دو روزہ فقہی سیمینار
December 10, 2024اداریہ
December 26, 2024
تفسیر ابن جریر طبری ایک جامع تعارف
مولانا فیصل احمد ندوی
(استاد تفسیر وحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)
قران کریم کا سب سے پہلا، ضروری اور حقیقی تعارف یہی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ملا ہوا سب سے آخری ہدایت نامہ ہے، جو آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ چوں کہ وہ آخری الٰہی دستور ہے، اس لیے ہر مسئلے کا حل اس میں بتایا گیا، اور ہر چیز کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴿النحل: ٨٩﴾ اور کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ﴿الأنعام: ٣٨﴾
رہتی دنیا تک جو ضرورت انسان کو پیش آسکتی ہے، اور جو سماجی یا سیاسی مشکل اس کو در پیش ہو سکتی ہے، ان سب کا حل اس میں چوں کہ پیش کیا گیا ہے، اس لیے اس کا طبعی تقاضا یہ تھا کہ اس میں اجمالی انداز اختیار کیا جاتا۔ زمانۂ نبوت سے دوری کے ساتھ اس اجمال کی تفصیل کی ضرورت بڑھتی گئی، چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے مساجد میں دروسِ قران کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور روایاتِ حدیث کو جمع کرنے کے ساتھ جب تصنیف کا آغاز ہوا تو تفسیر کے موضوعات میں بھی کتابیں لکھی جانے لگیں، چناں چہ مشہور تابعی حضرت عطاء ابن ابی رباح (متوفی ۱۱۴ھ) کی کتاب غریب القران کا ذکر ملتا ہے، جس کو تفسیر کے کسی موضوع پر لکھی ہوئی سب سے پہلی کتاب کہا جا سکتا ہے۔ یہ دراصل حضرت ابن عباس کی مرویات ہیں، جن کو عطاء نے مرتب کیا ہے۔ ( اس کا مخطوطہ ترکی کے مکتبہ عاطف آفندی میں موجود ہے) اور اگر تاریخِ وفات کے لحاظ سے دیکھیں تو سب سے پہلے مستقلاً تفسیر پر کتاب لکھنے والے مشہور محدث وفقیہ ابن جریج (عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج المکی المتوفی ۱۵۰ھ) معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تفسیر بتحقیق دکتور عبدالرحمن بن حسن فائد دارالکمال المتحدہ دمشق سے اور علی حسن عبد الغنی کی تحقیق کے ساتھ مکتبۃ التراث الاسلامی بیروت سے شائع ہو چکی ہے۔
عہدِ روایت یعنی ابتدائی چار صدیوں بلکہ پانچویں صدی کے اوائل تک جو کتابیں تفسیر میں لکھی گئیں، وہ سب روایات پر مبنی تھیں، یعنی آیات کے تحت احادیث مرفوعہ اور صحابہ و تابعین کے آثار اپنی اسانید سے انھوں نے ذکر کیے ہیں۔ ان کے علاوہ ان تفاسیر میں کوئی چیز نہیں ملتی۔ ابن جریج (وفات: ۱۵۰ھ) سے لے کر ابن مردویہ (وفات: ۴۱۰) تک پچاس سے زائد اس قسم کی تفاسیر کا ذکر ملتا ہے۔ ان تفاسیر میں اختلافِ اسانید کے ساتھ روایات کا تکرار بکثرت ہے۔ اسی وجہ سے حافظ ابن حجر نے ان کے اجمالی تذکرے کے بعد لکھا ہے کہ ان میں چار تفسیریں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں: تفسیر عبد ابن حمید (وفات: ۲۴۹) تفسیر ابن جریر (وفات: ۳۱۰ھ) تفسیر ابن المنذر(وفات: ۳۱۸ھ یا ۳۱۹ھ) اور تفسیر ابن ابی حاتم (وفات: ۳۲۷)۔تفسیر سے متعلق احادیث وآثار میں سے شاید ہی کچھ ان میں درج ہونے سے رہ گئے ہوں ( ۱)۔
لیکن ان میں صرف تفسیر ابن جریر واحد تفسیر ہے، جس میں اس کے مصنف نے سب سے ہٹ کر اجتہاد سے کام لیا ہے، اور احادیث وآثار کے علاوہ بہت سی باتیں پہلی دفعہ ذکر کی ہیں، جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ خدا کی شان کہ ان میں سے صرف ابن جریر کی تفسیر ہی پوری محفوظ ہے۔ بقیہ تینوں تفسیروں کے اکثر حصے مفقود ہیں ( ۲)۔
امام ابن جریر طبری اور ان کی تفسیر
امام ابن جریر کے مفصل تعارف کا یہ محل نہیں ، نہ اس کی یہاں ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ پورا نام ابو جعفر محمد بن جریر طبری ہے۔ طبرستان کی طرف ان کی نسبت ہے، جو اس وقت شمالی ایران میں ہے۔ ۲۲۴ھ میں پیدایش ہوئی۔ اور ۳۱۰ھ میں وفات ہوئی۔ تمام علوم میں ان کو کمال حاصل تھا۔ علمائے امت کے حالات کا اگر جائزہ لیں، تو ایسے علماء بہت کم ملتے ہیں، جن کو متعدد علوم میں بیک وقت امامت کا درجہ حاصل ہو۔ امام ابن جریر طبری انھی چند علماء میں سے ہیں، جن کی حدیث، تفسیر، فقہ، لغت، قرات اور تاریخ میں امامت تسلیم کی گئی۔
ایک طرف ان کو شیخ المفسرین اور عمدۃ المفسرین کہا گیا ہے۔ تو دوسری طرف حافظِ حدیث بھی قرار دیا گیا ہے۔ تیسری طرف ان کو فقیہ مجتہد تسلیم کیا گیا ہے، یہاں تک کہ عرصے تک مذہبِ حنبلی کی طرح مذہبِ جریری رائج تھا۔ چوتھی طرف وہ امام المؤرخین بھی تھے۔ پانچویں طرف وہ فنِ قرأت کے بھی امام تھے۔ چھٹی طرف لغت میں بھی ان کو امامت کا درجہ حاصل تھا۔ ساتویں طرف فن نحو میں بھی وہ چوٹی پر تھے۔
ہم یہاں چند کبار علماء ومؤرخین کی عبارتیں نقل کرتے ہیں، جن سے مختلف علوم میں امام طبری کی امامت اور منتہاے کمال کا اندازہ ہوتا ہے:
امام ابن جریر کے شاگرد اور تذکرہ نگار شیخ عبد العزیز بن محمد طبری لکھتے ہیں:
وكان ظَلِفاً(وفي نسخة:عازفاً)عن الدنيا تاركا لها ولأهلها يرفع نفسه عن التماسها، وكان كالقارىء الذي لا يعرف إلا القرآن، وكالمحدّث الذي لا يعرف إلا الحديث، وكالفقيه الذي لا يعرف إلا الفقه، وكالنحويّ الذي لا يعرف إلا النحو، وكالحاسب الذي لا يعرف إلا الحساب، وكان عاملا للعبادات جامعا للعلوم، وإذا جمعت بين كتبه وكتب غيره وجدت لكتبه فضلا على غيرها(۳ ).
وہ بڑے زاہد اور دنیا اور اہل دنیا سے کنارہ کش تھے ، طلب دنیا سے اپنے کو انہوں نے بہت بلند کر رکھا تھا۔ وہ ایسے قاری تھے کہ قران کے علاوہ جیسے کچھ جانتے ہی نہیں، اور ایسے محدث تھے لگتا تھا کہ صرف حدیث ہی وہ جانتے ہیں، اور ایسے فقیہ تھے معلوم ہوتا تھا کہ فقہ ہی ان کا موضوع ہے ،اور ایسے نحوی تھے ظاہر ہوتا تھا کہ نحو ہی سے ان کا اشتغال ہے، اور ایسے ریاضی دان تھے لگتا تھا کہ حساب کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ وہ عبادتوں میں مشغول رہتے تھے اور متعدد علوم کے جامع تھے۔ ان کی کتابوں اور دوسروں کی کتابوں کو اگر آپ جمع کریں تو ان کی کتابوں کی دوسری کتابوں پر برتری آپ کو صاف نظر آئے گی۔
حافظ خطیب بغدادی (ت: ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
وكان أحد أئمة العلماء، يحكم بقوله، ويرجع إلى رأيه لمعرفته وفضله. وكان قد جمع من العلوم ما لم يشاركه فيه أحد من أهل عصره، وكان حافظا لكتاب الله، عارفا بالقراءات، بصيرا بالمعاني، فقيها في أحكام القرآن، عالما بالسنن وطرقها، وصحيحها وسقيمها، وناسخها ومنسوخها، عارفا بأقوال الصحابة والتابعين، ومن بعدهم من الخالفين في الأحكام، ومسائل الحلال والحرام، عارفا بأيام الناس وأخبارهم، وله الكتاب المشهور في «تاريخ الأمم والملوك»، وكتاب في التفسير لم يصنّف أحد مثله، وكتاب سماه «تهذيب الآثار» لم أر سواه في معناه إلا أنه لم يتمه، وله في أصول الفقه وفروعه كتب كثيرة، واختيار من أقاويل الفقهاء، وتفرّد. بمسائل حفظت عنه(۴ ).
وہ ایک بڑے عالم بلکہ امام العلماء تھے، ان کے علم و فضل کی وجہ سے ان کی بات کے مطابق فیصلہ کیا جاتا اور ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جاتاتھا۔ وہ اتنے علوم کے جامع تھے کہ ان کے معاصرین میں کوئی ان کا اس میں شریک و سہیم نہیں تھا۔ وہ حافظ قران تھے،مختلف قراتوں کے ماہر تھے، معانی قران پر ان کی گہری نظر تھی ،فقیہ تھے، احکام قرآن میں دستگاہ حاصل تھی، أحاديث وسنن اور ان کے طرق و اسانید سے پورے واقف تھے ،صحیح و ضعیف اورناسخ و منسوخ کا انھیں پورا علم تھا، احکام کے سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال و آثار اور بعد کے علماء کے مختلف آراء واقوال سب ان کے علم میں تھے، وہ دنیا کی تاریخ اور لوگوں کے احوال وواقعات کے بڑے عالم تھے، تاریخ الامم و الملوک میں ان کی کتاب بہت مشہور ہے، تفسیر میں ان کی جیسی کتاب کسی نے نہیں لکھی ، “تھذیب الآثار ” کے نام سے ان کی ایک کتاب ہے اس موضوع پر ایسی کوئی کتاب ہمارے علم میں نہیں ہے، اگرچہ اس کو مکمل نہیں کر سکے، اصول فقہ اور فقہی احکام میں ان کی بہت سی کتابیں ہیں، فقہ ان کے ترجیحی اقوال بھی ہیں اور کچھ مسائل میں ان کا تفرد بھی ہے۔
امام ذہبی (ت: ۷۴۸ھ) کی عبارت ملاحظہ ہو:
كان ثقة، صادقا، حافظا، رأسا في التفسير، إماما في الفقه، والإجماع والاختلاف، علامة في التاريخ وأيام الناس، عارفا بالقراءات وباللغة، وغير ذلك( ۵).
وہ بڑے ثقہ محدث اور حافظ حدیث تھے، تفسیر میں صدر نشین اور فقہ میں امام وقت تھے، اسی طرح اجماع اور اختلافی مسائل میں بھی امامت کے درجے پر فائز تھے، تاریخ سے واقفیت میں علامۂ زمانہ تھے، فن قرات اور لغت وغیرہ میں بھی دستگاہ کامل حاصل تھی۔
نیز لکھتے ہیں: وكان من أفراد الدهر علما، وذكاء۱، وكثرة تصانيف. قل أن ترى العيون مثله( ۶).
وہ علم فضل اور ذہانت و ذکاوت اور کثرت تصانیف میں یکتائے روزگار تھے۔ نگاہوں نے ان کی مثال کم دیکھی ہے۔
کثرتِ تصانیف کی بات آئی، تو یہ بھی معلوم ہو کہ چالیس سال ان کی زندگی کے ایسے گزرے ہیں کہ وہ روزانہ چالیس ور ق لکھتے تھے( ۷)۔
امام ابن جریر طبری کی وسعت علمی اور عالی ہمتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انھوں نے تاریخ اور تفسیر میں کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو اپنے تلامذہ کے سامنے یہ بات رکھی کہ تم تاریخ عالم کے لیے کتنے مستعد ہو، جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے زمانے تک کے حالات ہوں گے؟ انھوں نے عرض کیا: اس کی ضخامت کیا ہوگی ؟ امام طبری نے کہا: تیس ہزار اوراق، یعنی ساٹھ ہزار صفحات میں یہ کتاب ہوگی۔ شاگرد کہنے لگے: اس کے مکمل ہونے سے پہلے ہی عمریں ختم ہو جائیں گی۔ انھوں نے اس پر انا للہ پڑھا اور فرمانے لگے: ہمتیں مر چکیں، حوصلے فنا ہو چکے ہیں! پھر انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے تین ہزار ورق یعنی چھ ہزار صفحات میں اس کو لکھا۔ اسی طرح جب انھوں نے تفسیر لکھوانے کا ارادہ کیا تو اپنے شاگردوں سے اسی طرح کا سوال کیا اور اسی طرح جواب ملنے پر اس کو تقریباً تاریخ کی کتاب کے بقدر ہی مختصر لکھا ۔
جہاں تک تفسیر ابن جریر کا تعلق ہے، وہ ایک بے نظیر کارنامہ اور انقلابی کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن جریر کے زمانے تک اور ان کے بعد ایک عرصے تک لوگ اپنی تفسیروں میں صرف حدیث کی روایتیں اور صحابہ وتابعین کے آثار نقل کرتے تھے ، امام ابن جریر نے بڑی جرأت سے کام لے کر اس ڈھرے کو چھوڑا اور ایک نئی راہ نکالی، اور امت کو قرآن کریم پر غور کرنے کا ایک منہج دیا۔ وہ روایتیں بھی بڑی فراوانی سے نقل کرتے ہیں، لیکن اس پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ ایک کو دوسری پر ترجیح دیتے ہیں، اور بڑی قوت سے کلام کرتے ہیں، اور پوری فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں۔
تفسیر طبری کا منہج اور خصوصیات
تفسیر طبری کا منہج اگر بیان کیا جائے تو مندرجۂ ذیل تفصیل سے بات سامنے آسکتی ہے:
۱- کسی آیت یا آیت کے کسی ٹکڑے کی توجیہ میں جتنی مرفوع، موقوف، مقطوع روایتیں ان کو پہنچی ہیں، ان سب کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں، اس میں بقول امام ابن تیمیہ: اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ متہمین کی روایتیں نہیں لیتے، جیسے مقاتل بن بکیر اور کلبی (۸ )۔
روایات نقل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اپنی طرف سے عنوان اس طرح قائم کرتے ہیں:
القول في تأويل قوله عز وجل، پھر اس طرح روایتیں نقل کرتے ہیں: كالذي حدثني ۔۔۔ يا ذكر من قال ذلك، اور پھر کوئی اختلاف ہو تو نقل کرکے اس کی تائید میں روایتیں نقل کرتے ہیں، کبھی بات کے آغاز کے ساتھ ہی کہتے ہیں: اختلف أهل التأويل في تأويل ذلك، پھر فقال بعضهم کہہ کر معنی لکھتے ہیں اور تائید میں ذكر من قال ذلكکہہ کر روایتیں نقل کرتے ہیں، اس کے بعد دوسرے معنی لکھ کر اسی طرح روایتیں بیان کرتے ہیں۔
۲-مفردات کے معانی، ماہرینِ لغت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، اور اس میں بھی نقلِ محض پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اگر یہ معنی نامناسب ہیں تو شدید تنقید کرکے اس کے صحیح معنی بیان کرکے دلیل دیتے ہیں؛ چناں چہ انھوں نے معنی کی توضیح اور اصل حقیقت تک رسائی کے لیے اشعارِ عرب کا بہت سہارا لیا ہے۔
۳-نحو اور وجوہِ اعراب کو اہتمام سے بیان کرتے ہیںاور اس میں بھی اپنی فنی مہارت کا پورا ثبوت دیتے ہیں۔
۴-امام ابن جریر، دوسرے علوم میں مہارت کے ساتھ فن قرأت کے بھی امام تھے، اس لیے اختلافِ قرأت کو نقل کرکے صحیح معنی کے پیش نظر ایک قرأت کو دوسری پر ترجیح بھی دیتے ہیں، هذه القراءة أولى بالصواب، القراءة التي لا أستجيز غيرها هي كذا، یا أولى التأويلين بالآية وأصح القراءتين في التلاوة عندي التأويل الأول وغیرہ تعبیرات سے اپنی امامت کا لوہا منواتے ہیں۔
۵-دوسروں کی آراء نقل کرکے ان سے اختلاف کرتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ اپنی رائے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ طبری کی رائے ہی صحیح ہے۔
۶-امام طبری اگرچہ اصلاً شافعی تھے، لیکن منصبِ اجتہاد پر فائز تھے، اس لیے فقہی احکام بیان کرنے میں ان کی اجتہادی شان صاف معلوم ہوتی ہے۔
۷-عقائد میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کی پوری ترجمانی کی ہے، اور باطل عقائد بالخصوص معتزلہ کے عقائد کی سختی سے تردید کی ہے۔
۸- بے فائدہ اور غیر ضروری امور کو نہیں چھیڑتے، جیسا کہ بعض مفسرین کی عادت ہوتی ہے، جیسے اصحاب کہف کے نام کیا تھے؟ یا مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آسمان سے جو مائدہ اترا تھا، اس میں کس قسم کا کھانا تھا؟ یا مثلاً حضرت آدم وحوا کو جنت میں کس درخت سے روکا گیا تھا؟ اس سلسلے میں چند روایتیں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ ایک غیر ضروری بحث ہے، البتہ اتنا معلوم ہے کہ ایک مخصوص درخت تھا، اگر اس کی تعیین مقصود ہوتی تو اللہ ضرور بتاتا(۹ ) وغیرہ وغیرہ۔
۹- اسرائیلی روایات سے جب قصے نقل کرتے ہیں تو تنقید کا فریضہ انجام دیتے ہیں؛ تاہم بعض اسرائیلی روایتوں کو بغیر نقد کے بھی انھوں نے نقل کیا ہے۔
غرض امام ابن جریر کا کام تفسیر کے میدان میں ایک انقلابی قدم ہے، بلکہ ایک تجدیدی کارنامہ ہے۔ باذوق لوگوں کو اس تفسیر سے خصوصی استفادہ کرنا چاہیے۔
تفسیر طبری کا مقام علماء کی نظر میں
امام الائمہ ابن خزیمہ(ابوبکر محمدبن اسحاق بن خزیمہ السلمی النیساپوری المتوفی ۳۱۱ھ) نے اس کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد کہا: ہمیں نہیں معلوم کہ روئے زمین پر ابن جریر سے بھی بڑا کوئی عالم ہے! (۱۰ )
امام ابن جریر کے شاگرد ابو محمد الفرغانی (عبد اللہ بن احمد المتوفی ۳۶۲ھ) تفسیر ابن جریر کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر کوئی عالم یہ دعویٰ کرے کہ وہ تفسیر ابن جریر سے دس کتابیں تیار کرے گا اور ہر کتاب میں کسی ایک علم کا مکمل بیان ہوگا، تو وہ یہ کرسکتا ہے۔( ۱۱)
ابوحامد اسفرائنی(احمدبن محمدالمتوفی ۴۰۶ھ) نے اس کی اہمیت کا اس طرح اعتراف کیا ہے کہ اگر کوئی ابن جریر کی تفسیر حاصل کرنے کے لیے چین تک کا سفر کرڈالے تو بھی اس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا (۱۲)۔
خطیب بغدادی(ابوبکر احمد بن علی ثابت المتوفی۴۶۳ھ) کا قول گزر چکا ہے: لم يصنف أحد مثله(۱۳ ) یعنی کسی نے تفسیر میں ایسی کتاب نہیں لکھی۔
امام سیوطی (عبد الرحمن بن أبی بکر المتوفی ۹۱۱ھ) لکھتے ہیں:
كتابه أجل التفاسير وأعظمها….فإنه يتعرض لتوجيه الأقوال، وترجيح بعضها على بعض، والإعراب والاستنباط، فهو یفوقها بذلك(۱۴ ).
تفسیر طبری کی طباعتیں
اخیر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر طبری کی اشاعتوں پر بھی ایک نظر ڈالی جائے:
اس کی پہلی اشاعت نو جلدوں میں مطبعہ میمنیہ مصر سے ۱۳۲۱ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد مختلف مکتبوں کی طرف سے اس کے متعدد ایڈیشن نکلے ۔مشہور مصری فاضل محقق دوراں اور محدث زماں علامہ احمد شاکر (متوفی ۱۹۵۸ء) نے جو بڑے بڑے کارنامے انجام دیے، ان میں ایک بڑا کارنامہ تفسیر طبری کی تحقیق وتخریج بھی ہے، لیکن ان کے بہت سے کاموں کی طرح یہ کام بھی مکمل نہ ہوسکا، ۱۳۷۴-۱۳۸۸ھ تک اس کی سولہ جلدیں شائع ہوئیں (دار المعارف،مصر)، سولہویں جلد سورۂ ابراہیم کی ستائیسویں آیت پر ختم ہوتی ہے، تخریجِ احادیث کا کام انھوں نے کیا، اور تحقیقِ متن کی خدمت ان کے برادر خورد شیخ محمود شاکر نے انجام دی، کچھ عرصے پہلے ۳۰/اجزا میں دار إحیاء التراث العربی، بیروت۔لبنان نے اس کا ایک ایڈیشن شائع کیا (تاریخ ندارد)، اس میں ضبط وتعلیق محمود شاکر لکھا ہوا ہے، تخریج حدیث کا نام ونشان نہیں، کہیں کہیں کچھ تعلیقات ہیں، اور مقدمہ میں بھی شیخ احمد شاکر کے کام کا کہیں ذکر نہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ شیخ محمود شاکر نے شیخ احمد شاکر کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے تخریج کا کام بھی مکمل کیا ہے، اور یہ ایڈیشن شائع ہوچکا ہے۔
اس کا سب سے اچھا اور محقق ایڈیشن جس میں تخریج حدیث پر بھی پوری توجہ دی گئی ہے، شیخ عبداللہ بن عبد المحسن الترکی کی تحقیق کے ساتھ دار عالم الکتب ،الریاض نے ۲۶ ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے، جن میں دو جلدیں فہارس کی بھی شامل ہیں( طبع اول ۱۴۲۴ھ/۲۰۰۳ء)۔
حواشی:
(۱) العجاب في بيان الأسباب (۱/ ۲۰۲- ۲۰۳) تحقيق د. عبد الحكيم الأنيس، دار ابن الجوزي السعودية،۱۴۲۸هـ/ ۱۹۹۷م۔ تفصیل کے لیے دیکھیے راقم کی کتاب تفسیر واصول تفسیر- تعارف، ضرورت اور اہم کتابیں ،ص: ۴۰- ۴۲
(۲) معجم الأدباء = إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب (۶/ ۲۴۵۲) لياقوت الحموي، تحقيق إحسان عباس، دار الغرب الإسلامي بيروت، الطبعة: الأولى،۱۴۱۴هـ -۱۹۹۳م
(۳)تاريخ بغداد (۲/ ۱۶۱) دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان
(۴)سير أعلام النبلاء (۱۴/ ۲۷۰) مؤسسة الرسالة، بيروت – لبنان
(۵) أيضاً ۱۴/ ۲۶۷
(۶)المنتظم (۱۳/ ۲۱۶) لابن الجوزي، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، ۱۴۱۲هـ -۱۹۹۲م
(۷) تاریخ بغداد (۲/۱۶۱) نیز دیکھیے سیر أعلام النبلاء (۱۴/ ۲۷۴- ۲۷۵)
(۸)مجموعة فتاوى ابن تيمية (۱۳/ ۳۸۵)
(۹)دیکھیے تفسیر الطبری (۱/ ۵۵۶)
(۱۰)تاریخ بغداد (۲/۱۶۴)
(۱۱) سیر أعلام النبلاء (۱۴/ ۲۷۳)
(۱۲) طبقات الشافعیہ للسبکی (۳/۱۲۳) معجم الأدباء للحموی (۱۸/۴۲)
(۱۳)تاریخ بغداد( ۲/۱۶۳)
(۱۴)الإتقان في علوم القرآن (ص:۸۸۳)، تحقيق: فواز أحمد زمرلي، دار الكتاب العربي بيروت، ۱۴۲۶هـ – ۲۰۰۵م