی تغیر پذیری، اور نمو وارتقا کی صلاحیت اور انسانی ضروریات، حوادث و تغیرات کے تسلسل کا فطری تقاضا اور شریعت اسلامی کی وسعت ، اس کے من جانب اللہ ہونے اور قیامت تک انسانوں کی رہنمائی اور معاشرہ کے جائز تقاضوں کی تکمیل کی صلاحیت رکھنے کا ثبوت ہے، جس کا اظہار اور ثبوت ہر دور میں ضروری اور حاملین شریعت کا فرض ہے۔
مقدمۂ مصطفی میں لکھتے ہیں :
’’اجتہاد ہر زمانہ میں فرض بالکفایہ ہے، یہاں اجتہاد سے مراد اجتہاد مستقل نہیں ، جیسا کہ امام شافعی کا اجتہاد تھا، جو جرح و تعدیل، زبان دانی وغیرہ میں کسی دوسرے کے محتاج نہ تھے، اور اسی طرح اپنی مجتہدانہ درایت میں (اپنے پورے اقسام کے ساتھ ) وہ دوسرے کے تابع نہ تھے، مقصود اجتہاد منتسب ہے، اور وہ نام ہے احکام شرعی کو ان کے تفصیلی ادلہ کے ذریعہ جاننے کا، اور مجتہدین کے طریقہ پر تفریع مسائل اور ترتیب احکام کا ، خواہ وہ کسی صاحب مذہب کی رہنمائی سے ہو۔
اور ہم جو یہ کہتے کہ اجتہاد اس زمانہ میں فرض ہے (اور یہ محققین اہل علم کا اجماعی مسئلہ ہے ) اس کی وجہ یہ ہے کہ مسائل کثیر الوقوع ہیں جن کا حصر ممکن نہیں ، اور ان کے بارے میں اللہ کے حکم کا جاننا واجب ہے، اور جو تحریر و تدوین میں آچکا ہے وہ نا کافی ہے، اور ان کے بارے میں اختلافات بہت ہیں، جن کا حل کرنا دلائل کی طرف رجوع کیے بغیر ممکن نہیں ، ائمہ مجتہدین سے جو مسائل کی روایات منقول ہیں، ان میں اکثر میں انقطاع ہے کہ قلب ان پر اطمینان کے ساتھ اعتماد نہیں کر سکتا ، اس لیے ان کو قواعد اجتہاد پر پیش کیے اور تحقیق کیے بغیر معاملہ بنتا نہیں ۔‘‘(مقدمہ مصفے ( فارسی ) ص ۱۲ مطبع فاروقی دہلی ۔