فقہاء کے اختلاف میں علم حدیث کے اثرات
December 26, 2024فسخ نکاح کے چند اسباب اور کچھ جدید شکلیں
January 4, 2025
وقف کی شرعی حیثیت اور اس کا استبدال
مولانا محمد ظفر عالم ندوی
(استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)
شرع اسلامی میں وقف کا ایک مستقل نظام پایا جاتا ہے، اور اسلام کے دورِ اول سے اب تک اس کا تسلسل قائم ہے، مسلمانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ دنیا کے جس ملک میں بھی آباد ہوئے وہاں انھوں نے نیکی کے کاموں اور خیراتی مقاصد کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کیں ہے، برصغیر ہندوپاک کے تمام خطوں میں آج بھی یہ نظر آتی ہیں ،جن کو اس ملک کے باشعور اور دیانت دار مسلمانوں نے صدیوں سے باقی رکھا اور اس کی حفاظت کی ہرممکن کوشش کی، الحمدللہ یہ جائیدادیں خواہ مساجد ومدارس کی شکل میں ہوں یا مقابر اور درگاہوں اور خانقاہوں کی صورتوں میں یا ان پر وقف شدہ جائیدادیں اور عمارتیں ہوں وہ آج بھی باقی اور جاری وساری ہیں،لیکن افسوس کہ عرصہ سے یہاں کی حکومتوں کی نظر میں یہ جائیدادیں کھٹکتی رہی ہیں، اور ان کو قومی سرمایہ قراردےدینے کے منصوبے بنتے رہے اور اس کے لیے ملک کے پارلیمنٹ میں طرح طرح کے مسودّے اور بل آتے رہے، موجودہ حکومت ان اوقاف کی حفاظت اور اصلاح کے نام پر جو ترمیمی بل ۲۰۲۴ء لے کر آئی ہے، اس میں ترمیمات کی جتنی بھی دفعات ہیں خدانخواستہ اگر یہ منظور ہوجائیں گی تو ہندوستان میں پھیلی ہوئی اوقاف کی جائیدادیں اپنے مقاصد سے ہٹ کر دوسرے مقاصد میں صرف ہونے کے قوی اندیشے پیدا ہوجائیںگے، اس کے لیے اوقافِ اسلامی کی میڈیا میں یا خود پارلیامنٹ میں وقف کی جو تشریح کی جارہی ہے وہ اس کی شرعی حیثیت کو مجروح کر رہی ہے، اور مسلمانوں کا ایک طبقہ خواہ وہ روشن خیالوں کا ہو یا ناواقف حضرات کا وہ غلط فہمی کا شکار ہوتا جارہا ہے، اسی طرح اوقاف کے ذمہ داروں کی ایک تعداد ان جائیدادوں میں تبدیلی لانے اور واقفین کے منشاء کے برخلاف اپنی سوچ کے مطابق استعمال کی اسکیمیں سوچتی اور گاہے بگاہے اپنی سوچ کے مطابق عمل بھی کرتی ہے،جس کی وجہ سے منشاء واقف کے متأثر ہونے کے علاوہ جائیدادیں ضائع بھی ہوجاتی ہیں، اس پسِ منظر میں ہم ذیل میں مختصراً وقف کی شرعی حیثیت اور اس کے استبدال کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
فقہ اسلامی کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’کسی قیمتی شے کی ذات (Corpus of Property) کو خدا کی ملک میں مقید کردینا اور اس کی منفعت کو دوسروں پر مذہبی وخیراتی اغراض کے تحت نیک نیتی کے ساتھ دائماً صدقہ کردینے کا صاف اور صریح اظہار ’’وقف‘‘ کہلاتا ہے۔
وقف کرنے والے شخص کو ’’واقف‘‘ یا ’’بانیٔ وقف‘‘ کہا جاتا ہے، وقف جس فرد یا جماعت کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے کیا جائے اس فرد یا جماعت کو ’’موقوف علیہ‘‘ یا ’’موقوف علیہم‘‘ کہا جاتا ہے اور جس تحریر کے ذریعہ سے وقف کا اظہار یا اعلان کیا جائے اس کو ’’وقف نامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
شرعی طور پر یہ ضروری ہے کہ جن اغراض ومقاصد کے لیے وقف کیا جائے وہ شرع اسلامی میں مذہبی یا خیراتی یا امور خیر میں شمار ہوتے ہیں، اسی طرح وقف درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دائمی ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جائیداد وقتی یا عارضی مدت کے لیے وقف کی جائے تو وہ وقف نہیں کہلائے گی، کیوں کہ وقف کا مقصد دواماً حصول ثواب ہوتا ہے جو ایک دائمی وقف کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، فقہ اسلامی کے ماہرین نے حضرت عمرؓ کے اس قول ’’لا یباع ولا یوھب ولا یورث‘‘سے استدلال کیاہے یعنی وقف کی جائیداد نہ فروخت کی جائے گی اور نہ ہبہ اور نہ ہی ورثہ میں منتقل ہوگی، حضرت عمرؓ نے اپنی قیمتی جائیداد وقف کرتے وقت اس کی شرعی پوزیشن واضح کرتے ہوئے یہ جملہ وقف نامہ میں درج کیا تھا، آپؓ کے علاوہ صحابۂ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جائیدادیں دینی امور اور کارِخیر میں وقف کی ہیں جن کی تفصیلات اسلامی تاریخ میں موجود ہیں۔
غرض کہ شرعی نقطۂ نظر سے وقف کی جائیدادوں کو حسبِ سابق باقی رکھنا اور ان کی منفعت کو دائمی طور پر واقفین کے مقاصد کے مطابق صرف کرنا ضروری ہے۔
شرعی نقطۂ نظر سے ایک دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اوقاف کی مختلف انواع کے مقابلہ میں مساجد کو زیادہ تقدس اور احترام حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ مساجد کی فروختگی یا منتقلی کسی حال میں درست نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی مسجد ویران ہو جائے اور وہاں نماز ادا کرنے کا سلسلہ موقوف ہوجائے تب بھی وہ جگہ تا قیامت مسجد ہی رہتی ہے۔
وقف کی اس مختصر تشریح اور تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہم اس کے استبدال کی طرف آتے ہیں، استبدال پر گفتگو کرنااس لیے ضروری ہے کہ کبھی حالات کی تبدیلی اور بعض اوقاف کی جائیدادوں کی آمدنی میں کمی کی وجہ سے مقاصد کو بروئے کار لانے میں دشواری ہوتی ہے،اورکبھی اوقاف کو تبدیل کرناضروری ہوجاتاہے، ان وجوہات کی وجہ سے متولیانِ کرام جائیدادِ اوقاف کوبدلنا چاہتے ہیں، اس مصلحت اور ضرورت کے پیشِ نظر استبدالِ وقف کی چند صورتوں کی وضاحت ذیل میں درج ہے:
استبدال وقف کیا ہے؟
وقف کردہ شیٔ کو فروخت کرکے اس کی جگہ دوسری شیٔ خریدنا یا شیٔ موقوف کا دوسری شیٔ سے تبادلہ کرنا استبدال کہلاتا ہے، استبدال میں واقف کی شرائط اور وقف کی مصلحت کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے، تبدیلیٔ وقف میں ان دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے کہ وقف کی تبدیلی میں خود واقف کی طرف سے کیا صراحت ہے اور پھر وقف کی تبدیلی سے اصل وقف پر کیا اثر پڑے گا؟
استبدال کی صورتیں:
۱۔ استبدال کی پہلی صورت یہ ہے کہ واقف نے وقف کرتے وقت وقف نامہ میں یہ صراحت کردی ہے کہ اگر وقف کی آمدنی سے مصارف پورے نہ ہوں اور اس کی تبدیلی سے آمدنی بڑھ جائے اور بآسانی مصارف پورے ہوں تو متولی کو استبدال کی اجازت ہوگی۔
۲۔ متبادل اوقاف قائم کرنا:
دوسری صورت یہ ہے کہ اوقاف کی وہ جائدادیں جہاں سے مسلم آبادی ختم ہوگئی اور مسلمان دوسری جگہ منتقل ہوگئے، جس کی وجہ سے یہ جائیدادیں کارآمد نہیں رہیں یا وہ مکانات اور دوکانیں جن کی آمدنی مساجد، مدارس یا خانقاہوں پر وقف تھی، وہ ویران ہونے کی وجہ سے غیرنفع بخش ہوگئیں، اس صورتِ حال کی وجہ سے متولیان ان کو فروخت کرکے متبادل اوقاف مسلم آبادی میں قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس بارے میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے ایسے غیرنفع بخش اور ویران اوقاف کو جو مساجد کے علاوہ ہوں فروخت کرکے منشاء واقف کی رعایت کرتے ہوئے ان کی جگہ متبادل اوقاف مسلم آبادی میں قائم کرنا درست ہے، علامہ ابن عابدین شامیؒ نے استبدال وقف کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر وقف کی آمدنی بالکلیہ غیرنفع بخش ہوجائے یا اس آمدنی سے مصارف وقف پورے نہیں ہورہے ہوں تو مفتی بہ قول یہ ہے کہ قاضی کی اجازت سے ان اوقاف کی جگہ متبادل اوقاف قائم کرنا درست ہے، موصوف کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’والثاني أن لا یشترطہٗ سواء شرط عدمہٗ أو سکت لکن صار بحیث لا ینتفع بہ بالکلیۃ بأن لا یحصل منہ شییٔ أصلاً أولا یفیٔ بمؤنتہ فھو أیضاً جائز علی الأصح إذا کان بإذن القاضي ورأیہ المصلحۃ فیہ۔‘‘ (رد المحتار علی الدر المختار، ج:۴، ص:۳۸۴)
دوسری صورت یہ ہے کہ واقف نے استبدال کی کوئی شرط نہ لگائی ہو خواہ عدم شرط ہو یا سکوت،لیکن وقف کی جائیداد کی حیثیت ایسی ہوگئی کہ اس سے کلی طور پر انتفاع حاصل نہ ہو یا اصلاً اس سے کچھ حاصل نہ ہو یا اتنی ہو جس سے مصارف پورے نہ ہوں تو ایسی صورت میں قاضی کی اجازت سے استبدال جائز ہے،جب کہ قاضی کی رائے میں وقف کا فائدہ ہو۔
اس مسئلہ میں علامہ ابن ہمام نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے اور استبدال کی شرائط اس کے جواز اور عدم جواز کے پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے، اور فقہاء کی آراء بالخصوص قاضی خاں کے فتاوے کو بھی پیش کیا ہے، اور یہ نقطۂ نظر بیان کیا ہے کہ استبدال کی شرطوں کی رعایت اور واقف کے مقاصد کو زیادہ سے زیادہ نفع بخش بنانے کی خاطر متبادل اوقاف قائم کرنا وقف کو باطل کرنا نہیں بلکہ بہتر صورت اختیار کرنا ہے، علامہ موصوف نے امام ابویوسفؒ، امام ہلالؓ اور امام خصافؒ کی آراء کو بھی پیش کیا ہے، اور اس عبارت ’’لو شرط أن یستبدل بھا أرضاً أخریٰ تکون وقفاً مکانہ فھو جائز عند أبي یوسف وھلال والخصاف وھو استحسان۔‘‘ کے تحت موضوع کا علمی اور تحقیقی جائزہ بھی پیش فرمایا ہے۔ (فتح القدیر شرح ہدایہ، ج:۶، ص:۲۱۱)
اس موضوع پر فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیراہتمام بمقام بمبئی اکتوبر ۱۹۹۷ء میں ایک سیمینار ہوا تھا، فقہ وفتاویٰ کے ماہرین کے درمیان بحث وتحقیق کے بعد کچھ تجاویز منظور ہوئیں، جن میں ایک تجویز یہ بھی ہے:
مساجد کے علاوہ دوسرے وہ اوقاف جو ان مقامات میں واقع ہیں جہاں پر دور دور تک مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے ان اوقاف کو آباد کرنا اور واقف کے مقاصد کے مطابق انھیں بروئے کار لانا ناقابل عمل ہوگیا ہے، اور ان اوقاف پر قبضۂ غاصبانہ کا پورا خطرہ ہے ایسے اوقاف کو فروخت کرکے دوسرے مقامات پر اسی نوع کے اوقاف قائم کرنا درج ذیل شرطوں کے ساتھ درست ہے:
الف: اس بات کی تحقیق کرلی گئی ہو کہ مسلمانوں کی آبادی ان مقامات سے کلیۃً ختم ہوچکی ہے اور مستقبل قریب میں وہاں مسلمانوں کے آباد ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے۔
ب: وقف جائداد کی فروختگی مناسب قیمت پر مارکیٹ ویلو کا لحاظ کرتے ہوئے کی جائے، اتنی کم قیمت پر اسے فروخت نہ کی جائے جتنی کم قیمت قیمتوں کے ماہرین نہیں لگا سکتے۔
ج: وقف کو فروخت کرنے والے متولی یا وقف افسر اس کی فروختگی اپنے کسی قریبی رشتہ دار یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ نہ کرے جس سے اس کا مفاد وابستہ ہو،اسی طرح کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروختگی نہ کرے جس کا قرض یا مالی دین فروخت کرنے والے کے ذمہ لازم ہے۔
د: وقف جائیداد کی فروختگی روپے، پیسے کے بجائے جائیداد سے کی جائے اور اگر کسی قانونی یا عملی دشواری کی وجہ سے نقد روپیوں سے فروختگی کی جائے تو جلد سے جلد اس کے ذریعہ جائیداد خرید کر متبادل وقف قائم کردیا جائے۔
ھ: وقف کے تبادلہ اور فروختگی کی اجازت شرائط استبدال کی تحقیق کرکے شرعی قاضی یا اوقاف کی شرعی کمیٹی دے جس میں مسائل اوقاف سے واقف متقی وخداترس علماء اور مسلمان متدین ماہرین قانون ضرور شامل ہوں، موقوفہ جائیداد کی فروختگی اور تبادلہ کے لیے وقف بورڈ یا وقف آفیسر کی اجازت شرعاً کافی نہیں ہے، اس سلسلہ میں وقف ٹریبونل کی اجازت شرعاً اس وقت معتبر ہوگی جب اس میں کم سے کم تین مستند مفتیانِ کرام کی رائے لینے اور مشورہ طلب کرنے کے بعد ان کے مشورے کے مطابق فیصلہ کیا ہو۔(منقول از تجاویز بابت اوقاف بمقام بمبئی ۱۹۹۷ء)
مساجد اور دوسرے اوقاف میں فرق:
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مساجد کا معاملہ دیگر اوقاف کے مقابلہ میں جداگانہ ہے، مساجد کے بارے میں فقہاء نے صراحت کی ہے کہ مساجد کا استبدال یا منتقلی کسی طرح بھی جائز نہیں ہے خواہ وہاں سے آبادی منتقل ہونے یا ختم ہوجانے کی بنا پر ویران کیوں نہ ہوگئی ہو، ویران یا غیرمفید ہونے کی صورت میں عام اوقاف کا استبدال تو درست ہے لیکن مساجد کا استبدال اور منتقلی جمہور فقہاء کی صراحت کے مطابق ہرگز جائز نہیں، علامہ حصکفی الدرالمختار میں لکھتے ہیں:
’’ولو خرب ماحولہ واستغنیٰ عنہ یبقی مسجدا عندالإمام والثانی أبداً إلی قیام الساعۃ وبہ یفتیٰ۔‘‘ (الدرالمختار ۴/۳۵۸)
اگر مسجد کے اردگرد کی آبادی ویران ہوجائے اور لوگ دوسری جگہ منتقل ہونے کی وجہ سے مسجد سے مستغنی ہوگئے ہوں تب بھی وہ قیامت تک ہمیشہ کے لیے مسجد رہے گی اور اسی پر فتویٰ ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے لکھا ہے:
’’وکذا لو خرب ما حولہ ولیس لہ ما تعمر بہ وقد استغنیٰ الناس عنہ لبناء مسجد آخر … … فلا یعود میراثاً ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیہ أولا وأکثر المشائخ علیہ وھو الأوجہ۔‘‘(رد المحتار علی الدر المختار، ج:۶، ص: ۵۴۸)
اگر مسجد کے اردگرد کی آبادی ویران ہوجائے اس کے آباد کرنے کی کوئی صورت نہ ہو اور لوگ دوسری مسجد کی تعمیر کی وجہ سے اس سے مستغنی ہوگئے ہوں تو اس صورت میں امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی، نہ میراث میں لوٹے گی نہ ہی اس کو منتقل کرنا جائز ہوگا اور نہ ہی اس کا مال ومیٹریل دوسری مسجد میں منتقل کرنا درست ہوگا، خواہ لوگ اس میں نماز ادا کرتے ہوں یا نہیں، اکثر مشائخ کی یہی رائے ہے اور یہی قابل ترجیح ہے۔
علامہ ابن نجیم مصری نے مسجد کی حیثیت متعین کرتے ہوئے امام ابویوسفؒ کا قوم عدم استبدال کا نقل کیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
’’وقال أبو یوسف ھو مسجداً أبداً إلی قیام الساعۃ لا یعود میراثاً ولا یجوز نقلہٗ ونقل مالہ إلی مسجد آخر، سواء کانوا یصلّون فیہ أولا وھو الأوجہ۔‘‘ (البحر الرائق ۵/۲۵۱)
امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ وہ جگہ ہمیشہ کے لیے تاقیامت مسجد رہے گی، نہ وہ میراث میں لوٹے گی اور نہ اس کی اور اس کے سامان کی منتقلی دوسری مسجد کی طرف ہوگی، خواہ لوگ اس میں نماز پڑھتے ہوں یا نہیں اور یہی قول راجح ہے۔
فتاویٰ ہندیہ، اسی طرح قاضی خاں اور فتح القدیر شرح ہدایہ میں بہت سی جزئیات موجود ہیں، جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مشکل حالات اور بوقت ضرورت بھی مسجد کا استبدال اور اس کی منتقلی جائز نہیں ہے۔
مسجد پر وقف کردہ اراضی کا استبدال:
البتہ جو جائیدادیں مسجد کی آمدنی کے لیے ہیں، ان کا حکم الگ ہے، علامہ ظفر احمد عثمانیؒ نے واقدی کے حوالہ سے لکھا ہے:
’’الوقف علی المسجد لیس کالمسجد في حرمۃ البیع والاستبدال مطلقاً۔‘‘
مسجد پر وقف جائیداد کا حکم بیع کی حرمت اور استبدال میں مسجد کی طرح نہیں ہے۔
آگے علامہ موصوفؒ نے ظہیریہ کے حوالہ سے ایک فتویٰ نقل کیا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کے اوقاف کا حکم مساجد سے جدا ہے:
’’سئل عن الحلواني عن أوقاف المساجد اذا تعطلت وتعذر استغلالھا ھل للمتولی أن یبیعھا ویشتري بثمنھا أخریٰ قال: نعم!‘‘ (اعلاء السنن، ج:۱۳، ص: ۱۹۶)
امام حلوانیؒ سے مساجد کے ان اوقاف کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ناکارہ ہوگئے ہوں اور ان سے آمدنی حاصل کرنا دشوار ہوگیا ہے تو کیا متولی کے لیے یہ جائز ہے کہ ان کو فروخت کردے اور ان کی قیمت سے دوسری جائیداد خریدلے۔ فرمایا: ہاں!
مساجد کی اراضی اور زائد آمدنی سے تعلیمی اور رفاہی اداروں کا قیام:
مسجد پر وقف اراضی کا استبدال مسجد کی ضرورت کے پیش نظر تو درست ہے لیکن اس کی اراضی یا زائد آمدنی سے تعلیمی ورفاہی اداروں کا قیام درست نہیں ہے، علامہ ابن عابدین شامیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’لا یجوز صرف وقف المسجد خرب إلی حوض وعکسہٖ وفي شرح الملتقیٰ یصرف وقفھا لأقرب مجانس لھا۔‘‘ (رد المحتار، ۴/۳۵۹)
غیرآباد مسجد کے وقف کی آمدنی کو حوض میں یا حوض کی آمدنی مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اور شرح الملتقی میں ہے کہ اوقاف کی آمدنی اسی جنس کے وقف میں صرف کی جائے گی جب کہ آمدنی اصل وقف کے اخراجات سے زائد ہو۔
علامہ ابن ہمامؒ نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے لکھا ہے:
’’وھکذا نقل عن شیخ الإسلام الحلواني في المسجد والحوض إذا خرب ولا یحتاج إلیہ لتفرق الناس عنہ، أنہ یصرف أوقاف إلی مسجد آخر أو حوض آخر۔‘‘ (فتح القدیر شرح الہدایۃ ۶/۲۳۷)
شیخ الاسلام حلوانیؒ سے منقول ہے اس مسجد اور حوض کے بارے میں جو ویران ہوجائے اور وہاں سے لوگوں کے منتقل ہوجانے کی وجہ سے تو اس کے اوقاف کی آمدنی دوسری مسجد یا حوض کی آمدنی دوسرے حوض میں صرف کی جائے گی۔
البتہ مساجد کی زائد آمدنی دوسری مساجد پر صرف ہوگی اور اس کی آراضی پر بطور کرایہ داری تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کیے جائیں گے اور آمدنی مساجد کو ملے گی، ادارے بغرض تحفظ بنیں گے، ملکیت مسجد کی ہوگی اور ادارہ کرایہ دار ہوگا اور آمدنی مسجد کو ملے گی،اس بارے میںفقہ اکیڈمی انڈیا کافیصلہ بھی یہی ہے جو آگے آرہا ہے۔
ناقابل استعمال اوقاف میں تعلیمی اور رفاہی اداروں کا قیام:
ہمارے ملک ہندوستان میں مساجد کے علاوہ اوقاف کی بہت سی ایسی جائیدادیں ہیں، جن کا اپنے مقاصد میں استعمال کرنا مشکل ہوگیا ہے، اور استعمال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس پر قبضہ کرتے جارہے ہیں، اس لیے ملت کے بعض بہی خواہ حضرات یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیوں نہ ان اوقاف کو تعلیمی اور رفاہی کاموں میں استعمال کیا جائے یعنی مدرسے، عصری تعلیمی ادارے، یتیم خانے اور مسافر خانے وغیرہ بنادئیے جائیں تاکہ ان کا تحفظ ہوسکے اور خیر کے کاموں میں استعمال ہوسکیں، اس سلسلہ میں فقہ اکیڈمی انڈیا کے سیمینار میں ایک تجویز منظور ہوئی ہے، جو ذیل میں درج ہے:
(۹) مسجد پر وقف زائد اراضی جن کی نہ مسجد کو فی الحال ضرورت ہے اور نہ آئندہ ضرورت پیش آنے کی امید ہے،ان اراضی پر دینی تعلیم کا مدرسہ یا مکتب قائم کرنا درج ذیل صورتوں میں درست ہوگا۔
(الف) مسجد آباد نہ ہو اور مدرسہ یا مکتب قائم ہونے میں مسجد کے آباد ہونے کی امید ہو۔
(ب) مسجد پر موقوف زائد اراضی پر قبضۂ غاصبانہ کا شدید خطرہ ہے اور دینی مدرسہ یا مکتب قائم ہونے کی وجہ سے خطرہ ٹل جائے گا۔
(ج) جس آبادی یا محلہ میں مسجد واقع ہے وہاں مسلمان بچوں کے لیے کوئی دینی مدرسہ یا مکتب قائم کرنے کے لیے کوئی مستقل بندوبست بھی نہ ہو تو مسجد پر وقف زائد اراضی میں دینی مدرسہ یا مکتب قائم کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے مسجد کے متولی یا منتظم کمیٹی سے اجازت لے لی جائے، بہتر یہ ہے کہ خود مسجد کی کمیٹی ہی اس مکتب یا مدرسہ کا بندوبست کرے۔(ماخوذ از تجاویز وقف،دسواں فقہی سمیناربمبئی،بتاریخ ۲۷ااکتوبر ۲۰۰۱ ،نئے مسائل اور اسلامک فقہ اکیڈمی کےفیصلے،ص:۴۸)
جہاں تک رفاہی ادارے یا عصری تعلیمی ادارے کی قیام کی بات ہے تو اس بارے میں اربابِ فقہ وفتاویٰ کی رائے یہ ہے کہ ان کاموں کے لیے مساجد پر وقف اراضی بطورِ کرایہ دی جاسکتی ہیں چنانچہ فقہ اکیڈمی انڈیا کی ایک دوسری تجویز اس بارے میں یہ ہے:
(۱۰) مساجد پر وقف اراضی جن کا مقصد مساجد کے لیے آمدنی فراہم کرنا ہے، ان کو مناسب کرایہ پر مسلمانوں کی دینی، عصری یا ٹیکنیکل تعلیم کے ادارے قائم کرنے کے لیے دیا جاسکتا ہے، لیکن معاملات اس طرح طے کیے جائیں کہ مساجد کی مالکانہ حیثیت مجروح نہ ہو۔ (ماخوذ از تجاویز وقف،نئے مسائل اور اسلامک فقہ اکیڈمی کےفیصلے،ص:۵۲)
کم نفع بخش وقف کا استبدال:
اوقاف کی بعض جائیدادوں سے آمدنی کم ہوجاتی ہے جس سے مصارف کی تکمیل میں دشواریاں ہوتی ہیں مثلاً بعض جائیدادیں دیہات میں ہوتی ہیں جن میں کھیتی ہوتی ہے، فی زماننا اخراجات زیادہ اور اس کی نسبت سے آمدنی کم ہوتی ہے، اگر ان جائیدادوں کو فروخت کرکے اس رقم سے قصبات یا شہروں میں جگہ لے لی جائے اور عمارتیں تعمیر کردی جائیں، خواہ دکانوں کی شکل میں ہو یا رہائشی کرایہ داری مکانات کی شکل میں ہوں۔ اور وہ کرایہ پر اٹھادی جائیں، تو کیا اس صورت میں وقف جائیدادوں کا استبدال درست ہوگا؟ اس بارے میں فقہاء کی آراء دونوں طرح کی ملتی ہیں، جواز کی بھی اور عدم جواز کی بھی، علامہ ابن ہمامؒ نے عدم جواز کے پہلو کو ترجیح دی ہے اور اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’فتح القدیر‘‘ میں صراحت کرتے ہیں:
’’ینبغي أن لا یجوز‘‘ (أي استبدال في حال وجود غلۃ) لأن الواجب إبقاء الوقف علی ما کان علیہ دون زیادۃ أخری۔‘‘ (فتح القدیرج۶،ص:۲۱۳،کتاب الوقف ،مکتبہ زکریا)
علامہ موصوف کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وقف نفع بخش ہے خواہ کم ہی ہو تو اس کا استبدال مناسب نہیں کیوں کہ اصلاً وقف کو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھنا ہے نہ کہ زیادہ آمدنی حاصل کرنا ہے، اس مسئلہ میں علامہ ابن عابدینؒ نے بھی گفتگو کی ہے اور ایک فرق کی وضاحت کی ہے کہ زمین کا استبدال تو جائز ہے لیکن مکان کا استبدال کسی طرح جائز نہیں ہے، موصوف فرماتے ہیں:
’’إن الخلاف في الثالث إنما ھو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضھا ولم تذھب أصلاً فإنہ لا یجوز حینئذ الاستبدال علی کل الأقوال۔‘‘ (رد المحتارعلی الدرالمختار،ج۶،ص:۵۸۹،طبع دارالکتب العلمیۃ ،بیروت )
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ استبدال وقف کی تیسری صورت جس میں فی نفسہٖ آمدنی تو آتی ہو لیکن کم آتی ہو، اگر زائد آمدنی کے لیے اس کو بدل کر دوسرا متبادل وقف قائم کیا جائے تو اس بارے میں زمین سے متعلق اختلاف تو ہے لیکن اگر وقفی جائداد مکان ہو اور بعض حصّے خراب ہونے کی وجہ سے آمدنی کم ہو تو اس صورت میں تمام فقہاء کی آراء میں استبدال جائز نہیں ہے، علامہ موصوف آگے مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ولا یمکن قیاسھا علی الأرض فإنّ الأرض إذا ضعفت لا یرغب غالباً في استیجارھا بل في شرائھا، أما الدار فیرغب في استیجارھا ھامدۃ طویلۃ لأجل تعمیرھا للسکن۔‘‘(رد المحتارعلی الدرالمختار،ج۶،ص:۵۸۹،طبع دارالکتب العلمیۃ ،بیروت )
علامہ موصوف نے اس وضاحت میں زمین اور مکان کے درمیان جو فرق کیا ہے اور جس بنیادی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مکان کا استبدال اس لیے درست نہیں ہے کہ مکان قابلِ رہائش ہونے کی وجہ سے خواہ جہاں بھی ہو لوگ کرایہ پر لینے میں رغبت رکھتے ہیں، لیکن زمین کرایہ پر لینے میں بسااوقات دلچسپی نہیں رکھتے، اس طرح آمدنی کم سے کم ہوسکتی ہے۔
ناچیز کا خیال ہے کہ موجودہ دور میں مکان کرایہ پر لینے کا رجحان دیہات میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسا شہر میں ہوا کرتا ہے، دیکھا جائے تو ہمارے دور میں دیہات میں رہائش کے لیے مکان کرایہ پر لینے کا کوئی رواج ہی نہیں ہے، لیکن کاشت کی زمین کرایہ پر لی جاتی ہے اور دن بدن اس میں رغبت بڑھ رہی ہے، اگر اس بنیاد کو فی زماننا سامنے رکھیں تو مکان کے استبدال میں جواز ہی کا پہلو نکلتا ہے اس لیے ناچیز کے خیال میں کم نفع بخش مکان جو دیہات میں ہے اُسے فروخت کرکے شہر میں زیادہ نفع بخش مکان ’’دستیاب ہوسکے تو اس کے خرید لینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ امام ابویوسفؒ کی رائے ہے،اور یہ انفع للوقف بھی ہے اور مقاصد وقف کے منافی بھی نہیں، ذخیرہ میں صراحت ہے:
’’روي عن أبي یوسف أنہ قال: لا بأس باستبدال الوقف لما روي عن علي بن أبي طالب أنہ وقف علی الحسن والحسینؓ، فلما خرجا إلی صفین قال: إن فأت بھم الدار فبیعوھا وأقسموا ثمنھا بینھم، ولم یکن شرط البیع في أصل الوقف۔‘‘ (الذخیرۃ بحوالۃ محاضرات في الوقف لأبي زھرۃ ص:۱۶۴)
امام ابویوسفؒ سے مروی ہے انھوں نے کہا ہے کہ وقف کے استبدال میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت حسن اور حسینؓ پر مکان وقف کیا، جب آپؓ صفین چلے گئے، تو فرمایا کہ اگر مکان دور معلوم ہورہا ہو تو اسے فروخت کردو اور اس کی قیمت آپس میں تقسیم کرلو حالاں کہ اصل وقف میں بیع کی شرط نہیں لگائی گئی تھی۔
ماضی قریب کے مشہور فقیہ امام ابوزہرہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے صراحت کی ہے کہ فتویٰ قدیم زمانہ ہی سے اس صورت میں بھی استبدال کے جواز ہی کا رہا ہے، آپ کی بات ان الفاظ میں درج ہے:
’’والفتویٰ من قدیم الزمان علی جواز الاستبدال في ھذہ الحال کسابقتھا وعلیہ العمل في المحاکم العربیۃ، إن استثینا البلاد السعودیۃ فإن العمل فیھا علی مقتضی المذھب الحنبلي، وإن الاستبدال فیہ مصلحۃ ظاھرۃ۔‘‘ (محاضرات في الوقف لأبي زھرۃ، ص:۱۶۵)
موصوف کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہم بلادِسعودیہ جہاں پر فقہ حنبلی کے مطابق عمل ہوتا ہے مستثنیٰ کردیں، تو ہمیں عہد قدیم ہی سے مذکورہ صورتِ حال میں وقف کے استبدال کے جواز کا فتویٰ ملتا ہے جیسا کہ سابق میں رہا ہے، اور تمام عرب عدالتوں میں اسی پر عمل ہے، اور دیکھا جائے اس صورتِ حال میں استبدال ہی میں مصلحت اور مفاد معلوم ہوتا ہے۔
مذکورہ تمام تر گفتگو کا حاصل ناچیز کے نزدیک یہ نکلتا ہے کہ فی زماننا وہ مکان یا دکان جو کم نفع بخش ہو اُسے فروخت کرکے زیادہ نفع بخش مکان خریدنا درست ہے اور وقف کے مصالح کے موافق ہے، البتہ اس اہم تبدیلی میں دیانت دار اور احکام شرع سے واقف متولیوں کا ہونا ضروری ہے اور قاضی شرعی کی رائے لینا از بس ضروری ہے۔
کیا قدیم اور غیرمستعمل قبرستان کا استبدال جائز ہے؟
ہمارے ملک کے بعض حصّوں میں ایسے بھی قبرستان ہیں جو استعمال میں نہیں ہیں اور ویران پڑے ہوئے ہیں، خواہ اس کی جو بھی وجہ ہو، مسلم آبادی وہاں سے خواہ فسادات کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگئی ہو یا کسی وبا کے پھیلنے سے آبادی ہی ختم ہوگئی ہو، تاہم قبرستان جوں کے توں پڑے ہیں، جن کے تحفظ کا کوئی سامان بھی نہیں ہے، نہ ہی وہاں مسلمانوں کی آمدورفت ہے، کیا ایسا کیا جاسکتا ہے کہ قبرستان کی اس قسم کی اراضی فروخت کرکے دوسری جگہ جہاں مسلمان آباد ہوں اور ان کو قبرستان کی ضرورت بھی ہو، اراضی خرید کر قبرستان بنائے جاسکتے ہیں؟
اس سلسلہ میں استبدال وقف سے متعلق فقہاء نے جو کلام کیا ہے ان میں دو باتیں پیشِ نظر ہیں: ایک یہ کہ وقف شدہ جائیداد بعینہ محفوظ ہو، دوسری بات یہ کہ یہ جائیدادیں واقف کی منشاء کے مطابق استعمال ہوں، مذکورہ صورتِ حال میں دونوں چیزیں موجود نظر آتی ہیں، اور اس کے استبدال ہی میں وقف کا مفاد نظر آرہا ہے، اس لیے اس کے استبدال میں کوئی حرج نہیں، بلکہ معطل وقف کو بروئے کار لانا ہے، جو وقف کے حق میں بہتر ہے۔
واللّٰہ أعلم بالصواب، وما توفیقي إلا باللّٰہ۔