مولانا محمد تقی امینیؒ اور ان کی فقہی خدمات
مولانامحمد علاء الدین ندوی
عمیدکلیۃ اللغۃ ،دارالعلوم ندوۃ العلماء
پیدائش
مولانا پروفیسر محمد تقی امینیؒ ۵؍ مئی ۱۹۲۶ء مطابق ۲۲؍شوال ۱۳۴۴ھ کو ضلع بارہ بنکی کے ایک گاؤں صُبیحہ میں پیدا ہوئے ، والد بزرگوار کا نام عبد الحلیم تھا ،اللہ نے اس نومولود کی قسمت میں لکھ دیا تھا کہ اسے علم و حلم کا پیکر اور تقوی شعار بندۂ مومن و مخلص بن کر دین و دعوت کی روشنی پھیلانا اور حکمت و بصیرت کے موتی چننا اور انہیں لٹاناہے۔
تعلیم
مولانا نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی ، یہاں حفظ و تجوید ، اردو، عربی اورفارسی کی تعلیم دی جاتی تھی ، پھر جامع العلوم کانپور میں پڑھا ، وہاں سے مدرسہ امینیہ دہلی بھیجے گئے ، یہاں مولانا مفتی کفایت اللہ ؒ(مصنف تعلیم الاسلام)اور ان کے دوسرے جلیل القدر رفقا (علما)سے کسب فیض کیا(۱)
تدریس
مدرسہ امینیہ سے تحصیل علم کی تکمیل کے بعد مولانا نے مدرسہ سبحانیہ دہلی، جامع العلوم کانپور، مدرسہ فرقانیہ ، مدرسہ ثانویہ ناگپور ، دارالعلوم معینیہ اجمیر اور مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ میں تدریسی خدمات انجام دیں ، علی گڑھ (جو آپ کے لئے وطن ثانی کی حیثیت اختیار کر گیا تھا)جانے سے پہلے ندوۃ العلماء بھی تشریف لائے اور یہاں ایک عرصہ گزارا ۔
۱۹۶۴ء میں علی گڑھ یونیورسیٹی میں بحیثیت ناظم دینیات آپ کا تقرر ہوا، آپ پورے بیس سال اس عہدے کی زینت بنے رہے اور تشنگان علوم کو ایک کامیاب اور شفیق استاذ کی حیثیت سے سیراب کرتے رہے۔۱۹۸۶ء میں آپ کوپروفیسر شپ کی پیش کش ہوئی اورآپ صدر شعبۂ دینیات اور ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی کی حیثیت سے انتظامی اور تعلیمی فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ، اس کے بعد مولانا کی طویل علمی و دینی خدمات کو دیکھتے ہوئے سابق وائس چانسلرسید ہاشم علی صاحب نے آپ کی ملازمت میں ۱۹۸۹ء تک کی توسیع کر دی ، اس طرح آپ نے دین و ملت اور علم و دانش کی بہترین خدمت کی ۔ ۱۹۸۹ء میں ریٹائر ہوئے،عمر کے آخری ایام میں نقرس کی بیماری نے آپ کو چلت پھرت سے معذور کر دیا تھا ۔ ۳۱؍جنوری ۱۹۹۱ء کو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ع خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
تصنیفی کارنامہ
علم و آگہی کے فروغ ، دین و دعوت کی اشاعت اور طلبا کی کردار سازی کے علاوہ مولانا کی تصنیفی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ان کے اندر تالیف و تصنیف کا ذوق فطری تھا ، علی گڑھ کے علم پرور ماحول اور پرسکون فضا نے ان کے جوہر ذاتی کو اور زیادہ نکھار دیا تھا ، مختلف موضوعات پر انہوں نے ایک درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں اور اسلامی کتب خانہ میں معنوی اعتبار سے قابل قدراور لائق ستائش اضافہ کیا ، یہ کتابیں حسب ذیل ہیں:
۱-اسلام کا زرعی نظام (پاکستان میں بھی شائع ہوئی)
۲- حدیث کا درایتی نظام
۳- فقہ کا تاریخی پس منظر
۴- اجتہاد کا تاریخی پس منظر(پاکستان میں بھی شائع ہوئی ہے)
۵- مسئلۂ اجتہاد پر تحقیقی نظر
۶- احکام شرعیہ میں حالات و زمانے کی رعایت(اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے)
۷- لا دینی دور کا تاریخی پس منظر
۸- عروج و زوال کا الٰہی نظام (اس کا عربی ترجمہ بھی ہوا ہے)
۹- کائنات میں انسان کا مقام
۱۰- تہذیب کی تشکیل جدید
۱۱- انشورنس کی شرعی حیثیت
۱۲- امت مسلمہ کی رہنمائی کی ضرورت قرآنی تعلیمات کی روشنی میں
۱۳- مقالات امینی
۱۴- مراسلات امینی رسائل و مسائل کا مجموعہ
۱۵- حکمت القرآن
۱۶- ہدایت القرآن
۱۷- خطبات جمعہ و عیدین
ہر چند کہ ان میں سے بیشتر کتابیں ضخامت کے لحاظ سے بھاری بھرکم نہیں ہیں، تاہم مولانا کی ندرت فکر ، علمی گیرائی و گہرائی اور حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حل طلب مسائل کی ایسی تحقیقی کاوش پیش کی ہے جس سے علم و قلم کا معیار بلند ہو گیا۔مولانا نے زندگی کے آخری ایام میں ہدایت القرآن کے عنوان سے قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا بیڑا اٹھایا تھا، لیکن سورۂ مائدہ تک ہی پہنچے تھے کہ زندگی کا چراغ گل ہو گیا اور تشنگان علم و معرفت آپ کی فیض بخشیوں سے محروم رہ گئے۔
مناظرہ
وعظ و نصیحت کے ذریعہ مسلمانوں کو دینی معلومات پہنچانا تو مولانا کا زندگی بھر کامعمول رہا ،مگر ابتدا میں آپ نے مناظروں میں بھی حصہ لیا ، کانپور اور اپنے وطن بارہ بنکی میں متعدد مناظرے کئے اور بدعات و خرافات اور منکرات و لغویات کے خلاف لسانی جہاد میں حصہ لیا ، اس دور میں بہت سے لوگ ان مناظروں کی وجہ سے مولانا کے مخالف بن گئے اور ان کے درپے آزار بھی ہوئے ، ادھر مولانا کو خود احساس ہو ا کہ یہ طریقۂ تبلیغ نتیجہ خیز اور ثمر بار نہیں ہے ، چنانچہ بعد میں اس انداز تبلیغ سے دست بردار ہو گئے ، مولانا محمد سعود قاسمی جومولانا کے خوشہ چینوں اور حلقۂ احباب میں تھے، فرماتے ہیں:
’مولانا اجمیر (اور مدرسہ معینییہ میں صدر مدرسی کے قیام ) میں اگر چہ مناظرہ چھوڑ چکے تھے مگر ان کی حق گو طبیعت کو وہاں بھی آزار پہنچے ، ایسے ہی مخالف ماحول میں ایک مرتبہ اپنے حالات مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی کو لکھے تو مفتی صاحب نے جواباً لکھا:
’یہ ضروری ہے کہ آدمی جب بھی کہے حق بات کہے ، مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت کہتا رہے‘(۲)۔
اجمیر میں جب تک رہے تدریس و تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتے رہے ، یہ کام انہوں نے اجمیرکے علاوہ اپنے وطن میں بھی کیا :’ مولانا کے ہم وطن چودھری محمد شفیع احمد مرحوم جو مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے ابتدائی رفقا میں شامل تھے کے ساتھ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتے رہے اور مسٹر منظور حسین ایڈوکیٹ اور ریڈینس ویکلی کے سابق اڈیٹر محمد یوسف مرحوم جیسے فعال اور سرگرم لوگوں کے ساتھ دینی تعلیمی کونسل کے بھی روح رواں رہے۔ (۳)
امامت اور خطبۂ جمعہ
۱۹۴۸ء میں جب ہندوستان کی زمین ہندوستانی مسلمانوں کے لئے آگ کا دریا ثابت ہورہی تھی ، حالات کی ناسازگاری ، انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی بربادی پر آہیں اور سسکیاں اٹھ رہی تھیں ، مولانانے ان حالات میں ناگپور کو اپنا مستقر بنایا تھا ، وہاں رہ کر انہوں نے امامت ، خطابت ،تدریس، مسلمانوں کی کردار سازی اور تصنیفی کاموں میں اپنے قیمتی اوقات صرف کئے ، مولانا محمد سعود قاسمی کے بیان کے مطابق مسجد کا وہ حجرہ آج بھی موجود ہے جہاں بیٹھ کر آپ نے اپنی کتاب’اسلام کا زرعی نظام‘ لکھی ۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام میں ہر سال عیدین اور ہر جمعہ کو جامع مسجد میں بیس منٹ کا اردو میں جامع اور بلیغ خطبہ دیا کرتے تھے ، مولانا سعود صاحب قاسمی ہی کے بیان کے مطابق اس خطبے اور نماز میں شریک ہونے کے لئے بہت سے نمازی پہلے سے جگہ لیتے تھے اور ذوق شوق کے ساتھ ان کا خطبہ سنتے تھے ،ممتاز ادیب و علیگ پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم بھی انہی میں سے ایک تھے ، یہ بزرگ پابندی سے اپنے تاثرات کا بھی اظہار فرماتے تھے۔
مولانا اپنے خطبے میں دین کی بنیادی باتیں ، بنیادی علمی مسائل اور حالات حاضرہ کے بہت سے حقائق بیان کرتے تھے اور واقعہ یہ ہے کہ بیس منٹ کی اپنی مختصر اور جامع تقریر میں علم و حکمت کے خزانے لٹاتے تھے ، مولانا کا اپنا الگ ہی رنگ و آہنگ تھا ، ان کے اسلوب بیان اور انداز پیش کش میں جمال بھی تھا اور جلال بھی۔مولانا ایک پختہ اور غیور عالم دین تھے ، انہوں نے اصحاب عزیمت علما و صلحا کی سیرت و چھاپ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پایا تھا، ان کی حق گوئی و بے باکی روایتی شان لئے ہوئے سامنے آتی تھی۔
مولانا پیشہ ور مقرر تو کبھی نہیں رہے، مگراحباب کے اصرار پر جلسوں میں شریک ہونے کے لئے سفر کر لیا کرتے تھے، مولانا کے خطبات کا ایک مجموعہ مکتبۂ جامعہ دہلی سے شائع ہوا ہے۔
’احتساب ‘ اخبارـ
’ادارۂ علم و عرفان علی گڑھ ‘کے نام سے مولا نا نے ایک ادارہ قائم کیا تھا ، اس ادارے کے ما تحت ایک پندرہ روزہ اخبار ’احتساب‘کے نام سے نکالا تھا ، اس کی حیثیت عام اخبار کی نہ تھی ، بلکہ اس میں مولانا ہی کے مقالات ،آپ کے علمی ، فقہی اور عمیق و دقیق خیالات پر مشتمل تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے ، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں:
’اس اخبار میں مختلف استفسارات کے عالمانہ جواب شائع ہوتے تھے ،جن کا ایک علمی مجموعہ ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا تھا ، جس میں اور مفید باتوں کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے ایک سوال نامہ کا بڑا حقیقت پسندانہ جواب دیا گیا تھااور بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کو قومی زندگی سے علیحدہ اور الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی درست نہیں ہے‘(۴)۔
مجلس تحقیقات اور مولانا
ارباب ندوہ اور خصوصاً مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کو شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ عصر حاضر کے گوناگوں ، اہم، پیچیدہ اور نازک ترین مسائل میں متفقہ حل تلاش کر کے مسلمانوں کی مناسب رہنمائی کرنی چاہیے ، اسی مقصد کو بروئے کار لانے کے لئے مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کا قیام عمل میں آیا ، مولانا ضیاء الدین اصلاحی اس تناظر میں فرماتے ہیں:
’اسی زمانے میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کی دعوت پر مولانا(محمدتقی امینی) ندوہ آئے ، اس مجلس کی ذمہ داری مولانا امینی کو تفویض کی گئی ، یہ کام ان کے ذوق اور دلچسپی کا تھا ، جس کو انہوں نے خوش اسلوبی سے انجام دیا اور چند برس ندوۃ العلماء میں قیام کیا‘ (۵)۔
مولانا منور سلطان ندوی لکھتے ہیں :
’متعدد مدارس میں علمی خدمات انجام دینے کے بعد جب ندوۃ العلماء تشریف لائے تو یہاں انہیں اپنی فکر کو عملی جامہ پہنانے کا وسیع میدان ہاتھ آیا ، چنانچہ اس کام میں وہ پوری طرح منہمک ہو گئے‘ (۶)
اور مولانا محمد سعود قاسمی کے بقول: ’ یہاں انہوں نے مجلس تحقیقات شرعیہ کے کنوینر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں کچھ متعین اسباب کی بنا پر اس سے کنارہ کش ہو گئے‘ (۷)۔
اخلاق و عادات
مولانا خوش طبع ، مرنجان مرنج ،باغ و بہار طبیعت کے مالک اور ہشت پہلو شخصیت کے حامل تھے ، مزاج میں یک گونہ بذلہ سنجی تھی ،چنانچہ اپنے لطائف و ظرائف ، نکتہ آفرینیوںاور دلچسپ باتوں سے مجلس کو زعفران زار بنا دیتے تھے، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم اپنے بارے میں شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں :’ ان کی صحبت میں بہت جی لگتا ہے ، میں ان سے ملنے کو مسیحا و خضر سے بہتر خیال کرتا ،کسی جلسے اور سیمینا ر میں ملتے تو برابر اپنے ساتھ رکھتے اور فرماتے:’غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو‘ (۸)
مولانا سعود عالم قاسمی نے مولانا کے اخلاق کی بابت یوں اپنے احساسات اور مشاہدات پیش کئے ہیں:
’مولانا دوستوں کے بھی دوست اور دشمنوں کے بھی دوست تھے ، ان کا شیوہ فیض کی زبانی یہ تھا ؎
غم جہاں ہو ، رخ یار ہو کہ دست عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
انہوں نے بچوں کی سی معصوم طبیعت پائی تھی ، جلد ہی ناراض بھی ہوتے اور جلد ہی مان بھی جاتے … مولانا کسی کا دل دکھانا گناہ کبیرہ سمجھتے تھے اور ہر ایک کی دلجوئی کرنا اپنا وطیرہ جانتے تھے‘۔(۹)
مولانا نے بڑا ہی درد مند دل اور نرم و گداز طبیعت پائی تھی ، ہر ایک کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ، کسی کو مبتلائے مصیبت دیکھتے تو بے قرار ہو جاتے اور اس کی پریشانی دور کرتے ، طالب علموں سے مولانا کو خاص انسیت تھی ، ان کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے ، ان کے مسائل پوچھتے، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ، ان کی مالی امداد کرتے ، مولانا محمد سعود قاسمی (علی گڑھ )سے ملنے دیوبند سے کچھ طلبا آئے ، مولانا قاسمی نے انہیں مولانا تقی امینی صاحب سے ملوایا ، سردیوں کے دن تھے ، ان میں ایک طالب علم سوئٹر کرتے یا قمیص کے نیچے پہنے ہوئے تھے،مولانا نے یہ سمجھا کہ طالب علم بغیر سوئٹر کے ہے مولانا محمد سعودصاحب کے ہاتھ میں سو روپئے دیئے کہ طالب علم کو دے دو ، جب اس طالب علم کو رقم دی گئی تو اس نے دکھایا کہ میں سوئٹر پہنے ہوں ،مولانا کو صورت حال بتائی گئی تو فرمایا: سوئٹر پہنے ہے تب بھی یہ رقم دے دو ، سفر میں کام آئے گا۔(۱۰)
مولانا کی مہمان نوازی بھی ان کی درد مندی کی عکاس تھی ، اس سلسلے کی ایک پر لطف اور سبق آموز کہانی مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم نے سنائی ہے ، آپ خود بھی اس کہانی کا ایک کردارتھے، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :
ہم دونوں دار المصنفین اعظم گڑھ میں قیام پذیر تھے کہ ایک دن رات کے دس بجے ایک نووارد مہمان تشریف لائے ، ہم دونوں ہی ان سے واقف نہ تھے ، میں ان کے سونے کے لئے انتظام میں لگ گیا ، مولانا کو جب معلوم ہوا کہ مہمان بھوکا ہے ،تو مجھ سے فرمایا: ان کے کھانے کا نتظام کرو ، یا ہم دونوں چل کر بازار سے کچھ لے آئیں ، میں نے کہا :اس وقت بازار میں بھی کچھ نہ ملے گا ، اس وقت تو چائے بسکٹ پر اکتفا کر لیں، مولانا برہم ہو گئے اور فرمایا: ان کی جگہ ہم یا تم ہوتے تو ہمارا کیا احساس ہوتا؟آخر یہ صورت نظر آئی کہ سید صباح الدین عبد الرحمن صاحب کے گھر میں دستک دی جائے ، یہ کوشش بار آور ہوئی ، تھوڑی دیر کے بعد کھانا آگیا ، جب مہمان کھانے سے فارغ ہو گئے تو مولانا کی بے چینی دور ہوئی (۱۱)۔
مولانا فطرتاً بڑے ملنسار ، کشادہ ذہن اور فراخ دل واقع ہوئے تھے ، ملنے والوں سے خوش خلقی اور خندہ جبینی سے پیش آتے ، شناساؤں کی خبر گیری کرتے ، ضرورت مندوں کے کام آتے، سفارش کی ضرورت پڑتی تواس کام میں ذرا پس و پیش نہ کرتے ، ایک مرتبہ ملازمت کے سلسلے میں ایک شخص کی سفارش کی ، پرنسپل صاحب نے کہا : وہ تو بریلوی ہے،مولانا نے فرمایا: کچھ بھی ہو وہ مسلمان ہے ،مولانا کی خواہش ہوتی کہ ان سے ربط و تعلق رکھنے والے ان کے مہمان بنیں ، اگر کسی وجہ سے مہمان آپ کی خدمت میں حاضر ی نہ دے پاتا ،تو آپ اس سے ملنے کا خود اہتمام کرتے۔
مولانا کی بذلہ سنجی میں خاص طور سے چھوٹوں کے معاملے میں شفقت کی آمیزش ہوتی ،انہیں چھیڑ کر سوال کرتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ، انہیں شوخ اور جری بناتے اور ان کی مانگ پوری کرتے ۔
جرات و حق گوئی
مولانا میں حق گوئی کی صفت نمایاں تھی ، حق کے معاملے میںکسی رشتے ناطے اور منصب و حیثیت کا لحاظ نہیں کرتے تھے، جامع مسجد مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ میں ان کا خطبہ سننے والے اس کی شہادت دیں گے، مولانا محمد سعود قاسمی راوی ہیں :
’ایک مرتبہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی کنیڈی ہال میں تقریر ہوئی ،تو پیام انسانیت سے متعلق تقریر کی اور کہا: ہمیں اس کام کو ہر قسم کی لالچ اور مفاد سے بالا تر ہو کر کرنا چاہیے ، یہاں تک کہ دینی مفاد سے بھی بلند ہو کر ، مولانا تقی امینی کو یہ بات غلط محسوس ہوئی، تو خطبہ (جمعہ)میں اس کی تردید کی اور فرمایا: دین کی سر بلندی کا جذبہ سارے مفادات سے بالا تر ہے اور(اس بات کو)قرآن و حدیث سے مبرہن کیا‘ (۱۲)۔
ایک مرتبہ عبداللہ گرلس کالج میں مخلوط ثقافتی پروگرام ہوا ، دین دار طلبا نے مولانا سے اس کی شکایت کی ، اگلے جمعہ کے خطبے میں مولانا نے منتظمین کے خلاف سخت تقریر فرمائی ۔
ایک مرتبہ جامعہ میں ایک معزز عرب شیخ وارد ہوئے وائس چانسلر نے مولانا کو اطلاع بھیجوائی کہ جمعہ کی نماز میں قالین بچھوا دیں اور صف اول میں جگہ رکھوادیں ،مولانا نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ اس جگہ امیر و غریب سب برابر ہیں(سبحان اللہ)۔
مولانا محمد سعود قاسمی مولانا کے حلقۂ احباب میں غالباً سب سے قریب ترین لوگوں میں تھے ، آپ نے انہیں برسوں دیکھا ، پر کھا اور برتا ہے ، ان کے اخلاق کے سلسلے میں اپنے خیالات کااظہار یوں فرمایا ہے ـ:
’مولانا حقیقت پسندی کے قائل تھے ، آپ کی ذات دل گداز بھی تھی اور دل نواز بھی ، کھلی کتاب کی طرح وہ ہر کسی سے بے لوث طریقے سے ملتے ، وہ مذہبی شخصیات اور جماعتوں سے الگ تھلگ رہ کر بھی ان سے دلی لگاؤ رکھتے اور ان کے اچھے کارناموں کا تذکرہ کرتے ، مولانا مسلک و جماعت کی تمیز و تفریق کے بھی قائل نہیں تھے ، ان کا شیوہ اقبال کی زبان میں یہ تھا ؎
تمیز رنگ و بو مارا حرام است کہ ما پروردہ یک نو بہاریم (۱۳)
مولانا ضیاء الدین اصلاحی رقم طراز ہیں:
’ مولانا مسلمانوں کے قدیم و جدید دونوں طبقوں میں مقبول اور ہر دل عزیز تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں انہوں نے بڑی نیک نامی اور عزت حاصل کی ، وہ اخلاص، عمل،للٰہیت ، بے نفسی اور زہد واتقامیں ممتاز تھے ، ان کی وفات سے علمی و دینی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا پر ہونا مشکل ہے‘(۱۴)۔
مزید فرماتے ہیں:
’فراخ دلی، وسیع المشربی ، مروت ، شرافت ، سادگی ، اخلاص ، درد مندی ، عفوو درگزر ان کی سیرت و اخلاق کا نمایاں جوہر تھا ، سب سے محبت ، گرم جوشی اور بے تکلفی سے ملتے تھے، اس کی وجہ سے ہر شخص ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا ، ان کی سادگی و بے تکلفی کی وجہ سے کمتر لوگ بھی ان سے شوخ اور گستاخ ہو جاتے تھے ، وہ چھوٹوں پر بڑی شفقت فرماتے ، ان کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کرنے میں بخل کو پاس نہ پھٹکنے دیتے ، بات کرنے میں لاگ لپیٹ سے کام نہ لیتے ہمیشہ صاف اور کھری باتیں کرتے ، ان میں بڑی جرات اورخود اعتمادی تھی ، حق بات کہنے میں کسی کی رو رعایت نہ کرتے ، اس کی وجہ سے بعض لوگ ناراض ہو جاتے، مگر وہ اس کی پرواہ نہ کرتے ، ان کی زندگی ریا، نمود و نمائش اور بناوٹ سے خالی تھی ، غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی سے ان کو نفرت تھی ، ان میں کبر و نخوت اور علو و پندار کا شائبہ تک نہ تھا ، کہیں سے اپنی عظمت و بڑائی ظاہر ہونے نہ دیتے تھے … ایثار و قناعت ان کا شیوہ تھا … ان کے نیک اعمال اور پاک دل میں کبھی بھی کسی کی دل آزاری کا کبھی خیال بھی نہ آیا ہو گا‘(۱۵)۔
مولانا ا مینی پیکر اخلاق
مولانا تقی امینی کے بارے میں اخلاق و کردار کی ان شہادتوں کو پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے ، مگر کیوں؟ اس لئے کہ ایک ایسا شخص جس کی خانگی زندگی میںسکون و اطمینان اور سازگاری و خوش گواری کیا معنی؟ قابل رحم تھی، اہلیہ کو دماغی فتور تھا ، گھر میں سکون و راحت اور ٹھنڈی چھاؤں بننے والی رفیقۂ حیات خود مولانا کے لئے سکون سے محرومی اور الجھنوں کا سبب بنی ہوئی تھیں ، دور و قریب کے رشتے دار اور حلقۂ احباب میں سے بے تکلف افراد نے مولانا کو بار بار مشورہ دیا کہ عقد ثانی کر لیں ، مگر عقد ثانی کی سوچ تو دور کی رہی مولانا خودزندگی بھر اہلیہ کی تیمار داری کرتے رہے۔
جب رفیقۂ زندگی ہی باعث راحتِ جان اور سکونِ قلب و نگاہ کا ذریعہ بننے کے بجائے دائمی مریضہ اور مخدومہ بن جائے، توسوچا جا سکتا ہے کہ شوہرکس قدر ذہنی الجھاو، فکری تناو اور اندرونی دباو میں مبتلا رہے گا ، پھر یہ ظاہری اور باطنی پریشانی زندگی کے معمولات کا حصہ بن جائے گی تو آدمی کیوںنہ بد مزاج بن جائے گا ، ذہنی کرب ، چڑچڑا پن اور ٹینشن میں تو ضرور ہی مبتلا ہو کر رہے گا، مگر مولانا کے تقوی اور للٰہیت میں ڈوبے ہوئے د ل کا کا کمال تھا کہ ہر رنگ میں راضی برضا رہے اور تا حیات ’امانت‘ کے علمبردار بن کر حق والوں کے حقوق۱ ادا کرتے رہے (اَدُّوا الحُقُوقَ الٰی اَھلِھَا)، یہی وہ احساس ذمہ داری اورنصب العین کی پاسداری تھی کہ اپنے نام کے ساتھ’ امینی‘ کا اضافہ کر کے امانت کو مشن، مقصد زندگی ا وراپنے عمل کے لئے چراغ راہ بنا لیا تھا۔
جدید دنیا اور مولانا کی فقہی بصیرت
جدید معاصر دنیا میں علوم و فنون کے پھیلاؤ ،سائنس اور ٹکنالوجی میں روزافزوں ترقی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسیات اور معاشیات کی بے انتہا ترقیوں نے انسانی فکر و خیال کو تہہ و بالا اور تہذیب و تمدن کو نئے سانچے میں ڈھال دیاہے ۔ بیسویں صدی کے تہذیبی و تمدنی امتداد اور سمٹتی ہوئی دنیا نے مسلمانوں کے لئے نت نئے مسائل کا انبار لگا دیا ہے،ان مسائل پر غور و فکر کرنے ، دقت نظر اور وسعت فکر سے کام لے کر ان کا حل تلاش کرنے میں ملت اسلامیہ ہندیہ کبھی کسی مسلم ملک سے پیچھے نہیں رہی ہے ، ان مسائل پر غور و خوض کرنے والے ممتاز علما و فقہا کی فہرست میں مولانا محمد تقی امینی کا نام بھی خاصا نمایاں ہے ، مولانا امینی ایک بلند پایہ، راسخ العلم عالم دین تھے ، اسلامیات کے فاضل و محقق تھے ، فقہی معاملات و مسائل میں ان کی نظر بڑی گہری تھی ،اخلاص و عمل ، للٰہیت وخدا ترسی ، بے نفسی اور زہد و تقوی میں ممتاز تھے ۔
مولانا ہر مخلص داعی اور دین کے سپاہی کی طرح سے مسلمانوں کی زندگی کو اسلام کے قالب میں ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتے تھے ، ایسی بلند سوچ رکھنے والا کوئی بھی راسخ العلم عالم ، فقیہ اور مربی و حکیم ہر جہت سے اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لئے کوشاں رہے گا ، مولانا نے بھی کئی جہتوں سے اس امت کو اٹھانے کی کوشش کی ، اس کام کے لئے اپنی زبان و قلم اور اپنی حکمت و بصیرت کا سارا سرمایہ اور درد دل پیش کر دیا ، مگر وسیع تناظر میں فقہ آپ کے امتیاز و اختصاص کا میدان تھا ، مولانا محمد سعود قاسمی رقم طراز ہیں :
’یوں تو مولانا نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر قلم اٹھایا ، قرآن و حدیث ، فقہ و سیرت ، تعلیم و تہذیب ، مذاہب و نظریات سب سے دلچسپی رکھی ، مگر ان کی صلاحیت کا اصل میدان فقہ تھا ، مولانا نے فقہ کی تدوین جدید کی پر زور انداز میں وکالت کی اور اس سلسلے میں رہنما خطوط اور اشارات کی نشاندہی کی ، مولانا نے فقہی دنیا کے جمود کو توڑنے اور عصر حاضر کے تغیر پذیر قدروں کو سمجھنے پر جتنا زور دیا ہے وہ ان کے معاصرین کے یہاں کم ملتا ہے ، مولانا کی بصیرت انہی کے الفاظ میں یہ تھی کہ ہماری کوشش زندگی اور قانون کے متوازن اور مقدس رشتے کو بحال کرنے کی ہونی چاہئے ، زندگی اور قانون کا رشتہ ٹوٹے گا تو نہ قانون کی اہمیت ہو گی اور نہ زندگی کی قیمت بر قرار رہے گی،مولانا کی فقہی تحریروں میں اس کوشش کا عکس صاف نظر آتا ہے ، مولاناکے علمی تفردات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے ، مگر اس جذبۂ صادق کی ناقدری دراصل علم سے انحراف ہو گا ، بعض وہ مسائل جن میں بہت پہلے مولانا منفرد تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان کے بیشتر علمانے ان کی تائید کی ‘(۱۶)۔
انسانی زندگی میں نئی تہذیب و تمدن کے ڈالے ہوئے اثرات کے ماحول میں نت نئے پیش آمدہ مسائل و معاملات کاحل اسلامی مزاج و منہاج کی روشنی میں کرنے کے لئے دو خطوط پر کام کی ضرورت تھی ۔اس بات کی تائید میں مولانا سعید اکبر آبادی کی یہ تحریر پیش کی جا سکتی ہے ، فرماتے ہیں :
’ان مسائل کا حل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مندرجہ خطوط پر کام نہ کیا جائے :
(۱) چونکہ ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے سب سے پہلے ضروری یہ امر ہے کہ اجتہاد کے ماخذ اور استنباط و استخراج احکام کے اصول و ضوابط کا وسیع النظری کے ساتھ مبصرانہ جائزہ لیا جائے ،اس جائزے کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ صرف فقہ حنفی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب فقہ میں جن اصول کو احکام کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ان پر بھی سیر حاصل گفتگو کی جائے ۔
(۲)جب یہ اصول منقح اور واضح ہو جائیں تو اب اس کا موقع پیدا ہو جاتا ہے کہ ان اصول کی روشنی میں زیر بحث مسائل اور اس کے مختلف پہلوؤں کا تحلیلی اور تجزیاتی مطالعہ کر کے ان کی شرعی حیثیت کو متعین کیا جائے۔
خوشی کی بات ہے کہ مولانا محمد تقی نے اب تک جو کام کیا ہے وہ مذکورہ بالا دونوں خطوط پر مشتمل ہے ‘(۱۷)
مولانا ضیاء الدین اصلاحی مولانا کے انداز فکر و نظر اور فقہی بصیرت کو یوں روشنی دکھاتے ہیں:
’ مولانا کی کتابوں میں جن مسائل کا ذکر ہے فقہ کی قدیم کتابیں ان سے خالی ہیں اور موجودہ لوگوں نے بھی ان کی جانب کم توجہ دی ہے اور جنہوں نے دی ہے، ان کے اور مولانا کے انداز فکر میں نمایاں فرق ہے ، ان کا تعلق اس صاحب نظرطبقہ سے ہے جو اسلامی فقہ کے جمود و تعطل کو ختم کر کے اجتہاد کا دروازہ کھولنا چاہتا تھا،اس سلسلے میں ان کا رسا ذہن اور دقیقہ بیں نظر جہاں اور جن گوشوں تک جا پہنچی ہے ، وہاں تک رائے عام سے مرعوب اور شذوذ و تفرد میں گرفتار نہیں پہنچ سکے‘ ۔(۱۸)
آئندہ سطروں میں انہی امتیازی خطوط کو آشکارا کرنے کی کوشش ہو گی۔
اجتہاد اور مولانا کا نقطۂ نظر
مولانا کہتے ہیں کہ اصول اور بنیادی حیثیت سے ہدایت الٰہی کی تکمیل کر دی گئی ہے، مگر نئے پیش آمدہ مسائل کے لئے ایک ’سرچشمہ‘کی ضرورت تھی ، جس کی تکمیل اجتہاد کے ذریعہ سے کر دی گئی ہے ۔ مولانا اجتہاد کی تعریف الموافقات وغیرہ سے نقل کرنے اور حدیث معاذ (جب وہ یمن کے حاکم بنا کر بھیجے جا رہے تھے) ذکر کرنے کے بعد اجتہاد کی بنیاد کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کو بتاتے ہیں اور اجتہاد کی حیثیت کا تعین ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’ اجتہاد چونکہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا ایک اہم باب تھا، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بہ نفس نفیس اس کا دروازہ کھولا او دین کی تکمیل فرما کر آپ تشریف لے گئے ، نبوت اس بات پر بھی مامور ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسی جماعت تیار کرے جو اس کے بعد ہر حیثیت سے تعلیمات کی محافظ اور مقاصد شریعت کو بروئے کار لانے والی ہو ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس غرض کی تکمیل کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت تیار فر ما دی تھی ، جس نے آپ کے بعد مزاج شناس نبوت بن کر ’اجتہاد ‘کے کام کو آگے بڑھایا‘۔(۱۹)
اس حقیقت سے کسے انکار ہو گا کہ صحابہ کرام نے ایسے مسائل و معاملات میں جہاں کتاب و سنت میں صراحت نہیں ملتی ، وہاں انہیں اجتہاد ہی سے کام لینا پڑا ، یہی بات زور دے کر مولانا تقی امینی بھی کہتے ہیں کہ اس کے بغیر ’مقاصد نبوت ‘کے بروئے کار آنے کی کوئی صورت بھی نہیں تھی ، اجتہاد کے اصول و قواعد تو بعد میں منضبط ہوئے ، حضرات صحابہ کا اجتہاد ،مقاصد شریعت اور اصول دین پر مبنی ہوتا تھا ، اس کی دو صورتیں تھیں ، مولانا فرماتے ہیں :
’اول: جو احکام قرآن و سنت میں موجود تھے ان کے الفاظ و معانی اور موقع و محل میں غور کیا جاتا ، اگر اس کی عمومیت اس قابل ہوتی کہ نئے پیش آمدہ مسائل کو اس میں شامل کیا جا سکتا تو زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہ تھی، بلکہ موجودہ احکام اور ان کے موقع و محل میں غور فکر کر کے نئے مسائل کا حل تلاش کر لیا جاتا تھا۔
دوم: اگر یہ صورت نہ بن سکتی، یعنی الفاظ و معانی اور موقع و محل سے غور و فکر سے کام نہ چلتا، تو احکام کی مزید گہرائی میں جا کر مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ،یعنی عمومی مفہوم اور کلی اصول کے پیش نظر ان کا دامن وسیع کر کے نئے مسائل کو ان کے ساتھ شامل کیا جاتا اور مقصد میں یکسانیت کی صورت میں وہی حکم نئے پیش آمدہ مسائل میں بھی جاری کر دیا جاتا ۔
چونکہ اس دور میں نئے مسائل کی اتنی کثرت نہ ہوتی تھی جتنی کہ بعد میں ہوئی ، پھر یہ حضرات عملی انسان تھے جن کو بلا ضرورت بال کی کھال نکالنے کی عادت نہ تھی اس بنا پر ’اجتہاد‘کو ان بزرگوں نے زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت نہ سمجھی ، جس طرح نیا مسئلہ پیش آنے سے پہلے اظہار رائے سے پر ہیزکرتے اسی طرح پیش آنے کے بعد آزادانہ رائے کو معیوب جانتے تھے ، چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: أی سماء تظلنی وأی أرض تقلنی اذا قلت فی کتاب اللہ برائی(منھاج ا لاصول)کون آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اور کون زمین مجھے اٹھائے گی ،جب میں اللہ کی کتاب میں اپنی رائے سے کچھ کہوںگا؟‘(۲۰)
لیکن صحابہ کرام کے بعد جب نئے نئے مسائل پیدا ہوتے گئے ، تو حالات کے تقاضے سے مجبور ہو کر ’اجتہاد‘کو زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ، چنانچہ مصلحتوں کا سراغ لگا کر اور علتوں کو بنیاد بنا کر اجتہاد کا دامن وسیع کیا جاتا رہا اور قیاس ، استحسان اور استصلاح وغیرہ قانونی مآخذ کی صورت میں ’رائے ‘کے استعمال کو مرتب و منظم شکل دینے کی ابتدا ہوئی ۔
مولانا نے اجتہاد کی صلاحیت کے لئے فقہا کے اقوال کی روشنی میں دو چیزوں کو ضروری باور کرایا ہے :
۱- مقاصد ہدایت سے واقفیت
۲- موقع و محل کے لحاظ سے استدلال و استنباط کی ضرورت ۔
مولانا نے ان دونوں کے مجموعہ کو ’حکمت‘سے تعبیر کیا ہے ، پھر حکمت کی درجہ بندی کر کے اس کی سات قسمیں بتائی ہیں ۔
(۱) قانون کا تاریخی پس منظر ۔(۲)قانون کا کردار۔(۳) علت اور سبب کی دریافت سے مناسبت(۴) نفسیات کا گہرا مطالعہ (۵)فطری جذبات و رجحانات (۶) قومی و جماعتی مزاج (۷) قومی زندگی کے مختلف ادواراور ان کے نشیب و فراز وغیرہ۔
آگے بڑھتے ہوئے مولانا نے یہ عمدہ بحث چھیڑی ہے کہ جو ’مصالح ، ’مامورات و منہیات کا پیمانہ‘ بنتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ، پھر بتاتے ہیں کہ مصلحت و مفسدہ کا لحاظ دنیوی اور اخروی زندگی کو سنوارنے کے نقطۂ نگاہ سے ہونا چاہئے ، مصلحت و مفسدہ میں ٹکراؤ کی صورت میں غلبہ کے پہلو کو معتبر مانا جائے گا ، بصورت دیگر مفسدہ کا اعتبار نہ ہو گا ۔
مولانانے اجتہاد کے لئے فقہا کے اقوال کی روشنی میں دس شرائط ذکر کئے ہیں ، مگر اس سے بھی پہلے مقاصد شریعت سے واقفیت یعنی ’حکمت کا عرفان‘ کو ضروری سمجھتے ہیں، ان کے الفاظ میں : ’علم و حکمت کا درجہ قانونی معاملے میں ’نبوت‘ کی نیابت و خلافت کا درجہ ہے ، اسی راہ سے مجتہد کو اجتہاد کا حق حاصل ہوتا ہے‘ (۲۱)۔
’اجتہاد کا طریق ‘ کے عنوان سے آ پ بتاتے ہیں کہ اجتہاد کے لئے صحابہ کی ایک مجلس قائم تھی ، فرماتے ہیں :
’ موجودہ حالات کا بھی تقاضا یہی ہے کہ صلاحیت رکھنے والے افراد کی ایک مجلس قائم کی جائے ، جس میں مختلف ضروریات کے لحاظ سے ہر ضرورت کے ماہرین موجود ہوں ، کچھ افراد نمایاں حیثیت رکھنے والے ہوں اور باقی کی حیثیت مشیر و مدد گار کی ہو۔
صورت یہ ہو کہ پہلے حل طلب مسائل کی روح اور مقصد میں غور کیا جائے کہ شارع کے پیش نظر ان کے ذریعہ کس قسم کی مصلحت کا حصول اور کس قسم کی مضرت کا دفعیہ ہو سکتا ہے، پھر یہ دیکھا جائے کہ ان احکام کو مزاج اور ذہنیت کی تبدیلی سے کتنا دخل ہے ؟ نیز موجودہ معاشرتی حالت اور سماجی زندگی کس حد تک ان کی روح اور اصلی کردار کو جذب و انگیز کی صلاحیت رکھتی ہے؟
اس بات کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ شارع کے پیش نظر ان مسائل کی صرف روح اور معنی مقصود ہیں ،یا قالب اور صورت بھی مقصود و متعین ہیں ، اگر وہ دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں تو کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، معاشرتی حالت کو بتدریج ان کے قابل بنانے کی ضرورت ہو گی اور اگر یہ مسائل پہلی قسم سے تعلق رکھتے ہیں تو معاشرہ اور تمدنی تبدیلی کے ساتھ ان کی صورت میں تبدیلی نا گزیر ہو گی ، لیکن ہر حال میں روح اور مقصد نظر انداز نہ ہونا چاہیے، ورنہ مفید نتیجہ کی کوئی ضمانت نہ ہو گی(۲۲)۔
مولانا کو صرف زمانہ کے بدلے ہوئے حالات اور نزاکتوں ہی کا اندازہ نہ تھا ، بلکہ قوموں کے عروج و زوال کے ’جواہر و جراثیم‘کی بھی خوب پرکھ رکھتے تھے ، چنانچہ آپ بہت ہی گہرے اور فکر انگیز نفسیاتی نکتے کی وضاحت فرماتے ہیں کہ ’ قوم جب عروج کی طرف مائل اور ترقی پذیر ہوتی ہے تو اس میں وہ ’ظرف‘اور توانائی پیدا ہو جاتی ہے جو ’جواہر‘کو قبول کرکے زندگی میں اس کا اصلی مقام متعین کرتی ہے ۔ دور زوال میں ’جواہر‘کا اصلی مقام باقی نہیں رہتا ، تو رفتہ رفتہ ’جراثیم ‘کا غلبہ ہوجاتا ہے ، ایسی قوم میں زوال کی خامیوں کا اثر ’اجتہاد‘پر بھی پڑتا ہے‘(۲۳)۔
مولانا شورائی اجتہاد (جس کا دروازہ ان کے نزدیک کبھی بھی بند نہیں ہونا چاہیے )کے ہمیشہ حامی اور طرفدار رہے اور ا س سمت پیش رفت کرتے ہوئے قدیم و جدید سے ابھرنے والے طبقہ کو سراہا ہے اور اس عمل کو مسلم معاشرے کی بیداری کی علامت سمجھا ہے۔
مولانا ضیاء الدین اصلاحی رقم طراز ہیں :
’مولانا نے بہت پہلے شورائی اجتہاد کو اس دور کے لئے مناسب بتایا تھا ، اس کی اہمیت عام طور پر تسلیم کی جانے لگی ہے ، غور و فکر ، اجتہاد و اختراع ، تفریع و استنباط اس امت کا خاص وصف اور امتیاز تھا ، مسلمانوں کے اس تاریخی کردار و کارنامہ کو مولانا نے اپنی تصنیفات میں تفصیل سے قلم بند کیا ہے ‘ ( ۴ ۲ ) ۔
فقہ کی تدوین جدید
اس نام سے مولانا نے جو مقالہ تحریر فرمایا ہے اس میں لفظ ’فقہ‘اور ’تدوین جدید‘کے بارے میں اپنی مراد ومنشا کا اظہار اس طرح کیا ہے :
’زیر بحث ’فقہ‘ قوانین کے اس مجموعہ کا نام ہے جو ہدایت الٰہی کی روشنی میں حالات و تقاضا کا لحاظ کر کے مرتب و مدون کیا گیا تھا الفقہ مجموعۃ الأحکام المشروعۃفی الاسلام (شرعی قوانین کے مجموعہ کا نام فقہ ہے )۔
جدید تدوین کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حالات و تقاضا کی مناسبت سے اس’ مجموعہ ‘ کی نئی ترتیب و تہذیب کی جائے ، جن قوانین کو زمانے کے ’مفتی‘ نے ختم کر دیا ، انہیں مجموعہ سے نکال دیا جائے اور جو نئے حالات و مسائل درپیش ہیں ہ دایت الٰہی کی روشنی میں غور و فکر کر کے ان کا حل تلاش کیا جائے ، تاکہ وہ ’مجموعہ ‘ میں شامل ہو کر ’اسلامی فقہ‘ ‘، الٰہی حکمت عملی اور منافع کا حصول اور مضرت کا دفعیہ اور ضروریات زندگی سے ہم آہنگ بن سکے‘(۲۵)۔
اس کام کی اہمیت و ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے مصنفؒ نے قانون کی ارتقائی و اجمالی تاریخ بیان کی ہے۔اس سلسلے میں مولانا قاری کے گوش گزار کرتے ہیں کہ ہدایت الٰہی کے پیش نظر دو مقاصد رہے ہیں:
۱- روحانی اصلاح کے قوانین غیر متبدل و غیر متغیر ہیں ، یہ ہر حال میں یکساں رہتے ہیں ، ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہ شکل و صورت میں ہو سکتی ہے اور نہ روح و معنی میں ہو سکتی ہے ۔
۲- معاشرتی و تمدنی فلاح کے قوانین، یہ قوانین چونکہ سماجی زندگی کے مختلف حالات اور موقع و مناسبت کے تابع ہوتے ہیں ، اس لئے معاشرے کی حالت اور تمدنی ترقی کے ساتھ ان کی شکل وصورت میں تبدیلی ہو سکتی ہے، شارع کی طرف سے ان کی صرف روح کی بقا کا مطالبہ ہے ۔
پہلی قسم کے قوانین کی حیثیت بمنزلۂ روح اور بنیاد کے ہوتی ہے ۔دوسری قسم کے قوانین ہر زمانے کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے بڑی حد تک متاثر ہوتے رہتے ہیں ۔اس نکتے کی تائید میں مصنف نے امام ولی اللہ دہلوی کی نفیس بحث کا طویل اقتباس پیش کیا ہے اور آخری ہدایت الٰہی کی قانونی اور دستوری حیثیت پہ مجمل مگر فکر انگیز بحث کر کے واضح کیا ہے کہ دوسری قسم کی قانونی حیثیت میں بہت سے وہ مروجہ قوانین و مراسم داخل تھے جو عصری رجحانات اور سماجی زندگی کے وقتی اور مقامی حالات کے پیش نظر تھے ۔
فقہ کا تدریجی ارتقا
فقہ کی تدریجی ارتقاء پر گفتگوکرتے ہوئے مولانا نے اسے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے:
پہلا دور: عہد نبوی ۱۰ ہجری تک۔اس دور میں فقہی امور رسول اللہ ﷺ کی ذات سے وابستہ رہے۔
دوسرا دور: عہد صحابہ ۴۱ ہجری تک۔اس دور میں فتوحات کی کثرت ، تمدنی زندگی کا آغاز اور نئے نئے سیاسی دینی اور اجتماعی مسائل ابھرے،چنانچہ اس دور میں اجماع اور رائے دو ماخذوں کا اضافہ ہوا۔
تیسرا دور: صغار صحابہ اور تابعین ،دوسری صدی ہجری کی ابتدا تک۔موجودہ فقہ کی ترتیب و تدوین کا پورا ’مسالہ‘ اسی دور میں تیار ہوا،اس دور میں ماہرین قانون قانون اسلامی کے کا ز کو فروغ دینے کے لئے مختلف ملکوں اور علاقوں میں پھیل گئے’رائے‘ کو منضبط شکل دی گئی۔
چوتھا دور: چوتھی صدی ہجری کے تقریبا نصف تک۔اس دور میں باقاعدہ فقہ کی تدوین ہوئی ۔اس دور میں پہلے سے زیادہ نئے نئے مسائل ابھر کر سامنے آئے۔پھر مسائل پیش آنے سے پہلے فرض کر کے ان کے متعلق احکام بیان کئے گئے، اس طرح فقہ نہایت ضخیم ہو گیا ۔یہ پیشگی انتظام مسلم معاشرے کے لئے اگر مناسب تھا، تو اس کا نقصان یہ بھی ہوا کہ امت کو سہل پسندی اور عافیت کوشی کی بیماری لگ گئی۔
تدریجی ارتقا کا ذکر کرکے مصنف یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہر دور کے تقاضے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔نیز عصری رجحانات اور معاشرتی احوال کو فقہ میں کافی دخل رہاہے۔پھریہ کہ ضرورتوں اور مصلحتوں کی بنیاد پہلے پڑتی ہے، پھر انہیں منظم کرنے کے لئے قانون مقرر کئے جاتے ہیں۔’’تدوین جدید‘‘ کو مضبوط کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں:
’نہ یکبارگی ساری ضرورتیں وجود میں آتی ہیں اور نہ دفعۃً ان کی تنظیم کی جا سکتی ہے ۔ایسی حالت میں وہ قواعد و قوانین جو ان کی تنظیم و تہذیب کے فرائض انجام دیتے ہیں اور زندگی سے صحیح ربط قائم رکھتے ہیں کیسے جامد و ساکن قرار پا سکتے ہیں ؟جب زندگی خود اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کی وجہ سے تغیر پذیر ہے ،تو اس کی تنظیم و تہذیب کرنے والے قواعد و قوانین کیوں کر تغیر پذیرنہ ہوں گے ؟
یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا اثر زندگی کے ہر گوشے میں ظاہر ہے۔اس نے ایک نئی دنیا تعمیر کی ہے،جس کے نئے تقاضے اور نئے مطالبے ہیں،نئی ضرورتیں اور نئی وسعتیں ہیں، جنہوں نے اجتماعی زندگی کا نقشہ بدل دیاہے اور نئے انداز میں زندگی کے شعبو ںکی تنظیم کردی ہے،ایسی حالت میں جب تک فقہ کی ’جدید تدوین‘ نہ ہو اور پیش آمدہ مسائل کاحل نہ تلاش کیا جائے زندگی اور قانون میں نہ صحیح ربط قائم ہوگا ،نہ فقہی مسائل ضروریات زندگی کا ساتھ دے سکیں گے۔(۲۶)
’تدوین جدید‘ کی اہمیت و ضرورت ثابت کرنے کے بعد اس جدید تدوین کی نزاکت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ، اس کام کے لئے دقیقہ رسی ، نکتہ سنجی اور حقیقت بینی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور ’خورد بینی‘ کو مہلک جانتے ہیں ، ارشاد فرماتے ہیں:
’ مذہبی قانون کے معاملے میں یہ رعایت اور زیادہ ’نزاکت ‘ اختیار کر لیتی ہے،کیونکہ قانون کے کردار اور اثر کا تعلق بڑی حد تک روح اور مزاج ہی سے وابستہ ہے جب اس سے غفلت برتی گئی ،تو قانون موثر ہونے کے بجائے خود متاثر ہونے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنی قوت جاذبہ ختم کر کے معاشرتی نا ہمواریوں اور بشری کمزوریوں سے سمجھوتا کر لیتا ہے ، پھر اس کی حقیقت ایک رسم یامحض ’ضابطہ ‘کے خانہ پری کے باقی رہ جاتی اور داخلی زندگی سے متعلق تقریباًساری قانونی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔
اس بنا پر ’جدید تدوین ‘کے مرحلے میں قانون کے مزاج کا لحاظ کر کے، اس کی روح اور مقصد کو کسی صورت نظر انداز نہ ہونے دینا چاہیے ورنہ کسی خاص نتیجے کی توقع نہ ہو گی(۲۷)۔
فقہ کی تدوین جدید میں موجودہ حالات کی رعایت
اس قیمتی اور وقیع مقالے کالب لباب اور ما حصل یہ ہے کہ نئے دور کے مسائل اور حالات کی تبدیلی کی وجہ سے جن مسائل کے حل کی ضرورت ہے اور فقہ ان سے خاموش ہے ،ان کے لئے شورائی مجلس کی ضرورت ہے ، جو زیر بحث مسائل میں غور و فکر کر کے ان کا حل تلاش کرے گی ۔ یہ کام نہ ایک شخص کے کرنے کا ہے ،نہ تنہا کسی ایک کی رائے کی کوئی خاص اہمیت ہے ، یہ کسی شورائی مجلس کا کام ہے ۔
مجلس اپنے کام کو انجام دینے کے لئے فقہی مواد سے کس طرح استفادہ کرے گی ؟ مولانا نے دس نقاط میں اس کی تفصیل بیان کی ہے ، مولانا کے خیال میں فقہا نے فقہ پر کام کرنے کے لئے کافی مواد فراہم کر دیا ہے ، اصول و ضوابط مقرر کر دیئے ہیں ، انداز اور طریقہ بتا دیا ہے ، کام کر کے دکھا دیا ہے اور کرتے رہنے کے لئے جیسی صلاحیت درکار ہے، اس کی نہایت تفصیل کے ساتھ وضاحت کر دی ہے ، اب ہماری بے بصری اور محرومی ہو گی کہ ہم فائدہ اٹھانے کو جرم سمجھیں ۔
موجودہ مسائل کس طرح حل کئے جائیں ؟اس سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں : جملہ شرعی امور کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ’اجماع ‘ کو متحرک بنایا جائے ، اسلامی اصول قانون میں اجماع کو جس قدر زیادہ اہمیت حاصل ہے ، بد قسمتی سے اسلامی تاریخ میں اسی قدر بے توجہی برتی گئی ، دراصل سیاسی مفاد کی وجہ سے ’اجماع ‘جیسے اہم اصول کو بروئے کار آتے رہنے کا موقع نہ مل سکا، اجماع کو بحیثیت مجموعی ہدایت الٰہی کی کل پالیسی اور بنیادی اصول کے تحت ہونا چاہیے ، علیحدہ علیحدہ قرآن و سنت میں اس کی سند ضروری نہیں ۔
مولانا اس عام خیال کی تردید کرتے ہیں کہ اجماع میں جمیع امت کا اتفاق ہونا چاہیے ، مولانا کے نزدیک اجماع کی ممکن العمل صورت یہی ہے کہ قانونی معاملات میں اہل حل و عقد کی ایک اعلی مجلس قائم کی جائے اور وہ حالات و مسائل میں غور و فکر کے بعد صحیح حل تجویز کرے ،جو ایک طرف کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو اور دوسری طرف ضروریات زندگی سے ہم آہنگی پیدا کرنے والا اور دشوریوں پر قابو پانے والا ہو ۔
ضروریات کے حل کے لئے اجماع کی ضرورت ہے ، یہ اجماع جن معیاری اوصاف کے حامل علما یا اصحاب حل و عقد کے ذریعہ منعقد ہو گا ،مولانا نے ان کے علمی اور عملی اوصاف بیان کئے ہیں ، علمی اوصاف مثلاً:
۱- قرآن حکیم میں بصیرت کے درجے کا علم حاصل ہو۔
۲-سنت نبوی کو روایت و درایت کے معیار پر جانچنے کے طریقے سے واقفیت ہو اور اس کے صحیح مقام و محل کے تعیین کی معرفت ہو۔
۳- صحابۂ کرام کی زندگی سے واقفیت اور ان کے اجماع کا علم ہو۔
۴-قیاس کے ذریعہ استدلال و استنباط کے اصول و قواعد معلوم ہوں ۔
۵- قوم کے مزاج ،حالات ، تقاضوں ،رسم و رواج اور عادت و خصائل سے بھی واقفیت ہو۔
۶-جدید تقاضوں اور رجحانات سے واقفیت کے لئے ایسے حضرات کو شامل کیا جائے جو زیر بحث معاملات میں سنجیدگی اور بصیرت کے ساتھ رائے دے سکیں۔
۷-عملی حیثیت سے یہ اونچے اخلاق و کردار کے حامل ہوں ، مامورات پر عمل کرتے اور منہیات سے بچتے ہوں۔بری عادتوں اور فسق و فجور سے پاک ہوں ۔(۲۸)
اجماع کے بعددوسری چیز اجتہاد کا بند دروازہ کھولنا ہے، مولانا بار بار اس تکلیف کا اظہار کرتے ہیں کہ جو طبقہ اجتہاد کا پر زور حامی ہے ،وہ اس کے نشیب و فراز سے واقف نہیں ، جو طبقہ واقف ہے اس کی نظر میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک طرف تو مولانا تقی امینی اجتہاد کے دروازے کو کھولنے کے پر زور حامی ہیں ، لیکن دوسری طرف ان پر زورحمایتیوں کو خطرناک سمجھتے ہیں جو اجتہاد کی مقررہ شرطوں کو ضروری نہیں سمجھتے ، ظاہر ہے مولانا کی اپنی تیسری رائے یہ قرار پاتی ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا ہونا چاہیے مگر اپنے لازمی شرائط کے ساتھ۔
فقہ کے اجتماعی مسائل
اس عنوان کے ضمن میں مولانا نے ’حل طلب اجتماعی مسائل کی قسمیں‘ مندرجہ ذیل شکلوں میں بیان کی ہیں:
موقع و محل کی تعیین کی صورت
قومی و ملی نقصان کی صورت
اصل مقصد فوت ہونے کی صورت
نئے پیش آمدہ حالات و مسائل
مولانا نے ان عناوین کے تحت سیر حاصل بحث کی ہے، جس سے آپ کی فقہی بصیرت اور وسعت نظر کا پتا چلتا ہے ، کیونکہ آپ بار بار فقہا کے گراں قدر سرمایہ سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ۔
خلافت فاروقی میں آراضی کی تنظیم و تقسیم
ذرائع پیدوارکی صحیح تنظیم و تقسیم ہی پر مملکت کی خوش حالی اور فارغ البالی موقوف ہے ،اس میں آراضی کے مسئلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ، اس مسئلے کی فقہی وضاحت مولانا کے حقیقت شناس قلم نے جس جامعیت ،وضاحت اور مستند حوالجات سے کیا ہے اس سے تحقیق کا معیار بلند اور زیر بحث مسئلہ الم نشرح ہو گیا ہے ، اس سے مولانا کے ذوق بحث و تحقیق اور پتا ماری کی خوبی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا نے خودکے قلم سے اپنی کتاب ’اسلام کا زرعی نظام ‘کے تعارف میں لکھا ہے :
’معاشی اور اقتصادی نقشے میں زراعت اور کاشتکاری کی کیا حیثیت ہے ؟ خلافت راشدہ میں زمین کی تقسیم کن اصول کے ماتحت کی جاتی تھی اور مشترک کھیتی کی کیا صورت ہوتی تھی؟ نیز یہ واضح کیا گیا ہے کہ تعلیمات اسلام کی روشنی سے پہلے ٹیکس اور تحصیل، وصول وغیرہ کے قوانین کے نام پر جو مظالم روا رکھے جاتے تھے ان کی کس طرح اصلاح کی گئی؟ کاشتکاروں کو کیسی سہولتیں دی گئیں اور افسروں کے انتخاب کے متعلق سخت قانون بنا کر رشوت ستانی اور ظلم و جبر کو کس طرح روکا گیا ؟ اس پوری کتاب میں جو بات بھی پیش کی گئی ہے،وہ مستند حوالوں کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے‘ (۲۹)
ریڈیو پر رویت ہلال کی خبر
مولانا تقی امینی کتاب و سنت سے ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر خبر کی صحیح حیثیت متعین کرنے پر مامور ہیں اور صحیح حیثیت کے تعین کے لئے وہ غلبۂ ظن کافی ہے ، جس سے اطمینان قلب حاصل ہو جائے۔ ریڈیو پر خبر کی صحیح حیثیت متعین کرنے کے لئے فقہی جزئیات ایک سے بڑھ کر ایک پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریڈیوکی خبر کی حیثیت شہادت کی نہیں بلکہ اس کی حیثیت اطلاع کی ہے ،فرماتے ہیں :
’ریڈیو رویت ہلال کی جس خبر کو نشر کرتا ہے اس کی حیثیت شہادت کی نہیں بلکہ اطلاع کی ہوتی ہے ۔مطلع صاف ہو تو تین ورنہ دو اشخاص کی اطلاع پر غلبۂ ظن حاصل ہوتا ہے ، مختلف ریڈیو کی خبر یں مختلف گواہوں کی اطلاع کی حیثیت رکھتی ہیں ، البتہ اس صورت میں چاند کی خبر کا ثبوت محض خبروں سے نہیں بلکہ اس فیصلے سے سمجھا جائے گا جو (فیصلہ)علما ان خبروں سے غلبۂ ظن ہونے کے بعد کریں گے ‘(۳۰)۔
رویت ہلال کے سلسلے میں اختلاف مطالع کی بحث کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، مولانا نے اس کے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اس کا اندزہ ان کے قائم کردہ ذیلی عناوین ہی سے لگا یا جا سکتا ہے، یہ عناوین حسب ذیل ہیں:
’اختلاف مطالع کی بحث بڑی پر پیچ ہے
اختلاف مطالع : اعتبار کرنے اور نہ کرنے کی صورتیں
ایک دن کے فرق سے کم میں اختلاف کا اعتبار نہ ہو گا
یہ فرق اختلاف رویت کے لحاظ سے ہے ہیئت کے لحاظ سے نہیں ہے
ایک دن سے کم فرق والے ممالک میں ایک دن عید کرنے کی گنجائش (ہے )
ہندو پاک کے اوقات میں فرق کا نقشہ
چاند کے ثبوت میں عام فقہا کے نزدیک ہیئت کا اعتبار نہیں ہے
امام ابو حنیفہ کے مسلک کی توجیہ ۔
اپنی گفتگو کے آغاز ہی میں مولانا کہہ دیا کہ :اختلاف مطالع کی بنیاد پر رویت ہلال کامسئلہ اول روز سے مسئلۂ لا ینحل بنا ہوا ہے ، اس بابت مولانا نے ’حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:
’رویت ہلال کے سلسلے میں اختلاف مطالع کی بحث کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، لیکن یہ بحث اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس سے قطعی نتیجے پر پہنچنا حد درجہ مشکل ہے‘(۳۱)۔
امام ابو حنیفہ کے مسلک کی توجیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : امام ابو حنیفہ کے نزدیک چونکہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے اس بنا پر کسی حصے میں بھی رویت ہونے سے ساری دنیا میں (بشرط شرعی ثبوت)عید منائی جا سکتی ہے (۳۲)۔
آگے چل کر فرماتے ہیں :
امام صاحب کا یہ مسلک رویت ہلال کے لحاظ سے نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، البتہ ہیئت کے لحاظ سے صحیح ہے ، جس کا ان کے نزدیک اعتبار ثابت نہیں ہے ، ایسی صورت میں اس مسلک کی صرف ایک توجیہ ہو سکتی ہے ، وہ یہ کہ خلیفۃ المسلمین کسی جگہ کی رویت کی بنا پر چاند ہونے کا فیصلہ کر دے اور اختلاف مطالع کی بحث ختم ہو کر یہ فیصلہ ساری دنیا کے لئے قابل عمل قرار پائے ۔ مولانا نے اس توجیہ کی تائید میں التاج لجامع الاصول ۲؍۲۵ کے حوالے سے ابن الماجشون کا قول نقل کیا ہے (۳۳)۔اس طرح اختلاف مطالع کی اس پیچیدہ بحث کا اختتام غیر تشفی بخش گفتگو پر ہوتا ہے ۔
سٹہ بازی اور اسٹاک ایکسچینج
ان دونوں مسائل پر مولانا کی بحث نہایت فاضلانہ محققانہ اور دوربینی پر مبنی ہے ۔اول الذکر مسئلے کے مالہ و ماعلیہ پر مختلف زاویوں اور شراب و جوا جیسے کاروبار اور مبادلات پر غور کرنے کے بعد سٹہ بازی کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کے چند وجوہ و اسباب بتائے ہیں فر ماتے ہیں :
’ سٹہ بازی ان وجوہات پر ناجائز ہے
الف:یہ ادھار کی بیع ادھار کے ذریعے ہے۔
ب:یہ اس چیز کی بیع ہے جس پر عملًا یا قانونا ًاب تک قبضہ نہیں ہوا۔
ج:اس چیز پر نفع لینا ہے، جو اپنے ضمان میں نہیں ہے۔
د:فصل آنے سے پہلے محض تخمین و اندازہ کی سودا بازی ہے۔
ہ:ایک فریق اس میں غیر معمولی خطرات مول لیتا ہے۔
و:اس میں اجارہ داری ،ذخیرہ اندوزی اور ناجائز استحصال کی ذہنیت پائی جاتی ہے۔
ز:وہ تمام اخلاقی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ماہرین معاشیات کی آراء میں گزر چکی ہیں۔
ح:یہ بڑی حد تک مالیاتی بحران کا باعث ہوتا ہے جس کا بالواسطہ اثر اخلاق پر پڑتا ہے(۳۴)
اسٹاک ایکسچینج پر خرید و فروخت ان وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے
الف:کمپنی کے ڈائرکٹر و منیجر حصہ داروں کے امین اور ان کے مفاد کے محافظ ہوتے ہیں،لیکن یہ لوگ بھی دھوکہ دے کر حصہ داروں سے ناجائز فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
ب:کمپنی کی اندرونی حالت سے جن کو زیادہ واقفیت ہوتی ہے ،وہ فرضی طور پر خرید کر کے ،یا احتکار و تخمین کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں،جس سے دوسرے حصہ داروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔
ج: حصص کی منتقلی میں چونکہ لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے اس بنا پر حق تلفی دھوکہ دہی اور ناجائز استحصال وغیرہ کو کاروباری حلقے میں برا نہیں سمجھا جاتا ۔
د:حصص کی انتقال پذیری کی توقع (بالواسطہ) مستقبل کے تخمینی کاروبار کو فروغ دیتی اور تمسک کے صرافوں کو جنم دیتی ہے جس کے اثرات نہایت دوررس اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔
ہ:حصص پر نفع کی مذکورہ تقسیم بعض صورتوں میں جہالت پیدا کرتی اور بعض میں حق تلفی کا باعث بنتی ہے،جیسا کہ ’ترجیحی‘ کی بعض شکلوں میں ہوتا ہے۔
و:بار بار حصص کی منتقلی سے اخلاقی حس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اجتماعی مفاد مجروح ہوتا ہے۔
ز: تمسکات کے مالک صرف نفع میں شریک ہوتے ہیں۔یعنی ’’سود ‘‘ کے مستحق ہوتے ہیں ۔نقصان سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ح: تمسکات کی خرید و فروخت کرنے والے ہر وقت ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش میں رہتے ہیں اور ان کی قمار بازی میں بہت کچھ غیر پیداوار ی محنت صرف کرتے ہیں۔جس کو ماہرین معاشیات نے چوری کرنے اور بھیک مانگنے والوںکی محنت سے تشبیہ دی ہے۔
ط:یہ کاروبار چند چالاک و چال باز قسم کے دلالوں میں محدود ہو گیا ہے ،جو کمیشن حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی غلط شہرت و جائز و ناجائز سے دریغ نہیں کرتے۔(۳۵)
مولانا نے بتایا کہ اسلامی حکومت میں حصص کی خریدو فروخت کے دو متبادل انتظام ہیں:
الف:وہ جس میں مشترکہ سرمایہ کمپنیاں باقی رہتی ہیں۔
ب:وہ جس میں یہ کمپنیاں بڑے کاروبار کے لئے ختم کردی جاتی ہیں۔(۳۶)
بیمہ کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت
بیمہ ایک قسم کا معاہدہ ہے ۔بنیادی طور پر اس کی دو قسمیں ہیں ۔
۱- اموال کا بیمہ
۲- زندگی کا بیمہ
جنرل انشورنس کمپنیوں کے تحت بیمے کی دوسری قسمیں بھی ہیں،مثلا آگ کا بیمہ۔شخصی بیمہ۔جائداد کا بیمہ وغیرہ۔
مولانا بیمہ کی حقیقت پر بحث کرتے ہوئے اس کی شرعی حیثیت کی طرف آتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’بحری بیمہ کو علامہ حصکفیؒ نے دارالحرب میں جائز اور دارالاسلام میں ناجائز کہا ہے‘(۳۷)۔یہی رائے ابن عابدین کی نقل کی ہے، پھربیمہ کو جائز کہنے والوں میں ذیل کے علماء کی آراء نقل کئے ہیں۔
مفتی محمد عبدہ مصری۔مفتی محمد بخیت مصری۔موسی جاراللہ روسی۔فقیہ محمد یوسف موسی مصری۔استاد احمد طہ سنوسی۔ (مسئولیاتی بیمہ کو جائز کہاہے)استاد عبدالرحمن عیسی۔وغیرہ نے جائز کہا ہے۔شیخ عبدالمنعم نے بیمہ کمپنیوں سے بیمہ کرانے کو ناجائز اور حکومت کی قائم کردہ کمپنیوں سے کرانے کو جائز کہا ہے۔یہی رائے شیخ ابوزہرہ کی بھی ہے۔ شیخ عبدالرحمن قراعہ مصری ۔شیخ احمد ابراہیم مصری۔فقیہ ابوالحسن نے ناجائز کہا ہے۔اس کے بعد مولانا نے ایک مجلس مذاکرہ منعقدہ مصر ۱۹۵۵ ء کا خلاصہ پیش کیا ہے۔۱۹۶۵ء تک پہنچتے پہنچتے موتمر اسلا می کی اکثریت نے صرف بیمہ تعاونی کو جائز قرار دیا ہے۔استاد علی خفیف نے تعاونی و تجارتی دونوں قسموں کو جائز قرار دیا ہے۔
بیمہ کے بارے میں مجلس تحقیقات (ندوۃ العلماء)لکھنو کا فیصلہ
۱۹۶۳ ء میں ندوۃ العلماء لکھنو میں یہ مجلس قائم ہوئی تھی۔مولانا مرحوم اس کے کنوینر تھے ،اس مجلس نے ۱۹۶۵ میں بیمہ کے بارے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس کا نقل کرنا یہاں طول کا باعث ہوگا ۔اس فیصلے کا لب لباب اس طرح ہے :
’ضرورت شدیدہ کے پیش نظر اگر کوئی شخص اپنی یا اپنے مال ،یا اپنی جائداد کا بیمہ کرائے تو مذکورہ بالا ائمہ کرام کے قول کی بنا پر شرعاً اس کی گنجائش ہے۔(۳۸)
آخر میں مولانا نے بیمہ کی ابتدائی تاریخ بیان کی ہے اور کئی مستشرقین کے اقوال کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کی ابتدا مسلمانوں نے کی ہے۔دوسری رائے یہ ہے کہ اٹلی کے تاجروں نے اس کی ابتدا کی ہے۔تیسری رائے انگلستان کے حق میں ہے۔
زمانہ جاہلیت میں عاقلہ ،قسامہ،عقد موالات،حلف،وِلاء،عِد ،جیسے ناموں سے رائج تنظیمات کو رسول اللہ ﷺ نے باقی رکھا ۔مولانا نے ان تنظیمات اور ان کی حیثیت کا تشفی بخش تعارف کرایا ہے۔اسلامی حکومتوں کی مختلف جہتوں سے ذمہ داریاں بتائی ہیں اور اپنی فقہی بصیرت سے مثبت اور منفی پہلووں اور عوامی ضروریات کی تکمیل کی اساس پر بحث کو صفحہ ۲۰۹ سے آگے بڑھاتے ہوئے صفحہ ۲۳۲ تک پہنچ کر فرماتے ہیں:
’بیمہ زندگی کی عام ضرورت کے تحت جائز ہے ‘آخر میں عنوان قائم کرتے ہیں :
’معاملات و مبادلات کی چند شکلیں جو عدم جواز کے بعض وجوہ کے پائے جانے کے باوجود جائز ہیں‘۔جیسے بیع عرایا۔(اس میں قبضہ اور مساوات نہیں پائی جاتی)بیع سلم ۔(معدوم کی بیع ہے)بیع عینیہ(اس میںسود کا حیلہ پایا جاتا ہے)بیع الوفاء(اس میں کسی حق اور عوض کے بغیر انتفاع پایا جاتا ہے جو سود کی ایک شکل ہے ،لیکن عام فقہاء نے )اس کی اجازت دی ہے۔ضمان درک(اس میں مستقبل کے خطرے کی ضمانت ہے،جس میں جہالت پائی جاتی ہے اس بنا پر قاعدے کے مطابق جائز نہ ہونا چاہئے لیکن فقہاء کے نزدیک )جائزہے۔ضمان خطر الطریق(اس میں خطرات کی ضمانت ہے اور دھوکہ پایا جاتا ہے اس بناء پر ناجائز ہونا چاہئے لیکن فقہا نے اس کو)جائز قرار دے کر ضمان واجب کیا ہے۔یہ چند مثالیں بطور نمونہ ذکر کی گئیں ہیں، جن سے جدید مسائل کے حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔(۳۹)
بیمہ کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے مولانا مشورہ دیتے ہیں کہ اسلامی حکومت بہتر تنظیم وجود میں لائے گی،یا بیمہ کو ’’اسلامی‘‘ بنائے گی،اسلامی بناتے وقت سماجی بیمہ کو وسیع پیمانے پر قبول کرے گی۔ابتدائی مرحلے میں لازمی طور سے پرائیوٹ کمپنیوں کو ختم کرنا ہوگا ،اس کے بغیر موجودہ حالت میں اسلامی عدل و توازن پیدا ہونے کی کوئی شکل نہیں ہے۔
’اسلامی کارپوریشن‘ میں سرکاری ملازمین اور سیلف امپلائیڈ(خود کاروبار کرنے والے)دونوں کا بیمہ ہوگا ،نیز اس کادائرہ ان صورتوں تک محدود نہ ہوگا جن میں انسان روزی کمانے سے قاصر ہوتا ہے، بلکہ مختلف ضرورتوں، مکان،تعلیم،شادی کو بھی شامل ہوگا۔
فقہی مباحث میں مولانا کی علمی پختگی اور دینی بصیرت کا یہ ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے، اس سے اہل علم و نظر کو دوباتوں کا اندازہ ہو گا۔
ایک یہ کہ زمانے کے مسائل اور فقہی جزئیات پر نظر رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے، مگر مسائل کو پھیلا کر اور حکمت و بصیر ت کو ساتھ لے کر فقہا کی کاوشوں سے نظیریں لاکر مسائل کا حل تلاش کرنے والے کمیاب ہیں ۔مولانا ان ہی کمیاب لوگوں میں تھے ۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح کے مسائل پرلوگوں نے اس وقت جس وقت کی یہ تحریریں ہیںکم توجہ دی گئی اور جنہوں نے دی بھی ،وہ بڑی حد تک جمود سے نہ نکل پانے کی وجہ سے زیادہ وسعت اور گہرائی کے ساتھ مسائل کے حل کی کوشش نہ کرسکے ہیں۔
مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم مولانا کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں:
’مولانا کو زمانے کے بدلے ہوئے حالات اور شرعی نزاکتوں دونوں کا پورا احساس ہے ،اس لئے انہوں نے ٹھیٹ مذہبی حلقوں کو اپنا انداز فکر ونظر بدلنے اور اجتہاد کا بند دروازہ کھولنے کی دعوت دی ہے۔اور نئی جلوہ گاہوں کے مدہوشوں کو ہوش و حواس درست کرنے اور اجتہاد کے نشیب و فراز سے واقف ہونے کا مشورہ دیا ہے۔آج چاہے ان کی رائے کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جائے لیکن جلد ہی اس کا وزن محسوس کیا جائے گا(۴۰)۔
اوراس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی وفات کے بعد ان کی باتوں کا وزن محسوس کیا جا چکااور ان کی کاوشوں کو سراہا جاچکا، ان کے فقہی مزاج کو اعتبارملا اور ان کے’ مشاورتی اجتہاد‘ کے نقطۂ نظر کی اساس پر ملّی نفاد پہ کام کا آغاز ہونے لگا ۔
بیسویں صدی نے مسلمانوں کے سامنے نوع بنوع مسائل کے اتنے انبار اکھٹا کر دیئے کہ نہ صرف بر صغیر میں بلکہ عالم اسلام کے مختلف ممالک میں اجتماعی اجتہاد کے تصور کی بنیاد پراِن مسائل کو حل کرنے کے لئے مجمع البحوث الفقھیۃ ، فقہ اکیڈیمی اور مجلس تحقیقات شرعیہ وغیرہ ناموں سے با کمال فقہا اور بصیرت مند علمامل جل کر فقہی ادارے قائم کرنے لگے۔ ’مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء ‘ نامی تعارفی رسالے کے مرتب مفتی ؍مولانا منور سلطان ندوی رقم طراز ہیں :
’بر صغیر ہندو پاک میںاس سلسلے میں سب سے پہلے مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ للہ علیہ نے ۱۹۶۳ء میں اجتماعی اجتہاد کا تصور ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ میں پیش فرمایاجہاں ملک کے چیدہ علما ءجمع تھے ، آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا‘ (۴۱) ۔۔۔ ۔۔’ندوۃ العلماء پر یہ ذمہ داری خاص طور پر عائد ہوتی ہے کیونکہ علماء کے اس انجمن کے قیام اور ایک بلند پایہ دارالعلوم کی تاسیس کے اہم مقاصد میں سے نئے مسائل پر غور اور جدید تبدیلیوں کے مطابق احکام و جزئیات کا استنباط اور مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فرض بھی شامل تھا ۔
ندوۃ العلماء کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہو گی کہ وہ اپنے دارلعلوم کے اندر یہ کام شروع کرے اور اس کے لئے ایک مستقل شعبہ قائم کرے ، دارلعلوم میں ایک بہت بڑ ا کتب خانہ ہے اور صاحب نظر علماء کی بھی ایک جماعت ہے ، مصر و شام کے علمی اداروں اور مرکزی شخصیتوں سے رابطہ کرنے اور ان کے افکار و آراء سے استفادہ کرنے کا بھی بہترین موقع حاصل ہے ‘(۴۲)۔
یکم ستمبر۱۹۶۳ء میں چیدہ علما و اہل نظر فقہا کی موجودگی میں’ مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء ‘کی بنیاد پڑ گئی اور’حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے مجلس تحقیقات شرعیہ کی ذمہ داری مولانا محمد تقی امینی صاحبؒ کے سپرد کی جو وسیع النظر عالم دین ہونے کے ساتھ تحقیقی ذوق کے بھی حامل تھےاور موجودہ حالات میں جدید مسائل کے حل کے لئے اجتماعی کوششوں کے داعیوں میں سے تھے ، انہوں نے مجلس کی بنیاد کو منظم و مرتب کرنے کی پوری کوشش کی‘(۴۳)۔
۱۹۶۴ء میں ناظم دینیات کی حیثیت سے ندوۃ العلماءسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی منتقل ہو گئے ۔ ۱۹۹۱ء میں آخرت کے لئے رخت سفر باندھ لیا ، اللھم بّرد مضجعہ و أنزل رحمتہ ۔
حواشی:
(۱)مولانا نے اپنے نام محمد تقی کے ساتھ امینی کا لاحقہ مدرسہ امینیہ سے سند فراغ حاصل کرنے کی وجہ سے نہیں لگایا تھا ، جیسا کہ ندوی ، قاسمی، مظاہری ، اصلاحی ، فلاحی، سلفی علیگ اور جامعی وغیر ہ لاحقوں کارواج ہے اور جیسا کہ عام آدمی کا ذہن اس سمت جائے گا ، بلکہ اس لفظ کو انہوں نے لفظ ’امانت‘سے لیا تھا جو دین کی اساسیات میں سے ہے، گویا وہ دین کا علمبردار بن کر جینا چاہتے تھے(تہذیب الاخلاق جنوری ،فروری ۱۹۹۱ء ص:۱۱)۔
(۲)تہذیب الاخلاق علی گڑھ ، جنوری ، فروری ۱۹۹۱ء
(۳)تعمیر حیات ۱۰ ؍ فروری ۱۹۹۱ء ، تہذیب الاخلاق ص ۱۲
(۴) معارف دارالمصنفین اعظم گڑھ ، فروری ۱۹۹۱ء ص:۲۳۵
(۵)حوا لۂ سابق ص۲۳۰، ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابنائے ندوہ کی فقہی خدمات ص ۱۸۴،از منور سلطان ندوی
(۶)حوالۂ سابق ، :۱۸۴ ۔نیز تعمیر حیات ۱۰؍ فروری ۱۹۹۱ء
(۷)تہذیب الاخلاق ص ۱۲
(۸) معارف ص: ۲۲۹
(۹)تہذیب الاخلاق ص: ۱۵
(۱۰)ملاحظہ ہوحوالۂ سابق ص: ۱۵
(۱۱) معارف ص :۲۳۷
(۱۲)تہذیب الاخلاق ص: ۱۶
(۱۳) حوالۂ سابق ص: ۱۶
(۱۴)معارف ص:۲۲۸
(۱۵)حوالۂ سابق ص: ۲۳۶-۲۳۷
(۱۶) تہذیب الاخلاق ص ۱۳
(۱۷) تعارف از قلم : مولانا سعید اکبر آبادی ،مولانا کی یہ تحریر ۹؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کی ہے(مقالات امینی )ص: ۶-۷
(۱۸)معارف ص: ۲۳۲
(۱۹) مقالات امینی ص ۲ ۱ ۔ اس نام سے پہلی بار تین مقالات کا مجموعہ ۱۹۵۵ء میں ادارۂ علم و عرفان کی جانب سے اور دوسری بار بارہ مقا لات پر مشتمل مجموعہ مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا تھا ، اول الذکر مجموعہ کے کل صفحات ۸۴ اور ثانی الذکر کے کل صفحات ۲۶۸ ہیں۔ہم نے اپنے حوالوں میں اسی دوسرے اڈیشن کو سامنے رکھا ہے ۔
(۲۰)حوالۂ سابق ص :۱۳-۱۴
(۲۱)حوالۂ سابق ص: ۲۱
(۲۲) حوالۂ سابق ص: ۲۵
(۲۳) حوالۂ سابق ص:۲۶-۲۷
(۲۴) معارف ص:۲۳۲
(۲۵)مقالات امینی ص:۲۹
(۲۶)حوالۂ سابق ص:۴۴
(۲۷)حوالۂ سابق ص:۴۵-۴۶
(۲۸) تفصیل کے لئے دیکھئے مقالات امینی ص ۵۷-۵۹ ۔ اہل حل و عقد وہ ہوں گے جن کے اندر سات طرح کے اعلی اوصاف پائے جائیں گے۔
(۲۹)اسلام کا زرعی نظام ص: ۱ ، مطبوعہ ۱۹۵۴ء ، مصنف نے اس کتاب کی تصنیف اپنے ناگپور کے قیام کے دوران فرمائی تھی ۔ ناشر ندوۃ المصنفین ، جامع مسجد ، دہلی ، کل صفحات: ۳۰۳
(۳۰) مقالات امینی ص:۱۱۰
(۳۱) حوالۂ سابق ص:۱۱۱
(۳۲)حوالۂ سابق ص:۱۱۶
(۳۳)حوالۂ سابق ص:۱۱۷
(۳۴)حوالۂ سابق ص:۱۴۳-۱۴۴
(۳۵)حوالۂ سابق ص:۱۴۴-۱۴۵
(۳۶)حوالۂ سابق ص:۱۴۸
(۳۷)حوالۂ سابق ص:۱۶۸
(۳۸) ملاحظہ ہو حوالۂ سابق ص:۲۰۰-۲۰۱
(۳۹)تفصیل کے لئے دیکھئے حوالۂ سابق ص:۲۳۶-۲۴۱
(۴۰)معارف فروری ۱۹۹۱ء ص: ۲۳۲
(۴۱)مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء، از منور سلطان ندوی ص: ۱۴
(۴۲)حوالۂ سابق ص :۱۴-۱۵
(۴۳)حوالۂ سوابق ص:۳۰